محفل چائے خانہ

سیما علی

لائبریرین
1- ایک غلطی جو بازاروں سے شروع ہو کر اب کتابوں تک پہنچ چکی ہ۔ے وہ یہ ہ۔ے کہ لفظ”عوام“ کو مونث کر کے اسے واحد بنا دیا گیا ہ۔ے۔
چناں چہ پہلے جو عوام (عام کی جمع) ہوتے تھے، اب ہوتی ہ۔ے۔ بعض تعلیم یافتہ لوگ بھی کہنے لگے ہیں ”ہماری عوام بہت باشعور ہ۔ے“
ہمیں عوام کے مؤنث ہوجانے پر اتنا اعتراض نہیں، اصل رونا اس بات کا ہ۔ے کہ ان ب۔ے چاروں (یا ب۔ے چاریوں) کو واحد کردیا گیا ہ۔ے۔

2-. آپ کو اکثر ایسے دعوت نامے ملتے ہوں گے جن میں لکھا ہوتا ہ۔ے کہ تقریب ”مورخہ؛ کو منعقد ہوگی۔“ حالاں کہ ”مورخہ“ ماضی کی تاریخ کے لی۔ے آتا ہ۔ے جیسے مورخہ 4 اپریل کے اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی تھی۔
آنے والی تاریخ کے لی۔ے اگر چاہیں تو”بتاریخ“ لکھ دیں جیسے ”بروز“ لکھا جاتا ہ۔ے۔

3-. بعض الفاظ کے املأ میں بلاوجہ اضافے کر دی۔ے گئے ہیں،
مثلاً انکسار کی جگہ "انکساری" تقرر کی جگہ "تقرری"، تنزل کی جگہ "تنزلی" تابع کی جگہ "تابعدار" مع کی "بمع یا بمعہ" لکھنا عام ہ۔ے۔

4-وفات ایک عام لفظ ہ۔ے. اب اس کو کئی لوگ "فوتگی" کہنے لگے ہیں. پھر کچھ لوگوں کی اس بھی تسلی نہیں ہوتی اور وہ اس کو مزید بڑھا کر "فوتیتگی" کہنے لگے ہیں.

5- . بعض اشعار غلط رائج ہو گئے ہیں۔ مثلاً غالب کا شعر ہ۔ے:
جی ڈھونڈتا ہ۔ے پھر وہی فرصت ”کہ” رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کی۔ے ہوئے.
پہلے مصرع میں عام طور پر”فرصت کے رات دن“پڑھا جاتا ہ۔ے۔

6--. درد کا ایک ضرب المثل شعر ہ۔ے.

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لی۔ے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

دوسرے مصرع میں”کروبیاں“ کروبی کی جمع ہ۔ے جس کے معنی ہیں مقرب فرشتہ۔ بہت سے لوگ ”کروبیاں“ کو ”کرو۔ بیاں“ کہتے سنے گئے جیسے یہ”کروفر“ قسم کا کوئی لفظ ہو۔
7- . ”ماشاء ﷲ“ جو ایک کلمہ تحسین و آفرین ہ۔ے اس کے بعد ”سے“ کا لاحقہ لگ گیا ہ۔ے۔ اچھے خاصے سمجھ دار لوگ کہتے ہیں”ماشاء ﷲ سے میرا بیٹا بڑا ذہین ہ۔ے۔“

8/ اسی طرح ”دونوں فریقین“ پر غور فرمائی۔ے ”فریقین“ کے تو معنی ”دو فریق“ ہیں پھر اس میں”دونوں“ کا سابقہ کیوں؟
منقول
 

سیما علی

لائبریرین
ٹامک ٹوئیاں
احمد حاطب صدیقی (ابونثر)

میاں چنوں سے میاں امجد محمود چشتی کی ایک چٹھی موصول ہوئی ہے:

’’السلام علیکم سر! ممکن ہو تو ’ٹامک ٹوئیاں مارنا‘ کی عجیب اصطلاح پر رہنمائی فرمائیے گا۔اس کا اُردو سے تعلق نہیں مل رہا ہے‘‘۔

ارے بھائی اس کا اُردو سے تعلق ملے کیسے؟ اُردو والوں میں سے جسے دیکھو وہی اس دُکھیا کو مارنے دوڑتا ہے۔ لیکن صاحب! یہ بتائیے، کیا اُردو سے تعلق جاننے کے لیے فقط اتنا جان لینا کافی نہیں کہ یہ اُردو کا محاورہ ہے اور اُردو میں استعمال ہورہا ہے؟ جہاں تک عجیب ہونے کا تعلق ہے تو جناب! ہر لفظ ہی عجیب ہے۔ تھوڑی دیر تک لفظ ’عجیب‘ ہی کو عجیب عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے (گن کر) چالیس بار ’’عجیب… عجیب… عجیب‘‘ کی رَٹ لگا کر دیکھیے۔ پھر بتائیے، کیا اس سے زیادہ عجیب لفظ کوئی اور ہے؟

یوں تو ٹامک ٹوئیاں مارنے یا ’ٹامک ٹوئیے‘ مارنے کا مفہوم ہے: ’اِدھر اُدھر ہاتھ چلانا، اَٹکل پَچُّو یا اندازے سے کوئی کام کرنا، اُلٹے سیدھے قدم اُٹھانا، خیالی و قیاسی باتیں کرنا، یا بے نتیجہ کد و کاوش کرنا‘۔ اِنھیں معنوں کو مستعار لے کرآوارہ گردی کرنے اور خیالی گھوڑے دوڑانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ پھراگر کسی کام کو کرنے کا صحیح طریقہ معلوم نہ ہو اور تیر تکّے لگا کر یا “Hit & trial method’ سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس عمل کو بھی ’ٹامک ٹوئیاں مارنا‘ کہا جاتا ہے۔ مگر دیکھنا چاہیے کہ آخر اس مار پیٹ کی کُنْہ کیا ہے؟ (’کنہ‘ کو مُنہ کی طرح پڑھتے ہیں اور اس کا مطلب ہے تَہ، گہرائی، جڑ یا اصلیت)

