شام، شفق، تنہائی ۔۔ خالد علیم

الف عین

لائبریرین
طلسم


یہ خاموشی ہے کیا
چاروں طرف کیسا ہے سناٹا
گلی--- لمبی گلی
اور چارسو اک ہو کا عالم ہے
گلی کے موڑ سے اس موڑ تک
کوئی صدا ، کوئی بھی آہٹ تک نہیں آتی
سراغ دل سفر کے فرش پا انداز میں گم ہے
محبت دستکیں دیتی ہوئی آواز میں گم ہے
 

الف عین

لائبریرین
باغ جناح کی شب ابتدا


چاند نکلا ہے
مگر چاند تو پہلے بھی نکلتا تھا
یہ چاند، آج کا چاند
روش سبزہ و گل پر ہی اتر آیا ہے
مرمریں گھاس پہ جیسے کوئی آہستہ خرام
دل کے افسردہ دروبام تک آ پہنچا ہو
میری آنکھوں کے دریچوں میں اترتا ہوا چاند
اب تولگتا ہے رگ جاں میں اتر آیا ہے
اور دل کے کسی اندوہ گزشتہ کی فسردہ لہریں
سامنے باغ کے اُس قطعۂ تاریک کے ٹھہرے ہوئے پانی میں
دھڑک اٹھی ہیں
قمقمے باغ کے روشن ہیں ستاروں کی طرح
اور مرے پاس کہیں
ایک بے نام صدا گونج اٹھی ہے
مری خاموش سماعت میں ترے پاؤں کی چاپ
چاندنی رات کے خاموش تحیر کی طرح پھیل رہی ہے
کوئی آوارہ و بے راہ تصور مرے سینے میں چمک اٹھا ہے
طاق جاں میں کوئی شعلہ سا دہک اٹھا ہے
 

الف عین

لائبریرین
وہی بارہ دری


باغ کی بارہ دری میں یہ فسردہ چہرے
جن کی آنکھوں میں ہے پنہاں کسی منظر کی تلاش
کوئی منظر جو اِن آنکھوں میں اتر آئے تو
افسردہ و غمناک نگاہوں میں کھل اٹھے
کوئی خوشبو، کوئی پھول
کسی منظر کی تلاش اِن کو یہاں لائی ہے
لیکن کوئی منظر انھیں ملتا ہی نہیں
آج بھی بارہ دری میں ہر سو
کتنی افسردہ فضا ہے کہ خموش اور ملول
پھیلتی جاتی ہے ہر چہرے پہ اک درد کی دھول
ایک یخ بستہ ہوا ہے کہ بہر سو
غم و اندوہ کی لہریں سی اتر آئی ہیں
چاندنی رات میں خاموش کسک سی ہے
کوئی درد سا ہے
اور تا حد نگاہ
کتنے چہرے ہیں فسردہ چہرے
کتنی آنکھیں ہیں فسردہ آنکھیں
ہر کوئی گھر سے فقط ایک ہی منظر کی طلب میں نکل آیا ہے
مگر بارہ دری
کتنی افسردہ تھی کل، کس قدر افسردہ ہے آج
دور اک قہقہ سا گونج اٹھا ہے کوئی
مگر اس گونج میں بھی ایک عجب درد سا ہے
اور اِدھر پاس ہی اک شاخ خمیدہ کے تلے
پھیلتے، کانپتے، لرزیدہ، سمٹتے ہوئے دو سائے ہیں جو
سرسراتے ہوئے پتوں کی خنک لہروں میں
شاید اک دوسرے کو
اپنی کہانی کا کوئی باب سنانے کے لیے بیٹھے ہیں
اپنی باتوں کی رسیلی لے پر
اپنے ہاتھوں میں، جدا ہونے کا مضراب اٹھانے کے لیے
بیٹھے ہیں
شاید اک دوسرے کو خواب دکھانے کے لیے بیٹھے ہیں
لیکن اے سوختہ جاں، دیکھ کہ یہ بارہ دری
اپنی چپ چاپ فضا میں گم سم
درد کی ایک فقط ایک کہانی لے کر
اتر آئی ہے مری آنکھ کی ویرانی میں
اے مرے سوختہ جاں!
دیکھ کہ یہ بارہ دری
کتنی افسردہ تھی کل، کس قدر افسردہ ہے آج
دور تک پھیلی ہوئی ایک اداسی کے سوا کچھ بھی نہیں
 

