شام، شفق، تنہائی ۔۔ خالد علیم

الف عین

لائبریرین
دست صبا نے کاٹ دی زنجیر بوئے گل
آوارۂ جمال ہوئی آبروئے گل
قدموں سے اپنے وحشت صحرا لپٹ گئی
کیا شوق تھا کہ کرتے رہے جستجوئے گل
جذبوں میں اس کے حسن کی مستی انڈیل لی
ہم نے کف خیال پہ رکھ کر سبوئے گل
یہ قرص خاک تنگ ہے مجھ پر کہ جس طرح
خوشبو پہ ہے گراں قفس خوبروئے گل
خالد پگھل رہا ہے یہ عکس وجود حسن
یا آنکھ میں رواں ہے کوئی آب جوئے گل
 

الف عین

لائبریرین
ستم گروں کے لیے مہربان ہو جاتی
اگر زمین کہیں آسمان ہو جاتی
نہ تھی نصیب سفر مجھ کو تیری چادر زلف
تری پلک ہی مرا سائبان ہو جاتی
اسے تراشنا آسان تو نہ تھا خالد
جو اپنی خوئے انا بھی چٹان ہو جاتی
 

الف عین

لائبریرین
نقش جو آنکھ میں تصویر ہوا کرتے تھے
سب ترے خواب کی تعبیر ہوا کرتے تھے
دیکھ ہم بھی تھے کبھی تیری انا کے پابند
دیکھ ہم بھی تری جاگیر ہوا کرتے تھے
ہاں کوئی وقت تھا جب قیس سے آشفتہ مزاج
عشق میں صاحب توقیر ہوا کرتے تھے
 

الف عین

لائبریرین
عجب انداز سے چہرے کی تابانی میں رہتا ہے
چراغ جاں، نظر کے عکس عریانی میں رہتا ہے
میں حیراں تھا کہ سورج کس لیے پہنچا نہ بستی تک
خبر پہنچی فلاح ظل سبحانی میں رہتا ہے
تو کیا تجھ کو بھی یہ آب و ہوا راس آ گئی خالد؟
نواحِ عشق میں کب کوئی آسانی میں رہتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ابھر کے آئیں ترے منظر نگاہ پہ بھی
شب اختیار ستاروں کو اختیار کہاں
اور اب تو آنکھ خود اپنے غبار میں گم ہے
نکل گئے تری یادوں کے شہسوار کہاں
یہ شہر دیدہ وراں ہی سہی مگر خالد
سلگ اٹھی تری چشم ستارہ بار کہاں
 

الف عین

لائبریرین
چھپ گیا جب چاند جا کر بدلیوں کی اوٹ میں
آنکھ میں تجھ سے بچھڑ جانے کے منظر آ گئے
ہاتھ دستک کے لیے اُٹھ اُٹھ کے رُک جاتا رہا
تیرے دروازے سے اکثر ہم پلٹ کر آ گئے
کچھ ستارے دل کے صحرا میں گرے تو یوں لگا
آسماں، خالد! زمینوں کے برابر آ گئے
 

الف عین

لائبریرین
اشعار
میں تو جو کچھ ہوں، زیادہ ہوں کہ کم، جانتا ہوں
اٹھ گئے ہیں ترے لشکر کے قدم، جانتا ہوں

حیا کا کوئی نہ کوئی تو پاس کرتا رہا
جو کام آنکھ کا تھا، وہ لباس کرتا رہا
اے چاند زمین پر اتر آ
اس ماہ مثال کی خبر دے

