چڑیوں سے مکالمہ
شریر چڑیو!
سنو مجھے اک گلہ ہے تم سے
کہ منہ اندھیرے
تمہاری بک بک، تمہاری جھک جھک
تمہاری چوں چاں
سماعتوں پر تمہاری دستک
ہے غل مچاتی، مجھے جگاتی، بڑا ستاتی
شریر چڑیو!
یہ تم نہ جانو
میں رات مشکل سے سو سکی تھی
اداسیوں کے سمندروں میں
میں اپنی آنکھیں ڈبو چکی تھی
بہت سے...
ایک "اکیلی" کے نام !!
اُس "اکیلی" کے نام ۔۔۔
جو کبھی فلسطین کے ویراں علاقوں میں ملے
کبھی عراق کے تباہ و برباد شہروں میں
تو کبھی گجرات کی خون ریز سڑکوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عندلیب !
اکیلی
شاعر : بلراج کومل
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
جانتی ہوں تمہارے لئے غیر ہوں...
کپلنگ نے کہا تھا
“مشرق، مشرق ہے
اور مغرب، مغرب ہے
اور دونوں کا ملنا ناممکن ہے”
لیکن مغرب، مشرق کے گھر آنگن میں آ پہنچا ہے
میرے بچوں کے کپڑے لندن سے آتے ہیں
میرا نوکر بی بی سی کی خبریں سنتا ہے
میں بیدل اور حافظ کے بجائے
شیکسپیئر اور رلکے کی باتیں کرتا ہوں
اخباروں میں...
ًماں
وہ کون ہے جو اداس راتوں کی چاندنی میں
کئی دعائیں لبوں پہ لے کر
ملول ہو کر
بھلا کے ساری تھکان دن کی
یہ سوچتی ہے
کہ میں نجانے ہزاروں میلوں پرے جو بیھٹا ہوں
"کس طرح ہوں"
وہ کون ہے جو اداس راتوں کے رتجگے میں
دعاوں کی مشعلیں جلائے کھڑی ہوئی ہے
دعائیں جس کی مری لیے ہیں
میں ان...
ایکسٹیسی
سبز مدھم روشنی میں سرخ آنچل کی دھنک
سرد کمرے میں مچلی گرم سانسوں کی مہک
بازوؤں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن
سلوٹیں ملبوس پر، آنچل بھی کچھ ڈھلکا ہوا
گرمی رخسار سے دبکی ہوئی ٹھنڈی ہوا
نرم زلفوں سے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ
سرخ ہونٹوں پر شرارت کے کسی لمحے کا عکس
ریشمیں بانہوں...
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں ، دم گُھٹتا ہے گنبدِ بے دَر میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رُسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت سے کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو...
اکثر شبِ تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمعِ ذندگی
اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دلِ صد چاک پر
وہ بچپن اوروہ سادگی
وہ رونا وہ ہنسنا کبھی
پھر وہ جوانی کے مزے
وہ دل لگی وہ قہقہے
وہ عشق وہ عہدِ و فا
وہ وعدہ اور وہ شکریہ
وہ لذتِ بزمِ طرب
یاد آتے ہیں...
اے شمعِ کوئے جاناں
ہے تیز ہوا ، مانا
لَو اپنی بچا رکھنا ۔ رستوں پر نگاہ رکھنا
ایسی ہی کسی شب میں
آئے گا یہاں کوئی ، کچھ زخم دکھانے کو
اِک ٹوٹا ہوا وعدہ ، مٹی سے اُٹھانے کو
پیروں پہ لہو اُس کے
آنکھوں میں دھواں ہوگا
چہرے کی دراڑوں میں
بیتے ہوئے برسوں کا
ایک ایک نشاں ہوگا
بولے...
"محبت کے سوالوں کو حوالے مل گئے ہوتے
جہاں پھولوں کو کھلنا تھا وہیں پر کھل گئے ہوتے
مرے ہر خواب کی تکمیل بھی آسان ہو جاتی
فراریت مجھے بے سمت رستوں پہ نہ بھٹکاتی
ضرورت مجھکو بے آواز چہروں سے نہ ملواتی
ہزاروں صورتوں میں یوں کبھی تجسیم نہ ہوتا
اگر تم پاس رہتے تو۔۔۔۔۔۔
میں یوں تقسیم نہ ہوتا"۔۔۔۔
زندگی ایک طویل بل کھاتی
شاہراہِ عظیم ہے جس پر
نرم مٹی کی گود کے پالے
کتنے بھرپور سایہ دار شجر
کتنی پُر شور ندیاں ، چشمے
کتنے ماہ و نجوم ، آوارہ
مشعلیں اپنی تیرگی میں لیئے
کتنی خوشبوئیں ، رنگ رنگ کے پھول
منتظر راہ رو کی آمد کے
صبح سے شام تک سنورتے ہیں
روز و شب انتظار کرتے ہیں (...
