سید عاطف علی

لائبریرین
ظلمت را بر رُخ پریشاں کردہ ای
زیرِ ظلمت ماہِ تاباں کردہ ای

از قد ومت بسترِ شب خواب را
رشکِ اورنگِ سلیماں کردہ ای

از گُل و برگِ لب و رُخسار خود
صحنِ عالم را گُلِستاں کردہ ای

از فروغِ مے رُخ گُلنار را
شعلہٴ شمعِ شبستاں کردہ ای
حُسین انجُم

زُلفوں کو جب بھی رُخ پہ پریشاں سا کردیا
ظُلمت کے پیچھے چاند کو تاباں سا کردیا

آئے تمھارے، رات سُہانے سے خواب نے
مسند کو میری تختِ سلیماں سا کردیا

رُخسارِگُل نما تِرے، پتّی سی ہونٹ نے
عالم تمام کو ہی گلُِسْتاں سا کردیا

دی یوں فروغِ مے وہ گلنار رُخ نے آج
میرا غریب خانہ شبِستاں سا کردیا

(ترجمہ طارق شاہ )
طارق شاہ صاحب۔۔ بہت خوب ترجمہ موزوں کیا ہے۔فارسی والے کلام کے پہلےشعر کے مصرع اولیٰ اور اردو والے کلام کے آخری شعر کے مصرع اولیٰ کے کلمات کی ترتیب میں معمولی فرو گزاشت کے سبب ذرا نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ لیکن کلام اور ترجمہ بہت خوب ہے۔
 

طارق شاہ

محفلین
جناب سید صاحب !
اظہار خیال کے لئے ممنوں ہوں
مرحوم حسین انجم صاحب کے اِن اشعار میں کوئی معانی آفرینی تو نہیں
لیکن اشعار میں کیفیت کے اظہارِ خوب نے، انہیں یہاں پیش کرنے پر مجھے اُکسایا

پہلےشعر کے مصرع اولیٰ میں جو سہو یا فروگزاتِ بستگی ہے اس پر تو میں کچھ نہیں کرسکتا
ہاں آخری شعر کے مصرع اولیٰ میں جو غلطی ہے وہ درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ
مجھ سے معرض وجود میں آئی ہے

ایسا فروغِ مے لئے گلنار رُخ تھا رات
میرا غریب خانہ شبستاں سا کردیا
یا یوں کہ:
کچھ یوں فروغِ مے دِیا گلنار رُخ نے رات
میرا غریب خانہ شبستاں سا کردیا

سید صاحب! آپ کی باریک بینی اور اس نشاندہی سہو پر
میں متشکّر، اور صمیم دل سے سپاس گزار ہوں

بہت شاداں رہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
نہ شگوفہٴ نہ برگے، نہ ثمر نہ سایہ دارم
ہمہ حیرتم کہ دہقاں، بہ چہ کار کشت ما را

ذوقی اردستانی

مجھ سے نہ تو پھول ہیں نہ پتے، کوئی پھل ہے نہ سایہ، سو ہر وقت اسی حیرت میں گم ہوں کہ دہقان نے آخر ہمیں کس کام کیلیے کاشت کیا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نہ شگوفہٴ نہ برگے، نہ ثمر نہ سایہ دارم
ہمہ حیرتم کہ دہقاں، بہ چہ کار کشت ما را

ذوقی اردستانی

مجھ سے نہ تو پھول ہیں نہ پتے، کوئی پھل ہے نہ سایہ، سو ہر وقت اسی حیرت میں گم ہوں کہ دہقان نے آخر ہمیں کس کام کیلیے کاشت کیا۔
واہ وارث صاحب۔۔۔ میں اس شعرکا ایک مصرع اسطرح سنتا آیا ہوں ۔۔۔ نہ گلم نہ برگ سبزم ۔ نہ درخت سایہ دارم ۔۔۔ بیشک یہ قبول عام کی نشانی لگتی ہے۔لا جواب اور دلنشین مضمون ہے۔۔۔۔۔ بہت خوب۔۔۔لطف آگیا
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ وارث صاحب۔۔۔ میں اس شعرکا ایک مصرع اسطرح سنتا آیا ہوں ۔۔۔ نہ گلم نہ برگ سبزم ۔ نہ درخت سایہ دارم ۔۔۔ بیشک یہ قبول عام کی نشانی لگتی ہے۔لا جواب اور دلنشین مضمون ہے۔۔۔ ۔۔ بہت خوب۔۔۔ لطف آگیا