منزلیں گردابِ گردِ رہ گزر میں کھو گئیں
دھول اڑاتے قافلوں کا نقش پا کوئی نہیں
 

الف عین

لائبریرین
خواب و سراب

وہی شہر ہے
وہی راستے
وہی راستوں کا ہے پیچ و خم
وہی دشت ہے
وہی دشت شام فراق ہے
وہی فرش خاک و سراب ہے مرے پاؤں میں
وہی دھوپ ہے، وہی آسمان کا روپ ہے
وہی عرصۂ غم رائگاں
کوئی سائباں ہے ، نہ خیمۂ گل مہرباں
وہی سنگلاخ زمین کشت گیاہ و گل کی لطافتوں سے ہے بے خبر
وہی قحط گل کے دیار میں تر و تازہ شاخ ببول ہے
کہ ہزار زرد رُتوں میں لپٹی ہوئی ہوائے سموم ہے
وہی شہر کم نظراں کا ہے
وہی درد ہم سفراں کا ہے
وہی قریہ ستم آشنا سے محبتوں کا خروج ہے
وہی چاہتوں کا زوال ہے وہی نفرتوں کا عروج ہے
وہی لمحہ لمحہ اداس شام، ملول صبح کے سلسلے
وہی گرد کوئے ملال ہے، وہی وصل و ہجر کے فاصلے
وہی رتجگوں کی مسافتوں کا عذاب ہے
وہی بام و در پہ چراغ ہجر جلا ہوا
وہی طاق مطلع فجر میں
رخ مہر اپنی تمام زرد شعاعوں میں ہے ڈھلا ہوا
وہی منظروں میں سراب وصل کی حدتیں ہیں
دیار دل میں ترے خیال کی وحشتیں ہیں
طلسم زار فراق میں تری آہٹوں کا گمان ہے
کہ سماعتوں کے نشیب میں وہی واہموں کا نزول ہے
وہی تیری دید کے آئنے پہ شکستہ لمحوں کی دھول ہے
وہی مرحلے ہیں سکون جاں کے زوال میں
وہی آتش دل بے قرار دہک رہی ہے خیال میں
وہی میں ہوں
اور مرے کاسۂ دل بے ہنر میں نشاط کا کوئی زر نہیں
وہی میں ہوں اور مرے چاروں اور سراب ہے
وہی ایک منظر خواب ہے
 

الف عین

لائبریرین
ہمیں اک عہد کرنا ہے


ہمیں اک عہد کرنا ہے
ہمیں اپنی جنوں آثار تنہائی سے
وحشت خیز اور پرہول راتوں کے مسلسل رتجگوں سے
عہد کرنا ہے
ہمیں اک عہد کرنا ہے
در و دیوار کی بے مہر خاموشی سے
آنکھوں میں دریچوں سے گزرتے
خوف کے لرزیدہ لمحوں سے
مکانوں میں مکینوں کی فسردہ ہم نشینی سے
سماعت میں اترتے اجنبی لہجوں سے
سنگ آثار آوازں سے
ہر سو قریۂ بے سبزہ و گل میں
سرابوں کے چمکتے منظروں سے
عرصۂ بے سائباں میں آتشیں کرنوں کی بارش سے
نگاہوں کے سلگتے زاویوں میں
شہر ناپرساں کی صحرا آشنا ویرانیوں سے
اور ان نا آشنا رستوں کے سناٹوں سے
ان ڈھلتی ہوئی شاموں کی بے چہرہ اداسی سے
غم ہجراں کی ان جاں سوز صبحوں کی سسکتی ساعتوں سے
دل کے صحرا کی سلگتی بے کنارہ وسعتوں سے
اور سر شاخ تمنا کھلنے والی حسرتوں سے
عہد کرنا ہے
کہ ہم ہر اک صعوبت سے گزر جائیں گے لیکن
عرصۂ ہجراں کی اس جانکاہ تنہائی کی جاں آشوبیوں میں بھی
وطن کی نرم اور مہکی ہواؤں، دلنشیں صبحوں
شفق آثار شاموں کی سہانی ساعتوں کو اپنی پلکوں پر سجا لیں گے
سفر اندر سفر پھیلے ہوئے تنہائی کے صحرا میں ہم
عہد گزشتہ کی کسی مہتاب شب کو تازہ رکھیں گے
مسافت کے غبار آلود آئینے کو ہم
گزرے ہوئے لمحوں کے روشن عکس سے شفاف کر لیں گے
ہم اپنے طاق دل میں
اس کی یادوں کا دیا روشن رکھیں گے
لوح جاں پر خامۂ احساس سے
اس کی ہوس ناآشنا وارفتگی تحریر کر لیں گے
تو اپنی آنکھ کے جل تھل میں
اس کی مہرباں آنکھوں کے دلکش رنگ بھر لیں گے
ہم اس کے مرمریں ہاتھوں کے گل اندام لمسوں
انگبیں لہجے کی جاں آویز خوشبو
اور اس کے کاکل شب رنگ کی دلکش مہک کو
اپنی سانسوں میں بسا لیں گے
کہ اس کے شبنمیں چہرے کے ہم سارے دھنک رنگوں کو
اپنی سوچ کی گہرائیوں میں تہ رکھیں گے
اور جب ہم ہجر جاں آشوب کی وادی سے واپس
اس کے وصل مہرباں کے قریۂ مہر آشنا میں لوٹ جائیں گے
تو یہ ساری اذیت بھول جائیں گے
ہم ان وحشی ہواؤں کو چراغ یاد گل کرنے نہیں دیں گے
 

