مردوں سے شکایت کے ساتھ

آج تک مجھے یہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ کسی کو بھی فون پہ ذلیل کرنے کا کیا تک بنتا ہے جب کہ آپ اس کو جانتے بھی نہیں اور اگر جانتے بھی ہیں تو اگلے بندے کو آپ کو جاننے میں دلچسپی نہیں ہے یہ کوئی خاص تکلیف اٹھتی ہے ہمارے معاشرے کے مردوں کو؟ کیا یہ صرف ہمارے معاشرے میں ہی ہے یا پھر ہر جگہ ہی بندوں کا یہی حال ہے ۔ گزشتہ چند روز سے ایک دوست کو ایک رانگ نمبر سے میسجز اور کالز وغیرہ موصول ہو رہی تھیں ایک تو وہ خود بھی ایک فضول چیز ہے اتنی سے بات پہ پریشان ہو کر تین دن سے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ میری کو بھی عذاب بنا ڈالا اس نے۔ اب ایک بندہ اس کو میسجز کر رہا ہے فضول سے ، گھٹیا شاعری اور وہ سارے مجھے فاروڈ کر رہی تھی ایک تو مجھے کرنے والے پہ غصہ، پھر مجھے فاروڈ کرنے والی پہ غصہ اور پھر فراز و محسن کی بے حرمتی پہ خون کھولتا رہا۔ اور اس سارے میں میں ہماری قوم کے سپوتوں کی مستقل مزاجی کی تو داد دینی پڑے گی۔ یار کسی کا ذہنی سکون برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے دل تو میرا کر رہا ہے کہ رج کے گالیاں دوں اس کو یہاں لیکن ۔۔۔ ۔ مجھے دو تین کے علاوہ آتی نہیں ہیں اور انگریزی گالی ان جیسوں کو لگتی نہیں ہے۔ ویسے کیا کبھی کسی کو کسی لڑکی نے اس طرح تنگ کیا کبھی؟ لڑکوں کو کیا تکلیف ہے بھئی؟ اگنور کرنے کے علاوہ اس مسئلے کا کوئی اور حل آپ لوگوں کی نظرمیں ہے تو مجھے بھی بتا دیں ۔ ویسے مختلف نیٹ ورکس کی کال بلاکس سروسز بھی زبردست ہیں لیکن یہ کوئی پائدار حل تو نا ہوا۔ ویسے عورتوں کوچاہیے منتوں مرادوں سے بیٹے مانگنے چھوڑدیں میرے خیال میں یہ معاشرے کے لیے ذلالت مانگنے کے برابر ہے موجودہ دور کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے۔ پتا نہیں اس طرح کی حرکتیں کر کے ہمارے معاشرے کے خداؤں کو کون سی تسکین ملتی ہے؟

ایک تو ان محترمہ کو اگر فون دیا گیا ہے تو اعتماد بھی دیا جانا چاہیے تاکہ وہ ایسی پریشانی کا گھر والوں سے اظہار کر سکیں، یہاں اسلام آباد میں تو ایک دو کیسز میں دیکھا ہے کہ 15 والے ایسے معاملات سے بہت اچھے نمٹتے ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ کہ اتنا گھبرانے کی ضرورت نہیں، طریقے سے نمٹا جائے، فون ہر بار اٹینڈ کر لیا جائے، مائک میوٹ کر کے۔
تیسرا طریقہ فون کے اندر بھی کالر بلاک کا سسٹم ہوتا ہے جس سے کسی مخصوص نمبر سے کال اور ایس ایم ایس بلاک کیے جا سکتے ہیں
چوتھا طریقہ آپ کی فون کمپنی بھی آپ کے لیے ایسے مطلوبہ نمبرز سے کال اور ایس ایم ایس بلاک کرتی ہے۔
پانچواں اگر وہ محترمہ خود فون کا غلط استعمال نہیں کرتیں تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ کچھ دنوں کے لیے اپنی سم اپنے کسی بھائی، والد، چچا، ماموں، کزن کسی کو بھی جس پہ اعتماد ہو اس کو دے دیں، اور جب اس بندے کو ہر بار مرد کا سامنا کرنا پڑے گا تو باز آ جائے گا۔ (یہ طریقہ 100٪ آزمایا ہوا اور کار آمد ہے)۔
چھٹا طریقہ فون کمپنی کو شکایت کی جائے، اور پی ٹی اے کو سی سی میں رکھ کے ایک ای میل کر دی جائے۔

اب آتا ہوں آپ کی بد تمیزی کی طرف:

ویسے عورتوں کوچاہیے منتوں مرادوں سے بیٹے مانگنے چھوڑدیں میرے خیال میں یہ معاشرے کے لیے ذلالت مانگنے کے برابر ہے موجودہ دور کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے۔ پتا نہیں اس طرح کی حرکتیں کر کے ہمارے معاشرے کے خداؤں کو کون سی تسکین ملتی ہے؟

دیکھیں عورتوں کے پاس فون، انٹرنیٹ، جابز، شخصی آزادی جیسی چیزیں مردوں کی نسبت دیر سے پہنچی، اس لیے پہلے ان سے مردوں نے ہر طرح کا فائدہ اٹھایا، لیکن جیسے جیسے عورتوں کو یہ سہولیات ملتی گئیں تو انہوں نے کہیں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی،

جب موبائل فون نہیں تھے تو کوئٹہ جیسے سخت ماحول میں مجھے پی ٹی سی ایل نمبر پہ لڑکیوں کی رونگ کالز آتی تھیں، اور کئی ایک نے تو بہت پریشانی بھی کھڑی کی اور ایک بار تو جب میں نے سی ایل آئی پہ نمبر دیکھ کر کال بیک کر کے گھر کے مرد کو کھری کھری سنائیں تو اسے غصہ آ گیا اور ہماری تکرار دوسرے فون سے ابو نے سن لی اور انہوں نے میرے کمرے سے فون ہی اکھاڑ پھینکا۔
اسی طرح ایک اور جاننے والی محترمہ نے بہت پریشان کیے رکھا اور پتہ نہیں چلتا تھا کہ پریشان کرنے والا کون ہے۔
پھر موبائل آنے کے بعد بھی یہی حال رہا اور اتنا تنگ بھی ہوا میں کہ اپنا گولڈن نمبر ہی امی کو دے دیا جو آج بھی ان کے استعمال میں ہے۔
شادی کے بعد کئی بار ازدواجی تعلقات پہ اثر پڑا رونگ کالز کا، اب بتائیں رات کو ایک دو بجے اگر فون آئے لڑکی کا بہلے میں بولوں نا رونگ نمبر اور بی بی آپ کیوں پریشان کرتی ہیں یا گالیاں بھی دے لوں اور بیوی کو اعتماد بھی ہو پر اثر تو پڑتا ہے نا۔
مجھے اسقدر پریشانی ہے رونگ نمبرز کی کے میں پہلے بیگم کے کونٹیکٹ لسٹ میں نمبر چیک کرتا ہوں پھر سب رشتہ داروں سے پوچھتا ہوں اور پھر سر نوچتا ہوں، یہاں تک کیا کہ پریشان کرنے والیوں کے نمبرز اپنے فارغ دوستوں کو بھی دئیے پر مجال ہے فرق پڑا ہوں ہاں خود کو ہی احساسِ شرمندگی ہوتا رہتا ہے پھر۔

