فارسی نثری اقتباسات مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
روز عرسِ بیدل:
روز چهارم ماه صفر یکی از روزهای‌ برجستهٔ تاریخ ادبیات افغانستان به شمار می‌آید و به نام "روز عرس بیدل" معروف است. این روز در غالب کشور‌های آسیای میانه که با ادبیات دری انس و الفت دارند و ادبیات مشترکشان به شمار می‌آید با مراسم خاصی تجلیل می‌شود. در تاجکستان و ازبکستان و سایر بلاد ماوراءالنهر علاقهٔ زیادی به حضرت بیدل ابراز می‌شود و در این روز از او یادبود می‌کنند و آن را "روز عرس میرزا" می‌نامند. در نیم‌قارهٔ هند و پاکستان نیز ارادت مخصوصی به وی ورزیده می‌شود و صدرالدین عینی در کتاب خود به نام "میرزا عبدالقادر بیدل" می‌نویسد که در ایام باستان در شاه‌جهان‌آباد "دهلی امروز" در این روز نخست کلیات بیدل را که به خط خودش ترتیب شده بود برآورده به خانهٔ وی در آنجا که مرقد او پنداشته می‌شود در میان می‌گذاشتند و از آثار او برمی‌خواندند، بر آن بحث می‌کردند. در افغانستان نیز همواره یک محبت و عشق مفرطی به بیدل و آثارش موجود بوده‌است. نظم و نثر بیدل خوانده می‌شود، اشعارش به حیث شاهد قول ذکر می‌شود، به تصوف و روحانیت وی مردم معتقدند، اهل دل و اهل عرفان به وی ارادت‌ها می‌ورزند، نام او را به تکریم می‌برند، غالباً حضرت بیدل و حضرت میرزا می‌گویند، در مکتب‌ها و مدارس آثار او تدریس می‌شود، شعر و نثر او مورد بحث و فحص قرار می‌گیرد و بالآخره روز عرس وی در محافل مختلف و مجامع با ذکر بیدل و قرائت آثارش برگزار می‌شود و این از سال‌ها در این مملکت که منبع و مهد زبان و ادبیات دری است معمول است.

کتاب: تاریخِ ادبیاتِ افغانستان
مصنف: محمد حیدر ژوبل
سالِ اشاعت: ۱۹۵۷ء


روزِ عرسِ بیدل:
ماہِ صفر کے روزِ چہارم کا شمار ادبیاتِ افغانستان کی تاریخ کے ایک ممتاز دن کے طور پر ہوتا ہے اور یہ دن 'روزِ عرسِ بیدل' کے نام سے معروف ہے۔ ادبیاتِ فارسی سے اُنس و الفت رکھنے اور اسے اپنا مشترک ادب شمار کرنے والے اکثر وسطی ایشیائی ملکوں میں یہ روز خاص مراسم کے ساتھ تجلیل کیا جاتا ہے۔ تاجکستان، ازبکستان اور دیگر بلادِ ماوراءالنہر میں حضرتِ بیدل سے بہت زیادہ دل بستگی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس روز اُن کی یاد منائی جاتی ہے اور اسے 'روزِ عرسِ میرزا' کا نام دیا جاتا ہے۔ برِ صغیرِ ہند و پاکستان میں بھی اُن سے خاص ارادت کا اظہار ہوتا ہے اور صدرالدین عینی اپنی 'میرزا عبدالقادرِ بیدل' نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ قدیم ایام میں شاہ جہاں آباد، یعنی دہلیِ امروز، میں اِس روز اولاً کلیاتِ بیدل کے اُس نسخے کو، کہ جو اُن کے اپنے خط سے مرتب ہوا تھا، لا کر اُن کے گھر میں اُس جگہ کہ جہاں اُن کی مرقد ہونے کا گمان کیا جاتا ہے، بیچ میں رکھا کرتے تھے اور اُن کی تالیفات میں سے قرائت اور اُس پر بحث کیا کرتے تھے۔ افغانستان میں بھی بیدل اور اُن کی تالیفات سے ایک از حد زیاد عشق و محبت موجود رہا ہے۔ بیدل کی نظم و نثر پڑھی جاتی ہے، اُن کے اشعار شاہدِ قول کی حیثیت سے ذکر ہوتے ہیں، لوگ اُن کے تصوف و روحانیت کے معتقد ہیں، اہلِ دل و اہلِ عرفان اُن کے ارادت مند ہیں، اُن کا نام تکریم سے لیتے ہیں، زیادہ تر اُنہیں حضرتِ بیدل اور حضرتِ میرزا کہہ کر یاد کرتے ہیں، مکاتب و مدارس میں اُن کی تالیفات کی تدریس ہوتی ہے، اُن کی شاعری و نثر بحث و فحص کا مورد بنتی ہے اور بالآخر اُن کا روزِ عرس مختلف محفلوں اور مجمعوں میں بیدل کے ذکر اور اُن کی تالیفات کی قرائت کے ساتھ منعقد ہوتا ہے اور یہ سالوں سے اس مملکت میں کہ جو زبانِ و ادبیاتِ فارسی کا منبع اور گہوارہ ہے، معمول ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"در زمانِ پیشتره، خصوصا‌ً در هندوستان، در خانهٔ خود دفن کرده شدنِ دانشمندانِ کلان عادت بود. بنا بر این در صحنِ خانهٔ خود مدفون شدنِ این فیلسوفِ بزرگ جای تعجب نیست.
کلیاتِ آثارِ این سخنورِ دانش‌گستر، که با دست‌خطِ خود ترتیب داده بود، در خانهٔ خودش محفوظ بود. هر سال در روزِ وفاتش، که این روز را 'روزِ عرسِ میرزا' می‌نامیدند، شاعران و دانشمندانِ شاه‌جهان‌آباد به سرِ قبرش غن می‌شدند، آن کلیات را برآورده در میانهٔ مجلس گذاشته می‌خواندند و محاکمه می‌کردند و به این واسطه، آن 'دلِ در پیکرِ سخن حرکت‌کننده را' یادآوری می‌نمودند."