الف عین

لائبریرین
چلو آؤ


چلو آؤ
محبت کے پرانے آسماں سے ہم
ستارے توڑ کر لائیں
کہ جھلمل روشنی دیتے ہوئے کچھ ماہ پارے توڑ کر لائیں
چلو چھوڑو
ستارے اور روشن ماہ پارے کیا کریں گے
کس کی زلفوں میں انہیں ٹانکیں گے
کون اس عرصۂ ظلمت گران و کج نہاداں میں
محبت آشنا ہے یا کوئی مہتاب صورت ہے
چلو ہم
چاند کی مشعل سے کچھ کرنیں چرا لائیں
نہیں رہنے دو
اس شہر ستم سازاں میں کوئی چاند کا مداح کیا ہوگا
کہ جو اس کی چمکتی دل نشیں کرنوں کو
اپنے حلقۂ در میں سجائے گا
یہاں ہر موڑ پر ظلمت پسندوں کا بسیرا ہے
یہاں ہر سو اندھیرے بانٹنے والوں کا پھیرا ہے
یہاں ہر اک قدم تنہائی کا صحرا ہے
اس صحرا میں ہر سو وحشتیں ہی وحشتیں ہیں
آؤ ہم
ان وحشتوں کو پاؤں میں زنجیر کرتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
ہر تمنا سراب


پھر وہی روز و شب
پھر وہی لمحہ لمحہ مری لوح جاں پر اترتی ہوئی
ہجر کی ساعتیں
ہر قدم اور ہر پل اترتا ہوا
روح کا اضطراب
آنکھ کا سیل آب
اور اشکوں کے مضراب سے ساز دل پر تھرکتا ہوا
درد کا التہاب
کرب لمحات سے ٹوٹ کر
شہر جاں پر برستا ہوا ہجرتوں کا عتاب
وقت کے پیچ و خم سے الجھتا ہوا ایک خواب
ہر خوشی رایگاں
ہر تمنا سراب
 

الف عین

لائبریرین
اک شہر امکاں جاگتا ہے
(سعودی عرب کے شہر الریاض کی ایک پرانی بستی میں)



