شام، شفق، تنہائی ۔۔ خالد علیم

الف عین

لائبریرین
شام، شفق، تنہائی


خالد علیم




خزینۂ علم و ادب ، لاہور






جملہ حقوق بحق شاعر محفوظ
سال اشاعت نومبر 2001ء
 

الف عین

لائبریرین
انتساب

ہمشیرہ مرحومہ کے نام
جو 29اکتوبر 1998ءکو ٹریفک کے حادثے میں
انتقال کر گئیں
 

الف عین

لائبریرین
آنکھوں میں ترا عکس جمال آ جائے
سورج کو بھی ادھر زوال آ جائے
پھر تو ہی بتا کہ کیا کروں، مجھ کو اگر
چلتے چلتے ترا خیال آ جائے
 

الف عین

لائبریرین
بازیافت

بازیافت
ہمارے ارد گرد مسلسل شکست و ریخت کا عمل جاری ہے- تہذیبی، ثقافتی، سماجی، مذہبی اور سیاسی قدروں کی توڑ پھوڑ نے ہماری ذات کی اکائی کو بھی توڑ کر رکھ دیا ہے- ہم زندگی کے ان گنت خانوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں- ہمارا سفر مرکزیت سے لامرکزیت کی طرف بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اس میں ہم نے اپنے بے ڈھب قدموں سے اتنی دھول اڑائی ہے کہ ہمارے پیچھے چلنے والے تو بے چارے راہ ناآشنا ہو ہی چکے ہیں، ہمیں خود اپنی پہچان نہیں رہی- اور اب ہم شاید ایسی جگہ پہنچ چکے ہیں، جہاں سے ہمیں خود سے آگے جانے والے قافلوں کا سراغ نہیں ملتا کہ ہم نے اپنے بے ڈھب سفر کی دھن میں ان کے قدموں کے نشان مٹا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، سو، اب ہم نے اپنی تساہل پسندی سے رفتگاں کی تلاش کا عمل ہی ترک کر دیا ہے-
بے مقصد سفر میں اٹھنے والا ہمارا ہر قدم ہمیں ایسے مقام پر لے جانا چاہتا ہے جو ہمارے تہذیبی و فطری مزاج کے یکسر خلاف ہے- اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہم اپنے آپ سے بغاوت کرکے ان سمتوں کے سفر پر آمادہ ہیں جن کا تعین ہماری ذہنی، تہذیبی اور سماجی شکست و ریخت سے ہوا ہے- یہ شکست و ریخت اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ ہمارا ادراک اس کی تیز رفتاری کو گرفت میں لانے سے قاصر ہے- ہم کبھی کبھی اس پہلو پر وجدانی طور پر محسوس کرکے آگے گزر جاتے ہیں اور کوئی چیز ہمارے ہاتھ آتے آتے رہ جاتی ہے- اور اگر کبھی گرفت میں آ بھی جائے تو ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتی ہے- شاید ہماری مٹھیاں اپنے ہی نیزوں سے چھلنی ہو چکی ہیں-
یوں لگتا ہے کہ ”چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی“ کے اصول پر کاربند ہو کر ہم نے خود کو بادبانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے- ہم میں اب وہ دم خم نہیں رہا کہ سمندروں کے سینوں کو چیریں اور صحراؤں کی دھول چھان کر کوہ ندا کی خبر لائیں کہ ہم نے دوسروں کے لیے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا چھوڑ دیا ہے-
اپنی کوتاہیوں کو دوسروں کے کھاتے میں ڈال دینا بہت آسان ہے، اور اپنی خامیوں پر نظر رکھنا اور اس کے اسباب و محرکات کو کھوجنا مشکل ترین امر ہے- یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارے اندر دریافت کا عمل شروع ہوگا---- لیکن ہم نے یہ عمل چھوڑ دیا ہے- یہ عمل ذات کے حوالے سے ہو یا اشیائے عالم کے حوالے سے، اس میں جگر کا خون پانی ہو جاتا ہے اور آنکھ کی بینائی زائل ہونے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے- کبھی کبھی --- کبھی کبھی نہیں بلکہ اس عمل میں اکثر خود کو گم کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر اپنی دریافت کا سفر شروع ہوتا ہے اور پھر یہ سفر، اگر ارادے توانا ہوں تو اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک سینوں میں جاری رہنے والا سانسوں کا سلسلہ ٹوٹ نہ جائے اور آدمی بے دم ہو کر نہ گر جائے-