کتاب: میرزا عبدالقادرِ بیدل
نویسندہ: صدرالدین عینی
سالِ اشاعت: ۱۹۵۴ء


"گذشتہ زمانے میں، خصوصاً ہندوستان میں، عظیم دانشمندوں کو اپنے گھر میں دفن کرنے کا رواج تھا۔ لہٰذا اِن بزرگ فلسفی کا اپنے گھر کے صحن میں مدفون ہونا تعجب کی بات نہیں ہے۔
اِن سخنورِ دانش گُستر کی کلیاتِ آثار، کہ جسے اُنہوں نے اپنے خط سے مرتّب کیا تھا، اُن کے اپنے گھر میں محفوظ تھی۔ ہر سال اُن کی وفات کے روز، کہ جسے 'روزِ عرسِ میرزا' کہا جاتا تھا، شاہ جہاں آباد کے شاعر اور دانشمند اُن کی قبر کے کنارے جمع ہوتے تھے، اُس کلیات کو باہر لا کر اور مجلس کے درمیان رکھ کر پڑھتے تھے اور بحث و گفت و شنید کرتے تھے اور اس ذریعے سے اُس 'پیکرِ سخن میں حرکت کرنے والے دل' کو یاد کیا کرتے تھے۔"

× 'غُن/ғун' ماوراءالنہری فارسی کا علاقائی لفظ ہے۔
× دانش گُستر = دانش پھیلانے والا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"صاحب‌جمالی دیدم، رویش چون کعبه سزای قِبله بود و خالش چون حجرالاسود برای قُبله."
(روضهٔ خلد، مجدالدین خوافی)


"میں نے ایک صاحب جمال دیکھا، اُس کا چہرہ کعبے کی طرح قبلے کا سزاوار تھا اور اُس کا خال حجرِ اسود کی طرح بوسے کے لیے (تھا)۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"علی همدانی یکی از جهانگردان و مبلغان بزرگ ایرانی است که بیشتر زندگانی خود را درین دو کار به سر برده‌است. او در سایر ممالک اسلامی خدمات ارزندهٔ دینی انجام داده و تنها در خطهٔ کشمیر ۳۷ هزار نفوس بر دست او اسلام پذیرفته و به همت او صنایع و زبان و ادبیات و فرهنگ ایرانی در آن خطه راه یافته و به قول مرحوم اقبال لاحوری (م. ۱۳۵۷ ه ق):
خطه را آن شاهِ دریا آستین
داد علم و صنعت و تهذیب و دین
وفات علی همدانی روز ۶ ذی الحجه ۷۸۶ ه اتفاق افتاد و مدفون ختلان (کولاب کنونی در تاجیکستان شوروی) می‌باشد."

کتاب: 'چهل اسرار یا غزلیاتِ میر سید علی همدانی' کا دیباچہ
راقمِ سطور: محمد ریاض خان
سالِ اشاعتِ کتاب: ۱۹۶۸ء


"[میر سید] علی ہمدانی بزرگ ایرانی سیاحوں اور مبلغوں میں سے ایک ہیں کہ جنہوں نے اپنی بیشتر زندگی ان دو کاموں میں بسر کی تھی۔ انہوں نے تمام اسلامی ممالک میں قیمتی دینی خدمات انجام دیں اور صرف خطۂ کشمیر میں ۳۷ ہزار نفوس نے اُن کے دست پر اسلام قبول کیا تھا۔ اُن کی کوششوں سے ایرانی فنون، زبان و ادبیات اور ثقافت نے اُس خطے میں نفوذ پایا اور بقولِ مرحوم اقبالِ لاہوری (متوفّیٰ ۱۳۵۷ ہجری قمری):
خطه را آن شاهِ دریا آستین
داد علم و صنعت و تهذیب و دین
ترجمہ: اُس دریا دست شاہ نے خطے کو علم و صنعت و تہذیب و دین عطا کیے۔
علی ہمدانی کی وفات ۶ ذی الحجہ ۷۸۶ ہجری کے روز ہوئی اور وہ ختلان (شُورَوی تاجکستان میں واقع موجودہ کولاب) میں مدفون ہیں۔"