لغات میں اس سے ملتا جلتا ایک اور محاورہ ملتا ہے: ’’ٹاپَک ٹُوئیاں مارنا‘‘ یا ’’ٹاپک ٹُیّاں مارنا‘‘۔ بینڈ باجا بجانے والوں کے ہاں آپ نے ایک باجا دیکھا ہوگا، جس کو ڈھول کی طرح گلے میں ڈال کر بجاتے ہیں۔ یہ باجا عربی میں طاسہ، فارسی میں تاسہ اور اُردو میں تاشہ کہلاتا ہے۔ میر انیسؔ کے فرزندِ اکبر میر خورشید علی نفیسؔ کے ایک مرثیے میں بھی اس باجے کا ذکر ملتا ہے:

آتی تھی صدا صاف، کڑکتے تھے جو تاسے
صدقے ترے اے تین شب و روز کے پیاسے

آج بھی تعزیہ نکالنے والے تعزیے کے پیچھے تاشے پیٹتے نظر آتے ہیں۔ کَڑکتے ہوئے تاشے۔ ’کڑ کڑ کَیں،کڑا کڑ،کڑ کڑ کَیں‘۔ جن لکڑیوں سے یہ تاشہ پیٹا جاتا ہے یا جن چوبوں سے تاشے پرضرب لگائی جاتی ہے، اُن کی جوڑی کو ’’ٹاپک ٹوئیاں‘‘ یا ’’ٹاپک ٹُیّاں‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ تاشہ بجانے والے اپنے دونوں ہاتھوں سے ان چوبوں کو تاشے پر جلدی جلدی، تیز تیز اور اندھادھند برساتے ہوئے اپنی گردن ہلاتے رہتے ہیں۔ شاید یہ بتانے کو کہ اس کام میں کچھ سوچنا پڑتا ہے نہ سمجھنا۔ بس تاشے پر ٹاپک ٹوئیاں مارتے جائیے اور اپنا سر (مع گردن) اِدھر اُدھر ہلاتے رہ جائیے۔ مگر پروفیسر انورؔ مسعود تو یہ کہتے ہیں کہ ایسے ہی لوگ سمجھ سوچ والے ہوتے ہیں:

ہیں وہی واقفِ اسرار و رموزِ نغمہ
بزمِ موسیقی میں جو سر کو ہِلانے لگ جائیں

یہ دو چوبیں، جن میں سے ایک ٹاپَک اور دوسری ٹُوئی کہلاتی ہے، تاشے پر پڑتی ہیں تو دو مختلف کڑک دار آوازیں نکالتی ہیں۔ اِنھیں آوازوں سے تاشے کی گَت بنتی ہے اور تاشہ پیٹنے والے کی دُرگت۔ ’’ہاپک، جھاپک، ٹاپک، ٹُوں‘‘۔ ’ٹاپک‘ کا لفظ غالباً ’ٹاپ‘ سے نکلا ہے۔ ’ٹاپ ‘اُس آواز کو کہتے ہیں جو گھوڑے کے چلتے یا دوڑتے وقت زمین پر اُس کا سُم پڑنے سے نکلتی ہے۔گھوڑا کھڑے کھڑے زمین پر اپنے اگلے پاؤں مارنا شروع کردے تب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ’’گھوڑا ٹاپ رہا ہے‘‘۔ اسی عمل سے محاورہ بھی بن گیا ہے ’ٹاپنا‘۔ اگر کسی شخص کو بتانا ہو کہ تمھاری بھاگ دوڑ محض ہماری نصیحت نہ ماننے کی وجہ سے بے معنی رہ جائے گی یا رائیگاں چلی جائے گی، تو کہا جاتا ہے: ’’ میاں ایسا ایسا کرلو، ورنہ ٹاپتے رہ جاؤ گے‘‘۔ اسی طرح اگرکوئی شخص مارا مارا پھر رہا ہو یا حیران و پریشان ہو ہو کر جابجا بھٹک رہا ہو تو اُس کی اِس کیفیت کو بیان کر نے کے لیے بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ ’’وہ ٹاپتا پھر رہا ہے‘‘۔

شیخ قلندر بخش جرأتؔ کا توسنِ فکر بھی (یعنی اُن کے خیال کا گھوڑا) اُن کے ساتھ ساتھ ٹاپا کرتا تھا:

خالی زمینِ شعر نظر آئے ہے تو بس
جرأتؔ لگے ہے توسنِ فکر اپنا ٹاپنے

توبس یوں سمجھ لیجے کہ گھوڑے کے قدموں کی چاپ کو ہم گھوڑے کی ٹاپ کہتے ہیں۔ اس کی چاپ بھی تو Topکی ہوتی ہے۔ غالباً اسی ٹاپ کی آواز نکالنے والی چوب کو ’ٹاپک‘ کہا گیا۔ ٹاپک کا سرا آگے سے چوڑا اور پیچھے سے پتلا ہوتا ہے۔ اب رہ گئیں ’ٹُوئیاں‘۔

