شام، شفق، تنہائی ۔۔ خالد علیم

الف عین

لائبریرین
میری وحشت کے لیے چشم تماشا کم ہے
اور اگر دیکھنے لگ جائے تو دنیا کم ہے
ٹھہر اے موج غم جاں رگ جاں کے اندر
تیری پرسش کو مری آنکھ کا دریا کم ہے
کس سے ہم جا کے کہیں قصہ ویرانی دل
ہر کوئی کہتا زیادہ ہے تو سنتا کم ہے
رہرو عشق تو بس چلتا ہے دوچار قدم
اور یہ دوچار قدم بھی کوئی چلتا کم ہے
کیسے تصویر کریں تیرے خد و خال کو ہم
تجھ کو سوچا ہے زیادہ، تجھے دیکھا کم ہے
دیکھنا، ہجر کے اس دشتِ بلا سے آگے
اک سفر اور ہے، ہر چند کہ رستا کم ہے
کارِ دنیا ہی سے فرصت نہیں ملتی خالد
ورنہ یہ کارِ محبت بھی مجھے کیا کم ہے
 

الف عین

لائبریرین
دل آزردہ بھی کیا خوش نظری رکھتا ہے
اپنی ہر رات ستاروں سے بھری رکھتا ہے
چارسو ایک وہی دور زماں ہے درپیش
طائرِ جاں وہی بے بال و پری رکھتا ہے
میری مٹی کو لیے پھرتا ہے گردش میں ابھی
جیسے دل بھی ہنر کوزہ گری رکھتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
حادثہ یہ ہے کہ اک حادثہ ہونا ہے ابھی
آنکھ اسے ڈھونڈ رہی ہے جسے کھونا ہے ابھی
عکس تعبیر کوئی اے مرے آئینۂ خواب!
آخری نیند مجھے جاگ کے سونا ہے ابھی
گر رہے ہیں رگ احساس میں قطرہ قطرہ
مجھ کو پلکوں پہ ستاروں کو پرونا ہے ابھی
میری آواز کی تہ میں وہ اترتا کیسے
میں جنوں سوزِ محبت، اسے ہونا ہے ابھی
اس نے جو میری محبت کے صلے میں بخشا
اپنے دل پر وہی پتھر مجھے ڈھونا ہے ابھی
فصل کو کاٹنے آ پہنچا ہے وہ زود اندیش
اور میں حیراں ہوں، اسے بیج تو بونا ہے ابھی
یہ ضروری ہے کہ خالد اسے پانے کے لیے
کچھ نہ کچھ اپنی خبر میں تجھے ہونا ہے ابھی
 

الف عین

لائبریرین
بے تعلق میں خود اپنے ہی گھرانے سے ہوا
اور یہ سانحہ دیوار اٹھانے سے ہوا
میری مٹی تھی کہاں کی تو کہاں لائی گئی
بے زمیں میں جو ہوا بھی تو ٹھکانے سے ہوا
کام جتنا تھا محبت کا، محبت نے کیا
جتنا ہونا تھا زمانے سے، زمانے سے ہوا
میری رسوائی کا سامان نہ ہوتا لیکن
تیری آواز میں آواز ملانے سے ہوا
تم لیے پھرتے ہو کیا ڈوبتے سورج کا ملال
وہ اندھیرا جو ستاروں کے بجھانے سے ہوا؟
اتنا بے کیف مری آنکھ کا منظر تو نہ تھا
خالد اس شخص کو آئینہ دکھانے سے ہوا
 

الف عین

لائبریرین
بے تعلق میں خود اپنے ہی گھرانے سے ہوا
اور یہ سانحہ دیوار اٹھانے سے ہوا
میری مٹی تھی کہاں کی تو کہاں لائی گئی
بے زمیں میں جو ہوا بھی تو ٹھکانے سے ہوا
کام جتنا تھا محبت کا، محبت نے کیا
جتنا ہونا تھا زمانے سے، زمانے سے ہوا
میری رسوائی کا سامان نہ ہوتا لیکن
تیری آواز میں آواز ملانے سے ہوا
تم لیے پھرتے ہو کیا ڈوبتے سورج کا ملال
وہ اندھیرا جو ستاروں کے بجھانے سے ہوا؟
اتنا بے کیف مری آنکھ کا منظر تو نہ تھا
خالد اس شخص کو آئینہ دکھانے سے ہوا
 