اب بتائیں میں عورتوں کی بے عزتی کرنی شروع کر دوں اور ان کی پیدائش کو ذلالت کے میں شمار کروں، جن میں میری ماں میری جنت، میری راحت کا ساماں سی بہنیں، میری شریکِ حیات، اور مجھے عطا کی گئی پھول سی رحمتیں بھی شامل ہیں،
گندے کیڑے ہر معاشرے، ہر مذہب، ہر جنس اور ہر ملک اور قوم میں موجود ہوتے ہیں پر اس سے سب پہ کیچڑ نہیں اچھالنی چاہیے۔
 
تو بڑا آسان ہے، اس بندے کا پتہ لگایا جائے اور خوب پٹائی کی جائے۔ :rolleyes:
پتہ لگانے کا میرا آزمایہ ہوا ایک نسخہ پیشِ خدمت ہے جو کراچی میں دو بار انتہائی کامیابی اور کامرانی سے بندے کی پکڑ پہ اختتام پزیر ہوا۔

کوئی مرد اس نمبر پہ فون کرے اور اس کا نمبر رپیٹ کر کے کہیں کہ جناب میں فلاں اسپتال سے بول رہا ہوں، یہاں ایک ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی لڑکا لایا گیا ہے اس پاکٹ سے آپ کا نمبر ملا آپ فوراََ فلاں اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے بیڈ یا روم نمبر اس میں آ جائیں۔

حلیہ بتا دیں کے چھوٹی چھوٹی سی داڑی ہے یا شیو بڑھی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ ۔

ایک کی تو ہم نے پٹائی بھی کی اور فون بھی لے لیا اور دوسرے نے معافی تلافی کر لی شکل سے پڑھا لکھا معزز گدھا تھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اس سارے مسئلے کی جڑ سروس پروائڈرز کے لئے کوئی کوڈ آف ایتھکس نہ ہونا ہے یا اگر ہے بھی تو اس پر عمل کو یقینی بنانے میں ناکامی ہے۔ وجہ وہی کہ ہمارے ہاں مانیٹرینگ اور اکاؤنٹیبیلٹی کی روایت مفقود ہے۔ برائی میں بہت کشش ہوتی ہے اور جب پوری پوری رات اور دن کے لئے ایک سے ایک پیکج دیئے جائیں پھر تقریباً ہر سروس پروائڈر کی طرف سے فضول قسم کی آفرز بھی موجود ہوں۔ آپ کا میڈیا ہر وقت فضول قسم کے موضوعات پر ڈرامے بنا کر پیش کرتا ہو تو لوگوں خصوصاً نوجوانوں اور بچوں کے ذہنوں اور حرکتوں میں ایسی ہی چیزیں غالب رہا کرتی ہیں۔ بھگتنا سب کو پڑتا ہے۔
آپ ایک گھنٹہ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جائیں تو آدھ گھنٹہ اشتہارات دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان اشتہارات میں بھی 80 فیصد موبائل کمپنیوں کی آفرز کا حصہ ہوتا ہے۔ فارغ لوگ، فری پیغامات اور فری منٹس کا پیکج ایسے ہی حالات کو جنم دیتا ہے جس کا نشانہ بلاتفریق مرد، عورت، بچے ، بوڑھے سب بنتے ہیں۔

میرا خیال ہے ایسے حالات میں انہی ٹپس پر عمل کرنا چاہئیں جو اوپر سب نے دیں۔

اپنا فون نمبر بہت کم اور بہت قریبی لوگوں کو دینا چاہئیے۔ ہم جماعتوں یا دیگر لوگوں کے لئے بہترین آپشن گھر کا لینڈ لائن نمبر ہے۔
ایزی لوڈ کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ اس کا حقیقی فائدہ کیا ہے۔ آپ اگر دوکان پر جا کر اپنے نمبر پر ایزی لوڈ کروا رہے ہیں تو کارڈ کیوں نہیں خرید سکتے۔ اور اگر کوئی اور آپ کے لئے ایزی لوڈ کروا رہا ہے تو وہ آپ کو کارڈ کا نمبر کیوں نہیں بھیج سکتے۔ میں جب پاکستان واپس آئی تھی مجھے پری پیڈ کنکشن لیکر دیا گیا تھا اور میرا کارڈ ہمیشہ میرے بڑے بھائی یا ابو لایا کرتے تھے۔ سو کبھی ایسا مسئلہ درپیش نہیں ہوا الحمداللہ۔ بعد میں پوسٹ پیڈ پر کنورٹ کروا دیا تو مزید آسانی ہو گئی۔ سب سے بڑی آسانی تو یہ ہوئی کہ بِل ابھی بھی ابو یا بھائی کے ذمہ ہے :openmouthed: ۔ وہ اپنے بلز کے ساتھ میرا بھی ادا کر دیتے ہیں۔ بچت ہی بچت :angel:۔
اس کے باوجود اگر ایسی پریشانی آتی ہے تو پہلا حل کہ انجانے نمبروں سے کال نہیں لینی چاہئیے۔ جو جاننے والے ہیں وہ اگر نئے نمبر سے کال کریں گے تو پیغام چھوڑ دیں گے کہ کس کا فون تھا۔
دوسرا حل: کبھی بھی ایسے نمبرز یا لوگوں سے بات یا بحث نہیں کرنی چاہئیے ۔ ناں ووائس کال پر نا ٹیکسٹ کے جواب میں۔ کچھ عرصہ بعد خود ہی پیچھے ہٹ جائیں گے۔ لیکن اس کے لئے صبر اور ضبط کی بہت ضرورت ہے۔یہ خصوصاً لڑکیوں کے لئے ہے کہ اگر آپ ڈانٹنے یا منع کرنے کے لئے بھی فون کا جواب دیں گی یا ٹیکسٹ کریں گی تو امکانات ہیں کہ تنگ کرنے والا مزید ہٹ دھرمی سے آپ کو تنگ کرے گا۔ لیکن مسلسل خاموشی کے جواب میں اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ ایسا کالر پیچھے ہٹ جائے۔
تیسرا حل: کال بلاک۔ فون سیٹ پر بھی اور فون سروس والوں سے کہہ کر بھی۔
چوتھا حل: گھر کے بڑوں کو بتائیں اور خود مزے سے بے فکر ہو جائیں۔
 
اس سارے مسئلے کی جڑ سروس پروائڈرز کے لئے کوئی کوڈ آف ایتھکس نہ ہونا ہے یا اگر ہے بھی تو اس پر عمل کو یقینی بنانے میں ناکامی ہے۔ وجہ وہی کہ ہمارے ہاں مانیٹرینگ اور اکاؤنٹیبیلٹی کی روایت مفقود ہے۔ برائی میں بہت کشش ہوتی ہے اور جب پوری پوری رات اور دن کے لئے ایک سے ایک پیکج دیئے جائیں پھر تقریباً ہر سروس پروائڈر کی طرف سے فضول قسم کی آفرز بھی موجود ہوں۔ آپ کا میڈیا ہر وقت فضول قسم کے موضوعات پر ڈرامے بنا کر پیش کرتا ہو تو لوگوں خصوصاً نوجوانوں اور بچوں کے ذہنوں اور حرکتوں میں ایسی ہی چیزیں غالب رہا کرتی ہیں۔ بھگتنا سب کو پڑتا ہے۔
آپ ایک گھنٹہ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جائیں تو آدھ گھنٹہ اشتہارات دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان اشتہارات میں بھی 80 فیصد موبائل کمپنیوں کی آفرز کا حصہ ہوتا ہے۔ فارغ لوگ، فری پیغامات اور فری منٹس کا پیکج ایسے ہی حالات کو جنم دیتا ہے جس کا نشانہ بلاتفریق مرد، عورت، بچے ، بوڑھے سب بنتے ہیں۔