× علامہ اقبالِ لاہوری نے میر سید علی ہمدانی کے بارے میں یہ بھی کہا ہے:
آفرید آن مرد ایرانِ صغیر
با هنرهای غریب و دل‌پذیر
ترجمہ: اُس شخص نے نادر و دل پذیر فنون سے ایرانِ صغیر کی تشکیل کی۔
واضح رہے کہ فارسی زبان و ادب و ثقافت کا مرکز ہونے کی وجہ سے خطۂ کشمیر کو اسلامی عہد میں 'ایرانِ صغیر' کے لقب سے یاد کیا جاتا رہا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
صدرالدین عینی کی محمد نقیب خان طغرل احراری کی شاعری کی بابت رائے:
"طغرل، مقلدِ بیدل است، لیکن مثلِ بسیارترین مقلدانِ بیدل، درین پیروی هیچ موفق نشده‌است. استعدادِ طغرل، بسیار کامل و خیالش مستعدِ بالادوی بود. اگر طبعِ خود را در اسارتِ تقلیدِ بیدل ‌نمی‌انداخت و هم به حقِ خود بسیار نیک‌بین نمی‌بود، از سرآمدانِ زمانِ خود شدنش محقق بود."
"طغرل بیدل کا مقلد ہے، لیکن بیدل کے اکثر مقلدوں کی طرح وہ اس پیروی میں ذرا کامیاب نہیں ہوا ہے۔ طغرل کی استعداد بہت کامل تھی اور اُس کی فکر بلند پروازی کی قابلیت رکھتی تھی۔ اگر وہ اپنی طبع کو بیدل کی تقلید کی اسیری میں نہ ڈالتا اور اپنے بارے میں زیادہ خوش بین بھی نہ ہوتا تو اُس کا اپنے زمانے کے بالاتر [شاعروں] میں سے ہونا یقینی تھا۔"
کتاب: نمونهٔ ادبیاتِ تاجیک
مصنف: صدرالدین عینی
سالِ اشاعت: ۱۹۲۶ء
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"و کمال خرد مرد آن باشد که خود خشم نگیرد، پس اگر گیرد باید که عقل او بر خشم چیره باشد نه خشم او بر عقل. و هر که را هوای نفس او بر خرد چیره باشد چون بشورد خشم او مر چشم خرد او را بپوشاند و همه آن کند و فرماید که از دیوانگان به وجود آید و باز هر که را خرد او بر هوای نفس او غالب باشد به وقت خشم خرد او خواست نفس او را بشکند و همه آن کند و فرماید که به نزدیک همه عاقلان پسندیده باشد و مردمان ندانند که او در خشم شده‌است."

کتاب: سِیَرالملوک یا سیاست‌نامه
مصنف: خواجه نظام‌الملک طوسی (متوفّیٰ ۱۰۹۲ء)


"اور انسان کا کمالِ عقل یہ ہے کہ وہ خود خشم آلود نہ ہو، لیکن اگر ہو جائے تو لازم ہے کہ اُس کی عقل خشم پر غالب ہو نہ کہ اُس کا خشم عقل پر۔ اور جس کی ہوائے نفس عقل پر غالب ہو، وہ جب شوریدہ ہوتا ہے تو اُس کا خشم اُس کی عقل کی آنکھ کو ڈھانپ دیتا ہے اور وہ شخص سب کچھ وہ کرتا اور فرماتا ہے جو دیوانوں سے سرزد ہوتا ہے۔ اور دوسری جانب جس کی عقل اُس کی ہوائے نفس پر غالب ہو، خشم کے وقت اُس کی عقل اُس کی خواہشِ نفس کو توڑ دیتی ہے اور وہ شخص سب کچھ وہ کرتا اور فرماتا ہے جو تمام عاقلوں کے نزدیک پسندیدہ ہے اور لوگ نہیں جان پاتے کہ وہ خشمگین ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
لَکّهٔ ابر
ملا نصرالدین را دیدند که در صحرا با کمالِ اوقات‌تلخی بعضی از نقاطِ زمین را کنده چیزی را تفحّص می‌نمود. پرسیدند چه می‌کنی، گفت پولی در این زمین‌ها دفن کرده بودم و اینک هر قدر جستجو می‌کنم نمی‌یابم. گفتند وقتی که دفن کردی مگر نشانی نگذاشته بودی؟ گفت چرا. گفتند چه نشانی. گفت به نشانیِ آنکه لَکّهٔ ابری در آن وقت به روی آن نقطه از زمین سایه انداخته بود!

کتاب: گنجینهٔ لطایف
مؤلف: مجتبیٰ فرداد


بادل کا ٹکڑا
لوگوں نے ملا نصرالدین کو دیکھا کہ وہ صحرا میں نہایت غیظ و غضب اور تلخی کے ساتھ زمین کے بعض حصوں کو کھود کر کسی چیز کی جستجو کر رہا تھا۔ انہوں نے پوچھا کیا کر رہے ہو؟ اُس نے کہا میں نے اس زمین میں کچھ پیسا دفن کیا تھا، لیکن اب جس قدر بھی تلاش کر رہا ہوں، وہ مل نہیں پا رہا۔ لوگوں نے کہا جب تم نے دفن کیا تھا، تب کیا کوئی نشانی نہیں لگائی تھی؟ کہا کیوں نہیں۔ پوچھا گیا کون سی نشانی؟ جواب دیا اس نشانی پر (دفن کیا تھا) کہ بادل کے ایک ٹکڑے نے اُس وقت اُس نقطۂ زمین پر سایہ ڈالا ہوا تھا!