بازیافت کا عمل شاید دریافت کے عمل سے بھی زیادہ مشکل ہے کہ یہ عمل زندگی کی سچائیوں کو ہمارے سامنے آئینہ کر سکتا ہے جب کہ ہمیں ان سچائیوں کو محسوس کرنے سے خوف آتا ہے- اس لیے ہمیں کہانیوں پر زیادہ یقین ہے حالانکہ کہانیاں بھی انھی سچائیوں سے جنم لیتی ہیں ، لیکن کہانیاں ہمیں محض اس لیے اچھی لگتی ہیں کہ ہمارے اندر بسنے والا طلسم ان کی طلسماتی فضا کا اسیر ہے اور خواب نگر کے رہنے والے شہزادے کی خواہشوں کو باب تکمیل کی تسخیر میں ہمکنار دیکھنے کا آرزو مند--- اس طلسماتی فضا میں خواب نگر کے اس شہزادے کے طویل اور جانکاہ سفر میں ہم اس کی کامیابی کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن اس کا ہم سفر ہونا ہمارے بس میں نہیں کہ یہاں پھر وہی خوف ہماری رگیں کھینچنے لگتا ہے --- اعتبار اور بے اعتباری کے درمیان کا خوف --- ہونے اور نہ ہونے کے بیچ میں اترنے والی بے سمتی کا خوف- اس خوف نے ہم پر لرزہ طاری کر رکھا ہے- مخالف سمتوں سے آنے والا لشکر ظلمات ہمارے دل کی سرحدوں پر آ بیٹھا ہے اور ہم کچھ ہونے سے پہلے ادھ موئے ہو چکے ہیں---ہمیں کچھ نہیں سوجھتا --- ہمیں کچھ نظر نہیں آتا-
مگر اس کے باوجود آخر وہ کیا ہے؟ جو ہم نے دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں- وہ سب کیا ہے؟ جو ہم نے سنا اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں- سچائی کی آنکھ سے دیکھا جائے تو وہ ہمارے اصل احساسات کا نمائندہ ہے- ہم جو کچھ لکھنا چاہتے ہیں، جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، یہ اس کو اپنی میزان میں تول کر تخلیق کے سانچے میں ڈھالتا ہے، اور تب ہم پر اپنی تلاش کا عمل آسان دکھائی دینے لگتا ہے- اسی لیے خود کو پا لینے کی جستجو میں انشراح ذات کا عمل وجود میں آتا ہے-
میرے خیال میں شاعری اسی انشراح ذات کا ذریعہ ہے، جس سے اپنی پہچان کا اصل سفر شروع ہوتا ہے اور ہم اپنی ذات سے لے کر اپنے چارسو کی تلخ و شیریں سچائیوں کو لمحہ لمحہ محسوس کرتے ہوئے زندگی آمیز حقیقتوں کا ادراک حاصل کرتے ہیں- اپنے جوہر خاص کی بازیافت کے لیے پہلے اپنی ذات ہی کا شعور ضروری ٹھہرتا ہے جو ہمیں لامرکزیت سے مرکزیت کی طرف لانے کا امکان پیدا کرتا ہے-
شاید اسی امکان کی تلاش میں آج سے بائیس سال پہلے میرا شعری سفر ایک خاموش اور تنہا مسافر کی طرح شروع ہوا- تاہم اس مجموعے میں جو کچھ شامل ہے، پچھلے دس سال کی غیر مسلسل تخلیقی کاوشوں کا انتخاب ہے- غیر مسلسل اس لیے کہ آج کا تخلیقی منظر نامہ تخلیق کے جن محرکات کا متقاضی ہے، اس سے میں اپنی کم آمیزی کے باعث اگرچہ صد فی صد الگ تھلگ رہا، تاہم غیر شعوری طور پر اس منظر نامے کے دل آویز عکس میری تخلیقی جہتوں پر اثر انداز ضرور ہوئے ہیں اور میں اپنے قافلے سے جدا ہو کر بھی فکری و ذہنی اعتبار سے اس کا ہم سفر رہا ہوں- اس ہم سفری میں ، میں نے کتنے پائیدار یا ناپائیدار نقوش تراشے ہیں، اس کا فیصلہ تو آپ کریں گے- میں تو صرف یہ کہوں گا کہ جو کچھ میں نے لکھنا چاہا، اسے اپنے دل کی آواز بنانے کی کوشش ضرور کی ہے ---فیصلہ تو آپ ہی نے کرنا ہے-
خالد علیم
6 جولائی 1991ء
 