میرا خیال ہے ایسے حالات میں انہی ٹپس پر عمل کرنا چاہئیں جو اوپر سب نے دیں۔

اپنا فون نمبر بہت کم اور بہت قریبی لوگوں کو دینا چاہئیے۔ ہم جماعتوں یا دیگر لوگوں کے لئے بہترین آپشن گھر کا لینڈ لائن نمبر ہے۔
ایزی لوڈ کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ اس کا حقیقی فائدہ کیا ہے۔ آپ اگر دوکان پر جا کر اپنے نمبر پر ایزی لوڈ کروا رہے ہیں تو کارڈ کیوں نہیں خرید سکتے۔ اور اگر کوئی اور آپ کے لئے ایزی لوڈ کروا رہا ہے تو وہ آپ کو کارڈ کا نمبر کیوں نہیں بھیج سکتے۔ میں جب پاکستان واپس آئی تھی مجھے پری پیڈ کنکشن لیکر دیا گیا تھا اور میرا کارڈ ہمیشہ میرے بڑے بھائی یا ابو لایا کرتے تھے۔ سو کبھی ایسا مسئلہ درپیش نہیں ہوا الحمداللہ۔ بعد میں پوسٹ پیڈ پر کنورٹ کروا دیا تو مزید آسانی ہو گئی۔ سب سے بڑی آسانی تو یہ ہوئی کہ بِل ابھی بھی ابو یا بھائی کے ذمہ ہے :openmouthed: ۔ وہ اپنے بلز کے ساتھ میرا بھی ادا کر دیتے ہیں۔ بچت ہی بچت :angel:۔
اس کے باوجود اگر ایسی پریشانی آتی ہے تو پہلا حل کہ انجانے نمبروں سے کال نہیں لینی چاہئیے۔ جو جاننے والے ہیں وہ اگر نئے نمبر سے کال کریں گے تو پیغام چھوڑ دیں گے کہ کس کا فون تھا۔
دوسرا حل: کبھی بھی ایسے نمبرز یا لوگوں سے بات یا بحث نہیں کرنی چاہئیے ۔ ناں ووائس کال پر نا ٹیکسٹ کے جواب میں۔ کچھ عرصہ بعد خود ہی پیچھے ہٹ جائیں گے۔ لیکن اس کے لئے صبر اور ضبط کی بہت ضرورت ہے۔یہ خصوصاً لڑکیوں کے لئے ہے کہ اگر آپ ڈانٹنے یا منع کرنے کے لئے بھی فون کا جواب دیں گی یا ٹیکسٹ کریں گی تو امکانات ہیں کہ تنگ کرنے والا مزید ہٹ دھرمی سے آپ کو تنگ کرے گا۔ لیکن مسلسل خاموشی کے جواب میں اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ ایسا کالر پیچھے ہٹ جائے۔
تیسرا حل: کال بلاک۔ فون سیٹ پر بھی اور فون سروس والوں سے کہہ کر بھی۔
چوتھا حل: گھر کے بڑوں کو بتائیں اور خود مزے سے بے فکر ہو جائیں۔
جی بالکل ٹھیک کہا آپ نے حل تو اس کے کئی ہیں لیکن لڑکیاں بھی آج کل عجب ڈھنگ میں ہیں بھائی یا والد کو بتانے سے ڈرنے کی کچھ اور بھی وجوہات ہیں اب، کہ کوئی اپنا راز نہ کھل جائے وغیرہ وغیرہ،
آپ کو تجسس اور پریشانی کیا ہے بھئی اگنور کریں یا میرا مشورہ مانیں تو صرف کچھ دن کے لیے (اگر پردہ چاک ہونے کا ڈرنہ ہو تو) سم بھائی یا گھر کے کسی مرد کو دے دیں جب ان کو ہر بار مرد کا سامنا ہو گا تو باز آ جائیں گے۔ یا فون نہ بھی دیں تو ان کو کم از کام پریشانی کا بتا تو دیں۔ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا۔
 