الف عین

لائبریرین
یادوں کی وادیوں میں نہ اتنا بھی رَم کرو
خالد حسابِ دیدہ و دل کچھ تو کم کرو
ہر چند آبدیدہ سہی دل کا آئنہ
یہ تو نہیں ضروری کہ آنکھیں بھی نم کرو
یہ بھی نہیں ضروری کہ اب اپنی جان پر
جو کچھ گزر چکا ہے، سپردِ قلم کرو
اب یہ بھی کیا ضروری ہے اے رہروانِ عشق
منزل پہ لے بھی جائیں، جنھیں ہم قدم کرو
اب اس قدر بھی کیا ستم اے کشتگانِ عشق
جو عمر بچ رہی ہے اسے وقفِ سم کرو
ہاں، تہ رکھو حکایت سود و زیانِ عشق
اندھی ہوا میں بجھتے دیے کا نہ غم کرو
کچھ اور تیز کار زمانہ کچھ اور تیز
کم کم کرو یہ کارِ جنوں اور کم کرو

خاکِ قدم سرشت ہے کیا آدمی کی خاک
آتا ہے سر کی سمت، جسے محترم کرو
 

الف عین

لائبریرین
یہ حکم ہے کہ غمِ کشتگاں نہ رکھا جائے
بچے ہوؤں کا بھی کوئی گماں نہ رکھا جائے
جو فیصلہ ہی ہمارے خلاف ہونا ہے
تو فیصلے میں ہمارا بیاں نہ رکھا جائے
ہمارے ہاتھ ستاروں پہ پڑنے لگتے ہیں
ہمیں اسیر شب درمیاں نہ رکھا جائے
خود اپنا بار تو کیا سر اٹھا نہیں سکتے
اٹھا کے ہم پہ کوئی آسماں نہ رکھا جائے
ارادہ چلنے کا ہے اور یہ سوچنا ہے ابھی
کہاں رکھیں یہ قدم اور کہاں نہ رکھا جائے
ہم اپنی منزل نادیدہ کی تلاش میں ہیں
سو اب ہمیں بھی پسِ رفتگاں نہ رکھا جائے
بدن دریدہ چلے تھے، قدم بریدہ رکے
کہ ہجرتوں کا سفر رایگاں نہ رکھا جائے
ہم اس دیار سے آئے تو کوئی ظلم روا
وہاں تو رکھا گیا ہے، یہاں نہ رکھا جائے
ہوا کی سمت نمائی کچھ اور کہتی ہے
سو کشتیوں میں کوئی بادباں نہ رکھا جائے
ہم آج رات سے نکلیں تو اگلی شب کے لیے
سفر زیادہ سرِ کوئے جاں نہ رکھا جائے
یہ ضابطہ ہے مرے شہریار کا خالد
کسی کے سر پہ کوئی سائباں نہ رکھا جائے
 

