فارسی نثری اقتباسات مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
تاجکستان کی تمام نصابی کتابوں کی ابتداء میں یہ لکھا ہے:
خوانندهٔ عزیز!
کتاب منبعِ دانش و معرفت است، از آن بهره‌ور شوید و آن را احتیاط نمایید. کوشش به خرج دهید، که سالِ خوانشِ آینده هم این کتاب با نمودِ اصلی‌اش دسترسِ دادر و خواهرهایتان گردد و به آنها نیز خذمت کند.

عزیز طلبہ!
کتاب دانش و معرفت کا منبع ہے، اُس سے بہرہ مند ہوئیے اور اُس کی حفاظت کیجیے۔ کوشش کیجیے کہ آئندہ تدریسی سال میں بھی یہ کتاب اپنی اصلی حالت کے ساتھ آپ کے بھائی بہنوں کے ہاتھوں تک پہنچے اور اُن کے بھی کام آئے۔
× تاجکستان میں لفظِ 'خوانندہ' طالبِ علم اور شاگردِ مکتب خواں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس لیے مجھے 'خوانندهٔ عزیز!' کا 'عزیز طلبہ!' ترجمہ کرنا مناسب لگا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
صدرِ تاجکستان امام علی رحمان کی جامعۂ قائدِ اعظم، اسلام آباد میں ۱۲ نومبر، ۲۰۱۵ء کے روز کی جانے والی تقریر سے ایک اقتباس:
"مناسبت‌های نیک و سازندهٔ تاجیکان و پاکستانیان از گذشتهٔ دُورِ تاریخ منشاء می‌گیرند. در عصرهای میانه مردمانِ ما را رابطه‌های گوناگون‌عرصه، به خصوص فرهنگِ مشترک و ادبیاتِ مشترک با یکدیگر پیوند می‌دادند. ریشه‌های مشترکِ فرهنگی و تاریخی و نزدیکیِ زبان‌های فارسی و اردو برای مردمانِ ما امکان می‌دهند از ارزش‌های فرهنگیِ همدیگر بهره‌مند باشند."
ماخذ
"تاجکوں اور پاکستانیوں کے خوب اور سودمند تعلقات تاریخ کے بعید زمانوں سے شروع ہوتے ہیں۔ قرونِ وسطیٰ میں ہمارے لوگوں کو کثیر جہتی رابطوں، بالخصوص مشترک ثقافت اور مشترک ادبیات نے ایک دوسرے سے پیوستہ رکھا تھا۔ مشترک ثقافتی و تاریخی بنیادیں اور فارسی اور اردو زبانوں کی نزدیکی ہمارے لوگوں کے لیے یہ ممکن بناتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی ثقافتی اقدار سے بہرہ مند ہو سکیں۔"
 
آخری تدوین:
تاجکستان کی تمام نصابی کتابوں کی ابتداء میں یہ لکھا ہے:
خوانندهٔ عزیز!
کتاب منبعِ دانش و معرفت است، از آن بهره‌ور شوید و آن را احتیاط نمایید. کوشش به خرج دهید، که سالِ خوانشِ آینده هم این کتاب با نمودِ اصلی‌اش دسترسِ دادر و خواهرهایتان گردد و به آنها نیز خذمت کند.