مہ جبین

محفلین
بے شک یہ پریشان کن مسئلہ ضرور ہے لیکن اتنا پیچیدہ بھی نہیں کہ آپ کہیں کہ اب کوئی اور راستہ ہی نہیں
یہاں سب نے اتنے بہترین حل پیش کئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ اب سیل فون عام ہونے کے بعد بچہ بچہ ان سب باتوں کو سمجھتا ہے
جن صاحبہ نے یہ دھاگہ شروع کیا ہے اور جس طرح سے اس پریشانی کو بیان کیا ہے وہ سب باتیں انتہائی بچکانہ ذہن کی عکاسی کرتی ہیں
سب سے پہلی بات تو یہ کہ ان کی سہیلی کو اگر بیہودہ ایس ایم ایس آرہے تھے تو انکو اپنی سہیلی کو فارورڈ کرنے کا کیا مطلب؟
دوسری بات یہ کہ انکی سہیلی کو کال اور میسج بلاک کرنے کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا؟؟؟؟
تیسری بات یہ کہ اس نے اپنے گھر والوں کو اعتماد میں کیوں نہ لیا؟؟
اور چوتھی اور آخری بات یہ کہ اچھے اور برے تو ہر جنس میں ہوتے ہیں صرف لڑکے ہی نہیں لڑکیاں بھی پورے شدو مد کے ساتھ اس برے فعل میں شامل ہوتی ہیں نہ سب لڑکے برے اور نہ سب لڑکیاں بری ۔۔۔۔۔ تو پھر ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنے کیا مطلب ہوا؟؟؟؟
ایسی باتیں لکھنے سے پہلے سوچنا چاہئے کہ ہم مرد برادری کو کلیتاً برا کہہ کر اپنے باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹے کو بھی اسی صف میں کھڑا کر رہے ہیں
اور اگر مرد برادری چند لڑکیوں کی وجہ سے سب عورتوں پر کیچڑ اچھالیں گے تو کیا ہم کو اچھا لگے گا؟؟؟؟ نہیں ناں۔۔۔ تو پھر ایسی بات لکھتے یا کہتے ہوئے دس بار سوچیں کہ ہم کیا کہہ اور لکھ رہے ہیں
کسی پر بھی انگلی اٹھانے سے پہلے اپنا محاسبہ کرنا بہت ضروری ہے اے حوا کی بیٹی
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جی بالکل ٹھیک کہا آپ نے حل تو اس کے کئی ہیں لیکن لڑکیاں بھی آج کل عجب ڈھنگ میں ہیں بھائی یا والد کو بتانے سے ڈرنے کی کچھ اور بھی وجوہات ہیں اب، کہ کوئی اپنا راز نہ کھل جائے وغیرہ وغیرہ،
آپ کو تجسس اور پریشانی کیا ہے بھئی اگنور کریں یا میرا مشورہ مانیں تو صرف کچھ دن کے لیے (اگر پردہ چاک ہونے کا ڈرنہ ہو تو) سم بھائی یا گھر کے کسی مرد کو دے دیں جب ان کو ہر بار مرد کا سامنا ہو گا تو باز آ جائیں گے۔ یا فون نہ بھی دیں تو ان کو کم از کام پریشانی کا بتا تو دیں۔ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا۔
اپنا راز کُھلنے کا تو نہیں معلوم لیکن میرا خیال ہے کہ کچھ لڑکیاں شاید ڈرتی ہوں کہ گھر والے خصوصاً بھائی جذباتی ہو جاتے ہیں اور شاید یہ بھی خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں انہی کو غلط نہ سمجھ لیا جائے۔
کچھ دن فون کیا دینا اگر آپ رونگ کالر کا نمبر بھی گھر میں کسی کو دے دیں تو وہ اس کو ہینڈل کر سکتے ہیں۔ اور ایسا ہوتا بھی ہے۔
اور یہ بھی کہ اگر ہم فون کو بوقتِ ضرورت سہولت کے لئے استعمال کریں تو ایسے واقعات کم ہوتے ہیں۔ اگر فون فَن (انگریزی والا) کے لئے استعمال کیا جائے تو پھر بہت سی مشکلات اور قباحتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مجھے پہلا فون 2003ء میں لیکر دیا گیا تھا۔ تب سے اب تک الحمد اللہ مجھے کبھی بھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ میں اپنا نمبر بہت قریبی لوگوں کے علاوہ کسی کو نہیں دیتی اور انجانے نمبر سے کال کا جواب نہیں دیتی۔ ایک بار ایسا ہوا تھا کہ میری اماں کے فون پر ہماری ایک آنٹی نے ٹیکسٹ کیا کہ فون اٹھاؤ میں اپنے دوسرے نمبر سے کال کر رہی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور نمبر سے کال آ گئی جو انہوں نے اٹھائی تو دوسری طرف سے کسی نے بونگیاں مارنا شروع کر دیں۔اماں نے پوچھا کہ کس سے بات کرنی ہے اور کون ہے تو اس نے جواب میں پشتو میں کچھ کہنا شروع کر دیا۔ فون بند کرنے پر پھر بار بار کالز آنے لگیں۔ اماں نے میرے بھائی کو فون کر کے بتایا۔ انہوں نے پہلے خود جھاڑا پھر ان کے ایک کولیگ پختون تھے سے کہا کہ آپ ذرا سمجھائیں انہیں۔ ان کا خیال تھا کہ شاید کوئی ٹین ایجرز ہیں جو وقت گزاری کر رہے ہیں لیکن اثر ندارد۔ ہم نے کالز تو اٹینڈ نہیں کی لیکن بھائی نے اسی وقت وہ نمبر بڑے بھائی کو دیا۔ انہوں نے ریکارڈ نکلوا کر تفصیلات حاصل کیں۔ بیچاروں کی قسمت خراب تھی کہ خود آ بیل مجھے مار والا حال کیا۔ کیونکہ ایک ہی دن میں جب ساری تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ کوئی آنٹی نما خاتون ہیں جو ان لڑکوں کے ذریعے ایسے ڈمب کال کرواتی ہیں اور بچوں اور لڑکیوں کو ٹریپ کرتی ہیں۔ دو دن کے اندر تمام معلومات لیکر باقاعدہ چھاپہ ڈلوایا گیا اور آنٹی بمعہ گینگ پکڑی گئیں۔
نتیجہ: معلوم نہیں کس کس طرح کے لوگ سہولیات کو کیسے کیسے کاموں میں استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں خود محتاط رہنا ہے تاکہ ایسے مسائل کا کم سے کم سامنا ہو۔
 

مہ جبین

محفلین
اپنا راز کُھلنے کا تو نہیں معلوم لیکن میرا خیال ہے کہ کچھ لڑکیاں شاید ڈرتی ہوں کہ گھر والے خصوصاً بھائی جذباتی ہو جاتے ہیں اور شاید یہ بھی خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں انہی کو غلط نہ سمجھ لیا جائے۔
کچھ دن فون کیا دینا اگر آپ رونگ کالر کا نمبر بھی گھر میں کسی کو دے دیں تو وہ اس کو ہینڈل کر سکتے ہیں۔ اور ایسا ہوتا بھی ہے۔
اور یہ بھی کہ اگر ہم فون کو بوقتِ ضرورت سہولت کے لئے استعمال کریں تو ایسے واقعات کم ہوتے ہیں۔ اگر فون فَن (انگریزی والا) کے لئے استعمال کیا جائے تو پھر بہت سی مشکلات اور قباحتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مجھے پہلا فون 2003ء میں لیکر دیا گیا تھا۔ تب سے اب تک الحمد اللہ مجھے کبھی بھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ میں اپنا نمبر بہت قریبی لوگوں کے علاوہ کسی کو نہیں دیتی اور انجانے نمبر سے کال کا جواب نہیں دیتی۔ ایک بار ایسا ہوا تھا کہ میری اماں کے فون پر ہماری ایک آنٹی نے ٹیکسٹ کیا کہ فون اٹھاؤ میں اپنے دوسرے نمبر سے کال کر رہی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور نمبر سے کال آ گئی جو انہوں نے اٹھائی تو دوسری طرف سے کسی نے بونگیاں مارنا شروع کر دیں۔اماں نے پوچھا کہ کس سے بات کرنی ہے اور کون ہے تو اس نے جواب میں پشتو میں کچھ کہنا شروع کر دیا۔ فون بند کرنے پر پھر بار بار کالز آنے لگیں۔ اماں نے میرے بھائی کو فون کر کے بتایا۔ انہوں نے پہلے خود جھاڑا پھر ان کے ایک کولیگ پختون تھے سے کہا کہ آپ ذرا سمجھائیں انہیں۔ ان کا خیال تھا کہ شاید کوئی ٹین ایجرز ہیں جو وقت گزاری کر رہے ہیں لیکن اثر ندارد۔ ہم نے کالز تو اٹینڈ نہیں کی لیکن بھائی نے اسی وقت وہ نمبر بڑے بھائی کو دیا۔ انہوں نے ریکارڈ نکلوا کر تفصیلات حاصل کیں۔ بیچاروں کی قسمت خراب تھی کہ خود آ بیل مجھے مار والا حال کیا۔ کیونکہ ایک ہی دن میں جب ساری تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ کوئی آنٹی نما خاتون ہیں جو ان لڑکوں کے ذریعے ایسے ڈمب کال کرواتی ہیں اور بچوں اور لڑکیوں کو ٹریپ کرتی ہیں۔ دو دن کے اندر تمام معلومات لیکر باقاعدہ چھاپہ ڈلوایا گیا اور آنٹی بمعہ گینگ پکڑی گئیں۔
نتیجہ: معلوم نہیں کس کس طرح کے لوگ سہولیات کو کیسے کیسے کاموں میں استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں خود محتاط رہنا ہے تاکہ ایسے مسائل کا کم سے کم سامنا ہو۔
اب حوا کی بیٹی کو کوئی بتائے کہ برے صرف مرد ہی نہیں ہوتے
بات صرف اچھی یا بری تربیت اور ماحول کی ہوتی ہے ، برائی کو کسی ایک جنس سے مشروط نہیں کیا جاسکتا
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اب حوا کی بیٹی کو کوئی بتائے کہ برے صرف مرد ہی نہیں ہوتے
بات صرف اچھی یا بری تربیت اور ماحول کی ہوتی ہے ، برائی کو کسی ایک جنس سے مشروط نہیں کیا جاسکتا
متفق۔ ہم کسی ایک جنس کو لیبل نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
 