الف عین

لائبریرین
ہوائے تند میں عزم سفر نکالتے ہیں
پرندے اپنے نئے بال و پر نکالتے ہیں
یہ شہر جاں کی ہوا کیوں عزا تماشا ہے
کہ کٹ تو جاتا ہے جو لوگ سر نکالتے ہیں
کسی تلاش میں نکلے تھے رفتگاں میرے
غبار اور کوئی نوحہ گر نکالتے ہیں
یہیں کہیں سے چلے تھے ہمارے گم شدگاں
یہیں کہیں سے کوئی رہ گزر نکالتے ہیں
یہ تب کی بات ہے جب شہرِ عشق تھا آباد
اب اس خرابۂ جاں سے کھنڈر نکالتے ہیں
صدا بہ صحرا ہے اپنی صدائے گریہ، سو ہم
حصار گنبد بے در میں در نکالتے ہیں
یہ شام ڈھل گئی خالد تو آؤ رات میں ہم
ستارۂ سحری سے سحر نکالتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
شہر میں جب غنچہ دہنی، گل پیرہنی مقبول ہوئی
زہرہ جبینوں، ماہ وشوں کو بے مہری معمول ہوئی
دل زدگاں کی بات ہی کیا ہے، دل زدگاں کی بات نہ کر
رات کا قصہ ختم ہوا جب ان کی حکایت طول ہوئی
ہجر کی رُت سوغات بنی ہم سوختگاں کی بات بنی
جلتے جلتے جل گئے اتنا، راکھ بھی آخر دھول ہوئی
ہم تو سیدھے سادھے لوگ ہیں لیکن دنیا والوں سے
تیرا میرا عشق روایت کرنے میں کچھ بھول ہوئی
یہ تو خیر ہمیں چپ رہتے ہیں ورنہ اکثر خالد
ذرا ذرا سی بات پہ بھی رنجش اس کا معمول ہوئی
 

الف عین

لائبریرین
دیکھتا ہوں ان کی نفرت کو میں حیرانی کے ساتھ
جن سے پیش آتا رہا ہوں خندہ پیشانی کے ساتھ
آخر شب دیکھ کر اپنے ستاروں کا خرام
بجھ رہی ہے آنکھ دل کی لوح امکانی کے ساتھ
وہ سر بزم آیا میرے سامنے تو آنکھ کا
رازِ سربستہ کھلا اور کتنی آسانی کے ساتھ
کچھ نہ کچھ رہتا ہے خالد اپنے ہونے کا گماں
غم اگر مل جائیں اور اتنی فراوانی کے ساتھ
 

الف عین

لائبریرین
جمود وہ تھا کہ خود سے گریز پا نکلے
چلے تو ہم کسی حیرت سرا میں جا نکلے
مرے کریم عطا ہو طلسم دل کی کلید
کہ اس طلسم سے باہر وہ دلربا نکلے
بجا کہ عشق اسیری ہے عمر بھر کی مگر
کہیں کوئی تو رہائی کا راستا نکلے
غبار قریۂ شام اپنے انتظار میں تھا
تو ہم بھی اوڑھ کے پیراہنِ صبا نکلے
دیا ہوا نے سندیسہ محبتوں کا ہمیں
جب اس دیار سے کتنی ہی دور آ نکلے
ٹھہرنے دیتی نہیں اپنے پاؤں کی گردش
سبھی قیام ہمارے سفر نما نکلے
عذاب جاں ہے یہ قحط صدا تو پھر خالد
وہ لے اٹھا کہ رگِ سنگ سے صدا نکلے
 

الف عین

لائبریرین
اگر یہ رات نہ اپنے دیے بجھایا کرے
تو کیسے کوئی حساب غمِ بقایا کرے
وہ ایک عکس گماں ہے تو دل سے دور رہے
وہ خواب ہے تو مری آنکھ میں نہ آیا کرے
اسے کہو، ہمیں بے چارگی کی خو ہے مگر
ہمارے ظرف کو اتنا نہ آزمایا کرے
طویل ہجر کا حاصل ہے ایک لمحۂ وصل
تو کوئی اس کا بھی احسان کیا اٹھایا کرے
کبھی تو ہو کہ ہماری خموش گویائی
سماعتوں میں صدا بن کے پھیل جایا کرے
ادھر سے پھر نہیں لوٹا گل آفتاب مرا
ہوا کو چاہیے پچھم سے روز آیا کرے
کوئی تو آ کے شب ہجر سے کہے خالد
رہے رہے، مگر اتنا نہ سر اٹھایا کرے
 

