حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا یا ۔۔۔۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
جناب پہلے تو یہ بتائیں کہ میں نے کب کہا ہے کہ توفی کا مطلب وفات کے علاوہ کچھ اور ہوتا ہی نہیں۔ میری وہ پوسٹ دوبارہ پڑھ لیں جس میں میں نے توفی کے چیلنج کا ذکر کیا تھا۔ آپ کو بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا بہت شوق ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ جس کا ثبوت میں لغات سے دے چکا ہوں کہ توفی جب خدا کی طرف سے انسان کے لئے استعمال ہو تو وفات کے علاوہ کوئی ترجمہ نہیں کیا جاسکتا سوائے اس کے کہ کوئی لفظی قرینہ موجود ہو۔
جناب آپ کے خیال میں دالاشاعت کے مترجم نے جب توفاہ اللہ کا ترجمہ وفات کردیا تو یوم القیامہ کے ترجمہ کی ضروت ہی نہیں سمجھی۔ چلیں آپ سر تسلیم خم لیکن اس سے تو پھر وہی بات ثابت ہوئی جو کہ میں پہلے ہی لغات سے دکھا چکا ہوں کہ توفاہ اللہ جب بھی انسان کے لئے آئے گا تو ترجمہ وفات ہی ہوگا۔ ان مترجم مولانا صاحب نے اپنے عمل سے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ جو لغات میں لکھا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ یہاں وفات کی بجائے وہی ترجمہ نہیں لے رہے جو آپ لے رہے ہیں۔ یوم القیامہ کا لفظ اگر ان سے رہ بھی گیا تھا تو اسکے بغیر بھی وہ یہ ترجمہ کرسکتے تھے کہ "یہاں تک کہ اللہ اسے پورا پورا اجر دے دیتے ہیں" لیکن انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا۔ یہی تو چیلنج لغات عرب سے پیش کیا گیا تھا کہ جب بھی توفی کا فعل اللہ کی طرف سے انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ایسے مواقع پر وفات کے علاوہ کوئی ترجمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ بہت اچھا ہوا کہ ان سے یوم القیامہ کا لفظ رہ گیا یہ بھی اللہ کی حکمت ہی تھی کہ اسطرح اللہ نے آپ کو اور اس مترجم مولانا کو عملاً یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ لفظی قرائن کے بغیر توفاہ اللہ کا کوئی دوسرا ترجمہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ لیکن آپ مصر ہیں کہ بےشک آج تک کبھی ایسا نہ ہوا ہو لیکن قرآن میں حضرت عیسی کے لئے ضرور کریں گے

جب انسان کج بحثی اور ضد پر اڑ جائے تب اس کے سامنے سورج بھی رکھ دیا جائے پھربھی وہ یہی کہے گا کہ ابھی تو رات ہے۔
رانا صاحب اگر آپ یہ پوسٹ نہ کرتےتو اچھا ہوتا اس طرح کم از کم آپ کا کچھ تو بھرم رہ جاتا، یہ پوسٹ کر کہ تو آپ نے اپنا امیج اور بھی زیادہ خراب کر لیا ہے۔

توفاہ اللہ یوم القیامہ کی عبارت اصل عربی کی ہے اور یہ ایک حدیث کا حصہ ہے اگر کوئی شخص کسی اصل عبارت کا ترجمہ غلط کر دے تو اس اصل عبارت پر کیا کوئی اثر پڑ سکتا ہے؟؟یہاں نبی آخر زمان کی ایک حدیث سے یہ بات صاف ہو گئی کہ توفاہ اللہ کا لفظ موت کے علاوہ بھی استعمال ہو سکتا ہے، یہی آپ کا چیلنج تھا اب اگر آپ عربی سے بالکل نابلد ہیں تو میرا اور اس فورم کے دیگر ممبران کا اس میں کوئی قصور نہیں ہےآپ کیوں ہم سب کا وقت خراب کر رہے ہیں؟ یہ ایک اوپن فورم ہے اسپر پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں اگر آپ کی سمجھ شریف میں عربی نہیں آتی تو کسی اور سے مدد لے لیجئے اور پھر آگے بات کیجئے اصل عبارت آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔آپ کے چیلنج کا جواب ایک دفعہ نہیں دو دفعہ دو مثالوں سے دیا جا چکا ہے، اگر ڈھٹائی کے علاوہ کوئی گن آ پ میں موجود ہے تو اس کو استعمال میں لائیے۔

اورپیر مہر علی شاہ کا بھی حوالہ عجیب پیش کیا ہے کہ ہم نے اس آیت میں مسیح کی توفی جسم سمیت ثابت کردی ہے۔ جناب چیلنج تو یہی تھا کہ اس آیت میں توفی کا وفات کے علاوہ کوئی ترجمہ نہیں کیا جاسکتا اس کے ثبوت میں تمام عرب کی تاریخ اور تمام لٹریچر اور تمام لغات اور تمام قرآن اور تمام احادیث پیش کی گئی ہیں لیکن آپ کہیں بھی یہ ثبوت نہیں دکھا سکے کہ کبھی ایسا ہوا ہو کہ توفاہ اللہ کا ترجمہ وفات کے علاوہ کوئی اور ہوا ہو۔ الٹا تفاسیر سے یہ دکھا کر کہ جناب فلاں فلاں نے بھی اس کا ترجمہ اٹھانا کیا ہے۔ عجیب بات ہے۔ جناب اس ترجمہ کے حق میں کوئی ثبوت تو پیش کریں کہ یہ ترجمہ درست ہے جیسا ہم نے قرآن و حدیث اور لغات العرب کو پیش کردیا ہے۔ لیکن آپ کو کچھ نہیں مل رہا تو اسی زیربحث کا آیت کا ترجمہ ہی ثبوت کے طور پر پیش کئے چلے جارہے ہیں کہ فلاں نے بھی کیا ہے اور فلاں نے بھی کیا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس آیت کے تراجم کو ہی بطور ثبوت بھی پیش کیا جارہا ہے۔

رانا صاحب آپ علمیت میں ہی نہیں لگتا ہے عقلیت میں بھی پیمانے پر پورا نہیں اترتے۔ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب نے صرف تفاسیر ہی نہیں بلکہ توفی کے لفظ پر لغات سے بھی بحث کی ہے، توفی کے لغوی و اصطلاحی و تفسیری معنی بھی واضح کیئے ہیں۔ اس پیرا کو غور سے پڑھئے مجھے معلوم ہے کہ یہ آپ کی اوقات سے کافی بڑی چیز ہے لیکن جب انسان کے پلے کچھ نہ ہو تو اس کو اس طرح کے آن لائن فورم میں آکر یوں چیلنج دینا نہیں چاہیے۔
پیر صاحب نے بڑی وضاحت سے جو کچھ کہا اس کو پھر سے دیکھتے ہیں

۱ ۔ پیر صاحب کا چیلنج کہ حضرت عیسیٰٰ کی توفی قبل نزول میں توفی سے مراد موت نہیں ہے اگر موت ہے تو (ا) حادیث (ب) تفاسیر (ج) قول صحابی (د) لغات عرب۔ ان میں سے کوئی ایک قول پیش کیا جائے کہ یہاں توفی سے مراد موت ہے۔

اصل عبارت
آپ ہی توفی اللہ عیسیٰ کو جو حکایت ہے عیسیٰ کی توفیٰ قبل النزول سے، کسی حدیث یا تفسیر یا قول صحابی یا لغات معتبرہ عرب سے نکال دیویں کہ فقرہ مذکورہ میں توفیٰ بمعنی موت کے ہے۔ ہم نے توفی اللہ عیسیٰ قبل النزول کے معنی حسب تصریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و اجماع صحابہ وغیرہ کے قبض جسمی کاثابت کر دیا (یہ عاجز بھی اس سے پہلے ایسے ہی دلائل شریعہ سے یہ بات پیش کر چکا ہے)

۲۔ حضرت پیر صاحب کا یہ کہنا کہ توفی کے معنی قبض کے ہیں اور یہ معنی لغت میں موجود ہیں نیز قید جسمی کی خصوصیت اس خاص مقام سے متعلق ہے اس کی ہی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام رازی انی متوفیک کے تحت لکھتے ہیں کہ توفی کے معنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا ہے جیسا کہ اس قول میں (حضرت عیسیٰ کو) آسمان کی طرف اٹھا لینا ہے ان کے جسم و روح کے ساتھ نیز امام رازی اسی آیت (انی متوفیک) کے تحت لکھتے ہیں کہ توفی بمنزلہ جنس کے ہے اور اس کے تحت بہت سے انواع ہیں مثلا موت اور اصعاد الی السماء۔ نیز ابن جریر نے توفہ کے معنی رفعہ کے بیان کیے ہیں

اصل عبارت
توفیٰ بمعنی قبض کی تصریح لغت میں موجود ہے اور خصوصیت قید جسمی کی خصوص مقام سے مستفاد ہے۔اور اسی معنی کی طرف اما م فخرالدین رازی نے صحت کی نسبت کی ہے۔ انی منوفیک التوفی اخذ الشئی وافیا الیٰ قولہ رفع بتمامہ الی السماء بروحہ و بجسدہ۔ پھر اس کے بعد لکھا ہے وھو جنس تحتہ انواع بعضھابالموت وبعضھا بالاصعاد الی السماء(تفسیر کبیر) و قال ابن جریر توفیہ ہو رفعہ (ابن کثیر)
۳ اس تفسیری شہادت کے بعد پیر صاحب عربی کی سب سے بڑی لغت تاج العروس سے ایک عبارت پیش کرتے ہیں ۔
و من المجاز ادرکتہ الوفات ای الموت و المنیۃ و توفی فلان اذا مات و توفاہ اللہ عز و جل اذا قبض نفسہ و فی الصحاح روحہ
جس کا مفہوم یہ ہے کہ مجاز میں توفاہ کے معنی موت یا نیند کے ہیں توفی فلان کے معنی مجازا موت اور توفاہ اللہ کے معنی مجازا قبض نفس یا صحاح کے مطابق قبض روح کے ہیں

اب تاج العروس کی یہ تصریح غور سے پڑھیئے کہ توفاہ کی اصل کچھ اور ہے اور توفاہ کے معنی مفرد طور پر بھی موت و نیند کے مجازا ہیں اور مرکب صورت مثلا توفی فلان اور توفاہ اللہ کی صورت میں بھی قبض نفس و روح کے مجازا ہیں ۔ یہ تاج العروس کی تصریح ہے اور یہاں میں نے کہا تھا کہ توفاہ اللہ کے معنی قبض نفس کے مجازا جب ثابت ہو گئے تو ایک بار پھر آپ کا مزعومہ قاعدہ چکنا چور ہو گیا۔ اب کچھ عقل شریف میں آپ کی آیا کہ نہیں؟

نیز رانا آپ کا یہ کہنا کہ اس ترجمہ کے حق میں کو ئی ثبوت پیش کرو کہ یہ ٹھیک ہے کہ نہیں جیسا کہ آُپ نے قرآن و حدیث و لغات عرب کو پیش کیا ہے تو جناب آُپ نے جو بامشکل تمام ایک آدھ حوالے پیش کی تھے ان کے جواب تو میں کب کا دے چکا ہوں آپ کو ذرا بھی حیا نہیں آتی ایک اوپن فورم پر ایسی ڈھٹائی استغفر للہ ۔

اب یہاں میں لغت کے بعد دیگر تفاسیر کے حوالے دے رہا ہوں جس سے حضرت عیسیٰ کی توفی پر مزید روشنی پڑتی ہے۔

۱۔ البیضاوی: فلما توفیتنی ۔ بالرفع الی السما لقولہ انی متوفیک و رافعک الی والتوفی۔اخذ الشی وافیا والموت نوع منہ۔ص ۱۹۴ ج ۱

۲، المظہری و کنت علیھم شہیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی۔ یعنی قبضتنی و رفتعنی الیک ۔ والتوفی اخذا لیشی وا فیا والموت نوع منہ۔

۳۔ القرطبی۔ انما المعنی رفتنی الی السما قال الحسن الوفاہ فی کتاب اللہ علی ثلاثہ لوجہ۔ وفاہ الموت و ذ ذالک قولہ اللہ یتوفی الانفس حین۔ موتھا۔ یعنی وقت انقضا اجلہا ۔ و وفاہ النوم قال وھو الذی یتوفاکم باللیل ینیمکم وو فاۃ الرفع قال یا عیسیٰ انی متوفی۔ ص ۳۷۷ ج ۶

۴۔ امام رازی : ان الوفی اخذ الشئی وافیا ولما علم اللہ تعالیٰ ان من الناس من یخطر بیالہ ان لاذی رفعہ اللہ ہو روحہ لا جسدہ ذکر ہذا الکلام لیدل علی انہ علیہ الصلوۃ والسلام رفع بتمامہ الی السما ء بروحہ و بجسدہ ویدل علیہ صحۃ ہذا التاویل قولہ تعالیٰ وما یضرونک من الشی (تفسیر کبیر ص ۴۸۱ ج ۲)
" توفی کے معنی کس شے کو پرا پورا اور بجمیع اجزا کے لے لینے کے ہیں۔ چونک حق تعالیٰ کو معلوم تھا کہ بعض لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ گزرے گا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی صرف روح کو اٹھایا ہے اس لیے متوفیک کا لفظ فرمایا تاکہ معلوم ہو جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام روح و جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے وما یضرونک من شی تم کو ذرہ برابر ضرر نہیں پہچا سکیں گے نہ روح کو نہ جسم کو ۔

۵۔ روح المعانی۔ توفیتنی ای قبضتنی بالرفع الی السما کما قیل توفیت المال اذا قبضہ وروی ہذا الحسن و علیلہ الجمہور۔ص ۶۹ ج ۷
۶۔ امام تیمیہ : لفظ الوفیٰ فی لغۃ العرب معناہ الاستیفا ء و القبض و ذلک ثلاثہ انواع احدھا توفی النوم ، والثانی توفی الموت و الثالث توفی الروح و البدن جمعیا ج ۲ ص ۲۸۳
(لغت عرب میں توفی کے معنی استیفا یعنی پورا پورا لینے کے ہیں اور توفی کی تین اقسام ہیں ایک توفی نوم ، دوسری توفی موت اور تیسری روح و جسم کو پورا پورا لینا۔

۷۔ ابن جریر و معالم التنزیل: قال اربیع بن یونس المراد بالتوفی فی النوم و کان عیسیٰ علیہ السلام قد نام فرفعۃ اللہ نائما الی السما معنا ہ انی منیمک ورافعک الی کما قال تعالیٰ و ھو الذای یتوفکم باللیل ای ینمیکم وا للہ اعلم

ایسے لا تعدا د اقوال ہیں جو حیات حضرت عیسیٰ کے بارے میں تمام ان بڑی تفاسیر میں بیان کیے گئے ہیں صرف چند اقوال میں نے پیش کر دیئے ہیں ۔

اب یہاں میں ایک فیصلہ کن بات کہتا ہوں اور جب تک رانا اس کا جواب نہیں دیں گئے بات ہرگز ہرگز آگے نہیں بڑھے گی اور اس پر ہی میں تمام فورم کے ممبران سے انکی رائے طلب کرتا ہوں۔


۱۔ ایک عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر موت نہیں آئی بلکہ اللہ پاک نے ان کو بچا کر بحفاظت بمع جسد و روح کے آسمان پر اٹھا لیا۔
اس عقیدے پر شاہد ہیں قرآن اور بے شمار احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اور یہی عقیدہ حضرات صحابہ کا ہے، تابعین و تبع تابعین کا ہے اور سارے مفسرین و علما امت محمدیہ بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔

۲۔ دوسرا عقیدہ یہ ہے کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو صلیب پر لٹکا دیا تھا ان کے کیلیں ٹھوک دی گئیں تھیں لیکن ان کا انتقال نہیں ہوا بلکہ وہ بچ کر کشمیر آگئے اور یہاں ان کا انتقال ہوا۔
اب یہ عقیدہ مرزا غلام احمد قادیانی کا ہے اور مرزا نے صاف لکھا ہے کہ اس عقیدہ کی اطلاع مرزا سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی یہاں تک کہ حضرات صحابہ بھی اس سے بے خبر تھے چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ
یا اخوان ہذا ہو الامر الذی اخفاہ اللہ من اعین القرون الاولی (خزائن ج ۵ ص ۴۲۶)

اب جب قرون اولیٰ کے مسلمان بھی اس عقیدے سے بے خبر تھے تو ظاہر ہے کہ بقیہ امت کے صلحا و علما بھی بدرجہ اولی بے خبر ہوئے، اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ کی حیات کا عقیدہ ہی تمام امت محمدیہ کا عقیدہ ہے۔

اب فورم کے ممبران فیصلہ کریں اور رانا سے دریافت کریں کہ قرآن و حدیث میں جو حضرت عیسیٰ کی توفی و رفع کے بارے میں آیا ہے اس کے معنی کے بارے میں ہم امت محمدیہ کے سرخیل یعنی صحابہ کے اقوال سے رجوع کریں گے یا مرزا قادیانی کے اقوال سے، اس بارے میں ہم اعتماد جلیل القدر ائمہ و مفسرین پر کریں مثلا ابن جریر طبری، ابن کثیر ، امام قرطبی، امام رازی، امام راغب اصفہانی، بیضاوی، ابن تیمیہ، وغیرہم پر کریں یا مرزا قادیانی پر ، اس سلسلے میں احادیث ہم امام بخاری، امام مسلم، امام نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، بیہقی، کی روایت کردہ سنین یا اقوال مرزا قادیانی سے مستفید ہوں۔تابعین میں ، حضرات سعید بن مسیب ، طاوس ، حسن بصری ، محمد بن سیرین ، محمد بن حنفیہ، زین العابدین ، جعفر صادق ، امام ابو حنیفہ، امام مالک، مام شافعی، امام احمد بن حنبل، ربیع بن یونس ، ضحاک، طحاوی، سرخسی و حاکم کی مانیں یا مرزا قادیانی کی؟؟؟؟(ان سارمے ائمہ کے اقوال آ پ حضرات کو تحفہ قادیانیت جلد سوم میں مل جائیں گے)

کوئی مجھے بتائے ایک وجہ بتائے کہ کیوں ہم قرآن، احادیث، تفاسیر اور امت محمدیہ کے سارے ائمہ کو چھوڑ کر اس قادیانی کی بات کو مانیں ۔کیوں ،آخر کیوں مانیں ۔

ایک بات اور سنیئے مزرا نے خزائن ص ۶۶۰ ج ۲۲ میں لکھا ہے کہ یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ نہیں مرے ایک شرک عظیم ہے۔

اب ایک طرف مرزا یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی وفات کا عقیدہ خیرا لقرون میں بھی کسی کو نہیں پتہ اور دوسری طرف یہ کہتا ہے کہ یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ نہیں مرے شرک عظیم ہے۔اس بات کا کیا نتائج نکلتے ہیں؟؟

۱۔اللہ نے تیرہ صدیوں تک اس امت کو شرک عظیم میں مبتلا رکھا۔ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ
۲۔ حضرات صحابہ، تابعین، تبع تابعین۔ سارے مفسرین جنھوں نے حیات عیسیٰ کا عقیدہ بیان کیا ہے، سارے محدیثن جو حیات و نزول حضرت عیسیٰ کی احدیث بیان کرتے ہیں ، ساری امت محمدیہ کے اکابرین جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں، کیا نعوذ باللہ شرک عظیم میں مبتلا رہے؟؟؟ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ۔

پھر یہی نہیں اس کی زد تو خود ہمارے نبی پر بھی آتی ہے کہ آپ کی کتنی احادیث میں حضرت عیسیٰ کی حیات و نزول کا بیان موجود ہے۔ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ۔

اب میں کیا لکھوں باخدا کچھ اور تاب نہیں ہے سہنے کی۔خدا گواہ ہے ، اللہ کی ذات شاہد ہے میں نے بڑا خود پر جبر کرکہ مرزا کی کتابوں کو پڑھا ہے اور یہ خرافات یہاں لکھی ہیں۔ورنہ ابھی میرا حال یہی ہے اور میں جھوٹ نہیں کہتا حقیقت بیان کر رہا ہوں کہ مرزا کی شکل دیکھ کر اور اس کی کتابوں کو دیکھ کر میرا جی متلانے لگتا ہے اور طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔

پھر اس پر بھی غور کیجئے کہ ۱۸۹۲ تک خود مرزا اسی شرک میں مبتلا رہا کہ نہیں؟ ۱۸۸۰ میں براہین احمدیہ لکھی ، بقول مرزا کہ خدا کہتا رہا تو ہی مسیح ہے مگر یہ حیات عیسیٰ کا عقیدہ بیان کرتا رہا اور بارہ سالوں تک ایسا کرتا رہا ، تو بقول خود اس کے یہ شرک عظیم میں مبتلا رہا یا نہیں؟؟؟


اول: بل رفعہ اللہ الیہ میں آپ نے رفع کے لفظ پر ضد کی کہ جناب اس کا ترجمہ جسم سمیت اٹھایا جانا ہی کیا جائے گا۔ آپ کو تمام قرآن و حدیث اور عرب لٹریچر کو بطور ثبوت پیش کرکے دکھایا کہ جناب آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ کی طرف سے کسی انسان کے رفع کا ذکر ہو تو ترجمہ سوائے روحانی رفع کے کچھ اور ہوا ہو۔ جسم سمیت اٹھایا جانا تو کہیں ثابت ہی نہیں۔ لیکن آپ کو ضد تھی کہ بے شک کبھی نہ ہوا ہو لیکن اس مرتبہ ضرور ہوگا۔ پھر آپ کو لغت میں لکھا دکھایا کہ رفع اللہ کا نام ہے اور اللہ تعالی بندے کا رفع کسطرح کرتا ہے لیکن آپ باوجود اسکے کہ اپنے خودساختہ ترجمے کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے کہ کبھی زبان عربی میں پہلے ایسا ہوا ہو صرف الفاظ کا جادو چلانے کی کوشش کی۔ ۔ پھر لفظ رفع کا اللہ کی طرف سے بندے کے لئے استعمال کی قرآن و حدیث اور لٹریچر اور لغت سے مثالیں بھی دکھادیں اور آپ کو بھی چلینج کیا گیا کہ اتنا بڑا ترجمہ کررہے ہیں جو کہیں ثابت ہی نہیں تو کم از کم اسکی کوئی مثال ہی پیش کریں کہ اللہ بندے کا رفع کرے اور مطلب جسمانی رفع ہو۔ لیکن آپ وہی ڈھاک کے تین پات کہ اسی آیت کے ترجمے ہی مختلف جگہ سے اٹھا اٹھا کر پیش کرتے رہے۔ یعنی جو بات ثابت کرنی تھی وہی بطور ثبوت پیش کرتے رہے۔

آپ کو اس بات کا پہلے جواب دیا جا چکا ہے آپ کو چیلنج ہے کھلا چیلنج ہے اور بار بار چیلنج ہے کہ جہاں کہیں قرآن میں رفع حضرت عیسیٰ کا ذکر ہے وہاں کسی معتبر تفسیر سے یہ دکھائیں کہ یہاں رفع سے مراد رفع درجات ہے جسمانی رفع نہیں۔
جملہ تفاسیر معترہ مثلا تفسیر کبیر ، جلالین، معالم ، فتح البیان ، جامع البیان ، بیضاوی، ابن کثیر ، کشاف ، مدارک، در منثور، خازن ان سب میں رافعک الی سے رفع الی السما مراد لکھا ہے۔ آپ اور آپ کے مرزا قادیانی کے اقوال ایک ردی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اگر کسی تفسیر معتبر میں آپ رفع کے معنی صرف رفع درجات کے نہ دکھا سکیں اور میرا یہ چیلنج پورا نہ کر سکیں تو پھر رفع کا نام مت لیجئے گا۔


پھر آپ کو سورہ المائدہ کی آیت 118 دکھائی گئی کہ جناب یہاں تو رفع بھی نہیں بلکہ توفی کا لفظ استعمال ہوا ہے جو تمام قران میں اللہ کی طرف سے جب بھی بندے کے لئے استعمال کیا گیا ہے تو ترجمہ سوائے قبض روح کے کچھ نہیں ہوا سوائے دو جگہ کے جہاں نیند کا ترجمہ کیا گیا جو کہ قبض روح ہی کی ایک شکل ہے جس کا خود آیت میں ہی ذکر اللہ نے کردیا۔ اور جب بھی یہ لفظ انسان کے متعلق استعمال ہو تو اسکے پہلے معنی وفات ہی کے زہن میں آتے ہیں سوائے اسکے کے لفظی قرائن موجود ہوں۔ پھر تمام احادیث اور تمام عرب لٹریچر اور لغات العرب کو پھر بطور ثبوت پیش کیا گیا کہ جناب توفی کا فعل جب بھی اللہ کی طرف سے بندے کے لئے استعمال ہو تو سوائے موت کے کوئی ترجمہ نہیں ہوتا۔ لیکن آپ پھر اڑ گئے کہ بےشک کبھی پہلے نہ ہوا ہو لیکن اس آیت میں تو ضرور ہوگا

توفی کی بحث اوپر ہو چکی ہے لیکن جناب شاید پوسٹ کا پیٹ بھرنے کی خاطر نہ صرف دو بار پوسٹ کرتے ہیں بلکہ باتوں کو دہراتے بھی ہیں چہ خوب۔

یہاں تک کہ آپ کو بخاری کی حدیث سے یہ آیت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دکھادی گئی لیکن حد ہے گستاخی کی کہ وہاں بھی انکار کردیا کہ وہ الفاظ نہیں بلکہ ملتے جلتے الفاظ ہوں گے حالانکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کے تمام الفاظ بھی استعمال کرکے بتادیے کہ میں یہ الفاظ کہوں گا لیکن پھر گستاخی کی انتہا کرتے ہوئے ضد کی کہ نہیں قیامت کو کچھ الفاظ بدل جائیں گے۔ اب اس پر کیا کہا جائے۔ پھر آپ کے مطالبہ پر کہ یہ چیلنج کہاں مذکور ہے آپ کو لغات سے دکھادیا کہ تمام لغات نے توفاہ اللہ کو موت کے معنوں میں لیا ہے۔ لیکن آپ ایک حدیث لے آتے ہیں کہ جسکا مفصل ذکر اوپر ہوچکا ہے کہ جس میں مترجم صاحب نے بھی آخر اسی چیلنج پر صاد کیا جو لغات العرب سے پیش کیا جاچکا تھا۔ پہلے رفع پر ضد کی اور وہ ترجمہ کیا جو کبھی اللہ کی طرف سے بندے کے لئے استعمال پر نہیں کیا گیا۔ پھر توفی پر ضد کربیٹھے اور پھر وہ ترجمہ کیا جو کبھی اللہ کی طرف سے بندے کے لئے استعمال پر نہیں کیا گیا۔ تمام قرآن احادیث اور لغات العرب سے آپ کو اپنے زبردستی کے تراجم پر کوئی ثبوت نہیں ملا۔۔

بخاری شریف میں جو حضرت ابن عباس کا قول آپ نے نقل کیا تھا وہ حدیث نہیں قول صحابی تھا اور اس کا مسکت جواب اسی جگہ آپ کو دے دیا گیا تھا غالبا جناب کا حافظہ بھی اپنے جھوٹے نبی جیسا ہو گیا ہے کہ ہر بات ذہن سے کھسک جاتی ہے۔ الفاظ کے گھماو پھراو اور ہر بات کو بار بار دہرا کر آپ اپنی پوسٹ لمبی کر سکتے ہیں لیکن سب لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا سکتے۔


سوم: پھر آپ کے سامنے سورہ ال عمران کی آیت 56 پیش کی گئی۔

اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ١ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ۰۰۵۵

یعنی اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا اور تیرا رفع کروں گا اور تجھے پاک کروں گا ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا اور تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکرین پر غالب رکھوں گا۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے رفع اور توفی دونوں ہی الفاظ ایک ساتھ حضرت عیسی کے لئے استعمال کرڈالے۔ اب تو آپ کے لئے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مصداق کوئی چارہ ہی نہیں رہ گیا تھا کہ یہاں غلط مطلب لینے کی ضد کرتے کیونکہ رفع کا ترجمہ بھی آپ جسم سمیت اٹھانے پر ضد کررہے تھے اور توفی پر بھی یہی ضد تھی کہ جسم سمیت پورا پورا اٹھا لیا۔ اب اس آیت میں آپ بری طرح پھنس گئے تھے کہ رفع اور توفی دونوں ایک ساتھ یہاں موجود ہیں۔ اب اگر وہی ترجمہ کریں تو دو مرتبہ اٹھانے کا ترجمہ کرنا پڑتا جو کسی بھی طرح ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ یہاں اللہ تعالی نے صرف یہی نہیں کیا کہ رفع اور توفی دونوں ایک ساتھ استعمال کیے بلکہ توفی کو رفع سے پہلے رکھا۔ یعنی آپ کے لئے غلط مطلب کرنے کے تمام راستے اللہ نے بند کردئے۔ کیونکہ اگر رفع کا لفظ توفی سے پہلے ہوتا تو آپ سے قوی امید تھی کہ یہاں آپ فورا توفی کو وفات کے معنوں میں تسلیم کرلیں گے تاکہ یہ کہہ سکیں کہ جناب پہلے رفع یعنی اٹھایا جائے گا پھر زمین پر آکر وفات ہوگی۔ لیکن اللہ تعالی نے توفی کو رفع سے پہلے رکھ کر آپ کے لئے یہ چور دروازہ بھی بند کردیا کہ وفات کے بعد جسمانی اٹھایا جانا ہوہی نہیں سکتا۔ لیکن آفرین ہے کہ آپ پر کہ پچھلی آیت میں تو آپ نے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں لقمہ دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ الفاظ قیامت میں کچھ اور ہو جائیں گے۔ لیکن یہاں آپ نے اللہ تعالی کے منہ میں لقمہ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا کہ بس کسی طرح عیسی زندہ ہوجائیں چاہے قرانی الفاظ کو ہی کیوں نہ آگے پیچھے کرنا پڑے۔ اور آپ نے ایک انتہائی بھونڈا حربہ "تقدیم و تاخیر" کا نکالا کہ یہاں اللہ تعالی نے توفی کو رفع سے پہلے رکھ دیا ہے لیکن اصل میں رفع کے بعد توفی ہوگی۔ افسوس کہ عیسی کو زندہ کرنے کے جوش میں آپ نے قرآنی الفاظ کو بھی تختہ مشق بناڈالا۔ جس لفظ کو اللہ نے پہلے رکھا ہے کسی بندے کی کیا مجال کہ اسے کہے کہ اصل میں یہ بعد میں ہوگا۔ ایسا عقیدہ آپ ہی کو مبارک ہو جس کے لئے آپ کو کیا کیا حرکتیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ اب یہ بتائیے کیا آپ سے اس مسئلے پر مذید بحث کی کوئی گنجائش ہے۔ جو شخص تمام لغات العرب کے بھی خلاف چلے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو نہ مانے اور اپنا عقیدہ ثابت کرنے کے لئے قرآن کے الفاظ کو بھی آگے پیچھے سمجھنے سے دریغ نہ کرے اس سے کیا بات کی جائے۔ اسطرح تو آپ سبھی کچھ ثابت کرسکتے ہیں اور ثابت کرتے رہیں لیکن ایسا عقیدہ آپ ہی کو مبارک ہو۔

انی متوفیک و رافعک کا ترجمہ میں لے لوں گا تجھ کو اور اٹھاوں گا اپنی طرف ، ہے اس میں کوئی الجھاو نہیں توفی کی بحث اوپر ہو چکی ہے اس مقام پر مفسرین حضرت عیسیٰ کے بمع جسد و روح رفع الی السما کا بیان کرتے ہیں ۔ بار بار ایک چیز کو دہرانا اور شور مچانا درحقیت وہی گوئبلز والی حرکت ہے اور کچھ نہیں۔آپ چلاتے رہیے ، پروپیگنڈہ کرتے رہیے کہ اس کا جواب نہیں دیا اس بات کا جواب نہیں دیا لیکن یہاں اس فورم پر جو بھی اس بحث کو پڑھ رہا وہ جانتا ہے کہ آُپ کی ہر دلیل و ہر بات کا جواب دیا جا چکا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔
 
آپ نے حضرت مرزا صاحب کی کتابوں سے تضاد ڈھونڈنے پر کافی محنت کی ہے۔ اور یہ تضاد صرف تعصب کی آنکھ سے ہی نظر آسکتے ہیں۔ اور لگتا ہے کہ آپ پر دھن سوار ہے کہ کسی طرح مرزا صاحب پر اعتراض کیئے چلے جائیں چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ پہلے آپ نے ایک خط کا حوالہ دیا کہ اس میں مسیح ہونے کے دعوی کرنے کے لئے مشورہ کا ذکر ہے۔ پھر جب آپ کو یہ ثابت کرکے دکھایا کہ جناب دعوی تو اس خط سے بھی کافی پہلے کیا جاچکا تھا اور اس خط سے بھی پہلے چھپ چکا تھا۔ اس لئے اس خط سے مشورے کا استنباط کیا ہی نہیں جاسکتا تو آپ نے فوراً پینترا بدلا اور دوسری طرف بات لے گئے کہ جناب براہین احمدیہ تو دس سال پہلے لکھی گئی تھی اور انہوں نے کہا ہے کہ بارہ سال کے بعد میں نے دعوی کیا۔ اب اس طرح کے اعتراضات پر آپ کے بارے میں کیا سمجھا جائے۔ کہ بھائی جب دعوی چھپا ہوا موجود ہے اور فتح اسلام میں ہی لکھا ہوا بھی نظر آرہا ہے اور اسکا عکس بھی فراہم کیا گیا ہے تو پھر یہ ضد کہ جناب انہوں نے کیوں بارہ سال کہا جبکہ دعوی دس سال بعد کیا تھا۔ ایسے اعتراض تو سخت تعصب کی والوں کو ہی نظر آسکتے ہیں۔

ورنہ ایسے ہی اعتراض عیسائی اسلام پر کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ صرف ان کی تعصب کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ ورنہ اس طرح کے اعتراضات کہ انہوں نے براہین احمدیہ دس سال پہلے لکھی اور بارہ سال کا ذکر کردیا اور مسیح کی قبر کا ذکر کشمیر سے پہلے کہیں اور کردیا۔ مسیح کی عمر کے متعلق انہوں نے احادیث سے ذکر کیا تھا۔ 120سال کی بھی روایت ہے اور 125 سال والی روایت کی بھی حدیث ہے۔ 153 سال والا حوالہ ہی مجھے نہیں ملا جو آپ نے دیا ہے لیکن اس کا تعلق بھی کسی الہام سے نہیں ہوگا۔ یہ بہت ہی غلط روش ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے ایک واقعے کے متعلق جو مختلف روائتیں اپنی کتب میں مختلف جگہ بیان کی ہیں آپ لوگ یہ باور کرانا چاہتے ہیں وہ سب کو ہی درست مانتے تھے۔ جس کو انہوں نے درست مانا اس کا اظہار کردیا لیکن سب کو بیان کردیا تو یہ آپ کے نزدیک جرم ہوگیا۔ کیا ایک محقق اپنی تحقیق کے دوران سارے شواہد کو زیربحث نہیں لاتا۔ اور ان میں سے کسی ایک کو اپنا لیتا ہے یا ایک سے زائد کو بھی اگر ایک سے زیادہ شواہد ایک ہی بات کو معمولی سے فرق کے ساتھ بیان کررہے ہوں۔ جیسے 120 یا 125 سال والی احادیث ہیں۔

جناب رانا صاحب یہی بات آپ کو سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نبی خدا کے حکم کے بغیر دینی تعلیمات اپنی طرف سے بیان نہیں کرتا دنیاوی معاملات کی بات اور ہے ۔ حضرت عیسیٰ کی وفات اور مرزا کا خود عیسیٰ بننے کا دعوہ آپ کے اس مذہب کی بنیاد ہے اب جب اس ہی میں اتنے تضادات موجود ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے یہی نا کہ مرزا جھوٹا ہے ورنہ کیا خدا کے سچے نبی یوں غلط بیانی اور تضاد سے کام لیتے ہیں ۔ ناجانے کیوں سامنے کی بات آپ کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ تحقیق کی ضرورت معاملات دنیاوی میں پڑتی ہے، عقائدی اور دینی معاملات میں خدا اپنے نبیوں کی رہنمائی کرتا ہے، خدا ان کو سچ بات بتا دیتا ہے، یہاں ذاتی تحقیق و جستجو کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اس طرح خطا کا امکان ہوتا ہے اور جب عقائد ہی مبنی بر خطا ہوں تو ایسا مذہب خاک صحیح ہو سکتا ہے؟؟

اب بتائے آپ مرزا کو نبی مانتے ہیں اور خود ہی اس کی باتوں سے بے خبر ہیں 153 سال کا حوالہ بھی آگے لکھا ہوا ہے نا جانے کیوں آپ کو نہیں مل رہا، اس فورم پر سب کو تو آپ خزائن ڈاون لوڈ کر کہ پڑھنے کا مشورہ دے رہے ہوتے ہیں کبھی خود بھی خزائن کھول کر آپ نے دیکھی ہے یا نہیں؟؟


اسی طرح مسیح کی قبر کشمیر میں ہی ان کی آخری تحقیق ہے۔ چشمہ معرفت کے حوالے سے جو طبری کا حوالہ آپ نے دیا ہے اس میں کہاں لکھا ہے حضرت مرزا صاحب بھی اس قبر والی بات کو درست مانتے تھے۔ حضرت مرزا صاحب نے تو اس روایت کا ذکر صرف ان کی موت کے ضمن میں کیا ہے کہ صحابہ بھی مسیح کو وفات یافتہ مانتے تھے اور اس کی دلیل کے طور پر انہوں نے طبری کی روایت کا حوالہ دیا ہے۔ آپ نے دھوکہ دیتے ہوئے صرف وہ الفاظ نقل کردیئے جو قبر سے متعلق ہیں اور جو اس سے پہلے حضرت مرزا صاحب وفات کی بات کررہے ہیں وہ چھوڑ دیئے ہیں۔ حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:

"میں نے یہ بھی ایک روایت میں دیکھا ہے کہ کفار قریش نے شاہ حبشہ کو افروختہ کرنے کے لئے یہ بھی اس کے آگے کہہ دیا تھا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ کو گالیاں دیتے اور توہین کرتے ہیں اور ان کا وہ درجہ نہیں مانتے جو آپ کے نزدیک مسلّم ہے مگر نجاشی نے جس کو حق کی خوشبو آرہی تھی ان لوگوں کی شکایت کی طرف کچھ توجہ نہ کی ۔ مجھے تعجب ہے کہ وہی شکایتیں جو کفار قریش نے حضرت مسیح کا نام لے کر مسلمانوں کو گرفتار کرانے کے لئے نجاشی کے سامنے کی تھیں بعینہ وہ تہمتیں اس وقت کے مخالف مسلمان ہم پر کر رہے ہیں اگر ہم نے یہ کہا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں تو اس میں ہماراکیا گناہ ہے ؟ ہمارے وجود سے صد ہابرس پہلے خدا تعالےٰ ان کی موت قرآن شریف میں ظاہر کر چکا ہے ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات میں ان کو فوت شدہ نبیوں میں دیکھ چکے ہیں ۔ عجیب تر تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اصحاب ان کی موت کے قائل بھی ہو چکے ہیں اور کتاب تاریخ طبری کے صفحہ ۷۳۹ میں ایک بزرگ کی روایت سے حضرت عیسیٰ کی قبرکا بھی حوالہ دیا ہے جو ایک جگہ دیکھی گئی یعنی ایک قبر پر پتھر پایا جس پر یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ عیسی ٰ کی قبر ہے ۔ یہ قصہ ابن جریرنے اپنی کتاب میں لکھا ہے جو نہایت معتبر اور اَئمہ حدیث میں سے ہے مگر افسوس! کہ پھر بھی متعصب لوگ حق کو قبول نہیں کرتے ۔"

اب اس میں کہاں یہ لکھا ہے کہ وہ ان کی قبر کو منوانے کی بات کررہے ہیں۔ صاف لکھا ہے کہ "تمام اصحاب ان کی موت کے قائل ہوچکے تھے" اور اس قبر والی روایت کو اس بات کے لئے بطور ثبوت پیش کیا ہے۔ لیکن آپ کا تو کام ہی صرف تضاد ڈھونڈنا ہے اس طرح کی عینک آپ لگا کر دیکھیں گے تو آپ کو قرآن میں بھی تضاد نظر آئیں گے۔ لیکن آپ شوق سے تضاد نکالتے رہیں آپ لوگوں کے پاس یہی مشغلہ رہ گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ کشمیر میں قبر ثابت کرنے پر ان کی ایک پوری کتاب ہی "مسیح ہندوستان میں" موجود ہے جس میں بحث ہی صرف یہ کی گئی ہے وہ تو پوری کی پوری کتاب آپ کی نظروں سے اوجھل رہی اور اس روایت سے لوگوں کو مغالطہ دے رہے ہیں کہ جیسے وہ اس روایت والی قبر کو درست سمجھتے ہیں۔

ناجانے کس کو آپ دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ مجھے ، اس فورم کے قارئین کو یا شاید سب سے بڑھ کر خود اپنے ضمیر کو؟؟

پوری عبارت نقل کر دینے سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ، مرزا نے لکھا ہے کہ

کتاب تاریخ طبری کے صفحہ ۷۳۹ میں ایک بزرگ کی روایت سے حضرت عیسیٰ کی قبرکا بھی حوالہ دیا ہے جو ایک جگہ دیکھی گئی یعنی ایک قبر پر پتھر پایا جس پر یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ عیسی ٰ کی قبر ہے ۔ یہ قصہ ابن جریرنے اپنی کتاب میں لکھا ہے جو نہایت معتبر اور اَئمہ حدیث میں سے ہے


اب یہاں اس بات کی ذرا تفہیم کر لیتے ہیں

۱۔ مرزا نے یہاں کیوں طبری کا حوالہ دیا ہے
جواب: حضرت عیسیٰ کی موت ثابت کرنے کے لیے ان کی قبر کا حوالہ دیا ہے،

۲۔ مرزا نے کیا اس جگہ طبری پر اعتماد کیا ہے۔اور طبری کی بات خود پڑھی ہے؟
جواب: ہاں مرزا نے اس جگہ طبری کو معتبر جانا ہے اسی لیے اس کا حوالہ دیا ہے اور پھر اس کی تصدیق اس طرح کی ہے " جو نہایت معتبر اور اَئمہ حدیث میں سے ہے" اور یقینا مرزا نے طبری کی یہ عبارت خود پڑھی ہے جبھی تو صفحہ نمبر دے کر وہ حوالہ دے رہا ہے کسی کے واسطے سے نہیں بیان کر رہا۔
۳۔ طبری کی عبارت جس کا حوالہ مرزا نے دیا ہے وہ کیا ہے
جواب وہ ایک لمبی روایت ہے جس میں ایک خآتون کا بیان ہے جو اپنی نذر پوری کرنے مدینہ کے قریب ایک پہاڑ پر چڑھی تھیں اور وہاں اس نے ایک قبر دیکھی جس پر لکھا تھا کہ یہ اللہ کے رسول عیسیٰ بن مریم کی قبر ہے۔

۴۔ جب مرزا نے طبری کو معتبر جانا، اس کی توثیق کی، اس کی عبارت کا حوالہ دیا اس سے حضرت عیسیٰ کی موت کی توثئیق کی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مرزا یہاں حضرت عیسیٰ کی قبر کے مقام سے ناآشنا ہو اس کو نا منوانا چاہتا ہو۔ اگر مرزا کے نزدیک حضرت عیسیٰ کی قبر مدنیہ کے قریب نہ تھی تو مرزا نے یہ حوالہ دیا ہی کیوں، ایسا حوالہ جو اس کے عقیدہ کشمیر کے خلاف جارہا تھا اس کی تصدیق کیوں کی؟
اس کا جواب یہی ہے کہ مرزا کا حافظہ بہت کمزور تھا۔ اس کو کوئی بات یاد نہ رہتی تھی اس کی متعدد مثالیں ہیں جن کو میں فی الحال طوالت کے خوف سے چھوڑتا ہوں، رانا صاحب چاہیں گئے تو ان کو میں یہاں پیش کر دوں گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر مرزا کو یہ عقیدہ حق تعالی نے بتایا جیسا کہ مرزا اعجاز احمدی میں کھتا ہے کہ بارہ سالوں کے بعد مسیحیت کے بارے میںخوب اس پر الہامات ہوئے، تو یہ طرح طرح کی باتیں نہیں کرتا اور صاف لکہ دیتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ فلاں جگہ حضرت عیسیٰ کی قبر موجود ہے۔ یہ چار رنگی باتیں ہی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہیں کہ مرزا جھوٹا تھا ۔
اب اگر کشمیر والی بات سچی ہے تو یہاں مرزا طبری کا حوالہ کیوں دے رہا ہے طبری تو مدینہ کے قریب حضرت عیسیٰ کی قبر بتا ہے اور اگر طبری کا حوالہ درست ہے ، اور اس کو نادرست ماننے کی ہم کو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کیوں کہ مرزا نے خود طبری کی توثیق کی ہے تو پھر کشمیر والی بات غلط۔دونوں صورتوں میں مرزا ہی اپنے امتی کو بہکا رہا ہےاور دونوں میں سے ایک بات مرزا نے غلط کی ہے اور یوں مرزا جھوٹا ثابت ہوتا ہے ۔میں پھر دہرا دوں کہ اللہ دینی معاملات و بالخصوص عقائد میں اپنی نبیوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی نبی کوئی عقیدہ صرف اپنی ذاتی تحقیق سے پیش کر دے اور چار طرح کی باتیں کرے ، یہ بات کسی عام آدمی کے متعلق تو ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن انبیا کی شان اس سے بہت بلند ہےکہ وہ ایسی غلط و متضاد باتیں اور وہ بھی عقائد کے باب میں کریں۔ نعوذ باللہ

یہ بھی عجیب اعتراض ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اگر یہود کے تمام اعتراض جو اناجیل میں مختلف جگہ بیان ہوئے ہیں انہیں ایک جگہ اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہے تو جناب یہ پوری عبارت اناجیل میں دکھائی جائے؟ یہ تو کج بحثی ہے۔ ورنہ کیا جتنے اعتراضات یہود کے وہاں بیان کئےگئے ہیں وہ تمام اناجیل میں موجود نہیں ہیں؟ اب یہ کہنا کہ نہیں انہی الفاظ میں دکھایا جائے اور اکٹھا دکھایا جائے اس پر آپ سے کیا کہا جائے۔ البتہ ایسے سنجیدہ محفلین جو اس دھاگے کو تعصب کے بغیر صرف معلومات کے لئے دیکھ رہے ہیں ان سے گذارش ہے کہ وہ اناجیل کو صرف ایک سرسری نظر سے دیکھ لیں انہیں اسکے علاوہ بھی اور کافی معلومات حاصل ہونگی۔ پوری عبارت سے ظاہر ہے کہ یہودیوں کے اعتراضات کا ذکر ہورہا ہے تو تمام اناجیل سے اور یہودیوں نے انکار مسیح کے جوبھی دلائل اپنی کتابوں میں بیان کئے ہیں ان کا ذکر کیا جارہا ہے۔ جب کسی خاص ٹاپک پر کوئی مواد کسی کتاب سے نکالا جائے تو ظاہر ہے کہ اسی لئے کہ اسے اکٹھا بیان کیا جاسکے اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو یہ کہے کہ یہ تمام مواد ایک ہی جگہ بعنیہ انہی الفاظ میں دکھاو۔