اس سارے مسئلے کی جڑ سروس پروائڈرز کے لئے کوئی کوڈ آف ایتھکس نہ ہونا ہے یا اگر ہے بھی تو اس پر عمل کو یقینی بنانے میں ناکامی ہے۔ وجہ وہی کہ ہمارے ہاں مانیٹرینگ اور اکاؤنٹیبیلٹی کی روایت مفقود ہے۔ برائی میں بہت کشش ہوتی ہے اور جب پوری پوری رات اور دن کے لئے ایک سے ایک پیکج دیئے جائیں پھر تقریباً ہر سروس پروائڈر کی طرف سے فضول قسم کی آفرز بھی موجود ہوں۔ آپ کا میڈیا ہر وقت فضول قسم کے موضوعات پر ڈرامے بنا کر پیش کرتا ہو تو لوگوں خصوصاً نوجوانوں اور بچوں کے ذہنوں اور حرکتوں میں ایسی ہی چیزیں غالب رہا کرتی ہیں۔ بھگتنا سب کو پڑتا ہے۔
آپ ایک گھنٹہ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جائیں تو آدھ گھنٹہ اشتہارات دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان اشتہارات میں بھی 80 فیصد موبائل کمپنیوں کی آفرز کا حصہ ہوتا ہے۔ فارغ لوگ، فری پیغامات اور فری منٹس کا پیکج ایسے ہی حالات کو جنم دیتا ہے جس کا نشانہ بلاتفریق مرد، عورت، بچے ، بوڑھے سب بنتے ہیں۔
یہ تو ہماری چند بڑی خامیوں میں سے ایک ہے
یہ درست تو ہے لیکن اصل مسئلہ کچھ اور ہے اور وہ ہے "ایسی ذہنیت"
جیسے کہ امجد میانداد بھائی نے بتایا کہ رانگ نمبرز تو ان پیکچز سے پہلے بھی ہوتے تھے
ہاں اب یہ ضرور ہوا ہے کہ یہ عمل بھیڑ چال کا شکار ہو گیا ہے اور بہت سارے لوگ تو ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ایسا کرنے لگے ہیں
ویسے اس کے سدباب کے لیےآپ کی تجاویز بہت عمدہ ہیں:applause:
 
حوا کی بیٹی
میں نہیں جانتا کہ آپ کی یہ جو سہیلی ہیں ان سے آپ کی دوستی کتنی پرانی ہے لیکن اگر یہ دوستی کچھ زیادہ پرانی نہیں تو یہ "پھانسنے کی چال" بھی ہو سکتی ہے
اب دیکھیں نا اگر انہیں یہ میسجز برے لگتے ہیں تو وہ انہیں آپ کو کیوں فارورڈ کرتی ہیں؟؟
کیا یہ جاننے کے لیے کہ آپ ایسی باتوں میں انٹرسٹ لیتی ہیں یا نہیں؟؟؟
جیسے کہ فرحت کیانی صاحبہ نے بتایا

ایک بار ایسا ہوا تھا کہ میری اماں کے فون پر ہماری ایک آنٹی نے ٹیکسٹ کیا کہ فون اٹھاؤ میں اپنے دوسرے نمبر سے کال کر رہی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور نمبر سے کال آ گئی جو انہوں نے اٹھائی تو دوسری طرف سے کسی نے بونگیاں مارنا شروع کر دیں۔اماں نے پوچھا کہ کس سے بات کرنی ہے اور کون ہے تو اس نے جواب میں پشتو میں کچھ کہنا شروع کر دیا۔ فون بند کرنے پر پھر بار بار کالز آنے لگیں۔ اماں نے میرے بھائی کو فون کر کے بتایا۔ انہوں نے پہلے خود جھاڑا پھر ان کے ایک کولیگ پختون تھے سے کہا کہ آپ ذرا سمجھائیں انہیں۔ ان کا خیال تھا کہ شاید کوئی ٹین ایجرز ہیں جو وقت گزاری کر رہے ہیں لیکن اثر ندارد۔ ہم نے کالز تو اٹینڈ نہیں کی لیکن بھائی نے اسی وقت وہ نمبر بڑے بھائی کو دیا۔ انہوں نے ریکارڈ نکلوا کر تفصیلات حاصل کیں۔ بیچاروں کی قسمت خراب تھی کہ خود آ بیل مجھے مار والا حال کیا۔ کیونکہ ایک ہی دن میں جب ساری تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ کوئی آنٹی نما خاتون ہیں جو ان لڑکوں کے ذریعے ایسے ڈمب کال کرواتی ہیں اور بچوں اور لڑکیوں کو ٹریپ کرتی ہیں۔ دو دن کے اندر تمام معلومات لیکر باقاعدہ چھاپہ ڈلوایا گیا اور آنٹی بمعہ گینگ پکڑی گئیں۔
اس لیے میرا آپ کو مشورہ ہے کہ محتاط رہیں
 

لالہ رخ

محفلین
اب حوا کی بیٹی کو کوئی بتائے کہ برے صرف مرد ہی نہیں ہوتے
بات صرف اچھی یا بری تربیت اور ماحول کی ہوتی ہے ، برائی کو کسی ایک جنس سے مشروط نہیں کیا جاسکتا


دیکھیں میں کسی ایک کو برا نہیں کہ رہی لیکن حالات و واقعات کو مدِ نظر رکھ کے ایک بات کی ہے سارے مرد ایک جیسے تو نہیں ہوتے نا ہی مجھے ان سے کوئی خاص پرخاش ہے وہ تو ان کے لیچڑ ہونے سے چڑ ہے مجھے ۔۔۔ وہ تو یہ ہو ہی جاتے ہیں :p
 

لالہ رخ

محفلین
ایک تو ان محترمہ کو اگر فون دیا گیا ہے تو اعتماد بھی دیا جانا چاہیے تاکہ وہ ایسی پریشانی کا گھر والوں سے اظہار کر سکیں، یہاں اسلام آباد میں تو ایک دو کیسز میں دیکھا ہے کہ 15 والے ایسے معاملات سے بہت اچھے نمٹتے ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ کہ اتنا گھبرانے کی ضرورت نہیں، طریقے سے نمٹا جائے، فون ہر بار اٹینڈ کر لیا جائے، مائک میوٹ کر کے۔
تیسرا طریقہ فون کے اندر بھی کالر بلاک کا سسٹم ہوتا ہے جس سے کسی مخصوص نمبر سے کال اور ایس ایم ایس بلاک کیے جا سکتے ہیں
چوتھا طریقہ آپ کی فون کمپنی بھی آپ کے لیے ایسے مطلوبہ نمبرز سے کال اور ایس ایم ایس بلاک کرتی ہے۔
پانچواں اگر وہ محترمہ خود فون کا غلط استعمال نہیں کرتیں تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ کچھ دنوں کے لیے اپنی سم اپنے کسی بھائی، والد، چچا، ماموں، کزن کسی کو بھی جس پہ اعتماد ہو اس کو دے دیں، اور جب اس بندے کو ہر بار مرد کا سامنا کرنا پڑے گا تو باز آ جائے گا۔ (یہ طریقہ 100٪ آزمایا ہوا اور کار آمد ہے)۔
چھٹا طریقہ فون کمپنی کو شکایت کی جائے، اور پی ٹی اے کو سی سی میں رکھ کے ایک ای میل کر دی جائے۔

