شام، شفق، تنہائی ۔۔ خالد علیم

الف عین

لائبریرین
دلِ بے خواب یہ کیا قصّۂ جاں ہے
چارسُو یہ جو ترا حلقۂ جاں ہے
کتنا گنجان ہے اس دل کا خرابہ
کتنا ویران یہ معمورۂ جاں ہے
کیسا ہنگامہ بپا ہے کہ جہاں میں
دو قدم چلیے تو اندیشۂ جاں ہے
کیا کہوں اے دل آسودۂ جاناں
ہر کوئی شہر میں آزردۂجاں ہے
سر پہ جو ہجر کی یہ رات ہے خالد
فقط اک شام کا افسانۂ جاں ہے
 

الف عین

لائبریرین
نقش کچھ اور سرِ خاک ابھارا جائے
آسمانوں سے ستاروں کو اتارا جائے
آ مجھے تو ہی بتا، وقت ٹھہر جائے تو
دشت تنہائی میں کس طرح گزارا جائے
کشتیاں ڈوب چکیں اور وہ اس سوچ میں ہے
اب سمندر ہی کنارے پہ اتارا جائے
ہم تو جاں سے بھی گزر جائیں، ہمارا کیا ہے
اور تم خوش کہ ابھی کچھ نہ تمہارا جائے
کیا کریں، خوئے نگاراں ہی کچھ ایسی ہے کہ بس
دل بھی پہلو سے سوا، چین بھی سارا جائے
ایسا تنہا بھی نہیں ہوں لب دریا خالد
دور تک ساتھ مرے ایک کنارا جائے
 

الف عین

لائبریرین
( غالب کی نذر)
رہینِ کرب ہے دل، چشم تر میں خاک نہیں
بُنِ شجر میں ہے، برگِ شجر میں خاک نہیں
رواں ہے پارۂ سیماب کی طرح دل میں
مرا وجود جو اس کی نظر میں خاک نہیں
سفر ہی ٹھہرا ہے درماندہ رہرووں کا نصیب
سوائے رنجش بے سود، گھر میں خاک نہیں
یہاں تو سب ہیں کلاہ جنوں سجائے ہوئے
عجیب کیا ہے اگر ان کے سر میں خاک نہیں
وہ دھول اڑی ہے کہ چہروں کی اٹھ گئی پہچان
یہ کس نے کہہ دیا خالد! سفر میں خاک نہیں
 

الف عین

لائبریرین
سوچ، دشت ہجر کی ویرانیوں میں گم رہی
زندگی اپنی جنوں سامانیوں میں گم رہی
رات سورج کے تعاقب میں رہی گرم سفر
دل کی وحشت چاند کی تابانیوں میں گم رہی
آسماں کے طاق میں جلتی ہوئی شام شفق
چشم نم کی آئنہ سامانیوں میں گم رہی
عکس آئینہ سے کیا کھلتا طلسم آگہی
یہ وہ حیرانی تھی جو حیرانیوں میں گم رہی
تیرے جلووں کے ستارے ہوں کہ بارش ہجر کی
دل کی یہ بستی تو بس طغیانیوں میں گم رہی
 

الف عین

لائبریرین
یہ ترے ہجر نے پیدا کیے اسباب ایسے
ہم زمیں زاد کہاں کے تھے سفر یاب ایسے
اس قدر زور تو دریا کی روانی میں نہ تھا
آبجو سے نکل آئے کئی گرداب ایسے
آنکھ میں ہجر کا جاں سوز لہو جاگ اٹھا
کر دیا اب کے تری یاد نے شاداب ایسے
اب یہ خوش لہجہ صداؤں سے کہاں جاگتے ہیں
ایک مدت سے ہوئے لوگ گراں خواب ایسے
 