جی سید صاحب میں نے یہ شعر پہلے نہیں پڑھا تھا، آج ایک فارسی تذکرے "تذکرہٴ ریاض العارفین" میں نظر سے گزرا، واقعی لاجواب شعر ہے۔
 
گرچہ ہرمرگ است بر مومن شکر
مرگ پورمرتضی چیزی دیگر

اگرچہ مومن کو جس طرح کی بھی موت آئے وہ اس کے لئے شہد کی مانند ھے مگر علی مرتضی کے پور (بیٹے) کا قتل ایک انوکھی موت ھے (جس کو کئی مثال نہیں ملتی)

علامہ اقبال
 
خادم ِ شمر ِ کنونی گشتہ وانگہ نالہا
پس شماتت بر بزید مردہ دوں می کنند

(موجودہ دور کے شمر کے خدمت گزار ہونے کے باوجود روتے دھوتے ، دو سو لعنتیں ملعون شمر پر بھیجتے ہیں)

حق گواہ است ار محمد(ص) زندہ گردد یا علی۴
ہر دو را تسلیم ِ نواب ِ ہمایوں می کنند

(خدا گواہ ہے کہ اگر حضرت محمد(ص) یا حضرت علی۴ زندہ ہوجائیں تو یہ لوگ ان دونوں کو پکڑ کر پولیس کے اعلی افسر کے سپرد کر آئیں)

آید از دروازہ شمران اگر روزے حسین۴
شامش از دروازہ دولاب بیروں می کنند

(اگر کسی دن تہران کے شمالی دروازے یعنی " دروازہ شمران" سے امام حسین۴ داخل ہوجائیں تو شام ہونے سے پہلے ہی آپ کو جنوبی دروازہ یعنی " دروازہ دولاب" سے باہر نکال دیں)

حضرت عباس۴ اگر آید پئے یک جرعہ آب
مشک او را در تہ نظمیہ واژوں می کنند

(حضرتِ عباس علمدار۴ پانی کا ایک گھونٹ مانگنے آجائیں تو یہ لوگ ان کی مشکیں باندھ کر پولیس کو صدر دفتر کے نیچے الٹا لٹکا دیں)

قائم آل ِ محمد گر کند ، ناگہ ظہور
کلہ اش داغون، بضرب ِ چوب ِ قانون می کنند

(اگر اچانک امام مہدی۴ کا ظہور ہو جائے تو آپ کے سر پر قانون کے ڈنڈے برساتے ہوئے کھوپڑی کو زخمی کردیں گے)

گر یزید ِ مقتدر پا بر سر ایشان نہد
خاک ِ‌ پالیش را بآب ِ دیدہ معجوں می کنند

(اگر بر سر اقتدار یزید یعنی شاہ ِ وقت حقارت سے انکے سر پرپاوں رکھ دے تو اسکی خاک ِ پا پر آنسو بہاتے ہوئے اسے معجون بنا کر استعمال کریں گے)

ملک شعرا استاد محمد تقی بہار
ترجمہ: محمد سعد
 

میر انیس

لائبریرین
السید کامل عباس الجعفري محفل میں آمد کا شکریہ آپ تعارف کے زمرے میں اپنا مفصل تعارف کرادیں پھر ان اشعار کی تشریح بھی کردیجئے گا آپ نے ترجمہ تو کر ہی دیا ہے پر تھوڑی سی تشنگی محسوس ہورہی ہے کہ یہ سب کس کے لئے کہا جارہا ہے
 

حسان خان

لائبریرین
نه خدا توانمش خوانْد نه بشر توانمش گفت
مُتحیّرم چه نامم شهِ مُلکِ لافتیٰ را

(شهریار تبریزی)
نہ انہیں خدا پکار سکتا ہوں، نہ ہی بشر کہہ سکتا ہوں؛ میں حیران ہوں [کہ پس] میں مُلکِ لافتیٰ کے شاہ (حضرتِ علی) کو کیا نام دوں؟
 
آخری تدوین:

میر انیس

لائبریرین

حسان خان

لائبریرین
منصور فرقهٔ علی اللهیان منم
آوازهٔ انا اسد الله در افگنم
(اسد الله خان غالب)
میں علی اللہی فرقے کا منصور ہوں، کیونکہ میں 'انا اسد اللہ' کا نعرہ لگاتا ہوں۔​
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد ہادی رضا قلی خان ہدایت کے "تذکرہٴ ریاض العارفین" میں اوحدی کرمانی کے احوال میں کچھ اس طرح سے مذکور ہے کہ بغداد میں جب ایک شاہزادے نے انکی "شاہد بازی" کا حال سنا تو اپنے ہاتھوں سے انہیں قتل کرنے کیلیے نکل کھڑا ہوا، جب وہ اوحدی کرمانی کی مجلس میں پہنچا تو آپ نے اس کا ارادہ بھانپتے ہوئے فی البدیہہ ایک رباعی کہی۔ رباعی سن کر شاہزاد قدم بوس ہوا اور ارادت مندوں میں شامل ہو گیا۔ رباعی یہ ہے۔

سہل است مرا بر سرِ خنجر بُودن
در پائے مرادِ دوست، بے سر بُودن
تو آمدہ ای کہ کافرے را بکشی
غازی چو تویی، رواست کافر بُودن

میرے لیے آسان سی بات ہے کہ خنجر کی نوک پر چڑھ جاؤں، اور دوست کی خواہش کے قدموں میں بے سر ہو جاؤں، تو آیا ہے کہ کافر کو ختم کر دے، اگر تیرے جیسا غازی ہو تو واللہ پھر کافر ہونا بھی روا ہے۔

اللہ ہی جانتا ہے کہ اس واقعے میں کتنی صداقت ہے لیکن رباعی بلاشبہ لاجواب ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہ قمار خانہ رفتم، ہمہ پاک باز دیدم
چو بصومعہ رسیدم، ہمہ یافتم دغائی

فخرالدین عراقی

جو میں قمار خانے میں گیا تو سبھی پاکباز یعنی ایماندار لوگ نظر آئے اور جو میں عبادت گاہوں میں پہنچا تو سب کو دغا باز و ریاکار پایا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بلبل از گل بگذرد چون در چمن بیند مرا
بت پرستی کے کند گر برہمن بیند مرا
در سخن مخفی شدم مانندِ بو در برگِ گل
ہر کہ خواہد دیدنم گو در سخن بیند مرا
(اورنگزیب عالمگیر کی دختر زیب النساء بیگم 'مخفی')

ترجمہ: بلبل اگر مجھے چمن میں دیکھ لے تو گل کو چھوڑ دے؛ برہمن کب بت پرستی کرے اگر وہ مجھے دیکھ لے؛ جس طرح پھول کی پتی میں بو مخفی ہے، اسی طرح میں بھی اپنے سخن میں مخفی ہو گئی ہوں؛ جو بھی میرا دیدار کرنا چاہتا ہے، اسے کہو کہ وہ مجھے سخن میں دیکھے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
برو طواف دلی کن که کعبهٔ مخفیست
که آن خلیل بنا کرد و این خدا خود ساخت
(زیب النساء بیگم 'مخفی')

ترجمہ: جاؤ کسی دل کا طواف کرو کہ جو پوشیدہ کعبہ ہے؛ کیونکہ اُس (مکے کے کعبے) کی بنیاد تو حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے ڈالی تھی لیکن اِس (دل کے کعبے) کو خدا نے خود بنایا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گفتم: ای مه با رقیب روسیه کمتر نشین
زیر لب خندید و گفت: او نیز می‌گوید چنین
(زیب النساء بیگم)

ترجمہ: میں نے کہا کہ اے ماہ! رقیبِ روسیاہ کے ساتھ کمتر بیٹھا کرو؛ وہ زیرِ لب مسکرایا اور کہا کہ وہ بھی یہی کہتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فقیہِ مدرسہ فتویٰ ہمی دہد در شہر
کہ خونِ خلق حلالست و آبِ بادہ حرام

درویش ناصر بخارائی (بخاری)

مدرسہ کا فقیہ، شہر میں یہی فتویٰ دیتا پھرتا ہے کہ خلق کا خون حلال ہے اور شراب کا پانی حرام۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
فقیہِ مدرسہ فتویٰ ہمی دہد در شہر
کہ خونِ خلق حلالست و آبِ بادہ حرام

درویش ناصر بخارائی (بخاری)

مدرسہ کا فقیہ، شہر میں یہی فتویٰ دیتا پھرتا ہے کہ خلق کا خون حلال ہے اور شراب کا پانی حرام۔
وارث بھائی یہ شعر بمعہ ترجمہ میں کہیں اقتباس کی صورت میں پیش کر سکتا ہوں؟
 
Top