× لَکّه کا لفظی مطلب 'دھبّا، داغ' ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(حکایت)
بازرگانی را هزار دینار خسارت افتاد. پسر را گفت: "نباید، که این سخن با کسی در میان نهی!" گفت: "ای پدر، فرمان تراست، نگویم، ولیکن خواهم مرا بر فایدهٔ این مطلع گردانی، که مصلحت در نهان داشتن چیست؟" گفت: "تا مصیبت دو نشود: یکی نقصانِ مایه و دیگر شماتتِ همسایه."
مگو اندهِ خویش با دشمنان
که لاحول گویند شادی‌کنان


کتاب: گلستان
مصنف: سعدی شیرازی
سالِ تصنیف: ۶۵۶ھ/۱۲۵۸ء


(حکایت)
ایک سوداگر کو تجارت میں ایک ہزار دینار کا نقصان ہو گیا۔ اُس نے اپنے بیٹے سے کہا تمہیں اس کا ذکر کسی سے نہیں کرنا چاہیے۔ بیٹے نے کہا ابا آپ کا حکم ہے، اس لیے میں کسی سے نہ کہوں گا، لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس کے فائدے سے باخبر کر دیں کہ اس بات کے چھپانے میں کیا مصلحت ہے؟ باپ نے کہا تاکہ ایک سے دو مصیبتیں نہ ہو جائیں۔ ایک تو مال کا نقصان دوسرے ہمسائے کی (ہمارے نقصان پر) خوشی۔
(شعر) اپنا غم دشمنوں سے بیان نہ کرو کیونکہ وہ خوش ہوتے ہوئے لاحول پڑھیں گے۔

× شماتت = دوسروں کے غم و رنج پر خوش ہونا
 

حسان خان

لائبریرین
مظفر‌الدین شاه و کاروان‌سرادار!
مظفرالدین شاه از سفر قم مراجعت می‌کرد در میان راه کجاوه‌اش خراب شد و مجبور شد در کاروان‌سرایی تا صبح بماند به همین منظور در کاروان‌سرایی را زد، دالان‌دار گفت: کیه؟ مظفر‌الدین شاه گفت:
ما السلطان بن سلطان بن سلطان مظفر‌الدین شاه بن صاحب‌قران ناصرالدین شاه شاهنشاه سعید فقید قاجار از نوادهٔ فتح‌علی شاه قاجار رحمة الله علیه هستیم و آمدیم امشب در اینجا بخوابیم! دالان‌دار از پشت در گفت:
-آقایون! ما فقط یک اطاق کوچک داریم برای این همه آدم جا نداریم!!

کتاب: خوش‌مزگی‌ها
مؤلف: مهدی سهیلی
سالِ اشاعت: ۱۹۵۴ء


مظفرالدین شاہ اور مالکِ کاروان سرا!
مظفرالدین شاہ قم کے سفر سے لوٹ رہا تھا۔ راستے میں اُس کا کجاوہ خراب ہو گیا اور وہ کسی کاروان سرا میں صبح تک قیام کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اسی خاطر اُس نے ایک کاروان سرا کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سرائے دار نے پوچھا: کون ہے؟ مظفرالدین شاہ نے جواب دیا:
ہم السلطان بن سلطان بن سلطان مظفرالدین شاہ بن صاحب قران ناصرالدین شاہ شاہنشاہِ سعیدِ فقیدِ قاجار از فرزندزادگانِ فتح علی شاہ قاجار رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور ہم اس شب یہاں رات بسر کرنے آئے ہیں! سرائے دار نے دروازے کے پیچھے سے کہا:
- حضرات! ہمارے پاس صرف ایک چھوٹا اطاق ہے۔ اتنے سارے لوگوں کے لیے ہمارے پاس جگہ نہیں ہے!!

× کاروان‌سرادار = نگهبانِ کاروان‌سرا (فرهنگِ عمید)
× دالان‌دار = محافظِ کاروان‌سرا (فرهنگِ معین)
× کیه = ایرانی گفتاری فارسی میں 'کیست' کی گفتاری شکل جسے وہاں 'kiye' پڑھا جاتا ہے۔
× آقایون = ایرانی گفتاری فارسی میں 'آقایان' کی گفتاری شکل
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(الحکایة)
خواجه ابوالفتح شیخ گفت که یک روز قوّال پیشِ شیخِ ما قدّس الله روحه این بیت می‌خواند که:
اندر غزلِ خویش نهان خواهم گشتن
تا بر دو لبت بوسه دهم چونْش بخوانی
شیخِ ما از قوّال پرسید که این بیت کِراست؟ گفت عمّاره گفته‌است. شیخ برخاست و با جماعتِ صوفیان به زیارتِ خاکِ عمّاره شد.

کتاب: اسرارالتوحید فی مقامات الشیخ ابی سعید
مؤلف: محمد بن المنور بن ابی سعید بن ابی طاهر بن ابی سعید بن ابی الخیر
سالِ تألیف: تقریباً ۵۷۰ هجری


(حکایت)
خواجہ ابوالفتح شیخ نے بیان کیا کہ ایک روز قوال ہمارے شیخ [ابوسعید ابوالخیر] قدّس اللہ روحہ کے سامنے یہ شعر پڑھ رہا تھا کہ:
اندر غزلِ خویش نهان خواهم گشتن
تا بر دو لبت بوسه دهم چونْش بخوانی
ترجمہ: میں اپنی غزل کے اندر پنہاں ہو جاؤں گا تاکہ جب تم اُسے پڑھو تو میں تمہارے دو لبوں پر بوسہ دے دوں۔
ہمارے شیخ نے قوال سے پوچھا کہ یہ شعر کس کا ہے؟ اُس نے کہا [ِیہ شعر] عمّارہ نے کہا ہے۔ شیخ اٹھے اور صوفیوں کی جماعت کے ساتھ عمّارہ کی تُربت کی زیارت کے لیے روانہ ہو گئے۔