اب آتا ہوں آپ کی بد تمیزی کی طرف:



دیکھیں عورتوں کے پاس فون، انٹرنیٹ، جابز، شخصی آزادی جیسی چیزیں مردوں کی نسبت دیر سے پہنچی، اس لیے پہلے ان سے مردوں نے ہر طرح کا فائدہ اٹھایا، لیکن جیسے جیسے عورتوں کو یہ سہولیات ملتی گئیں تو انہوں نے کہیں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی،

جب موبائل فون نہیں تھے تو کوئٹہ جیسے سخت ماحول میں مجھے پی ٹی سی ایل نمبر پہ لڑکیوں کی رونگ کالز آتی تھیں، اور کئی ایک نے تو بہت پریشانی بھی کھڑی کی اور ایک بار تو جب میں نے سی ایل آئی پہ نمبر دیکھ کر کال بیک کر کے گھر کے مرد کو کھری کھری سنائیں تو اسے غصہ آ گیا اور ہماری تکرار دوسرے فون سے ابو نے سن لی اور انہوں نے میرے کمرے سے فون ہی اکھاڑ پھینکا۔
اسی طرح ایک اور جاننے والی محترمہ نے بہت پریشان کیے رکھا اور پتہ نہیں چلتا تھا کہ پریشان کرنے والا کون ہے۔
پھر موبائل آنے کے بعد بھی یہی حال رہا اور اتنا تنگ بھی ہوا میں کہ اپنا گولڈن نمبر ہی امی کو دے دیا جو آج بھی ان کے استعمال میں ہے۔
شادی کے بعد کئی بار ازدواجی تعلقات پہ اثر پڑا رونگ کالز کا، اب بتائیں رات کو ایک دو بجے اگر فون آئے لڑکی کا بہلے میں بولوں نا رونگ نمبر اور بی بی آپ کیوں پریشان کرتی ہیں یا گالیاں بھی دے لوں اور بیوی کو اعتماد بھی ہو پر اثر تو پڑتا ہے نا۔
مجھے اسقدر پریشانی ہے رونگ نمبرز کی کے میں پہلے بیگم کے کونٹیکٹ لسٹ میں نمبر چیک کرتا ہوں پھر سب رشتہ داروں سے پوچھتا ہوں اور پھر سر نوچتا ہوں، یہاں تک کیا کہ پریشان کرنے والیوں کے نمبرز اپنے فارغ دوستوں کو بھی دئیے پر مجال ہے فرق پڑا ہوں ہاں خود کو ہی احساسِ شرمندگی ہوتا رہتا ہے پھر۔

اب بتائیں میں عورتوں کی بے عزتی کرنی شروع کر دوں اور ان کی پیدائش کو ذلالت کے میں شمار کروں، جن میں میری ماں میری جنت، میری راحت کا ساماں سی بہنیں، میری شریکِ حیات، اور مجھے عطا کی گئی پھول سی رحمتیں بھی شامل ہیں،
گندے کیڑے ہر معاشرے، ہر مذہب، ہر جنس اور ہر ملک اور قوم میں موجود ہوتے ہیں پر اس سے سب پہ کیچڑ نہیں اچھالنی چاہیے۔



ویسے تو جو میں نے کہا اس کو میں بدتمیزی نہیں سمجھتی اور میں نے یہ الفاظ جو بھی جیسے بھی استعمال کیے وہ ایک خاص کیفیت کے زیرِ اثر کیے اور اس کا مخاطب بے شک تمام مرد نہیں تھے میں نے ڈیفائن بھی کیا تھا کہ کون اور کیسے۔ اور مجھے تو بہت خوشی ہوئی کہ کسی لڑکی نے بھی ایسی ہمت کی آئندہ ایسا کوئی نمبر آپ کو تنگ کرے ''لڑکی '' کا تو مجھے ضرور دئجیئے گا اس کا نمبر مجھے بہت خوشی ہوگی ایسی بہادر خاتون کو ایکسپلور کر کے ۔ معاشرے میں کیچڑ جب ایک پہ بھی اچھلتا ہے تو اس کے اثرات کو سارے معاشرے پر بھی پڑتے ہیں ۔ اور ویسے آپ کو اتنی لڑکیوں کی رانگ کالز کس لیے آتیں تھیں اتنی فارغ لڑکیاں سیریسلی آئندہ ایسا کوئی نمبر ہو تو مجھے بھی دے دیجیے گا میں بھی دیکھوں ۔ اور ویسے 80٪ نوجوان نسل کا رحجان اس طرف ہے خاص کر مردوں کا اور اس بات سے آپ انکار نہیں کرسکتے۔
 

لالہ رخ

محفلین
حوا کی بیٹی
میں نہیں جانتا کہ آپ کی یہ جو سہیلی ہیں ان سے آپ کی دوستی کتنی پرانی ہے لیکن اگر یہ دوستی کچھ زیادہ پرانی نہیں تو یہ "پھانسنے کی چال" بھی ہو سکتی ہے
اب دیکھیں نا اگر انہیں یہ میسجز برے لگتے ہیں تو وہ انہیں آپ کو کیوں فارورڈ کرتی ہیں؟؟
کیا یہ جاننے کے لیے کہ آپ ایسی باتوں میں انٹرسٹ لیتی ہیں یا نہیں؟؟؟
جیسے کہ فرحت کیانی صاحبہ نے بتایا


اس لیے میرا آپ کو مشورہ ہے کہ محتاط رہیں

جی اس سلسلے میں مجھے کوئی مسءلہ نہیں ہے ہم 16 سال سے فرینڈز ہیں ۔
 

عسکری

معطل
مردوں کا کیا کہنا وہ عورتوں کو تو کیا خود مرد بھی ان کے دست ستم سے محفوظ نہیں فیس بک یاھو یوتیوب پر کنتے لاکھ ایسے ہین جو دوسرے مردون کو گندی غلیظ گالیاں دیتے ہین دن بھر ؟خود ہمیں بھی کبھی کبھار ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے جب سامنے والا نہایت ہی گندہ اور گھٹیا انسان تھا :(
 

