شام، شفق، تنہائی ۔۔ خالد علیم

الف عین

لائبریرین
کبھی زمین کبھی آسماں کی زد میں ہے
یہ زندگی تو عجب امتحاں کی زد میں ہے
حصارِ وقت سے باہر نکل کے جائیں کہاں
نفس نفس یہاں قیدِ زماں کی زد میں ہے
ملے تو کیسے کسی کو سراغ منزل کا
یہ قافلہ سفرِ بے نشاں کی زد میں ہے
چلی ہے قریۂجاں میں یہ کس نگر کی ہوا
یقیں کا سارا اثاثہ زیاں کی زد میں ہے
کسی مقام پہ ملتی نہیں رہائی اسے
اسیر جاں غم گم گشتگاں کی زد میں ہے
امیر لشکریاں کو خبر نہیں شاید
کہ ہر بدن یہاں نوکِ سناں کی زد میں ہے
ہر ایک راہ یہاں قتل گاہ لگتی ہے
تمام شہر غنیمِ اماں کی زد میں ہے
سروں کی فصل کٹی تو یہ انکشاف ہوا
یہ کشت جاں بھی کسی مہرباں کی زد میں ہے
شکست آئنۂ دل سے یہ کھلا آخر
کہ ہر مکین شکستہ مکاں کی زد میں ہے
دیار گل سے کوئی بھی خبر نہیں آئی
سفیر گل کسی بار گراں کی زد میں ہے
فلک کی آنکھ سراپا سوال ہے خالد
ہجوم کم نگہاں امتحاں کی زد میں ہے
 

الف عین

لائبریرین
نقش و صدا بے نشاں، جاں ہے سرابوں میں گم
وقت کے منظر تمام ہو گئے خوابوں میں گم
خود پہ کھلا بھی تو کیا گمشدگی کے سوا
خاک اڑاتا رہا دشت حجابوں میں گم
دور خلا میں کہیں آنکھ بھٹکتی رہی
ذہن فضاؤں میں تھا اڑتے سحابوں میں گم
پھیل گیا آنکھ میں کتنی رتوں کا غبار
کتنے جہاں ہو گئے دل کے خرابوں میں گم
چلتی رہی چارسو ایک سلگتی ہوا
اور مسلسل رہا شہر عذابوں میں گم
سر پہ سلگتا ہوا ایک وہی آفتاب
اور سفر در سفر پاؤں رکابوں میں گم
جلتے رہے رات بھر بام و درِ شہرِ خواب
اور کہیں شامِ ہجر سرخ نقابوں میں گم
بڑھتا رہا سو بہ سو تند ہواؤں کا شور
لمحہ بہ لمحہ رہا سانس حبابوں میں گم
شہر تمنا میں ہو کار ہنر اور کیا
دل بھی خرابوں میں گم جاں بھی عذابوں میں گم
 

الف عین

لائبریرین
عرصۂ بے سائباں اور میں
چاروں طرف آسماں اور میں
موج تجسّس کوئی آنکھ میں
وقت کراں تا کراں اور میں
دشت بلا سر پہ ہے پاؤں میں
سیلِ زمان و مکاں اور میں
کتنے مہ و سال کی گردشیں
دیکھ چکا آسماں اور میں
ایک مسافت کی دھول دور تک
قریۂ تشنہ لباں اور میں
ایک بھٹکتی صدا شہر میں
کتنے جھلستے مکاں اور میں
کتنی اڑانوں پہ ہیں منزلیں
سمت سفر بے نشاں اور میں
دشت فنا میں کہیں، کھو گئے
سرو قدان جہاں اور میں
 

الف عین

لائبریرین
ماحول دھواں اگل رہا ہے
امکان وجود جل رہا ہے
ہاتھ اٹھ گئے آسماں کی جانب
پھر کوئی عذاب ٹل رہا ہے
اک شام کا منتظر ہے کوئی
سورج ابھی آنکھ مل رہا ہے
وہ ہاتھ تو تھک چکا ہے کب کا
اور زخم ابھی مچل رہا ہے
گم ہیں سب بانسری کی لے میں
اور شہر تمام جل رہا ہے
میں کس کے گماں میں رہ گیا ہوں
کوئی مرے ساتھ چل رہا ہے
بڑھنے لگا التہاب جاں اور
پیراہن خواب جل رہا ہے
کس درد کی آنچ ہے کہ اب تک
اندر سے بدن پگھل رہا ہے
پہلو میں دل ہے یا کہ خالد
اک چشمۂ خوں ابل رہا ہے
 