ابھی تہذیب زندہ ہے
شمیسی کے پرانے اور کچھ کچے مکانوں میں
پرانی وضع کے کچھ لوگ باقی ہیں
ابھی اس شہر کے افسردہ دامن میں پرانا شہر بستا ہے
جہاں اس کے شکستہ بام و در میں زندگی کا حسن باقی ہے
گلی کے موڑ پر اک بوڑھا اعرابی کھڑا ہے
جس کی آنکھوں میں ابھی تک
نجد کے صحرا میں چلتے قافلہ در قافلہ
ناقہ سواروں کے سفر کی گرد رخشندہ ہے
چہرے کی نمایاں سلوٹوں میں تہ بہ تہ
محمل نشینوں کی نظر کا لمس زندہ ہے
ابھی اس بوڑھے اعرابی کے ان رعشہ زدہ ہاتھوں میں
خیموں کی طنابوں کی حرارت جاگتی ہے-- اور--
ابھی اس شہر سے کچھ دور صحرا کے افق آثار دامن میں
کئی خیمہ نشیں شاموں کا سوز و ساز باقی ہے
ابھی صحرا کے وسعت آشنا ناقہ سواروں کا سفر جاری ہے
اونٹوں کی نکیلوں سے حدی کی لے
ہواؤں میں مہکتی ہے
جرس کے شور میں، ریگ رواں کے زیر و بم میں
آج بھی کتنے شتر بانوں کے نغمے گونجتے ہیں
اور فضاؤں میں بنی عامر کی آوازوں کا جمگھٹ
اب بھی جسم و جاں میں اک ہلچل مچاتا ہے
ابھی تہذیب زندہ ہے
ابھی تہذیب مر سکتی نہیں اک شہر امکاں جاگتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
گزشتہ موسموں کی ایک تازہ نظم


وہ دن بھی یاد ہیں تجھ کو
کہ جب سورج کی کرنوں نے ترے چہرے کی قوسوں پر
ہوا کے گنگناتے زاویوں سے چمپئی رنگوں کی تحریریں لکھی تھیں
اور مری خواہش کے پیرائے میں کتنے لفظ
تیرے دل نشیں ہونٹوں کی جنبش میں تھرکتے تھے
تری سانسوں کی حدت سے پگھلتے تھے
تو تیری شبنمیں آنکھوں کی چھاگل سے چھلکتے تھے
وہ تیرے کاکل شب رنگ
تیرے ہاتھ کے لمس تمازت سے مہکتے تھے
وہ دن کیا یاد ہوں گے تجھ کو
جب مجھ کو گھنے پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں سے
سیراب ہوتے موسموں کی چاہتوں نے
اور ترے چہرے کی شادابی کو مہکاتے ہوئے لمحوں نے
اک ہجر جنوں آمیز کا موسم دیا تھا
اور اک شام شفق آثار میں
جلتے ہوئے سورج کو میری سوچ کی ننگی ہتھیلی پر رکھا تھا
تجھ کو کیا یاد آئیں گے وہ دن
کہ جب تیرے فراق جاں گسل نے
میرے حصے میں فقط فصل شب غم کاشت کی
اور میری فردوس تمنا میں سلگتی وحشتیں،
احساس کے جلتے الاؤ بھر دیے تھے
میری شب آثار تنہائی وہ جاں افشار یکتائی
تجھے کیا یاد آئے گی
کہ تو اس لمحۂ جانسوز میں مجھ سے کہیں دور
اپنی خوشیوں کی ردائے بے حسی اوڑھے
کسی ناآشنائے درد کے کاخ ہمالہ بام میں خوابوں کی آرائش تھی
اور میرے دل صد لخت کی ہر بوند میں
بھیگا ہوا پیراہن گل رنگ تیرا
میری عمر بے سحر میں
کتنی ناآسودہ راتوں کی علامت بن گیا تھا
اور اب
جب وقت کے سیل رواں میں
کتنے ہی سالوں کی پونجی بہہ چکی ہے
میری جاں یہ کیا؟
ترے چہرے پہ یہ پرچھائیاں سی کیا ہیں
آنکھوں میں یہ کیسی وحشتیں ہیں
اور تیرے کاکل شب رنگ میں
کن موسموں کی دھوپ اتری ہے
یہ پلکوں پر اداسی کیا ہے
کیسے رتجگوں نے تیری آنکھوں کی چمک کو ماند کرکے
تیرے چہرے کی تمازت
اور ترے ہونٹوں کی سرخی چھین لی ہے
تیرے اس ڈھلتے ہوئے چہرے کی قوسوں پر
سسکتی بے رخی کیا ہے
چلو مانا
کہ ہم مٹھی سے تتلی کی طرح نکلے ہوئے لمحوں کو
اس گزرے ہوئے کل میں مقید کر نہ سکتے تھے
نہ اب گزرے ہوئے موسم (دوبارہ) اپنی جھولی میں گریں گے
ہاں مگر جاناں !
شکستہ چاہتوں کے درمیاں
تیرے دل آزردہ کے افسردہ گوشوں میں
گزشتہ موسموں کی کچھ حسیں یادیں ابھی محفوظ تو ہوں گی؟
وہ دن بھی یاد ہیں تجھ کو؟
کہ جب سورج کی کرنوں نے ترے چہرے کی قوسوں پر
ہوا کے گنگناتے زاویوں سے چمپئی رنگوں کی تحریریں لکھی تھیں
 

