کاشفی

محفلین
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل

محوِ حیرت ہیں ترے شہرہِ آفاقی پر
شک کسی کو نہیں رہبر تری قزاقی پر

منتظر بزم ہے لغزش ہو کوئی کب مجھ سے
کیوں نگاہیں نہیں رہتی ہیں کبھی باقی پر

ہر طرف پھیل گئی بزم میں افراتفری
تھی خطا بزم کی، الزام لگا ساقی پر

عقل کیا دے دی خدا تو نے ذرا انساں کو
وہ اٹھاتا ہے سوال اب تری خلاقی پر

موت آغوش میں لینے کو ہے اے چارہ گر
حرف آ ہی گیا آخر تری تریاقی پر

پاس کوئی نہ ہنر اورنہ ہے محنت، نہ لگن
اعتراضات ہیں رزاق کی رزاقی پر

بات جاوید کریں کیا تری پرواز کی ہم
محوِ حیرت ہیں تری فکر کی براقی پر
 
Top