کاشفی

محفلین
غزل
(حیدر علی آتش)

طریقِ عشق میں مارا پڑا ، جو دل بھٹکا
یہی وہ راہ ہے جس میں ہے جان کا کھٹکا

نہ بوریا بھی میسّر ہوا بچھانے کو
ہمیشہ خواب ہی دیکھا کیے چھپر کھٹ کا

شبِ فراق میں اُس غیرتِ مسیح بغیر
اُٹھا اُٹھا کے مجھے، دردِ دل نے دے پٹکا

پری سے چہرہ کو اپنے وہ نازنیں دکھلائے
حجاب دور ہو، ٹوٹے طلسم گھونگھٹ کا

شراب پینے کا کیا ذکر، یار بے تیرے
پیا جو پانی بھی ہم نے تو حلق میں اٹکا

چمن کی سیر میں سنبل سے پہلوانی کی
چڑھا کے پیچ پہ اُن گیسوؤں نے دے پٹکا

کبھی تو ہوگا ہمارے بھی یار پہلو میں
کبھی تو قصد کرے گا زمانہ کروٹ کا

بس اپنی مستی کو گردش ہے چشم ساقی کی
ہمارا پیٹ نہیں‌ہے شراب کا مٹکا

نہ پھول، بیٹھ کے بالائے سرو، اے قمری
چڑھے جو بانس کے اوپر یہ کام ہے نٹ کا

عجب نہیں ہے جو سودا ہو شعرگوئی سے
خراب کرتا ہےآتشزبان کا چٹکا
 
Top