نظر لکھنوی نذرانۂ عقیدت --- علامہ اقبالؒ

بسلسہ صد سالہ یومِ اقبال 1976ء - - - دادا مرحوم محمد عبد الحمید صدیقی (نظر لکھنوی) کا علامہ اقبالؒ کو نذرانۂ عقیدت۔
احبابَ محفل کی خدمت میں

یاد تیری لے رہی ہے آج دل میں چٹکیاں
ہم تری
توصیف میں پھر ہو گئے رطب اللساں

افتخارِ آدمیت، نازِ ابنائے زماں
ارجمند اقبال اے اقبال تو فخرِ جہاں

طائرِ رنگیں نوا اے آبروئے گلستاں
خوش ادا، شیریں سخن، شیریں دہن، شیریں زباں

اے کہ تو اک فلسفی علامۂ دورِ زماں
شاعرِ شعلہ نفس، آتش نوا، معجز بیاں

واقفِ اسرارِ پنہاں، کاشفِ سرِّ نہاں
رازدانِ بے خودی، سرِّ خودی کا ترجماں

تھا سراپا دردِ ملت، پیکرِ آہ و فغاں
سینۂ اسلام کا بسمل جگر، قلبِ تپاں

بے قرار و مضطرب، آشفتۂ و شعلہ بجاں
تھا فراقِ دینِ احمد میں نوا سنجِ فغاں

اے کہ تو مستِ مئے نابِ خمستانِ حجاز
تھا تو ہندی میکدے میں مثلِ گلبانگِ اذاں

تو مذاقِ دل بھی سمجھا، تو مذاقِ عقل بھی
رازدارِ عشق، حسنِ لم یزل کا رازداں

تھے زمین و آسماں تیرے تخیل کے اسیر
وسعتِ پایاں تھی تجھ کو وسعتِ کون و مکاں

فخرِ دانش، نازِ حکمت، افتخارِ فلسفہ
معنی و مضموں کا تھا لاریب بحرِ بیکراں

ذات سے تیری سراپائے سخن ہر اک نکھار
گیسوئے اردو کو تو نے کر دیا عنبر فشاں

شعر تیرے آئینہ دارِ حقائق بر ملا
طائرِ فکرِ رسا تیرا تھا اف عرش آشیاں

تاجدارِ نظم بھی ہے اور شہنشاہِ غزل
ہر گلستانِ ادب میں تو رہا گوہر فشاں

دور رس تیری نظر تھی دور رس تیرا خیال
نکتہ بین و نکتہ پرور، نکتہ سنج و نکتہ داں

ہے ترے اشعار میں وہ نورِ ایماں کی چمک
مقتبس لاریب جس سے ہوں قلوبِ مومناں

ہاں وہی ملت کہ کہتے ہیں براہیمی جسے
تو اسی کا نوحہ گر تھا، تو اسی کا نغمہ خواں

تو کہ تھا نباضِ ملت، اے حکیمِ بے بدل
نسخۂ اکسیر اثر بتلا دیے سب بے گماں

شاعرِ مشرق نہیں بس شاعرِ اسلام ہے
ترجمانِ اَلحدیث و ترجمانِ اَلقرآں

خواب دیکھا تھا کبھی تو نے جو پاکستان کا
اٹھ کے تعبیر اس کی دیکھ آسودۂ خوابِ گراں

منزلِ ہستی میں تھا جب تک بقیدِ غم رہا
ہو مبارک تجھ کو لطف و عیشِ باغاتِ جناں

تیری تخلیقات ساری باقیات الصالحات
تو سدا موجود ہے اہلِ نظرؔ کے درمیاں

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
آج کل دفتر کے علاوہ اسی کام میں مشغول ہوں۔
غزلیں ( 178 ) برقیا لی ہیں اور پروف ریڈنگ کے لئے والدِ محترم کے حوالے کر دی ہیں۔
اب نظمیں اور قطعات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔
ایک دفعہ پروف ریڈنگ مکمل ہو جائے تو ان شاء اللہ چھپوانے اور برقی کتاب بنانے کا پروگرام بھی ہے۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔
 

x boy

محفلین
بہت عمدہ ماشاء اللہ

maxresdefault.jpg
 

اکمل زیدی

محفلین
بیاں سرِ شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے
مسلمانوں کا قبلہ روضہ شبیر ہو جائے
(ڈاکٹر علامہ محمد اقبال )
 

x boy

محفلین
بیاں سرِ شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے
مسلمانوں کا قبلہ روضہ شبیر ہو جائے
(ڈاکٹر علامہ محمد اقبال )

