غزل ۔ اک عجب ہی سلسلہ تھا،میں نہ تھا ۔ محمد احمدؔ

محمداحمد

لائبریرین
غزل

اک عجب ہی سلسلہ تھا، میں نہ تھا
مجھ میں کوئی رہ رہا تھا ، میں نہ تھا

میں کسی کا عکس ہوں مجھ پر کُھلا
آئینے کا آئینہ تھا ، میں نہ تھا

میں تمھارا مسئلہ ہرگز نہ تھا
یہ تمھارا مسئلہ تھا، میں نہ تھا

پھر کُھلا میں دونوں کے مابین ہوں
اِک ذرا سا فاصلہ تھا ، میں نہ تھا

ایک زینے پر قدم جیسے رُکیں
تری رہ کا مرحلہ تھا، میں نہ تھا

وہ جو اک گم کردہ رہ تھا دشت میں
وہ تو میرا رہنما تھا، میں نہ تھا

اونچی نیچی راہ محوِ رقص تھی
ڈگمگاتا راستہ تھا ، میں نہ تھا

تم نے جس سے سمت پوچھی دشت میں
وہ کوئی قبلہ نما تھا، میں نہ تھا

یہ کہانی تھی، مگر میری نہ تھی
وہ جو مردِ ماجرا تھا، میں نہ تھا

میں تو اپنی شاخ سے تھا متصل
پات جو وقفِ ہوا تھا، میں نہ تھا

خُود سے مل کر بُجھ گیا تھا میں تو کل
دیپ جو شب بھر جلا تھا، میں نہ تھا

"میں نہ تھا" کہتا تھا جو ہربات پر
وہ تو کوئی دوسرا تھا، میں نہ تھا

میں تو احمدؔ کب سےمحوِ یاس ہوں
کل جو محفل میں ہنسا تھا، میں نہ تھا​

محمد احمدؔ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
وہ جو اک گم کردہ رہ تھا دشت میں
وہ تو میرا رہنما تھا، میں نہ تھا
واہ احمد بھائی نہت خوب ۔سلامت سلامت۔ماشاءاللہ
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ۔ اچھی غزل ہے۔

میں کسی کا عکس ہوں مجھ پر کُھلا
آئینے کا آئینہ تھا ، میں نہ تھا
کچھ تشنہ محسوس ہو رہا ہے، ’یہ‘ کی غیر موجودگی میں۔
 
بہت خوبصورت اشعار ہیں ۔ واہ ! ایک مابعدالطبیعاتی سی کیفیت ہے ہر شعر میں ۔ کہیں کہیں تصوف کا رنگ بھی !!
مرحوم اطہر نفیس کی مشہور غزل کا ایک شعر بے ساختہ یاد آگیا ۔
صدا آئی " کوئی گھر پر نہیں کیا ؟"
تو میں نے بھی کہا "کوئی نہیں ہے"
 

محمداحمد

لائبریرین
ماشاء اللہ۔ اچھی غزل ہے۔

میں کسی کا عکس ہوں مجھ پر کُھلا
آئینے کا آئینہ تھا ، میں نہ تھا
کچھ تشنہ محسوس ہو رہا ہے، ’یہ‘ کی غیر موجودگی میں۔

بہت شکریہ اعجاز عبید صاحب!

'یہ' کی گنجائش نہیں تھی سو ایسے ہی لکھ دیا۔ شاید اس طرح بھی کچھ شعراء کے ہاں دیکھا ہے میں نے۔
 
غزل

اک عجب ہی سلسلہ تھا، میں نہ تھا
مجھ میں کوئی رہ رہا تھا ، میں نہ تھا

میں کسی کا عکس ہوں مجھ پر کُھلا
آئینے کا آئینہ تھا ، میں نہ تھا

میں تمھارا مسئلہ ہرگز نہ تھا
یہ تمھارا مسئلہ تھا، میں نہ تھا

پھر کُھلا میں دونوں کے مابین ہوں
اِک ذرا سا فاصلہ تھا ، میں نہ تھا

ایک زینے پر قدم جیسے رُکیں
تری رہ کا مرحلہ تھا، میں نہ تھا

وہ جو اک گم کردہ رہ تھا دشت میں
وہ تو میرا رہنما تھا، میں نہ تھا

اونچی نیچی راہ محوِ رقص تھی
ڈگمگاتا راستہ تھا ، میں نہ تھا

تم نے جس سے سمت پوچھی دشت میں
وہ کوئی قبلہ نما تھا، میں نہ تھا

یہ کہانی تھی، مگر میری نہ تھی
وہ جو مردِ ماجرا تھا، میں نہ تھا

میں تو اپنی شاخ سے تھا متصل
پات جو وقفِ ہوا تھا، میں نہ تھا

خُود سے مل کر بُجھ گیا تھا میں تو کل
دیپ جو شب بھر جلا تھا، میں نہ تھا

"میں نہ تھا" کہتا تھا جو ہربات پر
وہ تو کوئی دوسرا تھا، میں نہ تھا

میں تو احمدؔ کب سےمحوِ یاس ہوں
کل جو محفل میں ہنسا تھا، میں نہ تھا​

محمد احمدؔ
واہ محمد احمد بھائی ۔ کیا خوب غزل ہے ۔بہت ساری داد قبول کیجیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوبصورت اشعار ہیں ۔ واہ ! ایک مابعدالطبیعاتی سی کیفیت ہے ہر شعر میں ۔ کہیں کہیں تصوف کا رنگ بھی !!
بہت شکریہ ہما صاحبہ۔

بے حد ممنون ہوں۔ :)

مرحوم اطہر نفیس کی مشہور غزل کا ایک شعر بے ساختہ یاد آگیا ۔
صدا آئی " کوئی گھر پر نہیں کیا ؟"
تو میں نے بھی کہا "کوئی نہیں ہے"

واہ واہ واہ!

کیا ہی اچھا شعر ہے۔

سبحان اللہ۔
 
Top