مردوں سے شکایت کے ساتھ

ساجد

محفلین
  • ایک نئی سم کسی بھی جگہ سے خرید لو کچھ دنوں بعد آپ کو انعام نکلنے یا قرعہ اندازی میں پلاٹ ملنے کی خوشخبری ملے گی۔
  • خواتین کسی چھچھورے سے ایزی لوڈ کروا لیں تو سمجھ لیں انہوں نے اپنی مصیبت کو آواز دے لی۔ ایک موبائل کمپنی نے اس کے لئے خفیہ یعنی دوہرے نمبر کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن لوگوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔
  • سوشل نیٹ ورکنگ یا فورمز پر کہیں بھی غلطی سے موبائل نمبر لکھ بیٹھو پھر دن کا سکون اور رات کی نیند حرام ۔
 
مسئلے کا بیان ہو چکا۔۔۔ اب اس کے حل کی بابت کچھ بات کرتے ہیں۔ ایک طریقہ جو ہمیں سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ سوشل انفلؤئینس اور پیئر پریشر کے ذریعہ اس کی شدت میں کچھ کمی لائی جا سکتی ہے۔ مثلاً ہمارا کوئی دوست ہمیں ایسے نمبر دے یا ایسے معاملات کو لذت لے کر بیان کرے تو بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس معاملے میں دلچسپی لینے کے اس کے قبیح اثرات پر اس کی برین واشک کی جائے اور کسی حد تک سرزنش کی جائے نیز دیگر مثبت دلچسپیوں کی طرف راغب کیا جائے۔ اگر ہم خود ایسے کسی معاملے میں ملوث رہے ہوں تو ایک دفعہ ان کی طرف سے سوچیں جو ایسی تکلیفوں سے گزرتے ہیں یا گزرتی ہیں۔ کبھی سوشل گیدرنگ ہو تو وہاں بھی ایسے موضوعات پر گفتگو کو رواج دینا چاہیے۔ :)
 

ساجد

محفلین
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا خواتین کے ساتھ غیر مساوی معاشرتی رویہ انہیں دوہری مصیبت کا شکار کر دیتا ہے یوں یہ معاملہ ان کے لئے زیادہ سنگینی لاتا ہے ۔ وہ اپنی بدنامی کے خوف سے ایسی واہیاتی کرنے والے کو منہ توڑ جواب دینے سے کتراتی ہیں۔
 

منصور مکرم

محفلین
نبیل ابن سعید کا مشورے اچھے اور مناسب ہیں۔پاکستان مین بھی کمپنیوں نے بلیک لسٹس والے پیکج رکھے ہیں ۔ان سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ نا معلوم نمبر اٹھانا ہی نہیں چاہئے ۔اور اگر زیادہ تنگ کرئے تو کسی بھائی بیٹے کو دینی چاہئے کہ دیکھیں کون بار بار فون کر رہا ہے، تاکہ انکو یہ معلوم نا ہو کہ یہ نمبر کسی عورت کا ہے۔

اپنے اگر کبھی نا معلوم نمبر سے کال کرنے پر مجبور ہوجائیں تو پہلے ایک ٹیکسٹ مسج کیا کریں کہ میں فلاں ہوں، فون اُٹھاو،تو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔نمبر اگر کسی خاص کام کیلئے نا رکھا ہو جیسے انٹرویو وغیرہ ،تو کچھ عرصہ بعد تبدیلی میں کوئی مضائیقہ نہیں۔
 
موبائل فون کال سے لوگوں کو تنگ کرنے کے واقعات گزشتہ کچھ عرصے سے کافی بڑھ گئی ہیں۔ ان معاملات کو حل کرنے میں پولیس انتظامیہ کے بھی پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔شہر کے مختلف علاقوں کے تھانہ انچارج سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ جن نمبروں سے كالس آ رہی ہیں، انہیں ٹریس کر پکڑنے میں مشکلات آتی ہیں، کیونکہ لوگ فرضی نام سے سم خریدتے ہیں اور اسے يوزکرکے پھینک دیتے ہیں۔ تاہم پولیس نے کئی کیس ٹریس کئے ہیں، لیکن جس تیزی سے اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، اس میں یہ نا کافی ہے۔