یہ مطالبہ کہ انجیل میں کہاں لکھا ہے کہ یہود کا "صرف" یہی اعتراض تھا۔ یہ بھی کج بحثی کی راہ ہموار کرنے کی ایک کوشش ہے۔ جناب میری پوسٹ نمبر 26 کے تیسرے پیرا کی تیسری سطر غور سے پڑھ لیتے تو اسکی ضرورت نہ پیش آتی۔ میں نے کب کہا کہ یہود کا "صرف" یہی ایک اعتراض تھا۔ ایسی شریف قوم تو شائد ہی دنیا میں پیدا ہوئی ہو جو اپنے وقت کے نبی پر "صرف" ایک اعتراض کرکے چپ رہ گئی ہو۔ ان کے اور بھی اعتراضات تھے مثلاً میسح نے تو آتے ہی آناً فاناً یہود کی بادشاہت قائم کردینی تھی۔ یہ ان کے سرفہرست اعتراضات تھے۔
لیکن یہاں ایک بات اور بھی گوش گذار کردینا مناسب ہے کہ جناب کو تو ان محرف و مبدل کتابوں سے دکھائی گئی یہود سے مماثلت قبول ہی نہیں۔ چلیں یہ کوئی بات نہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں یہ ذکر کیا کہ میری امت یہود کے نقش قدم پر چلے گی اور گن گن کر وہ تمام قدم اٹھائے گی جو یہود نے اٹھائے ہونگے۔ تو یہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا کہ فلاں کتاب سے دیکھ لینا کہ یہود کی کیا مشابہت ہے۔ اور شائد جناب اسی لئے ان کتابوں میں پائی جانے والی مشابہت کو ماننے کو تیار نہیں۔ کوئی بات نہیں۔ اس کی ضروت بھی نہیں۔ حدیث میں صرف یہود سے مشابہت کا ذکر ہے کہ میری امت یہود کے مشابہ ہوکر یہود کے نقش قدم پر چلے گی۔ اب یہ مشابہت کیسے پتہ چلے گی؟ ظاہر ہے اس کے لئے اب یہود کو دیکھنا پڑے گا۔ یہی ایک راستہ ہے۔ تو جناب آپ کو چیلنج ہے کہ کسی بھی یہودی سے مل لیں اور اس سے پوچھ لیں کہ ان کے مسیح کے انکار کی کیا وجہ تھی۔ جو وجوہات وہ بتائے ان پر غور کر لیجئے گا۔ امید ہے کہ اس سے سادہ اور آسان راستہ کوئی اور نہیں ہے مشابہت معلوم کرنے کا۔ اور جب آپ کسی یہودی سے اس بارے میں پوچھیں گے تو وہ سرفہرست جن اعتراضات کا ذکر کرے گا ان میں یہ ہوگا کہ جناب میسح کے آنے سے پہلے ایلیاہ نےآسمان سے آنا تھا وہ اب تک نہیں آیا اور مسیح نے آکر یہودیوں کی بادشاہت قائم کرنی تھی وہ بھی نہیں کی۔ اوپر میں نے ایک ویڈیو بھی شئیر کی تھی اس میں بھی یہود کو روتے ہوئے ایلیا کے آسمان سے آنے کی دعا کرتے ہوئے دیکھ لیں اور اپنے گریبان میں اس مشابہت کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔

۱۔بات درحقیقت کچھ یوں ہے کہ مرزا کو گالیاں دینے کا بالخصوص حضرت عیسیٰ کو گالیاں دینے کا بڑا شوق تھا۔ یہاں اگر میں مرزا کی وہ خرافات لکھ دوں تو یہ بات بہت لمبی ہو جائے گی اور اس محفل کے منتظمین اس کو پسند بھی نہیں کریں گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک مرزا کے کردار اس کی فحش کلامی و بدزبانی کی کوئی مثال میں نے یہاں درج نہیں کی ہے۔
اناجیل یا یوں کہیے کہ پوری بائبل محرف ہو چکی ہے اس میں انبیا کی توہین بھی ہے اور غلط عقائد کا ایک طومار بھی۔ یہاں جو بات قابل اعتراض ہے کہ مرزا نے اپنی کتب میں جگہ جگہ حضرت عیسیٰٰ کی توہین کی ہے اور اتنے سخت الفاظ بیان کیے ہیں کہ میرے ہاتھ لرزتے ہیں ان کو نقل کرتے ہوئے ۔ان اناجیل میں حضرت عیسیٰ کی یوں توہین کسی ایک مرقوم نہیں بلکہ مرزا کچھ باتیں اناجیل سے نقل کرتا ہے اور پھر اس کو ایک کہانی کے انداز میں مرچ مصالحہ لگا کر بیان کر دیتا ہے یہی چیز قابل اعتراض ہے کہ ایک تو عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ پر نازل کتاب کی تحریف کر کہ اس میں حضرت عیسیٰ کی توہین کی پھر مرزا اپنی تحریروں سے اس توہین کو دو چند کر دیتا ہے اب اس انداز کو توہین نبی نہ کہیں تو کیا کہیں۔ یہ تو ستم بالائے ستم ہے۔

۲۔ میں یہود سے مل کر تحقیق کروں، یہ سادہ راستہ بھی ہے اور آپ کا چیلنج بھی۔ رانا آپ شاید بالکل ہی آوٹ آف مائئنڈ ہو رہے ہیں ویسے اس سے آسان راستہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ سب سے پہلے آپ یہود کی کتاب سے یہ بات ثابت کریں۔ یہاں جو آُپ کنی کترا رہے ہیں اور اپنی جان بچانا چاہتے ہیں وہ میں سمجھ رہا ہوں کیوں کہ جناب نے کبھی بائبل کھول کر دیکھی نہیں، نہ ہی ان کی دسترس میں بائبل ہے لہذا میں کسی یہودی سے مل کر پوچھ لوں جناب رانا صاحب کو تکلیف نہ دوں کہ وہ بائبل سے یہ بات نقل کریں۔

اچھا رانا صاحب اپنی پوسٹ نبر ۲۶ کے تیسرے پیرے کی تیسری سطر میں جو آپ نے لکھا ہے
" وہاں سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اگر تُو وہی مسیح ہے جس کا ذکر ہماری کتابوں میں ہے تو اس کے آنے سے پہلے تو الیاس کا آنا لکھا ہے جو آسمان پر زندہ موجود ہے۔ پھر الیاس کہاں ہے "

اب یہ بات یقنا آپ کو کسی یہودی نے جو آپ کا ملنے والا ہو گا اس نے ہی بتائی ہو گی کیونکہ بقول آپ کے سب سے آسان راستہ یہی ہے کہ یہود کی باتیں یہود سے مل کر پوچھی جائیں ، تو اس یہودی سے یہ پوچھیے کہ اعتراضوں میں سب سے بڑا اعتراض یہی تھا، اور دیگر اعتراض چھوٹے تھے یہ بات بائبل میں کہاں لکھی ہے ، اس سے ریفرنس پوچھ لیجے گا اور ہم سب کو بتا دیجئے گا۔ چلیے آپ کی مشکل آپ ہی کے بیان کردہ اصول سے ہم نے آسان کر دی۔اور اس پر ہمارا شکریہ ادا کرنا نہ بھولیے گا۔

۔۔۔۔۔۔کی کمی نہیں غالب ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔


پھر یہ کہنا کہ قرآن کی تفاسیر اور احادیث سے حیات مسیح کو ثابت کیا گیا ہے۔ تو جناب تفاسیر کب سے سند ہوگئیں؟ قرآن سند ہے۔ قرآن نے تو آپ کی کوئی تائید ہی نہیں کی۔ یہاں تک کہ جو معنی آپ کرنا چاہ رہے تھے ان معنوں کے حوالے سے بھی کوئی تائید نہیں کی۔ البتہ اپنے ذہن کے مطابق جنہوں نے قرآن کی تفاسیر آپ کے عقیدہ کے موافق کردیں وہ آپ نے بطور حجت پیش کردیں۔ یہ بھی عجیب ضد ہے کہ امام بخاری و مسلم تو من السما کا لفظ لکھ ہی نہیں رہے اور کوئی ارادہ ان کا ایسا ظاہر نہیں لیکن امام بیہقی کے اپنے ایک جملے پر اصرار کرکے بخاری و مسلم کے منہ میں زبردستی لقمہ دینے کی کوشش کی جارہی کہ ان کا بھی ارادہ من السما کا ہی تھا۔ عجیب بات ہے کہ بخاری و مسلم تو اس بات کا ذکر تک نہیں کررہے اور دوسرے لوگ ان کے منہ میں لقمہ دے رہے ہیں۔ یہ بھی عجیب زبردستی ہے کہ میں بخاری و مسلم میں بیان کردہ صحیح ترین روایت جس کو جانچنے کے لئے اتنی احتیاط برتی گئی کہ ایسی احتیاط کسی اور کتاب کے متعلق ثابت نہیں، اسے چھوڑ کر ایک دوسری کتاب کی بناء جس کا درجہ کہیں بعد میں آتا ہے، اس صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں تحریف قبول کرلوں؟ صرف اس لئے کہ وہ آپ کے غلط عیقیدے کی تائید کرتی ہے۔ جبکہ امام بیہقی صاف کہہ رہے ہیں کہ یہ روایت بخاری میں بھی ہے۔ اور نہ صرف بلکہ مسلم میں بھی۔ یعنی یک نہ شد دو شد۔ اب آپ کے لئے لازم ہے کہ بخاری اور مسلم میں سے کہیں من السما کے الفاظ دکھا دیں ورنہ شرم کریں ان دو مقدس ہستیوں کے منہ میں لقمہ دینے سے۔

جی ہاں قرآن فہمی کے لیے قرآن کی تفاسیر تو معتبر نہیں ہاں اقوال مرزا ہی معتبر ہیں ۔ ایسے متعبر اقوال آُپ کو ہی مبارک ہوں جو انسان کو آنحضرت ، صحابہ تابعین، اور بقیہ ساری امت سے کاٹ کر مرزا کی ذریت میں شامل کر دیں۔ بقیہ ایک بار پھر کمال ڈھٹائی کا مظاہر کرتے ہوئےآپ نے امام بیہقی کا ذکر چھیڑا ہے اس پر میں آُپ کو آسکر ایوارڈ برائے ڈھٹائی کے لیے نامزد کرتا ہوں۔
شرم اٹھ گئی ہے مرزائیوں سے ۔

پھر مولانا مودودی کے اتنے عکس فراہم کرنے کی فضول محنت کی گئی ہے۔ کہ وہ بھی حیات مسیح کا عقیدہ رکھتے تھے۔ جناب میری بات کو غور سے ہی پڑھ لیتے میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ وہ بھی ساری زندگی اسی عقیدے پر زور دیتے رہے۔ میں تو یہ بتا رہا تھا کہ وہ کم از کم یہ تسلیم کرگئے کہ بہرحال بل رفعہ اللہ والی آیت میں کسی بات کی ٹھوس تصریح نہیں ملتی۔

اگر ان کی پوری بات پڑھ کر سمجھ لیتے تو یہ نہ کہتے۔ ایک مقام پر اگر ان کو کچھ شک ہوا تو دیگر مقامات پر انہوں نے صریحا الفاظ میں صحیح عقیدہ کی وضاحت بھی تو کر دی۔اور ویسے بھی اوپر آپ فرما چکے ہیں کہ تفاسیر آپ کے نزدیک سند نہٰیں ہے۔ جب تفاسیر سند نہیں ہیں تو اب مودودی صاحب کا حوالہ کیا آپ یہاں گولہ گنڈا بیچنے کے لیے دے رہے ہیں؟؟


پھر بار بار یہ کہنا کہ آسمان والی احادیث ہم نے پیش کردی اب لازمی ایمان لے آو یہ بھی عجیب زبردستی ہے کہ حدیث چاہےضعیف ہی ہو کیونکہ پیش کردی اس لئے ماننا واجب ہے۔ ایسی کج بحثی بھی آپ ہی کرسکتے ہیں کہ کیونکہ صرف حدیث کا مطالبہ کیا گیا تھا اب چاہے ضیعف ہو اور صحیح احادیث کے مخالف ہی ہو اور چاہے قرآن کے مخالف ہی ہو پھر بھی ضرور مانو۔ ایسا عقیدہ آپ ہی کو مبارک ہو کہ جو پہلے احادیث پر بنا کر کے رکھ لیاجائے اور پھر اسکی بنیاد پر قرآن کی آیات کو اپنی مرضی کے مطلب پہنانے کے جتن کئے جائیں۔ اب آپ کو قرآنی آیات کے ساتھ کتنی زبردستی کرنی پڑرہی ہے۔ یہاں تک بخاری و مسلم کے ساتھ بھی زبردستی کرنی پڑ رہی ہے۔ جہاں قرآن کی آہت پر کسی طرح بھی زبردستی سے کام نہیں چلا تو وہاں تقدیم و تاخیر کا حربہ بناکر قرآنی الفاظ کو آگے پیچھے کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ ﴿3:56﴾۔ اور اس حربے کی بنیاد بھی تفاسیر پر ہی رکھی۔ حضرت عیسی کے متعلق آنے والے الفاظ جن میں ان کی کوئی خصوصیت نہیں تمام انبیاء کے لئے وہی الفاظ قرآن میں استعمال کئے گئے ہیں، تمام انبیاء سے ہٹ کر ان الفاظ کا علیحدہ معنی کرنا پڑتا ہے جو قرآن سے متصادم ہے احادیث سے متصادم ہے لغات سے متصادم ہے کہیں سے اسکی سند نہیں ملتی۔ لیکن وجہ کیا ہے کہ احادیث کی بنا پر پہلے عقیدہ رکھ لیا گیا ہے۔ اس لئے یہ سارے جتن کرنے پڑ رہے ہیں۔

آسمان والی احادیث ضعیف ہیں کہاں ۔ جناب کی پیش کردہ ایک ایک دلیل کو تو توڑ کر بکھیر دیا ہے کون مائی کا لال کہتا ہے کہ یہ احادیث ضعیف ہیں اگر کسی میں ہمت ہے تو ثابت کر کہ دکھائے۔یوں بار بار بات کو دہرانے اور ڈھٹائی کے ساتھ آئیں با ئیں شائیں کرنے سے اب کام چلنے والا نہیں ۔ اوپر جو چلینج آپ کو دیا جا چکا ہے اب اس کا جواب دیے بغیر یہ لفاظیاں نہیں چلیں گی رانا صاحب۔


اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں اتنے جتن کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہمارے عقیدے کی بنیاد قرآن پر ہے۔ اور ہمیں قرآن کی کسی آیت کے ساتھ زبردستی نہیں کرنی پڑتی۔ بلکہ قرآن کی بنیاد پر رکھے گئے اس عقیدے کی روشنی میں نزول کی احادیث کی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق ہی بہت پیاری تشریح ہوجاتی ہے۔ جس کی تائید قرآن اور ان تمام احادیث سے ہوجاتی ہے جن میں یہی قرآنی الفاظ رفع، توفی اور نزول کے استعمال کئے گئے ہیں۔ اس لئے آپ اپنے عقیدے پر خوش رہیں۔ ہمیں تو اللہ کے فضل سے یہی قرآن پر رکھا گیا عقیدہ ہی کافی ہے۔ جو ہمیں مثیل یہود ہونے سے بھی بچا لیتا ہے جو الفاظ ہی کو پکڑ پکڑ کر خدا کے غضب کا مورد ہوگئے۔ لیکن اگر ہم آپ کی طرح عقیدہ رکھیں اور دجال اور نزول کی احادیث کو ان کے ظاہری معنوں پر محمول کرلیں تو ایک ایس دیومالائی کہانی کا خاکہ بنتا ہے جو کسی طرح بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق نہیں۔ لیکن اگر ان احادیث کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق تعبیر کی جائے تو بہت ہی ایمان افروز پیشگوئیاں سامنے آتی ہیں۔

الحمد للہ یہ بات ثابت ہو گئی کہ مرزائیوں کے عقدیے کی بنیاد قرآن ، حدیث، تفاسیر معتبرہ، اقوال صحابہ، تابعین و تبع تابعین اور جمہور امت محمدیہ کے اجماع کے بالکل خلاف ہے اور صرف ایک جھوٹے شخص مرزا غلام احمد قادیانی کے ردی اقوال پر ہے۔ اور یوں وہ ساری امت سے کٹ گئے ہیں ۔ یہود کی طرح الکتاب کی تحریف کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، آخری نبی کی نافرمانی کرتے ہیں اور یوں دنیا اور آخرت میں خدا قہار کے قہر کا شکار ہوں گے۔


یں نے اپنی گذشتہ کسی پوسٹ میں یہ وعدہ کیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے صلیب سے بچنے کے بعد کے واقعات اور کشمیر میں آمد کے ضمن میں کچھ تاریخی حقائق اور شواہد پیش کروں گا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب ان کا بھی کچھ تذکرہ کردیا جائے۔ وہ میں انشاء اللہ اپنی اگلی پوسٹ میں پیش کروں گا۔ اس لئے اگلی پوسٹ ہوسکتا ہے کہ معمول سے کافی بڑی ہوجائے حالانکہ اصل مواد میں سے بہت ہی معمولی سا حصہ چنا ہے پیش کرنے کے لئے۔ لیکن امید ہے کہ جن لوگوں کو تاریخی حقائق سے دلچسپی ہے ان کے لئے یہ بہت مفید معلومات ہونگی۔


مجھے معلوم ہے کہ اب آپ بھاگنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن جب تک آپ ان باتوں کا جواب نہیں دیں گئے جن کا اب ایک انبار آپ پر جمع ہو گیا ہے۔ آپ کی کوئی نئی بات قابل قبول نہیں ہو گی۔بھلے آپ چاہے ٹکٹ کٹوا کر خود کشمیر چلے جائیں اور اس قبر کے مجاور بن جائیں جو بقول آپ کے حضرت عیسیٰ کی ہے۔
۲۔ اب صرف وہی باتیں سنی جائیں گی جن کی بنیاد
ا۔قرآن
ب۔احدیث صحیحیہ
ج۔تفاسیر
د۔ ائمہ مجتہدین کے اقوال پر ہوں گی اور
اس کے علاوہ رانا صاھب کی تمام باتیں رد کر دی جائیں گی

کیوں کہ عقیدہ حیات حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک مذہبی و دینی عقیدہ ہے اس لیے اب اس بارے میں وہی دلائل قابل قبول ہوں گئے جن کی بنیاد ان ماخذات پر ہوں گی جن کی نشاندہی میں نے اوپر کی ہے۔
رانا کی مزید کسی آئیں بائیں کا جواب اس وقت تک نہیں دیا جائے گا جب تک وہ اب تک کی اٹھائی ہوئی تمام باتوں کا اور اوپر دیئے ہوئے میرے چیلنج کا جواب نہیں دے دیتے۔

رانا صاحب اب چاہیں تو اپنی ٹریں (یا بقول مرزا قادیانی کے دجالی گدھا) بھگاتے چلے جائیں۔ میں اور اس فورم کے ممبران اس بات کے منتظر ہیں کہ رانا پہلے تمام باتوں کے جواب عنایت کر دیں۔پھر کوئی نئی بات کریں۔ یہی گذارش میں اس فورم کے منتظمین سے کروں گا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ یہ بحث کسی منطقی انجام پر پہچے تو وہ راناصاحب کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ پہلے ایک بحث کو مکمل کر لیں اور پھر آگے بڑھیں۔اس کے بعد چاہے وہ کشمیر کی بات کریں یا کوئی اور میں حاضر ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
رانا صاحب ابن حسن صاحب کی بات دل کو لگتی ہے کہ پہلے ان کی چند باتوں کا سیدھا سا جواب بمع حوالوں کے دے دیا جائے پھر بحث کو آگے بڑھایا جائے۔ دوسری صورت میں تو یہ بحث برائے بحث بن جائے گی اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔
 
مجھے معلوم ہے کہ اب آپ بھاگنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن جب تک آپ ان باتوں کا جواب نہیں دیں گئے جن کا اب ایک انبار آپ پر جمع ہو گیا ہے۔ آپ کی کوئی نئی بات قابل قبول نہیں ہو گی۔بھلے آپ چاہے ٹکٹ کٹوا کر خود کشمیر چلے جائیں اور اس قبر کے مجاور بن جائیں جو بقول آپ کے حضرت عیسیٰ کی ہے۔
۲۔ اب صرف وہی باتیں سنی جائیں گی جن کی بنیاد
ا۔قرآن
ب۔احدیث صحیحیہ
ج۔تفاسیر
د۔ ائمہ مجتہدین کے اقوال پر ہوں گی اور
اس کے علاوہ رانا صاھب کی تمام باتیں رد کر دی جائیں گی

کیوں کہ عقیدہ حیات حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک مذہبی و دینی عقیدہ ہے اس لیے اب اس بارے میں وہی دلائل قابل قبول ہوں گئے جن کی بنیاد ان ماخذات پر ہوں گی جن کی نشاندہی میں نے اوپر کی ہے۔
رانا کی مزید کسی آئیں بائیں کا جواب اس وقت تک نہیں دیا جائے گا جب تک وہ اب تک کی اٹھائی ہوئی تمام باتوں کا اور اوپر دیئے ہوئے میرے چیلنج کا جواب نہیں دے دیتے۔

رانا صاحب اب چاہیں تو اپنی ٹریں (یا بقول مرزا قادیانی کے دجالی گدھا) بھگاتے چلے جائیں۔ میں اور اس فورم کے ممبران اس بات کے منتظر ہیں کہ رانا پہلے تمام باتوں کے جواب عنایت کر دیں۔پھر کوئی نئی بات کریں۔ یہی گذارش میں اس فورم کے منتظمین سے کروں گا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ یہ بحث کسی منطقی انجام پر پہچے تو وہ راناصاحب کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ پہلے ایک بحث کو مکمل کر لیں اور پھر آگے بڑھیں۔اس کے بعد چاہے وہ کشمیر کی بات کریں یا کوئی اور میں حاضر ہوں۔

آپ کی یہ بات بالکل معقول ہے اور دل کو لگتی ہے، ہر معقول شخص اسے تسلیم کرے گا، میں بھی اس کی بھرپور تائید کرتا ہوں اور دیگر محفلین سے بھی گزارش ہے کہ اس سلسلہ میں اپنی تائیدی یا تردیدی آراء سے نوازیں۔ شکریہ
والسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
حافظ صاحب، میری گزارش ہے کہ انہی حضرات کو یہ سلسلہ جاری رکھنے دیں جو اس کے بارے میں علم رکھتے ہیں۔ ہر ایک کو شامل کرنے سے اچھا نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ ایک اور گزارش، اگر آپ کسی مراسلے کی تعریف کرنا چاہتے ہیں تو اس کا پورا اقتباس لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اکثر صورتوں میں شکریہ کا بٹن کلک کرنا بھی کافی رہتا ہے۔
 

رانا

محفلین
میں اس پوسٹ پر کام شروع کرچکا تھا اس لئے اب یہ پیش کررہا ہوں۔ لیکن اس کے بعد کی پوسٹ میں انشاءاللہ ابن حسن کے بعض نکات پر بھی بات ہوگی۔ لیکن ابن حسن صاحب اس پوسٹ میں بیان کئے گئے تاریخی شواہد آپ کے کسی کام کے نہیں ہیں کیونکہ تاریخی شواہد کی بنیاید ہی "محرف اور مبدل کتب" پر رکھی جاتی ہے اور ستم یہ کہ یہاں تو بائیبل سے بھی بعض شواہد پیش کئے گئے ہیں جوآپ کے نزدیک ظاہر ہے کہ قطعاً ناقابل قبول ہے۔ لیکن آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ آپ کے لئے ہیں بھی نہیں۔ یہ تو ان کے لئے ہیں جنہیں تاریخ اور آثار قدیمہ سے دلچسپی ہے۔

میں نے بہت ہی اختصار کے ساتھ چند باتیں چنی ہیں۔ ان کی ترتیب میں نے اسطرح رکھی ہے کہ :
اول اناجیل کے وہ حوالہ جات جو ان کے واقعہ صلیب سے زندہ بچنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
دوم وہ تاریخی حقائق جو یہ ثابت کرتے ییں کہ انہوں نےواقعہ صلیب کے بعد بھی ایک لمبی زندگی گزاری۔
سوم وہ تاریخی ثبوت جو ان کی کشمیر میں آمد کو بیان کرتے ہیں۔

واقعہ صلیب اور کشمیر کی طرف ہجرت کے متعلق تاریخی حقائق:
واقعہ صلیب کے متعلق یہود کا یہ نظریہ ہے انہوں نے مسیح کو صلیب پر قتل کردیا تھا۔ اور عیسائیوں کا یہ نظریہ ہے کہ وہ واقعی صلیب پر مر گئے تھے لیکن تمام بنی نوع انسانوں کے گناہوں کے کفارے کے طور پر انہوں نے اس موت کو قبول کیا تھا۔ اور پھر تیسرے دن زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے تھے۔ اب اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ صلیب پر چڑھائے تو ضرور گئے لیکن زندہ ہی اتار لئے گئے۔ تو ایک تو ان کا "کفارہ" کا عقیدہ ختم ہوجاتا ہے۔ اور اسی بنیاد پر تیسرے دن زندہ ہونا بھی پھر غلط ثٓابت ہوجاتا ہے تو پوری عیسائیت کی بنیادیں ہی منہدم ہوجاتی ہیں اور بحیثیت مذہب عیسائیت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔

واقعہ صلیب سے بچنا:
حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر لٹکائے تو ضرور گئے لیکن صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ بے ہوشی کی حالت میں ہی زندہ ہی اتار لئے گئے اور زخموں سے شفا پانے کے بعد دوسرے انبیاء کی طرح وہاں سےہجرت کرگئے۔ یہودی میسح کو تورات کی تعلیم کے مطابق صلیب پر مار کر انہیں ملعون ثابت کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے رومی حکومت کے پاس شکایت کی کہ شخص رومی حکومت کا غدار ہے اور اپنے کو خدا کا بیٹا کہتا ہے۔ مسیح کا مقدمہ پیلاطوس نامی جج کی عدالت میں پیش ہوا۔ اسی رات پیلاطوس کی بیوی کو مسیح کے متعلق خواب آیا اور اس نے اپنے خاوند کو کہلا بھیجا کہ تو اس راستباز سے کچھ کام نہ رکھ۔ کیونکہ آج رات میں نے اس کے سبب سے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔ چنانچہ پیلاطوس نے میسح کو راستباز سمجھ کر اس کے خلاف فیصلہ دینے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی اور علامت کے طور پر اپنے ہاتھ عدالت میں پانی منگا کر دھوئے کہ میں اس راستباز کے قتل سے بری ہوتا ہوں۔ لیکن یہودیوں نے کہا کہ اگر تو اس مرد کو چھوڑتا ہے تو قیصر کا خیرخواہ نہیں۔ اس دباو سے مجبور ہوکر پیلاطوس نے مسیح کو صلیب دیئے جانے کا فیصلہ کردیا۔ لیکن اپنے فیصلے کا التوا جمعہ کے روز تک کیا۔ کیونکہ پیلاطوس جانتا تھا کہ یہودی اپنی شریعت کے مطابق صرف جمعہ کی شام تک ہی مسیح کو صلیب پر رکھ سکتے ہیں۔ اناجیل سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پیلاطوس نے صلیب دینے کے باوجود اس بات کی پوری کوشش کی تھی کہ ان کی موت واقع نہ ہونے پائے سپاہیوں کا مسیح کی ہڈیاں نہ توڑنا بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔جمعہ کے روز مسیح کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھایا گیا۔ اور سبت کے شروع ہونے سے پہلے ہی تینوں کو صلیب سے اتار لیا گیا۔ دونوں چور اس وقت تک زندہ تھے اس لئے معمول کے مطابق ان کی ہڈیاں توڑی گئیں۔ مسیح اس وقت خدائی تدبیر کے ماتحت بیہوش ہوچکے تھے۔ اس لئے سپاہیوں نے انہیں مردہ سمجھ کر ان کی ہڈیاں نہ توڑیں۔ تاہم ایک سپاہی نے ان کی پسلیوں میں بھالا چبھویا تو خون اور پانی بہہ نکلا جو ان کے زندہ ہونے کا ثبوت تھا کیونکہ مردہ جسم سے خون نہیں بہتا۔ خود پیلاطوس بھی تجربہ کی بنا پر یہ سمجھتا تھا کہ اتنی جلدی مسیح صلیب پر نہیں مرسکتے۔ چنانچہ جب یوسف آرمتیاہ نے مسیح کی لاش مانگی تو اس نے متعجب ہو کر پوچھا کہ کیا مسیح اس قدر جلدی مر گیا ہے؟

تواریخ سے ثابت ہے کہ مسیح کو صلیب سے اتار کر ایک زمین دوز کمرے میں رکھا گیا۔ اور مر اور لوبان وغیرہ ان کے جسم پر ملا گیا۔ حکیم نقدیموس نے ان کا علاج کیا۔ آج تک طب کی کتابوں میں مرہم عیسی کا نسخہ ملتا ہے۔ ان حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ حواری ان کو زندہ ہی سمجھتے تھے تبھی تو ایک زمین دوز کمرے میں ان کا علاج کرتے رہے۔

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانے تک اس عظیم الشان تحقیق کی تائید کے لئے جس قدر تاریخی شواہد میسر آسکتے تھے وہ آپ نے اپنی تصانیف "میسح ہندوستان میں"، "رازحقیقت" اور "نورالقران" میں درج کردیئے تھے۔ خاص طور پر "مسیح ہندوستان میں" تو بڑی وضاحت سے افغانوں اور کشمیریوں کا بنی اسرئیلی ہونا بھی ثابت کیا گیا۔ اسی تصنیف "مسیح ہندوستان میں" آپ نے وضاحت سے اس امید کا اظہار فرمایا ہے کہ آئندہ زمانے میں ان حقائق کی تائید میں الہی منشاء کے مطابق مذید انکشافات بھی ہوں گے۔ چناچنہ آپ فرماتے ہیں:
"اس پیشگوئی ﴿کسر صلیب﴾ میں یہی اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں خدا کے ارادہ سے ایسے اسباب پیدا ہوجائیں گے جن کے ذریعہ سے ﴿مسیح کے﴾ صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت کھل جائے گی۔ تب انجام ہوگا اور اس عقیدہ کی عمر پوری ہوجائے گی۔ لیکن نہ کسی جنگ اور لڑائی سے بلکہ محض آسمانی اسباب سے جو علمی اور استدلالی رنگ میں دنیا میں ظاہر ہوں گے۔ پس ضرور تھا کہ آسمان ان امور اور ان شہادتوں اور ان قطعی اور یقینی ثبوتوں کو ظاہر نہ کرتا جب تک میسح موعود دنیا میں نہ آتا اور ایسا ہی ہوا۔"

تاریخی حقائق اور ثبوت:

متکوب یروشلم:
1873 میں مصر میں اسکندریہ کے آثار قدیمہ کے ایک قدیم یونانی راہب خانے سے واقعہ صلیب سے تھوڑا ہی عرصہ بعد کا لکھا ہوا ایک خط ملا جو ایسینی فرقہ کے ایک راہب نے اپنے سلسلہ کے ایک رکن کو یروشلم سے اسکندریہ بھیجا تھا۔ یہ مکتوب 1907 میں امریکن بک کمپنی شکاگو نے Crucifixion by An Eye Witness کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس خط میں اس راہب نے مسیح علیہ اسلام کے واقعہ صلیب کے چشم دید حالات لکھے ہیں۔ اس خط میں وضاحت سے لکھتا ہے کہ حضرت مسیح عیلہ السلام کو صلیب سے زندہ ہی اتار لیا گیا تھا۔ ایسینی طبیب تقدیموس نے آپ کے زخموں کا علاج کیا اور آپ خفیہ طور پر یروشلم سے ہجرت کرگئے۔ اس خط میں لکھا ہے کہ مسیح نے واقعہ صلیب کے بعد اپنے شاگردوں سے کہا:
"میں نہیں بتا سکتا کہ اب کہاں جاوں گا کیونکہ میں اس امر کو مخفی رکھنا ضروری سمجھتا ہوں اور میں سفر بھی تنہا کروں گا۔" ﴿ Crucifixion by An Eye Witness ﴾

مسیح علیہ السلام کا کفن:
جرمن سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے آٹھ سال تک مسیح کے کفن کے متعلق ایک تحقیق کرکے 1957 میں دنیا کو اپنی تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کیا۔ اسکی کی پوری تفصیل Kurt Berna کی تصنیف Das Lenin میں ملتی ہے۔
اٹلی کے شہر ٹیورن میں مسیح علیہ السلام کا وہ کفن موجود ہے جس میں مسیح علیہ السلام کو صلیب سے اتارنے کے بعد لبیٹا گیا تھا۔ صلیب سے اتارنے کے بعد جسم پر خون کے مختلف دھبے اور جسم پر لگائی جانے والی مرہموں اور دوسرے نشانات موجودہ زمانہ کی ترقی یافتہ فوٹو گرافی کی روشنی میں واضع طور پر ثابت کررہے ہیں کہ مسیح کو جب صلیب سے اتارا گیا تو آپ زندہ تھے۔ ان سائنسدانوں کے تحقیق پر پوپ نے خاموشی ہی اختیار کئے رکھی کیونکہ اس تحقیق کے نتیجے میں کیتھولک چرچ کی مذہبی تاریخ کا وہ اہم راز منکشف ہوکر رہ گیا ہے جس پر ان کے بنیادی عقائد کی اساس تھی۔ اناجیل میں بیان ہے کہ مسیح نے صلیب پر جان دے دی تھی ﴿جو اصل میں صرف بےہوشی تھی﴾ مگر سائنسدان مصر ہیں کہ ان کے دل نے عمل کرنا بند نہیں کیا تھا۔ کپڑے کا خون جذب کرنا بتاتا ہے کہ مسیح صلیب سے اتارے جانے کے وقت زندہ تھے۔ نیویارک سے ایک کتاب The Holy Shroud شائع ہوئی جس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ کفن پر آنے والی منفی تصویر Negative کے بنانے میں کسی انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہوسکتا کیونکہ منفی تصویر کا تصور تو کیمرہ کی ایجاد کے بعد پیدا ہوا ہے جبکہ کفن کی چادر کیمرہ کی ایجاد سے پہلے ہی موجود تھی۔ یہ منفی تصویر چادر پر ان دواوں کے کیمیکل ری ایکشن اور دوسرے عوامل کا نتیجہ تھی جو مسیح پر لگائی گئی تھیں۔ اس کو نیشنل جیوگرافک کی ڈاکیومنٹری میں دیکھا جاسکتا ہے۔

پھر 1978 کے لگ بھگ دوبارہ تحقیق ہوئی جس میں کفن کے چادر سے ٹکڑے کاٹ کر ان پر ریسرچ کی گئی۔ اس تحقیق کو پہلے تو غلط راہ پر ڈالنے کی چرچ کی طرف سے کوشش کی گئی۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چرچ کے ایوانوں میں اس ہوشربا تحقیق سے کس قدر زلزلہ برپا ہے۔ کیونکہ صرف اس ایک بات سے کہ وہ صلیب سے زندہ اتار لئے گئے تھے ان کی دونوں عقائد تثلیث اور کفارہ کی عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے۔ اس پر بڑی تفصیل کے ساتھ نیشنل جیوگرافک نے اپنی ایک ڈاکیومنٹری میں روشنی ڈالی ہے۔ نیشنل جیوگرافک کی اس ڈاکیومنٹری کا صرف لنک دے رہا ہوں یوٹیوب سے اس کو دیکھ لیں۔ اردو میں بنائی گئی یہ ڈاکیومنٹری بہت دلچسپ اور معلوماتی ہے۔




بحیرہ مردار کے صحیفے:
1947 میں ایک بدو بحیرہ مردار کے مغربی ساحل پر وادی قمران کی چٹانوں میں اپنی بکری کی تلاش میں پھر رہا تھا۔ اس کی نظر ایک تنگ غار پر پڑی اس نے اپنے جذبہ تجسس کی تسکین کےلئے ایک پتھر اندر پھینکا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ کسی برتن سے ٹکرایا ہے۔ دوسرے دن وہ اپنے ایک اور ساتھی کی مدد سے اس غار میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ قطاروں میں مرتبان پڑے ہیں۔ اس نے انہیں کھولا تو ان میں دو ہزار سال پرانے صحیفے تھے۔ یہ صحیفے جلد ہی دنیا کے قابل ترین محقیقن کے سامنے آئے جنہوں نے نہایت عرقریزی جانفشانی اور احتیاط کے ساتھ ان بوسیدہ شہپاروں کو صاف کرکے ان کا مطالعہ کیا اور اپنی تحقیقات کے نتائج اور صحائف کا ترجمہ شائع کردیا۔ لیکن ان کو ترجمہ کرنے اور ان کی اشاعت کی راہ میں چرچ نے اتنی رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی اور اب کا تو پتہ نہیں لیکن شائد اب بھی مکمل طور پر شائع نہیں ہوئے۔ وجہ یہ کہ ان میں بیان کردہ حقائق سے عیسائیت کے بنیادی عقائد پر ایسی چوٹ پڑتی ہے کہ عیسائیت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔

ماہرین آثار قدیمہ کی رائے ہے کہ ان صحائف کو مرتب کرنے والے پہلی صدی عیسوی کے عیسائی ہیں جنہوں نے یہودیوں کی ایدارسانیوں سے ایک حد تک محفوظ رہنے کے لئے وادئی قمران میں رہائش اختیار کی تھی۔ جہاں وہ اپنی روحانی تربیت خدت خلق اور مقدس نوشتوں کو ظبط تحریر میں لاکر محفوظ کرنے کا کام کرتے رہے۔ اس جماعت میں شامل ہونے کے لئے یہ عہد کرنا پڑتا تھا کہ "میں ہمیشہ پوری دیانت داری اور احتیاط سے صحائف اور نوشتوں کو محفوظ و مخفی رکھوں گا"۔ سن 68 عیسوی میں جب رومیوں نے یروشلم کے گردونواح کو فتح کرکے وہاں قتل و غارت گری شروع کی ساتھ ہی عیسائیوں کے مذہبی لٹریچر کو ضائع کرنا بھی شروع کردیا۔ ان حالات میں عیسائیوں کے لئے اپنے مرکز سے ہجرت کرنا ناگزیر ہوگیا۔ انہوں نے حفاظت کے نقطہ نگاہ سے اس موقع پر اپنی عظیم الشان لائبریری کو جو "صحف مقدس" پر مشتمل تھی قریبی غاروں میں منتقل کرنا شروع کردیا۔۔ ﴿The Ded See Community by Kurt Sehubert p25﴾

ان صحائف سے حضرت عیسی علیہ السلام کی نامعلوم اور مابہ النزاع زندگی کے حالات پر روشنی پڑتی ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا ایک راستباز نبی یہودیوں کی طرف مبعوث ہوا۔ یروشلم کے علماء یہود اور سردار کاہن نے اس کی ہرممکن مخالفت کی۔ اس مقدس انسان کو گرفتار کرکے اذیتیں دی گئیں۔ اور ایک غلط فیصلہ کا نشانہ بنا کر اسے لعنتی موت مارنے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ تعالی نے اس صادق انسان اور راستباز نبی کو موت کے منہ بچاکر دشمن کو خائب و خاسر کردیا۔ ان مقدس صحائف میں اس راستباز انسان کے وہ گیت بھی شامل ہیں جو اس نے دشمن کے ہاتھوں سے نجات حاصل کرکے خدا کی حمد میں لکھے ہیں۔ اور بیان کیا ہے کہ خدا نے اس کی تضرعات کو سنا اور موت کے پیالہ کو اس سے ٹال دیا۔ اب وہ دنیا کے وسیع میدانوں کا سفر کرکے اس خدا کے نام کو بلند کرے گا۔

کیمبرج کے Dr. J. L. Teichner لکھتے ہیں:
"بحیرہ مردار کے صحائف میں صادق استاد اور اس کی غریب جماعت کا ذکر ہے اور تعلیمات کو بگاڑنے والے ایک مبلغ کا بھی۔ یہ غریب جماعت ابیونی عیسائی ہیں جو یہودیوں میں سے مسیح پر ایمان لائے تھے اور انہوں نے یہودی شریعت پر برابر عمل جاری رکھا اور مقدس استاد یسوع ناصری ہیں"۔ (The Serolls From the Dead Sea by Edmond Wilson p97)

ان صحائف میں سے کچھ اقتباس پیش کرتا ہوں۔ جو حضرت عیسی علیہ السلام کی مناجات اور گیتوں میں سے لئے گئے ہیں اور الگ الگ زبور نمبر ڈال کر شائع کیئے گئے ہیں۔

مسیح کا اظہار تشکر کہ خدا نے اسے یہودیوں کے مظالم سے بچایا۔
"اے میرے خداوند، میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تیری نگاہیں میری روح پر مرکوز ہیں۔ تو نے مجھے ان کے غضب سے بچالیا ہے جو تیری جھوٹی حمد کرتے ہیں۔ تو نے غریب کی جان بچائی جس کا خون وہ اس غرور کی تشہیر کے لئے بہانا چاہتے تھے کہ وہ تیرے عبادت گزار ہیں۔ انہوں نے شرپسندوں کے کہنے پر مجھے لعنت و ملامت کے لئے چنا۔ لیکن اے میرے خدا۔ تو زور آور کے ہاتھ سے بچانے کے لئے غریب اور بے آسرا کی مدد کو آ پہنچا۔ تو نے مجھے ہمت عطا کی کہ میں ان شیطانی تدابیر اور رومنوں کے پاس مخبری کے خوف سے تیری عبادت کو ترک کرنے کے گناہ سے بچا رہا۔" ﴿زبور 4﴾


مسیح کا دیگر یہودی قبائل میں تبلیغ کرنے کا عزم۔
"اے میرے خدا! میری تیری حمد کرتا ہوں کہ تونے میری روح کو زندگی کے بندھن میں باندھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ظالموں نے میری جان لینے کی کوشش کی کیونکہ میں تیرے عہد پر قائم ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے نہ سمجھا لیکن تیرے حضور میرا موقف محکم ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ تیری ہی مرضی ہے کہ وہ میری جان پر قابو نہیں پاسکے ۔۔۔۔۔۔ میرا قدم سچائی پر پوری طرح گامزن رہے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اور میں یہود کے حلقوں میں تیرے نام کی ثناء کروں گا۔ ﴿زبور 3﴾

میسح کی ہجرت:
"پس مجھے میرے وطن سے اس طرح نکال دیا گیا جیسے پرندے کو گھونسلے سے۔ میرے عزیزواقارب مجھے چھوڑ گئے۔ وہ مجھے ایک ٹوٹا ہوا برتن سمجھتے ہیں۔ لیکن اے خدا! تو شیطان کے تمام حربوں کو ناکام بنا دے گا۔" ﴿زبور 8 الف﴾

حضرت مسیح کی تصاویر:
عیسائی عقیدہ کی تردید میں اللہ تعالی روز بروز نئے نئے دلائل پیدا فرماتا رہا۔ چناچہ عرصہ قبل ایسی تصاویر عیسائیوں کی طرف سے شائع ہوئی تھیں جو کہ دوسری اور تیسری صدی کے ابتدائی مسیحیوں نے حضرت مسیح کی بنائی تھیں۔ اور جو ان کے ہاں مقدس امانت کے طور پر محفوظ چلی آتی تھیں۔ یہ تصاویر انسائیکلو پیڈیا برٹینکا جلد 14 میں شائع ہوئیں۔ ان تصاویر پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے ک یہ جوانی اور بڑھاپے کی تصاویر ہیں۔ بڑھاپے کی تصویر سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح اس وقت سو سال سے زائد عمر کے تھے۔
بڑھاپے کی تصویر سے موجودہ عیسائیت کے اس عقیدہ کی واضع طور پر تردید ہوتی ہے کہ حضرت میسح 33 سال کی عمر میں صلیب پر مرنے کے بعد آسمانوں پر چلے گئے تھے۔ اس تصویرسے ثابت ہے کہ حضرت مسیح نے زمین پر عیسائیوں کے درمیان لمبی عمر گزاری۔ اور وہ بوڑھے ہو کر فوت ہوئے۔ عسائی صاحبان ان تصاویر کا انکار نہیں کرسکتے۔ یہ آج تک ان کے گرجوں اور لائبریریوں میں مقدس یادگار کے طور پر محفوظ ہیں۔ اگر کوئی غور کرے تو یہی بات "صلیب" کو پاش پاش کردینے کے لئے کافی ہے۔


ابرکی یس کا لوح مزار:
"ہیروپولس" ایشیائے کوچک کے علاقہ "فرگیہ" کا ایک شہر تھا۔ یہاں کے ایک شہری "ابرکی یس" نے بہتر سال کی عمر میں اپنا لوح مزار اپنے سامنے لکھوایا۔ کتبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام اور پولوس کا ہمعصر تھا۔ غالباً یوحنا رسول کا زمانہ بھی انہوں نے پایا۔ تاریخ کلیسیا میں پاپیاس کے بعد ابرکی یس کی جانشینی کا ذکر موجود ہے۔ (The Dictionary of Christian Biography by Dr. W. M. Smith p5)

رومن حکومت کے تسلط اور یہود کی مخالفت کی وجہ سے "ابرکی یس" واضع رنگ میں بعض باتیں نہیں لکھ سکتے تھے۔ اس لئے آپ نے تمثیلی زبان میں نہایت خوبصورت پیرائے میں بعض ایسے تاریخی حقائق ریکارڈ کئے ہیں۔ جو کلیسیا کی عام تاریخ میں نہیں پائے جاتے۔ تاہم جو شخص عیسائی علم کلام، تصوف اور تاریخ کا مطالعہ رکھتا ہے اس کے لئے یہ تمثیلی زبان سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ اس کتبہ سے جو پہلی صدی عیسوی کے آخر اور دوسری صدی کی ابتدا میں لکھوایا گیا تھا، واضع ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم علیہ السلام اس وقت تک زندہ تھے اور فریضہ تبلغ ادا کررہے تھے۔ لوح مزار کی عبارت حسب ذیل ہے:

"میں جو ایک منتخب شہر کا باشندہ ہوں اپنے عین حیات میں، میں نے یہ مقبرہ تیار کروایا ہے۔ تاکہ جب میرا وقت آخر آجائے تو میرا جسم اس میں آسودہ ہو۔
میرا نام "ابرکی یس" ہے۔ میں اس مقدس چوپان کا شاگرد ہوں جو اپنی بھیڑوں کو پہاڑوں اور میدانوں میں چراتا ہے جس کی آنکھیں کشادہ اور سب پر نگران ہیں۔ جس نے مجھے حقیقی زندگی کا سبق دیا۔ اور مجھے روم میں شاہی جاہ و جلال اور سنہری لباس میں ملبوس ملکہ کو، جو طلائی پاپوش پہنے ہے دیکھنے کے لئے بھیجا۔ وہاں میں درخشندہ مہر رکھنے والے لوگ دیکھے۔ اسی طرح میں نے شام کے میدانوں، بلادوامصار اور فرات کے پار نصیبین کا بھی سفر کیا۔ ہر جگہ مجھے ایک ساتھی کی معیت نصیب ہوئی جیسا کہ پولوس میرے ساتھ رتھ میں سوار تھا۔
ہرجگہ میرا ایمان میرا رہنما تھا۔ ہر کہیں مجھے ایمان کی بدولت چشمہ کی وہ بڑی اور تازہ مچھلی﴿یعنی مسیح﴾ عطا ہوئی جو کہ بے لوث کنواری نے پکڑی۔ یہ خاتون ہمیشہ اپنے احباب کے سامنے کھانے کے لئے مچھلی پیش کرتی ہے۔ اس مقدسہ کے پاس شراب طہور﴿یعنی ان کی تعلیم اور روحانیت﴾ بھی ہے جسے وہ پانی میں ملا کر روٹی کے ساتھ دیتی ہے۔
میں نے جس کا نام "ابرکی یس" ہے، یہ عبارت املا کروائی تاکہ میری موجودگی میں یہ لکھی جائے۔ میری عمر اس وقت بہتر سال ہے۔ ہر اس دوست کو جو اس عبارت کی حقیقت کو سمجھتا ہے درخواست دعاہے۔ میری قبر میں اور کوئی دفن نہ کیا جائے۔ لیکن اگر ایسا ہو تو رومن خزانہ میں دس ہزار طلائی سکے اور میرے محبوب شہر ہیروپولس کو ایک ہزار طلائی سکے دینا لازمی ہیں۔" (Light from the Ancient Past by Jack Finegan p409)


کچھ عرصہ قبل یورپ میں ایک کتاب Jesus in Rome شائع ہوئی۔ رابرٹ گریوز اور جوشواپوڈرو نے اپنی اس کتاب میں تاریخی اور سائنسی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر وفات نہیں پائی تھی۔ آپ کا اپنے مادی جسم کے ساتھ آسمان پر جانا نہ ثابت ہے اور نہ ہی طبعی لحاظ سے یہ ممکن۔ مصنفین لکھتے ہیں:

"تاریخی طور پر یہ ایک اہم سوال ہے کہ جب مسیح کوہ زیتون پر بیتھینی کے نزدیک اپنے حواریوں سے مادی جسم میں رخصت ہوئے تو اس کے بعد ان کا کیا بنا؟
اس امر پر کلیسیا کے رہنماوں کا اتفاق معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال صرف ایمان کے ذریعے سے ہی حل ہوسکتا ہے۔ مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں ﴿خواہ سطحی طور پر ہی سہی﴾ کہ مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کا عقیدہ جوہری طبعیات Necleur Physics کے پیچیدہ نتائج کے متناقض ہے۔ حضرت مسیح کے گوشت اور خون والے جسم کے لئے کائنات میں مشینی امداد کے بغیر پرواز کرنا ناممکن تھا۔ یا ان کے جسم کے فوری طور پر غیر مادی Demeterialise ہوجانے کے نتیجہ میں ایسی جوہری طاقت پیدا ہوتی جو سارے یروشلم اور فلسطین کو تباہ کرکے رکھ دیتی۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ یہ حادثہ کبھی نہیں ہوا۔ اب ایک عیسائی کے لئے جو نجات کا متمنی ہے۔ رہنمایان کلیسا صرف ایک ہی نصیحت پیش کرسکتے ہیں کہ وہ کفر اور شبہات سے بچنے کی دعا کرتا رہے۔
وہ لوگ جو ان ہر دو امور کو اپنے علم کے ساتھ غیر مطابق پاکر رد کردیتے ہیں ان کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ:
1۔ یاتو حضرت عیسی صلیبی موت سے بچ نہیں سکے اور آپ کے جملہ حواری جو ایسا خیال کرتے تھے محض ایک دھوکے میں رہے ﴿اس صورت میں یہ سوال﴾ کہ کوہ زیتون سے رخصت ہونے کے بعد مسیح کے جسم کا کیا بنا پیدا نہیں ہوتا۔
2۔ اور یا یہ کہ مسیح صلیبی موت سے بچ گئے اس جہت سے یہ سوال تاریخی طور پر بہت اہم بن جاتا ہے۔ عیسائی، یہودی، ہندو اور مسلمان مصنفین نے اس سلسلہ میں کافی فواد فراہم کیا ہے کہ مسیح واقعہ صلیب کے بعد فلسطین سے باہر اس مادی جسم کے ساتھ ظاہر ہوئے تھے۔
یہ ضروری نہیں کہ ہم ان تمام شہادات کو فیصلہ کن اور یقینی تسلیم کرلیں لیکن ہم ان سے بے اعتنائی بھی نہیں برت سکتے۔ واقعہ صلیب اور مسیح کے آسمان پر جانے کے جو بیانات نئے عہدنامہ میں درج ہیں ان کے متناقض ہونے کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔" (Jesus in Rome by R. Graves & Jesu Podro p4)


کشمیر ہی کیوں؟
ان حقائق سے واضع طور پر ثابت ہے کہ مسیحی محقیقین بھی اب اس امر کے قائل نظر آتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام صلیب سے زندہ اتر آئے تھے۔ البتہ مسیح فلسطین سے ہجرت کرکے کہاں گئے؟ قرآن میں واضع طور پر ذکر ہے کہ: وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ﴿العمران 50﴾ یعنی وہ بنی اسرائیلل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ جہاں وہ مبعوث ہوئے وہاں تو بنی اسرائیل کا صرف 10 فیصد حصہ آباد تھا۔ باقی کے 90 فیصد بنی اسرائیل کے متعلق تاریخ سے ثابت ہے کہ ان کے دس قبائل افغانستان اور کشمیر میں آکر بس گئے تھے۔ اب قرآن تو انہیں تمام بنی اسرائیل کا رسول ٹھہرا رہا ہے لیکن عملاً وہ صرف دس فیصد بنی اسرائیل کے رسول ثابت ہوتے ہیں۔

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی اس تاریخی تحقیق کو اس رنگ میں مکمل طور پر دنیا کے سامنے پیش فرمایا ہے کہ مسیح فلسطین سے ہجرت کرنے کے بعد بنی اسرائیل کے ان دس قبائل کی طرف گئے جنہیں بخت نصر نے فلسطین سے جلا وطن کردیا تھا اور وہ فلسطین کے مشرقی ممالک میں دور دور تک جاکر آباد ہوگئے تھے۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے تاریخی شواہد سے ثابت کیا کہ افغانستان اور کشمیر میں اسرائیلی قومیں آباد ہیں۔ اور حضرت عیسی علیہ السلام نے جیسا کہ فرمایا تھا:
"میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑخانہ کی نہیں۔ ضرور ہے کہ انہیں بھی لاوں۔ وہ میری آواز سنیں گی اور ایک ہی گلہ ہوگا اور ایک ہی گلہ بان۔" ﴿یوحنا 16-10﴾

انجیل کے اس بیان کے مطابق اور اس قرآنی آیت وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ﴿العمران 50﴾ کے مطابق آپ ان قبائل میں گئے اور پھر کشمیر میں قیام فرمایا اور وہیں وفات پائی۔

بدھ مذہب اورحضرت عیسی علیہ السلام:
بدھ مذہب کی کتابوں سے بہت سی حیرت انگیز شہادتیں اس ضمن میں ملتی ہیں۔ اور یہ وہ مشابہتیں ہیں جو بدھ میں اور مسیح میں اتنی زیادہ ہیں کہ جنہوں نے مغربی محققین کو بھی چکرا کر رکھ دیا ہے۔ ان میں سے صرف سرسری طور پر چند نکات شئیر کروں گا کیوں کہ تفصیل کی یہاں گنجائش ہی نہیں ہے۔ بدھ مذہب سے مراد ان مقامات کا مذہب ہے جو تبت کی حدود یعنی لیہ، لاسہ، گلگت اور ہمس وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ اول وہ خطاب جو بدھ کو دیئے گئے مسیح کے خطابوں سے مشابہ ہیں۔ اور ایسا ہی وہ واقعات جو بدھ کو پیش آئے وہ مسیح کی زندگی کے واقعات سے ملتے ہیں۔۔ مثلا مسیح کی شیطان سے آزمائش کا قصہ بالکل ویسا ہی بدھ کے متعلق ہے۔ اور جیسا کہ مسیح نے اس آزمائش کے وقت روزے رکھے ایسا ہی بدھ کے متعلق بھی لکھا ہے۔ یہاں تک کہ اس آزمائش کے وقت میسح کی عمر بھی تقریباً وہی تھی جو بدھ کی تھی۔ پھر بدھ کی اخلاقی تعلیم کو اس قدر انجیل کی اخلاقی تعلیم سے مشابہت ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ایک کتاب سے دوسری میں بیان کردی گئی ہے۔ پھر جس طرح مسیح تمثیلوں میں وعظ کرتے تھے اسی طرح بدھ کے متعلق بھی لکھا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ کئی تمثیلیں بالکل وہی ہیں جو مسیح نے انجیل میں بیان کی ہیں۔ یہاں تفصیل نہیں بیان کی جاسکتی جو تفصیل سے جاننا چاہیں اور حوالہ جات کے لئے "مسیح ہندوستان میں" کو دیکھ لیا جائے۔ بہرحال بدھ مذہب کی کتابوں اور تعلیمات اور بدھ کے واقعات کو مسیح کی زندگی اور انجیل سے اس قدر مشابہت ہے کہ بعض مغربی محققین نے تو اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ حضرت عیسی نے واقعہ صلیب سے پہلے کسی وقت ان علاقوں کا سفر کیا ہوگا اور یہاں بدھ مذہب سے متاثر ہو کر وہی باتیں واپس جاکر بیان کردیں اور وہی واقعات اور تمثیلیں اور خطاب اپنے لیئے بیان کردیے۔ اور ان محققین نے تو یہاں تک سوچا کہ کوئی ایسا راستہ معلوم ہوجائے جس سے یہ پتہ لگ جائے کہ حضرت مسیح پر بدھ مذہب کا اثر ہوا تھا۔ اسطرح خود ہی اپنی مقدس ہستی کو نعوذ باللہ سرقہ کا مرتکب قرار دے رہے ہیں۔ اور یہ نتیجہ نکالنا ان کی مجبوری بھی تھی کیونکہ بدھ پانچ سو سال پہلے حضرت عیسی سے گزرے تھے۔ لیکن حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اس خیال کی سختی سے تردید کی ہے کہ حضرت عیسی واقعہ صلیب سے پہلے یہاں آئے تھے اور یہاں سے واپس جاکر نعوذ باللہ سرقہ کے مرتکب ہو کر یہ تعلیم پھیلا دی تھی۔ بلکہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے بتایا کہ بدھ مذہب کی کتابوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ گوتم بدھ نے ایک اور آنے والے بدھ کی نسبت پیشگوئی کی تھی جس کا نام "متیا" بیان کیا تھا۔ یہ پیشگوئی بدھ کی کتاب لگادتی ستتا میں ہے۔ اس پیشگوئی میں بیان کیا گیا تھا کہ متیا لاکھوں مریدوں کا پیشوا ہوگا جیسا کہ میں اب سینکڑوں کا ہوں۔ اور "متیا" کو لفظ مسیحا سے بھی مشابہت ہے۔ اور بدھ نے یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ جس مذہب کی بدھ نے بنیاد رکھی ہے وہ زمین پر پانچ سو برس سے زیادہ نہیں رہے گا اور جس وقت زوال کے آثار ہوں گے تب متیا اس ملک میں آکر دوبارہ ان اخلاقی تعلیموں کو دنیا میں قائم کرے گا۔ اب بالکل ایسا ہی حضرت عیسی پانچ سو برس بعد بدھ کے ہوئے ہیں جیسا کہ بدھ نے اپنے مذہب کے زوال کی مدت مقرر کی تھی۔ تب حضرت مسیح نے صلیب کے واقعہ سے نجات پاکر اس ملک کی طرف سفر کیا اور بدھ مذہب والے ان کو شناخت کرکے بڑی تعظیم سے پیش آئے اور وہ اخلاقی تعلیمیں اور روحانی طریقے حضرت مسیح کی تعلیم نے دوبارہ یہاں رائج کیں۔ اور جس قدر عیسائی تعلیم اور رسوم بدھ مذہب میں شامل ہیں وہ اسی کا نتیجہ ہیں۔ جو حضرت عیسی نے یہاں آکر وعظ کئے اور تعلیم دی۔ اور کیوں کے بدھ نے اپنے بعد آنے والے بدھ ہی کی پیشگوئی کی تھی اس لئے انہوں نے یہ سب علامتیں دیکھ کر انہیں بدھ قرار دے دیا اور ممکن ہے کہ حضرت مسیح کی بعض تعلیمات اور واقعات اور نام اور خطاب اور تمثیلیں وغیرہ عمداً یا سہواً بدھ کی طرف منسوب ہوگئی ہوں۔ کیوں کہ اس وقت تک بدھ کے حالات قلمبند نہیں ہوئے تھے اس لئے اس بات کی بہت گنجائش موجود تھی حضرت عیسی کی ان باتوں کو بھی بدھ کے حالات لکھتے ہوئے ان کی طرف منسوب کردیا جاتا۔ بہرحال اس موضوع پر تو کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ یہاں میں ان کے حوالے نہیں دے رہا یہ تمام حوالے "مسیح ہندوستان میں" موجود ہیں اور کافی تفصیل سے اس پر وہاں روشنی ڈالی گئی ہے۔


کشمیر کی طرف ہجرت کے حوالے سے ایک ڈاکیومنٹری انڈین گورنمنٹ نے بھی بنائی ہے۔ وہ بھی کافی معلوماتی ہے جس میں ان کی کشمیر میں آمد کے متعلق تاریخی کتب سے حوالے بھی زیربحث لائے گئے ہیں۔



مسیح کے حواری تھوما کی قبر:
عیسائی علماء اس امر پر متفق ہیں کہ جنوبی ہند میں جہاں مسیح کے حواری تھوما کی قبر موجود ہے، اسرائیلی قبائل موجود تھے جن کو مسیح کا پیغام پہنچانے کے لئے تھوما مدراس تشریف لائے تھے۔ کشمیر کے متعلق بھی پادری برکت اللہ صاحب نے یہ اعتراف کیا ہے کہ یہاں ابتدائی مسیحی آباد تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

حال ہی میں شمالی ہند سے بھی اسی قسم کی صلیبیں ملی ہیں یہ صلیبیں کشمیر کی قدیم قبروں میں پہاڑوں کی وادیوں سے دستیاب ہوئی ہیں۔ ان کی بناوٹ، نقش و نگار اور الواح کی عبارات سے واضع ہوتا ہے کہ صلیبیں نسطوری عیسائیوں کی ہیں۔ یہ امور ثابت کرتے ہیں کہ یہاں قدیم صدیوں میں جابجا کلیسائیں قائم تھیں۔ اور وہاں نسطوری عیسائی آباد تھے۔" ﴿تاریخ کلیسائے ہند صفحہ 157﴾

کشمیر میں عیسائی:
شعیہ حضرات کی معتبر کتاب اصول کافی کی شرح میں درج ہے کہ پیغمبر اسلام کے ظہور پر اندرون کشمیر میں عیسائی موجود تھے۔ اور ان میں سے چالیس افراد کی ایک جماعت تورات، زبور، انجیل اور صحف ابراہیم کی عالم تھی۔ وہ بادشاہ کے سائیں طرف بیٹھ کر ان کتب کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ چلا تو انہیں محسوس ہوا کہ اس نبی موعود کا ذکر ان کی کتب میں موجود ہے۔ چنانچہ تحقیقات کے لئے ان کا ایک نمائندہ "غانم ہندی" بلخ پہنچا اور اسلام لاکر واپس وطن آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیری عیسائی اس وقت اجتماعی رنگ میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ ﴿صافی شرح اصول کافی کتاب الحجة جلد 3 صفحہ 304 باب مولد صاحب الزمان﴾

اس کی تائید شعیوں کی معتبر کتاب اکمال الدین صفحہ 243 سے بھی ہوتی ہے۔ تسیر قمی صفحہ 246، تفسیر عمدة البیان جلد 2 صفھہ 117 اور بحار الانوار جلد 5 صفحہ 325 اور لسان الذاکرین جلد 1 صفحہ 153 سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح سرزمین کربلا میں بھی آئے اور وہاں سے آگے چلے گئے۔


تاریخ کشمیر میں میسح کی کشمیر میں آمد کا ذکر:
کشمیر کی ایک مستند اور قدیم قلمی تاریخ میں مسیح علیہ السلام کی کشمیر میں آمد کا ذکر واضع الفاظ میں موجود ہیں۔ یہ تاریخ آج سے قریباً چھ سو برس قبل ایک مسلمان محقق نے قلمبند کی ہے اور اس تو اریخ کشمیر میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس میں واضع ذکر ہے کہ مسیح جنہیں یوز آسف کہتے ہیں بیت المقدس سے آئے ہیں اور اسرائیلی نبی ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے:

"راجہ اکھ کے معزول ہونے کے بعد اس کا بیٹا راجہ گوپانند ﴿گوپادت﴾ حکمران ہوا۔ اس کے عہد حکومت میں بہت سے مندر تعمیر ہوئے۔ کوہ سلیمان کی چوٹی پر ایک شکستہ گنبد تھا۔ ارجہ نے اس کی تعمیر کے لئے اپنے وزیروں میں سے ایک شخص سلیمان نامی کو جو فارس سے آیا تھا مقرر کیا۔ ہندووں نے اعتراض کیا کہ یہ ملیچھ ہے۔ اس وقت حضرت یوز آسف بیت المقدس سے وادی اقدس ﴿کشمیر﴾ کی جانب مرفوع ہوئے اور آپ نے پیغمبری کا دعوی کیا۔ شب و روز عبادت الہی میں مشغول تھے۔ اور تقوی و پارسائی کے اعلی درجہ کو پہنچ کر خود کو اہل کشمیر کی رسالت کے لئے مبعوث قرار دیا اور دعوت خلائق میں مشغول تھے۔ چونکہ خطہ کشمیر کے اکثر لوگ آنحضرت ﴿یوز آسف﴾ کے عقیدت مند تھے۔ راجہ گوپادت نے ہندووں کا اعتراض ان کے سامنے پیش کیا۔ اور آنحضرت کے حکم سے سلیمان نے جسے ہندووں نے سندیمان کا نام دیا گنبد مذکور کی تکمیل کی ﴿سن 54ء تھا﴾ اس نے گنبد کی سیڑھی پر لکھا کہ اس وقت یوزآسف نے دعوی پیغمبری کیا ہے۔ اور دوسری سیڑھی کےپتھر پر لکھا کہ آپ بنی اسرائیل کے پیغمبر یسوع ہیں۔ ﴿مصنف کہتا ہے﴾ کہ میں نے ہندووں کی کتاب میں دیکھا ہے کہ آنحضرت ﴿یوز آسف﴾ بعینہ حضرت عیسی روح اللہ علی نبینا علیہ الصلوة والسلام تھے۔ اور آپ نے یوز آسف کا نام بھی اختیار کیا ہوا تھا۔ العلم عنداللہ۔ آپ نے اپنی عمر اسی جگہ بسر کی اور وفات کے بعد محلہ انزمرہ ﴿سرینگر﴾ میں دفن ہوئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرت کے روضہ سے انوار نبوت جلوہ گر ہوتے ہیں۔ راجہ گوپادت نے ساٹھ سال دوماہ حکومت کرنے کے بعد انتقال کیا۔" ﴿قلمی نسخہ صفحہ 169﴾

بھوشیہ مہاپران میں مسیح کی کشمیر میں آمد کا ذکر:
ہندووں کی ایک مقدس کتاب "بھوشیہ مہاپران" ہے جو اٹھارہ مقدس پرانوں میں سے ایک پران ہے۔ یہ کتاب سن 115ء میں تصنیف ہوئی۔ اس میں واضع طور پر لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی راجہ شالباہن سے وین مقام پر ملاقات ہوئی۔ پوری عبارت کا ترجمہ یوں ہے:

"ایک دن راجہ شالباہن ہمالیہ پہاڑ کے ایک ملک میں گیا۔ وہاں اس نے ساکا قوم کے ایک راجہ کو وین مقام پر دیکھا۔ وہ خوبصورت رنگ کا تھا۔ سفید کپڑے پہنے تھا۔ شالباہن نے اس سے پوچھا آپ کون ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ میں یوساشافت ﴿یوز آسف﴾ ہوں۔ ایک کنواری کے بطن سے میری پیدائش ہوئی۔ ﴿راجہ شالباہن کے حیران ہونے پر﴾ اس نے کہا کہ میں نے جو کہا ہے سچ کہا ہے اور میں مذہب کو پاک و صاف کرنے کے لئے آیا ہوں۔ راجہ نے اس سے پوچھا۔ آپ کونسا مذہب رکھتے ہیں؟ اس نے جواب دیا۔ اے راجا! جب صداقت معدوم ہوگئی اور ملیچھیوں کے ملک ﴿ہندوستان سے باہر کسی ملک﴾ میں حدود و شریعت قائم نہ رہے تو میں وہاں مبعوث ہوا۔ میرے کام کے ذریعہ جب گنہگاروں اور ظالموں کو تکلیف پہنچی تو ان کے ہاتھوں سے میں بھی تکلیفیں اٹھائیں۔ راجہ نے اس سے پھر پوچھا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ اس نے جواب دیا میرا مذہب محبت، صداقت اور تزکیہ قلوب پر مبنی ہے اور یہی وجہ ہے کہ میرا نام عیسی مسیح رکھا گیا۔ اس کے بعد راجہ آداب و تسلیمات بجالایا اور واپس ہوا۔" ﴿بھوشیہ مہاپران صفحہ 28 پرت 3۔ ادھیائے 2۔ شلوک 21 تا 31﴾

یہ بہت ہی زیادہ اختصار کے ساتھ کچھ تاریخی شواہد بیان کیئے گئے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح کے کشمیر میں آمد کا تاریخی ثبوت جو اوپر کے دو حوالوں سے ثابت ہے جن میں سے ایک تو اسی دور کی کتاب ہے یعنی 115 عیسوی کی اور دوسرے تمام شواہد جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ واقعہ صلیب سے زندہ بچ گئے تھے اور پھر ان علاقوں سے ہوتے ہوئے کشمیر میں داخل ہوئے۔ ان تمام پر یکجائی نظر ڈالیں اور پھر اسکے بعد قران شریف کی اس مندرجہ ذیل آیت پر غور کریں جس میں حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مریم کو ایک بلند اور چشموں والی زمین کی طرف پناہ دیئے جانے کا ذکر ہے تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ جس راز سے دو ہزار سال بعد پردہ اٹھ رہا ہے قرآن نے تو اسکا ذکر اس چھوٹی سے آیت میں چودہ سو سال پہلے سے کررکھا تھا۔ اس آیت کو پڑھیں اور دیکھیں کہ کس قدر حیرت انگیز طور پر اس زمین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو وادی کشمیر ہے۔ جہاں ان کو یہود سے بچاکر پناہ دئے جانے کا ذکر ہے۔

وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰيَةً وَّ اٰوَيْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِيْنٍؒ۰۰۵۰
"ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو نشان بنایا اور ان دونوں کو ایک بلند زمین کی طرف پناہ دی۔ جو آرام والی اور چشموں والی ہے۔" (المومنون 51﴾
 

رانا

محفلین
اس پوسٹ میں ابن حسن کے بعض موضوع سے ہٹے ہوئے سوالوں کا جواب دوں گا۔ ارادہ تو یہ تھا کہ تمام موضوع سے ہٹے ہوئے سوالوں کے جواب ایک ہی پوسٹ میں دے کر پھر اگلی پوسٹ میں اصل موضوع سے متعلق سوالات پر بات کروں۔ لیکن بجلی نے کچھ ایسا اودھم مچایا ہوا ہے کہ وقت ہی بہت کم ملتا ہے۔اب اگلی پوسٹ میں پھرموضوع سے ہٹے ہوئے ابن حسن کے بعض سوالات پر بات کرکے انشاءاللہ پھر اصل موضوع سے متعلق سوالات پر بات کروں گا۔

ابن حسن نے لکھا ہے:
راناصاحب کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ پہلے ایک بحث کو مکمل کرلیں اور پھر آگے بڑھیں۔اس کے بعد چاہے وہ کشمیر کی بات کریں یا کوئی اور میں حاضر ہوں۔

جناب میں نے صرف مسیح کی کشمیر میں آمد کے متعلق تاریخی حقائق پیش کرنے کی بات کی تو آپ آپے سے ہی باہر ہوگئے حالانکہ یہ تو پھر بھی موضوع سے بالکل مطابق بات تھی۔ لیکن فوراً آپ نے منتظمین کو اپنی مدد کے لئے بکارا ہے مجھے پابند بنانے کی سفارشات کرنے لگے ہیں۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق یہ حرکت نو مسلسل آپ سے سر زد ہوتی رہی ہے کہ موضوع سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ زیربحث تو حیات اور وفات مسیح کاعقیدہ تھا۔ اور میں شروع سے ہی اس تک محدود تھا۔ اور تمام دلائل میں نے قرآن اور احادیث اور لغات العرب سے دئیے تھے۔ کسی ایک جگہ بھی میں نے احمدیہ علم کلام کا حوالہ نہیں دیا تھا۔ لیکن آپ کے یہ معاملات بیچ میں گھسیٹنے کے بعد مجھے بھی مجبوراً اسطرف آنا پڑا اور اچھی خاصی مفید بحث کا چربہ بن گیا ۔ آپ نے احمدیت پر بھی اعتراضات کرنا شروع کردیئے اور مرزا صاحب کی بھی کردار کشی شروع کردی۔ کیا مرزا صاحب کی کردار کشی کرنے سے حضرت عیسی نے زندہ ہوجانا تھا؟ یا ان پر اور احمدیت پر اعتراض کرنا اس موضوع سے مطابق تھا؟ یا مرزا صاحب پر شراب کا الزام لگانا اسی بحث سے تعلق رکھتا تھا؟ اور ان پر چوری کا الزام لگانا بھی شائد حیات مسیح کی بحث کے عین مطابق تھا؟ اور نبیوں کی توہین جیسے الزامات مسیح کی حیات کے موضوع سے متعلق تھے؟ اور صحابہ کی توہین کے الزامات بھی اسی بحث کی ذیل میں آتے تھے؟ اور مرزا صاحب کے دعوی نبوت کو مشورہ پر مبنی سازش قرار دے کر اسکا جواب طلب کرنا بھی حیات مسیح کی بحث جیتنے کے لئے انتہائی ضروری تھا؟ جناب ان تمام باتوں کا ذرا اس موضوع سے تعلق سمجھا دیجئے۔ مسیح کی وفات زیربحث ہے تو ان کی قبر کے متعلق کچھ تاریخی بات کرنا عین موضوع کے مطابق ہے اس پر تو آپ فوراً بلبلا اٹھے ہیں لیکن جو کچھ آپ کررہے ہیں اسکا کیا جواز ہے؟ اگر یہ باتیں اس بحث کے لئے انتہائی ناگزیر ہیں تو غامدی صاحب، جماعت المسلمین، مفسر حجاز سعودی عرب اور جامعہ الازہر کے کئی مفتیوں سے اگر آپ کو حیات مسیح کے عقیدے پر بحث کرنی پڑگئی تو شائد جناب بالکل ہی خالی ہاتھ اپنے آپ کو محسوس کریں۔ اب اصولاً میرا حق بنتا ہے کہ میں آپ کو پابند کرانے کی بات کروں۔ لیکن میں پھر بھی اسکی ضرورت محسوس نہیں کرتا کیونکہ جو یہاں پر متعصب اور جانبدار دیکھنے والے ہیں ان سے میں نے کوئی توقع نہیں رکھی ہوئی اور جو بغیر تعصب کے دیکھ رہے ہیں ان میں اگر سمجھداری کا مادہ ہے تو وہ خود ہی آپ کی یہ حرکتیں نوٹ کررہے ہوں گے۔

اور یہ بھی خوب رہی کہ میں آپ کی ہربات کا جواب دینے کا پابند ہوں۔ جناب میں نے کب یہ اقرار نامہ آپ کو لکھ کر دیا ہے کہ آپ کی ہر اوٹ پٹانگ بات کا جواب دوں؟ میرا کام یہاں اپنا موقف پیش کرنا ہے اور جہاں آپ کی کسی بات میں وزن نظر آئے گا اسکی وضاحت کردوں گا۔ نا یہ کہ ڈنڈے کے زور سے اپنا عقیدہ آپ سے منواوں۔ آپ نے اپنا موقف پیش کرنا ہے اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسا ہے کہ ہر ایک کا دل جیت لے گا تو آپ کو پریشانی کس بات کی ہے۔ بلکہ میں اگر آپ کی بعض اوٹ پٹانگ باتوں کے جواب چھوڑ رہا ہوں تو اس پر تو آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ اب سب آپ کے موقف کو تسلیم کرلیں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ آپ کو اپنے دلائل کے بودے پن کا کچھ زیادہ ہی احساس ہے اور چاہتے ہیں کہ فضول باتوں میں بحث الجھ جائے تو آپ کچھ ریلیکس ہوں۔ آپ اطمینان سے اپنا موقف پیش کریں اور میں اپنا پیش کررہا ہوں دیکھنے والے خود ہی فیصلہ کرلیں گے کہ کس طرف کے دلائل میں وزن ہے۔ لیکن پھر بھی میں آپ کی بعض باتوں کی مذید وضاحت ضرور کروں گا۔ جیسے پیر مہر علی شاہ کے حوالے سے انشاء اللہ بات ضرور ہوگی۔ تسلی رکھیں۔ اور اسکے علاوہ بھی بعض اور اٹھائے گئے سوالات پر بھی انشاء اللہ ضرور کچھ عرض کروں گا۔

اب میں ذرا دیکھنے والوں کو ایک جھلک دکھاتا ہوں کہ انہوں نے صرف بحث کو الجھانے اور جیتنے کے لئے کیا رویہ اپنایا ہوا ہے۔ اور اعتراضات کرنے میں بھی کتنی بددیانتی کا مظاہر کرتے ہیں۔ اور اتنی مفید اور علمی بحث کو ایسی کج بحثی والے اعتراضات کرکے سبوتاژ کردیا ہے۔ یہاں میں ان کے کچھ ایسے ہی اعتراضات کے جواب دوں گا جن کو انہوں نے بار بار بہت زور و شور سے دہرایا ہے اور جب ان کی تحقیق کی گئی تو کیا نتیجہ نکلا وہ آپ خود دیکھ لیں۔

مسیح کی عمر 153 سال لکھنا:
میں نے یہ کہا تھا کہ مجھے 153 سال والا حوالہ ہی نہیں ملا تو جناب فوراً غصہ ہوگئے کہ کیوں نہیں ملا اور آتش بار ہوکر منہ سے پھول جھاڑنا شروع کردیئے۔ محترم غصہ کرنے کی بجائے اگر حوالہ ہی درست لکھ دیتے تو میرا اتنا وقت تو نہ ضائع ہوتا۔ جناب نے تذکرة الشہادتین کا صفحہ 21 درج کیا ہے جبکہ میں نے صفحہ 21 کے آگے پیچھے بھی دیکھ لیا لیکن کہیں نظر نہ آیا۔ اور پھر مجبوراً پوری کتاب پڑھنا شروع کی تو صفحہ 21 سے کئی صفحات آگے جاکر وہ عبارت ملی۔ ایک تو غلط حوالہ دے کرمیرا وقت ضائع کرایا اوپر سے غصہ بھی کررہے ہیں واہ کیا ہی خوب رویہ ہے۔ غلطی سے انسان کبھی کبھار غلط حوالہ دے دیتا ہے یہ کوئی ایسی بات نہیں لیکن جب میں نے توجہ دلائی تو غصہ کرنے کی بجائے ذرا خود بھی ایک نظر چیک کرلیتے تو بہتر ہوتا۔ میں ان کے دئے گئے حوالہ کے صفحہ کا عکس یہاں دے رہا ہوں یہ جو مجھ پر غصہ کررہے تھے یہ اس صفحے میں سے یہ عبارت ڈھونڈ کر دکھائیں۔ تذکرة الشہادتین کا صفحہ 21 بائیں جانب حاشئے میں لکھا ہوا ہے۔ اور اوپر روحانی خزائن کی اس جلد کا صفحہ 23 بھی نظر آرہا ہے میں نے اسکا بھی 21 صفحہ دیکھ لیا لیکن وہاں بھی کچھ نہیں۔

TazkraShadtp21.jpg


اس صفحے میں سے انکا حوالہ تو ملا نہیں تھا اس لئے اسکا عکس دینے کی بھی ضرورت نہیں تھی لیکن میں نے اس لئے دے دیا کہ اس صفحے میں حضرت مرزا صاحب صحابہ کا اجماع بھی وفات مسیح پر صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت کررہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ ابن حسن نے اگر توجہ دلائی ہے تو دوسروں کو بھی شئیر کردیا جائے۔ یہ پوری حدیث انشاء اللہ اگلی کسی پوسٹ میں درج کروں گا۔ ابھی تو زیربحث سوال کی طرف توجہ کرتے ہیں۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ 120 سال والے اور 125 سال والے حوالے بھی غلط ثابت ہوئے۔ 153 سال والا تو پھر بھی کچھ صفحات آگے جاکر مل گیا تھا۔ لیکن یہ دونوں تو سرے سے ان کتابوں میں ہی نہیں ملے جن کا حوالہ دیا گیا تھا۔ اب بتائیں کہ بندہ پہلے تو آپ کے حوالے ڈھونڈنے میں وقت ضائع کرے اور پھر نہ ملنے پر آپ کو اطلاع دے تو جواب میں بجائے اسکے کہ آپ حوالہ درست کرکے دیں الٹا غصہ کرنے لگ جائیں۔

خیر۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں کہ مسیح کی عمر کہیں 120 سال اور کہیں 125 سال لکھی ہے۔ 153 سال والی کی بات آخر میں کریں گے۔ انہوں نے ناظرین کو دھوکہ دینے کی جو کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ جب یہ اعتراض کیا تو یہ نہیں بتایا کہ حدیث میں 120 سال کی بھی روایت بھی موجود ہے۔ اورایک دوسری حدیث میں 125 سال کی روایت بھی موجود ہے۔ اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ شائد مرزا صاحب اندازے سے عمریں بیان کرتے چلے جارہے ہیں۔ کوئی بھی عقلمند اور غیر متعصب کم از کم ان دو روایتوں پر تو کبھی اعتراض کرنے کی حماقت نہیں کرے گا کہ اگر انہوں نے دونوں کا ذکر کردیا۔ کیوں کہ یہ بات تو سب کو مسلم ہے کہ احادیث جرح سے خالی نہیں ہوتیں اور پھر دونوں روایتوں میں بیان کردہ عمروں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا اس لئے کوئی بھی اس بات کو قابل اعتراض نہیں سمجھے گا کہ دونوں کا ہی ذکر کردیا جائے۔

اب 153 سال عمر والا حوالہ دیکھتے ہیں۔ میں پہلے تو اس صفحے کا عکس دے رہا ہوں۔ جس میں یہ حوالہ ہے۔

TazkraShadtp29.jpg


اب ناظرین ذرا غور سے سرخ رنگ سے خط کشیدہ لائن کو پڑھیں اور بتائیں کہ کہیں سے بھی یہ ثابت ہورہا ہے کہ حضرت مرزا صاحب 153 سال عمر پانے کی بات کررہے ہیں۔ صاف صاف لکھا نظر آرہا ہے کہ "احادیث میں آیا ہے کہ اس واقعہ کے بعد عیسی ابن مریم نے 120 برس کی عمر پائی۔" پس وہ تو احادیث کا حوالہ دے رہے ہیں اور ایک اندھا بھی اس عبارت کو دیکھے گا تو سمجھ جائے گا کہ 120 سال عمر والی احادیث کی بات ہورہی ہے۔ اورواقعہ صلیب کے بعد مسیح کی عمر 120 سال ہی بیان کی جارہی ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ ابن حسن نے حوالہ دیتے ہوئے کس جگہ بددیانتی کی ہے۔ ابن حسن نے لکھا ہے:
حضرت عیسیٰ ۱۵۳ برس کی عمر میں فوت ہوئے(یہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے واقعہ صلیب کے بعد ۱۲۰ سال کی عمر پائی اب صلیب کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضرت عیسیٰ کی عمر ۳۳ سال کے قریب تھی گو یا حضرت عیسیٰ کا انتقال مرزا کے مطابق ۱۵۳ سال کی عمر میں ہوا۔ (تذکرۃ الشہادتیں ص ۲۱)

سب سے پہلی بد دیانتی تو واضع نظر آرہی ہے کہ ابن حسن نے یہ الفاظ "احادیث میں آیا ہے" دھوکہ دیتے ہوئے غائب کردیئے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اگر یہ الفاظ ساتھ ہوں تو کوئی پاگل ہی ہوگا جو اس سے وہ نتیجہ نکالے گا جو ابن حسن نے نکالا ہے۔ اور شائد اسی لئے حوالہ درست نہیں دیا کہ کہیں یہ بد دیانتی کا پول نہ کھل جائے۔ ان الفاظ کی موجودگی میں صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب ان احادیث کا ذکر کررہے ہیں جن میں مسیح کی عمر 120 سال بیان کی گئی ہے۔ کیا ابن حسن کے خیال میں کوئی ایسی احادیث بھی ہیں جن میں واقعہ صلیب کے بعد مذید 120 سال عمر پانے کا ذکر ہے؟ اب یہ خود ہی جمع تفریق کرکے تو زبردستی حضرت مرزا صاحب کی طرف وہ بات منسوب کی جارہی ہے جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔

اب مذید وضاحت کی ضروت تو نہیں سب پر خوب کھل چکا ہوگا کہ یہ کیا کررہے ہیں۔ لیکن پھر بھی اب ان کے اس جمع تفریق کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ یہ سب ناظرین کے ذہنوں میں زبردستی یہ جمانا چاہ رہے ہیں کہ مرزا صاحب واقعہ صلیب کے بعد 120 سال مذید عمر پانے کی بات کررہے ہیں۔ اول تو حضرت مرزا صاحب احادیث کا حوالہ دے رہے ہیں اوراحادیث کا ذکر ساتھ موجود ہونے سے یہ احمقانہ نتیجہ نکلتا ہی نہیں۔ لیکن پھر بھی میں سنجیدہ محفلین سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا واقعی یہاں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے؟ اگر یہ لکھا ہوتا کہ واقعہ صلیب کے بعد 120 برس زندہ رہے پھر تو یہ نتیجہ نکالا جاسکتا تھا۔ جیسا کہ انہوں نے ایک دوسری جگہ یہ فرمایا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد وہ 87 برس زندہ رہے۔ وہاں واقعہ صلیب کے بعد زندہ رہنے کا ذکر ہے نا کہ عمر پانے کا۔ اور دوسروں کو جمع تفریق کی زحمت دینے کی بجائے وہاں تو انہوں نے واقعہ صلیب کے بعد 87 برس زندہ رہنے کا ذکرکرکے ساتھ ہی 120 سال عمر پانے کی بات بھی کی ہے۔ لیکن اس حوالے میں کہاں واقعہ صلیب کے بعد 120 برس زندہ رہنے کا ذکر ہے؟ صاف طور پر احادیث کا حوالہ دیا ہوا نظر آرہا ہے جو بتا رہا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد 120 سال کی عمر پاکر وہ فوت ہوئے۔ اب 120 سال کی عمرانہوں نے واقعہ صلیب کےبعد ہی پائی تھی۔ لیکن بات صرف یہ ہے کہ تعصب اندھا ہوتا ہے۔

اب جیسا کہ سب نے دیکھ لیا ہے کہ ابن حسن کو زبردستی جمع تفریق کرکے دوسروں کے منہ میں لقمہ دینے کا بہت شوق ہے۔ اور مرزا صاحب تو خیر ان کے نزدیک سچے ہی نہیں لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے اس رویئے سے محفوظ نہیں رہے۔ جس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 120 سال عمر بیان کی ہے اس کا بھی انہوں نے اسی انداز میں خوب مضحکہ اڑایا ہے اور وہ بات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جو انہوں نے کہی ہی نہیں۔ اور صرف مرزا صاحب کو جھوٹا ثابت کرنے کے شوق میں اس حدیث کو بھی تختہ ستم بنا ڈالا۔ جب میں نے مرزا صاحب کی بریت ابن حسن کے اس سراسر لغو اعتراض سے کی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو میرا اولین فرض بنتا ہے کہ میں ان کی بھی بریت ابن حسن کے اس گستاخانہ جمع تفریق کے اعتراض سے کروں۔

ابن حسن کے بقول۔
اب اگر یہ حدیث درست ہے تو پھر اللہ پاک نے 124000 کے لگ بھگ پیغمبر بھیجے ہیں تو ذرا غور کیجئے کہ اس طرح حضرت آدم و نوح کی عمریں کیا ہوں گی( حضرت نوح کی عمر ۹۵۰ سال تھی) ۔نبی پاک سے اکیسویں نبی کی عمر اس طرح 125829120 یعنی بارہ کروڑ اٹھاون لاکھ انتیس ہزار ایک سو بیس سال بنتی ہے۔
ایک تو انہوں نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور دوسرا آپ یہ دیکھیں کس طرح اسی انداز میں جمع تفریق کرکے اس حدیث کا بھی مضحکہ اڑایا گیا ہے۔ میں دونوں باتوں کا الگ الگ ذکر کروں گا۔ پہلے تو میں یہ بتادوں کہ انہوں نے اسے ابن ابی لہیہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ یہ حدیث ایک نہیں کم از کم تین طریقوں سے مروی ہے۔ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ اور حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ سے۔ اور یہی امر اس حدیث کے صحیح ہونے کا ثبوت ہے۔ ابن لہیہ تو صرف ایک طریق کا راوی ہے۔ حیرت ہے کہ پورے دھاگے میں ڈھنڈورا پیٹا ہوا ہے کہ ان کے پاس جماعت احمدیہ کی ایک پاکٹ بک بھی ہے اور پھر بھی اس بات سے بے خبر ہیں کہ تہذیب التہذیب میں ہی لکھا ہے کہ ثوری نے کہا ہے کہ ابن لہیہ کے پاس اصول ہیں اور ہمارے پاس فروع ہیں۔ اوراحمد بن صالح نے کہا ہے کہ ابن لہیہ ثقہ راوی ہے۔ نیز لکھا ہے کہ ابو داود نے لکھا ہے کہ تمام مصر میں ابن لہیہ کے برابر کوئی شخص بھی حدیث کی کثرت اور مضبوطی اور روایت اور تقوی کے لحاظ سے نہ تھا۔ اور اسی تہذیب التہذیب میں ہی لکھا ہے کہ ابن لہیہ کی ایک روایت کو دوسری سے تقویت پہنچتی ہے۔ پس یہ حدیث بھی ایسی ہی ہے جو ایک نہیں بلکہ تین مختلف طریق سے مروی ہے۔

اس حدیث کا مضحکہ اڑانے سے پہلے اتنا تو سوچ لیتے کہ یہ حدیث کسی احمدی کی تراشی ہوئی نہیں۔ اور حضرت مرزا صاحب سے پہلے کسی کو اس حدیث کو ضعیف قرار دینے کا خیال نہیں آیا اور تمام علماء اس کو درست تسلیم کرتے رہے لیکن جب مرزا صاحب نے یہ حدیث اپنے موقف میں پیش کردی تو اب اس پر ضعیف ہونے کا فتوی لگانا شروع کردیا بلکہ ابن حسن نے تو مضحکہ بھی اڑانا شروع کردیا۔ اہلحدیث کے ایک مستند اور جید عالم نواب صدیق حسن خان صاحب اس کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے جج الکرامہ صفحہ 428 میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی سب کے سب ثقہ ہیں۔ پھر یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ اور حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ سے مروی مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے۔ کنز العمال، مستدرک حاکم، تفسیر المواہب اللدنیہ، تفسیر جامع البیان الطبری، تفسیر جلالین، تفسیر ابن کثیر وغیرہ۔

اب میں دوسری بات کی طرف آتا ہوں جسکا اصل میں جواب دینا مقصود تھا کیونکہ انہوں نے ضربیں تقسیمیں دے کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہ بات منسوب کی جو انہوں نے کہی ہی نہیں۔ جس طرح مرزا صاحب کی طرف جمع تفریق کرکے 153 عمر منسوب کردی جو انہوں نے کہیں ذکر ہی نہیں کی۔ پہلے میں حدیث کے الفاظ درج کردوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"یعنی جبرائل ہر سال ایک دفعہ مجھے قرآن سناتے تھے۔ مگر اس دفعہ دو دفعہ سنایا ہے۔ اور مجھے انہوں نے خبر دی ہے کہ کوئی نبی نہیں گزرا جس کی عمر پہلے نبی سے آدھی نہ ہوئی ہو۔ اور یہ بھی انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ عیسی ابن مریم 120 سال زندہ رہے۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہوگی۔ ﴿مواہب لدنیہ جلد 1 صفحہ 42﴾

اب اس روایت کا مضمون الہامی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں فرما رہے بلکہ جبرائیل کی بات بیان کررہے ہیں۔ اور یہ اپنے اندر ہی سچائی کی شہادت رکھتی ہے۔ پہلی بات کہ جبرائیل نے دو دفعہ قرآن سنایا یہ ایسا واقعہ ہے جو عملاً ہوا ہے۔ کسی کو اس سے انکار نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ آپ حضرت فاطمہ رضی اللہ سے فرما رہے ہیں کہ کوئی نبی نہیں گزرا جسی کی عمر پہلے نبی سے آدھی نہ ہوئی ہو۔ اور یہ بھی انہوں نے مجھے فرمایا ہے کہ عیسی ابن مریم 120 سال زندہ رہے پس میں سمجھتا ہوں کہ میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اس حدیث کے الفاظ میں نہ کوئی ابہام ہے نہ اشکال۔ بہت واضع رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے ہر نبی اپنےسے پہلے گزرے ہوئے نبی کی عمر سے نصف عمر ضرور پاتا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ مثلاً ایک نبی نے ساٹھ سال کی عمر میں وصال پایا ہو اور بعد میں آنے والا نبی تیس سال سے پہلے فوت ہوگیا ہو۔ وہ اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر سے ضرور آگے بڑھتا ہے۔ چنانچہ ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ کوئی نبی ایسا ہو جو اپنے سے پہلے نبی کی کم از کم نصف عمر تک نہ پہنچا ہو۔ یہی سچائی ہمارے آقا ومولی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں بھی حق بن کر ظاہر ہوئی یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر 120 سال کے نصف کو پار کرکے آپ نے جام وصال نوش فرمایا۔ آپ کا یہ الہی خبر بیان فرمانا اور پھر اسکے مطابق ساٹھ سال سے آگے گزر کر فوت ہونا بذات خود اس حدیث کی صداقت کی دلیل ہے اور اس توجیہ کے درست ہونے کی دلیل ہے جو بیان کی گئی ہے۔

اب ابن حسن جب تک حدیث کے الفاظ کو مسخ نہ کرلیتے وہ اپنے مقصد میں کامیا ب ہوہی نہیں سکتے تھے اسی لئے انہوں نے حدیث کے الفاظ جو کہ " کوئی نبی نہیں گزرا جس کی عمر پہلے نبی سے آدھی نہ ہوئی ہو۔" کو بالکل الٹ اور غلط سمجھ کر یہ نتیجہ نکالا کہ ہر نبی کی عمر پہلے پچھلے نبی سے آدھی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حدیث نبوی یہ بتارہی ہے کہ ہر نبی اپنے سے پہلے نبی کی عمر سے نصف عمر ضرور پاتا ہے۔ جبکہ ابن حسن یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہر نبی کی عمر اپنے سے پہلے نبی کی عمر سے آدھی رہتی ہے اس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ ان کی اس بات کی منطق ہی کوئی نہیں۔ نہ تاریخ انبیاء اس کی تصدیق کرتی ہے اور نہ عقل اسے تسلیم کرسکتی ہے۔ پس زیر بحث حدیث نبوی ایک واقعاتی سچائی پر مبنی ہے جس پر واقعاتی شہادت مہر تصدیق ثبت کرتی ہے کیونکہ:

1۔ حضرت جبرائیل کا اس سال دو دفعہ قرآن دہرانا اس کی سچائی کی اندرونی شہادت مہیا کرتا ہے۔
2۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساٹھ سال عمر پا کر یعنی 120 کے نصف سے آگے بڑھ کر فوت ہونا اسے سچا ثابت کرتا ہے۔
3۔ حضرت عیسی کی 120 سالہ زندگی کی تاریخی شہادتیں اس سچا ثابت کرتی ہیں۔
4۔ یہ حقیقت اسے سچا ثابت کرتی ہے کہ ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی کی عمر سے کم از کم نصف عمر ضرور پائی ہے۔ ایک بھی استثنا نہیںﹶ
5۔ نیز وہ امور بھی اس کی سچائی کا ثبوت جن کا گذشتہ سطور میں ذکر کیا جاچکا ہے۔

آج تک کسی محدث یا مفسر نے اس حدیث کی تشریح ضربیں تقسیمیں دے کر نہیں کی۔ کیونکہ تقوی کا تقاضا یہ ہے کہ حدیث نبوی کی تشریح ایسی کرنی چاہئے جو حقیقت افروز ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ازدیاد ایمان کا بھی موجب ہو۔ سخت افسوس ہے کہ ابن حسن نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو اپنے محدود ذہن، ٹیڑھی سوچ اور مسخ شدہ عقائد کے پیمانے پر پرکھ کر ہدف استہزاء بنایا ہے۔ نیز اپنے خود ساختہ فارمولے پر انبیاء علیہم السلام کی عمروں کو ضربیں تقسیمیں دے دے کر بازاری انداز میں اس پر معارف حدیث نبوی کا مذاق اڑایا ہے۔