یہ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کہے ہیں
کیونکہ شروع ہی سے انسانوں(مسلمانوں) کا قبلہ بیت اللہ ہے جس کی بنیاد آدم علیہ السلام نے رکھی تھی بعد ازاں بنی اسرائیل( کےمومنوں) کو بیت المقدس
کا رخ کرنے کی اجازت دی تھی کچھ عرصے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیت المقدس کی طرف رخ کرکے عبادت کی(مسجد قبلتین اس کی نشانی ہے جو مدینۃ المنورہ میں ہے) بعد ازاں مسلمانوں کا رخ ہمیشہ کے لئے قبلہ اول بیت اللہ کی طرف موڑ دیا، اس کے بعد سے اب مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ ہے ،،، اور علامہ اقبال رحمہ ایک اچھے مسلمان ہوئے ہیں تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے۔ دوسری باتوں کا مجھے علم نہیں میں اس زمانے میں نہیں تھا نہ ہی ملا ہوں، نہ انکے ساتھ سفر کیا ہے نہ ہم علامہ اقبال کے مہمان بنے یا مہمان نوازی کی۔
واللہ اعلم
 

اکمل زیدی

محفلین
یہ علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کہے ہیں
کیونکہ شروع ہی سے انسانوں(مسلمانوں) کا قبلہ بیت اللہ ہے جس کی بنیاد آدم علیہ السلام نے رکھی تھی بعد ازاں بنی اسرائیل( کےمومنوں) کو بیت المقدس
کا رخ کرنے کی اجازت دی تھی کچھ عرصے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیت المقدس کی طرف رخ کرکے عبادت کی(مسجد قبلتین اس کی نشانی ہے جو مدینۃ المنورہ میں ہے) بعد ازاں مسلمانوں کا رخ ہمیشہ کے لئے قبلہ اول بیت اللہ کی طرف موڑ دیا، اس کے بعد سے اب مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ ہے ،،، اور علامہ اقبال رحمہ ایک اچھے مسلمان ہوئے ہیں تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے۔ دوسری باتوں کا مجھے علم نہیں میں اس زمانے میں نہیں تھا نہ ہی ملا ہوں، نہ انکے ساتھ سفر کیا ہے نہ ہم علامہ اقبال کے مہمان بنے یا مہمان نوازی کی۔
واللہ اعلم
بھائی صاحب ..یہ بات معنوی اعتبار سے کہی گئی ہے ...اور ان کے اچھے مسلمان ہونے کا یه شعر بھی پتا دے رہا ہے ....دوسری بات یہ کے کسی بات پر اعتبار کرنے کے لئے اس زمانے میں موجود ہونا ملاقات یا مہمان نوازی کا تجربہ ضروری نہیں ...یقین یا کسی یقین والی سورسز کافی ہوتی ہیں ..اس اعتبار پھر آپ یہ کیسے سمجھو گے کے ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ........اس اعتبار سے تو آپ ذائقے اور چکھنے میں ہے الجھ جاؤگے ...امید ہے مطالب پہنچ گئے ..ہونگے ....
 

اکمل زیدی

محفلین
یہ علامہ اقبال کا شعر نہیں ہے۔ :)
مجھے قوی امید ہے ...جب آپ کو یہ پتا ہے کے یہ ان کا نہیں تو یہ ضرور پتا ہوگا کے کس کا ہے ۔ میں نے وہ ابھی شعر نہیں لکھا "اسلام کے دامن میں اس کے سوا کیا ہے ....۔پیشگی بتادیں ۔۔ کیا یہ بھی علامہ صاحب کا نہیں ہے...؟ امید ہے جواب مرحمت فرمائینگے ....
 
مجھے قوی امید ہے ...جب آپ کو یہ پتا ہے کے یہ ان کا نہیں تو یہ ضرور پتا ہوگا کے کس کا ہے نیز میں نے وہ شعر نہیں لکھا "اسلام کے دامن میں اس کے سوا کیا ہے ....والا کیا یہ بھی علامہ صاحب کا نہیں ہے...؟ امید ہے جواب مرحمت فرمائینگے ....
برادر میرے پاس پورا کلامِ اقبال موجود ہے، اس میں یہ شعر نہیں ملا ہے۔ لہٰذا جس کا ہے اس کا مجھے معلوم نہیں۔ لیکن یہ گارنٹی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں، کہ اقبال کا نہیں۔ "اسلام کے دامن" والا بھی کوئی شعر مجھے نہیں ملا
اگر آپ حوالہ دے دیں تو مناسب ہو گا۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مجھے قوی امید ہے ...جب آپ کو یہ پتا ہے کے یہ ان کا نہیں تو یہ ضرور پتا ہوگا کے کس کا ہے ۔ میں نے وہ ابھی شعر نہیں لکھا "اسلام کے دامن میں اس کے سوا کیا ہے ....۔پیشگی بتادیں ۔۔ کیا یہ بھی علامہ صاحب کا نہیں ہے...؟ امید ہے جواب مرحمت فرمائینگے ....