الف عین

لائبریرین
صبح امید ڈر جائے گی


سانس آہستہ لے
اے مری جاں ذرا سانس آہستہ لے
اس قدر تیز سانسوں سے ایسا نہ ہو، ہونٹ جلنے لگیں
شیشۂجاں پگھلنے لگے
جسم کا ریشہ ریشہ سلگنے لگے
خواہشوں کا غبار آنکھ سے درد کی راکھ بن کر نکلنے لگے
سانس آہستہ لے
تیز سانسوں کی گرمی رگوں میں لہوکو جلا جائے گی
تیز سانسوں کی حدت بدن میں اتر کر ترے برف جذبوں کو
پگھلا نہ دے
تیز سانسوں سے یہ برف جذبے پگھلنے لگے تو
کسی یاد کی سرسراتی ہوئی لہر تیرے تصور میں آ جائے گی
سرسراتی ہوئی لہر
ہاں، یاد کی سرسراتی ہوئی لہر دل تک اتر جائے گی
رات سوچوں کی گہرائیوں میں ٹھہر جائے گی
آنکھ بھر جائے گی
دن نکلنے کی ساعت سے پہلے ستاروں کے جھرمٹ میں
چاند اپنے منزل بہ منزل سفر میں
تری تیز چلتی ہوئی گرم سانسوں کو زنجیر کرکے
کسی یاد کے اک شکستہ محل میں اتر جائے گا
اور پھر کوئی آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس شکستہ محل کے
پرانے در و بام تک غم کا آسیب بن کر ٹھہر جائے گا
صبح امید ڈر جائے گی
اور سورج کی پہلی کرن تو نکلنے سے پہلے ہی مر جائے گی
سانس آہستہ لے
اے مری جاں ذرا سانس آہستہ لے
 

الف عین

لائبریرین
ماہ و سال کے اس پار


مری جان ، میری متاع جاں !
تجھے یاد ہے؟
ترے ساتھ جتنے بھی ماہ و سال گزر گئے
مری جلتی بجھتی نگاہ میں سبھی ریزہ ریزہ اتر گئے
وہ جو حرف تھے مرے آنکھ میں
وہ جو آنسوؤں کے گلاب تھے
مرے درد تھے، مرے خواب تھے
مری چاہتوں کے سراب تھے
وہ فراق تھا کہ وصال تھا جو ترے خیال میں ڈھل گیا
کوئی تیر تھا جو جگر کے پار نکل گیا
یہ جو حرف حرف خیال ہیں
یہ جو برف برف وصال ، ہجر مثال ہیں
انھیں کون خیمہ خواب عمر میں راہ دے
انھیں کون حجلۂ جان و دل میں پناہ دے
کوئی اور کیوں انھیں اپنے قرب کی چاہ دے
کوئی اور کیوں ترے جسم اور مرے وجود کے درمیان ٹھہر سکے
فقط ایک میں ، فقط ایک تو
اسی کرب خواب کا ماحصل ہیں تو کس لیے
کوئی اور ہے جو ترے وجود، مرے خیال کے
درمیاں ہے رُکا ہوا
مگر آج تک مری آنکھ میں اسی ایک حرف کا
اضطراب ابد گماں ہے رُکا ہوا
وہی ایک حرف جو تیرے اور مرے ہجر کے مہ و سال کا
کوئی عکس ہے
کہ ترے فریب جمال کا کوئی عکس ہے
مگر اے مرے دل و جاں کے ہمدم و مہرباں
تجھے یاد ہے؟
کہیں ماہ و سال کے اس طرف
وہ جو کتنے ہی مہ و سال تھے
وہ گزر گئے مگر آج تک
تجھے کیا خبر!
تری یاد میں، تری چاہ میں، کوئی آنکھ دل سے بھری رہی
مگر آج تک تری آنکھ میں وہی ایک بے خبری رہی
 

الف عین

لائبریرین
مرگِ انتظار


تو نہ آتا تو یہ خواب
اور کچھ دن یونہی زندہ رہتے
اور کچھ دن یونہی آنکھوں میں سجاتے
ترے چہرے کے نقوش
اور کچھ دن یونہی سینے میں ترے نام کی دھڑکن رہتی
اور کچھ دن یونہی لمحہ لمحہ
تار مژگاں پہ پروتے تری چاہت کے ستارے
تری خواہش کے حسیں رنگ
ترے لمسِ تصور کے کنول
اب جو تو لوٹ کے آیا ہے تو آنکھوں میں تری یاد
نہ چاہت کے ستارے ہیں
نہ خواہش کے حسیں رنگ
نہ پلکوں پہ ترے لمسِ تصور کے کنول ہیں
فقط اک نم ہے، نم شیشۂ جاں
 

مغزل

محفلین
بہت بہت شکریہ بابا جانی ، میں انشا اللہ تٍفصیل سے پڑھتا ہوں۔ جزاک اللہ
 
Top