× ابومنصور عمّارہ بن محمد مَروَزی فارسی شعراء کے متقدمین میں سے اور سامانیوں اور غزنویوں کے ہم عصر تھے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(حکایت)
سلطان محمود را در حالتِ گرسنگی بادنجان بورانی پیش آوردند. خوشش آمد. گفت: بادنجان طعامی‌ست خوش. ندیمی در مدحِ بادنجان فصلی پرداخت. چون سیر شد گفت: بادنجان سخت مضر چیزی‌ست. ندیم باز در مضرتِ بادنجان مبالغتی تمام کرد. سلطان گفت: ای مردک نه این زمان مدحش می‌گفتی؟ گفت: من ندیمِ توام نه ندیمِ بادنجان. مرا چیزی می‌باید گفت که ترا خوش آید نه بادنجان را.

کتاب: رسالهٔ دلگشا
مؤلف: خواجه نظام‌الدین عبیدالله زاکانی (متوفّیٰ ۱۳۷۰ء)


(حکایت)
سلطان محمود کے سامنے بھوک کی حالت میں بینگن کی بورانی لائی گئی۔ اُسے پسند آئی۔ اُس نے کہا: بینگن ایک اچھی خوراک ہے۔ ایک ندیم نے بینگن کی مدح میں کتاب کا باب کہہ ڈالا۔ جب سلطان محمود سیر ہو گیا تو اُس نے کہا: بینگن ایک سخت مضر چیز ہے۔ ندیم نے پھر بینگن کے نقصانات گنوانے میں شدید مبالغہ کیا۔ سلطان نے کہا: اے مردِ پست! ابھی چند دقیقوں قبل تم اس کی مدح سرائی نہیں کر رہے تھے؟ اُس نے کہا: میں آپ کا ندیم ہوں، بینگن کا نہیں۔ مجھے وہ چیز کہنا لازم ہے جو آپ کو پسند آئے نہ کہ بینگن کو۔

× بُورانی = بینگن اور دہی کو ملا کر پکائی جانے والی ایک غذا
 

حسان خان

لائبریرین
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے ترجمۂ قرآن موسوم بہ 'فتح الرحمٰن بترجمۃ القرآن' سے سور‌ۂ مُلک کی ابتدائی دو آیات کا فارسی ترجمہ:
"بسیار بابرکت است آن خدا که به دستِ اوست پادشاهی و او بر همه چیز تواناست. آن خدا که آفرید موت و حیات را تا بیازماید شما را که کدام یک از شما نیکوتر است در عمل و اوست غالبِ آمرزگار."
ترجمہ: نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔
(اردو مترجم: ابوالاعلیٰ مودودی)
 

حسان خان

لائبریرین
ڈاکٹر جاوید اقبال کی وفات پر فرہنگستانِ زبان و ادبِ فارسی کے رئیس غلام علی حدّاد عادل کا ایران میں پاکستان کے سفیر نور محمد جادمانی کے نام پیامِ تعزیت:

بسمه‌تعالی
جناب آقای نورمحمد جانی (کذا)

سفیر محترم جمهوری اسلامی پاکستان در ایران
درگذشت شادروان دکتر جاوید اقبال، فرزند برومند و یادگار عزیز محمد اقبال لاهوری، شاعر بزرگ و منادی بیداری و بازگشت به هویت خودی، موجب اندوه و تأسف عمیق شد. آن استاد والامقام که حقوق‌دانی برجسته و نویسنده‌ای توانا بود، نقش بسیار مهمی در احیای اثار گران بهای پدر داشت و در طول سال‌های زندگی خود تلاش بسیاری برای جمع‌آوری و حفظ و انتشار و معرفی آثار علامه اقبال انجام داد.
این‌جانب از سوی فرهنگستان زبان و ادب فارسی و بنیاد سعدی و عموم استادان زبان و ادب فارسی در ایران، فقدان این شخصیت ارجمند را به خانوادۀ محترم ایشان و جامعۀ فرهنگی و علمی پاکستان تسلیت می‌گویم و از درگاه خداوند متعال برای بازماندگان صبر و برای آن شادروان علوّ درجات و رحمت واسعۀ الهی طلب می‌کنم.