ویسے تونرسل، سرکنڈے یا نیزے کی ایک پور کو ’ٹوئی‘ کہا جاتا ہے۔ پور اُس حصے کوکہتے ہیں جو گنّے کے ڈنڈے یا بانس کی لاٹھی میں دو گانٹھوں یا دو گرہوں کا درمیانی فاصلہ ہوتا ہے۔ ہماری ہراُنگلی کے تین جوڑ ہوتے ہیں۔ ان جوڑوں کے درمیانی حصے کو بھی اُنگلی کی پور کہا جاتا ہے۔ پور کا مطلب ہے ٹکڑا۔ نَیزہ پتلے بانس یعنی نرسَل یا نرکُل کو کہتے ہیں، جس سے بانسری بنائی جاتی ہے۔ نَیزہ دراصل ’نَے زہ‘ تھا۔ نَے بانسری کو کہتے ہیں اور بانسوں یا سرکنڈوں کے جس جُھنڈ سے ’نَے‘ الگ کی جاتی ہے اُسے نیستاں کہتے ہیں۔ احسان دانشؔ کہتے ہیں کہ جس بانس سے ۔نَے‘ تراش لی جائے اُس کا زخم کبھی نہیں بھرتا، ناسُور بن جاتا ہے اور اِس جدائی کے غم میں بانسری بھی عمر بھر روتی ہی رہتی ہے:

ناسُور بھر سکے نہ فغاں ضبط ہو سکی
جب نَے کو نیستاں سے جدا کر دیا گیا

’نَے زَہ‘ ملا کر لکھتے لکھتے نیزہ ہی ہوگیا۔ نیزے کی اسی ’ٹوئی‘ سے قلم بھی بنایا جاتا تھا۔ موجودہ نسل میں سے شاید ہی کسی نے نیزے یا سرکنڈے کا قلم دیکھا ہو۔ مگرممکن ہے کہ تصویر کہیں سے دیکھنے کو مل جائے۔ مل جائے تو جان لیجے کہ اسی لکڑی کو ’ٹُوئی‘ کہا جاتا تھا۔ اس کی جمع ٹوئیاں ہے۔ لیکن ’ٹوئیاں‘ یا ’’ٹُیّاں‘ ایک قسم کے چھوٹے توتے (یا طوطے) کو بھی کہتے ہیں۔ ٹُیّاں اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس کی پست قامتی دیکھ کر کسی ننھے منے بچے اور کسی پستہ قد آدمی کو بھی ٹُیّاں کہہ کر پُکارلیا جاتا ہے۔
قصہ مختصر۔ ’’ٹاپک ٹُوئیاں‘‘ ایسی دو لکڑیاں ہیں جن کو تاشے پر اندھا دھند مارتے رہنا ’’ٹاپک ٹوئیاں مارنا‘‘ کہلاتا ہے۔ جو لوگ بے تاشے کے یہ خیالی چوبیں برساتے رہتے ہوں گے وہ شاید ’’ٹامک ٹوئیاں‘‘ مارتے ہوں۔ ’ٹامک‘ کا ہمیں بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ گو اب ’ٹاپک ٹوئیاں مارنے‘ کی اصطلاح لغت کے سوا کہیں نظر نہیں آتی، مگر ’ٹامک ٹوئیاں‘ مارنے والے ہر طرف نظر آتے ہیں۔کسی اور طرف دیکھنے کی کیا ضرورت؟ ہماری طرف ہی دیکھ لیجے۔ مگر صاحب! ہمیں کیا مار آئی ہوئی ہے کہ ہم ناحق ٹامک ٹوئیاں ہی مارتے رہیں۔ توپ، بندوق، تیغ، تلوار، تیر، برچھی، بھالا، چھری، چاقو، قینچی، لاٹھی، ڈنڈا، گھونسا، تھپڑ، لات اور طمانچہ جیسے آلاتِ حرب و ضرب عدو کے منہ پر مارنے کے علاوہ بھی بہت کچھ بچ رہتا ہے مارنے کو۔ مثلاً ہُنکاری مارنا یعنی کسی کی بات سنتے وقت مسلسل ’ہوں ہاں‘ کرتے رہنا۔ گپ مارنا۔ پہلے قہقہے مارنا، پھر دھاڑیں مارنا۔ فارغ ہوکر اطمینان سے آلتی پالتی مارنا۔ آلتی پالتی مار کر ڈینگیں مارنا۔ ڈینگ مارتے ہوئے آنکھ مارنا۔ کسی کا چاند سا چہرہ دیکھ کر ہائے مارنا۔ کسی لفنگے کو ہائے مارتے دیکھ کر پہلے بُکَّل مارنا پھر گھونگھٹ مارلینا۔ یہ سب تماشا دیکھ، دریائے حیرت میں غوطے مارنا۔ غوطہ مارتے ہوئے کسی سے آگے نکل جانے کے لیے اُسے کہنی مارنا۔ علاوہ ازیں پھول مارنا، چونچ مارنا، بانگ مارنا، جھانکی مارنا، مکھیاں مارنا اور ٹھاٹھیں مارنا وغیرہ وغیرہ۔ ٹھاٹھیں کیسے مارتے ہیں؟ کسی سمندر سے جا کر پوچھنا پڑے گا!!!!!!!!
 