عزیز طلبہ!
کتاب دانش و معرفت کا منبع ہے، اُس سے بہرہ مند ہوئیے اور اُس کی حفاظت کیجیے۔ کوشش کیجیے کہ آئندہ تدریسی سال میں بھی یہ کتاب اپنی اصلی حالت کے ساتھ آپ کے بھائی بہنوں کے ہاتھوں تک پہنچے اور اُن کی بھی خدمت کرے۔
× تاجکستان میں لفظِ 'خوانندہ' طالبِ علم اور شاگردِ مکتب خواں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس لیے مجھے 'خوانندهٔ عزیز!' کا 'عزیز طلبہ!' ترجمہ کرنا مناسب لگا ہے۔
کیس دادر برادر کو کہتے ہیں؟ اور خدمت کو خذمت؟
دراصل پشتو میں بھی خدمت کو خذمت کہتے ہیں، البتہ یہ معلوم نہیں کہ فارسی میں بھی مستعمل ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کیس دادر برادر کو کہتے ہیں؟ اور خدمت کو خذمت؟
دراصل پشتو میں بھی خدمت کو خذمت کہتے ہیں، البتہ یہ معلوم نہیں کہ فارسی میں بھی مستعمل ہے۔
جی، 'دادر' بھائی کو کہتے ہیں اور 'خذمت' خدمت ہی کی تغیر یافتہ شکل ہے۔
'دادر' اور 'خذمت' دونوں ماوراءالنہری لہجے میں استعمال ہونے والے الفاظ ہیں جو افغانستان اور ایران کے فارسی لہجوں میں مرسوم نہیں ہیں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شھر بغداد و اطراف آنرا قحطی فرا گرفت و مردم برای گذران زندگی خود بہ زحمت افتادند، بویژہ کسانی کہ دارای اھل و عیال بیشتری بودند، چہ کنند و بہ کجا پناہ برند؟ آنھم در زمانی کہ شغلھا بہ کشاورزی و دامداری و تجارت و چند شغل دیگر ھمانند اینھا محدود می گشت، ھر کسی در فکر خود و زن و بچہ اش بودہ تا بتواند ھزینہ زندگی فرزندان و عائلہ خویش را فراھم کند و بنحوی جان خود و افراد خانوادہ خود را از آن فشار و سختی سالم بہ در برد۔

مردی یھودی کہ بظاھر، شغل نداشت و از قحطی و تنگدستی رنج فراوان می برد، ھر چہ فکر کرد چگونہ و از چہ راھی مشکل خود را حل کند و شغلی گر چہ کم درآمد برای خود پیدا کند، نتوانست راہ چارہ ای بیندینشد۔ پس از مدتی بہ فکرش رسید بہ بسراغ آن عالم برود کہ می گویند مردی بزرگوارست و در علوم مختلف تخصص دارد و سرآمد ھمہ علمای عصر خویش است و شاگردان زیادی در درس او شرکت می کنند، و او بہ ھر شاگردی بہ فراخور حالش مبلغی جھت ادارہ زندگی می پردازد۔ بعد از مدتی فکر، تصمیم گرفت بہ حضور او برسد و از او بخواھد کہ در محضرش علم نجوم بیاموزد، شاید مقداری از ھزینہ زندگیش توسط او تامین گردد۔

روز بعد در مجلس درس سید مرتضٰی حاضر شد۔ تعدادی از شاگردان و اطرافیان استاد از حضور فردی یھودی در خدمت استاد شگفت زدہ شدند و عدہ ای ھم از اینکہ چنین فردی در مجلس درس شخصیتی کہ سرپرستی مردم را بہ عھدہ دارد، حاضر شدہ است، ناراحت شدند! عدہ دیگر ھم منتظر بودند کہ از ھدف حضور در درس آگاہ گردند درس استاد بہ پایان رسید، مرد یھودی، مؤدبانہ بہ حضور استاد رسید و بر خلاف انتظار ھمہ، تقاضای یاد گیری علم نجوم از محضر او را کرد۔ سید مرتضٰی نیز با رویی گشادہ با او برخورد کرد و تقاضای او را پذیرفت و دستور داد ھر روز مبلغی بہ او بپردازند۔ آن مرد مدتی در درس شرکت کرد و زندگی خود را از طریق ھمان پول دریافتی از استاد گذراند۔ پس از گذشت مدتی نہ چندان زیاد تحت تاثیر عظمت و برخوردھای مکتبی شریف مرتضٰی قرار گرفت و مسلمان گردید۔

کتاب: مجموعہ دیدار با ابرار - سید مرتضٰی
مؤلف: محمود شریفی
ناشر: مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی


بغداد شھر اور اس کے اطراف میں سخت قحط پڑ گیا اور لوگوں کو زندگی گذارنا مشکل ہو گیا بالخصوص وہ لوگ جن کے اہل و عیال کی تعداد زیادہ تھی پریشان تھے کہ کیا کریں اور کہاں پناہ حاصل کریں؟ ایک ایسے وقت میں جب کھیتی باڑی، مویشی پالنا، تجارت اور اسی طرح دوسرے پیشے اور ذرائع آمدنی محدود تھے، ہر شخص اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی فکر میں تھا کہ کسی طرح اپنے خاندان کے لیے وسائل زندگی فراہم کرے تاکہ اس اذیت و سختی کے عالم میں اپنی اور اپنے افراد خانہ کی زندگی بچا سکے۔