الف عین

لائبریرین
آوارہ تحیر


جب سر شام کوئی پیرہن راز و نیاز
تیرے گل رو و خوش انداز لبوں نے پہنا
تیری بے مہر نگاہوں سے گزرتا ہوا
جب حلقۂ آواز لبوں نے پہنا
میری بے کیف سماعت میں اترتے ہوئے لفظوں نے مجھے
ہجر آئندہ کے پیرائے میں ڈھل کر
یہ المناک خبر دی کہ نہیں
آج ہم صرف بچھڑنے کے لیے ملتے ہیں
وادی گل میں سر جاں وہ سلگتی ہوئی شام
آ گئی لے کے شب ہجر کا پیغام بھی ساتھ
دل کے اس معبد ویراں سے کئی بار یہ آواز آئی
ایک ہی بار رگیں کھینچ نہیں لیتی کیوں
اے شب ہجر بتا تیرا تقاضا کیا ہے؟
اور پھر کتنی ہی نمناک شبوں اور سلگتی ہوئی صبحوں کا تسلسل
مرے جاں سوز مہ و سال کا حاصل ٹھہرا
پھر سر راہ وہی شام مری آنکھ کی دہلیز پہ آ پہنچی
تو بے مہر نگاہوں نے کہا
اجنبی کون ہو تم؟
اپنے آوارہ تحیر کا تماشا بنے کیا دیکھتے ہو؟
 

الف عین

لائبریرین
یہ سب کیا ہے؟


ہوا کیوں گنگناتی ہے
فضا کس عہد گم گشتہ کے افسانے سناتی ہے
صبا کس سوگ میں آوارہ پھرتی ہے
سحر کیوں قطرہ قطرہ بھیگتی ہے
شام کیوں برد خموشی اوڑھ کر دہلیز شب پر سر پٹختی ہے
نہ جانے کیوں یہ تاریکی
سیہ راتوں میں ان روشن ستاروں کا مقدر ہے
نہ جانے کیوں یہ راتیں
آسماں کے تھال سے تاروں کی کرنیں چن رہی ہیں
ماہ و انجم کس لیے ہر شب نکلتے ہیں تو دن کو ڈوب جاتے ہیں
زمیں کیوں گھومتی ہے
اور فلک کا گنبد بے در
خلا اندر خلا حد نظر تک کس لیے پھیلا ہوا ہے
چارسو یہ گردش افلاک کیا شے ہے
ہمارے جسم کی پوشاک کیا ہے
خاک ہے تو پھر درون خاک کیا شے ہے
بدن میں آتش سیال جیسا دوڑتا پھرتا لہو کیا ہے
سر مژگاں سلگتے آنسوؤں کی حدتیں کیا ہیں
رگ و پے میں اترتے درد کے نوکیلے کانٹوں کی چبھن کیا ہے
مری تنہائی کے صحرائے وحشت خیز میں
یادوں کے گرد آلود رستوں پر اترتا ہجر کا سیل رواں کیا ہے
اگر میں ہوں تو یہ سب کیوں ہے؟
یہ سب ہے تو میں کیوں ہوں؟
 

