حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا یا ۔۔۔۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فخرنوید

محفلین
جو عربی گرامر سے کچھ واقفیت رکھتے ہیں ان کے لئے اس قاعدہ کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ جب اللہ تعالی فاعل ہو اور ذی روح مفعول بہ ہو اور لفظ توفی خداتعالی کے فعل ٹھہرا کر ذی روح کی نسبت سے استعمال کیا گیا ہو تو ہرگز ہرگز اس کے معنے قبض روح کے سوا کچھ نہیں کئے جاسکتے۔ اہل علم کے لئے یہ ایک چیلنچ ہے جسے بیسیوں سال سے جماعت احمدیہ پیش کررہی ہے۔ لیکن آج تک کسی کو توفیق نہیں ملی کہ اس کا جواب دے۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

"جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہوا ہے۔ اور زبان عربی جاری ہوئی ہے۔ کسی قول قدیم کا جدید سے ثابت نہیں ہوتا کہ توفی کا لفظ کبھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیا گیا ہو۔ بلکہ جہاں کہیں توفی کے لفظ کے خداتعالی کا فاعل ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیا ہے نہ قبض جسم کے معنوں میں۔ کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیں۔ کوئی مثل اور قول اہل زبان کا اس کے مغائر نہیں۔ غرض ایک ذرہ احمتال مخالف کی گنجائش نہیں۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا اشعارو قصائد و نظم و نثرقدیم و جدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کرکے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفبہ 602)۔

یہ تمام جگہ روایت ہے کہ جب کسی شخص کے حوالے سے دینی معاملے میں کوئی حوالہ دیا جاتا ہے تو اس شخص کی سیرت پر غور کیا جاتا ہے۔ جس کی کچھ شرائط ہوتی ہیں۔ کیا آپ کے مبینہ مسیح موعود کی سیرت ان شرائط پر پوری اترتی ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
اس موضوع پر نظریاتی اختلافات کے علاوہ کچھ دینی عقائد کے بارے میں بھی تحفظات ہیں ۔ آپ دونوں صاحبان بہت محنت کر رہے ہیں ۔ دونوں ہی ستائش کے قابل ہیں ۔ مگر یہاں دو موضوع یکجا ہوگئے ہیں ۔ ایک قادیانیت اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات اور ان کی دوبارہ واپسی ۔ چونکہ یہ ساری بحث قادیانیت مذہب کے تناظر میں ہورہی ہے ۔ اس لیئے میں نہیں سمجھتا کہ بحث کسی انجام کو پہنچ پائے گی ۔ مگر دونوں فریق کی بحث سے معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس لیئے میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی تعطل پڑے ۔ دونوں نے دلائل ، استدلال اور ثبوت مہیا کرنے کا جو طریقہ اپنایا ہے ۔ وہ بہت شائستہ ہے ۔ امید ہے یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہے گا ۔
 
میں نے اپنی پوسٹ نمبر 65 میں کہا تھا کہ

پھر بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی آئیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس عقیدہ کا علم مرزا کو بزریعہ الہام ہوا یا اس نے یہ عقیدہ خود گھڑ لیا
مرزا قادیانی اپنے خلیفہ حکیم نو ر الدین کو ایک خط کے جواب میں لکھتا ہے

"جو کچھ آنمخدوم (حکیم نور الدین) نے تحریر کیا ہےا گر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیل مسیح کا دعوہ ظاہر کیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے (مکتوبات احمدیہ مکتوب نمبر۱ ۶ بنام حکیم نور الدین ج ۵ نمبر ۲ ص ۸۵)

اس خط پر ۲۴ جنوری ۱۸۹۱ کی تاریخ درج ہے اب لوگ بتائیں کہ یہ الہام ہے کہ مرزا نے ۱۸۹۱ میں دعوہ مسیحیت کیا یا ایک ابلیسی سازش جو کہ نور الدین کے ساتھ مل کر تیار کی جارہی ہے؟
یہی نہیں بلکہ نور الدین قادیان آیا اور مرزا کو سبق پڑھایا مرزا لکھتا ہے
" محب واثق حکیم نور الدین اس جگہ قادیان میں تشریف لائے انھوں نے اس بات کے لیے درخواست کی کہ جو مسلم کی حدیث میں لفظ دمشق ہے ۔۔۔اس کے انکشاف کے لیے جناب الہی میں توجہ کی جائے۔۔۔پس واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا کہ اس جگہ ایسے قصبہ (قادیان) کانام دمشق رکھا گیا ہے ۔جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزید الطبع ہیں اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں ۔۔۔ خدا تعالیٰ نے جو مسیح کے اترنے کی جگہ جو دمشق کو بیان کیا ہے تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح سے مراد وہ اصلی مسیح نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی بلکہ مسلمانوں میں سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو مسیح سے نیز حضرت حسین سے بھی مشابہت رکھتا ہے۔۔۔ دمشق کا لفظ بطور استعارہ لیا گیا۔(ازالہ اوہام ص ۶۵، ۶۷)

اور یہ دعوہ کیا تھا کہ یہ سارا کام ایک پلاننگ کے تحت ہوا اور اس کا تعلق کسی الہام سے ہرگز نہیں (نیز مرزا پر الہام نازل ہوتے بھی نہیں تھے)

رانا صاحب نے اس کا جواب پوسٹ نمبر 68 میں ایک ویڈیو کی شکل میں دیا تھا ، یہ ویڈیو جو دراصل غامدی کی ایک بات کا جواب تھی اور اس میں غامدی کی بات کا جواب دیتے ہوئے یہ دعوہ کیا گیا تھا کہ فتح اسلام نامی کتاب ، جس میں مرزا نے دعوہ مثیل مسیح کیا تھا مذکورہ بالا خط سے پیشتر کی تھی ( غامدی نے اس کتاب کو مذکورہ بالا خط سے بعد کے زمانے کی بتایا تھا)

اس پر میں نے عرض کیا تھا

رانا نے اپنی پوسٹ نمبر ۶۸ میں تین ویڈیوز دی ہیں اور مجھ سے ویڈیو نمر ۳ دیکھنے کی فرمائش کی ہے۔ رانا صاحب اگر آپ ان ویڈیوز کو اپنے الفاظ میں آئیندہ بیان کر دیا کیجئے تو کافی وقت کی بچت ہو سکتی ہے جو بات اس ۱۸ ، ۱۹ منٹ کی ویڈیو میں کہی گئی ہے وہ اگر آپ اپنے الفاظ میں بیان کر دیتے تو ۲ منٹ میں پڑھی جاسکتی تھی۔
بہرحال وہ ویڈیو میں نے دیکھ لی ہے اور حیران ہو جو بات میں نےکبھی کہی نہیں اس کا جواب آپ مجھے کیا دے رہے ہیں ؟ یعنی غامدی نے کسی وقت یہ کہا مرزا نے فتح اسلام میں جو دعوہ مسیحیت کیا، اور یہ کتاب مرزا کے نور الدین کو لکھے ہوئے خط کے بعد کی ہے اس ویڈیو میں میں ثابت کیا گیا ہے کہ یہ کتاب اس خط سے پہلے شائع ہو چکی تھی؟ تو کیا میں نے فتح اسلام کا کوئی حوالہ دیا تھا یا اس کے سن اشاعت پر کوئی طبع آزمائی کی تھی جو یہ ویڈیو آپ نے مجھے دیکھنے کی دعوت دے دی۔ میرا حوالہ ایک خط تھا جو ۲۴ جنوری ۱۸۹۱ کا ہے مرزا اپنے ایک مرید سے مشورہ کر رہا ہے کہ اگر میں مثیل مسیح کا دعوہ کر دوں تو کیا حرج ہے؟ میں نے یہ کہا تھا کہ باقاعدہ ایک ڈرامے اور پلانگ کے ساتھ یہ کھیل کھیلا گیا اور یہ خط اس کا ثبوت ہے۔ جس کو آپ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ واقعی مرزا نے ایسا مشورہ کیا۔اور یوں یہ حوالہ درست ثابت ہو تا ہے۔
اب اگر فتح اسلام میں مرزا نے مثیل مسیح ہونے کا دعوہ کر دیا تھا اپنے الہامات کی روشنی میں تو اس کو کیا خدائی الہامات پر بھروسہ نہیں تھا جو وہ اپنے ایک مرید سے یہ مشورہ اور ساز باز کر رہا ہے کہ میں اگر مثیل مسیح کا دعوہ کر دوں تو کیا ہرج ہے؟ پھر یہ بھی کہ رہا ہے کہ اس عاجز کو مثیل مسیح بنے کی کچھ حاجت نہیں۔یعنی ایک طرف خدائی الہامات کی وجہ سے دعوہ مسیحیت دوسری طرف مرید سے مشورہ اور تیسری طرف اس بات کا اظہار کہ مجھے مثیل مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں۔ جب خدا نے ان کو مسیح بنا دیا اور اس کا اظہار انہوں نے کردیا تو اب اس طرح کے بیانات تو کوئی کنفیوزڈ شخص ہی دے سکتا ہے نا۔

میرا وہی دعوہ ہے کہ یہ ا لہام نہیں ایک مکمل سازش تھی ا س پر میں جلد ہی کچھ اور روشنی ڈالوں گا۔

