کاشفی

محفلین
غزل
ضاؔمن جعفری
فریبِ رنگِ بَہاراں نے روک رکّھا ہے؟
اب اِس چمن میں کِس امکاں نے روک رکّھا ہے؟

یہ کیسے ہاتھ ہیں، تن سے جُدا نہیں ہیں اگر
تَو اِن کو کیسے گریباں نے روک رکّھا ہے


سُنا ہے ہم نے کہ وہ مائلِ کَرَم ہیں بہت
ہماری تنگیِ داماں نے روک رکّھا ہے

جنابِ شیخ یہ کہہ کر چُھپا گئے کیا کیا
خیالِ خاطرِ یزداں نے روک رکّھا ہے


کسی کی راہگذر میں ہُوں منتظر کب سے
بس ایک شعر کے امکاں نے روک رکّھا ہے


لہو کے چِھینٹَوں نے ضاؔمن پکڑ لیے ہیں قدَم
رَگوں میں خوں کے چراغاں نے روک رکّھا ہے
 
Top