شہر کی رچارج دکانوں میں رچارج کروانے گئی لڑکیوں کے درمیان اس طرح کی شکایات تیزی سے بڑھی ہیں۔ دکانوں پر کھڑے دیگر فالتو اور آوارہ لڑکے رچارج کرواتے وقت ان کا نمبر نوٹ کر لیتے ہیں اور اس کے بعد پریشان کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔کئی لڑکیوں نے خود رچارج کرنا بند کر دیا ہے، تو کئی نے پوسٹ پیڈ سم لے لئے ہیں۔کچھ لڑکیاں تو بھیڑ دیکھ کر چلی بھی جاتی ہیں، لیکن جن کی مجبوری ہے، انہیں رچارج کروانا پڑتا ہے۔ڈائری میں ریچارج دوکان پر اپنا نام اور نمبر درج کرنے سے بھی اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں۔

لڑکیوں کے ہاسٹل کے پاس کئی اےسٹيڈي بوتھ اور ساتھ میں عموما رچارج کی دکانیں موجود ہوتی ہیں۔یہاں پرلفنگے اور اچکے جمع ہوتے رہتے ہیں کچھ رچارج والے ان لفنگوں کو لڑکیوں کے نمبر فراہم کرتے ہیں، کیونکہ زیادہ تر لڑکیاں یہیں سے رچارج کرتی ہیں۔لیکن ایسا ہر کوئی نہیں کرتا۔کچھ لڑکے کسی بہانے سے بھی رجسٹر میں لڑکیوں کے نمبر دیکھ کر انہیں نوٹ کر لیتے ہیں۔

رانگ نمبر سے پریشان لڑکیاں اسے مزید سنجیدگی سے نہیں لیتی ہے، اور وہ زیادہ سے زیادہ اس کی شکایت اپنے والدین سے کرتی ہیں۔ذمہ داران بھی تھانہ کے چکر میں پڑنا نہیں چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کو نیا نمبر خرید کر دے دیتے ہیں۔

ضروری ہے احتیاط
ایزی رچارج کرانا ہے تو اپنا نمبر رچارج والے کے فون میں ہی لکھیں۔
کاپی پر کبھی بھی اپنا نمبر نہ لکھیں۔
کارڈ سے یا آن لائن رچارج کرانے کی کوشش کریں۔
تنگ کرنے والو کا نمبر بلاک لسٹ میں ڈال دیں۔
انجان لوگوں کو اپنا نمبر نہ دیں۔
 

نکتہ ور

محفلین
انتہائی صبر سے کام لیتے ہوئے انجان نمبر سے آنے والی کال کبھی ریسیو نہ کریں اور میسج کا جواب نہ دیں۔
کارڈ سے ری چارج کریں،اپنے گھر کے مردوں سے بیلنس ٹرانسفر کروا لیا کریں، اگر ممکن ہو تو کنکشن پوسٹ پیڈ کروا لیں تا کہ ری چارج کا جھنجٹ ہی ختم ہو۔
اپنی عورتوں کوہر طرح کا تحفظ دینا مردوں کی ذمہ داری ہے اس معاملے میں بھی مردوں کو اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے لفنگے کو باور کرانا چاہیے کہ اس کے مقابل کوئی بے آسرا خاتون نہیں ہے۔
 
سب ترکیبیں ایسی ہیں کہ بخار چڑھا ہو اور لوگ مشورے دے رہے ہیں کہ پانی لگاو، برف لگاو، ہوا کھلاو بخار کم ہوجائے گا

بخار بیکڑیا سے ہے ۔ بیکٹیریا ختم ہوگا تو بخار ختم ہوگا۔ اینٹی بائیوٹک کھانی پڑے گی۔ طویل علاج ہے

معاشرے میں جو رائج ہے اس کا لازمی نتجیہ یہی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ معاشرہ کی تعلیم درست نہ ہو اور اعمال سلجھ جائیں؟

ویسے میرے ذاتی تجربہ میں ہے کہ کئی لڑکیاں بھی بہت تنگ کرتی ہیں۔
 
آپ اپنے گھر کے مردوں میں کسی سے بات تو کریں!
اپنی دوست کو سمجھائیں کہ اُن کے گھر والوں نے اُنہیں موبائل فون رکھنے اور استعمال کرنے کی اجازت دی ہے، تو وہ اتنے تنگ نظر نہیں ہو سکتے کہ اُن پر بھی اعتماد نہ کرتے ہوں اور نہ اتنے گئے گزرے ہوں گے کہ موبائل سے متعلقہ اس انداز کے معاملات و مسائل کو نہ سمجھتے ہوں۔
آپ کی دوست بھی اپنے گھر والوں پر اعتماد کا اظہار تو کریں! مجھے یقین ہے کہ یہ مسئلہ بخیر و خوبی حل ہو جائے گا۔