الف عین

لائبریرین
ہی، ممکن ہے، ترے ناز اٹھانے لگ جائیں
پہلے یہ زخم پرانے تو ٹھکانے لگ جائیں
تیرے آوارہ چلو ہم ہی رہیں گے لیکن
یہ نہ ہو، تجھ کو بھلانے میں زمانے لگ جائیں
روک لو اپنے سلگتے ہوئے جذبوں کے شرار
اس سے پہلے کہ کوئی حشر اٹھانے لگ جائیں
ریزہ ریزہ جنھیں سینے میں بہم رکھتا ہوں
وہی چپکے سے مری خاک اڑانے لگ جائیں
میری جاں! دیکھ یہی وصل کے موسم نہ کہیں
قریۂ گل پہ تگ و تاز اٹھانے لگ جائیں
روکتے روکتے بھی آنکھ چھلک اٹھتی ہے
کیا کریں، دل کو اگر روگ پرانے لگ جائیں
تم نے باندھا ہے جنھیں تار نظر سے خالد
وہی دریا نہ کہیں آگ لگانے لگ جائیں
 

الف عین

لائبریرین
اسے کیا خبر کہ پلک پلک روش ستارہ گری رہی
اسے کیا خبر کہ تمام شب کوئی آنکھ دل سے بھری رہی
کوئی تار تار نگاہ بھی تھی صد آئنہ، اسے کیا خبر
کسی زخم زخم وجود میں بھی ادائے چارہ گری رہی
میں اسیر شام قفس رہا مگر اے ہوائے دیارِ دل
سرِ طاقِ مطلعِ آفتاب مری نگاہ دھری رہی
سفر ایک ایسا ہوا تو تھا کوئی ساتھ اپنے چلا تو تھا
مگر اس کے بعد تو یوں ہوا نہ سفر نہ ہم سفری رہی
وہ جو حرفِ بخت تھا لوحِ جاں پہ لکھا ہوا، نہ مٹا سکے
کفِ ممکنات پہ لمحہ لمحہ ازل کی نقش گری رہی
ترے دشتِ ہجر سے آ چکے بہت اپنی خاک اڑا چکے
وہی چاک پیرہنی رہا وہی خوئے دربدری رہی
وہی خواب خواب حکایتیں وہی خالد اپنی روایتیں
وہی تم رہے وہی ہم رہے وہی دل کی بے ہنری رہی
 

الف عین

لائبریرین
بکھر گیا سر آفاق جب کنارۂ شام
پس نگاہ اترنے لگا ستارۂ شام
شب سیہ میں رُخِ سیم گوں پہ ٹھہری ہوئی
وہ چاندنی تھی کہ یا کوئی ماہ پارۂ شام
نمِ سحر نہ تھے لیکن سحر کے ساتھ تھے ہم
پھر اس کے بعد ذرا سا تھا اک اشارۂ شام
طلوعِ شام تلک ہم ہی شب گزیدہ رہے
ہمیں سے جلتا رہا صبح سے ستارۂ شام
اداس رہتے کسی صبحِ تابناک میں ہم
یہ آفتاب جو ہوتا نہ استعارۂ شام
وہی شفق حدِ افلاک تک بکھرتی ہوئی
کہ دستِ صبحِ افق تاب میں ہے پارۂ شام
قبائے سرخ میں قرطاسِ آسماں پہ کوئی
نظر اٹھا کہ نکلنے کو ہے شمارۂ شام
افق کے پار چلو آؤ، ہم بھی چلتے ہیں
یہ دیکھتے ہیں، کہاں سے جلا کنارۂ شام
 

الف عین

لائبریرین
عشق میں بہتا ہے جو دریا بہ دریا، کون ہے
ہم بھی دیکھیں، درد کے صحرا میں ایسا کون ہے
ایک لمحہ ہی گزر جائے کہیں تیرے بغیر
دل کو سمجھایا تو ہے، لیکن سمجھتا کون ہے
میری بے آواز تنہائی بتائے کیا مجھے
شہر میں ہے جس کی خاطر شور برپا، کون ہے
سر پہ یہ جلتے ہوئے سورج کو اندازہ نہیں
بے طلب اس دشت میں گھر سے نکلتا کون ہے
کھو گئی ہے وقت کی لہروں میں سچائی تو کیا
وقت ہی خود فیصلہ کرتا ہے، سچا کون ہے
ایک سے اس شہر میں ہیں آشنا ناآشنا
کیا بتائیں تجھ کو میری جاں کہ کیسا کون ہے
دن کا سورج کیا اٹھائے گا مری راتوں کا غم
اور پھر خالد کسی کا بوجھ اٹھاتا کون ہے
 