الف عین

لائبریرین
شکست خواب کے بعد


سلگتی شام کے پہلو میں آنکھ بھر آئی
ترے وصال کا سورج شفق میں ڈوب گیا
نمود شام کا پیراہن طلسم آثار
فلک کے پردۂ صد رنگ نے لپیٹ لیا

اُدھر طلوع ہوا جب ترے فراق کا چاند
نگاہ میں دہک اٹھی ترے خیال کی لو
ہزار رنگ بداماں، ہزار نور بکف
ترے وجود کا پرتو، ترے جمال کی ضو

نمود صبح سے پہلے شکست خواب کے بعد
تصورات کے اک لمحۂ گریزاں میں
اٹھی جو آنکھ کسی سایۂ گماں کی طرف
خود اپنی ہستی موہوم کا یقیں نہ ہوا
 

الف عین

لائبریرین
قدم اپنے سنبھالو


یہ کیسی بے حسی ہے؟
آسماں چپ ہے
دہکتی آگ کا گولا سروں پر گھومتا ہے
اور زمیں پر اک عجب محشر بپا ہے
چارسو بے مہر آوازوں کا جنگل ہے
کہ سچائی کے سب مظہر گماں کی گرد میں گم ہو گئے ہیں
شہر کے اندھے مکیں خود اپنی تلواروں سے
اپنی شہ رگوں کو کاٹتے ہیں
اور بصارت رکھنے والوں کو
خود اپنے جسم و جاں سے خوف آتا ہے
دہلتے منظروں کی بے ردا چیخیں
سماعت کی چٹانوں پر مسلسل رقص کرتی ہیں
ٹھہر جاؤ قدم اپنے سنبھالو
پاؤں کے نیچے زمیں کو باندھ کر رکھو
ابھی بھونچال آنے میں ذرا سی دیر باقی ہے --!!
 

الف عین

لائبریرین
ہوا زنجیر مت کرنا
(پچاس سال بعد)


یونہی شاید
وہ منزل ہم کو مل جائے
یونہی شاید
زمیں کے بے کراں دشت رواں پر
چلتے چلتے ہم ٹھہر جائیں
یونہی شاید
وہ منز ل ، جس کو ہم پیچھے، بہت پیچھے کہیں
اس خاک وحشت ناک کے چکر میں
اپنے پاؤں کے اڑتے بگولوں میں سسکتا چھوڑ آئے ہیں
ہوا چلتی رہے تو شاید
اس منزل کا لمس عنبریں ہم تک پہنچ جائے
ہوا چلتی ہے، چلنے دو
سفر کی دھول اڑتی ہے تو اڑنے دو
سفر کی دھول اڑتی ہے تو کتنے ان کہے شاداب موسم
آنکھ کی دہلیز پرآ کر ٹھہرتے ہیں
ہوا چلتی ہے تو کتنے پرانے منظروں کی یاد
خواب آثار رخساروں پہ گرتی ہے
سر شام سفر ڈھلتے ہوئے خورشید کے رنگیں کٹورے سے
سنہری دھوپ دیواروں پہ گرتی ہے
سفر تو پھر سفر ہے
اور اس کی وحشتیں بڑھتی ہی رہتی ہیں
کہاں جائیں، کہاں ٹھہریں
ہمیں چلنا تو ہے لیکن، کہیں آخر ٹھہرنا ہے
ٹھہرنے سے ذرا پہلے
حد آفاق تک اک خواب کا منظر اترنے دو
سفر کی دھول اڑنے دو
ہوا چلتی ہے، چلنے دو
ہوا زنجیر مت کرنا
ہوا زنجیر ہو جائے تو پھر کچھ بھی نہیں رہتا
 
Top