الف عین

لائبریرین
نئی اشاعت
اس مجموعہ کی پہلی اشاعت ”کوئی آنکھ دل سے بھری رہی“ کے نام سے غزلوں ، نظموں اور رباعیات پر مشتمل تھی- اس اشاعت کے وقت رباعیات کا مجموعہ ”تمثال“ اگرچہ ترتیب دیا جا چکا تھااور اس کا اشتہار بھی ایک دو ادبی پرچوں میں شائع ہوا، تاہم”کوئی آنکھ دل سے بھری رہی“ کی اشاعت میں تقریباً ایک صد رباعیات کا انتخاب محض اس لیے شامل کر لیا گیا کہ ”تمثال“ کی اشاعت بعض وجوہ کی بنا پر مؤخر ہورہی تھی - اب جبکہ اس کی اشاعت اپنی اولیں صورت گری کے ساتھ عنقریب متوقع ہے تو ”کوئی آنکھ دل سے بھری رہی“ کی ترتیب میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے- اس تبدیلی کے اثرات مجموعے کے نام میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں-
اب یہ مجموعہ ”شام، شفق، تنہائی“ کے نام سے (ترمیم واضافہ کے ساتھ) غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے- نئی غزلوں کو مجموعے کے شروع میں رکھا گیا ہے جبکہ کچھ نظموں کا اضافہ آخر میں کر دیا گیا ہے- اس طرح ”کوئی آنکھ دل سے بھری رہی“ کی مجموعی حیثیت تبدیل بلکہ منسوخ ہو چکی ہے ، لہٰذا ”شام، شفق، تنہائی“ غزلوں اور نظموں پر مشتمل کلام کی اشاعت میرے پہلے مجموعۂ کلام ہی کی نئی اشاعت تصور کی جائے-
آخر میں اپنے دوستوں سعد اللہ شاہ، ثنا اللہ شاہ اور خزینۂعلم و ادب کے مہتمم جناب محمد نذیر صاحب کا شکریہ مجھ پر واجب ہے کہ جن کی محبتوں کے طفیل اس مجموعہ کی نئی اشاعت ممکن ہوئی-
خالد علیم
یکم اکتوبر 2001ء
 

الف عین

لائبریرین
نارسائی
بنایا دشت میں خوشبو نے راستا بھی تو کیا
کہ آندھیوں کے مقابل چلی ہوا بھی تو کیا
ٹھہر ٹھہر کے سلگتا ہوا شرارۂ جاں
جلا کے پیرہن خاک بجھ گیا بھی تو کیا
کہیں ہوا نہ سبکسار عکس آئنہ ساز
خود اپنی تاب سے آئینہ جل اٹھا بھی تو کیا
ملی نہ اس کو تگ و دَو کی گرمیِ آفاق
لہو بدن کی رگوں میں رواں ہوا بھی تو کیا
وہ سیل موج کہ اپنے حصار میں گم ہے
سمندروں کی تہوں سے ابل پڑا بھی تو کیا
بقدر رنگ نمو ہے فقط مہک اُس کی
”نفس کے زور سے وہ غنچہ وا ہوا بھی تو کیا
جسے نصیب نہیں آفتاب کا پرتو“
 

الف عین

لائبریرین
گرفتِ خاک سے باہر مجھے نکلنے دے
اے دشت خواب مجھے دو قدم تو چلنے دے
جو ہو سکے مرے اشکوں کو منجمد مت کر
ہوائے شہر خرابی مجھے پگھلنے دے
اے دشت شام کی پاگل ہوا بجھا نہ مجھے
نواحِ شب میں کوئی تو چراغ جلنے دے
نہ روک مجھ کو کہیں بھی تو اے ستارۂ ہجر
میں چل پڑا ہوں، کوئی راستہ نکلنے دے
وہ قطرہ قطرہ سحر آنکھ میں طلوع تو ہو
اے ماہِ شب، نم شبنم میں مجھ کو ڈھلنے دے
اسے کہو، نہ ابھی بال و پر کشادہ کرے
ابھی کچھ اور ہواؤں کو رخ بدلنے دے
 

الف عین

لائبریرین
اک انتخاب وہ یادوں کے ماہ و سال کا تھا
جو حرف ابر زدہ آنکھ میں ملال کا تھا
شکست آئنۂ جاں پہ سنگ زن رہنا
ہنر اسی کا تھا، جتنا بھی تھا، کمال کا تھا
یہ دیکھنا ہے کہ کھل کر بھی بادباں نہ کھلے
تو اس سے کتنا تعلق ہوا کی چال کا تھا
قبائے زخم کی بخیہ گری سے کیا ہوتا
مرے لہو میں تسلسل ترے خیال کا تھا
پرانے زخم بھی خالد! مرے، ادھیڑ گیا
جو ایک زخم، کف جاں پہ پچھلے سال کا تھا
 