اب یہاں میں مرزا کہ اس دعوہ نبوت و مسیحیت کے خود ساختہ ہونے اور ایک سازش کے تحت ہونے کے چند ثبوت اور مہیا کر رہا ہوں۔
یہ بات سب لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نبوت کوئی کسبی چیز نہیں ہے کوئی بندہ خدا اپنی محنت یا اپنے اعمال کی بنا پر نبوت حاصل نہیں کر سکتا بلکہ نبوت ایک وہبی منصب ہے اللہ پاک جس کو چاہیں نبوت کا منصب سونپ دیتے تھے (اب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے بعد اللہ نے یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا) جب انبیاء کو نبوت کا منصب سونپ دیا جاتا تو وہ پوری تن دہی کے ساتھ کار نبوت میں مصروف ہو جاتے اور اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچا دیتے ہیں ۔ نہ کبھی کسی نبی کو اس کے منصب سے معزول کیا گیا ( نعوذ باللہ) اور نہ کبھی ایسا ہوا کہ اللہ نے نبوت عطا کردی ہو پھر واپس لے لی ہو پھر عطا کر دی ہو پھر واپس لے لی ہو ۔نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ ۔
اور نہ ہی انبیاء کبھی اپنے منصب سے پیچھے ہٹے چاہے کیسی ہی تکالیف کا ان کو سامنا کرنا پڑا، آگ سے گذرنا پڑا ہو، دریا کو چیرنا پڑا ہو، اپنے وطن کو چھوڑنا پڑا ہوا، یہاں تک کے شہادت کا جام تک نوش کرنا پڑا ہو، لیکن انبیا یا تو اپنے مشن میں کامیاب ہوتے اور یا جام شہادت نوش کر جاتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ فرمان یاد کیجئے جس میں آپ نے اپنے چچا ابو طالب سے ارشاد فرمایا تھا

چچا جان خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور باہنے ہاتھ میں چاند رکھ دیں کہ میں اس کام کو اس حد تک پہنچائے بغیر چھوڑ دوں کہ یا تو اللہ اسے غالب کردے یا میں اسی راہ میں فنا ہو جاؤں تو نہیں چھوڑ سکتا۔

یہ ہوتا ہے ان انبیاء کا عزم و ارادہ جو اللہ کی طرف سے اس عظیم ترین منصب، انسانیت کے عظیم ترین منصب پر فائز ہوتے تھے۔

لیکن خودساختہ نبیوں کا وتیرہ الگ ہے یہ دعوہ نبوت کرتے ہیں لیکن حالت چوروں والی ہوتی ہے کہ پتہ کھڑکا اور دل دھڑکا ایک قدم کبھی آگے کبھی چار قدم پیچھے زیادہ ہی خطرہ محسوس ہوا تو نبوت سے ہی انکاری ہو گئے اور جان بچا کر فرار ہو گئے۔ جیسا کہ صدر اسلام میں ایک جھوٹے مدعی نبوت طلیحہ اسدی نے کیا تھا۔

مرزا غلام احمد قادیانی بھی اسی قسم میں سے تھا اب یہان میں کچھ اوراق دوں گا آپ لوگ ہمت کر کہ اس کے نمایاں حصوں(سرکل یا انڈر لائن جملوں) کو پڑھیئے اور دیکھیے کہ مرزا نے اپنے دعوہ نبوت ، مسیحیت ، مثیل مسیح وغیرہ وغیرہ میں کیا سوانگ بھرے ہیں۔ساتھ ساتھ میں نے کوشش ا س بات کی، کی ہے کہ یہ ارتقا سن و سال کے اعتبار سے ہو۔

1۔دعوہ تجدید (مجدد) فتح اسلام ( 190-1891)
Pagesfromfathislam_Page_1.jpg


Pagesfromfathislam_Page_2.jpg


2۔دعوہ مثیل مسیح (فتح اسلام )

1_Page_2.jpg


7.jpg


ملاحظہ کیجئے ایک کتاب میں پہلے مجدد اور پھر اگلے صفحے پر مثیل مسیح کا دعوہ، لیکن یہ دعوہ صیغہ غائب میں کتنا محتاط ہو کر کیا جارہا ہے؟؟

3۔ دعوہ محدثیت بشکل نبوت و جزئی نبوت (توضیح مرام اور ازالہ اوہام 1891، فتح اسلام سے چند ماہ بعد کی)

022.gif


023.gif


020.gif


021.gif


لیکن جب اسطرح کی باتوں پر شور مچا تو پھر

4۔انکار و اقرا نبوت ( اشہتار اکتوبر 1891 ، مجموعہ اشتہارات ج1 ص 230 تا 236)

024F.gif


تاہم اسی اشتہار میں آگے ایک بار پھر یہ وفات حضرت عیسیٰ کا منکر ہوا اور پھر اس نے مسیح ہونے کا دعوہ کیا۔

5۔نبوت سے کلی توبہ اور صرف دعوہ محدثیت ( اشتہار 3 فروری 1892، مجموعہ اشتہارات ج 1 ص 312 تا 314)

Pagesfromishtaharat-v1.jpg


025F.gif


غور کیجئے اس جملے پر "لفظ نبی کو کاٹا ہوا خیال فرمائیں"۔؟؟

7۔ صاحب شریعت نبی ہونے کا دعوہ، اور رسول کا قادیان میں مبعوث ہونا (اربعین، 1900ء، خزائن ج 17 ص 435 و دفع البلا، خزائن 18 ص 231)

028.gif


026.gif


8۔ تجلی محمد ہونے کا دعوہ (اربعین 4، خزائن 17 ص 445، 446)

029F.gif


9۔دعوہ خدائی ( کتاب البریہ 1898 و آئینہ کملات اسلام1893)

ایک بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ جب مرزا محدث ہونے کا دعوہ کر رہا تھا تو اس وقت اس نے آئینہ کمالات اسلام میں پہلے اور پھر البریہ میں بعد ازاں کشف و الہام کی آڑ میں دعوہ خدائی بھی کیا تاہم یہ معاملہ شاید زیادہ ہی مشکل لگا لہذا وہ دعوہ نبوت پر قانع گیا۔
نوٹ: اگلے صفحات میں پہلے صفحے کے آخر میں جو باریک قلم سے عبارت شروع ہو رہی ہے وہ پڑھتے جائیے

Pagesfrom-shatani-Khazain-Vol-13_Page_4_Page_1.jpg


Pagesfrom-shatani-Khazain-Vol-13_Page_4_Page_2.jpg




Pagesfrom-shatani-Khazain-Vol-13_Page_1.jpg


اب میں کچھ کہے بغیر رانا صاحب سے خلوص دل سے درخواست کروں گا کہ ایک بار پھر مرزائیت کا مطالعہ کیجئے ، قرآن و احادیث نبویہ کی روشنی میں ، مجھے پوری امید ہے کہ اللہ پاک آپ کو راہ ہدایت بخشے گا۔

باقی کچھ باتیں جلد ہی۔
 

رانا

محفلین
مصروفیات زندگی سے دو دن کی چھٹی لے میں کچھ باتوں کی تحقیق میں لگا ہوا تھا۔ جس میں کافی وقت صرف ہوگیا۔ ایک لائبریری میں ایک کتاب ملتی ہے تو دوسری غائب۔ اسکے لئے پھر کسی اور لائبریری کا رخ کرو۔ اس طرح مختلف لائبریریوں میں آنے جانے میں ہی کافی وقت صرف ہوگیا۔ ایک بارتو ایک مدرسے میں ہی چلا گیا۔ ایک اہل سنت دوست کو ساتھ لے کروہاں گیا تو پتہ لگا کہ لائبریرن ہی غیرحاضر ہیں۔ کچھ بھاگ دوڑ کرکے لائبریری کھلوائی تو مطلوبہ کتاب ندارد۔ اسٹاف روم میں جاکراساتذہ سے معلوم کیا تو پتہ لگا کہ وہ پرنسپل صاحب کے آفس میں رہتی ہے اور وہ چھٹی پر ہیں۔ آدھا دن وہاں لاحاصل خرچ کرکے باقی کا آدھا دن ایک اور لائبریری کے نام کیا۔ پھرپتہ لگا کہ جناب اس کام کے لئے دو دن تو سخت ناکافی ہیں۔ لیکن بہرحال پھر بھی اللہ کے فضل سے معلومات میں کافی اضافہ ہوا۔ کوشش کروں گا کہ کل اس پرکچھ اظہارخیال ہوجائے۔
 

رانا

محفلین
نزول من "السما" والی احادیث:
ایک بات تو قطعیت کے ساتھ ثابت ہوچکی ہے کہ کسی صحیح حدیث میں حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے "آسمان" پر جانے یا آنے کا ذکر نہیں ہے۔ تمام مولوی مل کر قیامت تک بھی زور لگالیں تو کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں یش کرسکتے۔ ہاں نزول کا ذکر ہے اور لفظ نزول کے متعلق میں ثابت کرچکا ہوں کہ اسکا ہرگز مطلب آسمان سے نازل ہونا نہیں ہوتا۔

ابن حسن نے 2 عکس فراہم کئے تھے ایسی احادیث کے جن میں عیسی کی نسبت آسمان کا لفظ موجود ہے۔ ایک کنزالعمال سے اور دوسرا الاسما واصفات سے۔ اور ایک حدیث بھی پیش کی تھی۔

1- جو ابن ماجہ کی حدیث پیش کی گئی ہے معراج کی رات والی، وہ ضعیف ہے۔ اس روایت کا پہلا راوی محمد بن بشار بن عثمان البصری بندار ہے جس کے متعلق لکھا ہے
"قال عبداللہ اب محمد اب سیار سمعت عمرو ابن علی یحلف ان بندارا یکذب فیما یروی عن یحی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال عبداللہ اب علی اب المدینی سمعت ابی و سالتہ عن حدیث رواہ بندار عن ابن المھدی ۔۔۔۔۔۔۔ فقال ھذا کذب و انکرہ اشد الانگار قال عبداللہ اب الدرونی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ترءیت یحی لا یعباء بہ ویستضعفہ قال ورءیت القواریری لا یرضاءبہ۔"
﴿تہذیب التہذیب جلد 9 صفحہ 71-72﴾