حوا کی بیٹی
 

شہزاد وحید

محفلین
تمام لڑکے غلط اور تمام لڑکیاں معصوم، اس بات پر اعتراض ہے باقی بات بلکل درست۔ آپ (@حوا کی بیٹی) نے شاید انتہائی غصے کی حالت میں یہ دھاگہ شروع کیا ہے اس لیئے اس قدر نامناسب الفاظ کا استعمال کیا کہ ماں کا اولاد نرینہ مانگنا ذلالت مانگنے کے مترادف ہے۔ تعلیم اور اچھے ماحول کی کمی کی وجہ سے لوگ ایسی حرکتیں کرتے ہیں، لڑکیوں کی بنسبت ایسی گھٹیا حرکتیں کرنے والے لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد بھی ان کاموں میں ملوث ہے لیکن لڑکیاں خوش نام اور لڑکے بدنام اس وجہ سے ہیں کہ ٌ لڑکیوں کی ایسی حرکتوں کا اکثر لوگ برا ہی نہیں مناتے اور چونکہ برا نہیں مناتے اسلئیے احتجاج بھی سامنے نہیں آتا۔ ویسے بھی کچھ چیزیں کائناتی سچ بن چکی ہیں، مثال کے طور پر کسی رانگ کال آنے کی صورت میں یہی کہا جاتا ہے کہ نجانے کون "تھا" حالانکہ نجانے کون "تھی" بھی نکل آیا کرتی ہے۔خیر ایسی کسی بھی پریشان کُن صورت میں اپنی موبائیل کمپنی کی ہیلپ لائن پر کال کر کے پہلی شکایت کے طور پر درج کروا دینی چاہیے۔ اور ذاتی معلومات انتہائی حد تک محدود اور والدین کو آگاہ کرنے جیسے دیگر حربے ساتھی پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ کارڈ سے لوڈ کرنا سب سے بہتر ہے اور جہاں تک ایزی لوڈ کی دکانوں سے نمبروں کی تقسیم کا معاملہ ہے اور جو جو ان کاموں میں ملوث ہیں وہ واقعی سب کے سب چِھتر ایبل ہیں لیکن یہ حل نہیں بلکہ مناسب تعلیم اور تربیت ہی اس کا حل ہے۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
یہ ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے ہمارے معاشرے کا کہ زہر کی طرح نوجوان نسل میں سرایت کرتا جارہا ہے ۔۔۔ بیکاری ۔۔۔۔بے حیائی۔۔۔لایعنی کاموں میں نوجوانوں کی بے انتہا رغبت۔۔۔۔اور موبائل کمپینیوں کے لاتعداد
سستے پیکجز اس قبیح فعل کا سبب ہیں۔۔۔اور بالکل درست بات ہے یہ کہ باشعور اور باضمیر افراد اس سلسلے میں عملی اقدام کریں۔۔۔جہاں کہیں اس طرح کے لایعنی کام ہورہے ہوں انہیں روکنے کی کوشش کریں۔۔۔
اس مسئلے پر گفتگو کی جائے ۔۔۔۔آواز اٹھائی جائے۔۔۔ اب تو والدین نے بالکل اپنی ذمہ داری چھوڑی ہوئی ہے کہ کم از کم اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔۔چھوٹے چھوٹے بچوں کی موبائل فون تک آخر
دسترس ہے تو کیونکر ہے۔۔۔۔؟ مجھے یاد پڑتا ہت کہ جب پہلی بار میں نے موبائل فون کا استعمال کیا توایک دو دن میں سم اسی مسئلے کی وجہ سے ڈر کر توڑ دی کہ آخر یہ ہوکیا رہا ہے۔۔۔۔۔اب مجھے تو اس مسئلے کا فوری حل
یہ سوجھتا ہے کہ جواجنبی نمبرز سے جو کالز یا میسجز آئیں انہیں کسی صورت ریسو مت کیجئے یا پھر فورا اپنے بھائی وغیرہ کو سیل پکڑا دیجئے کہ یہ کوئی ایسے نمبر سے کال آرہی ہے جسے آپ نہیں جانتیں۔۔ بھائی کی آواز نکالنا ہی
کافی ہوگا آگے وہ خود ہی مایوس ہوجائیں گے کہ یہ کسی لڑکی کا نمبر نہیں ہے۔۔۔۔۔ایسی بے شمار کالز اور میسجز موصول ہوتے ہیں انہیں پڑھے نغیر ڈیلیٹ کردیا کریں اور کوئی ردِ عمل دکھانے کی کوشش تو قطعا کبھی مت کیجئے گا
کہ ایسے لوگ سمجھانے پر یا آپ کے جواب دینے پر غزا ملنے پر اور خوش ہوتے ہیں۔۔۔۔غالب گمان یہی ہوتا ہے اور میرا تجربہ بھی یہی رہا ہے کہ کچھ عرصے میں ایسی کالز اور میسجز آنا بند ہوجاتے ہیں۔۔۔۔
ان لوگوں کا مقصد انتہائی سستی قسم کی تفریح لینا اور وقت گزاری کرنا ہوتا ہے ۔۔۔۔اور میں نہیں سمجھتی کہ اس کام میں صرف لڑکے ملوث ہیں لڑکیاں بھی یہ سب کر رہی ہیں والدین کی چشم پوشی اور میڈیا کی بے راہروی نے سب کو ایک ہی
صف میں کھڑا کردیا ہے۔۔۔۔اللہ تعالی ہم سب کو ان لایعنی اور قبیح فعل سے محفوظ رکھیں۔۔۔لیکن ہم سب کو اس کے لیئے عملی اقدام کرنے چاہئیں۔۔جہاں جہاں تک ہماری رسائی ہے آواز اٹھائیں اپنے اردگرد دوستوں اور جاننے والوں کو سمجھائیں
آپ دیکھیں گے کہ بہت سے لوگ تو ہمارے سرکل میں موجود ہوں گے جو یہ سب کر رہے ہیں انہیں سمجھانے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنی تمام دوستوں پر بہت سخت قسم کی پابندی لگائی تھی کہ مجھے کسی قسم کے فارورڈ اور غیر معیاری میسجز نہیں ملنے چاہیئیں۔۔کوئی ضروری بات ہو یا حال احوال دریافت کرنے ہوں تو مجھے میسجز کیجئے اور اس سے مجھے بہت فائدہ ہوا کہ میری بہت سی دوستیں معیاری اور غیر معیاری کے فرق کو سمجھنے لگیں۔۔۔۔جس سمت وقت دوڑ رہا ہے جس نہج پر چل رہا ہے اسی نہج پر چل پڑنا نہایت نقصان دہ ہے ۔۔۔۔اور تبدیلی بھی ہم ہی سے آئے گی ۔۔۔ہم ہی لاسکتے ہیں۔۔۔
 