محمداحمد

لائبریرین
ٹامک ٹوئیاں
احمد حاطب صدیقی (ابونثر)

میاں چنوں سے میاں امجد محمود چشتی کی ایک چٹھی موصول ہوئی ہے:

’’السلام علیکم سر! ممکن ہو تو ’ٹامک ٹوئیاں مارنا‘ کی عجیب اصطلاح پر رہنمائی فرمائیے گا۔اس کا اُردو سے تعلق نہیں مل رہا ہے‘‘۔

ارے بھائی اس کا اُردو سے تعلق ملے کیسے؟ اُردو والوں میں سے جسے دیکھو وہی اس دُکھیا کو مارنے دوڑتا ہے۔ لیکن صاحب! یہ بتائیے، کیا اُردو سے تعلق جاننے کے لیے فقط اتنا جان لینا کافی نہیں کہ یہ اُردو کا محاورہ ہے اور اُردو میں استعمال ہورہا ہے؟ جہاں تک عجیب ہونے کا تعلق ہے تو جناب! ہر لفظ ہی عجیب ہے۔ تھوڑی دیر تک لفظ ’عجیب‘ ہی کو عجیب عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے (گن کر) چالیس بار ’’عجیب… عجیب… عجیب‘‘ کی رَٹ لگا کر دیکھیے۔ پھر بتائیے، کیا اس سے زیادہ عجیب لفظ کوئی اور ہے؟

یوں تو ٹامک ٹوئیاں مارنے یا ’ٹامک ٹوئیے‘ مارنے کا مفہوم ہے: ’اِدھر اُدھر ہاتھ چلانا، اَٹکل پَچُّو یا اندازے سے کوئی کام کرنا، اُلٹے سیدھے قدم اُٹھانا، خیالی و قیاسی باتیں کرنا، یا بے نتیجہ کد و کاوش کرنا‘۔ اِنھیں معنوں کو مستعار لے کرآوارہ گردی کرنے اور خیالی گھوڑے دوڑانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ پھراگر کسی کام کو کرنے کا صحیح طریقہ معلوم نہ ہو اور تیر تکّے لگا کر یا “Hit & trial method’ سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس عمل کو بھی ’ٹامک ٹوئیاں مارنا‘ کہا جاتا ہے۔ مگر دیکھنا چاہیے کہ آخر اس مار پیٹ کی کُنْہ کیا ہے؟ (’کنہ‘ کو مُنہ کی طرح پڑھتے ہیں اور اس کا مطلب ہے تَہ، گہرائی، جڑ یا اصلیت)

لغات میں اس سے ملتا جلتا ایک اور محاورہ ملتا ہے: ’’ٹاپَک ٹُوئیاں مارنا‘‘ یا ’’ٹاپک ٹُیّاں مارنا‘‘۔ بینڈ باجا بجانے والوں کے ہاں آپ نے ایک باجا دیکھا ہوگا، جس کو ڈھول کی طرح گلے میں ڈال کر بجاتے ہیں۔ یہ باجا عربی میں طاسہ، فارسی میں تاسہ اور اُردو میں تاشہ کہلاتا ہے۔ میر انیسؔ کے فرزندِ اکبر میر خورشید علی نفیسؔ کے ایک مرثیے میں بھی اس باجے کا ذکر ملتا ہے:

آتی تھی صدا صاف، کڑکتے تھے جو تاسے
صدقے ترے اے تین شب و روز کے پیاسے

آج بھی تعزیہ نکالنے والے تعزیے کے پیچھے تاشے پیٹتے نظر آتے ہیں۔ کَڑکتے ہوئے تاشے۔ ’کڑ کڑ کَیں،کڑا کڑ،کڑ کڑ کَیں‘۔ جن لکڑیوں سے یہ تاشہ پیٹا جاتا ہے یا جن چوبوں سے تاشے پرضرب لگائی جاتی ہے، اُن کی جوڑی کو ’’ٹاپک ٹوئیاں‘‘ یا ’’ٹاپک ٹُیّاں‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ تاشہ بجانے والے اپنے دونوں ہاتھوں سے ان چوبوں کو تاشے پر جلدی جلدی، تیز تیز اور اندھادھند برساتے ہوئے اپنی گردن ہلاتے رہتے ہیں۔ شاید یہ بتانے کو کہ اس کام میں کچھ سوچنا پڑتا ہے نہ سمجھنا۔ بس تاشے پر ٹاپک ٹوئیاں مارتے جائیے اور اپنا سر (مع گردن) اِدھر اُدھر ہلاتے رہ جائیے۔ مگر پروفیسر انورؔ مسعود تو یہ کہتے ہیں کہ ایسے ہی لوگ سمجھ سوچ والے ہوتے ہیں:

ہیں وہی واقفِ اسرار و رموزِ نغمہ
بزمِ موسیقی میں جو سر کو ہِلانے لگ جائیں

یہ دو چوبیں، جن میں سے ایک ٹاپَک اور دوسری ٹُوئی کہلاتی ہے، تاشے پر پڑتی ہیں تو دو مختلف کڑک دار آوازیں نکالتی ہیں۔ اِنھیں آوازوں سے تاشے کی گَت بنتی ہے اور تاشہ پیٹنے والے کی دُرگت۔ ’’ہاپک، جھاپک، ٹاپک، ٹُوں‘‘۔ ’ٹاپک‘ کا لفظ غالباً ’ٹاپ‘ سے نکلا ہے۔ ’ٹاپ ‘اُس آواز کو کہتے ہیں جو گھوڑے کے چلتے یا دوڑتے وقت زمین پر اُس کا سُم پڑنے سے نکلتی ہے۔گھوڑا کھڑے کھڑے زمین پر اپنے اگلے پاؤں مارنا شروع کردے تب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ’’گھوڑا ٹاپ رہا ہے‘‘۔ اسی عمل سے محاورہ بھی بن گیا ہے ’ٹاپنا‘۔ اگر کسی شخص کو بتانا ہو کہ تمھاری بھاگ دوڑ محض ہماری نصیحت نہ ماننے کی وجہ سے بے معنی رہ جائے گی یا رائیگاں چلی جائے گی، تو کہا جاتا ہے: ’’ میاں ایسا ایسا کرلو، ورنہ ٹاپتے رہ جاؤ گے‘‘۔ اسی طرح اگرکوئی شخص مارا مارا پھر رہا ہو یا حیران و پریشان ہو ہو کر جابجا بھٹک رہا ہو تو اُس کی اِس کیفیت کو بیان کر نے کے لیے بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ ’’وہ ٹاپتا پھر رہا ہے‘‘۔