یعنی عمر بن علی نے حلف اٹھا کر کہا کہ ی راوی ہر اس روایت میں جو وہ یحیی سے روایت کرتا تھا جھوٹ بولتا تھا۔ علی بن المدینی نے اس راوی کی اس روایت کو جو اس نے بن مہدی سے لی ہے کذب قرار دیا۔ یحی بن معین نے اس راوی کو بے وقعت اور ضعیف قرار دیا ہے اور اسے قواریری نے بھی پسندیدہ راوی قرار نہیں دیا۔ اسی طرح اس روایت کا دوسرا راوی یزیدبن ہارون ہے، اس کے متعلق یحی بن معین کا قول یہ ہے کہ یزید لیس من اصحاب الحدیث لانہ لایمیز ولا یبالی عمن روی۔ ﴿تہزیب التہزیب ابن حجر عسقلانی جلد11 صفحہ 368﴾ کہ یہ راوی تو حدیث کے جاننے والوں میں سے تھا ہی نہیں۔ کیونکہ نہ یہ تمیز کرتا تھا اور نہ پروا کرتا تھا کہ کس سے روایت لے رہا ہے۔ پس یہ روایت تو ناقابل اعتبار ہے۔

2- کنزالعمال والی حدیث: صاحب کنزالعمال نے اسے ابن عساکر کی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ اس کے آگے "کر": کے حروف درج ہیں اور ابن عساکر کے متعلق شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنے رسالہ عجالیہ نافعہ صفحہ 7-8 پر تحریر فرماتے ہیں:
ترجمہ از فارسی: یعنی طبقہ رابعہ کی وہ حدیثیں جن کا نام و نشان پہلے قرنوں میں معلوم نہیں تھا اور متاخرین نے روایت کی ہیں تو ان کا حال دو شقوں سے خالی نہیں، یاسلف نے تفحص کیا اور انکی اصل نہ پائی کہ ان کی روایت سے مشغول ہوتے۔ یا انکی اصل پائی او ان قدح اور علت دیکھی کہ روایت نہ کیا اور دونوں طرح حدیثیں قابل اعتبار نہیں کہ کسی عقیدہ کی اثبات پر یا عمل کنے کو ان سے سند لیں اور کسی بزرگ نے ان جیسوں کے متعلق کیا خوب شعر فرمایا ہے کہ اگر تو تجھے علم نہ ہو تو یہ مصیبت ہے لیکن اگر تجھے علم ہو تو یہ مصیبت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس قسم کی حدیثوں نے بہت سے محدثین کی راہزنی کی ہے۔ اس قسم کی حدیثوں کی کتابیں بہت تصنیف ہوئی ہیں۔ تھوڑی سی ہم بیان کرتے ہیں کہ کتاب الضعفا لابن حبان۔۔۔۔۔تفسیر ابن جریر ۔۔۔۔۔ ابن عساکر کی جملہ تصانیف۔ پس یہ روایت ابن عساکر میں ہونے کے باعث ہی کمزور ہے۔

دوسری بات کہ آپ کی منارہ دمشقی کے پاس نازل ہونے والی روایت مندرجہ ترمذی، مسلم، ابو داود وغیرہ کہاں گئی؟؟

آپ نے اس حدیث کے متعلق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر تحریف کا الزام لگایا تھا۔ تحریف کا الزام لگانے سے پہلے آپ یہ تو ثابت کریں کہ حضرت صاحب نے حماتہ البشری میں جو حدیث درج کی ہے وہ کنزالعمال سے درج کی ہے؟ کیا وہاں اس کا حوالہ دیا گیا ہے؟ اور کیا پوری حدیث انہی الفاظ میں درج ہے اور صرف السما کے الفاظ ہی غائب ہیں؟ جناب مرزا صاحب کے وقت میں جو علماء تھے وہ آپ کے آج کل کے علماء سے بہت زیادہ عالم فاضل تھے لیکن حیرت ہے کہ ان میں سے ایک کو بھی یہ تحریف نظر نہیں آئی؟ افسوس احمدیت کے خلاف تعصب نے عقلیں ہی خبط کرلی ہیں۔ اور ابھی نیچے دیکھیں آپ کو گزشتہ اکابرین امت پر بھی تحریف کا الزام لگانا پڑے گا۔


الاسماء والصفات از امام بیہقی:
اول: یاد رہے کہ اس حدیث کو درج کرنے کے بعد امام موصوف نے جو الفاظ لکھے ہیں وہ جو عکس فراہم کیا گیا ہے وہاں سے پورے الفاظ دیکھے جاسکتے ہیں۔ امام موصوف اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں:
"رواہ البخاری فی الصحیح من یحی بن بکر و اخرجہ مسلم و من وجہ آخر عن یونس و انما اراد نزولہ من السما ء بعد الرافع الیہ"۔ کہ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے اور امام مسلم نے ایک اور وجہ سے یونس سے لیا ہے اور اس نے ارادہ نزول من السما کا ہی کیا ہے۔
امام بیہقی کہتے ہیں کہ رواہ البخاری۔ اب بخاری میں راوی اور الفاظ سب موجود ہیں مگر من السما نہیں ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ حدیث کا حصہ نہیں۔ افسوس بخاری کی حدیث آپ کی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں ناکام رہی ہے اس لئے آپ نے دوسری کتابوں کے حاشیے بخاری پر چڑھانا شروع کردیئے۔


دوم: اس روایت کا ایک راوی ابو بکر محمد ان اسحاق بن محمد الناقد ہے جس کے متعلق لکھا ہے "کان یدی الحفیظ و فیہ بعض التساہل" ﴿لسان المیزان حرف ۔ ابن حجر جلد 5 صفحہ 69﴾۔ کہ اس راوی میں تساہل پایا جاتا ہے۔ پس من السما کے الفاظ کا اضافہ بھی اس راوی کا تساہل ہے اصل حدیث کے الفاظ نہیں۔۔ اس طرح اس روایت کا ایک اور راوی احمد بن ابراہیم بھی صعیف ہے۔ لسان المیزان جلد 1۔
علاوہ ازیں اس روایت کا راوی یحی بن عبداللہ ہے اس کے متعلق لکھا ہے
"قال ابو حاتم۔۔۔۔۔۔ لایحتج بہ۔۔۔۔۔۔ وقال النسائی ضعیف۔۔۔۔۔ لیس بثقہ قال یحی۔۔۔۔ لیس بشئی ﴿تہذہب التہذیب جل 11 صفحہ 237-238 و میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 585﴾
اس روایت کا ایک اور راوی یونس بن یزید بھی ضعیف ہے۔ یہ روایت یونس بن یزید نے ابن الشہاب الزہری سے روایت کی ہے اور اس کے متعلق لکھا ہے کہ "قال ابوزرعة الدمشقی سمعت ابا عبداللہ احمد ابن حنبل یقول فی حدیث یونس عن الزھری منکرات ۔۔۔۔۔ قال ابن سعد ۔۔۔۔۔ لیس بحجتہ ۔۔۔۔۔ کان سیء الحفیظ ﴿تہذیب التہذیب جلد 11 صفحہ 451﴾
کہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ یونس کی ان روایات میں زہری سے اس نے روایت کی ہیں۔ منکرات ہیں۔ ابن سعد کہتے ہیں یونس قابل حجت نہیں اور وکیع کہتے ہیں کہ اس کا حافظہ خراب تھا۔
اس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھا ہے کان یدلس فےالنادر ﴿میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 448﴾ کہ کبھی کبھی یہ تدلیس سے کام لیا کرتا تھا۔ پس اس روایت میں من السما کے الفاظ کی ایزاد بھی اس کے حافظہ کی غلطی یا تدلیس کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔ ﴿یہی حرکت آج کے علماء بھی کرتے ہیں کہ جہاں نزول کا لفظ دیکھا ساتھ ہی آسمان کا لفظ بڑھا دیا اسی لئے ایسی حدیثوں کو خوش ہو کر پیش کرتے ہیں﴾۔

سوم: امام بیہقی کا قلمی نسخہ پہلی مرتبہ 1328 ہجری میں چھپا ہے۔ یعنی حضرت بانی جماعت احمدیہ کی وفات کے بعد۔ اس لئے قرائن یہ بتاتے ہیں کہ مولویوں نے اس میں من السما کا لفظ اپنے پاس سے ازراہ تحریف اور الحاق زائد کردیا ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امام جلال الدین السیوطی نے بیہقی سے اس حدیث کو نقل کیا ہے مگر اس میں من السما کا لفظ نہیں۔ چنانچہ وہ اپنی تفسیر درمنشور جلد 2 میں اس حدیث کو یوں بیان کرتے ہیں"
واخرج احمد و البخاری و المسلم و البیہقی فی الاسماء والصفات قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم و امامکم منکم ﴿درمنشور جلد 2 صفحہ 243﴾
امام مذکور کا باوجود اس محولہ بالا روایت کو دیکھنے کے من السما چھوڑ دینا بتاتا ہے کہ یہ حدیث کا حصہ نہیں، بعد کی ایزاد ہے۔ اور ذرا یہ بھی بتائیں کہ مرزا صاحب پر جو اوپر آپ نے کنزالعمال میں تحریف کا سراسر ناپاک الزام لگایا تھا، اب امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ پر بھی لگانے کی جسارت کریں گے؟ وہاں تو مرزا صاحب نے کہیں ذکر ہی نہیں کیا کہ یہ حدیث کنزالعمال سے لے گئی ہے لیکن یہاں امام جلال الدین سیوطی نے تو باقائد بیہقی کا حوالہ دے کر من السما کے الفاظ چھوڑے ہیں۔ لیکن اگر تعصب عقلوں کو خبط کردے تو سب کچھ ممکن ہے۔