الف عین

لائبریرین
دامن چاک ہی اے ہم نفساں ایسا تھا
رات ایسی تھی کہاں، چاند کہاں ایسا تھا
ہم ہواؤں کو لیے پھرتے تھے زنجیر بکف
رات اس دشت کی وحشت پہ گماں ایسا تھا
دل کہاں بوجھ اٹھاتا شب تنہائی کا
یہ ترا قرب جدائی مری جاں ایسا تھا
قدم اٹھتا ہی نہ تھا گو کہ زمیں پاؤں میں تھی
آسماں بھی تو مرے سر پہ گراں ایسا تھا
رہ گئے کٹ کے ترے ہجر کے گرداب میں ہم
ورنہ یہ زور سمندر میں کہاں ایسا تھا
 

الف عین

لائبریرین
ٹوٹ کر جو کف مژگاں پہ بکھر جاتا ہے
وہ تعلق تو رگ جاں میں اتر جاتا ہے
ریزہ ریزہ جو کیا خود کو، چلو ہم نے کیا
ورنہ الزام تو یہ بھی ترے سر جاتا ہے
اے مرے عکس فراموش ذرا سوچ کہ کیوں
آئنہ دیکھ کے صورت تری ڈر جاتا ہے
اس سے کس بات کا شکوہ، وہ مرے پاس کبھی
آ تو جاتا ہے، مری آنکھ تو بھر جاتا ہے
چھوڑ جاتا ہے مرا جسم، مری جاں لے کر
جاتے جاتے وہ کوئی کام تو کر جاتا ہے
وہ کہ آتا تھا بچھڑنے کو مگر اب خالد
مجھ کو مجھ سے ہی جدا کرکے گزر جاتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
گزارتے ہیں یہ دن بھی ترے ملال میں ہم
کہ لے کے پھرتے ہیں ماضی کو اپنے حال میں ہم
اب آنکھ میں کوئی آنسو، کوئی ستارہ نہیں
کچھ ایسے ٹوٹ کے روئے ترے وصال میں ہم
جو اپنے عہد زیاں کا حساب تازہ کرے
وہ لفظ لائیں کہاں سے تری مثال میں ہم
گزشتگاں کا بھی آئندگاں سے ربط رہے
بندھے ہوئے تو ہیں زنجیر ماہ و سال میں ہم
عروج کا کوئی لمحہ کہاں سے نکلے گا
رکے ہوئے ہیں کسی عہد کے زوال میں ہم
وہ عکس ہے پس منظر سے پیش منظر تک
سو دیکھتے ہیں اسے اپنے خد و خال میں ہم
 

الف عین

لائبریرین
سیل گریہ ہے کوئی جو رگ جاں کھینچتا ہے
رنگ چاہت کے وہ آنکھوں پہ کہاں کھینچتا ہے
دل کہ ہر بار محبت سے لہو ہوتا ہے
دل کو ہر بار یہی کار زیاں کھینچتا ہے
شاید اب کے بھی مری آنکھ میں تحریر ہے وہ
لمحۂ یاد کوئی حرف گماں کھینچتا ہے
ایک بے نام سی آہٹ پہ دھڑکتا ہوا دل
عکس تیرا ہی سر شیشۂ جاں کھینچتا ہے
جا چکا ہے وہ مرے حال سے باہر پھر بھی
اپنی جانب مرے ماضی کے نشاں کھینچتا ہے
تیر نکلے گا تو سوچیں گے، ابھی تو خالد
وہ فقط میری طرف اپنی کماں کھینچتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
مرے چہرے کے پیچھے عکس اس کا جاگتا ہے
کہ آئینے میں اک منظر پرانا جاگتا ہے
ذرا تم چاند کی مشعل کو گل کرنے سے پہلے
فلک پر دیکھنا لینا، کوئی تارا جاگتا ہے؟
یہ آنسو رک سکیں تو روک لو، بہتر یہی ہے
جب آنسو خشک ہو جائیں تو دریا جاگتا ہے
اچانک داستان وصل اس نے ختم کر دی
فقط یہ دیکھنے کو، کون کتنا جاگتا ہے
فضا خاموش ہے اور رات کے بستر پہ خالد
زمیں سے آسماں تک کوئی گریہ جاگتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
اے ہوا بتا مجھ کو کیوں یہ دل دھڑکتا ہے
راستہ تو چپ چپ ہے، دیکھ! کون آیا ہے
سوچتے تو رہتے ہیں پھر بھی کب یہ سوچا ہے
حرف حرف سوچوں میں کون جاگ اٹھتا ہے؟
گرم گرم سانسوں میں نرم نرم ہونٹوں میں
کوئی آنچ رہتی ہے، کوئی غم پگھلتا ہے
برف برف لہجوں میں، سرد سرد جذبوں میں
میں سلگ سا اٹھتا ہوں، جب بھی تو اترتا ہے
آئنے میں پھر کوئی عکس ہے مگر اے دل!
دیکھ، دیکھتا کیا ہے؟ آئنہ اسی کا ہے
دھول اڑتی پھرتی ہے دور دور تک کوئی
اک نیا مسافر ہے، راستہ پرانا ہے
لہر لہر دریا کے تیز رو بہاؤ میں
کیا خبر ابھی مجھ کو کتنی دور جانا ہے
ڈھونڈتے ہو تم کس کو خالی خالی آنکھوں سے
وہ تو سامنے خالد، دوسرا کنارا ہے
 