http://dailypakistan.com.pk/columns/20-Jul-2012/10006

ماہنامہ ”اصلاح“ کراچی کے شمارے نومبر، دسمبر 2011ء”سید الشہداءنمبر“ میں ایک مضمون بعنوان ”شہید ِ راہِ خدا کی عظمت و جلالت“ نظر سے گزرا۔ فاضل مضمون نگار مولانا ڈاکٹر ریحان حسن صاحب گوپال پوری نے اپنے متذکرہ مضمون میں ایک مشہور زمانہ شعر اس شکل میں اقبال بنارسی کو بخش دیا ہے:
اسلام کے دامن میں بس اِس کے سِوا کیا ہے
اک ضرب یَدّ اللہی اک سجدہ¿ شبیری
آج تک یہ شعر حضرت علامہ اقبال ؒ سے منسوب کیا جاتا رہا۔ ” ایں گُلِ دیگر شگفت“ ڈاکٹر ریحان حسن نے کسی” اقبال بنارسی“ کے نام کر ڈالا جبکہ در حقیقت یہ شعر حضرت وقار انبالوی کا ہے اور مُدتوں اُن کے ہفت روزہ جریدے ”سفینہ“ لاہور کی پریشانی پر اس طرح چھپتا رہا :
اسلام کے دامن میں اور اِس کے سِوا کیا ہے
اک ضرب یَدّ اللہی، اک سجدہ¿ شبیری
واللہ اعلم
 

اکمل زیدی

محفلین
برادر میرے پاس پورا کلامِ اقبال موجود ہے، اس میں یہ شعر نہیں ملا ہے۔ لہٰذا جس کا ہے اس کا مجھے معلوم نہیں۔ لیکن یہ گارنٹی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں، کہ اقبال کا نہیں۔ "اسلام کے دامن" والا بھی کوئی شعر مجھے نہیں ملا
اگر آپ حوالہ دے دیں تو مناسب ہو گا۔ :)
۔
مجھے اندازہ ہوگیا آپ کو کون کون سے شعر نہیں ملینگے ۔ لیکن حیرت اس پر ہے کے یہ اشعار علامہ اقبال کے نام سے زبان زد عام اشعار ہیں کسی کو تو یہ نکتہ منظر پر لانا چاہیے....کچھ اور مشہور اشعار پیش خدمات ہیں ...ذرا فرمایے گا ...علامہ صاحب سے سرزد ہوئے ہیں یا نہیں ...

حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے دابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

-------------------------------------------------

اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو مخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری
میراث مسلمانی، سرمایہ شبیری
------------------------------------------------
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری
(ارمغان حجاز)
-----------------------------------------
دیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یک حسین رقم کرد و دیگر زینب

تہران ہو گر عالم مشرق کا جنینوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
-------------------------------------------

عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ
کٹا حسین (ع) کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ
------------------------------------

جس طرح مجھ کو شہید کربلا سے پیار ہے
حق تعالیٰ کو یتیموں کی دعا سے پیار ہے

رونے والا ہوں شہید کربلا کے غم میں
کیا دُر مقصود نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے
----------------------------

آں امام عاشقان پسر بتول (س)
سرد آزادے زبستان رسول (ص)
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
-----------------------
وسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید

زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
----------------------------------------
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین (ع)، ابتدا ہے اسماعیل (ع)

صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
 
یہ تمام اقبال کے اشعار ہیں۔

حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے دابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

-------------------------------------------------

اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو مخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری
میراث مسلمانی، سرمایہ شبیری
------------------------------------------------
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری
(ارمغان حجاز)

تہران ہو گر عالم مشرق کا جنینوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

آں امام عاشقان پسر بتول (س)
سرد آزادے زبستان رسول (ص)
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر

وسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید

زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین (ع)، ابتدا ہے اسماعیل (ع)

صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
 
Top