پھر انہیں حضرت مرزا صاحب کو جھوٹا ثابت کرنے کا ایسا جنون چڑھا ہوا ہے کہ پہلے تو حدیث کے الفاظ کو تختہ مشق بنایا پھر ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ اگر اس حدیث کو درست بھی تسلیم کرلیا جائے تب میں مرزا صاحب جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ پھر انہوں نے حضرت موسی کو بھی زندہ تسلیم کیا ہے۔ جبکہ اس حدیث کی رو سے انہیں بھی وفات یافتہ ماننا چاہئے۔ پس اگر حدیث سچی ہے تو تب بھی ان کے خیال میں مرزا صاحب نعوذ باللہ جھوٹے ہیں۔ ایک تو ان کا یہ رویہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ مسلسل یہی حرکت کئے چلے جارہے ہیں کہ پہلے ایک عبارت سے غلط مطلب خود ہی نکالتے ہیں جو عبارت کا مقصود ہی نہیں ہوتا پھر اس اپنے نکالے ہوئے مطلب پر جھوٹ اور کفر کا فتوی لگادیتے ہیں۔ عجیب سا رویہ ہے۔ جیسے کہانیوں میں ذکر ہوتا ہے کہ کوئی جادوگرنی پہلے تو کسی کا کوئی پتلا بن خود ہی بناتی ہے پھر اس میں سوئیاں چبھونا شروع کردیتی ہے۔ حضرت موسی علیہ اسلام کے زندہ ہونے کے بارے میں انہوں نے جو عبارت پیش کی ہے ایک تو یہ سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنا بھی انہی کا خاصہ ہے۔ حضرت مرزا صاحب کسی نبی کو جسمانی طور پرزندہ تسلیم نہیں کرتے تمام زندگی وہ اسی پر زور دیتے رہے۔ اور تمام نبیوں کی روحانی زندگی کے قائل ہیں کہ روحانی طور پر کوئی نبی بھی مردہ نہیں۔ اب جس عبارت کا یہ حوالہ دے رہے ہیں وہاں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی جہاں جہاں ایسا مضمون بیان ہوا ہے مرزا صاحب الزامی رنگ میں مسلمان علماء کو جواب دے رہے ہیں کہ اگر اتنے قرآنی دلائل کے باوجود تم عیسی کو زندہ تسلیم کرتے ہو تو پھر حضرت موسی کو بھی کیوں نہ زندہ تسلیم کیا جائے کہ ان کے بارے میں تو قران کی آیت میں بھی ذکر ہے۔ لیکن یہ مولوی ابن حسن سب کچھ جانتے بوجھتے بھی مسلسل مرزا صاحب کی عبارتوں سے پہلے ایک مطلب محنت کرکے کشید کرلیتے ہیں اور پھر اس کی بنیاد پر جھوٹ کی گردان شروع کردیتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ رویہ تو ختم ہونے والا نہیں اسکے بعد پھر کوئی اور عبارت پیش کردیں گے کہ فلاں نبی کو بھی زندہ مانا ہے۔ تو میں نے سوچا کہ کم از کم اس ایک اعتراض کی حد تو ان کو کج بحثی سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے۔ کہ یہ دوبارہ ایسا کوئی اعتراض نہ کریں۔ اس لئے میں خود ہی حضرت مرزا صاحب کی ایک ایسی عبارت پیش کردوں جس میں نہ صرف ابن حسن کی مذکورہ عبارت کا مضمون بھی موجود ہو بلکہ اس میں حضرت موسی کے ساتھ ساتھ دوسرے تمام نبیوں کے زندہ ہونے کی بھی مرزا صاحب بات کررہے ہیں۔ اسطرح اب ابن حسن کو کم از کم میرا شکر گزار ہونا چاہئے کہ میں نے خود ہی ان کی مدد کرتے ہوئے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کو زندہ کرنے والی عبارت پیش کردی۔ حیرت ہے کہ یہ خطرناک عبارت کیسے ابن حسن کی نظروں سے اوجھل رہ گئی۔ چلیں اب ابن حسن کم از کم مذید نبیوں پر محنت کرنے سے بچ جائیں گے۔

حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:
" انہیں مولویوں کی ایسی ہی کئی مفسدانہ باتوں سے عیسائیوں کو بہت مدد پہنچ گئی مثلاً جب مولویوں نے اپنے منہ سے اقرار کیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو نعوذ باللہ مردہ ہیں مگر حضرت عیسیٰ قیامت تک زندہ ہیں تو وہ لوگ اہل اسلام پر سوار ہوگئے اور ہزاروں سادہ لوحوں کو انہوں نے انہیں باتوں سے گمراہ کیا اور ان بے تمیزوں نے یہ نہیں سمجھا کہ انبیاء تو سب زندہ ہیں مردہ تو ان میں سے کوئی بھی نہیں۔ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی لاش نظر نہ آئی سب زندہ تھے۔ دیکھئے اللہ جلّ شانہٗ اپنے نبی کریمؐ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی قرآن کریم میں خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے فلا تکن فی مریة من لقائہ۔ اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہونے کے بعد اپنا زندہ ہو جانا اور آسمان پر اٹھائے جانا اور رفیق اعلیٰ کو جا ملنا بیان فرماتے ہیں پھر حضرت مسیح کی زندگی میں کونسی انوکھی بات ہے جو دوسروں میں نہیں۔ معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نبیوں کو برابر زندہ پایا اور حضرت عیسیٰ کو حضرت یحییٰ کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا۔ خداتعالیٰ مولوی عبدالحق محدث دہلوی پر رحمت کرے وہ ایک محدث وقت کا قول لکھتے ہیں کہ ان کا یہی مذہب ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہو کر کسی دوسرے نبی کی حیات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات سے قوی تر سمجھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یا شاید یہ لکھا ہے کہ قریب ہے کہ وہ کافر ہو جائے لیکن یہ مولوی ایسے فتنوں سے باز نہیں آتے اور محض اس عاجز سے مخالفت ظاہر کرنے کیلئے دین سے نکلتے جاتے ہیں خداتعالیٰ ان سب کو صفحہ زمین سے اٹھا لے تو بہتر ہے تا دین اسلام ان کی تحریفوں سے بچ جائے۔" ﴿اشتہار مشمولہ آئینہ کمالات اسلام و تبلیغ رسالت جلد2صفحہ 139﴾



دس اور بارہ سال کی فضول کج بحثی:
ایک ان کو یہ بڑی مصیبت پڑی ہوئی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے دعوی مسیحیت جو فتح اسلام میں کیا تھا وہ 1890 میں کیا ہے۔ جو کہ براہین احمدیہ کے بعد دس سال بنتا ہے۔ جبکہ اعجاز احمدی میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے براہین کے بارہ سال بعد دعوی کیا۔ انہوں نے دس کی بجائے بارہ کیوں کہا یہ اتنا بڑا تضاد ہے کہ اس سے ابن حسن کی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ اور جب تک اسے دور نہ کیا جائے ابن حسن صاحب بے چین ہی رہیں گے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ جب اندازے سے بات ہوتی ہے تو ایک دو سال کا فرق کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ آپ کو خود تسلیم ہے کہ اعجاز احمدی 1902 کی تصنیف ہے یعنی براہین کے کوئی 22 سال بعد کی۔ اتنے عرصے بعد اگر اندازے سے بات کرتے ہوئے ایک دوسال کا فرق پڑجائے تو یہ کسی کے بھی نزدیک قابل اعتراض نہیں ہوتا۔ لیکن آپ نے اس بات کو بھی بار بار دہرایا کہ جیسے اس سے بڑا مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس بات کو بھی ذرا گہرائی میں جاکر دیکھ لیا جائے کہ اصل حقیقت ہے کیا۔ لیکن اس سے پہلے میں ذرا ناظرین کو وہ وجہ بتادوں کہ آخر یہ اس چھوٹی سی بات کو اتنا کیوں اچھال رہے ہیں۔ اسکے بعد ان کی اس بات کا بھی انشاء اللہ جواب دوں گا۔

اصل بات یہ ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے حضرت مرزا صاحب کا ایک خط پیش کیا کہ جس سے بقول انکے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اس خط میں مسیحیت کے دعوی کے لئے مشورہ کیا جارہا ہے۔ اور اس اعتراض کو بھی انہوں نے بار بار اپنی پوسٹس میں دہرایا۔ پھر جب میں نے حوالے دے کر یہ ثابت کردیا کہ جس خط کا یہ ذکر کررہے ہیں کہ اس میں مشورہ کیا جارہا ہے۔ دعوی مسیحیت تو اس خط سے بھی کافی پہلے کیا جاچکا تھا۔ تو اب یہ لاجواب ہوگئے اور کچھ بن نہ پڑا۔ لیکن کیونکہ مولوی ہیں اس لئے اچھل کود کئے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔ لہذا اب کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق انہوں نے یہ راگ الاپنا شروع کردیا کہ مرزا صاحب نے اعجاز احمدی میں لکھا ہے کہ میں نے براہین کے بارہ سال بعد دعوی کیا لیکن فتح اسلام تو دس سال بعد کی ہے۔ اب یہ اعتراض بالکل ایک لایعنی اور فضول اعتراض تھا لیکن وجہ وہی کہ بلی کو کھمنا تو نوچنا ہی تھا نا۔ اب جیسے پہلے وہ مشورہ والا اعتراض بار بار دہرایا جارہا تھا اب یہ دہرانا شروع کردیا۔ لیکن جب میں نے اس بات کو چیک کیا تو پتہ لگا کہ یہاں بھی یہ روایتی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھوکہ دینے کی پوری کوشش کررہے ہیں ورنہ فتح اسلام کے دعوی مسیحیت اور حضرت مرزا صاحب کی اس بارہ سال والی بات میں سرے سے کوئی تضاد ہی نہیں۔ اس بات کی اب میں وضاحت کرتا ہوں۔

فتح اسلام کے متعلق میں پہلے یہ ثابت کرچکا ہوں کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں حضرت مرزا صاحب نے پہلی بار اپنا دعوی مسیحیت پیش کیا تھا۔ اور یہ کتاب دسمبر 1890 سے بھی پہلے پریس میں پہنچ چکی تھی۔ ﴿میری پوسٹ 129 میں اس پر تفصیلی دلائل دئے جا چکے ہیں۔﴾

اب براہین احمدیہ کو دیکھتے ہیں جس کے بارے میں ابن حس نے بڑا شور مچایا ہوا ہے کہ یہ 1880 میں چھپی تھی اس طرح فتح اسلام تک دس سال بنتے ہیں۔ براہین احمدیہ کا ٹائٹل پیج اگر آپ دیکھیں تو اس پر سن اشاعت 1880 ہی درج ہے۔ مہینہ درج نہیں لیکن مہینہ آغاز جنوری کا ہے۔ اس کا ثبوت اسی براہین احمدیہ کے صفحہ 3 سے ملتا ہے جس میں لکھا ہے کہ دسمبر 1879 میں براہین احمدیہ کی قیمت کے بارے میں ایک اشتہار شائع کیا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دسمبر 1879 تک وہ پرنٹنگ کے مراحل سے گزر کر بائنڈنگ وغیرہ کے مراحل میں تھی تبھی یہ اشتہار دسمبر میں چھپ سکا تھا کیونکہ یہ بھی اسی پریس میں چھپا جس میں کتاب چھپی تھی۔ اس صفحہ 3 کا عکس نیچے دے رہا ہوں۔

Braheenp3.jpg


اب دسمبر 1880 میں اس زمانے کے ﴿یعنی آج سے 130 سال قبل﴾ پریس کے تمام ٹائم کنزیومنگ مراحل سے گزرنے کا مطلب ہے کہ کم از کم ڈیڑھ دو ماہ ماہ قبل پریس میں پہنچ چکی تھی۔ یعنی کوئی اکتوبر 1879 میں یہ کتاب پریس میں پہنچ چکی تھی۔ اب براہین احمدیہ کے صفحہ 4 کا عکس نیچے دے رہا ہوں اس میں جو "عذر" کی ہیڈنگ کے نیچے پراگراف ہے اسے غور سے پڑھیں۔

Braheenp4.jpg


اس میں مرزا صاحب واضع طور پر فرما رہے ہیں کہ کتاب میں سات آٹھ ماہ کی تاخیر پہلے ہی ہوچکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کتاب جس وقت پریس میں چھپنا شروع ہوئی یعنی اکتوبر 1879 میں اس سے بھی کوئی آٹھ ماہ قبل لکھی جاچکی تھی۔ اسطرح یہ کوئی فروری 1879 کا سن بنتا ہے۔ یعنی فروری 1879 میں براہین احمدیہ لکھی جاچکی تھی اور چھپنے کے لئے پریس میں بھی دی جا چکی تھی لیکن مہتمم پریس کی علالت کے باعث اسکی اشاعت میں تاخیر ہوئی۔

اب فتح اسلام یعنی دعوی مسیحیت کے بارے میں اوپر بتایا جاچکا ہے کہ وہ دسمبر 1890 میں پریس میں چھپ رہا تھا اور چھپائی کے آخری مراحل میں تھا۔ یعنی کم از کم نومبر 1890 کو پریس میں پہنچ چکا تھا۔ اب فروری 1879 سے لے کر نومبر 1890 تک کا عرصہ کیلکولیٹ کرلیں۔ یہ دو تین ماہ کے فرق سے پورے بارہ سال ہی بنتے ہیں۔ اب تمام ثبوتوں کے عکس بھی سامنے ہیں اور یہ کیلکولیشن اتنی واضع اور سیدھی ہے کہ جس میں کوئی ابہام ہی نہیں ہے۔ بلکہ اگر کوئی کیلکولیشن میں سے دو چار ماہ کم یا زیادہ بھی کرڈالے جس کی ثبوتوں کی موجودگی میں کوئی گنجائش ہی نہیں تب بھی بارہ سال کے عرصے پر کوئی زد نہیں پڑتی لیکن یہاں تو کھلے کھلے ثبوت سامنے آنکھوں کے موجود ہیں۔

اب یہ ڈھکوسلا بھی ابن حسن کا انتہائی واضع طور پر جھوٹ کا پتلا ثابت ہوا۔ پہلے تو کھسیانی بلی نے کھمبا نوچنے کی کوشش کی تھی اب کیا نوچے گی؟ اب شائد کوئی پائپ ڈھونڈ کر لے آئے نوچنے کے لئے۔ کیونکہ کچھ نہ کچھ تو ہاتھ پیر مارنے ہی ہیں انہوں نے کہ کہیں سے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہاتھ آجائے کچھ نوچنے کے لئے۔ آخر کو مولوی جو ہوئے۔ مولوی کی یہ فطرت ہے کہ اسے کیونکہ اپنے جھوٹ کا یقین ہوتا ہے اسلئے پکڑے جانے کی صورت میں بھی مسلسل شور مچائے چلا جاتا ہے تاکہ لوگ اسے سچا ہی سمجھیں۔ اگر ذرا بھی شرم ہوتی تو کم از کم مرزا صاحب پر اعتراض کرنے میں بھی دیانت داری کا پہلو ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ اگر مرزا صاحب ان کے نزدیک نعوذباللہ جھوٹے ہی ہیں تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ جھوٹے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے جھوٹ کا سہارا کیوں لیا جاتا ہے۔

شائد بہت سے محفلین کو جو مولوی کی مولویت سے واقف نہیں انہیں یہ بات ہضم نہ ہو کہ مولوی اتنی کھلی کھلی بد دیانتی اور جھوٹ کا ارتکاب کیسے کر لیتا ہے۔ تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں تو انہوں نے جھوٹ بولنے کے ایسے ایسے کرتب دکھائے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ علامہ بنوری صاحب کی طرف سے ایک مرتبہ انکشاف ہوا تھا کہ ربوہ میں اسرائیل کے جہاز اترتے ہیں۔ سن کر ہی آپ کی ہنسی چھوٹ گئی ہوگی۔ ایک کا مظاہرہ تو ابھی کچھ عرصہ پہلے آپ سب نے ٹی وی اور میڈیا پر دیکھا تھا کہ کسطرح تمام بڑے بڑے علماء نے مل کر ایک شخص کو مرزا صاحب کے پوتے کے طور پر پیش کیا اور پھر جھوٹ کھل جانے کے بعد شرم سے ڈوب بھی تو نہیں مرے۔ جماعت احمدیہ کے خلاف عوام الناس کے سامنے تو یہ جھوٹ بولتے ہی رہتے ہیں لیکن لگتا ہے مولویوں کو ہر تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد کچھ بین الاقوامی لیول کے جھوٹ بولنے کا دورہ پڑتا ہے اور اسطرح پوری دنیا میں اپنے جھوٹ کی تشہیر کراتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے خلاف ایسا ہی ایک اور عالمی جھوٹ جیسا کہ یہ خوب میڈیا پر اچھالا گیا تھا آج سے کچھ سال پہلے 1985 میں بولا گیا تھا۔ اور اسی طرح پاکستان کے تمام علماء کرام نے اس جھوٹ میں بھی اپنا حصہ ڈالا تھا اور اسکی تو اس سے بھی زیادہ میڈیا میں تشہیر کرائی تھی یہاں تک کہ پوری دنیا میں وہ جھوٹ پانچ سال تک گونجتا رہا اور ان مولویوں نے یہاں تک اعلانات کرائے اور قسمیں کھائیں کہ اگر یہ جھوٹ نکلا ہم بیچ چوک میں گولی کھانے کو تیار ہیں۔ اور پھر پانچ سال کے بعد اس جھوٹ کے ڈرامہ کا ڈراپ سین بھی عین بیچ چوراہے مں میڈیا کے سامنے ہوا۔ اس کے بعد آپ کا کیا خیال ہے ان علماء نے بیچ چوک میں گولی کھائی ہوگی؟ جب یہی سوال ان علماء سے میڈیا نے پوچھا تو کیا دلچسپ جواب سننے کو ملے وہ میں سناوں تو مزا نہیں آئے گا بہتر ہوگا اس ویڈیو میں خود ہی دیکھ لیں۔


اب جبکہ ابن حسن کے بار بار زور دینے پر انکی خواہش کے مطابق انکے جھوٹوں کا کچھ پوسٹمارٹم کرنا ہی پڑا تو پھر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک دلچسپ ویڈیو اور بھی شئیر کردی جائے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ ان مولویوں نے ایک شخص کو حضرت مرزا صاحب کے پوتے کے طور پر میڈیا کے سامنے پیش کیا تھا وہ تو سب ہی نے دیکھا کہ بالکل جھوٹ ثابت ہوا۔ لیکن میں حضرت مرزا صاحب کے اس وقت کے سب سے بڑے مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب جو کہ اہلحدیث کے اس وقت کے چوٹی کے لیڈر تھے ان کے نواسے کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو اب مرزا صاحب کے در کا غلام ہے۔ اس نواسے کی زبانی مولوی محمد حسین بٹالوی کی باقی اولاد کا حشر بھی سن لیجئے۔ اسکے علاوہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی اولاد میں سے بھی ایک شائد ان کے پڑپوتے مجھے اسوقت ٹھیک سے یاد نہیں وہ بھی احمدیت کی آغوش میں ہی ہیں۔ ان کو تو میں نے خود کراچی ہی میں ایک تقریب میں دیکھا تھا ان کی تفصیل نام پتہ وغیرہ بھی حاصل ہوسکا تو انشاء اللہ شئیر کروں گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ مولوی تو جھوٹے طور پر مرزا صاحب کی طرف لوگوں کو منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی حقیقت میں ان کے بڑے بڑے علماء کی اولادوں کو حضرت مرزا صاحب کے قدموں میں کھینچ کر لاتا جارہا ہے۔ لیکن ایسی باتوں کا مولوی کیونکہ چرچا کرتا نہیں اس لئے لوگوں کو پتہ بھی نہیں لگتا۔ بلکہ ایسے لوگوں کا تو نام لینا بھی جرم قرار پاتا ہے اور لوگ ان سے ناواقف ہی رہتے ہیں۔ اب شائد ہی محفل پر کسی کو علم ہوگا کہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے بڑے بھائی مولانا ذوالفقار علی خان گوہر جو ایک مایہ ناز شاعر بھی تھے وہ بھی احمدی تھے۔ خیر یہ نو منٹ کی ویڈیو ہے جو پوری نہ دیکھ سکیں وہ چوتھے منٹ سے دیکھنا شروع کریں جب مولوی محمد حسین بٹالوی کے نواسے کو اسٹیج پر بلایا جائے گا۔



اگلی پوسٹ میں ابن حسن کے کچھ مزید سوالات کے جواب دے کر پھر انشاء اللہ موضوع کی طرف واپس آوں گا۔
 
جناب میں نے صرف مسیح کی کشمیر میں آمد کے متعلق تاریخی حقائق پیش کرنے کی بات کی تو آپ آپے سے ہی باہر ہوگئے حالانکہ یہ تو پھر بھی موضوع سے بالکل مطابق بات تھی۔ لیکن فوراً آپ نے منتظمین کو اپنی مدد کے لئے بکارا ہے مجھے پابند بنانے کی سفارشات کرنے لگے ہیں۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق یہ حرکت نو مسلسل آپ سے سر زد ہوتی رہی ہے کہ موضوع سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ زیربحث تو حیات اور وفات مسیح کاعقیدہ تھا۔ اور میں شروع سے ہی اس تک محدود تھا۔ اور تمام دلائل میں نے قرآن اور احادیث اور لغات العرب سے دئیے تھے۔ کسی ایک جگہ بھی میں نے احمدیہ علم کلام کا حوالہ نہیں دیا تھا۔ لیکن آپ کے یہ معاملات بیچ میں گھسیٹنے کے بعد مجھے بھی مجبوراً اسطرف آنا پڑا اور اچھی خاصی مفید بحث کا چربہ بن گیا ۔ آپ نے احمدیت پر بھی اعتراضات کرنا شروع کردیئے اور مرزا صاحب کی بھی کردار کشی شروع کردی۔ کیا مرزا صاحب کی کردار کشی کرنے سے حضرت عیسی نے زندہ ہوجانا تھا؟ یا ان پر اور احمدیت پر اعتراض کرنا اس موضوع سے مطابق تھا؟ یا مرزا صاحب پر شراب کا الزام لگانا اسی بحث سے تعلق رکھتا تھا؟ اور ان پر چوری کا الزام لگانا بھی شائد حیات مسیح کی بحث کے عین مطابق تھا؟ اور نبیوں کی توہین جیسے الزامات مسیح کی حیات کے موضوع سے متعلق تھے؟ اور صحابہ کی توہین کے الزامات بھی اسی بحث کی ذیل میں آتے تھے؟ اور مرزا صاحب کے دعوی نبوت کو مشورہ پر مبنی سازش قرار دے کر اسکا جواب طلب کرنا بھی حیات مسیح کی بحث جیتنے کے لئے انتہائی ضروری تھا؟ جناب ان تمام باتوں کا ذرا اس موضوع سے تعلق سمجھا دیجئے۔ مسیح کی وفات زیربحث ہے تو ان کی قبر کے متعلق کچھ تاریخی بات کرنا عین موضوع کے مطابق ہے اس پر تو آپ فوراً بلبلا اٹھے ہیں لیکن جو کچھ آپ کررہے ہیں اسکا کیا جواز ہے؟ اگر یہ باتیں اس بحث کے لئے انتہائی ناگزیر ہیں تو غامدی صاحب، جماعت المسلمین، مفسر حجاز سعودی عرب اور جامعہ الازہر کے کئی مفتیوں سے اگر آپ کو حیات مسیح کے عقیدے پر بحث کرنی پڑگئی تو شائد جناب بالکل ہی خالی ہاتھ اپنے آپ کو محسوس کریں۔ اب اصولاً میرا حق بنتا ہے کہ میں آپ کو پابند کرانے کی بات کروں۔ لیکن میں پھر بھی اسکی ضرورت محسوس نہیں کرتا کیونکہ جو یہاں پر متعصب اور جانبدار دیکھنے والے ہیں ان سے میں نے کوئی توقع نہیں رکھی ہوئی اور جو بغیر تعصب کے دیکھ رہے ہیں ان میں اگر سمجھداری کا مادہ ہے تو وہ خود ہی آپ کی یہ حرکتیں نوٹ کررہے ہوں گے۔

میں نے اس پوری بحث میں خاص مرزا غلام احمد قادیانی کے کردار و فحش کلامی کے تذکرہ سے اجتناب کیا ہے۔صرف وہ باتیں پیش کی ہیں جو مرزا کے اس دعوئے باطلہ کی قلعی کھولتی ہیں مرزا کی شراب نوشی کی بات میں نے اس تھریڈ میں کہاں کی ہے ذرا نشاندہی تو کیجئے۔مرزا کی غلط بیانیوں، اجماع امت سے کٹ کر ایک غلط عقیدہ کی ترویج کی نشاندہی، اور اس کی تضاد بیانیوں کی نشاندی اس غرض سے کی گی کہ یہ بات ثابت ہو سکے کہ مرزا کا دعوہ مسیحیت درحققیت خوساختہ تھا اور ایسا شخص کیسے مسیح ہو سکتا ہے جس کی اپنی کتب کذب و تضاد بیانیوں سے بھری ہو۔

جو بات میں نے اس سے قبل پوسٹ میں کی وہ جناب کی سمجھ میں شاید آئی نہیں میں پھر کہوں گا کہ حیات حضرت عیسیٰ کا عیقدہ ایک دینی عقیدہ ہے اور اس پر گفتگو قرآن ، احادیث و تفاسیر کی روشنی میں ہی کی جاسکتی ہے۔ تاریخ کا علم ایک ظنی علم ہے، قطعی نہیں چنانچہ وہ عقائد کے باب میں ثبوت واحد کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ تاریخ اس پورے مسئلہ میں صرف ایک معاون کے طور پر اس وقت استعال کی جاسکتی ہے جبکہ کہ وہ قرآن و احادیث کی تائید کر رہی ہو نہ کہ قرآن و احادیث کے جواب میں تاریخ کو بطور ثبوت پیش کیا جائے۔اب تک آُپ قرآن شریف و احادیث نبویہ سے کچھ ثابت نہیں کر سکے ہیں لیکن تاریخ کو گویا میرے دئیے ہوئے دلائل جن کی بنیاد قرآن و احدیث پر ہے، کے گویا جواب کے طور پر پیش کر رہے ہیں یہ چیز عقائد میں میں ناقابل قبول ہے۔


اور یہ بھی خوب رہی کہ میں آپ کی ہربات کا جواب دینے کا پابند ہوں۔ جناب میں نے کب یہ اقرار نامہ آپ کو لکھ کر دیا ہے کہ آپ کی ہر اوٹ پٹانگ بات کا جواب دوں؟ میرا کام یہاں اپنا موقف پیش کرنا ہے اور جہاں آپ کی کسی بات میں وزن نظر آئے گا اسکی وضاحت کردوں گا۔ نا یہ کہ ڈنڈے کے زور سے اپنا عقیدہ آپ سے منواوں۔ آپ نے اپنا موقف پیش کرنا ہے اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسا ہے کہ ہر ایک کا دل جیت لے گا تو آپ کو پریشانی کس بات کی ہے۔ بلکہ میں اگر آپ کی بعض اوٹ پٹانگ باتوں کے جواب چھوڑ رہا ہوں تو اس پر تو آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ اب سب آپ کے موقف کو تسلیم کرلیں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ آپ کو اپنے دلائل کے بودے پن کا کچھ زیادہ ہی احساس ہے اور چاہتے ہیں کہ فضول باتوں میں بحث الجھ جائے تو آپ کچھ ریلیکس ہوں۔ آپ اطمینان سے اپنا موقف پیش کریں اور میں اپنا پیش کررہا ہوں دیکھنے والے خود ہی فیصلہ کرلیں گے کہ کس طرف کے دلائل میں وزن ہے۔ لیکن پھر بھی میں آپ کی بعض باتوں کی مذید وضاحت ضرور کروں گا۔ جیسے پیر مہر علی شاہ کے حوالے سے انشاء اللہ بات ضرور ہوگی۔ تسلی رکھیں۔ اور اسکے علاوہ بھی بعض اور اٹھائے گئے سوالات پر بھی انشاء اللہ ضرور کچھ عرض کروں گا۔

آُپ میری ہر بات کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن شاید ایسے مناظروں کو بالکل تجربہ نہیں ہے۔ علمی گفتگو میں ٹرین یک طرفہ نہیں چلتی۔ ایک کے بعد ایک آپ کے تمام دلائل کا میں نے جوب دیا ہے اور میرے خیال میں شاید ہی آپ کی کوئی بات جواب دینے سے رہ گئی ہو۔آپ کی لن ترانیوں(مثلا من السما کا لفظ احادیث میں کہیں نہیں آیا) آپ کے غلط دعوں (مثلا کتاب اسما کی سن اشاعت ۱۳۲۸ ہے اور مولویوں نے من السما کا لفظ اپنی طرف سے مرزا کی موت کے بعد بڑھا دیا ہو گا) آپ کے مرزا اور آپ کی جماعت کا مشرکہ چیلنج کا جواب (کہ توفاہ کا لفظ اللہ کے فاعل اور انسان کے مخلوق ہو نے کی صور ت میں موت کے سوا استعمال نہیں ہوتا) اور بہت کچھ جو آپ نے کہا ہر ایک بات کا آپُ کو جواب دیا گیا۔

شاید آپ اس بات کو سمجھ نہیں رہے کہ جو موقف میں یہاں پیش کر رہا ہوں اس پذیرائی اس لیے ہورہی ہے کہ یہی وہ موقف ہے جو پوری امت محمدیہ کا ہے جو قرآن سے ثابت ہے، جو احادیث سے ثابت ہے جس پوری امت چودہ سو سال سے متفق چلی آرہی ہے، جبکہ آپ وہ عقیدہ پیش کر ہے ہیں جو آپ کا آپ کے مرزا کا اور قادیانی ذریت کا ہے،اس لیے مجھے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ بھلے تمام باتوں و دلائل کو نظر انداز کر دیجئے حقیقت اس طرح بھی چھپے گی نہیں انشاء اللہ اور غالب آکر رے گی


سیح کی عمر 153 سال لکھنا:
میں نے یہ کہا تھا کہ مجھے 153 سال والا حوالہ ہی نہیں ملا تو جناب فوراً غصہ ہوگئے کہ کیوں نہیں ملا اور آتش بار ہوکر منہ سے پھول جھاڑنا شروع کردیئے۔ محترم غصہ کرنے کی بجائے اگر حوالہ ہی درست لکھ دیتے تو میرا اتنا وقت تو نہ ضائع ہوتا۔ جناب نے تذکرة الشہادتین کا صفحہ 21 درج کیا ہے جبکہ میں نے صفحہ 21 کے آگے پیچھے بھی دیکھ لیا لیکن کہیں نظر نہ آیا۔ اور پھر مجبوراً پوری کتاب پڑھنا شروع کی تو صفحہ 21 سے کئی صفحات آگے جاکر وہ عبارت ملی۔ ایک تو غلط حوالہ دے کرمیرا وقت ضائع کرایا اوپر سے غصہ بھی کررہے ہیں واہ کیا ہی خوب رویہ ہے۔ غلطی سے انسان کبھی کبھار غلط حوالہ دے دیتا ہے یہ کوئی ایسی بات نہیں لیکن جب میں نے توجہ دلائی تو غصہ کرنے کی بجائے ذرا خود بھی ایک نظر چیک کرلیتے تو بہتر ہوتا۔ میں ان کے دئے گئے حوالہ کے صفحہ کا عکس یہاں دے رہا ہوں یہ جو مجھ پر غصہ کررہے تھے یہ اس صفحے میں سے یہ عبارت ڈھونڈ کر دکھائیں۔ تذکرة الشہادتین کا صفحہ 21 بائیں جانب حاشئے میں لکھا ہوا ہے۔ اور اوپر روحانی خزائن کی اس جلد کا صفحہ 23 بھی نظر آرہا ہے میں نے اسکا بھی 21 صفحہ دیکھ لیا لیکن وہاں بھی کچھ نہیں۔

درحقیت انسان اپنے ماضی سے ہی جانا جاتا ہے۔ اس پوری پوسٹ میں آپ کی کتنی باتیں غلط ثابت ہو چکی ہیں مجھے کہنے کی ضرورت نہیں صرف ایک دعوہ کے مطالق اوپر عرض کر چکا ہوں کہ جناب نے اپنی پاکٹ بک سے نقل کر کہ کہا تھا کہ کتاب السما ۱۳۲۸ کی چھپی ہوئی ہے اور جب میں نے کتاب کا ٹائٹل سامنے پیش کر دیا تو اس بات کو شیر مادر کی طرح ہضم کر گئے اور اس کا ذکر تک نہ کیا۔ تو درحقیقت یہ آپ کے ماضی کی حرکات ہیں جو اس ردعمل کی باعث ہیں بہرحال تصحیح کا شکریہ اوپر جو میں آپ کو خزائن پڑھنے کا مشورہ دیا تھا یہ بات غصہ کے سبب نہیں بلکہ ایک ہمدردی ہے کہ آپ اگر پوری خزائن پڑھ لیں تو شاید راہ حق آپ پر واضح ہو جائے۔

بہرحال آپ نے جو زحمت اس سلسلے میں اٹھائی وہ رائگاں نہیں گئی بلکہ سب لوگوں نے اس کتاب کا متعلقہ صفحہ دیکھا لیا اور حوالے کی درستی ان پر واضح ہو گئی۔الحمد للہ

سونے پہ سہاگہ یہ کہ 120 سال والے اور 125 سال والے حوالے بھی غلط ثابت ہوئے۔ 153 سال والا تو پھر بھی کچھ صفحات آگے جاکر مل گیا تھا۔ لیکن یہ دونوں تو سرے سے ان کتابوں میں ہی نہیں ملے جن کا حوالہ دیا گیا تھا۔ اب بتائیں کہ بندہ پہلے تو آپ کے حوالے ڈھونڈنے میں وقت ضائع کرے اور پھر نہ ملنے پر آپ کو اطلاع دے تو جواب میں بجائے اسکے کہ آپ حوالہ درست کرکے دیں الٹا غصہ کرنے لگ جائیں

گزشتہ پوسٹ میں تو آپ گل افشانی فرما رہے ہیں کہ دونوں حوالے احادیث کے ہیں گویا ان حوالوں سے آُپ باخوبی واقف ہیں لیکن اب یہ ارشاد کہ یہ دونوں حوالے سرے سے کتاب میں ہی نہیں کیا خوب۔

بہرحال یہ دنوں حوالے متعقلہ موجود ہیں یہاں پہلے میں تریاق القوب کا عکس دے رہا ہوں یہ حوالہ خزائن ج ۱۵ ص ۴۹۹ میں دیکھ سکتے ہیں۔

t499.jpg


خزائن کا نیا اڈیشن

t499k.jpg


غور سے ملاحظۃ فرمائیے مرزا کہ رہا ہے کہ یہ پورا عریضہ ایک الہام کے تحت لکھا گیا ہے اب اگر یہ الہام ٹھیک ہے تو پھر ۱۲۰ سال والی روایت کا کیا ہو گا۔؟؟ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ ایک پوری درخواست ہےجو تریاق القلوب نامی کتاب میں ہی شائع ہوئی ہے بطور ضمیمہ نمبر تین کہ اور اس کا عنوان ہے۔۔۔"حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست"۔۔۔ (چہ خوب) اور اسی میں مرزا نے یہ لکھاہے کہ گورنمٹ کی خیر خواہی کے تین اسباب میں سے ایک سبب خدا تعالی کا الہام بھی ہے اور پھر یہ ۱۲۵ سال والی عبارت لکھ کر کچھ آگے اسی صفحہ پھر دہرایا ہے کہ یہ عریضہ ایک الہام سے لکھا گیا ہے اب رانا بتائیں کہ یہ الہام درست ہے یا نہیں؟

اور ست بچن میں بھی یہ بات موجود ہے میں صفحہ ۱۷۶ کا حوالہ دیا تھا پورا حوالہ ۱۷۶ ب ہے (یہ بات دو صفحہ آگے ضمیمہ صفحہ ب پر ہے ، تذکرہ میں تو آپ نے ۸ صفحات کی زحمت کی یہاں بھی ۲ صفحات آگے دیکھ لیتے چہ جائیکہ یہ دعوہ کرتے کہ یہ بات کتاب میں موجود ہی نہیں ہے۔)

sb176bk.jpg



اب ناظرین ذرا غور سے سرخ رنگ سے خط کشیدہ لائن کو پڑھیں اور بتائیں کہ کہیں سے بھی یہ ثابت ہورہا ہے کہ حضرت مرزا صاحب 153 سال عمر پانے کی بات کررہے ہیں۔ صاف صاف لکھا نظر آرہا ہے کہ "احادیث میں آیا ہے کہ اس واقعہ کے بعد عیسی ابن مریم نے 120 برس کی عمر پائی۔" پس وہ تو احادیث کا حوالہ دے رہے ہیں اور ایک اندھا بھی اس عبارت کو دیکھے گا تو سمجھ جائے گا کہ 120 سال عمر والی احادیث کی بات ہورہی ہے۔ اورواقعہ صلیب کے بعد مسیح کی عمر 120 سال ہی بیان کی جارہی ہے۔

سب سے پہلی بد دیانتی تو واضع نظر آرہی ہے کہ ابن حسن نے یہ الفاظ "احادیث میں آیا ہے" دھوکہ دیتے ہوئے غائب کردیئے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اگر یہ الفاظ ساتھ ہوں تو کوئی پاگل ہی ہوگا جو اس سے وہ نتیجہ نکالے گا جو ابن حسن نے نکالا ہے۔ اور شائد اسی لئے حوالہ درست نہیں دیا کہ کہیں یہ بد دیانتی کا پول نہ کھل جائے۔ ان الفاظ کی موجودگی میں صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب ان احادیث کا ذکر کررہے ہیں جن میں مسیح کی عمر 120 سال بیان کی گئی ہے۔ کیا ابن حسن کے خیال میں کوئی ایسی احادیث بھی ہیں جن میں واقعہ صلیب کے بعد مذید 120 سال عمر پانے کا ذکر ہے؟ اب یہ خود ہی جمع تفریق کرکے تو زبردستی حضرت مرزا صاحب کی طرف وہ بات منسوب کی جارہی ہے جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔

اب مذید وضاحت کی ضروت تو نہیں سب پر خوب کھل چکا ہوگا کہ یہ کیا کررہے ہیں۔ لیکن پھر بھی اب ان کے اس جمع تفریق کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ یہ سب ناظرین کے ذہنوں میں زبردستی یہ جمانا چاہ رہے ہیں کہ مرزا صاحب واقعہ صلیب کے بعد 120 سال مذید عمر پانے کی بات کررہے ہیں۔ اول تو حضرت مرزا صاحب احادیث کا حوالہ دے رہے ہیں اوراحادیث کا ذکر ساتھ موجود ہونے سے یہ احمقانہ نتیجہ نکلتا ہی نہیں۔ لیکن پھر بھی میں سنجیدہ محفلین سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا واقعی یہاں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے؟ اگر یہ لکھا ہوتا کہ واقعہ صلیب کے بعد 120 برس زندہ رہے پھر تو یہ نتیجہ نکالا جاسکتا تھا۔ جیسا کہ انہوں نے ایک دوسری جگہ یہ فرمایا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد وہ 87 برس زندہ رہے۔ وہاں واقعہ صلیب کے بعد زندہ رہنے کا ذکر ہے نا کہ عمر پانے کا۔ اور دوسروں کو جمع تفریق کی زحمت دینے کی بجائے وہاں تو انہوں نے واقعہ صلیب کے بعد 87 برس زندہ رہنے کا ذکرکرکے ساتھ ہی 120 سال عمر پانے کی بات بھی کی ہے۔ لیکن اس حوالے میں کہاں واقعہ صلیب کے بعد 120 برس زندہ رہنے کا ذکر ہے؟ صاف طور پر احادیث کا حوالہ دیا ہوا نظر آرہا ہے جو بتا رہا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد 120 سال کی عمر پاکر وہ فوت ہوئے۔ اب 120 سال کی عمرانہوں نے واقعہ صلیب کےبعد ہی پائی تھی۔ لیکن بات صرف یہ ہے کہ تعصب اندھا ہوتا ہے۔

چہ چہ چہ رانا صاحب مرزا قادیانی کی تصانیف کوئی عنقا تو ہے نہیں آپ حضرات نے ان کو خود شائع بھی کیا ہے اب پھر بھی اس جھوٹ سے کام لینا اور یہ کہنا کہ دوسری جگہ لکھا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد ۸۷ برس زندہ رہے کیا غلط بیانی کی حد نہیں ہے؟

یہاں آپ نے کئی ہاتھ دکھائے ہیں ایک تو اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ آپ کو ست بچن کا حوالہ پتا تھا اور جان بوجھ کر آپ انجان بن رہے تھے دوسرا یہ کہ اوپر میں نے ایک لمبی بات مختصرا ان الفاظ میں بیان کی تھی کہ مرزا لکھتا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے ۱۲۰ برس کی عمر پائ

وہاں میرے اصل الفاظ ہیں کہ اس واقعہ (یعنی واقعہ صلیب) کے بعد ۸۷ برس زندہ رہے گویا ۸۷ + ۳۳ ، ۱۲۰( ست بچن ص ۱۷۶)

اب اوپر ست بچن اور تریاق القلوب کی دونوں عبارات جن میں باوجود اس کے دو متضاد دعوے حضرت عیسیٰ کی عمر کے بارے میں کیے گئے ہیں ، لیکن حیرت انگیز طور پر ان کی عبارت مماثل ہیں، آپ حضرات یہ دونوں عبارات پڑھیئے

۱۔احادیث میں آیا ہے کہ اس واقعہ کے بعد عیسی ابن مریم نے 120 برس کی عمر پائی۔ تذکرہ الشہادتین
۲۔ اور حدیث صحیح سے جو طبرانی میں ہے ثابت ہوتا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس واقعہ کے بعد ۸۷ برس زندہ رہے۔ست بچن

دونوں میں ایک جمہ ۔۔۔"اس واقہ کے بعد" ۔۔۔استمال ہوا ہے

اب اگر آپ کاہی فارمولہ یہاں لگایا جائے تو اس طرح حضرت عیسیٰ کی وفات ۸۷ برس ہمیں ماننا پڑے گی۔اور مرزا کا جھوٹ جھوٹ ہی رہے گا سچ نہیں ہو جائے گا۔یہاں کوئی لمبی چوڑی بات کرنے کی اور خود کو عقل محض ثابت کرنے کی ضرورت نہیں سب لوگ یا بقول آپ کے سنجیدہ قارئین بھی اتنا فہم ضرور رکھتے ہیں کہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ اس واقعہ کے بعد حضرت عیسیٰ نے ۱۲۰ برس کی عمر پائی اولا تو کسی صحیح حدیث میں ہے ہی نہیں ، دوسری بات اس واقعہ کے بعد کا جملہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ بات کسی واقعہ کے ہی سیاق میں کی جارہی ہے ، مجرد صرف عمر کا ہی بیان نہیں ہورہا بلکہ کسی خاص واقعہ کے بعد بقیہ عمر بتائی جارہی ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو مرزا کے مطابق حضرت عیسیٰ کی عمر طبرانی کےمطابق ۸۷ سال کی ہوتی ہے اب اس طرح کیا وہ تضاد دور ہو جاتا ہے جو آپ دور فرمانے کی کوشش کر رہے ہیں؟؟

اب جیسا کہ سب نے دیکھ لیا ہے کہ ابن حسن کو زبردستی جمع تفریق کرکے دوسروں کے منہ میں لقمہ دینے کا بہت شوق ہے۔ اور مرزا صاحب تو خیر ان کے نزدیک سچے ہی نہیں لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے اس رویئے سے محفوظ نہیں رہے۔ جس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 120 سال عمر بیان کی ہے اس کا بھی انہوں نے اسی انداز میں خوب مضحکہ اڑایا ہے اور وہ بات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جو انہوں نے کہی ہی نہیں۔ اور صرف مرزا صاحب کو جھوٹا ثابت کرنے کے شوق میں اس حدیث کو بھی تختہ ستم بنا ڈالا۔ جب میں نے مرزا صاحب کی بریت ابن حسن کے اس سراسر لغو اعتراض سے کی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو میرا اولین فرض بنتا ہے کہ میں ان کی بھی بریت ابن حسن کے اس گستاخانہ جمع تفریق کے اعتراض سے کروں۔

آنحضرت سمیت تمام انبیا کی توہین کا شوق مرزا کو تھا الحمد للہ ہم آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں کسی جھوٹے کی ذریت سے ہمارا تعلق نہیں اور ہم اپنے آقا کی عزت دل و جان سے کرتے ہیں آپ کو ہر ایک سے بڑھ کر محبوب جانتے ہیں اور دوسروں سے عزت کرانا بھی جانے ہیں۔
حدیث وہ بات ہے جو آنحضرت سے ثابت ہو اور جو ثابت نہ ہو وہ حدیث ہی نہیں۔ پہلے اس روایت کا حدیث صحیح ہونا تو آپ ثابت کیجے پھر مجھ پر کوئی حکم لگا ئیے گا۔

جہاں تک بات ابن لہیعہ کی ہے اور یہ ٹھیک ہے کہ اس کے لیے تعدیل کے بھی کلمات آتے ہیں لیکن عبد اللہ ابن لہیعہ کے ساتھ کچھ مسائل ایسے ہیں کہ بالاخر اس کی حدیث قبول کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن پہلے کچھ وہ اقول جن کی روھ سےاس کی ثقاہت بالکل مجروح نظر آتی ہے

تہذیب التہذب میں ہی لکھا ہےکہ امام مسلم نے اپنی کتاب الکنی میں بیان کیا ہے کہ ابن مہدی ، یحیی بن سعید اور وکیع نے اس کو ترک کر دیا (یعنی اس کی حدیث کو لینا ترک کر دیا)
ابو جعفر طبری نے تہذیب الاثار میں بیان کیا ہے کہ آخر عمر میں یہ پاگل ہو گیا تھا۔
امام ابن عبد البر نے تمہید میں کہا ہے کہ ابن لہیعہ اور یحیی بن اظہر دونوں ضعیف تھے۔
امام عبد الکریم بن عبد الرحمن نسائی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ یہ ثقہ نہیں تھا۔
اما ابن معین کہتے ہیں کہ یہ ضعیف تھا ہمیں اسکی احادیث کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کو مدلس بھی کہا گیا ہے [ARABIC](أنه كان يدلس عن أقوام ضعفاء ، على أقوام ثقات قد رآهم فلا تقبل عنعنته)[/ARABIC]
امام ابن جوزی کہتے ہیں کہ اس کی حدیث میں کوئی نور نہیں ہے ہمیں اس کی حدیث کی کوئی ضرورت بہیں
تہذیب میں ہی امام حاکم کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ یہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا تھا لیکن اپنی کتابوں کے جلنے کے بعد یہ محض اپنے حافظے سے حدیث بیان کرتا تھا اور اس میں خطا کرتا تھا۔
اصل میں معاملہ یوں تھا کہ اس کا گھر اور کتابیں دونوں جل گئیں تھیں اور بعد ازاں اسی صدمے سے یہ پاگل بھی گیا تھا۔ اس سے پہلے بعض نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے واقعہ احتراق کے بعد سب ہی اس کے ضعیف ہونے پر متفق ہیں۔
لیکن امام ابن معین نے واقعہ احتراق سے قبل بھی اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔

علاوہ ازیں یہ حدیث کنز العمال میں طبرانی سے نقل کی گئی ہے اور مجمع الزوائد میں بھی ۔ تاہم مجمع الزوائد میں واضح طور پر لکھا ہے کہ
[ARABIC]رواه الطبراني بإسناد ضعيف، وروى البزار بعضه أيضاً وفي رجاله ضعف‏[/ARABIC]
طبرانی نے اسناد ضعیف سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ اور بزار نے بھی اسی میں بعض کو روایت کیا ہے اور اس کے بھی راوی ضعیف ہیں ۔

البدایہ والنہایہ ج ۲ ص ۵۱۵، ۵۱۶ یہی حدیث مستدرک حاکم کے حوالے سے نقل کی گی ہے اور اس کے بعد امام ابن کثیر نے اپنی رائے دی ہے کہ
فھو حدیث غریب اور اس جگہ ابن عساکر کا یہ قول بھی پیش کیا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ اس عمر تک نہیں پہچے۔
علاوہ ازیں طبری اور ابن کثیر وغیرہ کے اقوال میں پہلے ہی نقل کر چکا ہوں کہ وہ حضرت عیسیٰ کے زندہ آسمان کی طرف رفع کے قائل ہیں لہذا ان کے حوالے آپ کے ویسے بھی کام کے نہیں

دوسری بات یہ کہ محض کتابوں کے نام نقل کر دینے سے بہتر تھا کہ آپ پورا حوالہ یہاں نقل فر دیایتے تاکہ جواب اس انداز سے دیا جاسکتا
جہاں تک بات نواب صدیق صاحب کی ہے تو فی الحال یہ کتاب میرے پاس نہیں تاہم نواب صاحب نے اپنی تفسیر فتح البیان میں سورہ آل عمران کی تفسیر بیان کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ احادیث میں آیا ہے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ہوا تو ان کی عمر ۱۲۰ سال تھی (ج ۲ص۲۴۷)اب یہاں کہیں بھی ان وفات کا ذکر یا ذکر نہیں کہ ان کی کل عمر ۱۲۰ سال تھی۔ اور دوسری بات یہ کہ آپ نے نواب صاحب کی حجج الکرامہ فی آثار القیامہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جج الکرامہ صفحہ 428 میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی سب کے سب ثقہ ہیں تو یہ بات کس حدیث کی سلسلہ سند کے بارے میں ہورہی ہے ذرا وضاحت تو فرمائیے۔ کنز العمال ، طبرانی ۔ مستدرک ، ابن کثیر کے حوالے تو ضعیف ثابت ہو چکے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔
 