الف عین

لائبریرین
روشن ہے ستارۂ سحر کیا
کھلنے کو ہے آسماں کا در کیا
رہتے ہیں تری تلاش میں ہم
آشفتہ نصیب و در بدر کیا
شاید نم خواب کا اثر ہے
ایسی بھی رہی یہ آنکھ تر کیا
نیندیں جل بجھ کے ہو چکیں راکھ
دیکھے ہیں خواب عمر بھر کیا
چلتے چلتے ٹھہر گئی تھی
وہ رات فصیل شام پر کیا
لمحوں کے اداس آئنوں پر
چھایا ہے غبار رہ گزر کیا
کس دشت میں آ رکے ہو خالد
وہ شہر تھا تنگ اس قدر کیا
 

الف عین

لائبریرین
تقدیر کے چاک پر رواں ہے
جو خاک ردائے جسم و جاں ہے
بکھرا ہے خلا میں جو دھواں سا
صورت گر عکس صد گماں ہے
کھلتا نہیں لوح جاں پہ کچھ بھی
بس ایک طلسم کا سماں ہے
سینے میں دہک رہا ہے یہ کیا
ہر سانس پہ ہر قدم گراں ہے
پلکوں میں سمٹ رہا ہے پل پل
تن میں جو لہو غبار جاں ہے
اک ہجر کی رات ہے، نظر میں
مہتاب کا چشمۂ رواں ہے
ہے کب سے حدی کی لے کہیں گم
خاموش صدائے سارباں ہے
دیوار کوئی نہیں ہے خالد
کچھ اور ہی اپنے درمیاں ہے
 

الف عین

لائبریرین
کس راہ میں ہے سفر ہمارا
خاموش ہے راہبر ہمارا
ہم درد کی خاک میں گندھے ہیں
اور وقت ہے کوزہ گر ہمارا
اے عشق جو ہو چکا سو بہتر
اب اور نہ فکر کر ہمارا
پھر جاگ رہی ہے ایک وحشت
اور شہر ہے بے خبر ہمارا
اک عہد زوال میں کھڑے ہیں
بیکار گیا سفر ہمارا
ایسا تو سفر میں بھی نہیں تھا
گھر سے کبھی دور گھر ہمارا
دل دشت کی شام کی طرح ہے
رہتا ہے جہاں گزر ہمارا
گم ہو گیا بال و پر کے ہمراہ
شاہین صفت ہنر ہمارا
کس رات کی نذر ہو گیا ہے
خالد وہ گلِ سحر ہمارا
 

الف عین

لائبریرین
بدلا ہے مزاج بستیوں کا
یا شور ہے یہ نئے گھروں کا
پابستۂ خاک ہوں میں لیکن
طالب ہوں خلا کی وسعتوں کا
آنکھوں میں اتر رہا ہے لہجہ
وحشت آثار موسموں کا
صحرا بھی طواف کر رہا ہے
شاید مرے دل کی وحشتوں کا
پلکوں میں سمٹ کے رہ گئے ہم
پھیلا جو غبار موسموں کا
وہ موسم وصل میں بچھڑ کر
در کھول گیا نئی رتوں کا
خالد کوئی مدعا تو سمجھے
لفظوں میں چھپی کہانیوں کا
 

الف عین

لائبریرین
دل کا یہ کسی کے بس میں رہنا
یوں ہے جیسے قفس میں رہنا
بس عمر کا روگ بن گیا ہے
اک یاد کی دسترس میں رہنا
ہر تار نفس شکستنی ہے
کب تک یہ ہوا کے بس میں رہنا
دیتا ہے وقار زندگی کو
خواہش کا نفس نفس میں رہنا
اک دور تمام کر چکا ہے
خالد ترا پیش و پس میں رہنا
 

الف عین

لائبریرین
منزل پہ کچھ اور مہرباں تھی
جو خاک سفر بلائے جاں تھی
جلتا تھا شفق سے خیمۂ شام
اور رات مآل کوفیاں تھی
سچ کا پرچم اٹھا لیا تو
شمشیر کی نوک پر زباں تھی
جسموں کی شکستگی کی روداد
برف اور لہو کے درمیاں تھی
پانی سے چراغ جل اٹھے تھے
اک آگ رگوں میں جب رواں تھی
آفاق کے دھندلکوں میں گم ہے
وہ شام جو دل کی ترجماں تھی
بس آنکھ کو وہم سا ہوا تھا
خالد وہ روشنی کہاں تھی
 