الف عین

لائبریرین
اب اپنے اپنے مقامات میں ہیں کھوئے ہوئے
جو ایک خون کے رشتے میں تھے پروئے ہوئے
خلا کے دشت میں گرم سفر ہے قریۂ خاک
بدن میں اپنے زمانوں کا غم سموئے ہوئے
اجاڑ دے نہ کہیں آنکھ کو یہ ویرانی
گزر گئی ہے اب اک عمر کھل کے روئے ہوئے
تم اپنا وار سلامت رکھو کہ ہم نے بھی
یہ طور دیکھے ہوئے ہیں، یہ دکھ ہیں ڈھوئے ہوئے
کبھی کبھی یہ چراغ آسماں کے دیکھتے ہیں
ہماری آنکھ میں یادوں کے زخم دھوئے ہوئے
کھڑے تھے ہم سر ساحل یہ دیکھنے کے لیے
کہ باخبر ہیں کہاں کشتیاں ڈبوئے ہوئے
 

الف عین

لائبریرین
آنکھ کا پردۂ نمناک ہے خاک
از زمیں تا سر افلاک ہے خاک
یوں تو ہر آن لہو سا چھلکے
دل کہ درپردہ صد چاک ہے خاک
آدمی کا ہوئی پیراہنِ جاں
کس قدر سرکش و چالاک ہے خاک
ہر قدم رہتی ہے زنجیر بپا
کیوں تری زلف کا پیچاک ہے خاک
ایک تو ہے کہ ہوا ہے کوئی
ایک میں ہوں، مری پوشاک ہے خاک
پاؤں سے نکلے تو سر تک پہنچے
کیا سمجھتے ہو میاں خاک ہے خاک
 

الف عین

لائبریرین
وہ شور کہ سنتا رہا اپنی ہی صدا میں
کل رات کچھ ایسے تری محفل سے اٹھا میں
اک خامشیِ حرف طلب، مہر بہ لب تھی
کھلتے ہوئے دروازے پہ لب بستہ رہا میں
ملتا کوئی اس کاوشِ بے جا کا صلہ کیا؟
کچھ باندھ بھی لیتا اگر آپ اپنی ہوا میں
ٹھہرا نہ ترے دشت خرابی میں کوئی اور
اک مرحلۂ وحشت جاں سوز تھا یا میں
اے صبح جمال آ مری آنکھوں میں اتر جا
اے رات گزر جا کہ بہت جاگ چکا میں
خالد کوئی آشوبِ زمانہ سے نہ پوچھے
تقدیر کے اس چاک پہ کیا وہ ہے تو کیا میں
 

الف عین

لائبریرین
تم نے دیکھ لیا ہوگا اس چہرے کی ویرانی سے
کتنے نقش جلائے ہم نے آگ لگا کر پانی سے
اپنی بے حس سوچوں کے سیلاب میں ہم سب ڈوب گئے
شہر کہاں برباد ہوا ہے دریا کی طغیانی سے
دشمن تو پھر دشمن تھا اور اک مدت سے تاک میں تھا
اپنا گھر ویران ہوا ہے اپنوں کی نادانی سے
اب کیوں ناپ رہے ہو تنہائی کے جلتے لمحوں میں
اپنے چہرے کی حیرت آئینے کی حیرانی سے
اب کیا ڈھونڈ رہے ہو ہاتھوں کی بے ربط لکیروں میں
اب کیا حاصل ہوگا تم کو آنکھ کے بہتے پانی سے
کتنے نغمے کھو گئے خالد ان خاموش فضاؤں میں
کتنے چشمے پھوٹ بہے تھے دل کی ایک کہانی سے
 
Top