الف عین

لائبریرین
سقف سکوں نہیں تو کیا، سر پہ یہ آسماں تو ہے
سایۂ زلف اگر نہیں، دھوپ کا سائباں تو ہے
آنکھ کے طاق میں وہ ایک، جل اٹھا نجم نیم جاں
درد کی رات ہی سہی کوئی سحر نشاں تو ہے
جاگ رہا ہوں رات سے لذت خواب کے لیے
نیند نہیں جو آنکھ میں جوئے شب رواں تو ہے
پاؤں ہیں زخم زخم اگر دل ہے اگر فگار عشق
تیرے حصول کا مجھے وہم تو ہے گماں تو ہے
دل ہے اگر بجھا ہوا جاں ہے اگر لٹی ہوئی
چشم سحر فریب کا آئنہ ضو فشاں تو ہے
عشق و جنوں کے باب میں چاہیے کار رفتگاں
اے مرے جذبۂ وفا! جی کا ذرا زیاں تو ہے
شہر ستمگراں وہی، پھر صف دشمناں وہی
خالدِ خستہ جاں کے پاس تیر نہیں، کماں تو ہے
 

الف عین

لائبریرین
اوڑھے ہوئے ہیں کب سے ردائے سراب ہم
ذروں میں دیکھتے ہیں ستاروں کے خواب ہم
اک موجِ تہ نشیں ہیں تہِ بحر جستجو
چلتے ہیں آسمان پہ پا در رکاب ہم
وابستۂ شب غم ہجراں ہوئے تو کیا
کچھ تو لگا ہی لیں گے سحر کا حساب ہم
پھرتے ہیں کوئے دیدہ وراں میں لیے ہوئے
پابستگی دربدری کا عذاب ہم
اس عہد دلفریب میں شاید کہ بھول جائیں
ایامِ رفتگاں کی شکستہ کتاب ہم
کیا رات تھی کہ دن بھی اندھیروں میں کھو گیا
شاید کہ رہ گئے ہیں پس آفتاب ہم
خالد سواد ہجر سے نکلے تو ہو گئے
آوارۂ دیارِ شب ماہتاب ہم
 

الف عین

لائبریرین
اوڑھے ہوئے ہیں کب سے ردائے سراب ہم
ذروں میں دیکھتے ہیں ستاروں کے خواب ہم
اک موجِ تہ نشیں ہیں تہِ بحر جستجو
چلتے ہیں آسمان پہ پا در رکاب ہم
وابستۂ شب غم ہجراں ہوئے تو کیا
کچھ تو لگا ہی لیں گے سحر کا حساب ہم
پھرتے ہیں کوئے دیدہ وراں میں لیے ہوئے
پابستگی دربدری کا عذاب ہم
اس عہد دلفریب میں شاید کہ بھول جائیں
ایامِ رفتگاں کی شکستہ کتاب ہم
کیا رات تھی کہ دن بھی اندھیروں میں کھو گیا
شاید کہ رہ گئے ہیں پس آفتاب ہم
خالد سواد ہجر سے نکلے تو ہو گئے
آوارۂ دیارِ شب ماہتاب ہم
 

الف عین

لائبریرین
خوابیدگی درد کی محرم تو نہیں ہے
یہ شب ہے، ترا کاکل پرخم تو نہیں ہے
اک ابر کی ٹھنڈک میں اسے بھول ہی جائیں
یادوں کی تپش اتنی بھی مدھم تو نہیں ہے
اس عہد میں وابستگی موسم گل بھی
اب حلقۂ زنجیر سے کچھ کم تو نہیں ہے
ہر ایک گل اندام کی چوکھٹ پہ ٹھہر جائے
دل ہے، کوئی آوارۂ عالم تو نہیں ہے
پھر دشت تمنا میں ہے لرزاں کوئی آواز
خالد یہ صدائے جرس غم تو نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
قریۂ دل میں ہے کس کا کف پا آوارہ
پھر رہی ہے قفس جاں میں صدا آوارہ
آنکھ کو یورش سیلاب کی حسرت ہے ابھی
کھل کے برسی نہیں جذبوں کی گھٹا آوارہ
قفل احساس کوئی کھول کے دیکھے تو سہی
کتنے جذبے ہیں سر دشت وفا آوارہ
کس کی فرقت میں اترتا ہے غبار شبنم
کوبکو پھرتی ہے کس غم میں صبا آوارہ
جانے کس کس کے لیے پھرتی رہی خاک بدوش
رات بھر کوچۂ جاناں میں ہوا آوارہ
ہجر کی رات یہ منظر تھا نہ جانے کیسا
چاند بے نور تھا، بادل بھی رہا آوارہ
خالد اب کوئے نگاراں سے نکل آئی ہے
حجلۂ درد کے روزن میں ضیا آوارہ
 