محمدصابر

محفلین
میں رحمان ملک کے اسی ایک کام کی وجہ سے اس کی تمام غلطیاں معاف کرنے پر تیار ہوں کہ اس نے سمز کی فروخت کو کسی ضابطے کے تحت لانے کی کوشش کی۔ لیکن موبائل کمپنیاں اور پی ٹی اے مل کر اس کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہی ہیں اور کر ہی دیں گی۔ جب تک ایسا نہیں ہو گا اس طرح کے کاموں کو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔
ابھی پچھلے دنوں یہ ہوا کہ میرے ایک جاننے والوں کے بچے نے اپنے گھر کے پچھلے برآمدئے میں پڑے ہوئے موبائل فون کو اٹھایا اور لا کر اپنی بڑی بہن کو دیا اس نے چیک کرنے کے لئے اپنی سم اس میں ڈالی۔ اسی اثنا میں ان کے ایک رشتہ دار کی ایک فون کال آئی اور انہوں نے اس سے کچھ دیر بات کی۔ بعد میں والدین کو پتہ چلا تو انہوں نے سم نکلوا دی اور موبائل فون بند کر کے رکھ دیا اور بھول گئے۔ کچھ ہی دن بعد پولیس ان کو گرفتار کرنے گھر پہنچ گئی۔ تھانے گئے ضمانت پر گھر آئے تو پہلا کام یہ کیا کہ موبائل توڑ دیا۔ کیونکہ وہ موبائل ایک ڈاکے میں استعمال ہوا تھا۔ اور پولیس کے سامنے وہ انکار کر چکے تھے کہ ایسا کوئی فون انہوں نے نہیں دیکھا۔ اب وہ اور مصیبت میں پھنس گئے کیونکہ پولیس کے پاس موبائل کمپنی کا کال لاگ موجود تھا۔ جس میں ان کی سم کے استعمال کا ریکارڈ موجود تھا۔ جب ان کو میرے ساتھ بات ہوئی تو انہویں نے مجھے بھی یہی بتایا کہ ایسا فون انہوں نے کوئی نہیں دیکھا۔ میں نے اپنے باس کی مدد سے کمپنی سے لاگ منگوایا۔ ایکسل میں کھول کر اس کو ترتیب دیا تو وہی ریکارڈ میرے سامنے بھی آگیا اب میں نے جب انہیں دکھایا تو تقریبا رونے لگ گئے اور ساری بات بتائی۔بہرحال انہوں نے کچھ دے دلا کر جان چھڑوائی لیکن چار دن تک سونا نصیب نہیں ہوا۔
مجھے عام طور پر کسی کمپنی کے موبائل نمبر سے آنے والی اس طرح کی رونگ کالز کی اتنی پریشانی نہیں ہوتی۔ لیکن پچھلے دنوں کوئی بندہ VoIPسے کال کر رہا تھا اس نے چار دن کافی ناک میں دم کئے رکھا۔ ہم نے ایسے نمبرز سے کال سننا ہی بند کر دی۔ اللہ کا شکر ہے کہ زیادہ دیر نہیں لگی جان چھوٹنے میں۔
 

