سلیم کوثر محبت ڈائری ہرگز نہیں ھے - سلیم کوثر

زونی

محفلین
محبت ڈائری ہرگز نہیں ھے آبِ جو ھے
جو دلوں کے درمیاں بہتی ھے خوشبو ھے
کبھی پلکوں پہ لہرائے تو آنکھیں ہنسنے لگتی ہیں
جو آنکھوں میں اتر جائے تو منظر اور پس منطر میں شمعیں جلتی ہیں
کسی بھی رنگ کو چھو لے
وہی دل کو گوارا ھے
کسی مٹی میں گھل جائے
وہی مٹی ستارہ ھے

(سلیم کوثر)
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ زونی لیکن یہ نظم پوری نہیں، پوری نظم بہت اچھی ہے - شائد کچھ ایسے ہے - "محبت ذائری ہرگز نہیں ہے کہ جس میں تم لکھو کہ اس سے کیا بات کرنی ہے - کوئی وعدہ نبھانا ہے " کچھ اسطرح ہے اگر ہو سکے تو پوری نظم لکھیے -
 

زونی

محفلین
جی سخنور بھائی آپ صحیح کہ رہے ہیں،دراصل میں نے جہاں سے نوٹ کی تھی جلدی میں آخری ہی حصہ نوٹ کر سکی لیکن جیسے ہی ملتی ھے میں انشاللہ پوسٹ کر دوں گی،آپکی توجہ کا شکریہ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے - سلیم کوثر

محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے - سلیم کوثر

محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تم لکھو
کہ کل کس رنگ کے کپڑے پہننے، کون سی خوشبو لگانی ہے
کسے کیا بات کہنی، کون سی کس سے چھپانی ہے
کہاں کِس پیڑ کے سائے تلے ملنا ہے
مل کر پوچھنا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبّت ہے؟
یہ فرسودہ سا جملہ ہے
مگر پھر بھی یہی جملہ
دریچوں، آنگنوں، سڑکوں، گلی کوچوں میں چوباروں میں
چوباروں کی ٹوٹی سیڑھیوں میں
ہر جگہ کوئی کسی سے کہہ رہا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبّت ہے؟

محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تم لکھو
تمہیں کس وقت، کس سے کِس جگہ ملنا ہے کِس کو چھوڑ جانا ہے
کہاں پر کس طرح کی گفتگو کرنی ہے یا خاموش رہنا ہے
کسی کے ساتھ کتنی دور تک جانا ہے اور کب لوٹ آنا ہے
کہاں آنکھیں ملانا ہے کہاں پلکیں جھکانا ہے
یا یہ لکھّو کہ اب کی بار جب وہ ملنے آئے گا
تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر
دھنک چہرے پہ روشن جگمگاتی رقص کرتی اس کی آنکھوں میں اتر جائیں گے
اور پھر گلشن و صحرا کے پیچوں پیچ دل کی سلطنت میں خاک اڑائیں گے
بہت ممکن ہے وہ عجلت میں آئے
اور تم اس کا ہاتھ، ہاتھوں میں نہ لے پاؤ
نہ آنکھوں ہی میں جھانکو اور نہ دل کی سلطنت کو فتح کر پاؤ
جہاں پر گفتگو کرنی ہے تم خاموش ہو جاؤ
جہاں خاموش رہنا ہے وہاں تم بولتے جاؤ
نئے کپڑے پہن کر گھر سے نکلو، میلے ہو جاؤ
کوئی خوشبو لگانے کا ارادہ ہو تو شیشی ہاتھ سے گر جائے
تم ویران ہو جاؤ
سفر کرنے سے پہلے بے سر و سامان ہو جاؤ

محبت ڈائری ہرگز نہیں ھے آبِ جو ھے
جو دلوں کے درمیاں بہتی ھے خوشبو ھے
کبھی پلکوں پہ لہرائے تو آنکھیں ہنسنے لگتی ہیں
جو آنکھوں میں اتر جائے تو منظر اور پس ِمنطر میں شمعیں جلنے لگتی ہیں
کسی بھی رنگ کو چھو لے
وہی دل کو گوارا ہے
کسی مٹی میں گھل جائے
وہی مٹی ستارہ ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
نظم ۔ محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے ۔ سلیم کوثر

محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے

محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تم لکّھو
کہ کل کس رنگ کے کپڑے پہننے ، کون سی خوشبولگانی ہے
کسے کیا بات کہنی، کون سی کس سے چھپانی ہے
کہاں کس پیڑ کے سائے تلے ملنا ہے
مل کر پوچھنا ہے
کیا تمھیں مجھ سے محبت ہے
یہ فرسودہ سا جُملہ ہے
مگر پھر بھی یہی جملہ
دریچوں، آنگنوں، سڑکوں، گلی کوچوں میں،چوباروں میں
چوباروں کی ٹوٹی سیڑھیوںمیں
ہر جگہ کوئی کسی سے کہہ رہا ہے،
کیا تمھیں مجھ سے محبت ہے،
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تم لکّھو
تمھیں کس وقت کس سے کس جگہ ملنا ہے کس کو چھوڑ جانا ہے
کہاں پرکس طرح کی گفتگو کرنی ہے یا خاموش رہنا ہے
کسی کے ساتھ کتنی دور تک جانا ہے اور کب لوٹ آنا ہے
کہاں آنکھیں ملانا ہے کہاں پلکیں جھکانا ہے
یا یہ لکھو کہ اب کی بار جب وہ ملنے آئے گا
تو اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر
دھنک چہرے پہ روشن جگمگاتی رقص کرتی اُس کی آنکھوں میں اُتر جائے گے
اور پھر گلشن و صحرا کے بیچوں بیچ دل کی سلطنت میں خاک اُڑائیں گے
بہت ممکن ہے وہ عجلت میں آئے
اور تم اُس کا ہاتھ، ہاتھوں میں نہ لے پاؤ
نہ آنکھوں ہی میں جھانکو اورنہ دل کی سلطنت کو فتح کر پاؤ
جہاں پر گفتگو کرنی ہے تم خاموش ہو جاؤ
جہاں خاموش رہنا ہے وہاں تم بولتے جاؤ
نئے کپڑے پہن کر گھر سے نکلو، میلے ہو جاؤ
کوئی خوشبو لگانے کا ارادہ ہو تو شیشی ہاتھ سے گرجائے
تم ویران ہو جاؤ
سفر کرنے سے پہلے بے سروسامان ہو جاؤ
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے آبِ جو ہے
جو دلوں کے درمیاں بہتی ہے خوشبو ہے
کبھی پلکوں پہ لہرائے تو آنکھیں ہنسنے لگتی ہیں
جو آنکھوں میں اُترجائے تو منظر اور پس منظر میں شمعیں جلنے لگتی ہیں
کسی بھی رنگ کو چُھولے
وہی دل کو گوارا ہے
کسی مٹی میں گھل جائے
وہی مٹی ستارہ ہے

سلیم کوثر
 

آصف شفیع

محفلین
بہت خوب۔ اتنی طویل نظم لکھنا بھی ہمت ہے۔ سلیم کوثر بہت خوب لکھتے ہیں ۔ہمارے پسندیدہ شاعروں میں سے ہیں۔ نظم شیئر کرنے کا بہت شکریہ صاحب۔
 

مغزل

محفلین
عنفوانِ شباب میں پڑھی ہوئی یہ نظم آج تک روح سے کسبِ نور کرتی ہے ۔۔ اس لاجواب انتخاب کے لیے سراپا سپاس ۔۔
 
Top