کاشفی

محفلین
غزل
(فریاد آزر)
مرے وجود کو پھرکرکے پُرملاں گیا
لو ایک اور مری زندگی کا سال گیا

ترے خلوص میں کوئی کمی نہیں تھی مگر
ترا خلوص مصیبت میں مجھ کو ڈال گیا

میں ایک پتنگا تھا، آزاد زندگی تھی مری
وہ بُن کے گرد مرے، مکڑیوں کا جالا گیا

ہزاروں پریاں تصّور میں رقص کرنے لگیں
جب آنیوالے دنوں کی طرف خیال گیا!

میں چاہتا تو تمہاری طرح ہنسا کرتا
پر آپ درد کے سانچے میں خود کو ڈھال گیا

کسی جبیں پہ شکن تک ابھر نہیں پائی
کچھ اس سلیقے سے ساقی سبھی کو ٹال گیا

صلیب بھی نہ مٹائی میرے آزر کو
گیا جہاں سے مگر ہوکے، لازوال گیا
 
Top