حیرت ہے کہ قرآن آیات کو اپنی مرضی کا مطلب پہنانے کے لئے ضعیف احادیث کا سہارا لینے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا۔ دوسری بات کہ قرآنِ کریم کے مقابل پر حدیث کو پیش کرنا گستاخی ہے بلکہ قرآنِ کریم کے انکار کے برابر ہے۔ جب قرآنِ کریم واضح طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا اعلان کرچکا ہے اور سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۹۴ میں یہ بھی بیان کردیا گیا کہ کوئی بشر چاہے وہ رسول ہی کیوں نہ ہو آسمان پر جسم سمیت نہیں جاسکتا تو پھر احادیث میں ایسے الفاط نکالنا قرآنِ کریم کا انکار نہیں تو اور کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کے پیچھے جانے والوں کے دلوں میں کجی ہوتی ہے اور وہ فتنہ برپا کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی ہمیں محکمات کی بنیاد پر متشابہات کی تشریح کرنی ہے۔ وفاتِ عیسیٰ علیہ السلام محکمات میں سے ہے۔ اس محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کی پیروی کرنا قرآن کریم کے نزدیک نہایت برا کام ہے۔
اور یہ متشابہات نہیں تو اور کیا ہیں کہ قرآنی آیات کو عربی قواعد اور لغات کے تمام اصولوں کا خون کرتے ہوئے جو معنی پہنائے جارہے ہیں تمام قرآن و احادیث اور عربی لٹریچر ان معنوں کے خلاف ہے بلکہ ان معنوں کے حق میں کوئی ایک بھی نظیر نہیں ملتی۔ اور وجہ کیا بتائی جارہی ہے کہ جناب احادیث میں نزول کا لفظ ہے اس لئے ہم مجبور ہیں۔ حالانکہ قرآن شریف نے ہی نزول کے معنوں کے خوب کھول کر بیان کردیا ہے۔ اگر قرآن نے وضاحت نہ ہوتی تو پھر بھی کوئی بات تھی لیکن اب قرآن کی تشریح چھوڑ کر اپنی تشریح پر اصرار کرنا متشابہات کے پیچھے بھاگنے والوں کو ہی زیب دیتا ہے۔
 

فخرنوید

محفلین
اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کے پیچھے جانے والوں کے دلوں میں کجی ہوتی ہے اور وہ فتنہ برپا کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی ہمیں محکمات کی بنیاد پر متشابہات کی تشریح کرنی ہے۔ وفاتِ عیسیٰ علیہ السلام محکمات میں سے ہے۔ اس محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کی پیروی کرنا قرآن کریم کے نزدیک نہایت برا کام ہے۔
اور یہ متشابہات نہیں تو اور کیا ہیں کہ قرآنی آیات کو عربی قواعد اور لغات کے تمام اصولوں کا خون کرتے ہوئے جو معنی پہنائے جارہے ہیں تمام قرآن و احادیث اور عربی لٹریچر ان معنوں کے خلاف ہے بلکہ ان معنوں کے حق میں کوئی ایک بھی نظیر نہیں ملتی۔ اور وجہ کیا بتائی جارہی ہے کہ جناب احادیث میں نزول کا لفظ ہے اس لئے ہم مجبور ہیں۔ حالانکہ قرآن شریف نے ہی نزول کے معنوں کے خوب کھول کر بیان کردیا ہے۔ اگر قرآن نے وضاحت نہ ہوتی تو پھر بھی کوئی بات تھی لیکن اب قرآن کی تشریح چھوڑ کر اپنی تشریح پر اصرار کرنا متشابہات کے پیچھے بھاگنے والوں کو ہی زیب دیتا ہے۔

آپ کے جناب مرزا قادیانی صاحب کہتے ہیں کہ۔
انا انزلناہ قریبآ من القادیان
قرآن مجید کے نصف کے قریب دائیں جانب لکھا ہوا۔

ازالہ اوہام ص: 76
خزائن ج 3 ص 140

یہ کیا ہے پھر رانا صاحب؟
 

رانا

محفلین
آپ کے جناب مرزا قادیانی صاحب کہتے ہیں کہ۔
انا انزلناہ قریبآ من القادیان
قرآن مجید کے نصف کے قریب دائیں جانب لکھا ہوا۔
ازالہ اوہام ص: 76
خزائن ج 3 ص 140
یہ کیا ہے پھر رانا صاحب؟

فخر صاحب آپ سے تو کوئی شکوہ نہیں۔ آپ لوگوں کو تو جومولوی اعتراض لکھ کر دے دیتے ہیں آپ بے سوچے سمجھے انہیں پیش کردیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلی الفاظ میں لکھا ہے کہ یہ کشف تھا۔ آپ ؑ نے کبھی بھی اسے ظاہری واقعہ کے طور پر پیش نہیں کیا اور نہ ہی جماعتِ احمدیہ کا کوئی فرد اسے ظاہری واقعہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ۔

’’ کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر مرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا کہ انّا انزلناہ قریباً من القادیان تو میں نے سنکر بہت تعجب کیا کہ کیا قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے ؟ تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے ۔تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شاید قریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآنِ شریف میں درج کیا گیا ہے ۔ مکّہ اور مدینہ اور قادیان ۔ یہ کشف تھا جو کئی سال ہوئے کہ مجھے دکھلا گیا تھا۔ ‘‘(ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۴۰ حاشیہ )

ہر صاحب فہم انسان جانتا ہے کہ عموماً کشوف تعبیر طلب ہوتے ہیں اس لئے ایک کشف کو لازمی طور پر ظاہری واقعہ کی شکل میں پیش کر کے موردِ الزام بنانا صرف اور صرف جھوٹوں اور شیطانوں کا کام ہے۔ کشوف کی عموماً تعبیر ہوتی ہے۔ اگر انہیں ظاہر پر محمول کر کے اور ظاہری واقعہ قرار دے کر موردِ طعن بنایا جائے تو نہ صرف یہ کہ عالمِ اسلام میں کوئی بزرگ ایسے طعن سے بچ نہیں سکتا بلکہ خدا تعالیٰ کے مقدّس انبیاء بھی ان مولویوں کی شیطانی کچلیوں کی زد میں آتے ہیں۔

اس کے ثبوت کے لئے ذیل میں صرف چند آئمہ اور بزرگوں کے کشوف درج کئے جاتے ہیں۔

۱۔ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے دیکھا کہ :۔

’’ آنحضرت ﷺ کی استخوان مبارک لحد میں جمع کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کو پسند کرتے ہیں اور بعض کو ناپسند۔ چنانچہ خواب کی ہیبت سے بیدار ہو گئے۔ ‘‘(تذکرۃ الاولیاء ۔باب ۱۸۔کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۱۰۶ )

۲۔ اور حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں۔

’’ رایت فی المنام کانی فی حجر عائشۃ امّ المؤمنین رضی اللّٰہ عنھا وانا ارضع ثدیھا الایمن ثم اخرجت ثدیھا الایسر فارضعتہ فدخل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم (قلائد الجو اھرفی مناقب الشیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ۔مطبوعہ مصر صفحہ ۵۷سطر ۸)

ترجمہ:۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عائشہؓ کی گود میں ہوں اور ان کے دائیں پستان کو چوس رہا ہوں۔ پھر میں نے بایاں پستان باہر نکالا اور اس کو چوسا۔ اس وقت آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے۔

یہ تو امّت کے مسلّمہ بزرگوں کے کشوف میں سے دو نمونہ کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔ اب دیوبندیوں کے مشہور بزرگ حضرت شاہ محمد آفاق متوفی ۱۴ اگست ۱۸۳۵ء کے اس کشف کو بھی پڑھ لیں جو انہوں نے اپنے ایک مرید فضل الرحمان گنج مراد آبادی کو بتایا۔ چنانچہ

’’ حضرت ... ہادی شریعت وطریقت ، واقفِ اسرارِ حقیقت ومعرفت ، مرجع خواص وعوام ، قطبِ دوران ، غوثِ زمان مرشدنا ومولانا فضل الرحمان صاحب دامت برکاتہم وعمّت فیوضا تہم کی زبانِ فیض ترجمان سے ارشاد ہوا کہ’’ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ فرمانے لگے کہ ہمارے گھر میں جاؤ۔ مجھے جاتے ہوئے شرم آئی۔ اس لئے تامّل کیا۔ حضرت نے مکرّر فرمایا کہ جاؤ۔ ہم کہتے ہیں۔ میں گیا۔ اندر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف رکھتی تھیں۔ آپ نے سینہ مبارک کھول کر مجھے سینہ سے لگا لیا اور بہت پیار کیا۔ ‘‘(ارشاد رحمانی و فضلِ یزدانی۔صفحہ ۵۰۔شائع کردہ درویش پریس دہلی ۱۹۴۵ء)

پس تعجب ہے ان مولویوں کی عقل پر کہ اگر کوئی کشف میں مکّہ ، مدینہ اور قادیان کے نام قرآن کریم میں دیکھ لے تو یہ شور مچا دیتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان کے اس ’’ارشاد ‘‘ مذکورہ بالا کو پڑھ کر انہیں شرم تک نہیں آتی۔

حقیقت یہ ہے کہ کشوف تعبیر طلب ہوتے ہیں اور اگر ان کی عقل وسمجھ اور بصیرت کے مطابق مناسب تعبیر نہ کی جائے تو نتائج انتہائی بھیانک ہو جاتے ہیں جس کے ذمہ دار صاحب رؤیا وکشوف بزرگ نہیں بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان کشوف کی غیر مناسب تعبیر کرتے ہیں یا تعبیر کی بجائے اسے ظاہر پر محمول کر کے پھر اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرتے ہیں۔


 

رانا

محفلین
ابن حسن نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عبارت بددیانتی کرتے ہوئے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کی ہے اور یہ تبصرہ کیا ہے۔

اور یہود کی طرح نبیوں کو جھوٹا کون ٹھرا رہا ہے یعنی یا یوحنا جھوٹے ہیں (نعوذ باللہ) جو بقول مرزا ،الیاس ہونے کے منکر ہیں اور یا حضرت عیسیٰ (نعوذ باللہ) جو زبرستی ان کو الیاس ٹھرا رہے ہیں۔