الف عین

لائبریرین
میں کس کو تلاش کر رہا ہوں
اپنی پہچان کھو چکا ہوں
سایہ گھنے پیڑ کا ہوں لیکن
سورج کی تپش سے جل رہا ہوں
صحرا میں بنا ہوں ذرۂ ریگ
دریا میں حباب ہو گیا ہوں
لو میرے ضمیر سے گواہی
کہنے کو تو سچ ہی بولتا ہوں
گزرا تھا سانپ جو یہاں سے
میں اس کی لکیر پیٹتا ہوں
تجسیم ہوئی یوں ذات میری
میں اپنا نشان ڈھونڈتا ہوں
سو بار میں اپنے رہنما سے
منزل کا فریب کھا چکا ہوں
اس شہر کے بام و در کو خالد
حیران سا ہو کے دیکھتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
ہر چند کہ زخم بھر گیا ہے
اک درد سا دل میں جاگتا ہے
آنکھوں میں نمی اتر رہی ہے
دل خواب کی لو سے جل رہا ہے
تجھ سے منسوب موسم ہجر
خوشبو سے خراج مانگتا ہے
وہ لمحۂ وصل ڈھونڈ جس میں
ہونٹوں کا سکوت بھی صدا ہے
سب کچھ ترے نام پر لٹایا
میرے دامن میں کیا بچا ہے
اے نیند نگر کے رہنے والو
عشق ایک طویل رتجگا ہے
اے وصل کے جانگداز لمحو
منظر یہ شب فراق کا ہے
وہ عہد وفا کی آخری شام
چہرے پہ ابھی شفق نما ہے
صدیوں پہ محیط ایک لمحہ
اب تک آنکھوں میں جاگتا ہے
تجھ سے اب کون آ کے پوچھے
خالد چپ کیوں ہو، بات کیا ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
زمیں کے سینے پہ کیا جانے کیا گزرتی ہے
عجیب رنگ میں خلق خدا گزرتی ہے
سکوت عرصۂ شب میں دریچۂ جاں سے
کوئی صدا ہے جو محشر بپا گزرتی ہے
یہ کس کا آئنۂ دل میں عکس تیر گیا
کہ اب عجیب سر آئنہ گزرتی ہے
فضا میں درد کی تاثیر اتر نہ جائے کہیں
دہان زخم کو چھو کر ہوا گزرتی ہے
وہ تیرے ہجر کی اک شام آج بھی سر شام
مری نظر سے ستارہ نما گزرتی ہے
گزر تو آئے ہیں دشت فراق سے خالد
خبر نہیں سر منزل بھی کیا گزرتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
پھر کسی ہجر کا امکان لیے پھرتی ہے
زندگی موت کا سامان لیے پھرتی ہے
حبس بے چارگی جاں میں ہوا کی خواہش
ایک دنیا کو پریشان لیے پھرتی ہے
کس نگر کی یہ ہوا ہے کہ بدوش صحرا
چارسو، راستے ویران لیے پھرتی ہے
ڈھونڈنے نکلی تھی وہ گھر سے نہ جانے کیا کچھ
راہبہ، چاک گریبان لیے پھرتی ہے
خالد اک ڈھلتی ہوئی شام مرے چہرے پر
آنکھ کا آئنہ، حیران لیے پھرتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
جب قریہ قریہ گرم لہو کی دھار گئی
اک وحشت خیز صدا سینوں کے پار گئی
اک درد کی گونج سے دل کا مکان لرز اٹھا
اور سناٹے کی چیخ سر بازار گئی
اک مات کو جیت بنانے گھر سے نکلے تھے
پر دشت سفر کی وحشت ہم کو مار گئی
اب شامیں صبحوں کی دہلیز پہ بیٹھی ہیں
اب اس بستی سے چڑیوں کی چہکار گئی
جب جا کے افق کی جھیل میں سورج ڈوب گیا
تب شہر بہ شہر ستاروں کی للکار گئی
کل رات کے پچھلے پہر کی سرد ہوا خالد
میرے سینے میں ہجر کا درد اتار گئی
 

الف عین

لائبریرین
ایک تو تھا اور اک منظر تھا سطح آب کا
عکس گل سے جل رہا تھا آئنہ تالاب کا
لمحہ لمحہ حجلۂ دل کے دریچے سے کوئی
کھولتا ہے اک وہی منظر شب بے خواب کا
شام ہجراں سے ہے میری آنکھ میں آراستہ
ایک آئینہ شفق کے خیمۂ زرتاب کا
صبح کی لمبی مسافت نے اٹھا کر رکھ دیا
رات کے دامانِ تیرہ میں دیا مہتاب کا
بٹ گئی ہے ان گنت خانوں میں تنہا زندگی
اور تا حد نظر ہے اک سمندر خواب کا
قلزم لمحات میں آخر بہا کر لے گیا
میرے جسم ناتواں کو پیچ و خم گرداب کا
دیکھتی آنکھوں سے بھی خالد کوئی دیکھے تو کیا
بند پلکوں میں سسکنا دیدۂ بے آب کا
 

