کاشفی

محفلین
غزل
(کرشنا بہاری نور)
نظر ملا نہ سکے اُس سے اُس نگہ کے بعد
وہی ہے حال ہمارا جو ہو گناہ کے بعد

میں کیسے اور کسی سمت موڑتا خود کو
کسی کی چاہ نہیں تھی دل میں تری چاہ کے بعد

ضمیر کانپ تو جاتا ہے آپ کچھ بھی کہیں
وہ ہو گناہ سے پہلے یا ہو گناہ کے بعد

کٹی ہوئی تھیں تناویں تمام رشتوں کی
چھپاتا سر میں کہاں تجھ سے رسم و راہ کے بعد


ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری
گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد


گواہ چاہ رہے تھے وہ بےگناہی کا
زباں سے کہہ نہ سکا کچھ خدا گواہ کے بعد

خطوط کر دیئے وآپس مگر میری نیندیں
انہیں بھی چھوڑ دو اک رحم کی نگاہ کے بعد
 
Top