عسکری

معطل
بہرحال باہر کے ملک میں پرورش پانے کے بعد کم از کم میں یہ کہہ سکتہ ہوں کہ ہمیں نا ایسا سکھایا گیا نا ہی ہم نے دیکھا تھا ایسا ہوتے ہوئے تو یہ ہمارے اخلاق ادب اور عادت کے خلاف بات ہے :( پتہ نہیں پاکستان میں ہرا برا کام اتنا جلد کیوں جڑ پکڑ لیتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کے پاس پاکستان میں فضول کاموں میں ضائع کرنے کے لیے وقت بہت ہوتا ہے۔
 

عسکری

معطل
اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کے پاس پاکستان میں فضول کاموں میں ضائع کرنے کے لیے وقت بہت ہوتا ہے۔
اور گھٹیا نو جوانوں کی بھی کمی نہیں ہے :angry: جو دھرتی پر بوجھ ہیں نا کسی کام کے نا زندگی کے کسی مشن پر سوائے آوارگی لوفر گردی اور ادھر ادھر منہ مارنے کے ۔
 

ساجد

محفلین
بہرحال باہر کے ملک میں پرورش پانے کے بعد کم از کم میں یہ کہہ سکتہ ہوں کہ ہمیں نا ایسا سکھایا گیا نا ہی ہم نے دیکھا تھا ایسا ہوتے ہوئے تو یہ ہمارے اخلاق ادب اور عادت کے خلاف بات ہے :( پتہ نہیں پاکستان میں ہرا برا کام اتنا جلد کیوں جڑ پکڑ لیتا ہے
جوان ، سعودیوں میں بھی ایسے لعنتی کرداروں کی کمی نہیں۔ ہمارا واسطہ ایسے کمینوں سے پڑ چکا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اور گھٹیا نو جوانوں کی بھی کمی نہیں ہے :angry: جو دھرتی پر بوجھ ہیں نا کسی کام کے نا زندگی کے کسی مشن پر سوائے آوارگی لوفر گردی اور ادھر ادھر منہ مارنے کے ۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان جوانوں کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے نوکریوں کا بندوبست ہو تو یہ لوگ ان فضول کاموں کی بجائے کسی کام دھندے سے لگیں۔
 

عینی شاہ

محفلین
بھئی سیدھی سی بات ہے بندہ ایسی رونگ کالز کا جواب ہی نہ دے نہ ہی میسجز کا ۔۔اگلا تھک ہار کر خود ہی رسپانس کرنا بند کر دے گا ۔۔
 

بھلکڑ

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ اس مسئلے پر بہتر تعلیم اور بہترین تربیت بالکہ صر ف اچھی تربیت سے قابو پایا جا سکتا ہے۔اپنے بچوں کو بتایا جائے کے یہ اچھا کام نہیں ہے اور ہمیں اپنے بچوں سے بھائیوں سے بات کرنی چاہیئے نہ کہ خاموش تماشائی بن کے بیٹھے رہیں۔
اور اس کے بعد یہ موبائل کمپنیوں والے سب سے آگے یہ پیکج اچھا ہے تو وہ اچھا ہے۔ پہلے جب میں گراؤنڈ میں جاتا تھا تو کھیلنے والوں کا رش دیکھ کر دل خوش ہوتا تھا چلو جمعے اور اتوار کو ہی سہی ہمارے گراؤنڈ آباد تو ہوتے ہیں ۔ لیکن اب گراؤنڈ تو آباد ہوتے ہیں لیکن کھیلنے والون سے نہیں کونوں کھدروں میں ہیڈسیٹ لگائے ہنستے چہروں سے جو پیکج اُٹھا رہے ہوتے ہیں ۔اور میں سوچتا ہوں اگر ایسے حضرات سے پوچھوں کہ آپ کس رشتے کی بناء پر بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو میرے ذہن میں تو کوئی جواب نہیں آتا اگر آپ لو گ کچھ بتا سکیں تو۔۔۔۔۔




(پیکج اُٹھا نا پنجابی کا لیٹسٹ محاورہ کہ بھئی فلاں بندہ تے پیکج چک رہیا اے۔)
 
Top