کاشفی

محفلین
غزل
(ذوق)

میں کہاں سنگِ درِ یار سے ٹل جاؤں گا
نہ وہ پتھر ہے پھسلنا کہ پھسل جاؤں گا

دل یہ کہتا ہے کہ تاچرخِ زحل جاؤں گا
بلکہ میں توڑ کے اُس کو بھی نکل جاؤں گا

آج اگر راہ نہ پاؤں گا تو کل جاؤں گا
کوچہء یار میں ، میں سر ہی کے بل جاؤں گا

کہتا وحشت سے ہے یہ جامہء پیری میرا
دیکھ کپڑا ہوں پُرانا ابھی چل جاؤں گا

عقل سے کہہ دو کہ لائے نہ یہاں اپنی کتاب
میں ہوں دیوانہ ابھی گھر سے نکل جاؤں گا

اے صنم در پہ نہیں دیر میں جا بیٹھوں گا
کچھ میں بچہ تو نہیں ہوں کہ مچل جاؤں گا

کہتا پیراہن گل ہے یہ نزاکت سے نسیم
ہاتھ مجھ کو نہ لگانا کہ نکل جاؤں گا

سنتے ہو زاہد و ناصح جو ہیں سمجھاتے مجھے
کیا بدل دیویں گے یہ اور میں بدل جاؤں گا

دل یہ کہتا ہے کہ تو ساتھ نہ لے چل مجھ کو
جا کے میں واں ترے قابو سے نکل جاؤں گا

مدرسہ میں بھی اگر جاؤں گا تو جائے کتاب
شیشہء بادہ لئے زیرِ بغل جاؤں گا

کوچہء یار میں جاؤں گا تو مثلِ خورشید
پاسِ آداب سے میں سر ہی کے بل جاؤں گا

دل کہے ہے کہ مجھے روزنِ سینہ سے نکال
ورنہ خون ہو کے میں آنکھوں سے نکل جاؤں گا

سرد مہروں سے فلک ڈال نہ پالا کہ بن آگ
نخلِ سرمازدہ کی طرح سے جل جاؤں گا

آنکھ سے اشک صفت مجھ کو گرا کر سنبھال
میں نہیں وہ کہ سنبھالے سے سنبھل جاؤں گا

قیس و فرہاد کو بتلاؤں گا کچھ عشق کی راہ
اب کی میں گر طرفِ دشت و جبل جاؤں گا

گر پڑا آگ میں پروانہ دمِ گرمی شوق
سمجھا اتنا بھی نہ کمبخت کہ جل جاؤں گا

ہوں میں وہ مشتاقِ شہادت کہ ترے ہاتھ سے میں
پائے کو یاں تہِ شمشیر اجل جاؤں گا

جنبشِ برگ صفت باغِ جہاں میں اے ذوق
کچھ نہ ہاتھ آئے تو میں ہاتھ تو مل جاؤں گا
 
Top