غزل ۔ سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا ۔ محمد احمدؔ

سید عاطف علی

لائبریرین
تھا ،تھی، کہا، سنا، لگا۔ دیکھنا، ۔۔ کہاں تک ہندی الفاظ گنائے جائیں جو اردو میں شامل ہیں، بلکہ اردو کئ گرامر میں۔ مگر یہ الفاظ اردو کے خمیرمیں شامل ہو گئے ہیں۔ ’جیون‘ اس نوعیت کا لفظ نہیں، قبول کیا جا سکتا تھا لیکن بے فیض رفاقت جیسئ تراکیب کے ساتھ عجیب لگتا ہے
بہت سادہ اور اچھی ÷گزل ہے احمد بھائی ۔ بہت خوب۔ اج نظر پڑی ۔بہت بہت داد۔۔۔۔
کافی تب÷سرے بھی ھوئے ۔ جیون والی بات اعجاز بھائی کی اچھی لگی اگرچہ لفظ ہندی اردو کا ہی ہے جیسے جینا ویسے مرنا ۔ تاہم ۔ یہ لفظ جیون گانوں گیتوں اور فلمی نوعیت کے ماحول میں اس کثرت سے مستعمل ہوا کہ اس کی اپنی ادبی سجدیدگی متاثر ھو گئی ایسے میں فیض رفاقت سے ساتھ کچھ فصیح ترکیب ہی چست لگے گی ۔ ۔ ۔
مقطع کا ابلاغ بھی اتنا کمزور تونہیں کہ قاری کے ذہن پر زور ڈال رہا ہو البتہ انداز چست تر ہو تو اور بہتر ہو۔
 
احمد بھائی، عمدہ مزید فیہ! آج جانے کیسے یہ لڑی نظر آ گئی اور ساتھ ہی یہ بھی علم ہوا کہ آپ تو کب کے پندرہ ہزاری ہو چکے ہیں۔۔۔ مبارکباد! :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت سادہ اور اچھی ÷گزل ہے احمد بھائی ۔ بہت خوب۔ اج نظر پڑی ۔بہت بہت داد۔۔۔۔
کافی تب÷سرے بھی ھوئے ۔ جیون والی بات اعجاز بھائی کی اچھی لگی اگرچہ لفظ ہندی اردو کا ہی ہے جیسے جینا ویسے مرنا ۔ تاہم ۔ یہ لفظ جیون گانوں گیتوں اور فلمی نوعیت کے ماحول میں اس کثرت سے مستعمل ہوا کہ اس کی اپنی ادبی سجدیدگی متاثر ھو گئی ایسے میں فیض رفاقت سے ساتھ کچھ فصیح ترکیب ہی چست لگے گی ۔ ۔ ۔
مقطع کا ابلاغ بھی اتنا کمزور تونہیں کہ قاری کے ذہن پر زور ڈال رہا ہو البتہ انداز چست تر ہو تو اور بہتر ہو۔

بہت شکریہ!

ہندی الفاظ کے معاملے میں آپ کی اور اعجاز صاحب کی بات سے متفق ہوں۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی، عمدہ مزید فیہ!

شکریہ! :)

آج جانے کیسے یہ لڑی نظر آ گئی اور ساتھ ہی یہ بھی علم ہوا کہ آپ تو کب کے پندرہ ہزاری ہو چکے ہیں۔۔۔ مبارکباد! :) :)

شکریہ ! جی ہم بھی نہ جانے کیا کیا لکھتے رہتے ہیں سو میٹر چل رہا ہے۔ :)
 
احمد بھائی، لاجواب غزل کہی ہے۔
سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا

نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیں
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا

میں اُن کو، وہ مجھ کو دیکھ کے ڈرتے تھے
شہرِ ستم تھا، خوف بجا تھا لوگوں کا

کچھ لوگوں نے نفرت بوئی ،لوگوں میں
پھر سڑکوں پر خون بہا تھا لوگوں کا

ہنسنا بُھولے، ہنسی اُڑانا سیکھ لیا
پہلے کب یہ رنگ ہوا تھا لوگوں کا
 

جاسمن

لائبریرین
بہت خوبصورت۔ کیا تلخ تلخ حقیقتیں بیان کی ہیں آپ نے اس غزل میں اور اس قدر سادہ اور رواں انداز میں۔ عوامی شاعری کی ایک دلکش مثال۔ بہت خوب! داد ۔۔داد۔۔۔دعاؤں بھری داد۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! احمد بھائی ! کیا اچھے اشعار ہیں ! آج دوبارہ نظر سے گزری یہ غزل ۔ قندِ مکرر!

سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے​
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا


خوبصورت شعر ہے !! کیا حقیقت بیان کی ہے ! سلامت رہیئے ۔​
 

محمداحمد

لائبریرین

شکریہ حسیب بھائی!

شاد آباد رہیے۔ :)
بہت خوبصورت۔ کیا تلخ تلخ حقیقتیں بیان کی ہیں آپ نے اس غزل میں اور اس قدر سادہ اور رواں انداز میں۔ عوامی شاعری کی ایک دلکش مثال۔ بہت خوب! داد ۔۔داد۔۔۔دعاؤں بھری داد۔

بہت شکریہ!

یہ دعاؤں بھری داد بہت قمتی ہے میرے لئے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ! احمد بھائی ! کیا اچھے اشعار ہیں ! آج دوبارہ نظر سے گزری یہ غزل ۔ قندِ مکرر!

سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا


خوبصورت شعر ہے !! کیا حقیقت بیان کی ہے ! سلامت رہیئے ۔​

بہت محبت ہے ظہیر بھائی آپ کی۔

آپ ایسے سخنور سے دادِ ہنر ملنا بڑے اعزاز کی بات ہے مجھ ایسے فقیر کے لئے۔

اللہ شاد آباد رکھے آپ کو۔
 
Top