آپ نے اس حدیث کو ثابت کرنے کے لیے اتنی لمبی وضاحت کی کہ اس کو نقل کرنا بھی میرے خیال میں کار عبث ہے۔ اس جگہ اُ پ کو حدیث کے ان الفاظ پر غورکرنا چاہیے
وانی لا ارانی الا ذاھبا علی راس الستین
اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں ۶۰ کے شروع میں انتقال کرنے والا ہوں۔پھر دہراوں غورکیجئے ۔ وانی لا ارانی الا ذاھبا علی راس الستین بالکل وضاحت کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ دیکھتا ہوں کہ ساٹھ کے شروع تک جاوں گا، لا ذاھبا ، بتا رہا ہے کہ راس الستین یعنی ساٹھ کے شروع سے زیادہ عمر ہے ہی نہیں۔
اب اگر رانا صاحب کی بات درست ہوتی یعنی ہر نبی اپنےسے پہلے گزرے ہوئے نبی کی عمر سے نصف عمر ضرور پاتا ہے۔جیسا کہ انہوں نے کہا کہ "اور یہ کبھی نہیں ہوا کہ مثلاً ایک نبی نے ساٹھ سال کی عمر میں وصال پایا ہو اور بعد میں آنے والا نبی تیس سال سے پہلے فوت ہوگیا ہو۔ "
تو یہ حدیث نبی پاک کے انتقال سے مشروط نہ ہوتی ۔یعنی یوں سمجھیے کہ اگر ہر نبی اپنے سے پہلے والے نبی سے کم از کم آدھی عمر پاتا ہے تو پھر بعد میں آنے والی کی عمر گزشتہ نبی کی عمر سے بڑھ بھی سکتی ہے ، یا آدھی عمر سے دس پندرہ ، بیس ، پچیس سال زیادہ زیادہ بھی ہوسکتی ہے ،تویہاں حدیث میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ میں ساٹھ کا ضرور ہو جاوں گا، لیکن نہیں یہاں حدیث کے الفاظ واضح ہیں کہ میں ساٹھ کے شروع میں انتقال کرنے والا ہوں ۔ اب یہ حصر توا سی وقت ہو سکتا ہے جب لازما بعد والے نبی کی عمر پہلے والے نبی کی عمر سے ٹھیک آدھی ہو، جبھی اس حدیث میں پہلے حضرت عیسیٰ کی عمر ۱۲۰ اور پھر اپنی عمر ٹھیک آدھی بتائی کہ میں ساٹھ کے شروع میں انتقال کرنے والا ہوں۔ اور اس طرح جو بات میں نے پچھلی حدیث میں کہی تھی وہ پوری ہوتی ہے۔
اسی حدیث میں ایک دوسرا قرینہ بھی موجود ہے جو صاف یہ بتا رہا ہے کہ نبی پا ک ساٹھ کے شروع میں اپنے انتقال کی بات کرہے ہیں وہ یہ کہ کنز العمال میں یہ بات کہنے کہ بعد نبی پاک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے یہ کہتے ہیں کہ تم میرے اہل بیت میں سب سے پہلے مجھ سے آ ملو گی۔
گویا یہ بات صاف ہو گئی کہ یہاں صرف ساٹھ سال عمر پانے کی بات نہیں ہورہی بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ حضرت عیسی کی عمر ۱۲۰ سال ہوئی میں ساٹھ کے شروع میں انتقال کروں گا اور پھر حضرت فاطمہ کو یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ نبی پاک کے انتقال کے بعد وہ سب سے پہلے ان سے جا ملیں گی۔
اب اسطرح اگر یہ حدیث درست ہے تو پھر حضرت آدم تک انبیا کی عمریں دگنی کرتے جائے نتیجہ صاف سامنے آجائے گا۔یہ حدیث روایتا و درایتا نا قابل اعتبار ہے۔

پھر اگر یہ حدیث صحیح ہے تو جو مرزا نے بات کہی کہ حضرت عیسی کی عمر ۱۲۵ سال یا ۱۵۳ سال ہوئی وہ دونوں اقوال جھوٹ ہیں ۔ اب فیصلہ رانا خود فرما لیں۔

اب جس عبارت کا یہ حوالہ دے رہے ہیں وہاں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی جہاں جہاں ایسا مضمون بیان ہوا ہے مرزا صاحب الزامی رنگ میں مسلمان علماء کو جواب دے رہے ہیں کہ اگر اتنے قرآنی دلائل کے باوجود تم عیسی کو زندہ تسلیم کرتے ہو تو پھر حضرت موسی کو بھی کیوں نہ زندہ تسلیم کیا جائے کہ ان کے بارے میں تو قران کی آیت میں بھی ذکر ہے۔

جھوٹ بولنا شاید اب ان جیسے حضرات کے لیے اتنا فخر کا کام ہو گیا ہے کہ آن لائن فورم پر بھی سب کی آنکھوں میں جھول جھونکنے کی کوشش کرتے نہیں تھکتے

یہاں میں مرزا کی ایک عبارت کا عکس دے رہا ہوں دیکھئے یہاں وہ حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کا تقابل کر کہ کیا کہ رہا ہے۔

24-3-1.gif


24-3-2.gif


ترجمہ اس کا یہ ہے کہ " بلکہ حیات کلیم اللہ نص قرآن سے ثابت ہے کیا تو نے قرآن میں نہیں پڑھا اللہ اتعالیٰ کا قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شک نہ کریں ان کی ملاقات سے۔یہ آیت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ۔ یہ آیت دلیل صریح ہے موسیٰ علیہ السلام کی حیات پر اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موسیٰ علیہ السلام سے (معراج) ملاقات ہوئی۔اور (اگر موسی ٰ علیہ السلام فوت شدہ ہوتے تو) مردے زندوں سے نہیں ملا کرتے ۔ایسی آیات تو عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نہیں بلکہ مختلف مقامات پر ان کی وفات کا ذکر ہے۔

غور فرمائیے کہ یہاں دو نبیوں کا ذکر ہے ایک کو زندہ اور دوسرے کو وفات شدہ مانوانے کے لیے زور صرف کیا جارہا ہےایک (حضرت موسیٰ ) کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ حیات نص قران سے ثابت ہے دوسرے کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اسیی آیات تو حضرت عیسیٰ کے بارے میں نہیں بلکہ ان کی تو وفات کا ذکر قرآن میں ہے۔
اب میں یہی کہوں رانا صاحب یہ دھوکہ کسی اور دیجئے گا ایسی کاروائیاں یہاں کامیاب نہیں ہو سکتی ۔

دس اور بارہ سال کی فضول کج بحثی:
ایک ان کو یہ بڑی مصیبت پڑی ہوئی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے دعوی مسیحیت جو فتح اسلام میں کیا تھا وہ 1890 میں کیا ہے۔ جو کہ براہین احمدیہ کے بعد دس سال بنتا ہے۔ جبکہ اعجاز احمدی میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے براہین کے بارہ سال بعد دعوی کیا۔ انہوں نے دس کی بجائے بارہ کیوں کہا یہ اتنا بڑا تضاد ہے کہ اس سے ابن حسن کی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ اور جب تک اسے دور نہ کیا جائے ابن حسن صاحب بے چین ہی رہیں گے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ جب اندازے سے بات ہوتی ہے تو ایک دو سال کا فرق کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ آپ کو خود تسلیم ہے کہ اعجاز احمدی 1902 کی تصنیف ہے یعنی براہین کے کوئی 22 سال بعد کی۔ اتنے عرصے بعد اگر اندازے سے بات کرتے ہوئے ایک دوسال کا فرق پڑجائے تو یہ کسی کے بھی نزدیک قابل اعتراض نہیں ہوتا۔ لیکن آپ نے اس بات کو بھی بار بار دہرایا کہ جیسے اس سے بڑا مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس بات کو بھی ذرا گہرائی میں جاکر دیکھ لیا جائے کہ اصل حقیقت ہے کیا۔ لیکن اس سے پہلے میں ذرا ناظرین کو وہ وجہ بتادوں کہ آخر یہ اس چھوٹی سی بات کو اتنا کیوں اچھال رہے ہیں۔ اسکے بعد ان کی اس بات کا بھی انشاء اللہ جواب دوں گا۔

بات اگر عام انسانوں کی ہو اس بات کی گنجائش نکلتی ہے کہ سہوا ایسا ہو گیا ہو گا تاہم اگر محض آدمی کا حافظہ مضبوط ہو تو اس کے بھی امکانا ت کم ہوتے کہ بار بار کوئی ایسی غلطیاں کرے گا ۔ چہ جائیکہ کہ مرزا کی کتابیں ہی تضاد بیانیوں سے بھری ہیں ، اس لیے توجہ اس طرف مرکوز کرائ جارہی ہے کہ ایسا شخص جس کا یہ دعوہ ہو کہ الہام کے زریعے خبر دیتا ہے اس کی تحریروں میں اتنا تضاد ہر اس شخص کے لیے چونکا دینے والی چیز ہے جو ذرا بھی عقل رکھتا ہو۔

اصل بات یہ ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے حضرت مرزا صاحب کا ایک خط پیش کیا کہ جس سے بقول انکے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اس خط میں مسیحیت کے دعوی کے لئے مشورہ کیا جارہا ہے۔ اور اس اعتراض کو بھی انہوں نے بار بار اپنی پوسٹس میں دہرایا۔ پھر جب میں نے حوالے دے کر یہ ثابت کردیا کہ جس خط کا یہ ذکر کررہے ہیں کہ اس میں مشورہ کیا جارہا ہے۔ دعوی مسیحیت تو اس خط سے بھی کافی پہلے کیا جاچکا تھا۔ تو اب یہ لاجواب ہوگئے اور کچھ بن نہ پڑا۔ لیکن کیونکہ مولوی ہیں اس لئے اچھل کود کئے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔ لہذا اب کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق انہوں نے یہ راگ الاپنا شروع کردیا کہ مرزا صاحب نے اعجاز احمدی میں لکھا ہے کہ میں نے براہین کے بارہ سال بعد دعوی کیا لیکن فتح اسلام تو دس سال بعد کی ہے۔ اب یہ اعتراض بالکل ایک لایعنی اور فضول اعتراض تھا لیکن وجہ وہی کہ بلی کو کھمنا تو نوچنا ہی تھا نا۔ اب جیسے پہلے وہ مشورہ والا اعتراض بار بار دہرایا جارہا تھا اب یہ دہرانا شروع کردیا۔ لیکن جب میں نے اس بات کو چیک کیا تو پتہ لگا کہ یہاں بھی یہ روایتی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھوکہ دینے کی پوری کوشش کررہے ہیں ورنہ فتح اسلام کے دعوی مسیحیت اور حضرت مرزا صاحب کی اس بارہ سال والی بات میں سرے سے کوئی تضاد ہی نہیں۔ اس بات کی اب میں وضاحت کرتا ہوں۔

میں لاجواب ہوا نہیں الحمد للہ ایک کے بعد دوسری دلیل سے آُپ کو لاجواب کر دیا۔ مرزا نے یہ دعوہ محض سازش سے رچایا تھا یہ ایک ڈرامہ تھا اس پر میں نے اتنے دلائل دیے ہیں کہ آپ چاہے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں (ویسے رانا صاحب کی یہ پوسٹ اور بالخصوص یہ حصہ پڑھ کر سمجھ آیا کہ ایڑی چوٹی کا زور لگایا کیسے جاتا ہے)
آپ کی پوسٹ کا یہ حصہ پڑھ کر نہ صرف ہنسی آئی بلکہ یقین مانیئے آپ پر رحم بھی آیا اور یہ میں مذاقا نہیں حقیقتا کہ رہا ہوں۔
آپ کی تحقیق پڑھی قدرتی طور پر ایک سوال پیدا ہوا کہ کیا مرزا نے اعجاز احمدی میں جس براہین کی بات کی تھی وہ براہین کا صرف پہلا حصہ ہی تھا ، دوسرا، تیسرا ، چوتھا حصہ اس میں شامل نہ تھا؟؟
براہین احمدیہ ۱۸۸۰ سے ۱۸۸۴ تک چھپی ہے ۔ اعجاز احمدی ۱۹۰۲ کی تصنیف ہے جس میں مرزا نے کہا کہ وہ خدا کے الہامات کو ۱۲ سال تک نہ سمجھ سکا ۔ تو کیا خدا نے الہامات صرف پہلے حصےمیں کیے تھے؟؟ ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم براہین احمدیہ مطبوعہ ۱۸۸۴ کا صفحہ ۵۹۳ اور ۵۹۴ (یعنی خزائن ج ۱ ص ۵۹۳ اور ۵۹۴)دیکھیں تو یہاں بھی مرزا مثیل مسیح ہونے کا دعوہ کرہا ہے اور کہ رہا ہے کہ
خداوند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو شریک کر رکھا ہے۔
اب رانا صاحب کسی طرح ۱۸۸۴ کو بھی ۱۸۷۹ آپ ثابت کر سکیں تو شاید بات بن جائے۔
اس نئے انکشاف کی روشنی میں اب مرزا کی سمجھ میں یہ الہام ۱۲ سال بعد گویا ۱۸۹۶ میں جاکر آیا ۔لیکن اس سے قبل کیے گئے اس کے دعووں کا اب کیا کیا جائے ، رانا صاحب کیا کوئی اوپائے ہے اب آپ کے پاس، اس مہا تضاد بیانی کا؟؟؟

اور پھر یہی نہیں اگر رانا صاحب کی اس تحقیق کو درست مان لیا بھی جائے تو پھر ۱۸۹۲ کے اس اشتہار کا جس کا میں حوالہ پہلے دے چکا ہوں کیا کریں جس میں مرزا اپنے دعوہ مسیحیت سے صا ف انکار کر رہا ہے اور اپنے دعوے کو صرف محدثیت تک محدود کر رہا ہے؟؟؟

(درحقیقت کسی کا بھی سر مرزا کی کتابیں پڑھ کر گھوم سکتا ہے، اب یہاں سے وہاں تک ایک تضاد بیانی کا جنگل پھیلا ہوا ہے)
 

رانا

محفلین
مرزا کی شراب نوشی کی بات میں نے اس تھریڈ میں کہاں کی ہے ذرا نشاندہی تو کیجئے۔

اپنی پوسٹ نمبر 65 کا آخری پیراگراف پڑھ لیں۔ جس طرح سلمان رشدی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر اگلا تھا۔ اس طرح حضرت مرزا صاحب بھی اس بات میں اپنے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوگئے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ان کا انکار کرنے والے سخت گند اچھالتے ہیں اسی طرح مرزا صاحب کے خلاف بھی ان کا انکار کرنے والے کرتے ہیں۔

آپ کہیں گے کہ میں حوالے دے سکتا ہوں۔ یہی بات سلمان رشدی بھی کہتا ہے کہ میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا مسلمانوں کی کتابوں سے ہی سب مواد لیا ہے۔ اور واقعی اسکی پھیلائی ہوئی گندگی کو جب کھود کردیکھتے ہیں تو ہر جگہ ماخذ کوئی نہ کوئی اسلامی روایت ہی ہوتی ہے جو یا تو ضعیف ہوتی ہے یا اسکا مطلب اپنی مرضی سے اخذ کرکے اس نے پھر حملہ کیا ہے۔ جیسا کہ آج مولوی حضرات مرزا صاحب کی باتوں کا خود ہی ایک مطلب تراش کر پھر اس پر عمارت کھڑی کرتے ہیں۔

مرزا کی غلط بیانیوں، اجماع امت سے کٹ کر ایک غلط عقیدہ کی ترویج کی نشاندہی، اور اس کی تضاد بیانیوں کی نشاندی اس غرض سے کی گی کہ یہ بات ثابت ہو سکے کہ مرزا کا دعوہ مسیحیت درحققیت خوساختہ تھا اور ایسا شخص کیسے مسیح ہو سکتا ہے جس کی اپنی کتب کذب و تضاد بیانیوں سے بھری ہو۔

یہ بتائیے کہ مرزا صاحب کا دعوی مسیحیت زیر بحث ہی کب تھا؟ زیر بحث تو حضرت عیسی کی وفات یا حیات کا مسئلہ تھا۔ اسکا مرزا صاحب کے دعوی سے کیا تعلق؟ چلیں آپ کے نزدیک اگر مرزا صاحب کا دعوی مسیحیت خود ساختہ تھا۔ تو کیا اس سے حضرت عیسی کی حیات یا وفات کا مسئلہ حل ہوگیا؟ اصل بحث تو پھر اپنی جگہ پر ہی موجود رہے گی۔ تو پھر اس مسئلے کو بیچ میں ڈالنے کا مقصد کیا ہوا۔ کیا اب غامدی صاحب، مفسر حجاز، جامعہ الزہر کے مفتیان کرام، علامہ عبیداللہ سندھی، سر سید احمد خان اور جماعت المسلمین اور دوسرے جو وفات مسیح پر یقین رکھتے ہیں وہ اس لئے حیات مسیح پر ایمان لے آئیں گے کہ مرزا صاحب کا دعوی مسیحیت ختم ہوگیا ہے؟ مرزا صاحب کے دعوی مسیحیت کو خودساختہ یا تضاد والا ثابت کرنے سے اس اصل حیات و وفات مسیح کے مسئلہ پر کیا فرق پڑے گا؟ کیا یہ سب لوگ جن کا ذکر کیا گیا ہے مرزا صاحب کی وجہ سے وفات مسیح پر ایمان رکھتے ہیں؟

حیات حضرت عیسیٰ کا عیقدہ ایک دینی عقیدہ ہے اور اس پر گفتگو قرآن ، احادیث و تفاسیر کی روشنی میں ہی کی جاسکتی ہے۔ تاریخ کا علم ایک ظنی علم ہے، قطعی نہیں چنانچہ وہ عقائد کے باب میں ثبوت واحد کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ تاریخ اس پورے مسئلہ میں صرف ایک معاون کے طور پر اس وقت استعال کی جاسکتی ہے جبکہ کہ وہ قرآن و احادیث کی تائید کر رہی ہو نہ کہ قرآن و احادیث کے جواب میں تاریخ کو بطور ثبوت پیش کیا جائے۔اب تک آُپ قرآن شریف و احادیث نبویہ سے کچھ ثابت نہیں کر سکے ہیں لیکن تاریخ کو گویا میرے دئیے ہوئے دلائل جن کی بنیاد قرآن و احدیث پر ہے، کے گویا جواب کے طور پر پیش کر رہے ہیں یہ چیز عقائد میں میں ناقابل قبول ہے۔

پہلے تو یہ بتائیں کہ اگر قرآن، احادیث اور تفاسیر سے آپ اپنا یہ دینی عقیدہ ثابت کرسکتے تھے تو مرزا صاحب کے دعوی اور ان کی کتابوں کو بیچ میں شامل کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ اسکا مطلب تو یہی ہوا کہ قرآن و حدیث اس دینی عقیدہ کو ثابت کرنے کے لئے ناکافی ثابت ہورہے تھے اس لئے آپ کو مجبوراً مرزا صاحب کے دعوی نبوت کو بیچ میں شامل کرنا پڑا کہ جب تک اس معاملے کو ساتھ الجھایا نہیں جائے گا یہ دینی عقیدہ ثابت نہں ہوسکتا۔

آُپ میری ہر بات کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن شاید ایسے مناظروں کو بالکل تجربہ نہیں ہے۔

بالکل مجھے مناظروں کا بالکل تجربہ نہیں ہے اور میں نے کبھی مناظروں میں حصہ نہیں لیا۔ نہ ہی میں مناظرے کرنا پسند کرتا ہوں۔ مناظرے صرف علماء کرام کو ہی زیب دیتے ہیں۔ مجھے تو عالم ہونے کا دعوی ہی نہیں۔ اسی لئے میں ہمیشہ دوسرے کا موقف سنتا ہوں اور اپنا موقف پیش کرتا ہوں اور جہاں وضاحت طلب امور ہوں ان کی وضاحت کرتا ہوں اور وضاحت طلب کرتا ہوں لیکن اپنی بات ٹھونسنے کی کوشش نہیں کرتا۔ لیکن یہ تو فرمائیں کہ یہاں یہ گفتگو کب سے مناظرے میں شامل ہوگئی؟ آپ بعد میں اس گفتگو میں شامل ہوئے ہیں اور زبردستی اسے مناظرہ سمجھ بیٹھے اور چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اسے مناظرہ سمجھیں۔ اپنے شامل ہونے سے پہلے میرے مراسلے پڑھ لیں تو شائد آپ کو معلوم ہوجائے کہ میں نے ایک مراسلے میں اس بات کو واضع کیا تھا کہ میرا مقصد صرف اپنا موقف پیش کرنا ہے نا کہ منوانا۔ اور صرف یہ مقصد ہے کہ دونوں طرف کے موقف ایک ہی جگہ اکٹھے ہوجائیں پھر دیکھنے والے خود ہی فیصلہ کرلیں۔ آپ کو شائد علم ہی نہیں کہ مناظروں کے لئے پہلے قوائد و ضوابط اور اصول طے کئے جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ اس مفید بحث کو احمدیت کے ساتھ الجھا کر محدود نہ کرسکتے تھے۔

گزشتہ پوسٹ میں تو آپ گل افشانی فرما رہے ہیں کہ دونوں حوالے احادیث کے ہیں گویا ان حوالوں سے آُپ باخوبی واقف ہیں لیکن اب یہ ارشاد کہ یہ دونوں حوالے سرے سے کتاب میں ہی نہیں کیا خوب۔

بالکل مجھے معلوم ہے کہ دونوں حوالے احادیث کے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ کس کتاب میں ہیں۔ 125 سال والے کا تو مجھے یہ پتہ تھا کہ "مسیح ہندوستان میں" ہے اور یہ ظاہر ہے دوسری کتاب ہے۔ اور ستاسی برس والا بھی مجھے معلوم تھا کہ حوالہ ہے تبھی تو یاداشت کے سہارے اور آپ کی فراہم کردہ عبارت کے حوالے سے جواب دیا تھا۔ لیکن بتانا تو صرف یہ مقصود تھا کہ میں صرف یاداشت کے سہارے تو ظاہر ہے کہ جواب دینا پسند نہیں کروں گا جب تک کہ عبارت نہ دیکھ لوں۔ اور ایک کتاب میں آپ کا حوالہ اپنی جگہ پر نہیں ملے گا اور دوسری میں بھی یہی صورت ہو تو پھر بندہ سرسری طور پر ہی چیک کرے گا نہ کہ ایک ایک لفظ پڑھ کے۔ یہ تو آپ کا کام ہے کہ حوالہ درست دیں تاکہ دوسرے کا وقت بچے لیکن اگر سہو ہوبھی جائے تو توجہ دلانے پر ہی بندہ توجہ کرلے۔

غور سے ملاحظۃ فرمائیے مرزا کہ رہا ہے کہ یہ پورا عریضہ ایک الہام کے تحت لکھا گیا ہے اب اگر یہ الہام ٹھیک ہے تو پھر ۱۲۰ سال والی روایت کا کیا ہو گا۔؟؟

اگر آپ تعصب سے ہٹ کر فیصلہ کرتے تو سمجھ جاتے کہ کئی صفحات پر پھیلے ہوئے اس عریضہ کا لفظاً لفظاً الہام ہونا مرزا صاحب کا مقصد تھا نہیں۔ عجیب بات ہے کہ آج کے مولوی واقعی بہت زیادہ تعصب پھیلاتے ہیں۔ ورنہ مرزا صاحب کے وقت کے علماء بھی اچھے خاصے عالم فاضل تھے لیکن ان کی نظر اسطرح کے فضول اعتراضات پر نہیں پڑی۔ صاف ظاہر ہے کہ اس عریضہ کا خدا کے الہام سے لکھا جانا وہ کہہ رہے ہیں۔ اس سے یہی مراد ہوسکتی ہے کہ انہوں نے خدا کے الہاماً توجہ دلانے پر اس عریضہ کو لکھنا شروع کیا۔ لفظاً لفظاً الہام کا تو کہیں ذکر ہی نہیں۔

مرزا صاحب کے تمام الہامات جو لفظاً لفظاً انہیں خدا ہی کی طرف سے ہوئے تھے وہ ایک الگ کتاب "تذکرہ" میں چھپ چکے ہیں۔ لیکن آپ لوگ باوجودیکہ ہر بات کو سمجھتے بھی ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے پھر بھی تعصب سے اپنی مرضی کا مفہوم نکالتے ہیں۔

چہ چہ چہ رانا صاحب مرزا قادیانی کی تصانیف کوئی عنقا تو ہے نہیں آپ حضرات نے ان کو خود شائع بھی کیا ہے اب پھر بھی اس جھوٹ سے کام لینا اور یہ کہنا کہ دوسری جگہ لکھا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد ۸۷ برس زندہ رہے کیا غلط بیانی کی حد نہیں ہے؟

آپ کی اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ کیا دوسرئ جگہ نہیں لکھا کہ واقعہ صلیب کے بعد 87 برس زندہ رہے۔ آپ نے تو خود بھی اسکا حوالہ دیا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا۔


آپ حضرات یہ دونوں عبارات پڑھیئے

۱۔احادیث میں آیا ہے کہ اس واقعہ کے بعد عیسی ابن مریم نے 120 برس کی عمر پائی۔ تذکرہ الشہادتین
۲۔ اور حدیث صحیح سے جو طبرانی میں ہے ثابت ہوتا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس واقعہ کے بعد ۸۷ برس زندہ رہے۔ست بچن

دونوں میں ایک جمہ ۔۔۔"اس واقہ کے بعد" ۔۔۔استمال ہوا ہے

کچھ تھوڑا سا بھی خوف خدا نہیں ہے جو بات بالکل سیدھی ہے اور واضع مفہوم میں نظر آرہی ہے اس سے پھر جان بوجھ کر غلط مطلب لینا جبکہ مرزا صاحب کا وہ مقصد ہی نہیں ہے۔ سرخ رنگ سے جو الفاظ میں نے ظاہر کئے ہیں صرف ان پر ہی غور کرلیں تو ہربات واضع ہے۔ اور ساتھ ہی احادیث کا بھی مرزا صاحب جب حوالہ دے رہے ہیں تو پھر اگر کسی کو ان کے الفاظ سے کچھ شک پیدا ہوبھی رہا تھا تو ان احادیث سے رجوع کرکے بھی ان کے مطلب کو سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن آپ کی مرضی آپ کو جو سمجھ میں آئے وہی سمجھ لیں۔

سب سے بڑی بد دیانتی ہی یہ ہوتی ہے کہ کسی کی بات سے وہ مطلب نکالا جائے جو اس سے نکلتا ہی نہیں۔ اب ان کی کتابوں سے بار بار واضع ہے کہ وہ مسیح کی عمر 120 سال اور 125 سال ہی کی روائیتوں کو درست سمجھتے ہیں۔ 153 سال کا ذکر ہی ان سے ثابت نہیں۔ زبردستی جمع تفریق کرکے 153 سال بنائے جارہے ہیں۔ اسی طرح ان کی کتابوں میں بار بار وضاحت ہے کہ روحانی طور پر تمام نبی زندہ ہیں اور جسمانی طور پر کوئی بھی زندہ نہیں۔ تو پھر ان کی کسی عبارت سے اپنی مرضی کا مفہوم تراشنا کہ وہ کسی نبی کو جسمانی زندہ بھی مانتے تھے۔ اسکا کوئی جواز ہی نہیں۔ اب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور دوسری جگہ حضرت عیسی نبی کے آنے کی بھی خبر دی۔ تو کسی کا حق نہیں کہ ان دوباتوں کو تضاد کہہ کر نعوذ باللہ جھوٹ قرار دے ڈالے۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری احادیث سے ملا کر نتیجہ نکالا جائے گا۔ جیسا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری جگہ اسکی وضاحت بھی خود ہی فرمادی ہے۔ تو اب وہ وضاحت ہی مستند سمجھی جائے گی جو انہوں نے خود کی ہے نہ کہ ہر شخص اپنی مرضی کی وضاحتیں ٹھونستا پھرے۔

عجیب بات ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے وقت کے علماء کو یہ کیوں نہیں پتہ لگا کہ یہ ایک طرف تو سب نبیوں کو وفات یافتہ قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف حضرت موسی کو زندہ بھی مانتے ہیں۔ ان میں سےکسی ایک نے بھی ایسی احمقانہ بات مرزا صاحب کے سامنے ان کی زندگی میں نہیں اٹھائی۔ ان کے دور کے کسی عالم نے مرزا صاحب کے سامنے جمع تفریق کرکے یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ آپ نے 153 سال عمر لکھی ہے۔ آخر اسکی کیا وجہ ہے؟ کیا وہ علماء اندھے تھے؟ اس طرح کے کج فہمی پر مبنی چھوٹے چھوٹے اعتراض اسی لئے اس وقت کسی کی طرف سے نہیں اٹھائے گئے کہ ان کے دور کے علماء کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان عبارتوں سے کوئی الٹا مطلب بھی نکالا جاسکتا ہے۔

براہین احمدیہ ۱۸۸۰ سے ۱۸۸۴ تک چھپی ہے ۔ اعجاز احمدی ۱۹۰۲ کی تصنیف ہے جس میں مرزا نے کہا کہ وہ خدا کے الہامات کو ۱۲ سال تک نہ سمجھ سکا ۔ تو کیا خدا نے الہامات صرف پہلے حصےمیں کیے تھے؟؟

اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی نیت ہی اصل میں صرف اعتراض کرنا ہے چاہے کیسے بھی کیا جائے۔ اور مسلسل غلط بیانی کرتے رہے ہیں اور جب ایک کا غلط بیانی کا راز کھل جاتا ہے تو پھر نیچے اتر کر دوسرا جھوٹ شروع کردیتے ہیں۔

پہلے آپ نے دعوی مسیحیت کو مشورہ کہا۔ اور اسکی دلیل جس خط پر رکھی اس سے پہلے ہی دعوی مسیحیت ثابت ہوگیا تو پہلا جھوٹ تو آپ کا یہ ثابت ہوگیا۔ اسکے بعد آپ نیچے اتر آئے کہ براہین احمدیہ 1880 میں لکھی گئی ہے اور اس طرح دس سال بنتے ہیں۔ مسلسل آپ نے 1880 کا ڈھنڈورا پیٹا اوردہراتے چلے گئے۔ پھر جب یہ بھی غلط ثابت ہوگیا کہ بارہ سال ہی بنتے ہیں۔ تو اب آپ کو یہ یاد آگیا کہ براہین احمدیہ کے تو 1880 کے بعد تین حصے اور بھی چھپے تھے۔ چنانچہ براہین احمدیہ کے اس حصے سے نکل کر آپ دوسرے حصوں میں گھس گئے۔ اب 1880 کے بعد براہین احمدیہ کے تین مذید حصے مختلف وقتوں میں چھپے تھے۔ آپ کے لئے تو اب کافی گنجائش ہے کہ ایک حصے سے نکلیں اور دوسرے میں پناہ لے لیں۔ اب اس روئیے پر کو دیکھ کر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ اپنے حال پر خوش رہیں۔

(مثلا کتاب اسما کی سن اشاعت ۱۳۲۸ ہے اور مولویوں نے من السما کا لفظ اپنی طرف سے مرزا کی موت کے بعد بڑھا دیا ہو گا) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب نے اپنی پاکٹ بک سے نقل کر کہ کہا تھا کہ کتاب السما ۱۳۲۸ کی چھپی ہوئی ہے اور جب میں نے کتاب کا ٹائٹل سامنے پیش کر دیا تو اس بات کو شیر مادر کی طرح ہضم کر گئے اور اس کا ذکر تک نہ کیا۔

جناب اگر میں نے یہ کہا تھا کہ مولویوں نے اس حدیث میں من السما کا لفظ بڑھا دیا ہوگا تو اس شک کی وجہ بھی وہیں بتائی تھی۔ کہ امام بیہقی جب خود اس حدیث کو بخاری سے روایت کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ رواہ البخاری تو پھر بخاری کے الفاظ ہی قابل قبول ہوں گے نا۔ جب وہ خود کہہ رہے ہیں کہ رواہ البخاری اور بخاری سے روایت کررہے ہیں اور بخاری میں ہمیں یہ حدیث مل بھی جاتی ہے راوی بھی مل جاتے ہیں اور مضمون بھی یہی ہے تو پھر اس حدیث کے سلسلے میں بخاری کو مانیں یا بیہقی کو جبکہ بیہقی خود اسے بخاری کی طرف منسوب کررہے ہیں۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ بخاری کی اس حدیث کی تصدیق مسلم سے بھی ہوجاتی ہے۔ اب تو بیہقی کے مقابلے میں دو مضبوط گواہ بخاری اور مسلم ہوگئے۔ اور بیہقی بھی خود بخاری سے روایت کرنے کی بات کرتے ہیں۔

لیکن اس شک کرنے کی صرف یہی ایک وجہ نہیں تھی۔ بلکہ اسکے علاوہ ایک بہت مضبوط وجہ یہ بھی تھی کہ ایسی حرکتیں مسلسل مولویوں سے ہوتی رہی ہیں کہ وہ جماعت احمدیہ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے اپنی کتابوں میں تحریف کرتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس تلخ تجربے کی روشنی میں جب ایسا حوالہ پیش کیا جائے گا جس میں خود ہی بخاری سے روایت ہونے کا ذکر ہو اور وہاں من السما کے الفاظ ہی نہ ہوں تو شک تو ہوگا۔ بہتر ہوگا آپ کو گذشتہ تجربے کی کچھ جھلک دکھا دی جائے جس کی بناء پر مولوی اپنا اعتبار کھو بیٹھے ہیں۔

17 مئی 1974 کے لاہور کے روزنامہ امروز کے صفحہ 4 پر حسب ذیل نوٹ شائع ہوا جو ملک میں علمی اور دردمند حلقوں میں پوری توجہ اور اضطراب سے پڑھا گیا۔

"کچھ عرصہ سے بزرگان سلف کی بعض کتابوں میں ردوبدل کا سلسلہ شروع ہے۔ جدید ایڈیشنوں میں بعض حوالوں کو اپنے معتقدات کے سانچوں میں ڈھالا جارہا ہے۔ بعض کتابوں کے متن میں ترمیم و تنسیخ اور حذف و اضافہ کیا گیا ہے۔ بعض جگہ صفحوں کے صفحے خارج کردیئے گئے ہیں۔ قدیم اسلامی لٹریچر میں ترمیم و تنسیخ کا یہ منصوبہ نثر اور نظم دونوں پر حاوی ہے اور مواعظ خطبات، سیرت و سوانح، تصوف، عقائد اور کلام و حدیث کی کتابوں تک ہی نہیں، قرآن مجید کے تراجم اور تفسیر تک جاپہنچا ہے۔" (امروز لاہور 17 مئی 1974 صفحہ 4)

اس نوٹ کے ساتھ 6 کتابوں کی لسٹ بھی دی گئی جن میں تحریف کردی گئی تھی۔ لیکن یہ 6 کتابوں کی لسٹ تو تو 1974 کی بات تھی۔ لیکن اسکے بعد بھی یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے اس لسٹ میں مذید کتابوں کا بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ اوراسکے علاوہ اب تک پتہ نہیں کتنی کتابیں اس کی زد میں آچکی ہیں۔

جن 6 کتابوں کی لسٹ روزنامہ امروز 1974 میں دی گئی تھی اس میں بعد کے سالوں میں اضافہ ہوکر یہ لسٹ اب 6 سے تجاوز کرچکی ہے۔

1- صحیح مسلم شریف (حضرت امام مسلم بن حجاج قیشری)
2- شمائل ترمذی (حضرت مام ابو عیسی ترمذی)
3- تفسیر مجمع البیان (الشیخ فضل ابن الحسن الطبری)
4- تفسیر الصافی (محمد بن مرتضی الفیض الکاشانی)
5- اسباب النزول (حضرت الشیخ الامام ابی الحسن علی الواحدی)
6- اشارات فریدی حصہ سوم (افاضات حضرت خواجہ غلام فرید صاحب سجادہ نشین چاچڑاں شریف)
7- تعطیرالانام (مولفہ حضرت شیخ عبد الغنی النابلسی)
8- اربعین فی احوال المہدیین (مولفہ حضرت شاہ اسماعیل شہید)
9- تذکرۃ الاولیا (تصنیف حضرت شیخ فرید الدین عطار رح)
10- معراج نامہ (مولوی قادریار صاحب مرحوم)
11- مجموعہ خطب (مولفہ مولانا محمد اسلم صاحب مرحوم)

اب ان میں سے کچھ کتابوں کا ثبوت پیش کرتا ہوں جس کے ساتھ یہ بھی بتاؤں گا کہ کس جگہ تحریف کی گئی اور اسکا احمدیت سے کیا تعلق تھا جس کی وجہ سے تحریف کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔

صحیح مسلم شریف:
حضرت امام مسلم نے کتاب الحج باب فضل الصلاۃ بمسجدی مکہ و مدینہ میں مندرجہ ذیل حدیث بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ درج فرمائی ہے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فانی آخر الانبیا و ان مسجدی آخرالمساجد
یعنی میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔

یہ حدیث جماعت احمدیہ کے نظریہ ختم نبوت کی زبردست موئید ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی تفسیر خود حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے فرمائی ہے۔ صحیح مسلم کا جو نسخہ شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور نے نومبر 1956 میں شائع کیا تھا اور اس کا ترجمہ سید رئیس احمد جعفری صاحب نے کیا ہے۔ اس میں سے یہ حدیث کتاب الحج سے نکال باہر کی گئی ہے۔

شیخ غلام علی اینڈ سنز والوں کی طرف سے چھاپی گئی صحیح مسلم میں دوسرا تغیر یہ کیا گیا ہے کہ کتاب الایمان میں حضرت ابوہریرہ کی مندرجہ ذیل دو حدیثیں صرف اس لئے حذف کردی گئیں کہ ان سے جماعت احمدیہ کا یہ مسلک بالکل صحیح ثابت ہوتا تھا کہ آنیوالا مسیح ابن مریم امت محمدیہ کا ہی ایک فرد ہوگا۔ وہ دونوں حدیثیں یہ ہیں:

1- انہ سمع ابا ھریرہ یقول قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم: کیف انتم اذا ابن مریم فیکم و امکم
2- عن ابی ھریرہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم فامکم۔

ان احادیث کو کسی دوسرے ادارے کی چھپی ہوئی صحیح مسلم سے چیک کیا جاسکتا ہے۔

ستم کی انتہا یہ ہے کہ کتاب الایمان میں سے وہ پورا باب ہی کاٹ کر الگ کر دیا گیا ہے جس میں حضرت مسلم نے یہ حدیث درج فرمائی تھی اور جس کا عنوان یہ ہے:
"باب نزول عیسی بن مریم حاکما بشریعۃ نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم"

اس طرح صرف اس ایک باب کے حذف کے نتیجہ میں چھ حدیثیں اور متعدد آثارو اقوال صحیح مسلم کی کتاب الایمان سے نکال دئیے گئے۔

اسباب النزول:
سرزمین نیشا پور کے عظیم مفسر قرآن حضرت الشیخ الامام ابی الحن علی الواحدی شافعی مسلک کے مشاہیر میں سے تھے۔ آپ کی معرکة الآرا تفسیر البسیط 16 جلدوں پر مشتمل ہے۔ ان کی مشہور عالم کتاب "اسباب النزول" کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ مصر اور بیروت سے اس کے متعدد ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔

اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نجران کے عیسائیوں سے گفتگو درج ہے۔ اس میں لکھا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مسیح کو خدا کا بیٹا مانتے، صلیب پوجتے اور خنزیر کھاتے ہو یہی وجہ ہے کہ تمہیں اسلام لانے میں تامل ہے۔ کہنے لگے اگر یسوع مسیح خدا کا بیٹا نہیں تو اس کا باپ کون ہے؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"لستم تعلمون انہ الا یکون ولد الا و یشبہ اباہ
یعنی کیا تمہیں علم نہیں کہ ہر بیٹا اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے۔

انہوں نے عرض کیا یقیناً۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے جلال کے ساتھ فرمایا:
الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسی اتی علیہ الفناء ﴿اسباب النزول صفحہ 53 طبع دوم مصری 1968﴾
یعنی کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے کبھی نہیں مرتا، مگر عیسی وفات پاچکے ہیں۔

1985 میں بیروت کے "دارلکتاب العربی" نے اس کا جدید ایڈیشن شائع کیا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ مقدس و مبارک الفاظ نہایت یکسر خارج "اسباب النزول" کردئیے گئے کیونکہ ان سے حضرت عیسی کی وفات ثابت ہوتی تھی۔

مجموعہ خطب:
انیسویں صدی کے مسلم پنجاب میں اہل سنت الجماعت کے ایک مشہور عالم و خطیب مولانا محمد مسلم﴿1805-1880﴾ گزرے ہیں جن کو جامع البرکات ولکمالات کا خطاب دیا جاتا ہے۔ آپ گلزار آدم، گلزار موسی، گلزار سکندری گلزار محمدی، تاثیر الصلاة اور تقویة الاسلام وغیرہ پنجابی کتابوں کے مولف تھے۔ ان کا لکھا ہوا مجموعہ خطب بہت مقبول ہے۔ جس کے مواعظ اور اشعار شہروں اور دیہات میں منبروں پر مدتوں تک گونجتے اور بڑے ذوق و شوق سے سنائے جاتے رہے ہیں۔ آپ کے مجموعہ خطب میں ایک شعر یہ درج تھا:

اسماعیل اسحق نہ رہیا موسی عیسی نالے
ہور الیاس داود پیغمبر پیتے اجل پیالے
﴿مجموعہ خطب صفحہ 14 سن 1902 مطبع مفید عام لاہور﴾

یعنی حضرت اسماعیل، اسحق، نیز موسی اور عیسی بھی نہ رہے اسی طرح الیاس اور داود پغمبر نے بھی موت کے پیالے پی لئے۔ پہلے مصرعہ سے چونکہ وفات حضرت عیسی کے احمدیہ نظریہ کی صریح تائید ہوتی ہے اور صاف کھل جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ ہی آج اہلسنت والجماعت کے قدیم عقائد پر گامزن ہے اس لئے اس رسالہ کا ایک نیا ایڈیشن تیار کیا گیا ہے جس میں مندرجہ بالا شعر کو بدل کر یہ الفاظ لکھ دئیے گئے ہیں۔

اسماعیل اسحق نہ رہیا ہارون موسی نالے
لوط اتے داود پیغمبر پیتے اجل پیالے
﴿مجوعہ خطب پنجابی صفحہ 12 ناثر سراج الدین اینڈ سنز تاجران کتب کشمیری بازار لاہور﴾

یہ چند حوالے صرف نمونے کے طور پر پیش کئے گئے ہیں۔ ان تمام کتابوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ ان کتابوں میں صرف ان جگہوں میں ہی تحریف کی گئی ہے جنہیں جماعت احمدیہ اپنے موقف میں پیش کرتی ہے۔

قرآن مجید نے یہودی احبار کو تحریف کا مجرم قرار دے کر جس درجہ زجر و توبیخ فرمائی ہے اس کی مذید تشریح کی ضرورت نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتا ہیں:

"اگر تم اس امت میں یہود کا نمونہ دیکھنا چاہو تو ان علماء سوء کو دیکھ لو"
(ترجمہ: الفوز الکبیر صفحہ 17 ناشر ادارہ اسلامیات لاہور فروری 1982)
 
یہاں جو باتیں کی گئیں ان کا مقصد رانا نامی ایک مرزائی کے باطل عقیدے کی ہی تردید نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ اردو یونیکوڈ میں مرزائیوں کے خلاف اور امت امحمدیہ کے اس عقیدہ صحیحیہ کے حق میں کچھ مواد بھی میسر آجائے اور ساتھ ساتھ آئندہ کے لیے بھی کچھ مضبوط بنیادیں ایسی فراہم ہو جائیں جو دیگر مسلمانوں کے بھی کام آئیں۔ الحمد للہ یہ مقصد پورا ہوا۔اب یہ پوری بحث جس جگہ آ پہنچی ہے اس میں اب زیادہ کہنے کو کچھ باقی نہیں بچا۔ رانا صاحب کی ترکی تمام ہو چکی ہے اور اپنے دیگر بھائیوں کی طرح وہ بھی محض کج بحثی اور وقت کے زیاں پر اتر آئے ہیں کیونکہ

1۔قرآن و احادیث تفاسیر و اقوال ائمہ سے پوری امت محمدیہ کا موقف واضح ہو گیا ہے
2۔رانا کے ان ادلہ شرعیہ کا کوئی جواب نہیں ، جو دلائل اب تک انہوں نے پیش کیے ان کا جواب میں دے چکا ہوں۔
3۔ جیسا کے سابقہ پوسٹ میں میں نے ان کو ایک چیلنج دیا تھا اس کا جواب اس سے نہ بن سکا یعنی غور کیجے خود تو خود ساختہ قاعدے بنا کر اس کا چیلنج پوری امت محمدیہ کو دیتے ہیں کہ اگر اللہ فاعل ہو مخلوق مفعول ہو تو توفی کا مطلب موت کے سوا نہیں لیا جاسکتا اور مزے کی بات جب ان سے کہا جائے کہ یہ قاعدہ کسی جگہ الفاظ صریحہ میں لکھا ہوا دکھا دو تو اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہوتا قاعدہ دکھا نہیں سکتے لیکن چیلنج بڑے زور سے کرتے ہیں اور میرا ایک سیدھا مطالبہ کہ جب قرآن و احادیث سے اور اس امت کے اجماع سے یہ بات ثابت ہے تو کیوں مرزا کی مانی جائے اس کا جواب ان کے پاس نہیں اور دلیل کس سے دیتے ہیں غامدی، سرسید اور شلتوت جیسے افراد سے، اب غامدی منکر حدیث ہے ، سرسید جنت و دوزخ کا انکار کرتے اور فرشتوں کا انکار کرتے ہیں شلتوت بھی ایک ملحد ہے ایسے ہی مرزا کی اوقات ہے ، غرض کہ صحیح احادیث قرآن کی واضح آیات ان کو نظر نہیں آتیں، چودہ سو سال کے دوران جو تفاسیر لکھی گئیں وہ ان کے نزدیک حجت نہیں ، قرآن فہمی کے لیے ان کے نزدیک بس مرزا اور اس جیسے افراد ہی حجت ہیں اب اس کے بعد کچھ اور رہ جاتا ہے جس پر رانا سے بات کی جا سکے؟؟ ہٹ دھرمی کا علاج حکیم لقمان ہی نہیں بلکہ دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے۔

اپنی پوسٹ نمبر 65 کا آخری پیراگراف پڑھ لیں۔ جس طرح سلمان رشدی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر اگلا تھا۔ اس طرح حضرت مرزا صاحب بھی اس بات میں اپنے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوگئے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ان کا انکار کرنے والے سخت گند اچھالتے ہیں اسی طرح مرزا صاحب کے خلاف بھی ان کا انکار کرنے
والے کرتے ہیں۔آپ کہیں گے کہ میں حوالے دے سکتا ہوں۔ یہی بات سلمان رشدی بھی کہتا ہے کہ میں نے اپنی طرف سے
کچھ نہیں لکھا مسلمانوں کی کتابوں سے ہی سب مواد لیا ہے۔ اور واقعی اسکی پھیلائی ہوئی گندگی کو جب کھود کردیکھتے ہیں تو ہر جگہ ماخذ کوئی نہ کوئی اسلامی روایت ہی ہوتی ہے جو یا تو ضعیف ہوتی ہے یا اسکا مطلب اپنی مرضی سے اخذ کرکے اس نے پھر حملہ کیا ہے۔ جیسا کہ آج مولوی حضرات مرزا صاحب کی باتوں کا خود ہی ایک مطلب تراش کر پھر اس پر عمارت کھڑی کرتے ہیں۔

عمومیت کے ساتھ قادیانیوں کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ حیات عیسیٰ پر گفتگو بڑے ذوق و شوق سے کرتے ہیں اور جب مرزا کے اپنے کردا و شخصیت پر بات ہو تو کنی کترا جاتے ہیں، یہ بات سنی سنائی نہیں بلکہ میرا اپنا تجربہ بھی ہے، لیکن یہاں میں نےرانا کی خواہش کے مطابق مرزا کے دعوہ مسیحیت پر ہی گفتگو کی ہے، مرزا غلام احمد قادیانی کے کردار پر اشارتا گفتگو تو ہوئی لیکن جان بوجھ کر کوئی خاص حوالہ اس سلسلے میں نے نہیں دیا۔یہی میرا کہنے کا مقصد بھی تھا۔آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں سب سے زیادہ دفاع و حق تعالی شانہ نے کیا اور آپ کی شان بلند کردی اور آپ کی زمانے قبل از نبوت و بعد نبوت کی زندگی اتنی روشن صاف اجلی بنا دی کہ چاہے لاکھ کوئی کتنی ہی کوشش کر لے بالآخر منہ کی کھاتا ہے۔ پھر یہی نہیں حضور پاک کی اسی روشن سیرت کی وجہ سے کتنے غیر مسلم اسکالر تک آپ کی شان میں رطب اللسان رہے مائیکل ایچ ہارٹ آپ کو دنیا کی سب سے موثر ترین شخصیت مانتا ہے اور اور اپنی کتاب میں پہلے نمبر پر رکھتا ہے، بڑی بڑی یونیوورسٹیز میں اسلام و رسول اسلام کے اوپر زبردست تحقیقات ہو رہی ہیں، آپ کے ممدوح سلمان رشدی ملعون کی کتاب کا کتنے لوگوں نے جواب دیا ہے۔مرزا کا تقابل کسی ایک عالم، بلکہ کسی ایک شریف، سچے انسان سے نہیں ہو سکتا ہے چہ جائیکہ اس کا تقابل کائنات کی سب سے عظیم ہستی سے کیا جائے۔چہ نسبت خاک رابا عالم پاک؟؟