الف عین

لائبریرین
وہ کف جاں پہ رگ جاں کی طرح رہتا ہے
اس تعلق پہ بھی امکاں کی طرح رہتا ہے
میں تو بس خاک ہوں،اور خاک سے تجسیم مری
اور وہ ماہ زر افشاں کی طرح رہتا ہے
دیکھتا ہے نہ دکھاتا ہے کوئی عکس اپنا
آئنہ وصل گریزاں کی طرح رہتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
کسی کے سامنے مت اپنا دل نکال کے رکھ
یہ دشت خواب ہے، اپنے قدم سنبھال کے رکھ
ستارے کارگہِ آسماں میں ڈھلتے ہیں
کبھی کبھی سر مژگاں انھیں اجال کے رکھ
نکھار حجلۂ جاں میں گزشتگاں کے نقوش
چراغ، طاق تمنا میں ماہ و سال کے رکھ
 

الف عین

لائبریرین
بہت دنوں سے ہوں خالد اسیر حلقۂ خواب
خبر نہیں کہ کہاں ختم ہو یہ قصۂ خواب
شکست تار رگ جاں ہے زیر و بم دل کا
سکوت شب میں کہیں مرتعش ہے نغمۂ خواب
ہوائے شام نے اس کو بجھا دیا خالد
مری نگاہ پہ جب بھی کھلا دریچۂ خواب
 

الف عین

لائبریرین
کسی ہجر کی رات کا کوئی منظر اٹھائے ہوئے
ہوا رُک گئی سر پہ بادل کا بستر اٹھائے ہوئے
مری آنکھ کے شہر بے خواب کو دیکھنے کے لیے
نکل آیا سورج مرے سر پہ پھر سر اٹھائے ہوئے
مجھے گھر سے باہر نکلنے کا رستہ تو معلوم تھا
کھڑا تھا مگر گھر کی دیوار کو در اٹھائے ہوئے
کبھی میں بھی تھا پیش رو اس کی منزل کا منزل سے دور
اور اب اپنی منزل پہ ہے وہ مرے پر اٹھائے ہوئے
مرے ساتھ کچھ دیر میرا وہ نامحرم چشم و دل
مرے گھر تک آ تو گیا تھا مگر سر اٹھائے ہوئے
وہ کیا رات تھی آنکھ میں آ گیا دل اچھلتا ہوا
کف جاں پہ اپنے لہو کا سمندر اٹھائے ہوئے
اٹھائے نہ اپنے گنہگار ہاتھوں میں پتھر کوئی
مگر کیا ہوا آ گئے سب ہی پتھر اٹھائے ہوئے
وہ خالد مرے رُوبرو آ گیا آئنے کی طرح
مگر میں کہ اپنے ہی ہونے کا تھا ڈر اٹھائے ہوئے
 

الف عین

لائبریرین
کیا ضروری ہے وہ ہم رنگ نوا بھی ہو جائے
تم جدھر چاہو، ادھر کو یہ ہوا بھی ہو جائے
اپنے پر نوچ رہا ہے ترا زندانیِ دل
اسے ممکن ہے رہائی کی سزا بھی ہو جائے
دل کا دامانِ دریدہ نہیں سلتا تو میاں
بھاڑ میں جائے اگر چاک ردا بھی ہو جائے
تم یقیں ہو تو گماں ہجر کا کم کیا ہوگا
چشمِ بے خواب اگر خواب نما بھی ہو جائے
کہیں ایسا نہ ہو، اس ڈوبتے خورشید کے ساتھ
تیری آواز میں گم میری صدا بھی ہو جائے
ہم اسیرِ دل و جاں خود سے بھی سہمے ہوئے ہیں
خلقتِ شہر تو ہونے کو خدا بھی ہو جائے
مجلسِ شاہ کے ہیں سارے مصاحب خاموش
ہم نوا دل کا امیر الامرا بھی ہو جائے
 
Top