غزل ۔ سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا ۔ محمد احمدؔ

محمداحمد

لائبریرین
-غزل-

سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا
میں تنہا تھا، اِس میں کیا تھا لوگوں کا

دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا

سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا

میں پہنچا تو میرا نام فضا میں تھا
ہنستے ہنستے رنگ اُڑا تھا لوگوں کا

نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیں
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا

میں اُن کو، وہ مجھ کو دیکھ کے ڈرتے تھے
شہرِ ستم تھا، خوف بجا تھا لوگوں کا

کچھ لوگوں نے نفرت بوئی ،لوگوں میں
پھر سڑکوں پر خون بہا تھا لوگوں کا

ہنسنا بُھولے، ہنسی اُڑانا سیکھ لیا
پہلے کب یہ رنگ ہوا تھا لوگوں کا

اب جو کہیں تو کس کو باور آئے گا
مہر و مروّت طور رہا تھا لوگوں کا

دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا

محمد احمدؔ
 

عندلیب

محفلین
-غزل-

سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا
میں تنہا تھا، اِس میں کیا تھا لوگوں کا

دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا

سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا

میں پہنچا تو میرا نام فضا میں تھا
ہنستے ہنستے رنگ اُڑا تھا لوگوں کا

نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیں
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا

میں اُن کو، وہ مجھ کو دیکھ کے ڈرتے تھے
شہرِ ستم تھا، خوف بجا تھا لوگوں کا

کچھ لوگوں نے نفرت بوئی ،لوگوں میں
پھر سڑکوں پر خون بہا تھا لوگوں کا

ہنسنا بُھولے، ہنسی اُڑانا سیکھ لیا
پہلے کب یہ رنگ ہوا تھا لوگوں کا

اب جو کہیں تو کس کو باور آئے گا
مہر و مروّت طور رہا تھا لوگوں کا

دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا

محمد احمدؔ
بہت خوب احمد بھائی ،داد وصول کیجیے۔:)
 

عبد الرحمن

لائبریرین
دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا

واہ!

زبردست احمد بھائی! (y)

بہت ہی خوب!:)
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ جناب بہت عمدہ بہت سی داد قبول کیجیے۔

بہت شکریہ ابن رضا بھائی !

خوش رہیے۔ :)

احمد بھائی "طور رہا " میں "ر" تنافر پیدا کر رہا ہے؟؟
اب چونکہ "رہا" قافیہ ہے اور "طور" کا بھی فوری متبادل نظر نہیں آ رہا سو فی الحال تو مجبوری ہے۔ :)

ویسے رسا چغتائی صاحب کی ایک پوری غزل پر آپ کی یہ بات صادق آتی ہے۔ اور رسا چغتائی استاد شعراء میں سے ہیں۔ تاہم میں یہ بات بطورِ حجت نہیں پیش کر رہا بلکہ صرف شئرنگ کی غرض سے لکھ رہا ہوں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت شکریہ ابن رضا بھائی !

خوش رہیے۔ :)


اب چونکہ "رہا" قافیہ ہے اور "طور" کا بھی فوری متبادل نظر نہیں آ رہا سو فی الحال تو مجبوری ہے۔ :)

ویسے رسا چغتائی صاحب کی ایک پوری غزل پر آپ کی یہ بات صادق آتی ہے۔ اور رسا چغتائی استاد شعراء میں سے ہیں۔ تاہم میں یہ بات بطورِ حجت نہیں پیش کر رہا بلکہ صرف شئرنگ کی غرض سے لکھ رہا ہوں۔
احمد بھائی حوالہ دینے کی کیا ضرورت تھی آپ ایسے ہی فرما دیتے اور ہم سر تسلیم خم کرلیتے۔ تاہم مذکور غزل میں روی "ر" اور "رہا" ردیف باندھ کر ہر شعر میں تکرار لازم کر دی گئی تو یہاں تنافر بھی صنعت بن گئی لیکن پورے کلام میں صرف ایک جگہ ایسا عمل ذرا نمایاں حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔ تاہم یہ بات اتنی قابلِ گرفت نہیں جانے دیجیے ایسے ہی اپنے علم میں اضافے کے لیے سرگوشی میں استفسار کیا تھا۔:)
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی حوالہ دینے کی کیا ضرورت تھی آپ ایسے ہی فرما دیتے اور ہم سر تسلیم خم کر دیتے۔ تاہم مذکور غزل میں روی "ر" اور "رہا" ردیف باندھ کر ہر شعر میں تکرار لازم کر دی گئی تو یہاں تنافر بھی صنعت بن گئی لیکن پورے کلام میں صرف ایک جگہ ایسا عمل ذرا نمایاں حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔ تاہم یہ بات اتنی قابلِ گرفت نہیں جانے دیجیے ایسے ہی اپنے علم میں اضافے کے لیے سرگوشی میں استفسار کیا تھا۔:)
جیسا کہ میں نے عرض کیا حوالہ بطورِ حجت ہرگز نہیں تھا۔ لیکن چونکہ اس بات پر یاد آ گیا سو سرگوشی میں ہی ربط بھی دے دیا۔ شعر کے حوالے سے پہلے ہی اپنی مجبوری کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ اگر کچھ بات نہ بنی تو یہ شعر غزل سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔ :)

ہمیشہ شاد آباد رہیے۔ :)
 
بہت خوب احمد بھائی! کیا غزل ہے ! اکثر اشعار بہت ہی خوب ہیں ۔ بہت پسند آئے! البتہ معذرت کے ساتھ ایک آدھ جگہ تبصرے کی جراءت کروں گی ۔

دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا

اس شعر کے دونوں مصرعے باہم مطابق نہیں لگے چنانچہ شعر ایک الجھا ہواتاثر چھوڑرہا ہے ۔ صحرا تو اجاڑ اور غیرآباد ہوتا ہے اس لئے لوگوں کا صحرا کہنا مناسب تصویر کشی نہیں لگی ۔

دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا

میری دانست میں یہاں عاجز کا استعمال شعر کے معنوں میں کوئی اضافہ نہیں کرہا ۔ دنیا سے عاجز یعنی دنیا سے تنگ آیا ہوا انسان خود کو گنوا کر لوگوں کے بارے میں فکر مند ہو رہا تھا ؟! شاید آپ اس پر مزید روشنی ڈال سکیں اور اس پہلو تک رہنمائی کرسکیں کہ جہاں اس ناچیز قاریہ کی نظر نہیں پہنچ رہی ۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا

صحرا والا نکتہ اچھا اُٹھایا جناب احمد خود بتائیں گ۔ .. ویران لوگروں کی بستی ہم نے سنا ہے میرا خیال ہے شاعر کہنا چاہ رہا ہے میری زندگی اتنی اجاڑ ہے جتنی ویران لوگوں کی بستی. یہ مرا اخذ کردہ معانی ہے.

دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا


اس میں تعقید لفظی اور معانی ہے میری ناقص رائے۔ خود سے عاجز
کرکے
نیچے
دنیا کو گنوا کر ..
محترم احمد گراں قدر شاعر ہیں. مس ہما نے بات کی میرا دھیان بحثیت قاری چلا گیا.
 

الف عین

لائبریرین
خوب ہے غزل۔ عیب تنافر قبول کر بھی لیں تو مذکورہ شعر میں ’جیون‘ میں بھی عُجب ہے۔ بے فیض جیسے الفاظ کے درمیان ہندی لفظ کی موجودگی! اور مقطع میں بھی ردیف کی مجبوری آ گئی ہے۔ ورنہ درست تو لوگوں کی سوچ ہونا تھا!!!
 
Top