لالہ رخ

محفلین
اپنا راز کُھلنے کا تو نہیں معلوم لیکن میرا خیال ہے کہ کچھ لڑکیاں شاید ڈرتی ہوں کہ گھر والے خصوصاً بھائی جذباتی ہو جاتے ہیں اور شاید یہ بھی خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں انہی کو غلط نہ سمجھ لیا جائے۔
کچھ دن فون کیا دینا اگر آپ رونگ کالر کا نمبر بھی گھر میں کسی کو دے دیں تو وہ اس کو ہینڈل کر سکتے ہیں۔ اور ایسا ہوتا بھی ہے۔
اور یہ بھی کہ اگر ہم فون کو بوقتِ ضرورت سہولت کے لئے استعمال کریں تو ایسے واقعات کم ہوتے ہیں۔ اگر فون فَن (انگریزی والا) کے لئے استعمال کیا جائے تو پھر بہت سی مشکلات اور قباحتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مجھے پہلا فون 2003ء میں لیکر دیا گیا تھا۔ تب سے اب تک الحمد اللہ مجھے کبھی بھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ میں اپنا نمبر بہت قریبی لوگوں کے علاوہ کسی کو نہیں دیتی اور انجانے نمبر سے کال کا جواب نہیں دیتی۔ ایک بار ایسا ہوا تھا کہ میری اماں کے فون پر ہماری ایک آنٹی نے ٹیکسٹ کیا کہ فون اٹھاؤ میں اپنے دوسرے نمبر سے کال کر رہی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور نمبر سے کال آ گئی جو انہوں نے اٹھائی تو دوسری طرف سے کسی نے بونگیاں مارنا شروع کر دیں۔اماں نے پوچھا کہ کس سے بات کرنی ہے اور کون ہے تو اس نے جواب میں پشتو میں کچھ کہنا شروع کر دیا۔ فون بند کرنے پر پھر بار بار کالز آنے لگیں۔ اماں نے میرے بھائی کو فون کر کے بتایا۔ انہوں نے پہلے خود جھاڑا پھر ان کے ایک کولیگ پختون تھے سے کہا کہ آپ ذرا سمجھائیں انہیں۔ ان کا خیال تھا کہ شاید کوئی ٹین ایجرز ہیں جو وقت گزاری کر رہے ہیں لیکن اثر ندارد۔ ہم نے کالز تو اٹینڈ نہیں کی لیکن بھائی نے اسی وقت وہ نمبر بڑے بھائی کو دیا۔ انہوں نے ریکارڈ نکلوا کر تفصیلات حاصل کیں۔ بیچاروں کی قسمت خراب تھی کہ خود آ بیل مجھے مار والا حال کیا۔ کیونکہ ایک ہی دن میں جب ساری تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ کوئی آنٹی نما خاتون ہیں جو ان لڑکوں کے ذریعے ایسے ڈمب کال کرواتی ہیں اور بچوں اور لڑکیوں کو ٹریپ کرتی ہیں۔ دو دن کے اندر تمام معلومات لیکر باقاعدہ چھاپہ ڈلوایا گیا اور آنٹی بمعہ گینگ پکڑی گئیں۔
نتیجہ: معلوم نہیں کس کس طرح کے لوگ سہولیات کو کیسے کیسے کاموں میں استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں خود محتاط رہنا ہے تاکہ ایسے مسائل کا کم سے کم سامنا ہو۔

مسلہ تو اللہ کا شکرہے مجھے بھی آج تک نہیں ہوا ۔ میں نے تو ایک معاشرتی مسلہ سامنے رکھا تھا اور ہمیں چھوڑ کر اس ملک میں 90٪ ایسی خواتین ہیں جنہیں اس طرح کے بہت سے مسائل ہیں معاملات یا مسائل ہم جیسے لوگوں کے لیے شاید جلدی حل ہوجاتے ہیں لیکن ان 90٪ خواتین یا لڑکیوں کا کوئی کیا کرے ۔
 

لالہ رخ

محفلین
ایک تو ان محترمہ کو اگر فون دیا گیا ہے تو اعتماد بھی دیا جانا چاہیے تاکہ وہ ایسی پریشانی کا گھر والوں سے اظہار کر سکیں، یہاں اسلام آباد میں تو ایک دو کیسز میں دیکھا ہے کہ 15 والے ایسے معاملات سے بہت اچھے نمٹتے ہیں۔
میں نے یہاں ایک مسلہ رکھا تھا اور اس کا حل مانگا تھا جو کہ آسان یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تربہت کی کمی ہے ۔ اعتماد کے مشورے کا شکریہ۔
دوسرا طریقہ یہ کہ اتنا گھبرانے کی ضرورت نہیں، طریقے سے نمٹا جائے، فون ہر بار اٹینڈ کر لیا جائے، مائک میوٹ کر کے۔
تیسرا طریقہ فون کے اندر بھی کالر بلاک کا سسٹم ہوتا ہے جس سے کسی مخصوص نمبر سے کال اور ایس ایم ایس بلاک کیے جا سکتے ہیں
چوتھا طریقہ آپ کی فون کمپنی بھی آپ کے لیے ایسے مطلوبہ نمبرز سے کال اور ایس ایم ایس بلاک کرتی ہے۔
پانچواں اگر وہ محترمہ خود فون کا غلط استعمال نہیں کرتیں تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ کچھ دنوں کے لیے اپنی سم اپنے کسی بھائی، والد، چچا، ماموں، کزن کسی کو بھی جس پہ اعتماد ہو اس کو دے دیں، اور جب اس بندے کو ہر بار مرد کا سامنا کرنا پڑے گا تو باز آ جائے گا۔ (یہ طریقہ 100٪ آزمایا ہوا اور کار آمد ہے)۔
چھٹا طریقہ فون کمپنی کو شکایت کی جائے، اور پی ٹی اے کو سی سی میں رکھ کے ایک ای میل کر دی جائے۔

اب آتا ہوں آپ کی بد تمیزی کی طرف:



دیکھیں عورتوں کے پاس فون، انٹرنیٹ، جابز، شخصی آزادی جیسی چیزیں مردوں کی نسبت دیر سے پہنچی، اس لیے پہلے ان سے مردوں نے ہر طرح کا فائدہ اٹھایا، لیکن جیسے جیسے عورتوں کو یہ سہولیات ملتی گئیں تو انہوں نے کہیں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی،

جب موبائل فون نہیں تھے تو کوئٹہ جیسے سخت ماحول میں مجھے پی ٹی سی ایل نمبر پہ لڑکیوں کی رونگ کالز آتی تھیں، اور کئی ایک نے تو بہت پریشانی بھی کھڑی کی اور ایک بار تو جب میں نے سی ایل آئی پہ نمبر دیکھ کر کال بیک کر کے گھر کے مرد کو کھری کھری سنائیں تو اسے غصہ آ گیا اور ہماری تکرار دوسرے فون سے ابو نے سن لی اور انہوں نے میرے کمرے سے فون ہی اکھاڑ پھینکا۔
اسی طرح ایک اور جاننے والی محترمہ نے بہت پریشان کیے رکھا اور پتہ نہیں چلتا تھا کہ پریشان کرنے والا کون ہے۔
پھر موبائل آنے کے بعد بھی یہی حال رہا اور اتنا تنگ بھی ہوا میں کہ اپنا گولڈن نمبر ہی امی کو دے دیا جو آج بھی ان کے استعمال میں ہے۔
شادی کے بعد کئی بار ازدواجی تعلقات پہ اثر پڑا رونگ کالز کا، اب بتائیں رات کو ایک دو بجے اگر فون آئے لڑکی کا بہلے میں بولوں نا رونگ نمبر اور بی بی آپ کیوں پریشان کرتی ہیں یا گالیاں بھی دے لوں اور بیوی کو اعتماد بھی ہو پر اثر تو پڑتا ہے نا۔
مجھے اسقدر پریشانی ہے رونگ نمبرز کی کے میں پہلے بیگم کے کونٹیکٹ لسٹ میں نمبر چیک کرتا ہوں پھر سب رشتہ داروں سے پوچھتا ہوں اور پھر سر نوچتا ہوں، یہاں تک کیا کہ پریشان کرنے والیوں کے نمبرز اپنے فارغ دوستوں کو بھی دئیے پر مجال ہے فرق پڑا ہوں ہاں خود کو ہی احساسِ شرمندگی ہوتا رہتا ہے پھر۔

