مردوں سے شکایت کے ساتھ

نبیل

تکنیکی معاون
فون نمبر اور ای میل پتہ وغیرہ ذاتی معلومات میں شمار ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ان کی حفاظت کے بارے میں بہت کم آگاہی رکھتے ہیں۔ بہتر ہے کہ پہلے ہی ذاتی رابطے کی معلومات صرف انتہائی ضرورت پر فراہم کی جائیں تاکہ ایسی صورتحال سے حتی الامکان بچا جا سکے۔ اور جس کو نمبر دیا جائے اسے تاکید بھی کر دی جانی چاہیے کہ وہ یہ نمبر بغیر پوچھے آگے کسی کو فراہم نہ کرے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آج کل سبھی سوشل نیٹورکنگ کی رو میں بہے جا رہے ہیں اور ذاتی معلومات انٹرنیٹ تک پر عام کر دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے کیسز بھی سامنے آ چکے ہیں کہ خود موبائل سم بیچنے والے خواتین کے نمبر قیمتا آگے بیچتے ہیں۔

میں یہ کہنے کی جسارت بھی کروں گا کہ کچھ دنوں کے لیے موبائل فون کو اپنی زندگی سے نکالنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ آج کل لوگ اپنے سمارٹ فونز میں ہی گھسے نظر آتے جہاں ہر وقت ٹوئٹر یا فیس بک کی لایعنی نوٹیفیکیشن آتی رہتی ہیں۔ کچھ دن موبائل فون آف کرنے کا تجربہ کرکے دیکھیں، امکان ہے کہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
 

محمد امین

لائبریرین
مشرف نے خواتین کے تحفظ کا بل پاس کیا تھا۔۔۔ کوئی مرد کسی عورت کو گھور کر بھی دیکھ لے تو وہ اس کے خلاف کیس کرسکتی ہے۔۔۔
 

عسکری

معطل
ہاہاہاہا۔۔۔ زہر کا تریاق بھی زہر ہی ہے :confused:
نہیں یہ سب باتیں ہیں ٹارچر کسی مسئلے کا حل ہوتا تو جتنا خون ہم نے غیرت یا اسلام کے نام پر بہایا اب ملک میں ہر بندہ عالم دین پانچ وقتی نمازی اور سب کے سب ایماندار ترین ہوتے - اور کوئی بھی لڑکی کسی غیر مرد کی طرف آنکھ اٹھا کر نا دیکھتی ۔ پر حالت بالکل بر عکس ہے ۔
 

عسکری

معطل
مشرف نے خواتین کے تحفظ کا بل پاس کیا تھا۔۔۔ کوئی مرد کسی عورت کو گھور کر بھی دیکھ لے تو وہ اس کے خلاف کیس کرسکتی ہے۔۔۔
کسے اور کیسے جناب یہ پاکستان ہے :rolleyes: یہاں اپنی بہن بیوی بیٹی کے علاوہ باقی سب کی کوئی عزت نہین ہے
 
یہ انتہائی افسوس ناک المیہ ہے۔ ہم نے کئی دفعہ اس کے اسباب پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہونچے کہ بے کاری اس کا بنیادی سبب ہے اور ایسے معاملات میں قانونی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے جس نے ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو بے خوف بنا رکھا ہے۔ گو کہ رابطہ نمبر خفیہ رکھنے کی کوشش کسی حد تک معاون ہو سکتی ہے لیکن بعض ایسے طریقے ہیں جن کے چلتے ایسا کر پانا مشکل ہے۔ ہندوستان میں ہم نے یہ پایا ہے کہ فون کمپنیوں کے کال سینٹر میں نوجوان طبقہ کام کرتا ہے۔ عموماً وہ لڑکے اور لڑکیاں جن کو کہیں بہتر جاب نہیں ملتی وہ کچھ عرصہ کسی کال سینٹر میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس فون سے متعلق شکایات درج کرانے والوں اور والیوں کے نام اور پتے تک موجود ہوتے ہیں۔ اور پوری توثیق کے ساتھ وہ اپنے دوستوں میں ایسے نمبروں اور ناموں کی فہرست منتقل کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بے کاری کے مارے لوگ اکثر یوں ہی رینڈم نمبر ڈائل کرتے رہتے ہیں اور خود کو کسی بیمہ پالیسی کا ایجنٹ بتا کر متعارف کراتے ہیں دوسری جانب سے معذرت کر کے فون رکھ دیا جاتا ہے تو اس سے ان کے فون ڈیٹابیس میں فون نمبر اور اس کے حامل کے جنس کا ریکارڈ محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور بھی بہت سارے چور راستے ہیں جو باوجود لاکھ کوشش کے محفوظ نہیں کیے جا سکتے۔ :)

ایک دو دفعہ ہمیں بھی ایسے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا ہے۔ ایک بچی نے تو ہمیں مسڈ کال اور ایس ایم ایس کر کے زچ کر رکھا تھا۔ ابتدا میں تو ہم نے نظر انداز کیا اور یہ سمجھتے رہے کہ کوئی شناسا ہوں گے جو مذاق فرما رہے ہیں لیکن جب تنگ آ گئے تو فون کر کے ان کو منع کرنے کی کوشش کی اس پر دوسری جانب سے کوئی آواز ہی نہیں آتی۔ آخر ایک دفعہ انھوں نے جواب دیا اور تب ہم نے پایا کہ دوسری جانب کسی کالج کی نو عمر بچی ہے۔ ہم نے سمجھایا کہ بیٹا ایسے کسی کو تنگ نہیں کرتے، آپ کا مسئلہ کیا ہے تو کہنے لگیں کہ ہم بور ہو رہے تھے تو آپ کو کال کیا۔ ہم نے پوچھا کہ آپ ہمیں جانتی ہیں، کہنے لگیں کہ نہیں۔ ہم نے ان کو سمجھایا کہ یوں کسی کو آتے جاتے اٹھتے بیٹھے سوتے جاگتے تنگ کرنا اچھی بات نہیں۔ آپ اپنے والدین اور قریبی دوستوں کے ساتھ وقت صرف کر لیا کریں یا کوئی دوسرا مثبت کام کر لیا کریں، مطالعہ کر لیا کریں یا گھر داری میں والدہ کا ہاتھ بٹا لیا کریں۔ پتا نہیں ہماری اس بات کا ان پر کوئی اثر ہوا یا نہیں لیکن اس کے بعد پیغامات کی شدت میں کمی آ گئی اور پھر چند ہفتوں کے بعد ہم امریکہ آ گئے تو جان چھوٹی۔ :)

یہاں آنے کے بعد سے کبھی ایسا کوئی مسئلہ سامنے نہیں آیا۔ ویسے بھی ہم گوگل وائس استعمال کرتے ہیں جس کی مدد سے ہم تنگ کرنے والوں کو چٹکیوں میں بلیک لسٹ کر سکتے ہیں۔ نیز یہاں پولیس کو شکایت بھی درج کرائی جا سکتی ہے کیوں کہ فون نمبر جاری کرتے ہوئے شناخت نامہ پیش کرنا ضروری ہوتا ہے اس لیے لوگوں میں خوف ہوتا ہے۔ :)
 
Top