حسان خان
لائبریرین
روز عرسِ بیدل:
روز چهارم ماه صفر یکی از روزهای برجستهٔ تاریخ ادبیات افغانستان به شمار میآید و به نام "روز عرس بیدل" معروف است. این روز در غالب کشورهای آسیای میانه که با ادبیات دری انس و الفت دارند و ادبیات مشترکشان به شمار میآید با مراسم خاصی تجلیل میشود. در تاجکستان و ازبکستان و سایر بلاد ماوراءالنهر علاقهٔ زیادی به حضرت بیدل ابراز میشود و در این روز از او یادبود میکنند و آن را "روز عرس میرزا" مینامند. در نیمقارهٔ هند و پاکستان نیز ارادت مخصوصی به وی ورزیده میشود و صدرالدین عینی در کتاب خود به نام "میرزا عبدالقادر بیدل" مینویسد که در ایام باستان در شاهجهانآباد "دهلی امروز" در این روز نخست کلیات بیدل را که به خط خودش ترتیب شده بود برآورده به خانهٔ وی در آنجا که مرقد او پنداشته میشود در میان میگذاشتند و از آثار او برمیخواندند، بر آن بحث میکردند. در افغانستان نیز همواره یک محبت و عشق مفرطی به بیدل و آثارش موجود بودهاست. نظم و نثر بیدل خوانده میشود، اشعارش به حیث شاهد قول ذکر میشود، به تصوف و روحانیت وی مردم معتقدند، اهل دل و اهل عرفان به وی ارادتها میورزند، نام او را به تکریم میبرند، غالباً حضرت بیدل و حضرت میرزا میگویند، در مکتبها و مدارس آثار او تدریس میشود، شعر و نثر او مورد بحث و فحص قرار میگیرد و بالآخره روز عرس وی در محافل مختلف و مجامع با ذکر بیدل و قرائت آثارش برگزار میشود و این از سالها در این مملکت که منبع و مهد زبان و ادبیات دری است معمول است.
کتاب: تاریخِ ادبیاتِ افغانستان
مصنف: محمد حیدر ژوبل
سالِ اشاعت: ۱۹۵۷ء
روزِ عرسِ بیدل:
ماہِ صفر کے روزِ چہارم کا شمار ادبیاتِ افغانستان کی تاریخ کے ایک ممتاز دن کے طور پر ہوتا ہے اور یہ دن 'روزِ عرسِ بیدل' کے نام سے معروف ہے۔ ادبیاتِ فارسی سے اُنس و الفت رکھنے اور اسے اپنا مشترک ادب شمار کرنے والے اکثر وسطی ایشیائی ملکوں میں یہ روز خاص مراسم کے ساتھ تجلیل کیا جاتا ہے۔ تاجکستان، ازبکستان اور دیگر بلادِ ماوراءالنہر میں حضرتِ بیدل سے بہت زیادہ دل بستگی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس روز اُن کی یاد منائی جاتی ہے اور اسے 'روزِ عرسِ میرزا' کا نام دیا جاتا ہے۔ برِ صغیرِ ہند و پاکستان میں بھی اُن سے خاص ارادت کا اظہار ہوتا ہے اور صدرالدین عینی اپنی 'میرزا عبدالقادرِ بیدل' نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ قدیم ایام میں شاہ جہاں آباد، یعنی دہلیِ امروز، میں اِس روز اولاً کلیاتِ بیدل کے اُس نسخے کو، کہ جو اُن کے اپنے خط سے مرتب ہوا تھا، لا کر اُن کے گھر میں اُس جگہ کہ جہاں اُن کی مرقد ہونے کا گمان کیا جاتا ہے، بیچ میں رکھا کرتے تھے اور اُن کی تالیفات میں سے قرائت اور اُس پر بحث کیا کرتے تھے۔ افغانستان میں بھی بیدل اور اُن کی تالیفات سے ایک از حد زیاد عشق و محبت موجود رہا ہے۔ بیدل کی نظم و نثر پڑھی جاتی ہے، اُن کے اشعار شاہدِ قول کی حیثیت سے ذکر ہوتے ہیں، لوگ اُن کے تصوف و روحانیت کے معتقد ہیں، اہلِ دل و اہلِ عرفان اُن کے ارادت مند ہیں، اُن کا نام تکریم سے لیتے ہیں، زیادہ تر اُنہیں حضرتِ بیدل اور حضرتِ میرزا کہہ کر یاد کرتے ہیں، مکاتب و مدارس میں اُن کی تالیفات کی تدریس ہوتی ہے، اُن کی شاعری و نثر بحث و فحص کا مورد بنتی ہے اور بالآخر اُن کا روزِ عرس مختلف محفلوں اور مجمعوں میں بیدل کے ذکر اور اُن کی تالیفات کی قرائت کے ساتھ منعقد ہوتا ہے اور یہ سالوں سے اس مملکت میں کہ جو زبانِ و ادبیاتِ فارسی کا منبع اور گہوارہ ہے، معمول ہے۔