اوردوسروں کو یہ جانتے بوجھتے ہوئے یہ دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نعوذ باللہ حضرت عیسی اور حضرت یوحنا ﴿یحیی علیہ السلام﴾ کو جھوٹا ٹھہرا رہے ہیں۔ اور تمام مولوی حضرات ایسی ہی عبارات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو مرزا صاحب نے انبیاء کا انکاراورانکی توہین کی۔ میں یہ پوری عبارت سیاق و سباق کے ساتھ یہاں پیش کررہا ہوں۔ پڑھنے والے خود فیصلہ کرلیں کہ کیا مطلب نکلتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو یہ تمام باتیں یہودیوں کی طرف منسوب کرکے ان کی غلطی ظاہر کررہے ہیں کہ وہ ظاہر میں پڑھ کر ایک سچے نبی سے محروم رہ گئے اور ان کے وہ تمام اعتراض جو وہ حضرت عیسی علیہ السلام پر کرتے تھے ان کو بیان کررہے ہیں کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے انکار کے کیا کیا بہانے بنا رہے ہیں۔ لیکن مولویوں کو لگتا ہے کہ عیسائیوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں سے بھی درپردہ ہمدردی ہے کہ پہلے تو عیسائیوں کے عقیدے کی تائید میں خلاف قرآن ان کے مزعومہ خدا کے بیٹے کو زندہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش رہے تھے اب یہ بھی گوارا نہیں کہ یہود کو غلط ثابت کیا جائے اور ان کو جھوٹا اور غلطی خوردہ قرار دیا جائے۔ ظاہر ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثیل یہود والی حدیث کے مطابق یہود کے مثیلی بھائی بند جو ہوئے، ہمدردی تو ہوگی ورنہ خود بھی مارے جائیں گے۔ اب خود دیکھ لیں کہ یہ مولوی کتنی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
"کیونکہ ایمان اُس حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ ایک بات من وجہٍ ظاہر ہو اور من وجہٍ پوشیدہ بھی ہو یعنی ایک باریک نظر سے اُس کا ثبوت ملتا ہو اور اگر باریک نظر سے نہ دیکھا جائے تو سرسری طور پر حقیقت پوشیدہ رہ سکتی ہو۔ لیکن جب سارا پردہ ہی کھل گیا تو کون ہے کہ ایسی کھلی بات کو قبول نہیں کرے گا۔ سو معجزات سے وہ امور خارق عادت مراد ہیں جو باریک اور منصفانہ نظر سے ثابت ہوں اور بجز مؤیّدانِ الٰہی دوسرے لوگ ایسے امور پر قادر نہ ہوسکیں اِسی وجہ سے وہ امورخارق عادت کہلاتے ہیں۔ مگر بدبخت ازلی اُن معجزانہ امور سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے جیسا کہ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام سے کئی معجزات دیکھے مگر اُن سے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا اور انکار کرنے کیلئے ایک دوسرا پہلو لے لیا کہ ایک شخص کی بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں جیسا کہ باراں تختوں کی پیشگوئی جو حواریوں کیلئے کی گئی تھی اُن میں سے ایک مرتد ہوگیا۔ یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ بے بنیاد ثابت ہوا۔ اور پھر تاویل کی گئی کہ میری مراد اس سے آسمانی بادشاہت ہے۔ اور یہ بھی پیشگوئی حضرت مسیح نے کی تھی کہ ابھی اِس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے کہ میں پھر دنیا میں آؤں گا۔ مگر یہ پیشگوئی بھی صریح طور پر جھوٹی ثابت ہوئی۔اور پھر پہلے نبیوں نے مسیح کی نسبت یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ نہیں آئے گا جب تک کہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہ آجائے مگر الیاس نہ آیا۔ اور یسوع ابن مریم نے یونہی مسیح موعود ہونے کادعویٰ کردیا حالانکہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہ آیا اور جب پوچھا گیا تو الیاس موعود کی جگہ یوحنا یعنی یحییٰ نبی کو الیاس ٹھہرا دیا۔ تا ؔ کسی طرح مسیح موعود بن جائے حالانکہ پہلے نبیوں نے آنے والے الیاس کی نسبت ہرگز یہ تاویل نہیں کی اور خود یوحنا نبی نے الیاس سے مراد وہی الیاس مراد رکھا جودنیا سے گذر گیا تھا۔ مگر مسیح نے یعنی یسوع بن مریم نے اپنی بات بنانے کیلئے پہلے نبیوں اور تمام راستبازوں کے اجماع کے برخلاف الیاس آنے والے سے مراد یوحنا اپنے مرشد کو قرار دے دیا اور عجیب یہ کہ یوحنا اپنے الیاس ہونے سے خود منکر ہے۔ مگر تاہم یسوع ابن مریم نے زبردستی اس کو الیاس ٹھہراہی دیا۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے نشانوں سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا اور اب تک کہتے ہیں کہ اُس سے کوئی معجزہ نہیں ہوا صرف مکر و فریب تھا۔ اِسی لئے حضرت مسیح کو کہنا پڑا کہ اس زمانہ کے حرام کار مجھ سے معجزہ مانگتے ہیں انہیں کوئی معجزہ دکھایا نہیں جائے گا۔ درحقیقت معجزات کی مثال ایسی ہے جیسے چاندنی رات کی روشنی جس کے کسی حصہ میں کچھ بادل بھی ہو مگر وہ شخص جو شب کور ہو جو رات کو کچھ دیکھ نہیں سکتا اُس کیلئے یہ چاندنی کچھ مفید نہیں۔" ﴿روحانی خزائن جلد 21 براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 42﴾

اب بتائیں کیا جو بات ابن حسن ثابت کرنا چاہ رہے ہیں وہ اس میں سے کہیں سے بھی نکلتی ہے؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے حوالہ جات چیک کرنے کے لئے یہاں پی ڈی ایف میں تمام کتب موجود ہیںﹶ۔
 

رانا

محفلین
یہود کے متعلق جو میں نے بتایا تھا کہ انہوں نے بھی ظاہری الفاظ میں پڑھ کر مسیح کا اس لئے انکار کردیا کہ بعض پیشگوئیاں جن کے وہ ظاہری رنگ میں پورا ہونے کے منتظر تھے ان کے ظاہری الفاظ میں پورا نہ ہونے کی وجہ سے مسیح کا انکار کردیا۔ جس میں سے سرفہرست یہ تھی کہ ان کی کتابوں میں لکھا تھا کہ سچے مسیح سے پہلے ایلیاہ نبی آسمان سے آئے گا۔ اور جب حضرت عیسی نے اسکی یہ تعبیر کہ جب کسی پرانے نبی کے آنے کی پیشگوئی ہوتی ہے تو مراد کسی نئے نبی کا آنا ہوتا ہے جس کو بعض باتوں میں پرانے سے مشابہت کی وجہ سے پرانے نبی کا نام دیا جاتا ہے۔ ورنہ یہ اللہ کی سنت کی خلاف ہے کہ کوئی پرانا نبی آسمان سے بھیجے۔ لیکن یہود نے اس تعبیر کو نہ مانا اور ظاہری الفاظ پر ہی اڑے رہے اور انکار کردیا۔

اس پر ابن حسن صاحب کہتے ہیں:
آپ کے اس احمقانہ استدلال کا کیا کہنے اول تو اسکی بنیاد ہی کتب محرفہ پر رکھی

یعنی ان کے نزدیک ایسا کوئی واقعہ آج تک دنیا میں پیش ہی نہیں آیا!! اور بائبل محرف و مبدل ہونے کی وجہ سے قابل اعتبار ہی نہیں رہی۔ حالانکہ آپ کی تفاسیر میں بائبل ہی سے حاشیئے چڑھائے جاتے ہیںِ!! جناب بائبل بے شک محرف ہوچکی ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ اس کی ایک ایک بات محرف ہوچکی ہے۔ اسطرح تو آپ کو ان پیشگوئیوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بائیبل اور انجیل میں اب تک لکھی ہوئی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان کی اخلاقی تعلیم اب قابل عمل نہیں لیکن جو تاریخی واقعات اس میں لکھے ہوئے ہیں ان میں سے جو تاریخ کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں اور جو مشاہدات اور تحقیق سے درست ثابت ہوچکے ہیں اس سے کوئی کس طرح انکار کرسکتا ہے؟ لیکن آپ کیوں مانیں گے اس سے تو آپ یہود کے نقش قدم پر چلنے والے ثابت ہوتے ہیں!

لیکن چلیں آپ کو تاریخ کی جس کتاب پر بھروسا ہو، جس سورس کو آپ مستند جانتے ہوں اس سے دیکھ لیں کہ یہود کے انکار کی کیا وجہ تھی؟ اور پھر سب چھوڑیں یہود اورعیسائی تو دونوں موجود ہیں۔ عیسائیوں سے پوچھ لیں کہ ان کے مسیح کا انکار یہود نے کیوں کیا تھا؟ اگر آپ کو یہ بھی قبول نہیں کہ غیر کی گواہی نہیں ماننی۔ تو چلیں جناب یہود تو آج تک موجود ہیں۔ ان سے پوچھ لیں کہ جناب آپ نے مسیح کا انکارکیوں کیا تھا؟ اس سے بڑی گواہی اور کون سی ہوگی جو نسل در نسل یہود میں چلی آرہی ہے!!! حیرت ہے کہ ایک بات سامنے نظر آرہی ہے۔ ان کی مقدس کتب سے ثابت ہے۔ تاریخ کی ہر کتاب سے ثابت ہے۔ سب سے بڑھ کر مسیح کو ماننے والے اور اسکا انکار کرنے والے دونوں موجود ہیں۔ دونوں اس واقعے کے اس حصے پر متفق ہیں کہ انکار کی کیا وجہ تھی۔ لیکن آپ کہتے ہیں کہ یہ تو واقعہ کبھی ہوا ہی نہیں۔ وہ کوئی اور وجہ تھی جس سے یہود نے انکار کیا تھا ان یہود کو کیا پتہ کہ انہوں نے کیوں انکار کیا تھا آج کے مسلمان علماء کو اصل بات کا پتہ ہے۔ اللہ خیر!!! جب ایسے ایسے تاریخی حقائق جھٹلائے جاسکتے ہیں تو پھر بندہ کیا کہہ سکتا ہے۔ آپکی مرضی جناب آپ خوش رہیں اپنے مولویوں کے نقش قدم پر۔