یہ بتائیے کہ مرزا صاحب کا دعوی مسیحیت زیر بحث ہی کب تھا؟ زیر بحث تو حضرت عیسی کی وفات
یا حیات کا مسئلہ تھا۔ اسکا مرزا صاحب کے دعوی سے کیا تعلق؟ چلیں آپ کے نزدیک اگر مرزا صاحب
کا دعوی مسیحیت خود ساختہ تھا۔ تو کیا اس سے حضرت عیسی کی حیات یا وفات کا مسئلہ حل ہوگیا؟
اصل بحث تو پھر اپنی جگہ پر ہی موجود رہے گی۔ تو پھر اس مسئلے کو بیچ میں ڈالنے کا مقصد کیا ہوا۔
کیا اب غامدی صاحب، مفسر حجاز، جامعہ الزہر کے مفتیان کرام، علامہ عبیداللہ سندھی، سر سید احمد
خان اور جماعت المسلمین اور دوسرے جو وفات مسیح پر یقین رکھتے ہیں وہ اس لئے حیات مسیح پر
ایمان لے آئیں گے کہ مرزا صاحب کا دعوی مسیحیت ختم ہوگیا ہے؟ مرزا صاحب کے دعوی مسیحیت کو
خودساختہ یا تضاد والا ثابت کرنے سے اس اصل حیات و وفات مسیح کے مسئلہ پر کیا فرق پڑے گا؟ کیا
یہ سب لوگ جن کا ذکر کیا گیا ہے مرزا صاحب کی وجہ سے وفات مسیح پر ایمان رکھتے
ہیں؟

اصولا تو مجھے یہاں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں، یہ تو وہی بات ہے نا کہ ساری رات یوسف زلیخا کا قصہ سنا اور پھر صبح کو پوچھ رہے ہیں کہ زلیخا عورت تھی یا مرد؟؟ نعوذ باللہ من ذالک۔
اب تک دفاع مرزا کا کرتے رہے، لوگوں کو خزائن پڑھنے کا مشورہ دیتے رہے، حوالے مرزا کی کتابوں سے لیے، دلائل کے لیے مرزائی پاکٹ بک استعمال کرتے رہے، باتیں ساری وہی کرتے رہے جو مرزائی پچھلے سالوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں؟ ویڈیوز اپنی جماعت کے مبلغوں کی پیش کی، یہاں تک کہ چیلنج تک جو بڑے طمطراق سے دیا وہی چیلنج تھا جو مرزا نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے جگہ جگہ مرزا کے لیے دعوہ مسیحیت ثابت کرتے رہے ایک چھوٹی سی مثال پوسٹ نمبر 64 سے آپ نے مرزا کےحق میں یہ لمبا پیراگراف نقل کیا ہے مرزا کا اپنا لکھاہوا
اس کے بارے میں آپ اپنی کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم میں فرماتے ہیں:"تم خود گواہ ہو کہ اُس وقت اور اُس زمانہ میں مجھے اس آیت پر اطلاع بھی نہ تھی کہ میں اس طرح پر عیسی مسیح بنایا جاؤں گا بلکہ میں بھی تمہاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسی بن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ اور باوجود اس بات کے کہ خداتعالی نے براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرا نام عیسی رکھا اور جو قرآن شریف کی آیتیں پیشگوئی کے طور پر حضرت عیسی کی طرف منسوب تھیں وہ سب آیتیں میری طرف منسوب کردیں اور یہ بھی فرمادیا کہ تمہارے آنے کی خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے مگر پھر بھی میں متنبہ نہ ہوا اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں
میں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طور پر لکھ دیا اورشائع کردیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان
سے نازل ہوں گے۔ اور میری آنکھیں اُس وقت تک بالکل بند رہیں جب تک کہ خدا نے بار بارر کھول کر مجھ کو نہ سمھایا کہ عیسی بن مریم اسرائیلی فوت ہوچکا ہے اور وہ واپس نہیں آئے گا اس زمانہ اور اس امت کے لئے تو ہی عیسی بن مریم ہے۔ یہ میری غلط رائے جو براہین احمدیہ حصص سابقہ میں درج ہوگئی یہ بھی خداتعالی کا ایک نشان تھا اور میری سادگی اورعدم بناوٹ پر گواہ تھا۔"

پھر بھی اگر ابھی یہاں آپ یہ کہ دیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوہ مسیحیت سے آپ کو کچھ سروکار نہیں، آپ یہاں مرزا غلام احمد کے حق میں کوئی دلیل نہیں دیں گئے ،اس کی کتابوں کے حوالے اب نہیں دیں گے ، اس کو ہر گز صراحتا، اشارتا یا کنایتہ نبی یا مسیح ثابت کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، جو کچھ دلائل مرزائی قرآن و حدیث کو مسخ کر کے پیش کرتے ہیں آپ ایسی کوشش نہیں کریں گے بلکہ صرف حضرت عیسیٰ کی وفات پر بات کریں گے تو پھر مجھے بھی کوئی شوق نہیں کہ میں یہاں اب کوئی مزید بات کروں۔ آپ جانیں اور آپ کا عقیدہ۔
لیکن مسئلہ ہے کہ جب مرزائی حضرت عیسیٰ کی وفات کا دعوہ کرتے ہیں تو اس کا مقصد صرف و صرف مرزا کے لیے راہ ہموار کرنا ہوتا ہے اس کے دعوہ کی تصدیق کرنا ہوتاہے اور اس جھوٹے کو نبی ثابت کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ عیقدہ ختم نبوت اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں اور کوئی شخص آپ کی ختم نوبت پر ڈاکا مارنے کی کوشش کرے تو یہ چیز ہم مسلمان برداشت نہیں کر سکتے۔

پہلے تو یہ بتائیں کہ اگر قرآن، احادیث اور تفاسیر سے آپ اپنا یہ دینی عقیدہ ثابت کرسکتے تھے تو مرزا
صاحب کے دعوی اور ان کی کتابوں کو بیچ میں شامل کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ اسکا مطلب تو
یہی ہوا کہ قرآن و حدیث اس دینی عقیدہ کو ثابت کرنے کے لئے ناکافی ثابت ہورہے تھے اس لئے آپ کو
مجبوراً مرزا صاحب کے دعوی نبوت کو بیچ میں شامل کرنا پڑا کہ جب تک اس معاملے کو ساتھ الجھایا
نہیں جائے گا یہ دینی عقیدہ ثابت نہں ہوسکتا۔

اس کا جواب میں اوپر دے چکا ہوں۔


بالکل مجھے مناظروں کا بالکل تجربہ نہیں ہے اور میں نے کبھی مناظروں میں حصہ نہیں
لیا۔ نہ ہی میں مناظرے کرنا پسند کرتا ہوں۔ مناظرے صرف علماء کرام کو ہی زیب دیتے ہیں۔ مجھے تو
عالم ہونے کا دعوی ہی نہیں۔ اسی لئے میں ہمیشہ دوسرے کا موقف سنتا ہوں اور اپنا موقف پیش کرتا ہوں
اور جہاں وضاحت طلب امور ہوں ان کی وضاحت کرتا ہوں اور وضاحت طلب کرتا ہوں لیکن اپنی بات
ٹھونسنے کی کوشش نہیں کرتا۔ لیکن یہ تو فرمائیں کہ یہاں یہ گفتگو کب سے مناظرے میں شامل ہوگئی؟
آپ بعد میں اس گفتگو میں شامل ہوئے ہیں اور زبردستی اسے مناظرہ سمجھ بیٹھے اور چاہتے ہیں کہ
دوسرے بھی اسے مناظرہ سمجھیں۔ اپنے شامل ہونے سے پہلے میرے مراسلے پڑھ لیں تو شائد آپ کو
معلوم ہوجائے کہ میں نے ایک مراسلے میں اس بات کو واضع کیا تھا کہ میرا مقصد صرف اپنا موقف
پیش کرنا ہے نا کہ منوانا۔ اور صرف یہ مقصد ہے کہ دونوں طرف کے موقف ایک ہی جگہ اکٹھے
ہوجائیں پھر دیکھنے والے خود ہی فیصلہ کرلیں۔ آپ کو شائد علم ہی نہیں کہ مناظروں کے لئے پہلے
قوائد و ضوابط اور اصول طے کئے جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ اس مفید بحث کو احمدیت کے ساتھ
الجھا کر محدود نہ کرسکتے تھے۔

جی جی مجھے معلوم ہے معلوم ہے کہ آپ میں اور آپ کے ربیوں میں کتنا دم ہے، یہ تو حق کی ایک صریح فتح ہے، کہ میں بغیر کسی پیشگی تیاری اور کوئی چیز طے کیے بغیر اس بحث میں داخل ہوا اور آپ کے موقف کو حق تعالیٰ نے ملیامیٹ کر ڈالا۔ مناظرہ تو واقعتا ایک بڑی چیز یہا ں دیکھ لیجے اپ کے پاس کھلا میدان تھا، ہر طرح کے دلائل آپ نے دیے لیکن آپ کا حشر کیا ہوا، اگر بات محض قرآن، حدیث و تفاسیر کی ہوں تو پھر تو کہنے کو مرزائیوں کے پاس بچتا ہی کیا ہے اب یہاں بھی سر سید ، غامدی، شلتوت وغیر کے حوالے ہی آپ کے پاس ہیں ، اور آپ کے پلے ہے ہی کیا۔

بالکل مجھے معلوم ہے کہ دونوں حوالے احادیث کے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ کس کتاب میں ہیں۔ 125
سال والے کا تو مجھے یہ پتہ تھا کہ "مسیح ہندوستان میں" ہے اور یہ ظاہر ہے دوسری کتاب ہے۔ اور
ستاسی برس والا بھی مجھے معلوم تھا کہ حوالہ ہے تبھی تو یاداشت کے سہارے اور آپ کی فراہم کردہ
عبارت کے حوالے سے جواب دیا تھا۔ لیکن بتانا تو صرف یہ مقصود تھا کہ میں صرف یاداشت کے
سہارے تو ظاہر ہے کہ جواب دینا پسند نہیں کروں گا جب تک کہ عبارت نہ دیکھ لوں۔ اور ایک کتاب میں
آپ کا حوالہ اپنی جگہ پر نہیں ملے گا اور دوسری میں بھی یہی صورت ہو تو پھر بندہ سرسری طور پر
ہی چیک کرے گا نہ کہ ایک ایک لفظ پڑھ کے۔ یہ تو آپ کا کام ہے کہ حوالہ درست دیں تاکہ دوسرے کا
وقت بچے لیکن اگر سہو ہوبھی جائے تو توجہ دلانے پر ہی بندہ توجہ کرلے۔

تو یہی ارشاد فرما دیتے نا کہ مجھے یاد تو ہے لیکن حوالہ نہیں پتہ نا کہ صاف انکارہی کر دیتے؟؟ مرزا کی کتابوں کا اصولا مجھ سے زیادہ علم تو آُپ کو ہونا چاہیے کہ وہ آپ کا مربی ہے نہ کہ مسلمانوں کا؟؟

اگر آپ تعصب سے ہٹ کر فیصلہ کرتے تو سمجھ جاتے کہ کئی صفحات پر پھیلے ہوئے اس عریضہ کا
لفظاً لفظاً الہام ہونا مرزا صاحب کا مقصد تھا نہیں۔ عجیب بات ہے کہ آج کے مولوی واقعی بہت زیادہ
تعصب پھیلاتے ہیں۔ ورنہ مرزا صاحب کے وقت کے علماء بھی اچھے خاصے عالم فاضل تھے لیکن ان
کی نظر اسطرح کے فضول اعتراضات پر نہیں پڑی۔ صاف ظاہر ہے کہ اس عریضہ کا خدا کے الہام سے
لکھا جانا وہ کہہ رہے ہیں۔ اس سے یہی مراد ہوسکتی ہے کہ انہوں نے خدا کے الہاماً توجہ دلانے پر اس
عریضہ کو لکھنا شروع کیا۔ لفظاً لفظاً الہام کا تو کہیں ذکر ہی نہیں۔
مرزا صاحب کے تمام الہامات جو لفظاً لفظاً انہیں خدا ہی کی طرف سے ہوئے تھے وہ ایک الگ کتاب "
تذکرہ" میں چھپ چکے ہیں۔ لیکن آپ لوگ باوجودیکہ ہر بات کو سمجھتے بھی ہیں کہ اس کا کیا مطلب
ہے پھر بھی تعصب سے اپنی مرضی کا مفہوم نکالتے ہیں۔

مرزا کی اس تحریر سے جو ثابت ہورہا ہے وہ میں نے لکھ دیا ۔ یہاں پھر وہی بات کہ ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس عریضہ میں دو دفعہ تو میں نے الہام کا لفظ دیکھ لیا اب اگر الہام نہیں تو پھر کیا مرزا عقائد کی بات، دعوہ مسیحیت کی بات اپنی جانب سے گھڑ کر پیش کر رہا ہے؟؟؟ اور پھر اگر یہ باتیں جو مرزا کہ رہا ہے اگر الہام نہیں یا لفظ با لفظ الہام نہیں اور لفظ بالفظ الہام صرف تذکرہ میں ہے تو اس کتاب میں ذرا آپ نشاندہی کر سکتے ہیں کہ کون سی باتیں لفظ با لفظ الہام ہیں، کون سی باتیں الہام کا مفہوم ہیں اور کون سی مرزا کی اپنی من گھڑت؟؟؟؟ ( ویسے مرزا کی ساری باتیں ہی من گھڑت ہیں کیونکہ جب نبوت کا اجرا ہی بند ہو گیا تو پھر یہ الہامات نبی کیسے)

اس کا نام کج بحثی نہیں تو اور کیا ہے؟

اور رانا صاحب ان باتوں کو آپ صرف اس معنوں میں کیوں لے رہے ہیں کہ یہ صرف آپ کو لاجواب کرنے کے لیے کی جارہی ہیں ، میرا ایسا کوئی مقصد نہیں، میں صرف آپ کے گوش گزار یہ باتیں اس لیے کر رہا ہوں کہ آپ کچھ تو غور کیجئے، آپ کا خیال ہے کہ آپ کا یہ انداز اور مرزا پر یہ اندھا اعتماد آپ کے کام آئے گا، تو یقین مانئے آپ نے جو راہ چنی ہے وہ کسی اچھے مقام کی طرف نہں جاتی، صرف ایک بار کھلے دل و دماغ کے ساتھ زندگی کی چند ساعتیں اس بات پر صرف کیجئے کہ چودہ سو سال کا ایک عقیدہ حیات حضرت عیسیٰ ایک طرف و مرزا کی باتیں دوسری طرف تو کیا صحابہ سے لے کر یہ پوری امت غلط ہے؟ نعوذ باللہ، مرزا نے اپنی نبوت کی ساری عمارت اسلام پر ہی کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے تو کیا جو اسلام پیغمبر اسلام لائے تھے وہ نعوذ باللہ درست نہ تھا اور تیرہویں صدی کا مرزا درست تھا، نعوذ باللہ۔کیا صحابہ رسول اللہ سے کیا نو ر الدین جیسوں کادرجہ بلند تھا، نعوذ باللہ۔
خدرا اس بات پر ایک بار ضرور غور کیجئے۔ یہ آپ کی اپنی زندگی ہے اور اس کی بہبود آپ کا ہی فرض ہے ورنہ وقت نے تو گزر ہی جانا ہے رکنا نہیں یہ باتیں بھی ختم ہو جائیں گی اور یہ وقت بھی گزر جائے گا۔

آپ کی اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ کیا دوسرئ جگہ نہیں لکھا کہ واقعہ صلیب
کے بعد 87 برس زندہ رہے۔ آپ نے تو خود بھی اسکا حوالہ دیا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا۔

میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ میں نے جو حوالہ دیا تھا وہ مرزا کی بات اس کے الفاظ میں نقل نہیں کی تھی بلکہ بات کا مفہوم اپنے الفاظ میں لکھ دیا تھا۔ اور حوالہ آگے درج کر دیا تھا۔مرزا کے اپنے الفاظ یہ ہیں
اور حدیث صحیح سے جو طبرانی میں ہے ثابت ہوتا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس واقعہ کے بعد ۸۷ برس زندہ رہے۔ست بچن

آپ نے مرزا کی بات کا حوالہ دیکھنے کے بجائے اور اس کی بات کو بنیاد بنا کر جواب دینے کی بجائے میرے
بیان کردہ مفہوم کو بنیاد بنا کر ایک جواب لکھ مارا۔

کچھ تھوڑا سا بھی خوف خدا نہیں ہے جو بات بالکل سیدھی ہے اور واضع مفہوم میں نظر
آرہی ہے اس سے پھر جان بوجھ کر غلط مطلب لینا جبکہ مرزا صاحب کا وہ مقصد ہی نہیں ہے۔ سرخ
رنگ سے جو الفاظ میں نے ظاہر کئے ہیں صرف ان پر ہی غور کرلیں تو ہربات واضع ہے۔ اور ساتھ ہی
احادیث کا بھی مرزا صاحب جب حوالہ دے رہے ہیں تو پھر اگر کسی کو ان کے الفاظ سے کچھ شک پیدا
ہوبھی رہا تھا تو ان احادیث سے رجوع کرکے بھی ان کے مطلب کو سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن آپ کی
مرضی آپ کو جو سمجھ میں آئے وہی سمجھ لیں۔
سب سے بڑی بد دیانتی ہی یہ ہوتی ہے کہ کسی کی بات سے وہ مطلب نکالا جائے جو اس سے نکلتا ہی
نہیں۔ اب ان کی کتابوں سے بار بار واضع ہے کہ وہ مسیح کی عمر 120 سال اور 125 سال ہی کی
روائیتوں کو درست سمجھتے ہیں۔ 153 سال کا ذکر ہی ان سے ثابت نہیں۔ زبردستی جمع تفریق کرکے
153 سال بنائے جارہے ہیں۔ اسی طرح ان کی کتابوں میں بار بار وضاحت ہے کہ روحانی طور پر تمام
نبی زندہ ہیں اور جسمانی طور پر کوئی بھی زندہ نہیں۔ تو پھر ان کی کسی عبارت سے اپنی مرضی کا
مفہوم تراشنا کہ وہ کسی نبی کو جسمانی زندہ بھی مانتے تھے۔ اسکا کوئی جواز ہی نہیں۔ اب آنحضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور دوسری جگہ حضرت عیسی نبی کے
آنے کی بھی خبر دی۔ تو کسی کا حق نہیں کہ ان دوباتوں کو تضاد کہہ کر نعوذ باللہ جھوٹ قرار دے ڈالے۔
بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری احادیث سے ملا کر نتیجہ نکالا جائے گا۔ جیسا کہ آنحضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری جگہ اسکی وضاحت بھی خود ہی فرمادی ہے۔ تو اب وہ وضاحت ہی
مستند سمجھی جائے گی جو انہوں نے خود کی ہے نہ کہ ہر شخص اپنی مرضی کی وضاحتیں ٹھونستا
پھرے۔
عجیب بات ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے وقت کے علماء کو یہ کیوں نہیں پتہ لگا کہ یہ ایک طرف تو
سب نبیوں کو وفات یافتہ قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف حضرت موسی کو زندہ بھی مانتے ہیں۔ ان میں
سےکسی ایک نے بھی ایسی احمقانہ بات مرزا صاحب کے سامنے ان کی زندگی میں نہیں اٹھائی۔ ان کے
دور کے کسی عالم نے مرزا صاحب کے سامنے جمع تفریق کرکے یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ آپ نے 153
سال عمر لکھی ہے۔ آخر اسکی کیا وجہ ہے؟ کیا وہ علماء اندھے تھے؟ اس طرح کے کج فہمی پر مبنی
چھوٹے چھوٹے اعتراض اسی لئے اس وقت کسی کی طرف سے نہیں اٹھائے گئے کہ ان کے دور کے
علماء کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان عبارتوں سے کوئی الٹا مطلب بھی نکالا جاسکتا
ہے۔

جناب خوف خدا ہےتو ہی صحیح بات کرہے ہیں جس کی تائید کلام پاک سے بھی ہوتی ہےاور رسول پاک سے بھی۔
میں نے ایک سیدھا سوال کیا تھا کہ اگر تذکرہ التشہادتین کی بات درست ہے اور وہاں اس واقعہ کے بعد 120 سال زندہ رہے کی بات ہے یہاں جمع تفریق نہ کی جائے اور صرف 120 سال سمجھا جائے تو پھر ست بچن پر بھی اسی اصل کے مطابق اس واقعہ کے بعد 87 سال والی بات کسی جمع تفریق کے بغیر ماننی درست ہو گی اور اس طرح بھی تضاد ختم نہیں ہو جاتا ، بلکہ باقی رہتا ہے، مرزا کی بتائی ہوئی احادیث پیش کرنا تو آپ کی ذمہ داری ہے نا یہ کہ کر آپ جان نہیں چھڑا سکتے کہ متعقلہ جگہ دیکھ لی جائیں اور بندہ متعلقہ جگہ دیکھے بھی کیسے، مرزا تو ویسے ہی غلط حوالے دینے میں مشہور ہے اور یہاں تو کوئی حوالہ نہیں دیا اس نے، تو دیکھا کہاں جائے ؟ پھر آپ لوگوں کی نظر میں تو مرزا نبی ہے اس نے صاف الہام سے یہ بات درست لکھ ہی کیوں نہ دی کہ حضرت عیسیٰ کی عمر یہ ہو گی؟؟
125 والا الہام 153 یا 120 سال یا 87 سال اس کی تطبیق دینے کا کوئی صحیح فارمولا قادیانیوں کے پاس درحقیقت موجود ہے ہی نہیں تو رانا صاحب کہاں سے اس کا جواب دیں۔

اور آپ کا یہ کہنا کہ

اب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور دوسری
جگہ حضرت عیسی نبی کے آنے کی بھی خبر دی۔ تو کسی کا حق نہیں کہ ان دوباتوں کو تضاد کہہ کر
نعوذ باللہ جھوٹ قرار دے ڈالے

تو یہاں تضاد ہو گا تو دکھے گا نا ۔ نبی پاک نے صحیح کہا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو کیا حضرت عیسی نبی پاک سے پہلے کے نبی ہیں یا بعد میں نبی بنائے گے؟ ان کی آمد ثانی اس لیے ختم نبوت کی منکر نہیں کہ ان کو نبوت پہلے ہی مل چکی ہے اور حضور کے بعد کسی نئے کو نبوت نہیں ملے گی۔ادھر مرزا کی تحریر میں صاف تضاد ہے اگر مرزا سب کوروحانی طور پر زندہ مانتا ہے تو یہ ایک اور عجیب بات ہے کیونکہ ان انبیا کو تو روحانی طور پر کوئی مردہ مانتا ہی نہیں ۔ پھر مرزا کی اس عبارت میں

ترجمہ اس کا یہ ہے کہ " بلکہ حیات کلیم اللہ نص قرآن سے ثابت ہے کیا تو نے قرآن میں نہیں پڑھا اللہ اتعالیٰ کا قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شک نہ کریں ان کی ملاقات سے۔یہ آیت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ۔ یہ آیت دلیل صریح ہے موسیٰ علیہ السلام کی حیات پر اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موسیٰ علیہ السلام سے (معراج) ملاقات ہوئی۔اور (اگر موسی ٰ علیہ
السلام فوت شدہ ہوتے تو) مردے زندوں سے نہیں ملا کرتے ۔ایسی آیات تو عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نہیں بلکہ مختلف مقامات پر ان کی وفات کا ذکر ہے۔

اگر حضرت موسیٰ کی روحانی زندگی کا تذکرہ ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جو یہاں بات حضرت عیسیٰ کی موت کی کی گئی تو یہ موت روحانی موت ہو گی نعوذ باللہ اور ایسا کہنا بھی کفر ہے۔کاش کہ آپ سمجھیں۔ اور پھر میں کہ دوں کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ساری باتیں میں پہلی بار کر رہا ہوں تو یہ آپ کی غلطی ہے یہ ساری وہ باتیں ہیں وہ دلائل ہیں جو علمائے اسلام برس ہا برس سے کرتے چلے آ رہے ہیں اگر آپ کے بڑوں نے ان کتابون تک آپ کی رسائی محدود کر دی ہے تو آپ خؤد ختم نبوت کی ویب سائٹ سے ان کتابون کو ڈاون لوڈ کر کے پڑھ سکتے ہیں یہ ساری باتیں وہاں آ پ کو زیادہ تفاصیل کے ساتھ مل جائیں گی

اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی نیت ہی اصل میں صرف اعتراض کرنا ہے چاہے
کیسے بھی کیا جائے۔ اور مسلسل غلط بیانی کرتے رہے ہیں اور جب ایک کا غلط بیانی کا راز کھل جاتا
ہے تو پھر نیچے اتر کر دوسرا جھوٹ شروع کردیتے ہیں۔
پہلے آپ نے دعوی مسیحیت کو مشورہ کہا۔ اور اسکی دلیل جس خط پر رکھی اس سے پہلے ہی دعوی
مسیحیت ثابت ہوگیا تو پہلا جھوٹ تو آپ کا یہ ثابت ہوگیا۔ اسکے بعد آپ نیچے اتر آئے کہ براہین احمدیہ
1880 میں لکھی گئی ہے اور اس طرح دس سال بنتے ہیں۔ مسلسل آپ نے 1880 کا ڈھنڈورا پیٹا
اوردہراتے چلے گئے۔ پھر جب یہ بھی غلط ثابت ہوگیا کہ بارہ سال ہی بنتے ہیں۔ تو اب آپ کو یہ یاد آگیا
کہ براہین احمدیہ کے تو 1880 کے بعد تین حصے اور بھی چھپے تھے۔ چنانچہ براہین احمدیہ کے اس
حصے سے نکل کر آپ دوسرے حصوں میں گھس گئے۔ اب 1880 کے بعد براہین احمدیہ کے تین مذید
حصے مختلف وقتوں میں چھپے تھے۔ آپ کے لئے تو اب کافی گنجائش ہے کہ ایک حصے سے نکلیں
اور دوسرے میں پناہ لے لیں۔ اب اس روئیے پر کو دیکھ کر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ اپنے حال پر خوش
رہیں۔

بالفرض اگر میری نیت صرف اعتراض کرنے کی ہی ہے اور آپ کا مرزا درست ہے تو پھر کیا مسئلہ ہے آپ بات صاف کر دیجئے اگر میں جھوٹا ہوں تو جھوٹ کبھی جیت نہیں سکتا۔
یہاں میں نے ساری باتیں مرزا کے دعووں اور اس کی کتابوں کی روشنی میں کی ہیں، خط والی بات اگر آپ کسی کو دکھائیں اور یہ پوری بحث یہاں جو ہوئی وہ اس سے واقف نہ ہو تو بھی وہ کہ دے گا کہ یہ بات مشورہ ہی ہے کچھ اور نہیں اور پھر ایک کے بات ایک دلائل اس پر موجود ہیں ۔
جناب اگر میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں 1880 والی بات کہی تو کیا مرزا کے اس پورے دعوے کی بنیاد میری اسی بات پر ہی ہے؟ کیا اعجاز احمدی سے پہلے براہین احمدیہ کے چار حصے 1884 تک نہیں چھپے کیا یہ بات غلط ہے۔ کیا یہ بات غلط ہے کہ براہین کے چوتھے حصے میں مرزا نے دعوہ مثیل مسیح نہیں کیا؟ ان میں سے کون سی بات غلط ہے ؟، کیا یہ بات غلط ہے کہ مرزا نے اعجاز احمدی میں یہ نہیں کہا کہ
براہین احمدیہ کے بارہ سال بعد مسیح ہونے کا الہام اس کی سمجھ میں آیا؟ جب یہ ساری باتیں درست ہیں تو کیا اب مرزاگویاخود یہ نہیں کہ رہا کہ میں جھوٹا ہوں ؟ 1882 میں کیا اس نے اپنے دعوہ مسیحیت سے انکار نہیں کیا؟ نہ جانے کیوں آپ لوگ ان باتوں پر غور کرنے کی بجائے ان سے صرف نظر کرتے ہیں۔

جناب اگر میں نے یہ کہا تھا کہ مولویوں نے اس حدیث میں من السما کا لفظ بڑھا دیا ہوگا تو
اس شک کی وجہ بھی وہیں بتائی تھی۔ کہ امام بیہقی جب خود اس حدیث کو بخاری سے روایت کرتے ہیں
اور لکھتے ہیں کہ رواہ البخاری تو پھر بخاری کے الفاظ ہی قابل قبول ہوں گے نا۔ جب وہ خود کہہ رہے
ہیں کہ رواہ البخاری اور بخاری سے روایت کررہے ہیں اور بخاری میں ہمیں یہ حدیث مل بھی جاتی ہے
راوی بھی مل جاتے ہیں اور مضمون بھی یہی ہے تو پھر اس حدیث کے سلسلے میں بخاری کو مانیں یا
بیہقی کو جبکہ بیہقی خود اسے بخاری کی طرف منسوب کررہے ہیں۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ بخاری کی
اس حدیث کی تصدیق مسلم سے بھی ہوجاتی ہے۔ اب تو بیہقی کے مقابلے میں دو مضبوط گواہ بخاری اور
مسلم ہوگئے۔ اور بیہقی بھی خود بخاری سے روایت کرنے کی بات کرتے ہیں۔

نہیں نہیں رانا صاحب آپ نے یہ بات خود نہیں کی بلکہ مرزائی پاکٹ بک کے مصنف نے کی ہے ۔ بندہ خدا اس بات کا جواب اب کتنی بار آپ کو دیا جائےامام بیہقی ایک حدیث اپنی سند سے لا رہے ہیں اور امام بخاری کے حوالے سے یہ بات کہ رہے ہیں کہ وہاں گو کہ امام بخاری نے من السما کے الفاظ نہیں کہے لیکن ان کی مراد یہی تھی۔
اب اگر آپ امام بیہقی کی اس بات سے متفق نہ ہوں تو بھی اس حدیث کے اوپر کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ امام بیہقی نے یہ حدیث بخاری سے کوٹ نہیں کی بلکہ اپنی سند سے پیش کی ہے۔
اور یہ بات کا اس دعوے کا جواب ہے کیا کہ یہ کتاب ۱۳۲۸ میں شائع ہوئی اس سے قبل نہیں ؟؟اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اپنے مرزائیوں کی کتابیں پڑھنے کی بجائے کبھی اور کتابیں بھی آپ ضرورپڑھیں۔
اور پھر یہ حدیث میں اور طریق سے بھی نقل کر چکا ہوں ان کا کوئی جواب ہے آپ کے پاس؟

17 مئی 1974 کے لاہور کے روزنامہ امروز کے صفحہ 4 پر حسب ذیل نوٹ شائع ہوا جو ملک میں

علمی اور دردمند حلقوں میں پوری توجہ اور اضطراب سے پڑھا گیا۔
"کچھ عرصہ سے بزرگان سلف کی بعض کتابوں میں ردوبدل کا سلسلہ شروع ہے۔ جدید ایڈیشنوں میں
بعض حوالوں کو اپنے معتقدات کے سانچوں میں ڈھالا جارہا ہے۔ بعض کتابوں کے متن میں ترمیم و تنسیخ
اور حذف و اضافہ کیا گیا ہے۔ بعض جگہ صفحوں کے صفحے خارج کردیئے گئے ہیں۔ قدیم اسلامی
لٹریچر میں ترمیم و تنسیخ کا یہ منصوبہ نثر اور نظم دونوں پر حاوی ہے اور مواعظ خطبات، سیرت و
سوانح، تصوف، عقائد اور کلام و حدیث کی کتابوں تک ہی نہیں، قرآن مجید کے تراجم اور تفسیر تک
جاپہنچا ہے۔" (امروز لاہور 17 مئی 1974 صفحہ 4)
اس نوٹ کے ساتھ 6 کتابوں کی لسٹ بھی دی گئی جن میں تحریف کردی گئی تھی۔ لیکن یہ 6 کتابوں کی
لسٹ تو تو 1974 کی بات تھی۔ لیکن اسکے بعد بھی یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے اس لسٹ میں مذید کتابوں
کا بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ اوراسکے علاوہ اب تک پتہ نہیں کتنی کتابیں اس کی زد میں آچکی ہیں۔
جن 6 کتابوں کی لسٹ روزنامہ امروز 1974 میں دی گئی تھی اس میں بعد کے سالوں میں اضافہ ہوکر یہ
لسٹ اب 6 سے تجاوز کرچکی ہے۔
1- صحیح مسلم شریف (حضرت امام مسلم بن حجاج قیشری)
2- شمائل ترمذی (حضرت مام ابو عیسی ترمذی)
3- تفسیر مجمع البیان (الشیخ فضل ابن الحسن الطبری)
4- تفسیر الصافی (محمد بن مرتضی الفیض الکاشانی)
5- اسباب النزول (حضرت الشیخ الامام ابی الحسن علی الواحدی)
6- اشارات فریدی حصہ سوم (افاضات حضرت خواجہ غلام فرید صاحب سجادہ نشین چاچڑاں شریف)
7- تعطیرالانام (مولفہ حضرت شیخ عبد الغنی النابلسی)
8- اربعین فی احوال المہدیین (مولفہ حضرت شاہ اسماعیل شہید)
9- تذکرۃ الاولیا (تصنیف حضرت شیخ فرید الدین عطار رح)
10- معراج نامہ (مولوی قادریار صاحب مرحوم)
11- مجموعہ خطب (مولفہ مولانا محمد اسلم صاحب مرحوم)

اب ان میں سے کچھ کتابوں کا ثبوت پیش کرتا ہوں جس کے ساتھ یہ بھی بتاؤں گا کہ کس جگہ تحریف کی
گئی اور اسکا احمدیت سے کیا تعلق تھا جس کی وجہ سے تحریف کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔
صحیح مسلم شریف:
حضرت امام مسلم نے کتاب الحج باب فضل الصلاۃ بمسجدی مکہ و مدینہ میں مندرجہ ذیل حدیث بروایت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ درج فرمائی ہے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فانی آخر الانبیا و ان مسجدی آخرالمساجد
یعنی میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔

یہ حدیث جماعت احمدیہ کے نظریہ ختم نبوت کی زبردست موئید ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کے آخری نبی ہونے کی تفسیر خود حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک
سے فرمائی ہے۔ صحیح مسلم کا جو نسخہ شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور نے نومبر 1956 میں شائع
کیا تھا اور اس کا ترجمہ سید رئیس احمد جعفری صاحب نے کیا ہے۔ اس میں سے یہ حدیث کتاب الحج
سے نکال باہر کی گئی ہے۔

شیخ غلام علی اینڈ سنز والوں کی طرف سے چھاپی گئی صحیح مسلم میں دوسرا تغیر یہ کیا گیا ہے کہ
کتاب الایمان میں حضرت ابوہریرہ کی مندرجہ ذیل دو حدیثیں صرف اس لئے حذف کردی گئیں کہ ان سے

جماعت احمدیہ کا یہ مسلک بالکل صحیح ثابت ہوتا تھا کہ آنیوالا مسیح ابن مریم امت محمدیہ کا ہی ایک

فرد ہوگا۔ وہ دونوں حدیثیں یہ ہیں:

1- انہ سمع ابا ھریرہ یقول قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم: کیف انتم اذا ابن مریم فیکم و امکم
2- عن ابی ھریرہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم فامکم۔

ان احادیث کو کسی دوسرے ادارے کی چھپی ہوئی صحیح مسلم سے چیک کیا جاسکتا ہے۔

ستم کی انتہا یہ ہے کہ کتاب الایمان میں سے وہ پورا باب ہی کاٹ کر الگ کر دیا گیا ہے جس میں حضرت

مسلم نے یہ حدیث درج فرمائی تھی اور جس کا عنوان یہ ہے:
"باب نزول عیسی بن مریم حاکما بشریعۃ نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم"

اس طرح صرف اس ایک باب کے حذف کے نتیجہ میں چھ حدیثیں اور متعدد آثارو اقوال صحیح مسلم کی

کتاب الایمان سے نکال دئیے گئے۔

درحقیت ایک انتہائی احمقانہ بات آپ نے یہاں کی ہے یعنی

۱۔ احادیث کی بنیادی کتابیں کروڑوں کی تعدا میں چھاپی گئیں ہیں اور ان کے پرانے پرنٹ نسخے بھی موجو د
ہیں اب ان میں تحریف کرنا کوئی بچوں کا کھیل ہے اور پھر آپ شیخ غلام علی کے ترجمے کی بات کرتے ہیں ایک تو اصل سے ہٹ کر آپ کو ترجموں کا بہت شوق ہے میرے پاس شیخ غلام علی کا یہ ترجمہ موجود نہیں اور اگر اس میں میں کوئی غلطی ہے بھی تو اس سے اصل مسلم شریف کی حیثت پر کیا فرق پڑ سکتا ہے؟
پھر ضرور
نہیں کہ وہ تحریف ہی ہو موجودہ دور میں تدوین حدیث کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو یقینا علماء اسلام نے احادیث کی خدمات کے لیے بہت کام کیا ہے اور جس سے ان کتب سے مستفید ہونا آسان ہو گیا ہے مثلا ۔
۔ مختلف کتب احادیث کے تراجم کی گئے اور عنوانات قائم کرنا۔
۔ کتب احادیث میں احادیث کی اور ابواب کی ترقیم کی گئی ہے۔ اب آپ جیسا کوئی شخص ہر بات کو
تحریف تحریف کہتا رہے تو کیا اس سے اصل کتابوں میں تحریف ثابت ہو جائے گی؟
پھر جو احادیث آپ نے پیش کیں ان میں کوئی ایسی بات نہیں جو آپ کی موئید ہو۔مسلمانوں کا امام ان میں سے ہو گا یہ حضرت مہدی کی طرف اشارہ ہے اور میں سمجھ رہا ہوں کہ کیوں آپ یہ بات یہاں کرنا چاہ رہے ہیں میں اور لوگوں کی معلومات کے لیے بتا دوں کہ مرزا ئیوں کا عقیدہ ہے کہ مہدی و مسیح ایک شخصیت ہیں اور اس بات سے ان کی مرضی مرزا کو مسیح و مہدی دونوں ثابت کرنا ہے نعوذ باللہ۔
نبی پاک آخری نبی ہیں اور رہیں گے اور حضرت عیسیٰ کی آمد ختم نبوت کی نفی نہیں کرتی یہ بات پہلے ہی کہ چکا ہوں ۔

اور ایک اور بات یہ کہ یہ تحریفی کاروائیاں درحقیت مرزا کی اور آپ لوگوں کی کی ہوئی ہیں
اب بتائیے کہ
مرزا نے کہا کہ،
سورہ تحریم میں صریح طور پر بیان کیا گیا کہ بعض افراد امت کا نام مریم رکھا گیا اور پھر پوری اتباع شریعت کی وجہ سے اس مریم میں خدا تعالیٰ کی طرف سے روح پھونکی گئی اور روح پھونکنے کےبعد اس مریم سے عیسیٰ پیدا ہو گیا اور اسی بنا پر خدا نے میرا نام عیسی بن مریم رکھا (خزائن ج ۲۱ ص ۳۶۱)

اب یہ صاف قرآن میں تحریف کی کوشش ہے کیوں کہ سورہ تحریم میں ایسی کوئی بات موجود نہیں۔
ایسی مثالیں بہت ہیں اور رانا صاحب کا رویہ دیکھتے ہوئے مجھے مزید اپنا وقت مرزا کی تحریر پڑھ کر برباد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اور جو بات کتاب اسباب نزول سے کی گئی وہ درحقیقت ایک حدیث ہے جو متعدد اور جگہ بھی نقل کی گئی
ہے اور وہ یہ ہے

[ARABIC]ألستم تعلمون أن ربَّنا حيّ لا يموت، وأنّ عيسى يأتي عليه الفناء؟[/ARABIC]

اب یہاں لفظ اتی نہیں بلکہ یاتی ہے جس کے معنی ہیں کہ حضرت عیسی پر فنا آئے گی۔ یاتی مستقبل کے
لیے استعمال ہوتا ہے یہ حدیث تفسیر طبری میں ج ۶ ص ۱۵۴ اور اور ابن ابی حاتم میں ج ۹ ص ۴۰۸ پر
موجود ہے اور یہ آل عمران آیت ۱ کے تحت دیکھی جاسکتی ہیں اب جہاں تک بات امام ابی الحسن کی کتاب کی ہے تو اس کتاب کے جو جدید اڈیشن ہیں ان میں یہ عبارت بھی موجود ہے لیکن تصحیح کے ساتھ یعنی لفظ یاتی کے ساتھ، جس کی تائید دیگر کتب بھی کرتی ہیں ، اسی کتاب کا ایک اڈیش جو سعودیہ سے شائع ہوا دار المیمان سے، یہ اڈیشن اس کتاب کے مختلف مخطوطات کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے اور اس کتاب کے مخلتف مخطوطا ت میں جو تبدیلیاں ہیں ان کا بھی حوالہ اس میں موجود ہے۔ جیسا کہ اسباب نزول کی اسی روایت میں کہیں علیہ الموت والفنا ہے کہیں صرف فنا ہے کہیں لفظ بلی اور کہیں نعم ہے تو یہ کتاب جو اسباب نزول کے مختلف مخطوطات کو سامنے رکھ کر ترتیب دی گئی اس میں بھی لفظ یاتی ہی ہے اتی نہیں۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پرانے نسخے میں بھی لفظ یاتی ہی ہوگا اتی نہیں ۔
 

رانا

محفلین
ابن حسن کے موضوع سے متعلق بعض نئے نکات کا یہاں جواب دوں گا۔ لیکن بحث میں اب زیادہ تر باتیں دہرائی جانی شروع ہوگئی ہیں۔ جسکا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے اس پوسٹ میں ان نئے نکات کا جواب دے کر میں اپنی طرف سے بحث کو ختم کروں گا۔

اس بحث میں شروع سے حضرت مرزا صاحب کا ذکر جس غیر مہذبانہ اور تحقیر کے رنگ میں کیا جاتا رہا ہے وہ کسی بھی احمدی کے لئے قابل برداشت نہیں۔ اور ایسی صورت حال میں بحث کو جاری رکھنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں۔ اگر یہ اصول ایک عالمی اصول کے طور پر مان لیا جائے کہ جس قوم کے نبی کو آپ جھوٹا سمجھتے ہیں اس کا ذکر انتہائی ناشائستہ غیرمہذبانہ اور تحقیر کے رنگ میں کرنا جائز ہے تو پھر ہر قوم اگر اس اصول پر عمل پیرا ہونے لگ جائے تو خود ہی اندازہ لگالیں کہ کیا صورت بنے گی۔ میں نے بہت کوشش کی کہ بات شائستہ رنگ میں آگے بڑھ سکے لیکن مسلسل تحقیر آمیز رویہ حضرت مرزا صاحب کے متعلق دیکھ کر میرا لہجے میں بھی بعض جگہ تلخی کا عنصر شامل ہوتا گیا۔ اور ایسی صورت میں تو احمدیت پر بحث جاری رکھنا ہی ناممکن ہے۔ اس لئے اب صرف موضوع سے متعلق بعض باتوں کا ذکر کرکے اس بحث کو ختم کروں گا۔

اس پوسٹ میں ابن حسن کی درج ذیل باتوں کا جواب دوں گا۔
توفی کے چیلنج کے متعلق
پیر مہر علی شاہ کے چیلنج کے متعلق
توفی کے حقیق اور مجازی معنی کے متعلق
تفاسیر پر ابن حسن نے بار بار زور دیا ہے
اور بعض دیگر سوالات

مرزا نے کہا کہ،
سورہ تحریم میں صریح طور پر بیان کیا گیا کہ بعض افراد امت کا نام مریم رکھا گیا اور پھر پوری اتباع شریعت کی وجہ سے اس مریم میں خدا تعالیٰ کی طرف سے روح پھونکی گئی اور روح پھونکنے کےبعد اس مریم سے عیسیٰ پیدا ہو گیا اور اسی بنا پر خدا نے میرا نام عیسی بن مریم رکھا (خزائن ج ۲۱ ص ۳۶۱)

یہاں سورہ تحریم کی آخری دو آیات کی حضرت مرزا صاحب نے تشریح بیان کی ہے اور تشریح ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک کچھ اور ہوگی اور جماعت احمدیہ کے نزدیک کچھ اور۔ اس تشریح کی وضاحت اس ویڈیو میں امام جماعت احمدیہ نے کی ہے۔



اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میں نے اپنی جماعت کے مبلغوں کی ویڈیوز دی ہیں اور مرزاصاحب کے اقتباس دئیے ہیں تو یہ بھی صریح مغالطہ دینے کی آپ نے کوشش کی ہے ۔ میں نے یہ تمام چیزیں آپ کے احمدیت پر اعتراضات کے جواب میں پیش کی ہیں ناکہ اپنی طرف سے پہل کی ہے۔

اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم احمدیت پر بات کرنے سے کنی کترا جاتے ہیں یہ قطعاً غلط ہے۔ لیکن جب بھی غیر مہذبانہ رنگ میں حضرت مرزا صاحب کا ذکر ہوگا تو ایسے شخص سے کون گفتگو کرے گا۔ اللہ کے فضل سے ہمیں کبھی کنی کترانے کی ضرورت نہیں پڑی ہم ہر جگہ اپنے احمدی ہونے کا فخر سے اظہار کرتے ہیں۔ لیکن بات اگر مہذب رنگ میں ہو تو پھر ہی انسان ان معاملات میں بات کرے گا۔ مجھے کبھی بھی احمدیت یا حضرت مرزا صاحب کے متعلق استفسار پر جواب دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہوا۔ اب بھی اگر کسی کو مہذب رنگ میں احمدیت یا حضرت مرزا صاحب کے متعلق جتنے بھی سوالات کرنے ہوں وہ میری gmail کی آئی ڈی rana1889 پر شوق سے کرسکتا ہے۔ لیکن اگر کسی نے ابن حسن کے انداز میں غیر مہذب اور تحقیر آمیز انداز حضرت مرزا صاحب کے متعلق اختیار کرنا ہے تو اس سے پیشگی معذرت۔ وہ نہ ہی زحمت کریں تو بہتر ہے۔ مہذب انداز میں کوئی ہزار اعتراضات بھی کرلے تو سر آنکھوں پر۔


انی متوفیک و رافعک کا ترجمہ میں لے لوں گا تجھ کو اور اٹھاوں گا اپنی طرف ، ہے اس میں کوئی الجھاو نہیں

بہت ہی خوب رویہ ہے۔ ایک طرف تو کہتے ہیں کہ کسی صحابی کا مستند ترجمہ دکھاو تو مانیں گے۔ پھر جب اس آیت کے لئے صحیح بخاری سے ابن عباس کا ترجمہ پیش کیا کہ وہ متوفیک کے لئے موت کا ترجمہ کرتے ہیں تو فوراً تفاسیر کی طرف بھاگ گے کہ جی بعد میں لکھی جانے والی تفاسیر میں لکھا ہے کہ ابن عباس تقدیم و تاخیر کے قائل تھے۔ پھر جب میں نے یہ کہا کہ تقدیم و تاخیر کے نام پر قرآنی الفاظ کو آگے پیچھے کرنے کی جسارت آپ کو ہی مبارک ہو ہم اس سے باز آئے۔ تو فوراً پینترا بدلا کہ جی متوفیک کا ترجمہ میں لے لوں گا ہے اس میں کوئی الجھاو نہیں ہے۔ اب بندہ کیا کرے؟ صحیح بخاری سے ترجمہ پیش کرے تو آپ تفاسیر میں گھس جاتے ہیں۔ وہاں پکڑیں تو نیا پینترا بدل لیتے ہیں۔ ایسا ترجمہ آپ ہی کو مبارک ہو۔ ہمیں ایسے ترجمے کی ضرورت نہیں۔ پہلے ایک ایک لفظ رفع اور توفی کا الگ الگ ہی عیسی کو آسمان پر اٹھا رہا تھا اب ایک ہی آیت میں دونوں لفظ مل کر حضرت عیسی کو اٹھا رہے ہیں۔ بہت خوب۔

توفی کے چیلنج کی بحث:
سب سے پہلے تو میں یہ وضاحت کردوں کہ توفی کے معنی جب بھی کسی انسان کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو پہلا مطلب موت ہی مراد ہوتا ہے سوائے اسکے کہ کوئی لفظی قرائن اسطرف اشارہ کرتے ہوں۔ دیکھیں:

"قرآن کریم میں توفی کا لفظ موت دینے کے مفہوم میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ جب کبھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس کے پہلے معنی جو ذہن میں آتے ہیں۔ وہ موت کے ہیں۔ البتہ جب کبھی موت کے علاوہ کسی دوسرے مفہوم کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو ساتھ ہی ایسے ﴿لفظی﴾ قرائن موجود ہوتے ہیں جو ان معنوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔"
﴿مجلہ الازہر زیر ادارت احمد حسن الزیات ۔ جامعة الازہر قاہرہ فروری 1960﴾

بار بار یہ کہا جارہا ہے کہ یہ اصول کہاں لکھا ہے کہ جب اللہ کسی انسان کی توفی کرے تو مطلب موت ہی ہوتا ہے۔ یہ اصول سب سے پہلے میں نے آپ کو قرآن میں دکھایا تھا کہ جب وہ کسی انسان کی توفی کرتا ہے تو دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو موت اور یا نیند۔ اور نیند کے لئے واضع طور پر اسی آیت میں قرینہ بھی موجود ہے۔

اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا١ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَ يُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠۰۰۴۲

یہاں اللہ تعالی نے واضع طور پر خود ہی وضاحت کردی ہے کہ جب اللہ کسی ذی روح کی توفی کرے گا تو موت ہی مراد ہوگی سوائے اسکے کہ نیند کا قرینہ موجود ہو۔ اوراللہ تعالی نے اس آیت میں پیش کردہ قاعدہ کو پورے قرآن میں ہر جگہ استعمال کیا ہے۔ کسی ایک جگہ بھی اسکے خلاف مثال نہیں۔ یہاں تک کہ احادیث میں بھی اسکے خلاف مثال نہیں اور تمام عرب لٹریچر نظم و نثرمیں اسکے خلاف کوئی مثال نہیں۔ اب تمام لغات جب توفاہ اللہ کا مطلب بیان کرتی ہیں تو قبض روح ہی بیان کرتی ہیں۔ کوئی ایک بھی لغت ایسی نہیں جو اسکے خلاف مطلب بیان کرتی ہو۔

پھر آپ کہتے ہیں کہ لغات میں دکھاو۔ جب ایک لغت اسکا یہ مطلب بیان کرتی ہے۔ پھر دوسری کو دیکھیں تو وہاں بھی وہی ہے۔ تیسری لغت اٹھاتے ہیں تو وہاں بھی یہی لکھا ہوا ملتا ہے۔ اور اس طرح جس جس لغت کو بھی اٹھاتے ہیں تو وہاں بلا استثنا یہی لکھا ہوا ہر لغت میں نظر آتا ہے کہ جب بھی توفا اللہ آئے گا تو مطلب موت ہی ہوگا۔ اب اور کہاں سے قاعدہ دکھایا جائے؟

لفظی قرائن کے بغیر توفی کے معنی سوائے موت کے کچھ نہیں ہوسکتے۔
اوپر یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ اگر ایسے موقعے پر موت کے علاوہ اس لفظ کے کوئی دوسرے معنی لینے ہیں تو لفظی قرائن کا ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ آپ کی پیش کردہ حدیث میں یوم القیامہ کا لفظی قرینہ موجود ہے۔ اب بتائیں چیلنج کہاں پورا ہوا؟ یہی تو چیلنج تھا کہ جب اللہ تعالی اس لفظ کو کسی ذی روح کے لئے استعمال کرتا ہے تو مطلب موت ہی ہوتا ہے۔ تمام لغات نے قرینے کا ذکر کئے بغیر اسکا ترجمہ موت ہی لکھا ہے۔ قرآن میں جہاں لفظی قرائن کے بغیر استعمال ہوا ہے موت ہی مراد ہے۔ عربی قوائد یہ کہتے ہیں کہ لفظی قرائن کے بغیر یہ لفظ ایسے موقع پر ہمیشہ موت ہی کے معنی دے گا۔ پھر آپ کی یہ حدیث اس چیلنج پر پورا کیسے اترتی ہے؟ جبکہ یہاں یوم القیامہ کا قرینہ موجود ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ میں نے ثابت کیا تھا کہ آپ کے علماء بھی اسکے خلاف نہیں کرسکتے ہیں۔ اور میں نے دالاشاعت کے مترجمہ مولانا کی مثال بطور ثبوت پیش کی تھی۔ لیکن آپ نے اسے سمجھا ہی نہیں اور یہ کہہ دیا کہ اگر غلطی سے کسی لفظ کا ترجمہ ان سے رہ بھی گیا تھا تو اصل عربی عبارت پر کیا اثر پڑسکتا ہے۔

میں نے یہ کب کہا کہ اصل عبارت پر کوئی فرق پڑا ہے۔ میں یہ بتا رہا تھا کہ ان مولانا کی نظر سے جب یوم القیامہ کے الفاظ رہ گئے تو وہ تو یہی سمجھ رہے تھے نا کہ یہ الفاظ حدیث میں نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں وہ فوراً مجبور ہوگئے کہ عربی قوائد کے مطابق اب موت کے علاوہ کوئی دوسرا ترجمہ نہ کریں۔ اور یہی تو چیلنج کی سچائی ہے۔ ورنہ ان کے خیال میں تو یوم القیامہ کے الفاظ وہاں تھے ہی نہیں، لیکن پھر بھی انہوں نے "اجر دینے کا" ترجمہ کیوں نہیں کیا۔ یوم القیامہ کے الفاظ کے بغیر بھی وہ مولانا آپ کا یہ ترجمہ کرسکتے تھے کہ "یہاں تک کہ اللہ اسے پورا پورا اجر دے دیتے ہیں۔" لیکن عربی قوائد نے ان کا ہاتھ روک لیا کہ لفظی قرائن کے بغیر کے اب موت کے علاوہ دوسرا ترجمہ کسی طور جائز نہیں۔ آپ نے جو سوال اٹھایا ہے کہ کیا کسی عالم نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ لفظی قرائن کی وجہ سے ہم مجبور ہیں کہ اب کوئی دوسرا ترجمہ کریں ورنہ اصل معنی تو ایسے موقع پر موت کے ہی ہیں۔ اسکا جواب ایک تو اوپر قاہرہ یونیورسٹی کا حوالہ ہے اور دوسرا یہ مترجم مولانا کا ترجمہ۔ ان مترجم مولانا نے بھی یہ ثابت کردیا کہ قرینے کے بغیر ہمیشہ موت ہی کے معنی ہوتے ہیں۔ حالانکہ اجر دینے کا معنی وہ کرسکتے تھے لیکن کیونکہ یوم القیامہ کا قرینہ ان کی نظر سے اوجھل رہ گیا اس لئے عربی قوائد کے مطابق انہوں نے موت کے ہی معنی کئے۔ اور تیسرا قرآن شریف کی وہ آیت جس میں نیند کا ذکر ہے۔ اور چوتھا قرآن شریف کی وہ تمام آیات اور احادیث جن میں توفی کا لفظ انسان کے لئے بغیر قرینہ کے استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ آپ کے علماء نے بھی اسکا ترجمہ موت ہی کیا ہے سوائے حضرت عیسی کے جن کی خاطر یہ تمام قوائد تہس نہس کرنا آپ کے نزدیک جائز ہے۔

اور تیسری بات یہ ہے کہ چیلنج تو اس دنیا میں انسان کی توفی کے متعلق ہے۔ بحث تو حضرت عیسی کی توفی کی ہورہی ہے جو اس دنیا میں ہوئی تھی۔ تو مثال آپ اسی دنیا میں انسان کی توفی کی دیں کہ کبھی دنیا میں انسان کی توفی ہوئی ہو اور مطلب کچھ اور ہوا ہو۔ اس حدیث میں تو قیامت کا ذکر ہی یہ بتا رہا ہے کہ یہاں قیامت کو فوت ہونے کا معنی کیا ہی نہیں جاسکتا۔ قیامت کو بھی کوئی فوت ہونے کا موقع ہے؟ ظاہر ہے کہ قیامت کا قرینہ سامنے موجود ہے۔ یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہے کہ جیسے آپ کے نزدیک حضرت عیسی جسمانی مردے زندہ کرتے تھے اور میں کہوں کہ اللہ تعالی کی سنت نہیں کہ مردے زندہ کرے اس لئے کوئی ثبوت پیش کرو۔ اور آپ کہیں کہ ثبوت یہ ہے کہ قیامت کو اللہ تعالی مردے زندہ کرے گا۔

تفاسیر:
آپ نے تفاسیر پر بڑا زور دیا ہے۔ لگتا ہے کہ بار بار ایک بات آپ کو سمجھنانے کے باوجود سمجھ نہیں آتی۔ بار بار آپ کوکہا گیا ہے کہ آپ یا آپ کی تفاسیر توفی کا جو ترجمہ کرتے ہیں قرآن سے اسکا ثبوت پیش کریں کہ اللہ نے انسان کی توفی کی ہو اور مطلب موت کے علاوہ کچھ اور ہوا ہو۔ سوائے اسکے کہ دوسرے ترجمہ کے لئے قرینہ موجود ہو۔ پھر اپنے ترجمہ کے حق میں کوئی حدیث سے ہی ثبوت پیش کریں کہ کبھی انسان کی توفی کی بات ہوئی ہو اور ترجمہ موت کے علاوہ کچھ اور ہوا ہو۔ میں نے ابھی ثابت کیا ہے کہ دالاشاعت کے مولانا بھی قرینہ کے بغیر موت کا ترجمہ کرنے پر ہی مجبور ہوئے۔ پھر لغات العرب سے اپنے ترجمہ کے حق میں کوئی ثبوت پیش کریں۔

لیکن آپ نے بجائے اسکے کہ اپنے ترجمہ کے حق میں ثبوت پیش کرتے ان تفاسیر کے ترجمہ کو ہی بطور ثبوت پیش کردیا کہ ان تفاسیر نے حضرت عیسی کے لئے اٹھانے کے معنی کئے ہیں۔ جناب یہی تو ثابت کرنا ہے کہ ان تفاسیر نے بھی اگر یہ معنی کیئے ہیں تو اپنے معنوں کی تائید میں کوئی ثبوت تو پیش کریں۔ بغیر ثبوت کیسے مان لیں کہ ان کے معنی درست ہیں۔ آپ ان تفاسیر کے لکھنے والوں کی نمائیندگی کررہے ہیں اس لئے آپ کا کام ہے کہ ان تفاسیر کے لئے ثبوت فراہم کریں کہ ان کا ترجمہ درست ہے نا یہ کہ جس ترجمہ پر بحث ہورہی ہے اسی کو بطور ثبوت پیش کردیا جائے۔ یہ تفاسیر لکھنے والے بزرگ انسان ہی تھے۔ غلطی سے پاک تو نہ تھے۔ ان کی تفاسیر کسطرح سند ہوسکتی ہیں۔ سند صرف قرآن ہے یا حدیث یا پھر ترجمہ کے لئے لغات العرب سے سند پیش کریں۔ تفاسیر ہمارے نزدیک سند نہیں کیونکہ خود ثبوت کی محتاج ہیں۔

اگر ان تفاسیر کو ہر معاملے میں سند مان لیا جائے تو ان تفاسیر میں انبیاء کے متعلق بعض ایسے لغو قصے لکھے ہیں کہ جن پر کسی طرح ایک سچا مسلمان یقین کرہی نہیں سکتا۔ تفسیر کشاف، تفسیر جلالین، تفسیر خازن، تفسیر جامع البیان تفسیر روح المعانی وغیرہ میں ایسے ایسے قصے انبیاء کرام کی طرف منسوب کیئے گئے ہیں کہ پڑھ کر ہی شرم آتی ہے۔ تفسیر کشاف میں تفسیر سورة ہود میں حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے ان درندوں کے سامنے نعوذ باللہ اپنی بیٹیاں پیش کردیں۔ ایسی تفسیر کی ہے کہ پوری عبارت بھی پیش کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ حضرت داود کے متعلق جو تفسیر جلالین تفسیر خازن اور جامع البیان میں قصہ لکھا ہے اگر آج کسی معمولی بادشاہ کی طرف بھی وہ بات منسوب کی جائے تو وہ مرنے مارے پر تل جائے اور دنیا میں شور پڑجائے۔ اور اگر وہ سچ ہو تو اس بات پر انقلاب آسکتے ہیں۔ ایک بادشاہ کے متعلق یہ ثابت ہوجائے کہ اس نے ایک جرنیل کو مروادیا اسلئے کہ اس کی بیوی پر قبضہ کرے یہ کوئی معمولی جرم نہیں۔ لیکن مفسرین کہتے ہیں خدا کے ایک نبی ایک عورت پر نعوذ باللہ فریفتہ ہوگئے۔ حضرت یوسف، حضرت سلیمان اور تو اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں چھوڑا اور ایک جھوٹا قصہ جس کی کوئی بنیاد ہی نہیں وہ بنا کر حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اتنی تفصیل سے منسوب کردیا ہے کہ پڑھ کر ہی انسان کا بدن کانپ جاتا ہے کہ سب معصوموں سے زیادہ معصوم انسان پر اسطرح کی تہمت لگاتے ہوئے ان کے قلم کیوں نہ ٹوٹ گئے۔ ایسی ہی روایتوں کو لے کر پھر سلمان رشدی نے اپنا ناپاک ناول لکھا تھا جس کے کردار ان مقدس ہستیوں کو بنایا گیا۔ ایسا ہی ایک لغو قصہ ان مفسرین نے حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق گھڑ لیا ہے جس پر آپ کہتے ہیں کہ ہم آنکھیں بند کرکے ایمان لے آئیں۔

ان تفاسیر کے لکھنے والے بڑے بزرگ علماء تھے۔ ان کی اسلام کی لئے بڑی عظیم الشان خدمات ہیں اس سے انکار نہیں لیکن بہرحال ان کی تفاسر سند نہیں ہوسکتیں کیونکہ یہ خطا سے پاک نہیں تھے۔ اس لئے اگر انہوں نے حضرت عیسی کے لئے توفی اور رفع کے کچھ دوسرے معنی کیئے ہیں تو ان کا جب تک ثبوت نہ دیا جائے کہ یہ معنی جائز ہیں تب تک قابل قبول نہیں۔

امام رازی سے جو آپ نے توفی کے معنی آسمان پر لینا لکھے ہیں ان کا ثبوت تو دیں کہ کس لغت میں یہ معنی لکھے ہیں۔ امام رازی نے یہ معنی کہاں سے لئے ہیں۔ کوئی ثبوت تو پیش کریں۔ صرف کسی کے کہنے سے معنی نہیں مانے جاسکتے ساتھ ٹھوس ثبوت ہونے چاہئے۔

تاج العروس:
تاج العروس کا آپ نے حوالہ دیا ہے:
توفہ اللہ عزوجل اذا قبض نفسہ
یعنی جب کہا جائے کہ اللہ نے فلاں شخص کی توفی کی ہے تو اسکا مطلب ہوگا کہ اللہ تعالی نے اس کی روح قبض کرلی۔
اگر آپ نے اس لئے حوالہ دیا ہے کہ آپ کی مراد اس سے قبض جسم ہے تو جناب یہاں بھی توفی کا مطلب قبض روح ہی بیان کیا گیا ہے۔ اگر آپ قبض نفسہ کے الفاظ سے یہ ظاہر کرنا چاہا ہے کہ یہاں قبض جسم مراد ہے یہ کسی طور یہاں ممکن ہی نہیں۔ اگرآپ یہاں قبض جسم ہی مراد لیں گے تو مطلب یہ بنے گا کہ جب کہا جائے کہ اللہ نے فلاں شخص کی توفی کی ہے تو اسکا مطلب ہوگا کہ اللہ نے اسکا جسم قبض کرلیا ہے۔ اب بتائیں یہ معنی کسی طرح بھی ممکن ہیں۔ اسکا تو یہ مطلب ہوگا کہ تاج العروس کے مطابق جب بھی انسان کی توفی ہوتی ہے تو مراد قبض جسم ہی ہوتا ہے۔ تو پھر یہ جو آئے دن لوگوں کی توفی ہوتی رہتی ہے تو تاج العروس کے مطابق ان سب کا قبض جسم ہی ہوتا ہے؟ جناب یہاں قبض روح ہی مراد ہے۔ اور کوئی دوسری صورت ہی نہیں۔

توفی کے مجازی اور حقیق معنی:
یہ درست ہے کہ توفی کے حقیقی معنی لینے یا وصول کرنے کے ہیں۔ اور مجازی معنی موت اور نیند کے ہیں۔ لیکن بات پھر وہی رہتی ہے۔ اگر آپ کو بات اسطرح مجازی اور حقیقی کے الفاظ سے سمجھ میں آتی ہے تو اسطرح بھی دیکھ لیتے ہیں۔ کسی لفظ کے استعمال میں زبان کے اصولوں کو ملحوظ رکھنا تو ضروری امر ہے۔ آپ نے توفی کے مجازی معنی قبض روح کرنا خود تسلیم کیئے ہیں۔ اور علم بیان میں یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ جس محل پر کوئی لفظ مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہو اس محل پر وہ لفظ حقیقی اور اصلی لغوی معنوں میں استعمال شدہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے محل پر اس کے اصلی لغوی معنی لینے محال ہوتے ہیں۔ مثلاً قرآن شریف میں آیا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اندھے کےلغوی معنی ہیں جو آنکھوں سے اندھا ہو۔ مگر اس کے مجازی معنی بصیرت روحانیہ سے عاری کے ہیں۔ لہذا اس جگہ ظاہری نابینائی کے معنی سراسر غلط اور نامعقول ہوں گے۔ کونکہ محل استعمال مجازی معنوں کا ہے۔

توفی کے مجازی معنی قبض روح کے ہیں اور ان معنوں کا محل استعمال یہ ہوتا ہے کہ خداتعالی توفی کرنے والا ہو اور انسان کی توفی کی جائے۔ اس موقعہ پر اس لفظ کے معنی قبض روح ہی ہوتے ہیں۔ گو یہ مجازی معنی قرار دیئے جائیں۔ مجازی معنی کے محل پر یہ لفظ اپنے حقیقی معنی "پورا لے لینا" میں استعمال نہیں ہوتا۔ زیر بحث آیات میں کیونکہ خداتعالی توفی کرنے والا ہے اور حضرت عیسی کی توفی ہورہی ہے لہذا ان آیات میں دونوں جگہ توفی کے معنی وفات دینے کے ہی ہوں گے۔ اس محل پر کوئی دوسرے معنی کرنا علم بیان کے اصول کا خون کرنے کا مترادف ہیں۔

تمام لغات اس بات کی تائید کرتی ہیں۔ کوئی بھی لغت اٹھا کر دیکھ لیں ہر لغت یہی بیان کرتی ہے کہ جب بھی اللہ توفی کرنے والا ہو اور توفی کسی ذی روح کی ہورہی ہو تو ہمیشہ مجازی معنی ہی استعمال ہوتے ہیں۔ کوئی ایک بھی لغت دکھائیں جو ایسے موقع پر حقیقی معنی کرتی ہو۔ پورا قرآن اس بات کی تائید میں ہے کہ ایسے موقع پر پورے قرآن میں ہر جگہ توفی اپنے مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک بھی استثناء نہیں۔ احادیث اٹھا لیں۔ جب بھی خدا کے انسان کی توفی کرنے کا ذکر ہوا ہے ہمیشہ مجازی معنی استعمال ہوئے ہیں۔ تمام عرب دنیا کا لٹریچر اٹھا لیں ایسے موقع پر توفی کے ہمیشہ مجازی معنی ہی لئے جاتے ہیں۔

اب ایک طرف جماعت احمدیہ کا ترجمہ ہے۔ جو رفع کا ترجمہ وہ کرتی ہے جو پورے قرآن میں ہر جگہ ایسے موقع پر کیا گیا ہے۔ رفع کا وہ ترجمہ کرتی ہے جو تمام ذخیرہ احادیث میں ایسے مواقع پر کیا گیا ہے جب رفع کرنے والی خدا کی ذات ہو بندے کا رفع ہو۔
پھر توفی کا جماعت احمدیہ ان آیات میں وہ ترجمہ کرتی ہے جو پورے قرآن میں ایسے موقع پر کیا گیا ہے۔ تمام احادیث میں ایسے موقع پر کیا گیا ہے۔ تمام لغات میں ایسے موقع پر کیا گیا۔

آپ کے کئے ہوئے ترجمہ کے ثبوت میں آپ کے پاس کیا ہے؟ صرف تفاسیر جن کا ترجمہ بجائے خود ثبوت کا محتاج ہے؟ ایسا عقیدہ ہے کہ احادیث میں انسانوں کے متعلق بھی آسمان پر جانے کا ذکر موجود ہے یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر اٹھائے جانے کی احادیث ہیں ان کے ترجمہ کرتے ہوئے جانتے ہیں کہ جسمانی جانا مراد ہی نہیں پھر بھی حضرت عیسی کے لئے اسپیشل ترجمہ جائز قرار دے لیتے ہیں۔ ایسا لغو عقیدہ آپ ہی کو مبارک ہو جس کی لغویت اس کہانی سے ہی ظاہر ہے جو حضرت عیسی کو یہود سے بچانے کے لئے سنائی جاتی ہے۔


پیر مہر علی شاہ کا چیلنج:

پیر صاحب کا چیلنج کہ حضرت عیسیٰٰ کی توفی قبل نزول میں توفی سے مراد موت نہیں ہے اگر موت ہے تو (ا) حادیث (ب) تفاسیر (ج) قول صحابی (د) لغات عرب۔ ان میں سے کوئی ایک قول پیش کیا جائے کہ یہاں توفی سے مراد موت ہے۔


پیر مہر علی شاہ کے اس چیلنج کے جواب میں حضرت عیسی علیہ السلام کے قول فلما توفیتنی کا ایک ایسا ترجمہ پیش کرتا ہوں جو کسی مفسر کا نہیں بلکہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جن پر قرآن نازل ہوا اور جو بہتر سمجھتے تھے کہ کس آیت کا کیا ترجمہ ہے۔ اس کے بعد میں اس بحث کو ختم کردوں گا۔ اب ابن حسن کو جو عادت ہے ہرایک کے منہ میں لقمہ دینے کی۔ تو وہ یہاں بھی باز نہیں آئیں گے۔ لیکن اب وہ شوق سے جتنا زور لگانا ہے لگا لیں۔ ہمیں تو اب وہی ترجمہ قبول ہے جسکی توثیق خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کردی ہے۔ ہمیں اب کسی اور کا ترجمہ قبول نہیں۔ جو ترجمہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کردیا ہے وہی ہمارے لئے سند ہے اور اسکے مقابلے میں تمام دنیا کے ترجمے رد کئے جانے کے لائق ہیں۔

صحیح بخاری کتاب التفسیر میں امام بخاری فلما توفیتنی کی تفسیر میں ایک حدیث نبوی لائے ہیں۔ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جب میں حوض کوثر پر کھڑا ہوں گا تو اچانک چند میرے سامنے آئیں گے۔ جنہیں فرشتے جہنم کی طرف دھکیلے لئے جارہے ہوں گے۔ انہیں دیکھ کر میں پکار اٹھوں گا "اصیحابی اصیحابی" یعنی تو میرے صحابہ ہیں یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ اس پر مجھے جواب دیا جائے گا:

انک لاتدری ما احد ثوابعدک۔ انھم لم یزالوامرتدین علی اعقابہھم۔ ﴿صحیح بخاری کتاب التفسیر باب و کنت علیھم شھیداً﴾
بے شک اے نبی۔ آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا رنگ بدلا۔ یہ تو اپنی ایڑیوں کے بل پھر گئے۔ اور مرتد ہونے لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ سن کر " اقول کما قال العبد الصالح عیسی ابن مریم" میں ویسی ہی بات کہوں گا جو خدا کے نیک بندے عیسی ابن مریم نے کہی تھی:

" کنت علیھم شھیداً مادمت فیھم توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم و انت علی کل شیء شھید۔ ان تعذبہم فانھم عبادک و ان تغفرلاھم انت العزیز الحکیم"۔

کہ میں ان کا اس وقت تک ہی نگران تھا۔ جب تک ان میں موجود تھا۔ پس جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی ان کا نگران تھا۔"

تمام مسلمان خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں اس بات پر سو فیصدی متفق ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں اور یہ جواب جو اوپر درج کیا گیا ہے اس میں اپنی وفات کا ہی ذکر فرما رہے ہیں۔
لیکن یہ جواب تو لفظاً لفظاً وہی جواب ہے جو حضرت عیسی السلام کی طرف قرآن کریم میں منسوب کیا گیا ہے۔ پس آپ کا اس قرآنی آیت میں حضرت عیسی علیہ السلام کے الفاظ کو خود اپنی وفات ظاہر کرنےکے لئے استعمال فرمانا صاف بتا رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان الفاظ کا ترجمہ "تو نے مجھے وفات دے دی" کے سوا کچھ نہ تھا۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ سنا کر اب میں اس بحث کو ختم کرتا ہوں۔ کیونکہ اب سوال یہ نہیں رہا کہ جماعت احمدیہ کا ترجمہ درست ہے کا غیر احمدی علماء کا۔ بلکہ یہ سوال ہوگیا ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترجمہ درست ہے یا ان علماء کا جو اس کے برعکس ترجمہ کرتےہیں۔

نوٹ: آخر پر منتظمین کا میں شکریہ ادا کروں گا کہ جنہوں نے بڑے تحمل سے اتنی لمبی بحث کو برداشت کیا۔
 
[ARABIC]
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوْحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَا أَنَزلَ اللّهُ وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ​
[/ARABIC]
ترجمہ :
اور اس سے زیادہ ظالم کون ہو گا جو اللہ پربہتان باندھے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے حالانکہ اس پر وحی نہ اتری ہو اور جو کہے میں بھی ایسی چیز اتار سکتا ہوں جیسی کہ اللہ نے اتاری ہے اور اگر تو دیکھے جس وقت ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھانے والےہوں گے کہ اپنی جانوں کو نکالو آج تمہیں ذلت کا عذاب ملے گا اس سبب سے کہ تم اللہ پر جھوٹی باتیں کہتے تھے اور اس کی آیتوں کے ماننے سے تکبر کرتے تھے۔​


اس بحث میں شروع سے حضرت مرزا صاحب کا ذکر جس غیر مہذبانہ اور تحقیر کے رنگ میں کیا جاتا رہا ہے وہ کسی بھی احمدی کے لئے قابل برداشت نہیں۔ اور ایسی صورت حال میں بحث کو جاری رکھنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں۔ اگر یہ اصول ایک عالمی اصول کے طور پر مان لیا جائے کہ جس قوم کے نبی کو آپ جھوٹا سمجھتے ہیں اس کا ذکر انتہائی ناشائستہ غیرمہذبانہ اور تحقیر کے رنگ میں کرنا جائز ہے تو پھر ہر قوم اگر اس اصول پر عمل پیرا ہونے لگ جائے تو خود ہی اندازہ لگالیں کہ کیا صورت بنے گی۔ میں نے بہت کوشش کی کہ بات شائستہ رنگ میں آگے بڑھ سکے لیکن مسلسل تحقیر آمیز رویہ حضرت مرزا صاحب کے متعلق دیکھ کر میرا لہجے میں بھی بعض جگہ تلخی کا عنصر شامل ہوتا گیا۔ اور ایسی صورت میں تو احمدیت پر بحث جاری رکھنا ہی ناممکن ہے۔ اس لئے اب صرف موضوع سے متعلق بعض باتوں کا ذکر کرکے اس بحث کو ختم کروں گا۔

اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنی پاک کتاب میں ارشاد فرمایا ہے
[ARABIC]لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَ۔۔هْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيْعًا عَلِ۔۔۔يْمًا [/ARABIC] (سورہ نساء آیت ۱۴۸)

ترجمہ: خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔(فتح محمد)


اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ

کیا لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتب میں جا بجا انتہائی گستاخی و فحش کلامی سے کام لیا ہے۔ حضرات انبیاء کی توہین کی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی ہے، حضرت عیسیٰ کے بارے میں تو جو کچھ اس نے لکھا ہے اس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، ملائکہ کی توہین کی ہے،حضرات صحابہ کرام کی توہین کی ہے، اس پوری امت محمدیہ کو گالیاں دی ہیں، خود اپنی فضیلت حضرت آدم ، حضرت نوح ،حضرت موسیٰ، حضرت یوسف، حضرت عیسیٰ حضرات انبیا ء پر خود کو فضیلت دی ہے اور یہی نہیں بلکہ اس نے جو دعوہ نبوت کیا اس کی ساری عمارت دین اسلام پر ہی کھڑی کی ایک ایک چیز اسلام سے ہتھیائی، نماز روزہ ، حج ، زکوۃ اسلام سے لیے، جینے مرنے کی تمام رسومات اسلام سے ہتھیائیں، قرآن کو اپنی کتاب قرار دیا اور پھر اس سارے کام کے بعد اس عمارت پر اپنا جھنڈا لگا کر نبوت کا دعوہ کر دیا، یہ کیا کوئی معمولی بات ہے؟ غور کیجئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دین کتنی سخت ترین مشقت، تکالیف اور جد و جہد کے بعد پھیلایا،بعثت سے لے کر آپ کے انتقال تک نظر دوڑائیے، بعثت کے بعد گویا مکہ کی زمین و آسمان آپ کے دشمن بن گے، کیا کیا تکالیف آپ کو نہ دی گئیں، مشرکوں کے طعنے، ان کی گالیاں سہیں، خدا کی راہ میں اپنا پاک خون تک بہا دیا، آپ اور آپ کے صحابہ نے خدا کی راہ میں اپنا گھر و بار چھوڑ دیا، بھوک کی تکلیف اٹھائی، سفر کی مشقت دیکھائی، وطن و گھر بار کو چھوڑنے کا صدمہ سہا، غزوات میں صحابہ قتل ہوتے رہے، زحمی ہوتے رہے ، اپنے اعضا کی قربانی دیتے رہے، حضور کے چچا شہید کر دیے گئے، ان کے لاشے کی بے حرمتی کی گئی، کسی کا باپ قتل ہوا ، کسی کا پورا خاندان ختم ہو گیا، یہ ساری محنت یہ ساری قربانیاں ، یہ ساری عظیم جد و جہد جس کے باعث آج دین اسلام دنیا کا سب سے عظیم دین ہے، اس لیے دی گئیں کہ انیسویں صدی میں مرزا غلام احمد قادیانی اٹھے اور یہ کہ دے اب میں نبی ہوں محمد رسول اللہ کے بعد خدا نے مجھےنبی بنا یا پھر اسلام کی ہر چیز ہتھیا کر گویا یہ اعلان کر دے کہ محمد رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کی قربانیوں رائگاں چلی گئیں (نعوذ باللہ) اسلام کا خاتمہ ہو گیا (نعوذ باللہ)، امت محمدیہ کا ٹائم پورا ہو گیا(نعوذ باللہ) اور اب ایک نیا مذہب قادیانیت راج کرے گی اب مرزا کی ذریت قیامت تک آخری امت رہے گی،(سوچیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی سوچیں، یہ ذمہ داری ہم سب کی ہے ، آخری امت ہم ہیں ، مرزائی نہیں) اب مرزا کے خلفا ، خلفائے راشدین کی جگہ لے لیں گئے۔ اس مرزا کی گالیاں ہم مسلمان سہیں ، اللہ کے پاک انبیا ءکی توہین ہم برداشت کریں، یہ ہمارے نبی کی نبوت پر ڈاکا مارے اور ہم چپ رہیں؟؟؟ با خدا یہ ممکن ہی نہیں ۔
مرزا کو دو چار سخت الفاظ اس تھریڈ میں کیا لکھ دیے رانا کی برداشت جواب دے گئی، اگر یہاں ایک کھلی بحث ہو جاتی جو صرف مرزا کے کردا پر ہوتی تو پھر رانا دیکھتے کہ مرزا کی کیسی درگت بنتی ہے ، زیادہ یہاں معصوم بننے کی ضرورت نہیں ہے ، اپنی ویب سائٹ پر محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں لکھ دینے سے ان کالے کرتوتوں و نفرت پر پردہ نہیں پڑ سکتا جو مرزا کی اور اس مرزائی جماعت کی کتابوں میں مرقوم ، اور ان کی آنکھوں اور حرکتوں سے عیاں ہے۔

میرا دل تو یہی چاہ رہا ہے کہ مرزا کی ایسی گستاخیو ں کے ثبوت کے طور پر اس کی کتابوں کے عکس یہاں لگا دوں ، لیکن اس فورم کی وجہ سے میں ایسا نہیں کررہا۔

یہاں سورہ تحریم کی آخری دو آیات کی حضرت مرزا صاحب نے تشریح بیان کی ہے اور تشریح ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک کچھ اور ہوگی اور جماعت احمدیہ کے نزدیک کچھ اور۔ اس تشریح کی وضاحت اس ویڈیو میں امام جماعت احمدیہ نے کی ہے۔

یہ بھی خوب مستند تفاسیر تو حجت نہیں لیکن حجت ہے تو مرزا طاہر اور اس کی تشریح۔ہو گا حجت لیکن قادیانیوں پر مسلمانوں پر نہیں۔
دوسرے یہ کہ پہلے بھی یہ بات کہی جاچکی ہے کہ یہاں لمبی لمبی ویڈیوز شیئر کرنے کی بجائے اپنا موقف تحریری طور پر بیان کر دیا کیجئے ، میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں کہ میں کسی مرزا صاحب کو بیٹھ کر دس منٹ تک سنتا رہوں، جو کہنا ہو تحریری طور پر کہیں ، اور پھر جب اس ویڈیو میں کی جانے والی تشریح ہم مسلمانوں کی بجائے مرزائیوں کے نکتہ نظر کا ابلاغ ہے تو پھر تو اس کا جواب یہی ہے کہ قادیانیوں کی کوئی تشریح جس کی بنیاد کسی مرزا صاحب کی بات پر ہو حجت ہی نہیں۔
(نوٹ: اس ویڈیو کو سننے کی کوشش میں نے ضرور کی لیکن اتنی فضول باتیں اس میں ہیں کہ پوری سنی ہی نہ گئی البتہ جس کسی کو مردانہ حیض کے بارے میں معلومات چاہیے ہوں وہ ضرور اس وڈیو کو دیکھے۔)

اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میں نے اپنی جماعت کے مبلغوں کی ویڈیوز دی ہیں اور مرزاصاحب کے اقتباس دئیے ہیں تو یہ بھی صریح مغالطہ دینے کی آپ نے کوشش کی ہے ۔ میں نے یہ تمام چیزیں آپ کے احمدیت پر اعتراضات کے جواب میں پیش کی ہیں ناکہ اپنی طرف سے پہل کی ہے۔

سچ ہے، دروغ گو را حافظہ نباشد
میں تو اس تھریڈ میں بعد میں آیا لیکن شروع سے جو آپ کی نیت تھی وہ لوگوں پر آشکار ہونے لگی تھی، جس طرح آپ نے برملا اپنے قادیانی ہونے کا اعتراف کیا پھر تمام دلائل اول تا آخر وہی دیئے جو اب تک قادیانی دیتے چلے آ رہے ہیں، تو یہ ایک ایسی بات تھی جس سے میں ہی نہیں اور لوگ بھی چونک گئے، اور پوسٹ نمبر میں ۲۰ شمشاد صاحب اور ۲۱ میں نبیل صاحب نے اسی طرف اشارہ کیا ہے ، اب اتنا معصوم بنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ بات میں سابقہ پوسٹ میں ہی کہ چکا ہوں کہ جب کوئی مرزائی حضرت عیسیٰ کی وفات کی بات کرتا ہے تو اس کا مقصد صرف مرزا کی دوبارہ آمد ثابت کرنا ہوتا ہے ، اس کا ثبوت بھی موجود ہے اور خود آپ کی اپنی تحریر سے اپنی پوسٹ نمبر ۱۹ پڑھیئے
نبیل بھائی اس بحث کا موضوع ان کا دوبارہ واپس آنا نہیں ہے۔ صرف ان کی حیات یا وفات ہے۔ البتہ حضرت عیسی کے امت میں نازل ہونے کے بارے میں جو احادیث ہیں ان کو تو میں بھی درست مانتا ہوں۔ لیکن یہ عقیدہ کہ وہی پہلے والے عیسی دوبارہ آئیں گے یہ ایک الگ بحث ہے۔ اسی لئے اس وقت میں نے اپنے آپ کو صرف ان کی وفات پر بات کرنے تک محدود رکھا ہے۔ درمیان میں اگر ضرورت پڑی تو اس بات پر بھی کچھ روشنی ڈالوں گا کہ جس عیسی کے اس امت میں آنے کی خبر احادیث میں ہے انہی احادیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ پہلے والے عیسی بنفس نفیس نہیں آئیں گے کیونکہ وہ تو وفات پاچکے ہیں۔ بلکہ احادیث سے ثابت ہے کہ کسی نئے وجود کو عیسی سے بعض مشابہتوں کی بنا پر ابن مریم کا نام دیا گیا ہے۔

اب اس کے بعد آپ کی بدنیتی ثابت کرنے کے لیے کیا مافوق الفطرت دلائل کی ضرورت ہے؟؟؟؟

اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم احمدیت پر بات کرنے سے کنی کترا جاتے ہیں یہ قطعاً غلط ہے۔ لیکن جب بھی غیر مہذبانہ رنگ میں حضرت مرزا صاحب کا ذکر ہوگا تو ایسے شخص سے کون گفتگو کرے گا۔ اللہ کے فضل سے ہمیں کبھی کنی کترانے کی ضرورت نہیں پڑی ہم ہر جگہ اپنے احمدی ہونے کا فخر سے اظہار کرتے ہیں۔ لیکن بات اگر مہذب رنگ میں ہو تو پھر ہی انسان ان معاملات میں بات کرے گا۔ مجھے کبھی بھی احمدیت یا حضرت مرزا صاحب کے متعلق استفسار پر جواب دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہوا۔ اب بھی اگر کسی کو مہذب رنگ میں احمدیت یا حضرت مرزا صاحب کے متعلق جتنے بھی سوالات کرنے ہوں وہ میری gmail کی آئی ڈی rana1889 پر شوق سے کرسکتا ہے۔ لیکن اگر کسی نے ابن حسن کے انداز میں غیر مہذب اور تحقیر آمیز انداز حضرت مرزا صاحب کے متعلق اختیار کرنا ہے تو اس سے پیشگی معذرت۔ وہ نہ ہی زحمت کریں تو بہتر ہے۔ مہذب انداز میں کوئی ہزار اعتراضات بھی کرلے تو سر آنکھوں پر۔


دل تو چاہتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی سے لے کر تک مرزا مسرور تک کے تمام کرتوت و مسلمانوں کے بارے میں ان کی تمام بدزبانیاں یہاں پیش کردوں ، فی الحال جو لوگ مرزا کی ہی زندگی کے بارے میں پڑھنا چاہیں اور اس کی گستاخیوں کا حال جاننا چاہیں تو وہ پروفیسر محمد الیاس برنی رحمۃ اللہ علیہ کی "قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ" نامی کتاب پڑھ لیں، یہ کتاب قادیانیوں کی اپنی کتب کی مدد سےترتیب دی گی ہے اور ہر چیز کا حوالہ س میں موجود ہے یہ کتاب http://www.4shared.com/document/zyE2DclG/mohasba.html سے ڈاون لوڈ کر کہ پڑھ سکتے ہیں۔
ساتھ ساتھ محمد متین خالد صاحب کی کتاب ثبوت حاضر ہیں بھی اس لیے بڑی مفید ہے کہ ہر بات کے ثبوت کے طور پر خود قادیانی کتب کے متعلقہ صفحات کا عکس اس میں دیا گیا ہے۔
http://www.4shared.com/document/qv98QPCt/saboot.html

بہت ہی خوب رویہ ہے۔ ایک طرف تو کہتے ہیں کہ کسی صحابی کا مستند ترجمہ دکھاو تو مانیں گے۔ پھر جب اس آیت کے لئے صحیح بخاری سے ابن عباس کا ترجمہ پیش کیا کہ وہ متوفیک کے لئے موت کا ترجمہ کرتے ہیں تو فوراً تفاسیر کی طرف بھاگ گے کہ جی بعد میں لکھی جانے والی تفاسیر میں لکھا ہے کہ ابن عباس تقدیم و تاخیر کے قائل تھے۔ پھر جب میں نے یہ کہا کہ تقدیم و تاخیر کے نام پر قرآنی الفاظ کو آگے پیچھے کرنے کی جسارت آپ کو ہی مبارک ہو ہم اس سے باز آئے۔ تو فوراً پینترا بدلا کہ جی متوفیک کا ترجمہ میں لے لوں گا ہے اس میں کوئی الجھاو نہیں ہے۔ اب بندہ کیا کرے؟ صحیح بخاری سے ترجمہ پیش کرے تو آپ تفاسیر میں گھس جاتے ہیں۔ وہاں پکڑیں تو نیا پینترا بدل لیتے ہیں۔ ایسا ترجمہ آپ ہی کو مبارک ہو۔ ہمیں ایسے ترجمے کی ضرورت نہیں۔ پہلے ایک ایک لفظ رفع اور توفی کا الگ الگ ہی عیسی کو آسمان پر اٹھا رہا تھا اب ایک ہی آیت میں دونوں لفظ مل کر حضرت عیسی کو اٹھا رہے ہیں۔ بہت خوب۔

سب سے زیادہ بہترین طرز عمل تو یہ ہے کہ ایک علمی گفتگو میں ہر چیز کو جس کا جواب نہ بن سکے آنکھین بند کر کہ پی جاو اور پھر کچھ آگے بڑھ کر ، چھ ،آٹھ پوسٹوں کے بعد دہائی دینے لگو کہ اس کا جواب نہیں دیا اور میں نے یہ کہا اور وہ کہا۔ ہر چیز دس دس بار دہراتے ہیں ، پھر منہ توڑ جواب پاتے ہیں ، اس وقت جواب گول کردیتے ہیں اور کچھ پوسٹوں کے بعد پھر وہی واویلا؟
میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ ایسے لوگ کیا ساری دنیا کو بے وقوف سمجھتے ہیں یہ محض ڈھٹائی نہیں بلکہ جان بوجھ کر پوری دنیا کو بے وقوف بنانے کا عمل ہے۔
اب اسی بات کو دیکھ لیجئے توفی کی اس بحث میں ہر چیز کا جواب ایک سے زیادہ مرتبہ دیا جاچکا یہاں پھر وہی واویلا لے کر یہ بیچارے کھڑے ہیں ۔

بہر کیف میں یہاں نکتہ وار جواب دے رہا ہوں۔

ایک طرف تو کہتے ہیں کہ کسی صحابی کا مستند ترجمہ دکھاو تو مانیں گے۔ پھر جب اس آیت کے لئے صحیح بخاری سے ابن عباس کا ترجمہ پیش کیا کہ وہ متوفیک کے لئے موت کا ترجمہ کرتے ہیں تو فوراً تفاسیر کی طرف بھاگ گے کہ جی بعد میں لکھی جانے والی تفاسیر میں لکھا ہے کہ ابن عباس تقدیم و تاخیر کے قائل تھے۔۔۔۔۔ صحیح بخاری سے ترجمہ پیش کرے تو آپ تفاسیر میں گھس جاتے ہیں۔ وہاں پکڑیں تو نیا پینترا بدل لیتے ہیں۔

1۔ قابل غور بات یہ ہے کہ امام بخاری نے حضرت ابن عباس کا یہ اثر خود کتاب التفسیر میں نقل کیا ہے یعنی کتاب التفسیر ، تفسیر سورہ مائدہ میں حضرت ابن عباس کا یہ اثر نقل کیا ہے ، جب بات امام بخاری خود ہی تفسیر کے حوالے سے کر رہے ہیں تو اب یہ کہنا کہ حدیث کا جواب تفسیر سے دیا جارہا ہے کتنی جاہلانا بات ہے۔

۲۔ پھر کیا صحابہ کرام کے اقوال صرف کتب احادیث میں پائے جاتے ہیں، یہ گمان رکھنا اور بھی حضرت ابن عباس کے متعلق ایک دوسری جاہلانا بات ہے، غالبا موصوف رانا صاحب کو یہ پتہ نہیں کہ حضرت ابن عباس کی علمی شہرت ان کے مفسر ہونے کی زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے کتاب التفسیر میں جا بجا ان کے اقوال نقل کیے ہیں۔

۳۔ دیگر تفاسیر بھی حضرت ابن عباس کے اقوال جو حضرت عیسیٰ سے متعلق ہیں ان سے بھری ہیں مثلا

ا۔ امام آلوسی روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ
امام قرطبی فرماتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر موت اور بغیر نیند کے زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور ابن عباس کا صحیح قول یہی ہے۔ (روح المعانی جزو ۳ ص ۱۵۸ تحت آیت یا عیسیٰ انی متوفیک)

ب۔ابن کثیر فرماتے ہیں
ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھانے کا ارادہ فرمایا تو ایک شخص پر ان کی شباہت ڈال دی گئی اور وہ قتل کر دیا گیا اور عیسیٰ علیہ السلام مکان کے روشن دان سے آسمان پر اٹھا لیے گئے ۔(ج۳ ص ۹)
ابن کثیر کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کے اس اثر کی سند صحیح ہے۔

ج۔ محمد بن سعد نے طبقات الکبریٰ ج ۱ ص ۴۴، ۴۵ پر حضرت ابن عباس کا ایک اثر نقل کیا ہے
ابن عباس فرماتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کا درمیانی زمانہ ۱۹۰۰ سال ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جس وقت اٹھا ئے گئے ، اس وقت ان کی عمر شریف ۲۲ سال اور چھ ماہ تھی اور زمانہ نبوت ۳۰ ماہ تھااور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کو ان کے جسم سمیت اٹھایا دراں عالیہ کہ وہ زندہ تھے اور آئندہ زمانے میں پھر وہ دنیا کی طرف واپس آئیں گئے اور بادشاہ ہوں گے اور پھر چند روز بعد وفات پائیں گئے جیساا ور لوگ وفات پاتے ہیں۔

د۔ وامن اہل الکتب میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے بھی باسناد صحیح یہی منقول ہے کہ بہ اور موتہ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح صحیح بخاری(ج۶ص ۳۵۷) میں فرماتے ہیں
اسی کا ابن عباس نے جزم و یقین کیا ، جیسا کہ ابن جریر نے بروایت سعید بن جبیر ، ان (ابن عباس )سے باسناد صحیح روایت کیا ہے ، اور بطریق ابی رجا حسن بصری سے اس آیت کی تفسیر قبل موت عیسیٰ کے منقول ہے، حسن فرماتے ہیں واللہ حضرت عیسیٰ اس آن میں بھی زندہ ہیں ، جب نازل ہوں گے اس وقت ان پر سب ایمان لے آئیں گے اور یہی اکثر اہل علم سے منقول ہے اور اسی کو ابن جریر نے راجح قرار دیا ہے۔

۴۔ حقیقت یہی ہے کہ حضرت ابن عباس کے قول میں تقدیم و تاخیر ہے اور اس لیے کہ عربی میں" و" ترتیب کے لیے نہیں آتا ، جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے
يٰمَرْيَمُ اقْنُتِىْ لِرَبِّكِ وَاسْجُدِيْ وَارْكَعِيْ مَعَ الرّٰكِعِيْنَ (آل عمران ۴۳)
اے مریم تم اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔

اب یہاں سجدہ کا ذکر پہلے آیا ہے اور رکوع کا بعدمیں اب اگر "و "تریب کے لیے ہی آتا ہے تو پھر اللہ پاک کے اس قول کے مطابق تو پہلے سجدہ ہونا چاہیے بعد میں رکوع؟

دوسری مثال دیکھئے

[ARABIC] وَاللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَ۔يْ۔۔۔ًٔ۔ا ۙ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْ۔۔ِٕدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ [/ARABIC] (النحل ۷۸)

اور اللہ نے تم کو نکالا تمہاری ماں کے پیٹ سے نہ جانتے تھے تم کسی چیز کو اور تم کو کان اور آنکھیں اور دل تاکہ تم احسان مانو

اب اگر یہاں "و" ترتیب کے لیے ہوتا اس کا مطلب یہ ہوتا کہ پیدا پہلے کر دیا اور کان آنکھیں اور دل بعد میں بنائیے؟

یہی وجہ ہےکہ حضرت ابن عباس کے شاگرد ضحاک سے منقول ہے کہ
عن الضحاک عن ابن عباس فی قولہ انی متوفیک الایہ رافعک ثم یمیتک فی اخر الزمان
یعنی حضرت عباس کا قول متوفیک کے بارے میں یہ ہے کہ میں تجھے(آسمان پر ) اٹھانے والا ہوں اور پھر آخری زمانے میں وفات دوں گا۔
ان باتوں کے بعد یہ بھی جان لیجئے کہ خود مرزا بھی اس بات کا قائل تھا کہ" و" ہمیشہ ترتیب کے لیے نہیں آتا۔