الف عین

لائبریرین
بڑھ رہا ہے جتنی تیزی سے حصار آفات کا
تنگ ہوتا جا رہا ہے دائرہ لمحات کا
دونوں اپنی خوئے سیلابی میں ہیں سرکش بہت
اک سمندر خواہشوں کا، ایک دریا ذات کا
حلقۂ پندار صحرائی میں ہے جکڑا ہوا
ناقۂ موج ہوا پر قافلہ ذرات کا
چاند میرے اور تیرے درمیاں چلتا رہا
ماہتابی جشن برپا تھا سفر کی رات کا
چل رہا ہے اَن گنت صدیوں سے دشت دہر میں
ہر نئے سورج کے پیچھے قافلہ ظلمات کا
دھوپ آنگن میں اتر آئی تو پھر سے جاگ اٹھا
آنکھ میں سویا ہوا منظر وہ پچھلی رات کا
دل کو تیری آنکھ کی وہ پہلی دستک یاد ہے
یاد ہے پہروں دھڑکنا نبض محسوسات کا
اب تو خود اپنی ہی سرگوشی سے ڈر جاتا ہوں میں
تذکرہ خالد کسی سے کیا کروں حالات کا
 

الف عین

لائبریرین
آسماں پیما ہے خواہش کا غبار اڑتا ہوا
دل بھی اک صحرا ہے کوئی، آنکھ میں پھیلا ہوا
کاخ تنہائی ہوا کی آہٹوں سے گونج اٹھا
کر گیا اک شور، سناٹے کا در کھلتا ہوا
ترکش لب سے نکل کر، کر گیا دل کو لہو
فیصلے کا آخری لمحہ کہیں اٹکا ہوا
ٹوٹ کر بکھرا تو رنگیں کر گیا دامان شام
رات کی لو سے سحر کا آئنہ جلتا ہوا
شہر ناپرساں میں کس سے پوچھتے اس کا پتہ
ہر طرف تھا آئنوں کا سلسلہ پھیلا ہوا
سن رہا تھا لمحہ لمحہ اپنے ہی قدموں کی چاپ
دل کے ویرانے میں کوئی رات بھر چلتا ہوا
ہر قدم رہتے ہیں خالد آسماں بردوش ہم
حلقۂ بار زمیں ہے پاؤں سے لپٹا ہوا
 

الف عین

لائبریرین
تو نے مری وفا کے عوض کچھ درد مثال خیال دیے
میں نے وہی خیال ترے اس ہجر کی لے میں ڈھال دیے
وقت کے آتشدان میں تو نے میرے عکس جلا ڈالے
میں نے بھی اپنے دیوان سے کتنے شعر نکال دیے
ہجر زدہ سب دیکھ رہے ہیں آئینوں کو حیرت سے
کیسے کیسے ان چہروں کو وقت نے خد و خال دیے
دل زدگاں کیوں صحرا صحرا خاک اڑاتے پھرتے ہیں
کس نے ان کے پاؤں میں یہ وحشت کے چکر ڈال دیے
ڈھونڈ رہے ہیں ہم ان کا حل اپنے بے حس چہروں میں
نئے زمانے نے انسان کو جتنے نئے سوال دیے
اس کے تغافل سے ہو گلہ کیا، جس نے میرے شعروں کو
پھول کی خوشبو، چاند کی ٹھنڈک، لفظوں کے سرتال دیے
ڈھلتے ڈھلتے رات ڈھلی تو تاریکی کچھ اور بڑھی
جلتے جلتے بجھ گئے خالد کتنے ماہ مثال دیے
 

الف عین

لائبریرین
ہر قدم ایک نیا کوہِ گراں ہے
زندگی قریۂ آفت زدگاں ہے
ایک پیکار مسلسل ہے یہ جینا
زندگی کرنا ابھی سہل کہاں ہے
کون سی آگ میں یہ شہر جلا ہے
ہر طرف ماتم جاں سوختگاں ہے
دل جو ہے ایک تمنا کا تسلسل
چشم خوں بستہ کی صد موج رواں ہے
جس نے اوڑھا نہیں پیراہن تعبیر
اک وہی خواب محیط دل و جاں ہے
کس سے کہیے دل ویراں کی حکایت
ایسی باتیں کوئی سنتا ہی کہاں ہے
داد چاہے بھی تو کس سے یہاں خالد
شاعر قریۂ بیداد گراں ہے
 
Top