ایک یھودی شخص جس کا بظاہر کوئی ذریعہ آمدنی نہیں تھا وہ اس قحط اور تنگدستی کی وجہ سے بہت زیادہ مصیبت کا شکار تھا۔ ہر چند سوچتا کیسے اور کس طرح اپنی مشکل حل کرے اور چاہے کم آمدنی ہی سہی کوئی کام اپنے لیے ڈھونڈے لیکن کوئی راہ سجھائی نہ دیتی۔ کچھ مدت بعد اسے خیال آیا کہ ایک عالم کی تلاش میں جائے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ بہت محترم و بزرگوار ہیں، مختلف علوم کے ماہر ہیں اور اپنے عصر کے تمام علمائے کرام میں بالا تر ہیں، ان کے درس میں طلبا بہت بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں اور وہ ہر شاگرد کو جس قدر وہ مستحق ہوتا ہے زندگی گذارنے کے لیے کچھ وظیفہ (رقم) دیتے ہیں۔ یہ خیال آنے کے کچھ عرصہ بعد اس نے مصمم ارادہ کیا کہ ان کی خدمت میں پہنچے اور ان سے تحصیل علم نجوم کی درخواست کرے، شاید اس طرح ان کے توسط سے کسی حد تک ساز و سامان زندگی میسر ہو سکے۔ اگلے روز وہ سید مرتضٰی کے درس میں حاضر ہوا۔ سید مرتضٰی کے شاگردوں اور ان کے قریبی رفقا میں سے کچھ لوگ اس شخص کی وہاں آمد سے حیران تھے، چند دیگر کے لیے یہ بات غصہ کا سبب بنی کہ ایسا شخص سید مرتضٰی جیسے برگزیدہ عالم و سرپرست کی مجلس میں کیونکر آیا ہے اور کچھ افراد اس انتظار میں تھے اس شخص کے درس میں آنے کے مقصد کو جان سکیں کہ درس اختتام پذیر ہوا اور تمام لوگوں کے انتظار کے برعکس وہ یھودی شخص ادب کے ساتھ استاد کی خدمت میں آیا اور ان سے علم نجوم سیکھنے کی درخواست کی۔ سید مرتضٰی بھی اس سے خندہ پیشانی سے پیش آئے اور کھلے دل سے اس کی درخواست قبول کی اور ہدایت فرمائی کہ اسے روزانہ وظیفہ کی رقم فراہم کی جائے۔ وہ شخص ایک طویل عرصہ تک وہاں علم حاصل کرتا رہا اور استاد کے دیئے گئے وظیفہ سے زندگی گزارتا رہا۔ دورانِ تحصیل علم اسے زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا کہ استاد سید مرتضٰی کی عظمت و نظریاتی طرز سلوک سے بے حد متاثر ہوا اور مسلمان ہو گیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"دانه‌های اشکِ الماس‌گون، که از چشمانِ دُرخشانش به رویِ رخشانش می‌چکیدند، نمودِ شبنمِ سحری را به رویِ گل‌برگِ تری جِلوه می‌دادند."
(صدرالدین عینی)
"اُس کی روشن آنکھوں سے اُس کے تابندہ چہرے پر ٹپکنے والے الماس جیسے آنسو کے دانے کسی گیلی پتّی پر صبح کی شبنم کا منظر پیش کر رہے تھے۔"
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
موضوع دوم صبر بود کہ بہ سہ قسمت تقسیم می شود: صبر در مشکلات، صبر در عبادات و صبر در معصیت، و فضیلتش ھم بہ ترتیب است یعنی از نظر قرآن صبر در مشکلات خیلی فضیلت دارد، صبر در عبادت فضیلتش بیشتر است و صبر در معصیت بیشتر از آن دو فضیلت دارد، خیلی ھم سازندگی دارد، یعنی ممکن است راہ صد سالہ را یک آن پیمود، چنانچہ بسیاری از عرفا راہ صد سالہ را یک آن پیمودند و این بہ خاطر صبر در معصیت بود۔