اب بتائیں میں عورتوں کی بے عزتی کرنی شروع کر دوں اور ان کی پیدائش کو ذلالت کے میں شمار کروں، جن میں میری ماں میری جنت، میری راحت کا ساماں سی بہنیں، میری شریکِ حیات، اور مجھے عطا کی گئی پھول سی رحمتیں بھی شامل ہیں،
گندے کیڑے ہر معاشرے، ہر مذہب، ہر جنس اور ہر ملک اور قوم میں موجود ہوتے ہیں پر اس سے سب پہ کیچڑ نہیں اچھالنی چاہیے۔
 

لالہ رخ

محفلین
جی بالکل ٹھیک کہا آپ نے حل تو اس کے کئی ہیں لیکن لڑکیاں بھی آج کل عجب ڈھنگ میں ہیں بھائی یا والد کو بتانے سے ڈرنے کی کچھ اور بھی وجوہات ہیں اب، کہ کوئی اپنا راز نہ کھل جائے وغیرہ وغیرہ،
آپ کو تجسس اور پریشانی کیا ہے بھئی اگنور کریں یا میرا مشورہ مانیں تو صرف کچھ دن کے لیے (اگر پردہ چاک ہونے کا ڈرنہ ہو تو) سم بھائی یا گھر کے کسی مرد کو دے دیں جب ان کو ہر بار مرد کا سامنا ہو گا تو باز آ جائیں گے۔ یا فون نہ بھی دیں تو ان کو کم از کام پریشانی کا بتا تو دیں۔ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا۔

اگنور کرنے کے علاوہ حل مانگا تھا میں نے ۔ راز نہ کھل جائے ہاہاہاہاہاہ ویسے پوائنٹ اچھا ہے
 

لالہ رخ

محفلین
مجھے اسقدر پریشانی ہے رونگ نمبرز کی کے میں پہلے بیگم کے کونٹیکٹ لسٹ میں نمبر چیک کرتا ہوں پھر سب رشتہ داروں سے پوچھتا ہوں اور پھر سر نوچتا ہوں، یہاں تک کیا کہ پریشان کرنے والیوں کے نمبرز اپنے فارغ دوستوں کو بھی دئیے پر مجال ہے فرق پڑا ہوں ہاں خود کو ہی احساسِ شرمندگی ہوتا رہ



آپ کو تجسس یا پریشانی کی کیا ضرورت ہے اگنور کریں اور اگر آدھی رات کو فون اٹینڈ بھی کرتے ہیں رانگ کالر کا تو گھروالوں کو اعتماد میں بھی لیں :) ویسے تو بڑا خوب کام کرتے ہیں لڑکیوں کے نمبر فارغ دوستوں کو دے کر معاشرے میں نیکی پھیلا رہے ہیں آپ تو
 

لالہ رخ

محفلین
اس سارے مسئلے کی جڑ سروس پروائڈرز کے لئے کوئی کوڈ آف ایتھکس نہ ہونا ہے یا اگر ہے بھی تو اس پر عمل کو یقینی بنانے میں ناکامی ہے۔ وجہ وہی کہ ہمارے ہاں مانیٹرینگ اور اکاؤنٹیبیلٹی کی روایت مفقود ہے۔ برائی میں بہت کشش ہوتی ہے اور جب پوری پوری رات اور دن کے لئے ایک سے ایک پیکج دیئے جائیں پھر تقریباً ہر سروس پروائڈر کی طرف سے فضول قسم کی آفرز بھی موجود ہوں۔ آپ کا میڈیا ہر وقت فضول قسم کے موضوعات پر ڈرامے بنا کر پیش کرتا ہو تو لوگوں خصوصاً نوجوانوں اور بچوں کے ذہنوں اور حرکتوں میں ایسی ہی چیزیں غالب رہا کرتی ہیں۔ بھگتنا سب کو پڑتا ہے۔
آپ ایک گھنٹہ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جائیں تو آدھ گھنٹہ اشتہارات دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان اشتہارات میں بھی 80 فیصد موبائل کمپنیوں کی آفرز کا حصہ ہوتا ہے۔ فارغ لوگ، فری پیغامات اور فری منٹس کا پیکج ایسے ہی حالات کو جنم دیتا ہے جس کا نشانہ بلاتفریق مرد، عورت، بچے ، بوڑھے سب بنتے ہیں۔

میرا خیال ہے ایسے حالات میں انہی ٹپس پر عمل کرنا چاہئیں جو اوپر سب نے دیں۔

اپنا فون نمبر بہت کم اور بہت قریبی لوگوں کو دینا چاہئیے۔ ہم جماعتوں یا دیگر لوگوں کے لئے بہترین آپشن گھر کا لینڈ لائن نمبر ہے۔
ایزی لوڈ کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ اس کا حقیقی فائدہ کیا ہے۔ آپ اگر دوکان پر جا کر اپنے نمبر پر ایزی لوڈ کروا رہے ہیں تو کارڈ کیوں نہیں خرید سکتے۔ اور اگر کوئی اور آپ کے لئے ایزی لوڈ کروا رہا ہے تو وہ آپ کو کارڈ کا نمبر کیوں نہیں بھیج سکتے۔ میں جب پاکستان واپس آئی تھی مجھے پری پیڈ کنکشن لیکر دیا گیا تھا اور میرا کارڈ ہمیشہ میرے بڑے بھائی یا ابو لایا کرتے تھے۔ سو کبھی ایسا مسئلہ درپیش نہیں ہوا الحمداللہ۔ بعد میں پوسٹ پیڈ پر کنورٹ کروا دیا تو مزید آسانی ہو گئی۔ سب سے بڑی آسانی تو یہ ہوئی کہ بِل ابھی بھی ابو یا بھائی کے ذمہ ہے :openmouthed: ۔ وہ اپنے بلز کے ساتھ میرا بھی ادا کر دیتے ہیں۔ بچت ہی بچت :angel:۔
اس کے باوجود اگر ایسی پریشانی آتی ہے تو پہلا حل کہ انجانے نمبروں سے کال نہیں لینی چاہئیے۔ جو جاننے والے ہیں وہ اگر نئے نمبر سے کال کریں گے تو پیغام چھوڑ دیں گے کہ کس کا فون تھا۔
دوسرا حل: کبھی بھی ایسے نمبرز یا لوگوں سے بات یا بحث نہیں کرنی چاہئیے ۔ ناں ووائس کال پر نا ٹیکسٹ کے جواب میں۔ کچھ عرصہ بعد خود ہی پیچھے ہٹ جائیں گے۔ لیکن اس کے لئے صبر اور ضبط کی بہت ضرورت ہے۔یہ خصوصاً لڑکیوں کے لئے ہے کہ اگر آپ ڈانٹنے یا منع کرنے کے لئے بھی فون کا جواب دیں گی یا ٹیکسٹ کریں گی تو امکانات ہیں کہ تنگ کرنے والا مزید ہٹ دھرمی سے آپ کو تنگ کرے گا۔ لیکن مسلسل خاموشی کے جواب میں اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ ایسا کالر پیچھے ہٹ جائے۔
تیسرا حل: کال بلاک۔ فون سیٹ پر بھی اور فون سروس والوں سے کہہ کر بھی۔
چوتھا حل: گھر کے بڑوں کو بتائیں اور خود مزے سے بے فکر ہو جائیں۔


یہ سارے حل تو مجھے پہلے سے ہی پتا تھے آئی واز لوکنگ فار سم نیو آیڈیا
 
Top