الف عین

لائبریرین
پاؤں کیا وقت کی دہلیز پہ ہم رکھتے ہیں
اک قدم روز سر دشت عدم رکھتے ہیں
اے مرے راہرو دل ذرا آہستہ چل
عرصۂ ہجر میں آہستہ قدم رکھتے ہیں
ٹھہر اے قافلۂ ہم نفساں آہستہ
ساتھ چلنا ہو تو رفتار کو کم رکھتے ہیں
دل سے آنے لگی زنجیر چھنکنے کی صدا
قفس درد میں ہم لذت رم رکھتے ہیں
تیز رفتاری ہر موج نفس سے خالد
دل میں جینے کی تمنا ہے، سو ہم رکھتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
تمام عمر بچھڑنے کا اک بہانہ ہوا
جو تیرے شہر سے اک قافلہ روانہ ہوا
سواد ہجر کی تاریکیوں میں کھو گئی شام
جو دل اسیر تمنائے زلف شانہ ہوا
نہ اپنے زخم کی خوشبو، نہ اس کے حسن کا رنگ
وصال و ہجر کا موسم گئے زمانہ ہوا
نہ خواہش غم جاناں، نہ کاہش جاں ہے
ہر ایک جذبۂ عشق بتاں فسانہ ہوا
نہ جانے کس کے لیے چشم نم سلگنے لگی
اسے تو بھولے ہوئے ہم کو اک زمانہ ہوا
غبار ہجر سے دل کی کدورتیں نہ دُھلیں
اس آب صاف سے شفاف، آئنہ نہ ہوا
ہر ایک صبح، نگہ پر تھا قرض ماتم شب
دل اس کی یاد سے جب تک گریز پا نہ ہوا
سو اَب یہ ہے کہ ترا ذکر چھیڑتے نہیں ہم
نگاہ میں ترے جانے پہ ورنہ کیا نہ ہوا
 

الف عین

لائبریرین
صحرا میں ہم اترے تو لب جو نکل آئے
اس میں بھی تری یاد کے پہلو نکل آئے
یوں گھر سے وہ نکلا ہے کہ جیسے شب تیرہ
زندان گل ہجر سے خوشبو نکل آئے
اے کاش کبھی دشت نظر میں کسی صورت
تو مثل گل و غنچۂ خود رو نکل آئے
یا دل ہی بکھر جائے سر وسعت صحرا
یا صورت آرائش گیسو نکل آئے
آوارگی شوق کی منزل نہیں کوئی
گھر چھوڑ دیا ہم نے بہر سو نکل آئے
کیا راحت جاں، اب تو فقط جی کا زیاں ہے
اس دل کے خرابے میں اگر تو نکل آئے
اک عمر کے بعد آئنۂ خواب سے خالد
دیکھا جو اسے، آنکھ سے آنسو نکل آئے
 

الف عین

لائبریرین
ہم کہ منزل کا تصور نہ نظر میں رکھتے
یہ تو ہوتا کہ ترا ساتھ سفر میں رکھتے
ہم اسیران جنوں اپنی رہائی کے لیے
عزم پرواز کہاں جنبش پر میں رکھتے
ابر گریہ سے تھی خود چاندنی افسردہ جمال
عکس مہتاب کو کیا روزن و در میں رکھتے
یا تو ہم چادر عزم اوڑھ کے چلتے گھر سے
یا کوئی سایۂ دیوار نظر میں رکھتے
ایک سودائے محبت کے سوا ہم خالد
اور کیا سلسلۂ شام و سحر میں رکھتے
 

الف عین

لائبریرین
یہ کیسی خوئے شب تابی دل خود سر میں رہتی ہے
کہ اک پرہول ویرانی مرے بستر میں رہتی ہے
نگاہوں کے افق پر شام کے پہلو بدلنے سے
سحر تک خوں فشانی رات کے منظر میں رہتی ہے
تری چشم تمنا سے گزرنے کی کوئی خواہش
مسلسل درد بن کر میری چشم تر میں رہتی ہے
مشام جاں سے جب بھی پھوٹتی ہے شام تنہائی
سمٹ کر رات کے تاریک تر پیکر میں رہتی ہے
بہر سو مرتعش ہے اس کے آنے کی صدا خالد
عجب اک خامشی سی دل کے بام و در میں رہتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
(احمد فراز کی نذر)
کسی کی یاد سے ہم بے نیاز ہو جائیں
مگر یہ ڈر ہے کہیں رتجگے نہ سو جائیں
فضا اداس، ستارے اداس، رات اداس
یہ زندگی ہے تو ہم بھی اداس ہو جائیں
وہ سیل تند سے بچ کر نکل تو آئے ہیں
یہ خوف ہے نہ کنارے کہیں ڈبو جائیں
اسی لیے تو یہ آنکھیں چھلکنے لگتی ہیں
کہ کشت شب میں اجالوں کے بیج بو جائیں
سکون کا کوئی پل ہو کہ نیند آئے ہمیں
نہیں تو درد کے کہرام ہی میں سو جائیں
یہ سوچتے ہیں کہ دشت فریب سے چل کر
مسافران جنوں کس دیار کو جائیں
یہی ہے کوچۂ جاناں کی رسم اگر خالد
تو آؤ ہم بھی خموشی سے قتل ہو جائیں
 

الف عین

لائبریرین
تیرے لیے میں ساری عمر گنوا سکتا ہوں
تو کہہ دے تو یہ دھوکہ بھی کھا سکتا ہوں
تیری چاہت کے جذبوں کی خوشبو لے کر
بجھی ہوئی شاموں کو بھی مہکا سکتا ہوں
لمحوں کے پرکیف سکوت پہ حیراں کیوں ہے
تیرے لیے میں صدیوں کو ٹھہرا سکتا ہوں
کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے، تیری خاطر
جنگل کے اس پار اکیلا جا سکتا ہوں
دھول اڑاتی آنکھوں میں جذبوں کو بہا کر
دریاؤں کو صحراؤں میں لا سکتا ہوں
خالد اپنے جذبوں کی زرخیزی سے میں
کشت سخن میں ہریالی مہکا سکتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
عمر گزاری تو کیا نکلا
عشق ہی آخر جھوٹا نکلا
ساری رات سفر میں کاٹی
گھور اندھیر سویرا نکلا
جو رستہ معلوم نہیں تھا
دل اس رستے پر جا نکلا
جس رستے سے گھر تک جاتے
کوئی نہ ایسا رستہ نکلا
ماں کا رشتہ ہی سچا تھا
باقی سب کچھ جھوٹا نکلا
 

الف عین

لائبریرین
(حادثۂ ہائلہ - 29 اکتوبر 1998 کے حوالے سے)
کیا کہیں اے عزیز جاں! ہم پہ یہ کیا گزر گئی
زخم ادھیڑتے ہوئے موجِ صبا گزر گئی
خواہش یک نفس کہ جو، آنکھ میں تھی رکی ہوئی
قریۂ درد سے کہیں آبلہ پا گزر گئی
دل ہے کہ داغ داغ ہے، گھر ہے کہ بے چراغ ہے
دشت شبِ سیاہ سے آئی ہوا، گزر گئی
رات ہزار جا چکی، اپنی بساط اٹھا چکی
رات تو رات ہی رہی، جا کے بھی کیا گزر گئی؟
آج بھی تھا افق پہ دور پارۂدل لہو لہو
آج بھی زرنگار شام ، کرب نوا گزر گئی
اے غم جاں ٹھہر ذرا، تجھ کو بھی ہے خبر ذرا؟
دل کا لہو اچھال کر دل کی صدا گزر گئی
اب تمہیں کیا بتائیں ہم ، کیسے تمہیں دکھائیں ہم
سینے میں کیا اتر گیا، آنکھ پہ کیا گزر گئی
 

الف عین

لائبریرین
دل کی آواز کو الفاظ میں لانے کا ہنر
نہیں آتا، اگر آئے نہ زمانے کا ہنر
ذہن میں آئے تو تھے لفظ تراشیدہ خیال
دل نے بس چھین لیا بات بنانے کا ہنر
ہم کہ گم کردۂ دشت سفر شوق رہے
ہم کو آیا نہ تری راہ پہ آنے کا ہنر
جسم کا پیرہن خاک کہاں تک رہتا
بس وہاں تک کہ جہاں تک تھا زمانے کا ہنر
بات سے بات نکل آئے گی، معلوم نہ تھا
ورنہ ہم اور کہاں ربط بڑھانے کا ہنر
 
Top