شیخ قلندر بخش جرأتؔ کا توسنِ فکر بھی (یعنی اُن کے خیال کا گھوڑا) اُن کے ساتھ ساتھ ٹاپا کرتا تھا:

خالی زمینِ شعر نظر آئے ہے تو بس
جرأتؔ لگے ہے توسنِ فکر اپنا ٹاپنے

توبس یوں سمجھ لیجے کہ گھوڑے کے قدموں کی چاپ کو ہم گھوڑے کی ٹاپ کہتے ہیں۔ اس کی چاپ بھی تو Topکی ہوتی ہے۔ غالباً اسی ٹاپ کی آواز نکالنے والی چوب کو ’ٹاپک‘ کہا گیا۔ ٹاپک کا سرا آگے سے چوڑا اور پیچھے سے پتلا ہوتا ہے۔ اب رہ گئیں ’ٹُوئیاں‘۔

ویسے تونرسل، سرکنڈے یا نیزے کی ایک پور کو ’ٹوئی‘ کہا جاتا ہے۔ پور اُس حصے کوکہتے ہیں جو گنّے کے ڈنڈے یا بانس کی لاٹھی میں دو گانٹھوں یا دو گرہوں کا درمیانی فاصلہ ہوتا ہے۔ ہماری ہراُنگلی کے تین جوڑ ہوتے ہیں۔ ان جوڑوں کے درمیانی حصے کو بھی اُنگلی کی پور کہا جاتا ہے۔ پور کا مطلب ہے ٹکڑا۔ نَیزہ پتلے بانس یعنی نرسَل یا نرکُل کو کہتے ہیں، جس سے بانسری بنائی جاتی ہے۔ نَیزہ دراصل ’نَے زہ‘ تھا۔ نَے بانسری کو کہتے ہیں اور بانسوں یا سرکنڈوں کے جس جُھنڈ سے ’نَے‘ الگ کی جاتی ہے اُسے نیستاں کہتے ہیں۔ احسان دانشؔ کہتے ہیں کہ جس بانس سے ۔نَے‘ تراش لی جائے اُس کا زخم کبھی نہیں بھرتا، ناسُور بن جاتا ہے اور اِس جدائی کے غم میں بانسری بھی عمر بھر روتی ہی رہتی ہے:

ناسُور بھر سکے نہ فغاں ضبط ہو سکی
جب نَے کو نیستاں سے جدا کر دیا گیا

’نَے زَہ‘ ملا کر لکھتے لکھتے نیزہ ہی ہوگیا۔ نیزے کی اسی ’ٹوئی‘ سے قلم بھی بنایا جاتا تھا۔ موجودہ نسل میں سے شاید ہی کسی نے نیزے یا سرکنڈے کا قلم دیکھا ہو۔ مگرممکن ہے کہ تصویر کہیں سے دیکھنے کو مل جائے۔ مل جائے تو جان لیجے کہ اسی لکڑی کو ’ٹُوئی‘ کہا جاتا تھا۔ اس کی جمع ٹوئیاں ہے۔ لیکن ’ٹوئیاں‘ یا ’’ٹُیّاں‘ ایک قسم کے چھوٹے توتے (یا طوطے) کو بھی کہتے ہیں۔ ٹُیّاں اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس کی پست قامتی دیکھ کر کسی ننھے منے بچے اور کسی پستہ قد آدمی کو بھی ٹُیّاں کہہ کر پُکارلیا جاتا ہے۔
قصہ مختصر۔ ’’ٹاپک ٹُوئیاں‘‘ ایسی دو لکڑیاں ہیں جن کو تاشے پر اندھا دھند مارتے رہنا ’’ٹاپک ٹوئیاں مارنا‘‘ کہلاتا ہے۔ جو لوگ بے تاشے کے یہ خیالی چوبیں برساتے رہتے ہوں گے وہ شاید ’’ٹامک ٹوئیاں‘‘ مارتے ہوں۔ ’ٹامک‘ کا ہمیں بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ گو اب ’ٹاپک ٹوئیاں مارنے‘ کی اصطلاح لغت کے سوا کہیں نظر نہیں آتی، مگر ’ٹامک ٹوئیاں‘ مارنے والے ہر طرف نظر آتے ہیں۔کسی اور طرف دیکھنے کی کیا ضرورت؟ ہماری طرف ہی دیکھ لیجے۔ مگر صاحب! ہمیں کیا مار آئی ہوئی ہے کہ ہم ناحق ٹامک ٹوئیاں ہی مارتے رہیں۔ توپ، بندوق، تیغ، تلوار، تیر، برچھی، بھالا، چھری، چاقو، قینچی، لاٹھی، ڈنڈا، گھونسا، تھپڑ، لات اور طمانچہ جیسے آلاتِ حرب و ضرب عدو کے منہ پر مارنے کے علاوہ بھی بہت کچھ بچ رہتا ہے مارنے کو۔ مثلاً ہُنکاری مارنا یعنی کسی کی بات سنتے وقت مسلسل ’ہوں ہاں‘ کرتے رہنا۔ گپ مارنا۔ پہلے قہقہے مارنا، پھر دھاڑیں مارنا۔ فارغ ہوکر اطمینان سے آلتی پالتی مارنا۔ آلتی پالتی مار کر ڈینگیں مارنا۔ ڈینگ مارتے ہوئے آنکھ مارنا۔ کسی کا چاند سا چہرہ دیکھ کر ہائے مارنا۔ کسی لفنگے کو ہائے مارتے دیکھ کر پہلے بُکَّل مارنا پھر گھونگھٹ مارلینا۔ یہ سب تماشا دیکھ، دریائے حیرت میں غوطے مارنا۔ غوطہ مارتے ہوئے کسی سے آگے نکل جانے کے لیے اُسے کہنی مارنا۔ علاوہ ازیں پھول مارنا، چونچ مارنا، بانگ مارنا، جھانکی مارنا، مکھیاں مارنا اور ٹھاٹھیں مارنا وغیرہ وغیرہ۔ ٹھاٹھیں کیسے مارتے ہیں؟ کسی سمندر سے جا کر پوچھنا پڑے گا!!!!!!!!
یعنی ہم تو اب تک تاشے ہی بجا رہے تھے۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
واصف علی واصف صاحب کا ایک دوست اُن سے ملنے آیا۔
انہوں نے اُس کے لیے چائے منگوائی۔
وہ بولا." میں بڑا پریشان ہوں۔"
" ملک کے حالات بڑے خراب ہیں۔"
واصف صاحب نے پوچھا.'تم نے خراب کیے ہیں؟"
وہ بولا." نہیں"
انہوں نے کہا. 'تم ٹھیک کر سکتے ہو؟"
وہ بولا. "نہیں"
تو واصف صاحب نے کہا. "فیر چاء پی"
 