اور ایک نظر یہاں بھی ڈال لیں اور اپنی آنکھوں سے یہودیوں کو ہیکل سلیمانی کے دیوار کے پاس روتے ہوئے دیکھ لیں کہ کس طرح رو رو کر ایلیاہ کے آسمان سے آنے کی دعائیں کررہے ہیں۔

 

ساجد

محفلین
یہ بحث پڑھ کر میں خوشی کے جذبات سے سرشار ہوں کہ کس قدر با صلاحیت ہیں ہمارے لوگ۔ لیکن افسوس کہ یہ صلاحیت کسی مثبت سرگرمی کی بجائے یہاں خرچ ہو رہی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
برادرم ساجد، آپ شاید پہلے بھی اس گفتگو سے متعلق ناپسندی کا اظہار کر چکے ہیں۔ میرے خیال میں تو یہ ایک اچھا ریفرنس تیار ہو رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ احمدیت/قادیانیت کے موضوع پر اتنی تفصیلی گفتگو ہوئی ہے اور وہ بھی کسی ناخوشگوار واقعے کے بغیر۔ میرے خیال میں منتظمین کو اس بات کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ انہوں نے احمدیت کا نقطہ نظر پیش کرنے کی آزادی فراہم کی۔ اور میں رانا کی اس بات کی کم از کم ضرور تعریف کروں گا کہ انہوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ سوچنا بھی مشکل تھا کہ پبلک فورم پر اس موضوع پر بات ہو سکے گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صرف رانا ہی نہیں، دوسرے اراکین کا جذبہ بھی قابل ستائش ہے کہ بغیر کسی دھونس کے دلائل سے بحث کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جن میں ابن حسن سرفہرست ہیں۔
 

عثمان

محفلین
برادرم ساجد، آپ شاید پہلے بھی اس گفتگو سے متعلق ناپسندی کا اظہار کر چکے ہیں۔ میرے خیال میں تو یہ ایک اچھا ریفرنس تیار ہو رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ احمدیت/قادیانیت کے موضوع پر اتنی تفصیلی گفتگو ہوئی ہے اور وہ بھی کسی ناخوشگوار واقعے کے بغیر۔ میرے خیال میں منتظمین کو اس بات کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ انہوں نے احمدیت کا نقطہ نظر پیش کرنے کی آزادی فراہم کی۔ اور میں رانا کی اس بات کی کم از کم ضرور تعریف کروں گا کہ انہوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ سوچنا بھی مشکل تھا کہ پبلک فورم پر اس موضوع پر بات ہو سکے گی۔

نزول عیسٰی کا انکار محض "احمدیت" سے مشروط نہیں۔ عام مسلمانوں میں سے بھی کئی اس پر یقین نہیں رکھتے۔ لیکن چونکہ اس دھاگے میں تمام تر بحث احمدی عقیدے کے پس منظر میں کی جارہی ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ عنوان میں یہ واضح کردیا جائے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
درست۔ لیکن یہ صاف ظاہر تھا کہ گفتگو نے بالآخر یہ رخ پکڑ لینا ہے۔ فی الحال اسے اسی طرح جاری رہنے دینا چاہیے۔
 

ظفری

لائبریرین
نزول عیسٰی کا انکار محض "احمدیت" سے مشروط نہیں۔ عام مسلمانوں میں سے بھی کئی اس پر یقین نہیں رکھتے۔ لیکن چونکہ اس دھاگے میں تمام تر بحث احمدی عقیدے کے پس منظر میں کی جارہی ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ عنوان میں یہ واضح کردیا جائے۔

آپ کی بات بجا ہے ۔ میں اس جانب اشارہ پہلے ہی کرچکا ہوں کہ ساری بحث قادیانیت مذہب کے پس منظر میں ہورہی ہے ۔ مگر چونکہ بحث تعمیری اور مثبت ہے ۔ دلائل اور استدلال منطقی اور آسان فہم ہیں ۔ اس لیئے ابھی تک بحث میں کہیں بھی ایسا مرحلہ نہیں آیا ہے ۔ جہاں سے یہ محسوس ہے کہ اس سلسلے کو موقوف کردیا جائے ۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ موضوع کا عنوان اپنی افادیت کھو چکا ہے ۔ اور ساری بحث کا منبع اب صرف یہی ہے کہ قادیانی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے کیا عقائد رکھتے ہیں ۔ ویسے تو مسلمانوں میں بھی بہت سے ایسے ہیں ( جیسا کہ آپ نے کہا ) جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر یقین نہیں رکھتے ۔ مگر بحرحال یہاں دونوں طرف سے جو ثبوت مہیا کیا جارہے ہیں ۔ ان پر تعمیری بحث جاری ہے ۔ جو کہ آئندہ کسی اور نازک موضوع پر بھی بحث کے لیئے خوش آئندثابت ہونگے ۔
 

رانا

محفلین
یہ مولوی حضرات یہی کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ حیات مسیح پران کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں اس لئے ان کا یہ پرانا حربہ ہے کہ وفات مسیح پر اگر کبھی بات ہوجائے تو اسے مرزا صاحب کی ذات پر اعتراضات کرکے اصل مسئلے کو الجھا دیا جائے۔ ورنہ آپ دیکھ لیں کہ وفات مسیح کے قرآنی دلائل جس کی تائید میں پورا قرآن، احادیث اور تمام عرب لٹریچر موجود ہے اس کو صرف الفاظ کی شعبدہ بازی سے غلط ثابت کیا جارہا ہے یا پھر کچھ مفسرین اور صرف "نزول" کی احادیث پر زور دیا جاتا ہے۔ قرآن کی طرف منہ کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں صحیح احادیث کے حوالوں کو الفاظ کے جادو سے غلط ثابت کررہے ہیں۔ سب اس بات کو نوٹ کرسکتے ہیں کہ میں نے وفات مسیح پر قرآن کی آیات پیش کیں اور ان کے معنوں کی تائید میں بھی قرآن کی آیات ہی پیش کیں اور ساتھ صحیح بخاری سے بھی ٹھوس تائیدی احادیث پیش کی اور لغت کو بھی پیش کیا اور تمام عرب لٹریچر کو تائید میں پیش کیا۔ لیکن تمام جگہ کسی ٹھوس دلیل سے ان باتوں کو رد نہیں کیا گیا بلکہ صرف سخت الفاظ استعمال کرکے (یہ سمجھتے ہیں شائد جوشیلے الفاظ استعمال کرنے سے موقف میں جان پڑجاتی ہے) اور خود ساختہ قوائد بناکر اپنی بات منوانے کی کوشش رہی ہے۔

جس آیت بل رفعہ اللہ سے انہیں زندہ ثابت کرنے کی جان توڑ کوشش ہورہی ہے اس کے متعلق خود انہیں مولویوں کو اعتراف ہے کہ اس سے کچھ ثابت نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ مولانا مودودی صاحب باوجود اسکے کہ حیات مسیح کے زبردست علمبردار ہیں لیکن اس آیت کی تفسیر میں ان کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑ گیا کہ:

"قرآن نہ اس کی تصریح کرتا ہے کہ اللہ ان کو جسم روح کے ساتھ زمین سے اٹھا کر آسمان پر لے گیا اور نہ یہی صاف کہتا ہے کہ انہوں نے زمین پر طبعی موت پائی اور صرف ان کی روح اٹھائی گئی۔ اس لئے قرآن کی بنیاد پر نہ تو ان میں سے کسی ایک پہلو کی قطعی نفی کی جاسکتی ہے نہ اثبات"۔
(تفہیم القران جلد اول صفحہ 420 مطبوعہ مرکنٹائل پریس لاہور طبع اول 1951)

پھر بھی بے چارے ساری زندگی عیسی کوزندہ ثابت کرنے پر زور لگاتے رہے۔ کیا کریں بے چارے آخر حدیث میں "نزول" کا لفظ جو ہے!!!

بہت سے لوگوں کے لئے یہ بات حیرت کا موجب ہوگی کہ حدیث میں دجال کے لئے بھی نزول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

یاتی المسیح من قبل المشرق و ھمتہ المدینۃ حتی ینزل دبراحد
(مشکوۃ کتاب الفتن باب علامات بین یدی الساعتہ و ذکر الدجال)
(کنزالعمال جلد 6 صفحہ 250)

فینزل بعض السباخ
(بخاری کتاب الفتن باب لایدخل الدجال المدینہ جلد 4 صفحہ 143 مصری)
(مشکوۃ کتاب الفتن باب علامات بین یدی الساعتہ و ذکر الدجال)

ترجمہ:
1- کہ مسیح دجال مشرق کی طرف سے مدینہ کا قصد کرکے آئے گا۔ یہاں تک کہ احد کی پیٹھ کی طرف اترے گا۔
2- مدینہ کی طرف ایک شور زمین میں اترے گا۔

مجھے پورا یقین ہے کہ اگران کا دیومالائی دجال آبھی گیا تو وہاں بھی ضد کرکے بیٹھ جائیں گے کہ نہیں جناب آپ تو دجال ہوہی نہیں سکتے وہ تو "نازل" ہوگا۔ وہ بے چارہ بہتیرا یقین دلائے گا معجزے دکھائے گا لیکن یہ اڑ جائیں گے نہیں بھائی "نزول"، نزول، نزول۔ ہم کہاں لے جائیں نزول کی حدیثوں کو۔ تم دجال نہیں ہوسکتے بھاگو یہاں سے۔ اور اگراس نے کسی طرح یقین دلا بھی دیا تو پھر ایک دوسری بات پہ اڑ جائیں گے کہ آپ احد کی پیٹھ پر مدینہ میں کیسے اتر گئے۔ احادیث میں تو یہ لکھا ہے کہ دجال مدینہ میں نہیں آسکے گا۔ لیکن آپ کیونکہ مدینہ میں آچکےہیں لہذا اب تو پکا کنفرم ہوگیا کہ آپ دجال نہیں ہوسکتے۔ اور جب وہ دجال نہیں ہوسکتا تو اس کے مقابلے کے لئے جو مسیح آئے گا اس کو بھی بھگادیں گے کہ جب دجال ہی نقلی ہے تو آپ کہاں سے تشریف لے آئے جناب۔ پہلے اصلی دجال کو تو آنے دیں۔ آپ کو غلط فہمی ہوگئی ہے۔ جائیے واپس آسمان پر جاکر استراحت فرمائیے جب اصلی دجال نازل ہوگا تو ہم آپ کو اطلاع کردیں گے اپنا کونٹیکٹ نمبر دیتے جائیے گا۔
 