روز چهارم ماه صفر یکی از روزهای برجستهٔ تاریخ ادبیات افغانستان به شمار میآید و به نام "روز عرس بیدل" معروف است. این روز در غالب کشورهای آسیای میانه که با ادبیات دری انس و الفت دارند و ادبیات مشترکشان به شمار میآید با مراسم خاصی تجلیل میشود. در تاجکستان و ازبکستان و سایر بلاد ماوراءالنهر علاقهٔ زیادی به حضرت بیدل ابراز میشود و در این روز از او یادبود میکنند و آن را "روز عرس میرزا" مینامند. در نیمقارهٔ هند و پاکستان نیز ارادت مخصوصی به وی ورزیده میشود و صدرالدین عینی در کتاب خود به نام "میرزا عبدالقادر بیدل" مینویسد که در ایام باستان در شاهجهانآباد "دهلی امروز" در این روز نخست کلیات بیدل را که به خط خودش ترتیب شده بود برآورده به خانهٔ وی در آنجا که مرقد او پنداشته میشود در میان میگذاشتند و از آثار او برمیخواندند، بر آن بحث میکردند. در افغانستان نیز همواره یک محبت و عشق مفرطی به بیدل و آثارش موجود بودهاست. نظم و نثر بیدل خوانده میشود، اشعارش به حیث شاهد قول ذکر میشود، به تصوف و روحانیت وی مردم معتقدند، اهل دل و اهل عرفان به وی ارادتها میورزند، نام او را به تکریم میبرند، غالباً حضرت بیدل و حضرت میرزا میگویند، در مکتبها و مدارس آثار او تدریس میشود، شعر و نثر او مورد بحث و فحص قرار میگیرد و بالآخره روز عرس وی در محافل مختلف و مجامع با ذکر بیدل و قرائت آثارش برگزار میشود و این از سالها در این مملکت که منبع و مهد زبان و ادبیات دری است معمول است.
کتاب: تاریخِ ادبیاتِ افغانستان
مصنف: محمد حیدر ژوبل
سالِ اشاعت: ۱۹۵۷ء
روزِ عرسِ بیدل:
ماہِ صفر کے روزِ چہارم کا شمار ادبیاتِ افغانستان کی تاریخ کے ایک ممتاز دن کے طور پر ہوتا ہے اور یہ دن 'روزِ عرسِ بیدل' کے نام سے معروف ہے۔ ادبیاتِ فارسی سے اُنس و الفت رکھنے اور اسے اپنا مشترک ادب شمار کرنے والے اکثر وسطی ایشیائی ملکوں میں یہ روز خاص مراسم کے ساتھ تجلیل کیا جاتا ہے۔ تاجکستان، ازبکستان اور دیگر بلادِ ماوراءالنہر میں حضرتِ بیدل سے بہت زیادہ دل بستگی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس روز اُن کی یاد منائی جاتی ہے اور اسے 'روزِ عرسِ میرزا' کا نام دیا جاتا ہے۔ برِ صغیرِ ہند و پاکستان میں بھی اُن سے خاص ارادت کا اظہار ہوتا ہے اور صدرالدین عینی اپنی 'میرزا عبدالقادرِ بیدل' نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ قدیم ایام میں شاہ جہاں آباد، یعنی دہلیِ امروز، میں اِس روز اولاً کلیاتِ بیدل کے اُس نسخے کو، کہ جو اُن کے اپنے خط سے مرتب ہوا تھا، لا کر اُن کے گھر میں اُس جگہ کہ جہاں اُن کی مرقد ہونے کا گمان کیا جاتا ہے، بیچ میں رکھا کرتے تھے اور اُن کی تالیفات میں سے قرائت اور اُس پر بحث کیا کرتے تھے۔ افغانستان میں بھی بیدل اور اُن کی تالیفات سے ایک از حد زیاد عشق و محبت موجود رہا ہے۔ بیدل کی نظم و نثر پڑھی جاتی ہے، اُن کے اشعار شاہدِ قول کی حیثیت سے ذکر ہوتے ہیں، لوگ اُن کے تصوف و روحانیت کے معتقد ہیں، اہلِ دل و اہلِ عرفان اُن کے ارادت مند ہیں، اُن کا نام تکریم سے لیتے ہیں، زیادہ تر اُنہیں حضرتِ بیدل اور حضرتِ میرزا کہہ کر یاد کرتے ہیں، مکاتب و مدارس میں اُن کی تالیفات کی تدریس ہوتی ہے، اُن کی شاعری و نثر بحث و فحص کا مورد بنتی ہے اور بالآخر اُن کا روزِ عرس مختلف محفلوں اور مجمعوں میں بیدل کے ذکر اور اُن کی تالیفات کی قرائت کے ساتھ منعقد ہوتا ہے اور یہ سالوں سے اس مملکت میں کہ جو زبانِ و ادبیاتِ فارسی کا منبع اور گہوارہ ہے، معمول ہے۔
آخری تدوین: