زمانے بھر سے تھی کیا ضرورت ، جو دل دُکھا تھا تو ہم سے کہتے - ضامن جعفری

کاشفی

محفلین
غزل
(ضاؔمن جعفری)
زمانے بھر سے تھی کیا ضرورت، جو دل دُکھا تھا تو ہم سے کہتے
ہمارے بارے میں کچھ کسی نے کہا سنا تھا تو ہم سے کہتے

ہمیشہ امکان کچھ نہ کچھ چاہتوں میں رہتا ہے رنجشوں کا
حضور آپس کی بات تھی کچھ برا لگا تھا تو ہم سے کہتے

ہماری کوشش سدا یہی تھی نمائشِ غم نہ ہو کبھی بھی
اگر کہیں کوئی پارۂ دل پڑا ملا تھا تو ہم سے کہتے

نظر نے تو اُن کی گفتگو ہم سے جب بھی موقع ملا بہت کی
زباں پہ لیکن اَنا نے پہرہ بٹھادیا تھا تو ہم سے کہتے

سوالِ الفت اُٹھانے والے جواب سن کر بہت ہیں برہم
اُنہی کا عکس آئینہ جب اُن کو دکھا رہا تھا تو ہم سے کہتے

روایتِ حسن کے تقاضوں سے ہم بھی اچّھی طرح ہیں واقف

کمان سے اُن کی تیر، ضامنؔ! نکل گیا تھا تو ہم سے کہتے
 

شیزان

لائبریرین
ہمیشہ امکان کچھ نہ کچھ چاہتوں میں رہتا ہے رنجشوں کا
حضور آپس کی بات تھی کچھ برا لگا تھا تو ہم سے کہتے

بہت عمدہ کاشفی جی
 
Top