کتاب: جھاد با نفس (جلد اول)
از: استاد حسین مظاہری


دوسرا موضوع صبر تھا اس کی تین اقسام ہیں: مشکلات میں صبر، عبادات میں صبر اور گناہ میں صبر، اور اس کی فضیلت درجات رکھتی ہے یعنی قرآن پاک کی نظر میں مشکلات میں صبر کرنا بہت فضیلت رکھتا ہے جبکہ عبادت میں صبر کرنے کی فضیلت اس سے زیادہ ہے تاہم گناہ کے معاملے میں صبر (یعنی گناہ انجام نہ دینے) کی فضیلت ان دونوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس میں تعمیر کا پہلو بھی بہت زیادہ ہے یعنی ممکن ہے کہ سو سال کا فاصلہ ایک لحظے میں طے پا جائے، چنانچہ بہت سے عارفین سو سال کا سفر محض ایک لمحے میں طے کر گئے اور یہ صرف اس وجہ سے کہ انھوں نے گناہ کے معاملے میں صبر کیا اور معصیت سے خود کو روک لیا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قھوہ خانہ شلوغ بود۔ از وسط جمیعت گذشت و از در عقبی بیرون رفت۔ سر و صورتش را شست۔ دستی بہ لباس کشید و بہ قھوہ خانہ برگشت۔ میز خلوتی پیدا کرد و نشست۔ فری موش، دیزی بہ دست پیش آمد۔ سینی را روی میز گذاشت و کنار او نشست۔
پسر! تو از دیروز تا حالا چہ ت شدہ؟ چرا این جوری شدی؟
علیرضا آھی کشید و گفت:
چیزی نیس، آقا فری۔ چیزی نیس۔
تا حالا این قد پریشون ندیدہ بودمت۔ با خودت نیستی۔
گفتم کہ چیزی نیس۔ منوچ رو ندیدی؟
الان دیگہ پیداش می شہ۔ گفتہ ناھار واسہ اش نیگہ دارم۔ تا یہ ساعت پیش اینجا بود۔ او دارہ می آد۔
منوچ از در وارد شد و یک راست بہ طرف علیرضا آمد۔ دستش را روی شانہ او گذاشت و گفت:
چطوری پھلوون؟
خوبم، با ھات کار دارم۔
بگو، گوش می کنم۔
علیرضا نگاھی بہ فری موش انداخت و گفت:
یہ کاری داشتم کہ تنھا باشیم۔
فری موش بلند شد۔ سینی را از دست شاگردش گرفت، روی میز، جلوی منوچ گذاشت و بیرون رفت۔


کتاب: سالہای بی پناہی (جلد اول)
از: علیرضا اخلاقی
ناشر: انتشارات آوای نور


قھوہ خانہ میں رش تھا۔ وہ لوگوں کے درمیان سے گذر کر عقبی دروازے سے باہر چلا گیا۔ اس نے اپنا سر اور چہرہ دھویا، لباس پر ہاتھ پھیرا اور قھوہ خانے میں واپس آ گیا۔ ایک خالی میز ڈھونڈ کر وہاں بیٹھ گیا۔ فری موش دیزی لیے اس کے پاس آیا، ٹرے میز پر رکھی اور اس کے پاس بیٹھ گیا۔
بیٹا! کل سے اب تک تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے؟ تمہاری ایسی حالت کیوں ہے؟
علیرضا نے آہ بھری اور بولا:
کچھ نہیں جناب، کچھ نہیں۔
اس سے پہلے تمہیں کبھی اس قدر پریشان نہیں دیکھا کہ اپنے آپ سے بھی غافل ہو۔
میں نے کہا ناں کہ کچھ نہیں، منوچ کو دیکھا ہے آپ نے؟
ابھی آ جائے گا۔ کہہ کے گیا تھا کہ دوپہر کا کھانا تیار رکھوں اس کے لیے۔ ایک گھنٹہ پہلے یہیں تھا۔ وہ آ رہا ہے۔
منوش دروازے سے اندر آیا اور سیدھا علیرضا کی طرف آیا۔ اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور بولا:
کیسے ہو پہلوان؟
ٹھیک ہوں مجھے تم سے کام ہے۔
بولو میں سن رہا ہوں۔
علیرضا نے ایک نظر فری موش پر ڈالی اور بولا:
اس کام کے لیے اکیلے میں بات کرنی ہے۔
فری موش کھڑا ہوا، ٹرے اپنے شاگرد کے ہاتھ سے لے کر منوچ کے سامنے میز پر رکھی اور باہر چلا گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مندرجۂ بالا اقتباس میں مکالمے تہرانی گفتاری فارسی میں ہیں۔
فری موش دیزی لیے اس کے پاس آیا
دیزی اِس ظرف کو کہتے ہیں اور اِس میں معمولاً شوربے والا گوشت پکایا جاتا ہے:
dizi.png
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
منوچ گفت: خیرہ ایشالا
می خوام برم۔
کجا؟
نمی دونم۔ فقط می خوام برم۔ می خوام از این شھر دور شم۔ ازم نپرس چرا۔ پول لازم دارم۔ می تونی از غلام بگیری؟
اتفاقا پول پیشم ھست۔ بہت می دم۔ موقع حساب بھش می گم۔
بد نمی شہ؟
واسہ چی بد بشہ؟! این ھمہ واسہ ش کار کردی۔ حالا باس دستتو بگیرہ دیگہ۔ کی بر می گردی؟
حالا، حالاھا نمی آم۔ خودم ام نمی دونم۔ فعلا فقط می خوام برم۔
باشہ، باشہ۔ حال ناھار تو بخور؛ بعد حرف می زنیم۔
میل ندارم، باس برم۔ اگہ پولو بدی رفتم۔ یہ وقت واسہ ت بد نشہ، منوچ! می خوای از خودش بگیرم؟
گور پدرش۔ ھر چی می خوای ور دار۔