یہ تو میں نہ مانوں والی بات ہوئی۔۔۔میرے خیال میں بحث شروع کرنے سے پہلے اگر یہ طے کرلیا جاتا کہ دونوں فریق کے نزدیک حجت کیا کیا باتیں ہیں یعنی کن امور کو وہ حجت سمجھتے ہیں ، پھر ان امور سے اگر کوئی بات ثابت ہوجائے تو اسکو تسلیم کرنا ہوگا۔۔۔۔بدقسمتی سے ایسا واضح طور پر کیا نہیں گیا۔۔۔نتیجہ یہ ہے کہ جب قادیانی ھضرات کو اپنے کسی دعوے کی تائئید کیلئے کہیں سے کوئی ضعیف ترین حدیث بھی نظر آجائے تو وہ تو قابل حجت بن جاتی ہے لیکن جب ایک بہت بڑی تعداد صحیح احادیث کی انکے موقف کے خلاف ہو تو انکی بعید از عقل اور احمقانہ تاویلات کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اوراگر ان کوششوں سے بات نہ بنے تو ان احادیث کو یکسر مسترد کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔۔۔۔
ہمارے نزدیک تو دین کے مآخذ بالترتیب قرآن، سنت اور احادیث ،اجماع امت اور آخر میں قیاس۔۔۔۔
آپ لوگ چونکہ ایک جگہ قائم نہیں رہتے۔۔۔۔1400 سال تک امت کا عقیدہ ایک طرف اور آپکے مرزا صاحب کی نبوت کی راہ ہموار کرنے کیلئے آپکی احمقانہ تاویلات ایک طرف۔۔۔۔خواہ اسکے لیئے ایک ارب مسلمانوں کو کافر قرار دینا پڑے، خواہ اسکے لئیے انگریزوں کے تاقیامت راج کیلئے دعائیں کرنی پڑیں، خواہ اسکے لئے سلمان رشدی جیسے شاتم رسول کی طرح انگریزوں کے سایہ عاطفت میں پناہ لینی پڑے،۔۔۔خواہ خاندان غلاماں میں سے ہمیشہ اپنا پوپ منتخب کرنا پڑے۔ خواہ جہاد بالسیف کو منسوخ کرکے ایک نئی شریعت کی داغ بیل رکھنی پڑے، خواہ مرزا ولد چراغ بی بی کو عیسی ابن مریم کا نام دینا پڑے۔۔۔خواہ حج کعبہ کی بجائے سالانہ جلسے کو حج کا درجہ دینا پڑے، خواہڈھائی فیہصد زکات کی بجائے 10 فیصد چندوں سے جنت اور دوزخ تقسیم کرنی پڑے۔۔۔خواہ کچھ بھی کرنا پڑے آپ لوگ کریں گے۔۔
 

رانا

محفلین
توفی کے چیلنج پرپیش کی گئ حدیث:

حضرت مرزا صاحب کے توفی کے چیلنج جواب میں ابن حسن نے دو باتیں پیش کی ہیں۔ ایک تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی براہین احمدیہ میں درج توفی کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ اور دوسرا کنزالعمال سے ایک حدیث پیش کی گئی ہے۔ براہین احمدیہ والی عبارت کا جواب تو میں اگلی پوسٹ میں دونگا کیونکہ اس میں بیان کردہ حضرت مرزا صاحب کے حیات مسیح کے عقیدہ پر بار بار زور دیا جارہا ہے۔ اس لئے کچھ تفصیلی وضاحت ضروری ہے۔

کنزالعمال میں درج حدیث کے انڈرلائن کئے ہوئے حصے کا ترجمہ جو ابن حسن نے کیا ہے وہ یہ ہے:

جب کوئی رمی جمار کرلے تو کوئی نہیں جانتا کہ اس کے لیے کیا (اجر) ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ اس کو پورا پورا (اجر) دے۔

اور کہا ہے کہ یہاں کوئی احمق بھی موت کا ترجمہ نہیں کرسکتا۔ کنزالعمال کا اردو ترجمہ "دارلاشاعت" نے کراچی سے شائع کیا ہے۔ اور سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ "دارالاشاعت" دیوبندی مکتبہ فکرکا ادارہ ہے۔ اس میں اس حدیث کا جو ترجمہ لکھا گیا ہے اس میں سے وہی حصہ یہاں پیش کرتا ہوں جس کا ترجمہ ابن حسن نے کیا ہے:

"جب رمی جمار (شیطان کو کنکریاں مارتا ہے) کرتا ہے تو کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے لئے کتنی نیکیاں ہیں حتی کہ اللہ تعالی اسے وفات دے دیتے ہیں اور جب آخری طواف کرتا ہے تو گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے جیسا کہ اس کی ماں نے اس کو گناہوں سے پاک جنم دیا تھا" (اردو ترجمہ کنزالعمال، شائع کردہ دالاشاعت کراچی)

اس ترجمہ کی نظرثانی مولانا مفتی احسان اللہ شائق صاحب نے کی ہے۔ اب ابن حسن صاحب پہلے ان تمام مفتی صاحبان پر حماقت کا فتوی جاری کریں کہ اللہ کے بندو تم نے یہ کیا حماقت کردی میری ساری عزت خاک میں ملادی۔ ان مفتی صاحبان کو چاہئے تھا کہ ترجمہ کرنے کے بعد ابن حسن سے بھی نظر ثانی کرالیتے۔

لیکن اب ذرا ابن حسن کے ترجمے کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ جناب نے اس چیلنج کے جواب میں یہ حدیث پیش کرکے اپنی علمیت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ جناب کیا آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ چیلنج عربی زبان کے حوالے سے ہے اورمخاطب وہی علماء ہیں جو عربی زبان پر عبوررکھتے ہیںِ۔ توفی کے متعلق یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ اگر خدا کے طرف سے یہ لفظ انسان یا کسی ذی روح کے لئے استعمال ہو تو اسکے پہلے معنی جو ذہن میں آتے ہیں وہ موت ہی کے ہوتےہیں۔ اگر کوئی دوسرے معنی کرنے ہوں تو لفظی قرائن کا ہونا ضروری ہے۔ یہ تو توفی کا پہلا اصول ہے۔ اگر آپ کو مرزا صاحب کا چیلنج قبول کرنا ہی تھا تو پہلے عربی کے قوائد ملاحظہ فرما لیتے۔ آپ نے تو ایسی ہی بات کی ہے جیسے ایک باکسرسب کو چیلنج دے کہ کوئی مجھے شکست نہیں دے سکتا۔ اور کوئی دیہاتی جاٹ جاکر اسے اٹھاکر زمین پر پٹخ دے اور کہے کہ لیں جناب شکست دے دی۔ ظاہر ہے ہر شخص اسے پاگل ہی کہے گا۔ چیلنج میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ کھیل کے قوائد کو فالو کرنا ضروری ہے۔ آپ نے یہی حرکت کی کہ عربی کے قوائد کو تہس نہس کرکے اس حدیث کو پیش کردیا۔ کیا جناب کو یہاں یوم القیامۃ کا قرینہ نظر نہیں آرہا۔ قیامت کے دن وفات دینے کے کیا معنی ہیں۔ آپ ذرا یوم القیامہ کے الفاظ ہٹا کر کوئی اورمعنی کرکے تو دکھائیں۔ یہ تو میں نے آپ کے ترجمے کو درست مانتے ہوئے وضاحت کی تھی لیکن آپ اسی ترجمہ پرنظرڈالیں جو میں اوپر پیش کرچکا ہوں۔ یہ علمی باتیں آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ ایک بار پھر درج کردیتا ہوں۔

"جب رمی جمار (شیطان کو کنکریاں مارتا ہے) کرتا ہے تو کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے لئے کتنی نیکیاں ہیں حتی کہ اللہ تعالی اسے وفات دے دیتے ہیں اور جب آخری طواف کرتا ہے تو گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے جیسا کہ اس کی ماں نے اس کو گناہوں سے پاک جنم دیا تھا" (اردو ترجمہ کنزالعمال، شائع کردہ دالاشاعت کراچی)

پہلے علماء سے ہی کچھ سبق سیکھ لیتے!!
ابن حسن صاحب چیلنج قبول کرنے سے پہلے اس بات پر ہی نظر ڈال لیتے کہ گذشتہ سو سال میں کسی بڑے سے بڑے عالم دین کو یہ چیلنج قبول کرنے کا حوصلہ نہیں ہوا تو آخر کیا بات تھی؟ مرزا صاحب کے وقت میں تو آپ سے بھی زیادہ عالم فاضل علماء موجود تھے لیکن ان میں سے کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ اس حدیث کو پیش کرکے مرزا صاحب کو شکست دے دیتا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی، مولانا ثناءاللہ امرتسری اور سب سے بڑھ کراس وقت کے تمام علماء ہند کے شیخ الامت مولوی نذیرحسین دہلوی تک خاموش رہ گئے!! اور تو اورجن کی مادری زبان عربی ہے، تمام عالم عرب خاموش رہ گیا۔ کیا وہ علم میں آپ سے کم تھے؟؟ نہیں جناب انہیں معلوم تھا کہ چیلنج کیا ہے۔ لیکن آج آپ سو سال بعد آکر یہ فرما رہے ہیں کہ وہ سب تو بدھو تھے جن کی نظر اس حدیث پر نہیں گئی۔ میں ہوں آج کا شمس العلماء جس کے سامنے مولوی نذیرحسین دہلوی جیسے علماء بھی پانی بھرتے ہیںِ!!! اورتمام عالم عرب کو تو اتنی عربی آتی ہی نہیں جتنی مجھے آتی ہے!!!