غلامعلی حدّاد عادل
رئیس فرهنگستان زبان و ادب فارسی
و بنیاد سعدی


ماخذ

باسمہ تعالیٰ
جنابِ آقائے نور محمد جانی
(کذا)
سفیرِ محترم جمہوریۂ اسلامیِ پاکستان در ایران
بیداری اور اپنی خودی کی جانب بازگشت کے منادی بزرگ شاعر محمد اقبالِ لاہوری کے فرزندِ برومند اور اُن کی یادگارِ عزیز مرحوم ڈاکٹر جاوید اقبال کی وفات گہرے غم اور افسوس کا موجب بنی ہے۔ ان والامقام استاد کا، جو ایک ممتاز قانون دان اور توانا مصنف تھے، اپنے والد کی گراں بہا تصنیفات کے احیاء میں بڑا اہم کردار رہا تھا اور انہوں نے اپنے ایامِ حیات میں علامہ اقبال کی تصنیفات کی جمع آوری، حفاظت، نشر اور تعارف کے لیے بہت کوششیں انجام دی تھیں۔
میں فرہنگستانِ زبان و ادبِ فارسی، بنیادِ سعدی اور ایران کے تمام استادانِ زبان و ادبِ فارسی کی جانب سےان شخصیتِ ارجمند کی رحلت پر ان کے محترم خانوادے اور پاکستان کے ثقافتی و علمی معاشرے کو تعزیت عرض کرتا ہوں اور خداوندِ متعال کی درگاہ سے پس ماندگان کے لیے صبر اور مرحوم کے لیے بلندیِ درجات اور خدا کی رحمتِ واسعہ کا طالب ہوں۔
غلام علی حدّاد عادل
رئیسِ فرہنگستان زبان و ادبِ فارسی
و بنیادِ سعدی
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
از جملہ کارھای خیری کہ آیۃ اللہ انصاری در عمر پر برکت خود انجام داد بسبب جنگ بین المللی دوم کہ گرانی شد و نان ھم کم یاب بود تجار را جمع نمودہ و مقرر شد چند نانوا در شھر معین گردد کہ روزانہ صدھا نفر از فقراء و عائلہ آنان تغذیہ شوند و این کار مدتھا ادامہ داشت۔

کتاب: زندگینامہ مؤسس حوزہ علمیہ اہواز
ناشر: کتابخانہ مدرسہ علمیہ آیۃ اللہ انصاری اھواز
تاریخ: 1411 قمری


آیۃ اللہ انصاری نے اپنی عمر مبارک میں جو نیک کام انجام دیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے کہ جب مہنگائی بڑھ چکی تھی اور عام فرد کو روٹی تک میسر نہ تھی آپ نے تاجروں سے رابطہ کیا اور طے پایا کہ چند نانبائی شہر میں معین رہیں جو روزانہ سینکڑوں نیازمندوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے کھانا فراہم کریں۔ یہ سلسلہ جاری رہا۔
 

حسان خان

لائبریرین
رئِیسِ جمهورِ تاجیکستان امام‌علی رحمان جهتِ انجام دادنِ سفرِ دولتی روزِ ۱۱ نايبر به پاکستان رفت. در نظر است در این سفر رئیسِ جمهورِ تاجیکستان با پريزيدينتِ پاکستان ممنون حسین و نخست‌وزیرِ آن کشور نواز شریف ملاقات نماید. سفرِ امام‌علی رحمان به پاکستان روزِ ۱۳ نایبر پایان می‌یابد.
ماخذ
تاجکستان کے صدر امام علی رحمان ۱۱ نومبر کے روز سرکاری دورے پر پاکستان روانہ ہو گئے ہیں۔ اس بات کی توقع ہے کہ اس سفر میں صدرِ تاجکستان پاکستان کے صدرِ مملکت ممنون حسین اور اس ملک کے وزیرِ اعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ امام علی رحمان کا پاکستان کا سفر ۱۳ نومبر کے روز اختتام پذیر ہو گا۔

× ماوراءالنہر میں فرنگی اصطلاحات روسی کے ذریعے جبکہ ایران میں فرانسیسی کے ذریعے وارد ہوئیں تھیں، لہٰذا تاجک فارسی میں نومبر کو نایَبْر (ноябр) جبکہ ایرانی فارسی میں نُوامبْر کہتے ہیں۔
× صدرِ مملکت کے لیے ایران اور افغانستان کے مردم 'پریزیدینت' کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شکایت ہمسایہ

شخصی آمد پیش حضور رسول اکرم (ص)، و از ھمسایہ اش شکایت کرد، کہ، مرا اذیت می کند و از من سلب آسایش کردہ۔

رسول اکرم فرمود: "تحمل کن سر و صدا علیہ ھمسایہ ات راہ نینداز، بلکہ روش خود را تغییر دھد۔"
بعد از چندی دو مرتبہ آمد و شکایت کرد۔ این دفعہ نیز رسول اکرم فرمود، "تحمل کن"۔


برای سومین بار آمد و گفت، "یا رسول اللہ، این ھمسایہ من، دست از روش خویش بر نمی دارد، و ھمان طور موجبات ناراحتی من و خانوادہ ام را فراھم می سازد۔"

این دفعہ رسول اکرم بہ او فرمود، "روز جمعہ کہ رسید، برو اسباب و اثاث خودت را بیرون بیاور، و سر راہِ مردم کہ می آیند و می روند و می بینند بگذار، مردم از تو خواھند پرسید کہ چرا اثاثت اینجا ریختہ است؟ بگو از دست ھمسایہ بد، و شکایت او را بہ ھمہ مردم بگو۔"

شاکی ھمین کار را کرد۔ ھمسایہ موذی کہ خیال می کرد، پیغمبر برای ھمیشہ دستور تحمل و بردباری می دھد، نمی دانست آنجا کہ پای دفع ظلم و دفاع از حقوق بہ میان بیاید، اسلام حیثیت و احترامی برای متجاوز قائل نیست۔ لہذا ھمینکہ از موضوع اطلاع یافت، بہ التماس افتاد و خواھش کرد کہ آن مرد، اثاثِ خود را برگرداند بہ منزل۔ و در ھمان وقت متعہد شد کہ دیگر بہ ھیچ نحو موجبات آزار ھمسایہ خود را فراھم نسازد۔
٭
٭ اصول کافی، جلد۲، باب "حق الجوار" صفحہ ۶۶۸