پولھا را مشت کرد و در جیبش ریخت۔ برخاست و دست خود را بہ طرف منوچ دراز کرد۔ منوچ یخی کمی بہ او نگاہ کرد۔ دستش را گرفت و محکم تکان داد۔ او را بہ طرف خود کشید و در آغوش گرفت۔
حالا حتما باس بری؟
آرہ، گفتم کہ چیزی نپرس۔
نہ، کاری ندارم۔ اگہ لازمہ، برو۔ مواظب خودت ام باش۔ خیرپیش!
صورت یکدیگر را بوسیدند۔ منوچ روی نیمک نشست و علیرضا از در بیرون رفت۔ منوچ سرپا ایستاد و دور شدن علیرضا را تماشا کرد۔ سرش را با تاسف تکان داد، و پشت میز نشست و مشغول ناھار خوردن شد۔


کتاب: سالہای بی پناہی (جلد اول)
از: علیرضا اخلاقی
ناشر: انتشارات آوای نور


منوچ بولا: خیرہو ان شاء اللہ
جانا چاہتا ہوں
کہاں؟
نہیں معلوم۔ بس جانا چاہتا ہوں۔ چاہتا ہوں اس شھر سے کہیں دور ہو جاؤں۔ مجھ سے یہ نہ پوچھنا کہ کیوں۔ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔ کیا تم غلام سے لے سکتے ہو؟
اتفاق سے پیسے میرے پاس ہیں۔ تمہیں دے دیتا ہوں۔ حساب کرتے وقت اسے بتا دوں گا۔
ایسا کرنا غلط نہیں ہو گا؟
کس طرح سے غلط ہو گا؟! یہ سب کچھ تم نے اسی کے لیے ہی کیا۔ اب اسے چاہیے کہ تمہارا ہاتھ تھامے۔ واپس کب آؤ گے؟
ابھی، فی الحال نہیں آؤں گا۔ میں خود بھی نہیں جانتا۔ اس وقت تو بس صرف یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔
ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، ابھی تو تم کھانا کھاؤ، بعد میں بات کریں گے۔
دل نہیں چاہ رہا، بس چلنا چاہیے، اگر رقم دو تو چلوں۔ کہیں تمہارے لیے برا نہ ہو منوچ! اگر چاہو تو میں خود اس سے لے لوں؟
جہنم میں جائے، جتنے تمہیں چاہییں لے لو۔
مٹھی میں پیسے لے کر جیب میں ڈال دیے۔
کھڑا ہو اور اپنا ہاتھ منوچ کی طرف بڑھایا۔ منوچ یخی نے مختصر نگاہ اس پر ڈالی، اس کا ہاتھ مظبوطی سے تھام لیا، اسے اپنی طرف کھینچا اور بغلگیر ہو گیا۔
کیا جانا بہت ضروری ہے؟
ہاں، لیکن کہا ناں کہ کچھ پوچھنا مت۔
نہیں، سروکار نہیں، اگر ضروری ہے تو جاؤ۔ اپنا خیال رکھنا، خیریت رہے!
انھوں نے ایک دوسرے کو بوسہ دیا، منوچ بینچ پر بیٹھ گیا اور علیرضا دروازے سے باہر چلا گیا۔ منوچ کھڑا ہوا اور علیرضا کو دور ہوتے دیکھتا رہا۔ اس نے افسوس کے ساتھ اپنا سر ہلایا اور میز کے پیچھے بیٹھ گیا اور کھانا کھانے میں مشغول ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
حالا باس دستتو بگیرہ دیگہ۔
میل ندارم، باس برم۔
حالا حتما باس بری؟
میں یہ لفظ اولین بار دیکھ رہا ہوں۔ لطفاً اِس کے مفہوم کی توضیح کر دیجیے۔
 