اور پھر وہی گھسا پٹا عذر تراشا ہے کہ یہ قاعدہ کہاں لکھا ہوا ہے۔ جناب اوپر لغات سے ثابت کیا گیا تھا۔ اب یہاں قرآن سے ایک آیت پیش کردیتا ہوں۔

اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا١ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَ يُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠۰۰۴۲

"اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور جو مری نہیں ہوتیں (انہیں) ان کی نیند کی حالت میں (قبض کرتا ہے)۔ پس جس کے لئے موت کا فیصلہ کردیتا ہے اسے روک رکھتا ہے اور دوسری کو ایک معین مدت تک کے لئے (واپس) بھیج دیتا ہے۔ یقینآ اس میں فکر کرنے والوں کے لئے بہت سے نشانات ہیں۔" (الزمر 42)

یہاں اللہ تعالی نے واضع طور پر خود ہی وضاحت کردی ہے کہ جب اللہ کسی ذی روح کی توفی کرے گا تو موت ہی مراد ہوگی سوائے اسکے کہ نیند کا قرینہ موجود ہو۔ اوراللہ تعالی نے اس آیت میں پیش کردہ قاعدہ کو پورے قرآن میں ہر جگہ استعمال کیا ہے۔ کسی ایک جگہ بھی اسکے خلاف مثال نہیں۔ یہاں تک کہ احادیث میں بھی اسکے خلاف مثال نہیں اور تمام عرب لٹریچر نظم و نثرمیں اسکے خلاف کوئی مثال نہیں۔

لیکن پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ نہیں کہیں اور لکھا ہوا دکھاؤ تو اوپر پہلے لغت سے بھی ثابت کرچکا ہوں اب دہرانے کا فائدہ نہیں لیکن پھربھی ایک لغت سے دکھا دیتا ہوں ورنہ ہر لغت یہی بیان کررہی ہے۔

توفاہ اللہ قبض روحہ (قاموس جلد 4 صفحہ 403)
یعنی اللہ تعالی نے اس ذی روح کی توفی کی۔ یعنی اس کی روح قبض کرلی۔
اس جگہ لفظ توفی باب تفعل سے ہے۔ اللہ فاعل مذکور ہے اور ہ کی ضمیر بھی جو ذی روح کی طرف پھرتی ہے۔ اور اسکے معنی قبض روح کے کئے گئے ہیںِ۔

ایک کے بعد ایک ہرلغٍت یہی قاعدہ بیان کررہی ہے، سامنے لکھا ہوا نظر آرہا ہے لیکن آپ کہتے ہیں کہ دکھاؤ کہاں لکھا ہوا ہے؟؟؟ ایسے میں بندہ کیا کہہ سکتا ہے کہ جب سامنے رکھے ہوئے حقائق سے بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے کہا جائے کہ نظر ہی نہیں آرہا کہاں لکھا ہے؟؟ رفع پر بھی آپ کو لسان العرب سے قاعدہ دکھایا تھا کہ انسان کا رفع جب خدا کرے تو درجات کی بلندی مراد ہوتی ہے لیکن وہاں بھی آپ نے یہی بہانہ بنایا۔ آپ کو تو لاکھوں یہودی بھی نظر نہیں آئے اوریہی کہہ کر فارغ ہوگئے کہ کس مستند کتاب میں لکھا ہے کہ یہودیوں کا یہ مذہب ہے؟ِ؟

یہاں پر مجھے چوہدری سرظفراللہ خان کی خود نوشت سوانح عمری میں سے ایک واقعہ یاد آگیا جب وہ اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلے پرہندوستانی نمائندے کرشنا مینن سے بحث کررہے تھے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں:

"ان تمام عذرات کے تفصیلی جوابات پہلے کئی بار دیئے جاچکے تھے اور پھر دیئے گئے۔ اراکین مجلس (یعنی اقوام متحدہ کے ممبر رکن ممالک) خوب جانتے تھے کہ سب عذرات بے بنیاد ہیں۔ مسٹر کرشنا مینن بھی اس حقیقت سے خوب واقف تھے۔ مثال کے طور پر ان کے تیسرے عذر کے جواب میں، میں نے دس سرکاری دستاویزات سے پنڈت جواہر لال نہرو صاحب وزیراعظم ہندوستان کے بیانات پڑھ کر سنائے جس میں انہوں نے قضیہ کشمیر کے طے کرنے کا طریق استصواب رائے عامہ تسلیم کیا تھا اورکہا اور مثالیں بھی ہیں۔ لیکن امید ہے اراکین مجلس کا بلکہ میرے فاضل حریف کا بھی اطمینان ہوگیا ہوگا کہ محترم وزیراعظم ہند نے بارہا استصواب رائے عامہ کی اصطلاح کا استعمال کشمیر کے متعلق کیا ہے۔ لیکن جواب الجواب میں پھر مسٹر کرشنا مینن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وزیراعظم نے کبھی اس اصطلاح کا استعمال کشمیر کے متعلق نہیں کیا۔ مسٹر کرشنا مینن جانتے تھے کہ جو مثالیں میری طرف سے پیش کی گئی ہیں ان سے اراکین مجلس سمجھ چکے ہیں کہ مسٹر کرشنا مینن کا پہلا بیان غلط تھا لیکن انہوں نے بجائے یہ بات تسلیم کرنے کے یا اس موضوع پر خاموش رہنے کے پھر اپنے غلط بیان کا باصرار اعادہ کیا۔ وہ خوب جانتے تھے کہ اراکین مجلس جانتے ہیں کہ ان کی بات غلط ہے لیکن وہ سمجھتے تھے کہ غلط بات کے بار بار اعادے سے بعض لوگ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ شائد یہ بات صحیح ہی ہو۔"
(تحدیث نعمت ۔ سر محمد ظفراللہ خان)

سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی یہ خودنوشت سوانح عمری بھی یہاں سے پی ڈی ایف میں ڈاون لوڈ کی جاسکتی ہے۔
 
نزول عیسٰی کا انکار محض "احمدیت" سے مشروط نہیں۔ عام مسلمانوں میں سے بھی کئی اس پر یقین نہیں رکھتے۔ لیکن چونکہ اس دھاگے میں تمام تر بحث احمدی عقیدے کے پس منظر میں کی جارہی ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ عنوان میں یہ واضح کردیا جائے۔

آپ کی بات بجا ہے ۔ میں اس جانب اشارہ پہلے ہی کرچکا ہوں کہ ساری بحث قادیانیت مذہب کے پس منظر میں ہورہی ہے ۔ مگر چونکہ بحث تعمیری اور مثبت ہے ۔ دلائل اور استدلال منطقی اور آسان فہم ہیں ۔ اس لیئے ابھی تک بحث میں کہیں بھی ایسا مرحلہ نہیں آیا ہے ۔ جہاں سے یہ محسوس ہے کہ اس سلسلے کو موقوف کردیا جائے ۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ موضوع کا عنوان اپنی افادیت کھو چکا ہے ۔ اور ساری بحث کا منبع اب صرف یہی ہے کہ قادیانی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے کیا عقائد رکھتے ہیں ۔ ویسے تو مسلمانوں میں بھی بہت سے ایسے ہیں ( جیسا کہ آپ نے کہا ) جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر یقین نہیں رکھتے ۔ مگر بحرحال یہاں دونوں طرف سے جو ثبوت مہیا کیا جارہے ہیں ۔ ان پر تعمیری بحث جاری ہے ۔ جو کہ آئندہ کسی اور نازک موضوع پر بھی بحث کے لیئے خوش آئندثابت ہونگے ۔
مين سٹريم مسلمان جو كتاب وسنت كو حجت مانتے ہیں وہ سب حضرت عيسى عليہ السلام كے معجزاتى رفع الى السماء بغير موت اور پھر دوبارہ نزول پر يقين ركھتے ہیں كيونكہ يہ عقيدہ قرآن وسنت سے ثابت ہے۔
تاہم منكرين حديث اس كا انكار كر سكتے ہیں كيونکہ ان كے اصول وقواعد مسلمانوں سے نرالے ہیں ۔ یہ چاہیں تو پانچ فرض نمازوں كو بھی صرف قرآن كريم سے ثابت نہیں كر سكتے سو انہیں ان كا بھی انكار كرنا ممكن ہے۔
باقى رہ گئے معتزلہ ، يہ ہميشہ سے معجزات كے منكر ہیں ، جو وحى كو نہیں مانتے وہ معجزے كو كيا مانيں گے؟ معتزلہ نو neo mutazilites ميں سے ايك جاويد احمد غامدى نےبھی نزول عيسى عليہ السلام كا انكار كيا ہے ۔
اگر "كئى مسلمانوں" سے مراد معتزلہ اور منكرين حديث ہیں تو معذرت كے ساتھ عرض ہے كہ مذاہب عالم كا مطالعہ كرتے وقت ان كے معيارى عقائد كو مدنظر ركھا جاتا ہے نا كہ گمراہ ، منحرف يا اقليتى فرقوں كے عقائد كو ۔ اس لحاظ سے اسلام كا مطالعہ اس كے مستند مصادر سے كشيد كردہ عقائد كى بنياد پر كيا جائے گا نہ كہ منحرف فرقوں كے عقائد كى بنياد پر۔
اسلام كے مركزى دھارے سےمنسلك مسلمان آج بھی كتاب وسنت سے رہنمائى حاصل كرتے ہیں كيونكہ امام الأنبياء ، خاتم المرسلين حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے خطبہ حجة الوداع ميں ان كو ايك سنہرى نصيحت كى تھی :
" ميں تم ميں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، جب تك تم ان كو تھامے رہو گے ہر گز گمراہ نہ ہو گے : 1- كتاب اللہ ، 2- ميرى سنت ! "
الحمد للہ آج بھی ان دو چيزوں كى وجہ سے خالص اسلامى عقيدہ مصون و مامون ہے اور ان شاء اللہ رہے گا ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top