1- ایک غلطی جو بازاروں سے شروع ہو کر اب کتابوں تک پہنچ چکی ہ۔ے وہ یہ ہ۔ے کہ لفظ”عوام“ کو مونث کر کے اسے واحد بنا دیا گیا ہ۔ے۔
چناں چہ پہلے جو عوام (عام کی جمع) ہوتے تھے، اب ہوتی ہ۔ے۔ بعض تعلیم یافتہ لوگ بھی کہنے لگے ہیں ”ہماری عوام بہت باشعور ہ۔ے“
ہمیں عوام کے مؤنث ہوجانے پر اتنا اعتراض نہیں، اصل رونا اس بات کا ہ۔ے کہ ان ب۔ے چاروں (یا ب۔ے چاریوں) کو واحد کردیا گیا ہ۔ے۔

2-. آپ کو اکثر ایسے دعوت نامے ملتے ہوں گے جن میں لکھا ہوتا ہ۔ے کہ تقریب ”مورخہ؛ کو منعقد ہوگی۔“ حالاں کہ ”مورخہ“ ماضی کی تاریخ کے لی۔ے آتا ہ۔ے جیسے مورخہ 4 اپریل کے اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی تھی۔
آنے والی تاریخ کے لی۔ے اگر چاہیں تو”بتاریخ“ لکھ دیں جیسے ”بروز“ لکھا جاتا ہ۔ے۔

3-. بعض الفاظ کے املأ میں بلاوجہ اضافے کر دی۔ے گئے ہیں،
مثلاً انکسار کی جگہ "انکساری" تقرر کی جگہ "تقرری"، تنزل کی جگہ "تنزلی" تابع کی جگہ "تابعدار" مع کی "بمع یا بمعہ" لکھنا عام ہ۔ے۔

4-وفات ایک عام لفظ ہ۔ے. اب اس کو کئی لوگ "فوتگی" کہنے لگے ہیں. پھر کچھ لوگوں کی اس بھی تسلی نہیں ہوتی اور وہ اس کو مزید بڑھا کر "فوتیتگی" کہنے لگے ہیں.

5- . بعض اشعار غلط رائج ہو گئے ہیں۔ مثلاً غالب کا شعر ہ۔ے:
جی ڈھونڈتا ہ۔ے پھر وہی فرصت ”کہ” رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کی۔ے ہوئے.
پہلے مصرع میں عام طور پر”فرصت کے رات دن“پڑھا جاتا ہ۔ے۔

6--. درد کا ایک ضرب المثل شعر ہ۔ے.

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لی۔ے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

دوسرے مصرع میں”کروبیاں“ کروبی کی جمع ہ۔ے جس کے معنی ہیں مقرب فرشتہ۔ بہت سے لوگ ”کروبیاں“ کو ”کرو۔ بیاں“ کہتے سنے گئے جیسے یہ”کروفر“ قسم کا کوئی لفظ ہو۔
7- . ”ماشاء ﷲ“ جو ایک کلمہ تحسین و آفرین ہ۔ے اس کے بعد ”سے“ کا لاحقہ لگ گیا ہ۔ے۔ اچھے خاصے سمجھ دار لوگ کہتے ہیں”ماشاء ﷲ سے میرا بیٹا بڑا ذہین ہ۔ے۔“

8/ اسی طرح ”دونوں فریقین“ پر غور فرمائی۔ے ”فریقین“ کے تو معنی ”دو فریق“ ہیں پھر اس میں”دونوں“ کا سابقہ کیوں؟
منقول
بہت سی زبانیں جب ایک ہی جگہ پر جمع ہوجاتی ہیں تو ایسا بھی ہوجاتا ہے ۔
کچھ نئے الفاظ مل جاتے ہیں کچھ الفاظ خراب ہوجاتے ۔
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
1- ایک غلطی جو بازاروں سے شروع ہو کر اب کتابوں تک پہنچ چکی ہ۔ے وہ یہ ہ۔ے کہ لفظ”عوام“ کو مونث کر کے اسے واحد بنا دیا گیا ہ۔ے۔
چناں چہ پہلے جو عوام (عام کی جمع) ہوتے تھے، اب ہوتی ہ۔ے۔ بعض تعلیم یافتہ لوگ بھی کہنے لگے ہیں ”ہماری عوام بہت باشعور ہ۔ے“
ہمیں عوام کے مؤنث ہوجانے پر اتنا اعتراض نہیں، اصل رونا اس بات کا ہ۔ے کہ ان ب۔ے چاروں (یا ب۔ے چاریوں) کو واحد کردیا گیا ہ۔ے۔