حسان خان

لائبریرین
"هر چه ندانی، از پُرسیدنش ننگ مدار."
(ازبک ادیب سراج‌الدین مخدوم صدقی، متوفیٰ ۱۹۳۳ء)
جو کچھ تم نہیں جانتے، اُسے پوچھنے میں عار محسوس مت کرو۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میں یہ لفظ اولین بار دیکھ رہا ہوں۔ لطفاً اِس کے مفہوم کی توضیح کر دیجیے۔

مجھے کتابی فارسی سے زیادہ گفتاری فارسی دلچسپ لگتی ہے لیکن افسوس میں دونوں میں ہی کمزور ہوں۔ جہاں تک مجھے علم ہے کتابی فارسی میں اس مفہوم کے لیے باید کا استعمال ہوتا ہے۔ مذکورہ جملوں میں باس کی جگہ باید پڑھا جا سکتا ہے۔ لغت میں باید کے معانی میں بایست، بایستی وغیرہ ملتے ہیں۔ گفتاری فارسی میں باس کا استعمال ملتاہے۔ یہ باس دراصل بایست کی متغیر/گفتاری شکل ہے۔

مفہوم کے لحاظ سے دیکھیں تو جہاں التزامی، ضروری، حکم، وجوب، تاکید وغیرہ کا اظہار مقصود ہو وہاں باید، بایست، بایستی، باس وغیرہ کا استعمال ملے گا۔ مثلا واجب است/ ضروری است/ لازم است کے اظہار کے لیے یہ الفاظ استعمال ہوں گے، جیسے کہ

من باید بروم کی جگہ باس برم
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
در راہ بغداد شیخ نعمت، بہ تیفویید دچار شد۔ کاروانیان شبانگاہ تا بامداد راہ می سپردند و روز بہ استراحت می پرداختند۔ در یکی از شبھا کہ جز بانگ درای ھیچ آوایی نمی رساند ناگھان فریادی مسافران را بہ خود آورد:
ای زایران! دوستتان خود را از کجاوہ بہ زیر افکندہ است۔
سید محسن بہ شیخ موسی قبلان گفت: کجا ھستی؟
شیخ پاسخ داد: اینجا۔
سید گفت: فرود آی!
آنگاہ ھمگی پیادہ شدند، اندکی بہ عقب بازگشتند۔ شیخ نعمت با پیکری سوزان بر خاک افتادہ بود و ھمسرش در حالیکہ نوزاد در بغل داشت، کنار شیخ گریہ می کرد۔


کتاب: سید محسن امین
تالیف: عباس عبیری


بغداد کے سفر میں شیخ نعمت کو ٹائیفائیڈ نے آ گھیرا۔ قافلہ رات سے صبح تک سفر کرتا اور تمام دن آرام کیا جاتا۔ ایک شب کہ جب سوائے جرس کے کوئی دوسری آواز سنائی نہ دیتی تھی اچانک ایک فریاد مسافروں کو سنائی دی:
اے زائران! آپ کا دوست کجاوے سے گر گیا ہے۔
سید محسن نے شیخ موسی قبلان سے پوچھا: کہاں ہو؟
شیخ نے جواب دیا: یہاں۔
سید بولے: نیچے آجاؤ۔
سب لوگ اسی وقت نیچے اتر آئے، پیچھے کی جانب ذرا سا فاصلہ طے کیا تو دیکھا شیخ نعمت (بخار میں) جلتے بدن کے ساتھ زمین پر گرے ہوئے تھے اور ان کی اہلیہ نومولود کو اٹھائے شیخ کے قریب بیٹھی گریہ کر رہی تھیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
"با حیله و تدبیر دشمنِ زورترین را هم مغلوب کردن ممکن است."
حیلہ و تدبیر سے قوی ترین دشمن کو بھی مغلوب کرنا ممکن ہے۔
 
Top