ایک شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا اور اپنے ہمسایہ کی شکایت کی کہ وہ مجھے اذیت پہنچاتا ہے اور میرا آرام و سکون ختم ہو کے رہ گیا ہے۔
رسول اکرم (ص) نے فرمایا، "تحمل سے کام لو اور داد و فریاد کو اپنے ہمسایہ کی جانب راہ نہ دو، بلکہ اسے اپنی روش تبدیل کرنے دو۔"
چند دن بعد وہ شخص دوبارہ آیا اور شکایت کی۔ اس بار بھی رسول اکرم (ص) نے فرمایا، "تحمل سے کام لو۔"

وہ شخص تیسری بار پھر آیا اور کہا، "یا رسول اللہ، میرا ہمسایہ اپنی روش پر قائم ہے اور مسلسل میرے اور میرے اہل خانہ کے لیے زحمت و ایذا رسانی کا سبب بنا ہوا ہے۔

اس بار رسول اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا، "جاؤ اور جمعہ کے دن اپنا مال و اسباب گھر سے باہر لا کر رکھ دو جہاں آتے جاتے لوگ اسے دیکھیں، وہ تم سے اس بارے میں سوال کریں گے، تم انہیں جواب دینا کہ اپنے برے ہمسائے کی وجہ سے، اور لوگوں سے اس کی شکایت کرنا۔"

اس شخص نے ایسا ہی کیا۔ وہ ہمسایہ جو اس خیال میں تھا کہ پیغمبر تو ہمیشہ صرف تحمل و بردباری کا درس دیتے ہیں، نہیں جانتا تھا کہ اب ظلم کوروکنے اور اپنا حق حاصل کرنےکا مقام تھا کہ اسلام اپنی حد سے تجاوز کرنے والے کے لیے احترام و رتبے کا قائل نہیں بلکہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور اپنے حقوق کی حفاظت کا درس بھی دیتا ہے، پس جب اسے علم ہوا تو پشیمان ہو کر منت و فریاد کرنے لگا اور ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنا مال و اسباب اپنے گھر واپس لے جائے۔ ساتھ ہی اس نے عہد کیا کہ دوبارہ کبھی بھی اپنے پڑوسی کے لیے ایذا رسانی کا سبب نہیں بنے گا۔

کتاب: داستان راستان (جلد اوؐل)
از: استاد مرتضٰی مطہری
ناشر: انتشارات صدرا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
"در زمانِ پیشتره، خصوصا‌ً در هندوستان، در خانهٔ خود دفن کرده شدنِ دانشمندانِ کلان عادت بود. بنا بر این در صحنِ خانهٔ خود مدفون شدنِ این فیلسوفِ بزرگ جای تعجب نیست.
کلیاتِ آثارِ این سخنورِ دانش‌گستر، که با دست‌خطِ خود ترتیب داده بود، در خانهٔ خودش محفوظ بود. هر سال در روزِ وفاتش، که این روز را 'روزِ عرسِ میرزا' می‌نامیدند، شاعران و دانشمندانِ شاه‌جهان‌آباد به سرِ قبرش غن می‌شدند، آن کلیات را برآورده در میانهٔ مجلس گذاشته می‌خواندند و محاکمه می‌کردند و به این واسطه، آن 'دلِ در پیکرِ سخن حرکت‌کننده را' یادآوری می‌نمودند."

کتاب: میرزا عبدالقادرِ بیدل
نویسندہ: صدرالدین عینی
سالِ اشاعت: ۱۹۵۴ء


"گذشتہ زمانے میں، خصوصاً ہندوستان میں، عظیم دانشمندوں کو اپنے گھر میں دفن کرنے کا رواج تھا۔ لہٰذا اِن بزرگ فلسفی کا اپنے گھر کے صحن میں مدفون ہونا تعجب کی بات نہیں ہے۔
اِن سخنورِ دانش گُستر کی کلیاتِ آثار، کہ جسے اُنہوں نے اپنے خط سے مرتّب کیا تھا، اُن کے اپنے گھر میں محفوظ تھی۔ ہر سال اُن کی وفات کے روز، کہ جسے 'روزِ عرسِ میرزا' کہا جاتا تھا، شاہ جہاں آباد کے شاعر اور دانشمند اُن کی قبر کے کنارے جمع ہوتے تھے، اُس کلیات کو باہر لا کر اور مجلس کے درمیان رکھ کر پڑھتے تھے اور بحث و گفت و شنید کرتے تھے اور اس ذریعے سے اُس 'پیکرِ سخن میں حرکت کرنے والے دل' کو یاد کیا کرتے تھے۔"

× 'غُن/ғун' ماوراءالنہری فارسی کا علاقائی لفظ ہے۔
× دانش گُستر = دانش پھیلانے والا