2-. آپ کو اکثر ایسے دعوت نامے ملتے ہوں گے جن میں لکھا ہوتا ہ۔ے کہ تقریب ”مورخہ؛ کو منعقد ہوگی۔“ حالاں کہ ”مورخہ“ ماضی کی تاریخ کے لی۔ے آتا ہ۔ے جیسے مورخہ 4 اپریل کے اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی تھی۔
آنے والی تاریخ کے لی۔ے اگر چاہیں تو”بتاریخ“ لکھ دیں جیسے ”بروز“ لکھا جاتا ہ۔ے۔

3-. بعض الفاظ کے املأ میں بلاوجہ اضافے کر دی۔ے گئے ہیں،
مثلاً انکسار کی جگہ "انکساری" تقرر کی جگہ "تقرری"، تنزل کی جگہ "تنزلی" تابع کی جگہ "تابعدار" مع کی "بمع یا بمعہ" لکھنا عام ہ۔ے۔

4-وفات ایک عام لفظ ہ۔ے. اب اس کو کئی لوگ "فوتگی" کہنے لگے ہیں. پھر کچھ لوگوں کی اس بھی تسلی نہیں ہوتی اور وہ اس کو مزید بڑھا کر "فوتیتگی" کہنے لگے ہیں.

5- . بعض اشعار غلط رائج ہو گئے ہیں۔ مثلاً غالب کا شعر ہ۔ے:
جی ڈھونڈتا ہ۔ے پھر وہی فرصت ”کہ” رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کی۔ے ہوئے.
پہلے مصرع میں عام طور پر”فرصت کے رات دن“پڑھا جاتا ہ۔ے۔

6--. درد کا ایک ضرب المثل شعر ہ۔ے.

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لی۔ے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

دوسرے مصرع میں”کروبیاں“ کروبی کی جمع ہ۔ے جس کے معنی ہیں مقرب فرشتہ۔ بہت سے لوگ ”کروبیاں“ کو ”کرو۔ بیاں“ کہتے سنے گئے جیسے یہ”کروفر“ قسم کا کوئی لفظ ہو۔
7- . ”ماشاء ﷲ“ جو ایک کلمہ تحسین و آفرین ہ۔ے اس کے بعد ”سے“ کا لاحقہ لگ گیا ہ۔ے۔ اچھے خاصے سمجھ دار لوگ کہتے ہیں”ماشاء ﷲ سے میرا بیٹا بڑا ذہین ہ۔ے۔“

8/ اسی طرح ”دونوں فریقین“ پر غور فرمائی۔ے ”فریقین“ کے تو معنی ”دو فریق“ ہیں پھر اس میں”دونوں“ کا سابقہ کیوں؟
منقول

اچھی معلومات فراہم کی شکریہ سیما صاحبہ لیکن فریقین میں دونوں فریقین کہنا غلط نہیں کیونکہ فریقین دو سے زائدبھی ہو سکتے ہیں۔ :)
 

عدنان عمر

محفلین
اچھی معلومات فراہم کی شکریہ سیما صاحبہ لیکن فریقین میں دونوں فریقین کہنا غلط نہیں کیونکہ فریقین دو سے زائدبھی ہو سکتے ہیں۔ :)
جمع بنانے کے عربی قاعدے کے مطابق:

فریقَین کا مطلب "دو فریق"
فریقِین کا مطلب "دو سے زائد فریق"
 

عدنان عمر

محفلین
کوئی حوالہ یا یہ آپ کا ذاتی خیال ہے؟
حوالہ یہاں ملاحظہ فرمائیے۔

عربی زبان میں جمع کا مطلب ایک سے زیادہ اشیاء نہیں بلکہ دو سے زیادہ اشیاء ہوتا ہے۔
دو چیزوں کو ظاہر کرنے کے لیے عربی میں تثنیہ کا قاعدہ استعمال ہوتا ہے۔تثنیہ بنانے کے دو طریقے ہیں ۔ پہلے طریقے میں واحد سے تثنیہ بنانے کے لیے مفرد کے آخر میں "ین" (اَے ن)" کا لاحقہ لگایا جاتا ہے۔مثلاً فریق کا تثنیہ فریقَین، حرم شریف کا تثنیہ حرمَین شریفَین (بمعنی دو حرم شریف)، اسی طرح نعلَین (جوتوں کی جوڑی)، کراماً کاتبَین (دو مخصوص فرشتے) وغیرہ۔
دوسرے طریقے میں تثنیہ مفرد کے آخر میں "ان" (آن) لگا کر بنایا جاتا ہے۔مثلاً "کتاب" کا تثنیہ "کتابان"، "باب" کا تثنیہ "بابان"۔
بالفاظِ دیگر، جملے میں لفظ کی ترتیبِ نحوی کے مطابق "کتاب" کا تثنیہ "کتابان" بھی ہوسکتا ہے اور "کتابَین" بھی، علیٰ ہٰذا القیاس۔ تفصیل یہاں دیکھیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حوالہ یہاں ملاحظہ فرمائیے۔

