کاشفی

محفلین
غزل
(فریاد آزر)
عظمتِ آدمی کو سمجھا کر
میری آوارگی کو سجدا کر

مجھ سے پتھر یہ کہہ کے بچنے لگے
تم نہ سنبھلو گے ٹھوکریں کھا کر

میں تو اب ہاتھ آنے والا نہیں
ہاں وہ روتا ہے مجھ کر ٹھکرا کر

توڑنے والا جب ملا نہ کوئی
رہ گئے پھول کتنے مرجھا کر

یا حقیقت کا رنگ دے اس کو
یا مرے خواب میں نہ آیا کر

رو رہا ہے نجومی آج تلک
ہم بھی شرمائے ہاتھ دکھلا کر
 
Top