تصور کو کس زمانے میں پہنچادیا آپ نے یہ لکھ کر۔ شریک کرنے کا بہت شکریہ ۔
حسان خان آج آپ کے بلاگ جریدہء عالم پر جانے کا اتفاق ہوا ۔ بہت شوق سے کچھ چیزیں پڑھیں اور لطف لیا ۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ تحریر نستعلیق کے بجائے کسی نسخ نما فونٹ میں ہے ؟ پڑھنے کی رفتار بھی کم رہی اور کچھ الجھن سی بھی ہوتی رہی ۔ میری ناچیز رائے میں اگر فونٹ کو نستعلیق کردیا جائے تو بہت اچھا ہوگا ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
لیکن کیا وجہ ہے کہ تحریر نستعلیق کے بجائے کسی نسخ نما فونٹ میں ہے ؟ پڑھنے کی رفتار بھی کم رہی اور کچھ الجھن سی بھی ہوتی رہی ۔ میری ناچیز رائے میں اگر فونٹ کو نستعلیق کردیا جائے تو بہت اچھا ہوگا ۔
برادرِ گرامی، اس بات سے انکار نہیں ہے کہ نستعلیق خوبصورت اور جاذبِ نظر خط ہے، لیکن جدید برقی دور میں اور کمپیوٹر پر استعمال کے لیے نستعلیق کی افادیت اور صلاحیت بہت کم ہے، اسی وجہ سے میں نستعلیق کی بجائے نسخ کا حامی ہوں۔ آپ نسخ خوانی کی مشق جاری رکھیے، ان شاء اللہ آپ کی الجھن دور ہو جائے گی۔ :)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ نسخ خوانی کی مشق جاری رکھیے، ان شاء اللہ آپ کی الجھن دور ہو جائے گی۔ :)
:):):)
فکر نہ کریں ۔ آپ کے بلاگ پر جاتا رہوں گا ۔میری پسند کی بہت ساری چیزیں نظرآرہی ہیں اس پر ۔ لیکن وقتا فوقتا نستعلیق کا شکوہ بھی کرتا رہوں گا کہ بچپن تختیاں لکھتے اورایک عمر اسی خط میں کتابیں پڑھتے گزاری ہے ۔
ہٹتی نہیں ہے آنکھ سے کافر لگی ہوئی
:)
 

حسان خان

لائبریرین
الیکساندر وُوچیچ، نخست‌وزیرِ سیربیا، روزِ ۱۱ نایبر در مجمعهٔ یادگاریِ قربانیانِ کشتارِ دسته‌جمعیِ مسلمان‌ھا در شهرِ سریبرینیتسای بوسنی گُل‌چنبر از صدبرگ‌های سفید را گذاشت. در این مراسم میرِ مسلمانِ سریبرینیتسا و رهبرِ مسلمان‌های بوسنی باقر عزت‌بیگوویچ هم حضور داشتند.
ماخذ
سربستان کے وزیرِ اعظم الیکساندر وُوچیچ نے ۱۱ نومبر کے روز بوسنیا کے شہر سریبرینیتسا میں اجتماعی قتلِ عام کا نشانہ بننے والے مسلمانوں کے یادگاری عمارتی مجموعے میں سفید صدبرگوں کا گُل حلقہ رکھا۔ اس تقریب میں سریبرینیتسا کے مسلمان ناظم اور بوسنیائی مسلمانوں کے رہبر باقر عزت بیگوویچ بھی موجود تھے۔

× تاجکستان میں زیادہ تر روسی زبان سے آیا لفظ 'سیربیا' استعمال ہوتا ہے۔ وہاں 'صربسان' کی اصطلاح کا استعمال تا حال کم ہے۔
× عمارتی مجموعہ = کمپلیکس
× صدبرگ = گیندا
× میں نے 'گل دستہ' پر قیاس کرتے ہوئے 'گُل حلقہ' کی ترکیب مندرجہ ذیل چیز کے لیے استعمال کی ہے:
modern-green-white-memorial-wreath.jpg

==================
الکساندر ووچیچ، نخست‌وزیرِ صربستان روزِ چهارشنبه در شهرِ سربرنیتسا در بوسنی و هرزگوین به بیش از ۸ هزار مرد و جوانِ مسلمانی که در سالِ ۱۹۹۵ میلادی توسطِ صرب‌ها در این شهر قتلِ عام شدند، ادای احترام کرد.
بیست سال پیش نظامیانِ ارتشِ صربستان در حضورِ چهار صد سربازِ پاسدارِ صلحِ مسلحِ هلندی ۸ هزار مرد و پسرِ مسلمان را در سربرنیتسا به خاک و خون کشیدند و بزرگترین قتلِ عام و نسل‌کشی در تاریخِ اروپا را پس از جنگِ جهانیِ دوم رقم زدند.

ماخذ
سربستان کے وزیرِ اعظم الیکساندر ووچیچ نے بدھ کے روز بوسنیا و ہرزیگووینا کے شہر سریبرینیتسا میں ۱۹۹۵ء میں سربوں کے توسط سے قتلِ عام ہونے والے ۸ ہزار سے زیادہ مسلمان مردوں اور جوانوں کے لیے احترام کی ادائیگی کی۔
بیس سال قبل سربستانی فوج کے سپاہیوں نے ہالینڈ کے چار ہزار مسلح پاسدارِ امن فوجیوں کی موجودگی میں ۸ ہزار مسلمان مردوں اور لڑکوں کو سریبرینیتسا میں‌ خاک و خوں میں غلطاں کر کے یورپ کی تاریخ میں جنگِ عظیمِ دوم کے بعد سب سے بڑے قتلِ عام اور نسل کشی کا ارتکاب کیا تھا۔
 
آخری تدوین:
Top