عربی زبان میں جمع کا مطلب ایک سے زیادہ اشیاء نہیں بلکہ دو سے زیادہ اشیاء ہوتا ہے۔
دو چیزوں کو ظاہر کرنے کے لیے عربی میں تثنیہ کا قاعدہ استعمال ہوتا ہے۔تثنیہ بنانے کے دو طریقے ہیں ۔ پہلے طریقے میں واحد سے تثنیہ بنانے کے لیے مفرد کے آخر میں "ین" (اَے ن)" کا لاحقہ لگایا جاتا ہے۔مثلاً فریق کا تثنیہ فریقَین، حرم شریف کا تثنیہ حرمَین شریفَین (بمعنی دو حرم شریف)، اسی طرح نعلَین (جوتوں کی جوڑی)، کراماً کاتبَین (دو مخصوص فرشتے) وغیرہ۔
دوسرے طریقے میں تثنیہ مفرد کے آخر میں "ان" (آن) لگا کر بنایا جاتا ہے۔مثلاً "کتاب" کا تثنیہ "کتابان"، "باب" کا تثنیہ "بابان"۔
بالفاظِ دیگر، جملے میں لفظ کی ترتیبِ نحوی کے مطابق "کتاب" کا تثنیہ "کتابان" بھی ہوسکتا ہے اور "کتابَین" بھی، علیٰ ہٰذا القیاس۔ تفصیل یہاں دیکھیے۔
قرآن مجید میں مومن کا جمع کا صیغہ مومنِین تو کئی بار آیا، جب کہ تثنیہ کا صیغہ مومنَین ایک مجھے یاد آ رہا ہے جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو ان کی دعا تثنیہ کے صیغے میں ہے:

وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّکَ وَأَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔

"(وہ وقت بھی یاد کرو)جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور دعا کر رہے تھے۔ اے ہمارے رب ہم سے (یہ عمل) قبول فرما کیونکہ تو خوب سننے اور جاننے والا ہے۔اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنا۔اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرما۔یقینا تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے
 

عدنان عمر

محفلین
قرآن مجید میں مومن کا جمع کا صیغہ مومنِین تو کئی بار آیا، جب کہ تثنیہ کا صیغہ مومنَین ایک مجھے یاد آ رہا ہے جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو ان کی دعا تثنیہ کے صیغے میں ہے:

وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّکَ وَأَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔

"(وہ وقت بھی یاد کرو)جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور دعا کر رہے تھے۔ اے ہمارے رب ہم سے (یہ عمل) قبول فرما کیونکہ تو خوب سننے اور جاننے والا ہے۔اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنا۔اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرما۔یقینا تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے
صحیح بخاری کی آخری حدیث شریف میں بھی تثنیہ کی یہ مثال دیکھیے:

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: (کلمتان حبیبتان الی الرحمن خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان:سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم )[2]
یعنی:دو کلمے،جواللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں ،زبان پر ہلکے ہیں اور میزان میں بہت بھاری ہونگے :(سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم )
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
صدیقی صاحب نے اچھا اور شگفتہ مضمون لکھا ہے ۔ اس مضمون نے نہ صرف چند پرانے الفاظ کو زندہ کیا بلکہ معدوم ہوتی ہوئی کچھ اشیا کا ذکر بھی تازہ کردیا۔
قصہ مختصر۔ ’’ٹاپک ٹُوئیاں‘‘ ایسی دو لکڑیاں ہیں جن کو تاشے پر اندھا دھند مارتے رہنا ’’ٹاپک ٹوئیاں مارنا‘‘ کہلاتا ہے۔ جو لوگ بے تاشے کے یہ خیالی چوبیں برساتے رہتے ہوں گے وہ شاید ’’ٹامک ٹوئیاں‘‘ مارتے ہوں۔ ’ٹامک‘ کا ہمیں بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
ٹامک (میم مفتوح) کا سراغ یہ ہے کہ ٹامک ایک بہت بڑے ڈھول کو کہتے ہیں ۔ ایک بہت بڑی اور بھاری لوہے کی پیالہ نما کڑاہی پر چمڑا منڈھ دیا جاتا ہے اور پھر اسے لکڑی کے دو بڑے بڑے ڈندوں سے بجایا جاتا ہے ۔ اکثر ڈراموں اور فلموں میں بادشاہوں کے زمانے میں نقارچی کو جو نقارہ یا طبل بجاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اگر اس کا حجم بہت بڑا کردیا جائے تو وہ ٹامک یا ٹمک کہلاتی ہے۔ برصغیر کے کچھ علاقوں میں اب بھی محرم کے جلوسوں میں ٹامک بجائی جاتی ہے ۔بظاہر تو ٹامک بجانا آسان نظر آتا ہے یعنی اسے دو ڈندوں سے پیٹنا ہی تو ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹامک بجانا بھی ایک فن ہے اور اسے ہر کوئی نہیں بجا سکتا۔ اسے بجانے کے لیے بازوؤں میں طاقت کے علاوہ اونچے قد کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ ٹامک بجانے کی دو مشہور دھنیں یا rhythm ہوتی ہیں ۔ ایک کو تڑی ماتم کہتے ہیں اور دوسری کا نام اس وقت یاد نہیں آرہا لیکن عرف، عام میں اسے "رَگّڑ رَگّڑ "کہا جاتا تھا ۔:)
اپنے لڑکپن میں مجھے بھی ایک دفعہ لائن میں لگ کر اپنی باری پر ٹامک بجانے کا اتفاق ہوا۔ چونکہ ٹامک بہت اونچی ہوتی ہے اس لیے لڑکے بالوں کے لیے ایک اسٹینڈ رکھ دیا جاتا ہے تاکہ ان کے ہاتھ ڈھول تک پہنچ سکیں ۔لیکن دو تین بار ہاتھ چلانے کے بعد ہی مجھے اسٹینڈ سے نیچے اترنا پڑا کیونکہ لوگوں نےمیری ایجاد کردہ دھن پر ہنسنا شروع کردیا تھا۔ :D

ٹامک اور ٹمک کے الفاظ لغت کبیر میں موجود ہیں اگرچہ مفصل معنی نہیں دیئے گئے۔ شاید صدیقی صاحب کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔
 
Top