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
شب ظلمت میں گزاری ہے
اٹھ وقت بیداری ہے
جنگ شجاعت جاری ہے
آتش و آہن سے لڑ جا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
ہادی و رہبر سرور دیں
صاحب علم و عزم و یقیں
قرآن کی مانند حسیں
احمد مرسل صلی علی
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
چھوڑ تعلق داری...
تنکا تنکا کانٹے توڑے ، ساری رات کٹائی کی
کیوں اتنی لمبی ہو تی ہے، چاندنی رات جُدائی کی
نیند میں کوئی اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ہے
کال کنویں میں گونجتی ہے، آواز کسی سودائی کی
سینے میں دِل کی آہٹ، جیسے کوئی جاسوس چلے
ہر سائے کا پیچھا کرنا، عادت ہے ہر جائی کی
آنکھوں اور کانوں میں...
سکیچ
یاد ہے اِک دن
میرے میز پہ بیٹھے بیٹھے
سگریٹ کی ڈبیہ پر تم نے
چھوٹے سے اِک پودے کا
ایک سکیچ بنایا تھا
آکر دیکھو
اس پودے پر پھول آیا ہے !( گلزار )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشورہ
لذیذ ہو تو حکایت دراز تر بھی کروں
زوال کی ھے شکایت سو اس زمان میں
ھے کون جو اس نعمت سے بہرہ مند نہیں
دہانِ خشک سے تلخی ملے گی ، قند نہیں
تو آؤ آج سے یہ رسمِ گفتگو چھوڑیں
عنانِ وقت کو تھامیں خود اپنے ہاتھوں میں
بہت نہیں تو ذرا سا ہی اس کا رخ موڑیں!
وہ ملال تو کوئی اور تھا
مرے چار سو جو کھلا رہا ،وہ جمال تو کوئی اور تھا
مرے خواب جس میں الجھ گئے، وہ خیال تو کوئی اور تھا
یہاں کس حساب کو جوڑتے
مرے صبح و شام بکھر گئے!
جو ازل کی صبح کیا گیا، وہ سوال تو کوئی اور تھا
جسے تیرا جان کے رکھ لیا، وہ ملال تو کوئی اور تھا...
ناممکن
آنکھوں کو کیسے مل سکے خوابوں پہ اختیار
قوسِ قزح کے رنگ کہیں ٹھہرتے نہیں
منظر بدلتے جاتے ہیں نظروں کے ساتھ ساتھ
جیسے کہ ایک دشت میں لاکھوں سراب ہوں
جیسے کہ اک خیال کی شکلیں ہوں بے شمار!
(امجد اسلام امجد)
اگر فرصت ملے تو۔۔۔
سُنا ہے تم بہت مصروف ہو
مصروف بھی اتنے کہ فرصت تم سے ملنے کو ترستی ہے
سُنو !
مصروفیت کے دائرے کو پاٹ کر
ٖفرصت سے ملنے کا کبھی موقع ملے تو
سب سے پہلے خود سے ملنا
پھر فراغت کا کوئی لمحہ بچے تو
غم کے نم آلود رستوں پر کہیں سے دھوپ لا رکھنا
بھٹکتی شام سے پُروا کے دھیمے...
کبھی بول بھی
دلِ سوختہ
کبھی بول بھی
جو اسیر کہتے تھے خود کو تیری اداؤں کے وہ کہاں گئے
جو سفیر تھے تیر ی چاہتوں کی فضاؤں کے وہ کہاں گئے
وہ جو مُبتلائے سفر تھے تیرے خیال میں
وہ جو دعویدار تھے عمر بھی کی وفاؤں کے وہ کہاں گئے
کبھی کوئی راز تو کھول بھی
کبھی بول بھی
دلِ نا خدا
کبھی بول بھی...
یہ دعا ہے کوئی گلہ نہیں
میرے ہمنشین میری زندگی
وہ گلاب ہے جو کھلا نہیں
میں یہ سوچتا ہوں خدا کرے
تمہیں زندگی میں وہ سکھ ملے
جو مجھے کبھی ملا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
زندگی بھی مہنگی ھے، موت بھی نہیں سستی
یہ زمین بے سایہ
گھر گئی خدا جانے کن عجب عذابوں میں
بے وجود سایوں کا یہ جو کارخانہ ھے
کن عجب سرابوں میں کس طرف روانہ ھے؟
نیستی ھے یا ہستی!
زندگی بھی مہنگی ھے موت بھی نہیں سستی
(امجد اسلام امجد)