مرزا لکھتا ہے

"یہ تو سچ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ حرف واو کے ساتھ ہمیشہ ترتیب کا لحاظ واجب ہو۔ لیکن اس میں کیا شک ہے کہ خداتعالیٰ اس آیت میں فقرہ متوفیک کو پہلے لایا ہے اور پھر فقرہ رافعک کو بعد اس کے اور پھر اس کے بعد مطہرک بیان کیا گیا ہے۔ اور بہرحال ان الفاظ میں ایک ترتیب ہے جس کو خدائے علیم و حکیم نے اپنی ابلغ و افصح کلام میں اختیار کیا ہے اور ہمارا اختیار نہیں ہے کہ ہم بلا وجہ اس ترتیب کو اٹھا دیں۔ اور اگر قرآن شریف کے اور مقامات یعنی بعض اور آیات میں مفسرین نے ترتیب موجودہ قرآن شریف کے برخلاف بیان کیا ہے تو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ انہوں نے خود ایسا کیا ہے یا وہ ایسا کرنے کے مجاز تھے بلکہ بعض نصوص حدیثیہ نے اسی طرح ان کی شرح کی تھی یا قرآن شریف کے دوسرے مواضع کے قرائن واضحہ نے اس بات کے ماننے کے لیے انہیں مجبور کر دیا تھا کہ ظاہری ترتیب نظر انداز کی جائے۔"(خزائن ج ۱۵، ص ۴۵۴، ۴۵۵)

مرزا کی اس بات سے یہ نکات سامنے آتے ہیں

۱۔واو ہمیشہ ترتیب کے لیے استعمال نہیں ہوتا
۲۔قرآن مجید کے بعض دوسرے مقامات میں مفسرین نے تریب موجودہ کے برخلاف بیان کیا ہے
۳۔لیکن ایسا کرنا بلاوجہ جائز نہیں اور ایسا اگر کیا گیا تو دو وجوہات کی بنا پر کیا گیا(ا) بعض نصوص حدیثیہ نے اسی طرح ان کی شرح کی (ب) قرآن شریف کے مواضع کے قرائن واضحہ نے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔

اب مرزا کی اسی بات کی روشنی میں حضرت ابن عباس کے اس قول کی حقیقت خوب کھل جاتی ہے، اب اگر حضرت عباس سے متوفیک کی تفسیر ممیتک منقول ہے تو انہی سے ضحاک کی روایت کے مطابق تقدیم و تاخیر بھی مروی ہے، اور مرزا ئیوں کو اب مرزا کے بیان کی روشنی میں اس پر جرح کرنی بھی نہیں چاہیئے، اور تقدیم و تاخیر یہاں اس لیے بھی درست ہے کہ قرآن کی دوسری آیات مثلا بل رفعہ اللہ الیہ و دیگر آیات، نیز سیکٹروں احادیث نبویہ سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ کی وفات ابھی نہیں ہوئی بلکہ آخری زمانے میں ہو گی، اور یہی صحیح قول حضرت ابن عباس سے بھی دوسرے طریق سے ثابت ہے۔

رانا نے اس پیرا کےآخر میں کہا ہے
۔ پہلے ایک ایک لفظ رفع اور توفی کا الگ الگ ہی عیسی کو آسمان پر اٹھا رہا تھا اب ایک ہی آیت میں دونوں لفظ مل کر حضرت عیسی کو اٹھا رہے ہیں۔ بہت خوب۔

اگر آپ کو اس ترجمہ پر اعتراض ہے تو چلیں اسی آیت کا ترجمہ میں آپ کو آپ کی مرزا کی زبانی بتا دیتا ہوں تاکہ آپ خوش ہو جائیں۔

مرزا نے خزائن ج ۱ ص ۶۲۰ پر اسی آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے
انی متوفیک و رافعک ۔ میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاوں گا۔

اب یہاں دو باتیں ثابت ہو رہی ہیں ۱۔ متوفیک کے معنی موت کے نہیں ہیں ۲۔ قادیانیوں کا چیلنج کہ جب اللہ فاعل ہو ، انسان مفعول تو وفی کے معنی موت کے سوا نہیں ہو سکتے، خود مرزا کے ہاتھوں ٹوٹ جاتا ہے،اب مرزائی یہاں یہ عذر بھی پیش نہیں کرسکتے کہ جناب اس وقت مرزا نبی نہیں تھا ، یا اس نے رسمی طور پر لکھ دیا کیونکہ مرزائیوں کا چیلنج لغت و گرائمر و ادب کے حوالے سے تھا کہ ایسا عربی زبان میں ممکن ہی نہیں کہ خدا فاعل ہو بندہ مفعول اور تو، توفی کا لفظ بجز قبض روح و وفات دینے کے کچھ اور ہو، اب اگر مرزا خود ہی اس لفظ کا ترجمہ موت کے علاوہ کسی اور طرح سے کر رہا ہے تو گویا یہ ثابت کر رہا ہے کہ عربی میں ایسا ممکن ہے اور یوں یہ قاعدہ بھی چکنا چور ہوجاتاہے۔

اور اس سارے معاملے میں مرزائی تابوت میں آخری کیل بھی مرزا ہی ٹھونکتا ہے ملاحظہ کیجئے

مرزا خزائن ج ۱۲ ص ۲۳ کے حاشیے پر لکھتا ہے

"براہین احمدیہ کا وہ الہام یعنی یا عیسیٰ انی متوفیک جو سترہ برس سے شائع ہو چکا ہے اس کے اس وقت خوب معنی کھلےیعنی یہ الہام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس وقت بطور تسلی ہو اتھا جب یہود ان کے مصلوب کرنے کے لیے کوشش کر رہے تھے اور اس جگہ بجائے یہود ہنود کوشش کر رہے ہیں اور الہام کہ یہ معنی ہیں کہ میں تجھے ایسی ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچاوں گا (معاملہ یہ تھا کہ مرزا کا خیال تھا کہ ہندوں نے اس کے لیے ایک اجرتی قاتل کا بندوبست کر لیا ہے اور اس کام کے لیے دو ہزار روپوں کا بندوبست بھی کر لیا گیا ہے)
اب غور کیجے یہاں مرزا اپنی کتاب سراج منیر میں جو ۱۸۹۷ کی شائع شدہ ہے ، براہین احمدیہ میں کیے گئے انی متوفیک کے ترجمے کو الہام قرار دے رہا ہے اور ایک بار پھر یہاں الہام کے معنی یہ لکھ رہا ہے کہ تجھے ایسی ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچاوں گا، یعنی موت دوں گا نہیں بلکہ موت سے بچاوں گا۔"
اب اگر یہاں متوفیک کے معنی موت سے بچانے کی بجائے موت دینے کے کوئی مرزائی کرے تو پھر مرزا کے اس الہام کے معنی یہ ہوں گے کہ میں تجھے ایسی ذلیل و لعنتی موت دوں گا۔ اب مرزائیوں کا اختیار ہے کہ جو چاہے متوفیک کا مطلب لے لیں۔

جاری ہے۔۔۔
 
توفی کے چیلنج کی بحث:
سب سے پہلے تو میں یہ وضاحت کردوں کہ توفی کے معنی جب بھی کسی انسان کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو پہلا مطلب موت ہی مراد ہوتا ہے سوائے اسکے کہ کوئی لفظی قرائن اسطرف اشارہ کرتے ہوں۔ دیکھیں:

"قرآن کریم میں توفی کا لفظ موت دینے کے مفہوم میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ جب کبھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس کے پہلے معنی جو ذہن میں آتے ہیں۔ وہ موت کے ہیں۔ البتہ جب کبھی موت کے علاوہ کسی دوسرے مفہوم کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو ساتھ ہی ایسے ﴿لفظی﴾ قرائن موجود ہوتے ہیں جو ان معنوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔"
﴿مجلہ الازہر زیر ادارت احمد حسن الزیات ۔ جامعة الازہر قاہرہ فروری 1960﴾

بار بار یہ کہا جارہا ہے کہ یہ اصول کہاں لکھا ہے کہ جب اللہ کسی انسان کی توفی کرے تو مطلب موت ہی ہوتا ہے۔ یہ اصول سب سے پہلے میں نے آپ کو قرآن میں دکھایا تھا کہ جب وہ کسی انسان کی توفی کرتا ہے تو دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو موت اور یا نیند۔ اور نیند کے لئے واضع طور پر اسی آیت میں قرینہ بھی موجود ہے۔

اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا١ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَ يُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠۰۰۴۲

یہاں اللہ تعالی نے واضع طور پر خود ہی وضاحت کردی ہے کہ جب اللہ کسی ذی روح کی توفی کرے گا تو موت ہی مراد ہوگی سوائے اسکے کہ نیند کا قرینہ موجود ہو۔ اوراللہ تعالی نے اس آیت میں پیش کردہ قاعدہ کو پورے قرآن میں ہر جگہ استعمال کیا ہے۔ کسی ایک جگہ بھی اسکے خلاف مثال نہیں۔ یہاں تک کہ احادیث میں بھی اسکے خلاف مثال نہیں اور تمام عرب لٹریچر نظم و نثرمیں اسکے خلاف کوئی مثال نہیں۔ اب تمام لغات جب توفاہ اللہ کا مطلب بیان کرتی ہیں تو قبض روح ہی بیان کرتی ہیں۔ کوئی ایک بھی لغت ایسی نہیں جو اسکے خلاف مطلب بیان کرتی ہو۔

پھر آپ کہتے ہیں کہ لغات میں دکھاو۔ جب ایک لغت اسکا یہ مطلب بیان کرتی ہے۔ پھر دوسری کو دیکھیں تو وہاں بھی وہی ہے۔ تیسری لغت اٹھاتے ہیں تو وہاں بھی یہی لکھا ہوا ملتا ہے۔ اور اس طرح جس جس لغت کو بھی اٹھاتے ہیں تو وہاں بلا استثنا یہی لکھا ہوا ہر لغت میں نظر آتا ہے کہ جب بھی توفا اللہ آئے گا تو مطلب موت ہی ہوگا۔ اب اور کہاں سے قاعدہ دکھایا جائے؟

لفظی قرائن کے بغیر توفی کے معنی سوائے موت کے کچھ نہیں ہوسکتے۔
اوپر یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ اگر ایسے موقعے پر موت کے علاوہ اس لفظ کے کوئی دوسرے معنی لینے ہیں تو لفظی قرائن کا ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ آپ کی پیش کردہ حدیث میں یوم القیامہ کا لفظی قرینہ موجود ہے۔ اب بتائیں چیلنج کہاں پورا ہوا؟ یہی تو چیلنج تھا کہ جب اللہ تعالی اس لفظ کو کسی ذی روح کے لئے استعمال کرتا ہے تو مطلب موت ہی ہوتا ہے۔ تمام لغات نے قرینے کا ذکر کئے بغیر اسکا ترجمہ موت ہی لکھا ہے۔ قرآن میں جہاں لفظی قرائن کے بغیر استعمال ہوا ہے موت ہی مراد ہے۔ عربی قوائد یہ کہتے ہیں کہ لفظی قرائن کے بغیر یہ لفظ ایسے موقع پر ہمیشہ موت ہی کے معنی دے گا۔ پھر آپ کی یہ حدیث اس چیلنج پر پورا کیسے اترتی ہے؟ جبکہ یہاں یوم القیامہ کا قرینہ موجود ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ میں نے ثابت کیا تھا کہ آپ کے علماء بھی اسکے خلاف نہیں کرسکتے ہیں۔ اور میں نے دالاشاعت کے مترجمہ مولانا کی مثال بطور ثبوت پیش کی تھی۔ لیکن آپ نے اسے سمجھا ہی نہیں اور یہ کہہ دیا کہ اگر غلطی سے کسی لفظ کا ترجمہ ان سے رہ بھی گیا تھا تو اصل عربی عبارت پر کیا اثر پڑسکتا ہے۔

میں نے یہ کب کہا کہ اصل عبارت پر کوئی فرق پڑا ہے۔ میں یہ بتا رہا تھا کہ ان مولانا کی نظر سے جب یوم القیامہ کے الفاظ رہ گئے تو وہ تو یہی سمجھ رہے تھے نا کہ یہ الفاظ حدیث میں نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں وہ فوراً مجبور ہوگئے کہ عربی قوائد کے مطابق اب موت کے علاوہ کوئی دوسرا ترجمہ نہ کریں۔ اور یہی تو چیلنج کی سچائی ہے۔ ورنہ ان کے خیال میں تو یوم القیامہ کے الفاظ وہاں تھے ہی نہیں، لیکن پھر بھی انہوں نے "اجر دینے کا" ترجمہ کیوں نہیں کیا۔ یوم القیامہ کے الفاظ کے بغیر بھی وہ مولانا آپ کا یہ ترجمہ کرسکتے تھے کہ "یہاں تک کہ اللہ اسے پورا پورا اجر دے دیتے ہیں۔" لیکن عربی قوائد نے ان کا ہاتھ روک لیا کہ لفظی قرائن کے بغیر کے اب موت کے علاوہ دوسرا ترجمہ کسی طور جائز نہیں۔ آپ نے جو سوال اٹھایا ہے کہ کیا کسی عالم نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ لفظی قرائن کی وجہ سے ہم مجبور ہیں کہ اب کوئی دوسرا ترجمہ کریں ورنہ اصل معنی تو ایسے موقع پر موت کے ہی ہیں۔ اسکا جواب ایک تو اوپر قاہرہ یونیورسٹی کا حوالہ ہے اور دوسرا یہ مترجم مولانا کا ترجمہ۔ ان مترجم مولانا نے بھی یہ ثابت کردیا کہ قرینے کے بغیر ہمیشہ موت ہی کے معنی ہوتے ہیں۔ حالانکہ اجر دینے کا معنی وہ کرسکتے تھے لیکن کیونکہ یوم القیامہ کا قرینہ ان کی نظر سے اوجھل رہ گیا اس لئے عربی قوائد کے مطابق انہوں نے موت کے ہی معنی کئے۔ اور تیسرا قرآن شریف کی وہ آیت جس میں نیند کا ذکر ہے۔ اور چوتھا قرآن شریف کی وہ تمام آیات اور احادیث جن میں توفی کا لفظ انسان کے لئے بغیر قرینہ کے استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ آپ کے علماء نے بھی اسکا ترجمہ موت ہی کیا ہے سوائے حضرت عیسی کے جن کی خاطر یہ تمام قوائد تہس نہس کرنا آپ کے نزدیک جائز ہے۔

اور تیسری بات یہ ہے کہ چیلنج تو اس دنیا میں انسان کی توفی کے متعلق ہے۔ بحث تو حضرت عیسی کی توفی کی ہورہی ہے جو اس دنیا میں ہوئی تھی۔ تو مثال آپ اسی دنیا میں انسان کی توفی کی دیں کہ کبھی دنیا میں انسان کی توفی ہوئی ہو اور مطلب کچھ اور ہوا ہو۔ اس حدیث میں تو قیامت کا ذکر ہی یہ بتا رہا ہے کہ یہاں قیامت کو فوت ہونے کا معنی کیا ہی نہیں جاسکتا۔ قیامت کو بھی کوئی فوت ہونے کا موقع ہے؟ ظاہر ہے کہ قیامت کا قرینہ سامنے موجود ہے۔ یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہے کہ جیسے آپ کے نزدیک حضرت عیسی جسمانی مردے زندہ کرتے تھے اور میں کہوں کہ اللہ تعالی کی سنت نہیں کہ مردے زندہ کرے اس لئے کوئی ثبوت پیش کرو۔ اور آپ کہیں کہ ثبوت یہ ہے کہ قیامت کو اللہ تعالی مردے زندہ کرے گا۔

۱۔ سب سے پہلے تو مبارک باد قبول فرمائیے کہ بالآخر آپ کو یقین آہی گیا کہ مرزا جھوٹا ہے ، یعنی آپ کا مرزا تو انی متوفیک کا ترجمہ میں تجھے کو پوری نعمت دوں گا سے کرتا ہے اور آپ اپنے مرزا کے خلاف پورا زور لگا کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ نہیں مرزا جھوٹا ہے متوفیک سے مراد تو صرف موت ہی ہے اور ساتھ ساتھ آپ مرزا کو ایک لعنتی موت کی خوشخبری بھی دے رہے ہیں، سراج منیر میں مرزا لکھتا ہے کہ انی متوفیک سے مراد ہے کہ خدا مجھے لعنتی و ذلیل موت سے بچائے گا اور آپ کہتے ہیں کہ نہیں متوفیک کے معنی موت کے ہیں لہذا مطلب یہ ہوا کہ خدا نے لعنتی موت مرزا کو دی ۔ چہ خوب

۲۔یہاں جو بہت لمبی بحث کر کے رانا نے بات کو الجھانے و گول مول کرنے کی کوشش کی ہے اب میں اس کا ایک ایک سرا کھولتا ہوں۔سب سے پہلے لفظ توفی کی حقیقت کا بیان۔

۱۔ یہ بات ثابت ہے کہ توفی کا مادہ وفا ہے اور وفا کے معنی پورا کرنے کےہیں ، موت کے نہیں ہیں،اور یہ مادہ خواہ کسی شکل یا کسی ہیئت میں ظاہر ہو مگر کمال و اتمام کے معنوں کو ضرور لیے ہو گا۔مثلا اوفوا بعھدی اوف بعھدکم (تم میرے عہد کو پورا کرو، میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا(بقرہ ۴۰)۔۔و اوفو الکیل از کلتم ۔ماپ کو پورا کرو جب تم تولا کرو(اسرا ۳۵)
مایوفون بالنذر (اپنی نذروں کو پورا کرتے ہیں( دھر۷) وانما توفون اجورکم یوم القیامۃ(تم پورا پورا اجر قیامت کے دن دیئے جاؤ گے(آل عمران ۱۸۵)

۲۔ توفی کے حقیقی معنی ہیں اخذ الشئی وافیا ، یعنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا کہ باقی کچھ نہ رہے،قرآن ، احادیث اور کلام عرب میں جس جگہ بھی یہ لفظ مستعمل ہوا ہے سب جگہ توفی سے استیفا (پورا کرنا ، تکمیل) اور اکمال و اتمام کے معنی مرادلیے گئے ہیں ، توفی سے اگر کسی جگہ موت کے معنی مراد لیے گئے ہیں تو وہ کنایۃ اور لزوما مراد لیے گئے ہیں۔اس لیے کہ استیفا عمر اور اتمام عمر کے لیے موت لازم ہے۔ توفی عین موت نہیں بلکہ موت تو توفی بمعنی اکمال عمر اور اتمام عمر زندگی کا ایک ثمرہ اور نتیجہ ہے۔
توفی کے ان ہی معنوں کی طرف لسان العرب میں تفصیل موجود ہے
توفی المیت اسیتفاء مدۃ التی و فیت لہ و عدد ایامہ و شہورہ و عوامہ فی الدنیا
یعنی میت کے توفی کے معنی یہ ہیں کہ اس کی مدت حیات کو پرا کرنا اور اس کی دنیاوی زندگی کے دنوں اور مہینوں اور سالوں کو پورا کر دینا۔ توفی کے معنی موت کے لیے اسی طرح استعمال ہوتے ہیں جس طرح کہ وصال اور انتقال کے معنی ، کہ ان الفاظ کے حقیقی معنی کچھ اور ہیں لیکن یہ موت کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔
اس سے قبل کہ میں رانا کے دلائل پر نظر ڈالوں رانا کی ایک خیانت کے بارے میں سب سے پہلے بتاتا جاوں

رانا نے ایک اقتباس نقل کیا ہے
قرآن کریم میں توفی کا لفظ موت دینے کے مفہوم میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ جب کبھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس کے پہلے معنی جو ذہن میں آتے ہیں۔ وہ موت کے ہیں۔ البتہ جب کبھی موت کے علاوہ کسی دوسرے مفہوم کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو ساتھ ہی ایسے ﴿لفظی﴾ قرائن موجود ہوتے ہیں جو ان معنوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔"
﴿مجلہ الازہر زیر ادارت احمد حسن الزیات ۔ جامعة الازہر قاہرہ فروری 1960﴾

بادی نظر میں اگر کوئی دیکھے تو یوں لگتا ہے کہ جامعہ ازہر کے رسالہ مجلہ الازہر میں احمد حسن زیات کی رائے ہے، حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے درحقیقت اسی شمارہ میں اسی محمود شلتوت کا(جو قادیانیوں کو بڑے محبوب ہیں اور میں پہلے کہ چکا ہوں کہ اس کو ملحد قرار دیا جا چکا ہے) ایک مضمون شائع ہو انگریزی میں اور اس کا عنوان تھاThe "Ascension" Of Jesus اب رانا نے انتہائی چالاکی کے ساتھ مضمون نگار کا حوالہ دینے کی بجائے رسالے کے مدیر کانام لکھ دیا،حالانکہ رانا کو مضمون نگار کانام دینا چاہیے تھا ۔ ایک رسالے میں دس مضامین شائع ہوتے ہیں، تو کیا یہ سب مدیر نے تحریر کیے ہوتے ہیں؟ ایسی حرکت کرنے سے پہلے کچھ تو رانا کو سوچنا چاہیے تھا۔اور یہ ساری دسیسہ کاری اس لیے کی گئی کہ ان کو معلوم تھا کہ وہ اصل مضمون نگار یعنی شلتوت کا نام لکھ دیں گے تو ان کی دال نہیں گلے گی، جیسا کہ میں پہلے ہی کہ چکا ہوں کہ ان قادیانیوں کے پاس ، شلتوت ، سرسید اور غامدی جیسوں کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔
میں یہاں وہ اصل پیرا تحریر کر دیتا ہوں جس کا ترجمہ رانا نے پیش کیا ہے۔
The word tawaffa is used in so many places of the Holy Quran in the sense of death that it has become its foremost meaning. This word is used in a different sense only when there is a clear indication as to this other meaning

اور میں بھی حیران تھا کہ یہ کون عرب ہے جو کہ رہا ہے کہ جب کبھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس کے پہلے معنی جو ذہن میں آتے ہیں وہ موت کے ہیں؟ حالانکہ توفی کا استعمال تو عربی میں نہایت عام ہے اور دسیوںمعنوں میں یہ لفظ عام استعمال ہوتا ہے، پھر ایک بات اور جو بیشتر کے لیے نئی ہو گی کہ اسلام کی آمد سے پہلے تو یہ لفظ موت کے معنوں میں سرے سے استعمال ہی نہیں ہوتا تھا عربی میں ، یہ تو اسلام تھا جس نے اس لفظ کو دیگر معنوں کے ساتھ موت کے معنوں میں بھی استعمال کیا۔اب ظاہر ہے کہ شلتوت کاعقیدہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں یہی ہے کہ ان کاانتقال ہو چکا ہے تو کیا شلتوت سے اس قسم کی باتوں کے علاوہ کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے؟؟

اب بات جہاں تک راناکے چیلنج کی تھی تو الحمد للہ ایک نہیں چار طریقوں سے اس کا جواب دیا گیا

۱۔ قرآن کریم کی وہ آیت جو خود رانا نے اوپر نقل کی ہے۔
۲۔حدیث ، سے جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے
۳۔عربی کی مشہور لغت تاج العروس سے، یہ حوالہ بھی پہلے گذار چکا ہے۔
۴۔ خود مرزا کی زبانی کہ اس نے ترجمہ کیا ۔۔انی متوفیک و رافعک ۔ میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاوں گا۔
اب جب رانا کا چیلنج چکنا چور ہو گیا تو انہوں نے فورا پینترا بدلہ اور کہنا شروع کردیا کہ ہر جگہ ترجمہ لفظی قرائن کو دیکھتے ہوئے کیا جائے گا ، جو قرینہ لفظی موجود ہو گا ترجمہ اسی کے مطابق ہو گا، حالانکہ یہ بات تو خود ان کے دعوہ کے بالکل منافی ہے، جتنی کوشش اپنی ا س پوسٹ میں قرائن کے حوالے سے رانا نے کی ہے اس کو دیکھ کر اپنے پیروں پر کلہاڑی مارے والا محاوہ سمجھ میں آجاتا ہے۔اب ذرا آپ حضرات غور کیجئے

۱۔ توفیٰ کے حقیقی معنی ویسے ہی موت کے نہیں ہیں۔بلکہ پورا لینے کے ہیں، اب توفیٰ جنس ہے اور اس کے تحت بہت سی انواع ہیں ،قرآن کی ہی رو سے اگر دیکھیے تو ۱۔ ووفیت کل نفس ما عملت(الزمر ۸) اور ہر نفس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا(ب) ہو الذی یتوفاکم بالیل( اور وہی ہے کو قبضہ میں لے لیتا ہے تم کو رات میں) (ج) فیوفیھم اجورھم (النسا ۲۴) پس ان کو پوراپورا اجر دیا جائے گا۔(د) یعیسیٰ انی متوفیک و رافعک الی (میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاوں گا۔از مرزا)
اب یہاں وفی ، موت کے علاوہ ، پورا بدلہ دینے، نیند، پورا اجر دینے کے لیے استعمال ہوا ہے یا حضرت عیسی کے حوالے سے نعمت تمام کر دینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، امام ابن تیمیہ و امام رازی نے توفی کی نوع میں اسی آخری آیت کو بنیاد بنا کر قبض جسم و روح کو بھی شامل کیا ہے۔گویا توفی کے مجازی معنی موت کے ہوتے ہیں حقیقی نہیں اور ہر جگہ اس کا استعمال ، حالات کو دیکھتے ہوئے، قرائن و نصوص کو دیکھتے ہوئے کیا جائے گا، دھڑ سے موت ہی سے اس کو تعبیر نہیں کیا جائے گا۔

۲۔اب ان باتوں کے بعد اب کوئی قاعدہ و قانون بچا ہی کہاں، یعنی اولا تو یہ قاعدہ رانا ٹھیک ٹھیک لکھا ہو ادکھانے میں کامیاب ہوئے ہی نہیں، لغات سے اس کی جو مثالیں رانا نے دیں وہ محض اس کے مجازی معنی پر دلالت کرتی ہیں نہ کہ کوئی اصول بیان کرتی ہیں، اب کوئی بھی جملہ ہو، اگر اس کاترجمہ ایک زبان سے دوسری زبان میں کیا جائے یا کسی بات کی تفہیم کرنی ہو ، تو اس میں بعض قرائن کا خیال کرنا ہی پڑے گا، اس میں اب توفی کا اختصاص کہاں بچا؟اور یہی نہیں بلکہ جب لغت تاج العروس سے بھی توفاہ اللہ کے معنی بھی مجازی ثابت ہو گے تو پھر تو لازمی ہوا کہ توفی کے معنی ،فورا موت سے نہ کیے جا ئیں بلکہ قریہ دیکھا جائے۔

۳۔ یہی بات خود رانا نے کہی کہ اگر فاعل اللہ ہو مفعول مخلوق اور توفی کا لفظ آئے تو بھی فورا اس کا ترجمہ موت نہیں کیا جائے گا بلکہ لفظی قرینہ بھی دیکھا جائے گا ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لفظی قرائن کیا ہمیشہ ہی سند و حرف آخر ہوتےہیں، ان کا معیار کیا ہے اور اگر دیگر نصوص شرعیہ، ان کے مدمقابل آجائیں تو پھر کیا کیا جائے؟
یہاں اس کا جواب میں سب سے پہلے مرزا ہی کے الفاظ میں دوں گا اور یہ وہی قتباس ہے جو میں اوہر نقل کر چکا ہوں

"اور ہمارا اختیار نہیں ہے کہ ہم بلا وجہ اس ترتیب کو اٹھا دیں۔ اور اگر قرآن شریف کے اور مقامات یعنی بعض اور آیات میں مفسرین نے ترتیب موجودہ قرآن شریف کے برخلاف بیان کیا ہے تو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ انہوں نے خود ایسا کیا ہے یا وہ ایسا کرنے کے مجاز تھے بلکہ بعض نصوص حدیثیہ نے اسی طرح ان کی شرح کی تھی یا قرآن شریف کے دوسرے مواضع کے قرائن واضحہ نے اس بات کے ماننے کے لیے انہیں مجبور کر دیا تھا کہ ظاہری ترتیب نظر انداز کی جائے"

اب یہاں مرزا نے صاف طور پر ایک مسئلہ کو یہاں صاف کیا ہے کہ گو "و" تریب کے لیے استعال نہیں ہوتا لیکن خدا نےقرآن میں جو ترتیب بیان کی ہے اس سے روگردانی بلا وجہ جائز نہیں ہاں اگر کوئی نصوص حدیثیہ اور یا قرآن کریم کے دوسرے مواضع کے قرائن واضحہ نے اس بات کے ماننے پر مجبور کر دیا ہوں۔
اب یہاں مرزا نے جن قرائن کو فوقیت دی ہے وہ دو ہیں ۱۔ قرآن کے دوسرے مواضع ۲۔نصوص حدیثیہ
اس بات کو یوں سمجھیے کہ حضرت عیسٰی کے حالات کا سب سے اول درست ماخذ قرآن اور احادیث ہیں اب اگر حضرت عیسیٰ کی حیات و وفات کے بارے میں کوئی حکم لگانا ہے تو اس کے لیے محض لغات و من گھڑت قاعدے و لفظی قرائن ہی کافی نہ ہوں گے بلکہ چاہے رفع ہو یا توفی ٰ سب سے پہلے قرآن کے دوسرے مواضع اور پھر نصوص احادیث کی طرف دیکھا جائے گا پھر کوئی صحیح بات سامنے آئے گی۔
اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس پر دیگر بڑے مضبوط قرائن بھی موجود ہیں یعنی حضرت عیسیٰ کا قبض جسمی ، مطابق محاورہ قرآن و سنت و اقوال صحابہ و تابعین و ائمہ مجتہدین و مفسرین و محدثین و فقہا کے ہے۔اب یہ سوال کرنا تو ہمارا حق ہے کہ آپ محاورہ قرآن یا حدیث یا اقوال صحابہ وغیرہم سے حضرت عیسی ٰ کی وفات و یا رفع روحانی یا مرزا کا نزول بروزی ثابت کریں۔
اب میں یہاں یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں کہ مرزا کےچیلنج کا جواب بھی ان دو قرائن(یعنی قرآن و احادیث صحیح ) سے دیا جا چکا ہے۔خود مرزا نے بھی جب اس نے نبوت کا من گھڑت دعوہ نہیں کیا تھا ، توفیٰ کے یہی معنی اختیا کیے تھے، حالانکہ اس وقت بھی قرآن ، احادیث، عربی زبان، عربی لٹریچر، اور پورا جزیرہ نمائے عرب موجود تھا۔ قرآن حکیم کی دیگر آیات سے جو حضرت عیسیٰ کی حیات پر دلالت کرتی ہیں اور احادیث نبویہ سے بھی جو اس بات کو بیان کرتی ہیں نےاس مسئلہ کو خوب واضح کر دیا گیا ہے۔اب اگر رانا کو ان دو قوی قرائن کے علاوہ کسی قرینہ کی تلاش ہے تو وہ اس قرینہ کو تلاش کرتے رہیں اور بھٹکتے رہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔
 
آپ نے جو سوال اٹھایا ہے کہ کیا کسی عالم نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ لفظی قرائن کی وجہ سے ہم مجبور ہیں کہ اب کوئی دوسرا ترجمہ کریں ورنہ اصل معنی تو ایسے موقع پر موت کے ہی ہیں۔ اسکا جواب ایک تو اوپر قاہرہ یونیورسٹی کا حوالہ ہے اور دوسرا یہ مترجم مولانا کا ترجمہ۔ ان مترجم مولانا نے بھی یہ ثابت کردیا کہ قرینے کے بغیر ہمیشہ موت ہی کے معنی ہوتے ہیں۔ حالانکہ اجر دینے کا معنی وہ کرسکتے تھے لیکن کیونکہ یوم القیامہ کا قرینہ ان کی نظر سے اوجھل رہ گیا اس لئے عربی قوائد کے مطابق انہوں نے موت کے ہی معنی کئے۔ اور تیسرا قرآن شریف کی وہ آیت جس میں نیند کا ذکر ہے۔ اور چوتھا قرآن شریف کی وہ تمام آیات اور احادیث جن میں توفی کا لفظ انسان کے لئے بغیر قرینہ کے استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ آپ کے علماء نے بھی اسکا ترجمہ موت ہی کیا ہے سوائے حضرت عیسی کے جن کی خاطر یہ تمام قوائد تہس نہس کرنا آپ کے نزدیک جائز ہے۔

اور تیسری بات یہ ہے کہ چیلنج تو اس دنیا میں انسان کی توفی کے متعلق ہے۔ بحث تو حضرت عیسی کی توفی کی ہورہی ہے جو اس دنیا میں ہوئی تھی۔ تو مثال آپ اسی دنیا میں انسان کی توفی کی دیں کہ کبھی دنیا میں انسان کی توفی ہوئی ہو اور مطلب کچھ اور ہوا ہو۔ اس حدیث میں تو قیامت کا ذکر ہی یہ بتا رہا ہے کہ یہاں قیامت کو فوت ہونے کا معنی کیا ہی نہیں جاسکتا۔ قیامت کو بھی کوئی فوت ہونے کا موقع ہے؟ ظاہر ہے کہ قیامت کا قرینہ سامنے موجود ہے۔ یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہے کہ جیسے آپ کے نزدیک حضرت عیسی جسمانی مردے زندہ کرتے تھے اور میں کہوں کہ اللہ تعالی کی سنت نہیں کہ مردے زندہ کرے اس لئے کوئی ثبوت پیش کرو۔ اور آپ کہیں کہ ثبوت یہ ہے کہ قیامت کو اللہ تعالی مردے زندہ کرے گا۔

دو حوالے جو رانا صاحب موصوف نے دیئے ہیں ان میں سے ایک ملحد کا ہے اور دوسرا حوالہ ایک غلط ترجمے کا ہے گویا میرے چیلنج کے جواب میں رانا کے پلے بس یہی کچھ تھا،ساتھ ہی ایک لطیفہ یہ کہ رانا کے نزدیک شلتوت اور قاہر یونیورسٹی گویا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، حوالہ دیتے ہیں شلتوت کا اور اس کا نام گول کر کہ اس بات کو قاہر یونیورسٹی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ میں نے جو چیلنج دیا تھا وہ یہ تھا

"اگر یہ عربی کا اتنا ہی مسلمہ قاعدہ ہے ، جس کے خلاف آج تک کوئی نہیں گیا ، تو جہاں جہاں توفاہ اللہ کا لفظ موت کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ، جیسا کہ قرآن کی اس آیت میں جو رانا نے اوپر بیان کی ہے(جہاں توفی کے معنی نیند کے ہیں)، اس حدیث میں جو میں نے لکھی تھی(جہاں وفاہ کے معنی پورا اجر دینے کے ہیں)، تو کیا کسی مفسر ، شارح حدیث یا نحوی نے اشارتا بھی یہ بات کہی کہ جناب عربی کا قاعدہ تو یہی ہے کہ توفاہ اللہ کے معنی صرف موت کے ہوتے ہیں لیکن اس قرینے یا اس وجہ سے مجبورا عربی کے اس عظیم قاعدے کی ہمیں یہاں خلاف ورزی کرنی پڑ رہی ہے؟؟؟؟؟
مجھے رانا کی مجبوری و بے کسی کاعلم ہے کہ وہ صریح الفاظ میں یہ قاعدہ تو نہیں دکھا سکتے چلیں میرا یہی چیلنج پورا کر دیں کہ دکھائیں کسی تفسیر سے ، کلام عرب سے، کسی حدیث سے ، شرح حدیث سے یہ بات ، اشارتا ہی دکھادیں ، کسی لغت عرب کے ماہر نے ، کسی مفسر نے، کسی محدث نے، کسی شاعر نے ، کسی ماہر صرف و نحو نے، غرض کسی بھی صاحب علم نے یہ بات کہی ہو کہا ہاں عربی کا قاعدہ تو یہی تھا کہ جہاں کہیں توفاہ اللہ کے الفاظ آئیں وہاں مراد صرف موت ہوتی ہے لیکں اس وجہ سے ، اس قرینے کی وجہ سے فلاں فلاں جگہ (جس کی اوپر میں نے نشاندہی کی ہے) اس قاعدہ کا اطلاق نہیں کیا گیا۔ رانا تا قیامت نہیں دکھا سکتے اور یہی رانا کے اس قاعدے کا من گھڑت ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔"

اب رانا کے پیش کردہ دونوں حوالوں میں نہ ہی رانا کا مزعومہ قاعدہ ہم کو نظر آتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی وضاحت۔ لگتا ایسا ہے کہ قادیانیوں کے قاعدے ایسی روشنائی سے لکھ جاتے ہیں جس کی تحریر صرف ان کو ہی دکھائی دیتی ہے اور بقیہ دنیا کو نہیں۔اور بقیہ رہی یہ بات کہ توفیٰ کا لفظ بغیر کسی قرینہ کے قرآن میں موت کے آٰیا ہے تو اس کی بحث نیچے آرہی ہے

تفاسیر:
آپ نے تفاسیر پر بڑا زور دیا ہے۔ لگتا ہے کہ بار بار ایک بات آپ کو سمجھنانے کے باوجود سمجھ نہیں آتی۔ بار بار آپ کوکہا گیا ہے کہ آپ یا آپ کی تفاسیر توفی کا جو ترجمہ کرتے ہیں قرآن سے اسکا ثبوت پیش کریں کہ اللہ نے انسان کی توفی کی ہو اور مطلب موت کے علاوہ کچھ اور ہوا ہو۔ سوائے اسکے کہ دوسرے ترجمہ کے لئے قرینہ موجود ہو۔ پھر اپنے ترجمہ کے حق میں کوئی حدیث سے ہی ثبوت پیش کریں کہ کبھی انسان کی توفی کی بات ہوئی ہو اور ترجمہ موت کے علاوہ کچھ اور ہوا ہو۔ میں نے ابھی ثابت کیا ہے کہ دالاشاعت کے مولانا بھی قرینہ کے بغیر موت کا ترجمہ کرنے پر ہی مجبور ہوئے۔ پھر لغات العرب سے اپنے ترجمہ کے حق میں کوئی ثبوت پیش کریں۔

ترجمہ، ترجمہ ، ترجمہ اور ترجمہ ساری باتیں رانا کو صرف ترجمے کی ہی سمجھ میں آتی ہیں ایک طرف تو عربی سے واقفیت کا یہ عالم ہے کہ دو لفظ بھی بغیر کسی ترجمے کے سمجھ نہیں سکتے لیکن بات کرتے ہیں عربی کے مسلمہ قاعدوں کی، علمیت اس درجہ کی ہے کہ اپنی پاکٹ بک سے عربی کی عبارات تک درست نقل نہیں کر سکتے، اور جھگڑتے ہیں مجھ سے توفی کے معنی میں اور تمام مفسرین کی تغلیط کرتے ہیں۔ اللہ ان کو عقل عطا کرے اور سیدھا رستہ دکھائے۔پھر دارالاشاعت کے کا غلط ترجمہ شاید ان کے نزدیک نسخہ کیمیا یا گولیاں برائے دافع درد و بلا کی حیثیت رکھتا ہے ایک جگہ غلط ترجمہ کیا اس بیچارے مترجم سے ہو گیا اب رانا کی تمام علمیت اسی کے گرد گھوم رہی ہے اور قادیانی کذب کی گویا ساری بنیاد اب اسی غلط ترجمہ کے سہارے ڈول رہی ہے۔ترجمہ کو چھوڑ کو کر اصل دیکھئیں اور وہ چیلنج دیکھیں جو مرزا نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے تو بات اتنی واضح ہے کہ اس کے بعد اس چیلنج کا نام لیتے ہوئے مرزائیوں کو شرم آنی چاہیے۔(بقیہ رہا رانا کا چیلنج تو یہ چیلنج نہیں بلکہ شاید کوئی گرگٹ ہے جتنے رنگ رانا نے بدلے ہیں اور ہر چند پوسٹ بعد اپنے چیلنج میں تبدیلیاں کی ہیں اس بارے میں آگے کچھ عرض کروں گا)
باقی رہی توفی کی بحث وہ سابقہ پوسٹ میں گذری چکی اس کو پڑھ لیں۔اور کچھ جو نیچے بیان ہوئی ہے اس جو بھی دیکھ لیجئے۔


لیکن آپ نے بجائے اسکے کہ اپنے ترجمہ کے حق میں ثبوت پیش کرتے ان تفاسیر کے ترجمہ کو ہی بطور ثبوت پیش کردیا کہ ان تفاسیر نے حضرت عیسی کے لئے اٹھانے کے معنی کئے ہیں۔ جناب یہی تو ثابت کرنا ہے کہ ان تفاسیر نے بھی اگر یہ معنی کیئے ہیں تو اپنے معنوں کی تائید میں کوئی ثبوت تو پیش کریں۔ بغیر ثبوت کیسے مان لیں کہ ان کے معنی درست ہیں۔ آپ ان تفاسیر کے لکھنے والوں کی نمائیندگی کررہے ہیں اس لئے آپ کا کام ہے کہ ان تفاسیر کے لئے ثبوت فراہم کریں کہ ان کا ترجمہ درست ہے نا یہ کہ جس ترجمہ پر بحث ہورہی ہے اسی کو بطور ثبوت پیش کردیا جائے۔ یہ تفاسیر لکھنے والے بزرگ انسان ہی تھے۔ غلطی سے پاک تو نہ تھے۔ ان کی تفاسیر کسطرح سند ہوسکتی ہیں۔ سند صرف قرآن ہے یا حدیث یا پھر ترجمہ کے لئے لغات العرب سے سند پیش کریں۔ تفاسیر ہمارے نزدیک سند نہیں کیونکہ خود ثبوت کی محتاج ہیں

جو ترجمہ میں نے کیا ہے وہ نہ صرف تفاسیر ، بلکہ احادیث، اقوال ائمہ اور لغت عرب سے بالکل ثابت ہے اس کی متعدد مثالیں سابقہ پوسٹز میں گذر چکی ہیں لیکن آپ کی میں نہ مانوں کا علاج، آپ کی ضد کا علاج خود آپ کے ہاتھ میں ہے، لغات عرب کے ہاتھ میں نہیں۔ قرآن کی شرح کے بارے میں مسلمہ بات ہے کہ اس کا پہلا ماخذ خود قرآن ہے کہ قرآن کی بعض آیات دوسری آیات کی تفسیر ہوتی ہیں ، پھر احادیث ہیں اس کے بعد اقوال ائمہ مجتہدین ہیں ،جو قرآن فہمی کے لیے اول دو ماخذات میں بیان کردہ دقیق نکات پر مبنی ہوتے ہیں اور متداول تفاسیر ان ہی ساری بنیادوں کا احاطہ کرتی ہیں، لہذا سند کا درجہ رکھتی ہیں، اور قرآن فہمی کے لیے ایک معیار بھی۔لہذا جس ثبوت کی آپ کو تلاش ہے وہ خود ان ہی تفاسیر سے اخذ کیا جاتا ہے، اور پھر ان تفاسیر کے مدمقابل بھی تو کوئی چیز آپ کے پاس ہو، کیا قرآن کی تشریح و تفسیر کے لیے ہم مرزا کو ہی سند مان لیں؟ کہ جیسا اس کا دل چاہے قرآنیی آیات کی من مانی تشریح کرے اور اوٹ پٹانگ تاویلات کرے جو آیات قرآنی اور احادیث صحیحیہ کی تکذیب کریں؟؟

اگر ان تفاسیر کو ہر معاملے میں سند مان لیا جائے تو ان تفاسیر میں انبیاء کے متعلق بعض ایسے لغو قصے لکھے ہیں کہ جن پر کسی طرح ایک سچا مسلمان یقین کرہی نہیں سکتا۔ تفسیر کشاف، تفسیر جلالین، تفسیر خازن، تفسیر جامع البیان تفسیر روح المعانی وغیرہ میں ایسے ایسے قصے انبیاء کرام کی طرف منسوب کیئے گئے ہیں کہ پڑھ کر ہی شرم آتی ہے۔ تفسیر کشاف میں تفسیر سورة ہود میں حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے ان درندوں کے سامنے نعوذ باللہ اپنی بیٹیاں پیش کردیں۔ ایسی تفسیر کی ہے کہ پوری عبارت بھی پیش کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ حضرت داود کے متعلق جو تفسیر جلالین تفسیر خازن اور جامع البیان میں قصہ لکھا ہے اگر آج کسی معمولی بادشاہ کی طرف بھی وہ بات منسوب کی جائے تو وہ مرنے مارے پر تل جائے اور دنیا میں شور پڑجائے۔ اور اگر وہ سچ ہو تو اس بات پر انقلاب آسکتے ہیں۔ ایک بادشاہ کے متعلق یہ ثابت ہوجائے کہ اس نے ایک جرنیل کو مروادیا اسلئے کہ اس کی بیوی پر قبضہ کرے یہ کوئی معمولی جرم نہیں۔ لیکن مفسرین کہتے ہیں خدا کے ایک نبی ایک عورت پر نعوذ باللہ فریفتہ ہوگئے۔ حضرت یوسف، حضرت سلیمان اور تو اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں چھوڑا اور ایک جھوٹا قصہ جس کی کوئی بنیاد ہی نہیں وہ بنا کر حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اتنی تفصیل سے منسوب کردیا ہے کہ پڑھ کر ہی انسان کا بدن کانپ جاتا ہے کہ سب معصوموں سے زیادہ معصوم انسان پر اسطرح کی تہمت لگاتے ہوئے ان کے قلم کیوں نہ ٹوٹ گئے۔ ایسی ہی روایتوں کو لے کر پھر سلمان رشدی نے اپنا ناپاک ناول لکھا تھا جس کے کردار ان مقدس ہستیوں کو بنایا گیا۔ ایسا ہی ایک لغو قصہ ان مفسرین نے حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق گھڑ لیا ہے جس پر آپ کہتے ہیں کہ ہم آنکھیں بند کرکے ایمان لے آئیں۔

ان تفاسیر کے لکھنے والے بڑے بزرگ علماء تھے۔ ان کی اسلام کی لئے بڑی عظیم الشان خدمات ہیں اس سے انکار نہیں لیکن بہرحال ان کی تفاسر سند نہیں ہوسکتیں کیونکہ یہ خطا سے پاک نہیں تھے۔ اس لئے اگر انہوں نے حضرت عیسی کے لئے توفی اور رفع کے کچھ دوسرے معنی کیئے ہیں تو ان کا جب تک ثبوت نہ دیا جائے کہ یہ معنی جائز ہیں تب تک قابل قبول نہیں۔

آپ کی یہ روداد درد ناک پڑھ کر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا ۔لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ ایک خان صاحب نے مولانا صاحب سے وعظ میں سن لیا کہ ہندو کاپر (کافر) ہے اس لیے کہ کلمہ نہیں پڑھتا۔ خان صاحب کو اس پر طیش آیا کہ اس کی یہ جرات کہ یہ کلمہ نہیں پڑھتا اور ہمارے سامنے دندناتا پھرتا ہے۔ ایک لالہ جی کی جو شامت آئی تو ادھر کو آنکلے۔ خان صاحب نے جھٹ سے گردن ناپی، دھوبی پٹخا مارا اور زمین پر دے پٹخ، سینے پر سوار ہوگئے۔ "خوچہ! کاپر کا بچہ! تم وہی ہے جو کلمہ نہیں پڑھتا"۔ لالہ جی کو جان چھٹتی نظر آرہی تھی نہ بچتی۔ مرتے کیا نہ کرتے۔ لجاجت سے التجا کی کہ کلمہ پڑھا دیجیے تاکہ زمین بوسی اور زبردستی کی "خان سواری" سے تو نجات ملے۔ لالہ جی کی آمادگی کا مسئلہ جب حل ہوا تو خان صاحب کو احساس ہوا کہ اگلا مسئلہ اس سے بھی سنگین ہے اور وہ یہ ہے کہ کلمہ شریف خود ان کو بھی نہیں آتا تھا!!!

اسی طرح جن مفسرین پر یہ الزام آپ تھوپ رہے ہیں کہ انہوں نے اسرائیلی روایات بیان کر توہین انبیا کا جرم کیا ہے ، ان سے پہلے اگر اپنے مرزا پر نظر ڈال لیتے تو شاید یہ احساس ہو جاتا کہ اسرائیلی روایات سے زیادہ توہین تو مرزا کی کتابوں میں موجود ہے، مرزا نے جس جس طرح ان انبیا کی توہین کی ہے تو سب سے پہلے اس مرزا سے آپ کو جان چھڑانی چاہیے ، یہ تفاسیر پڑھ کر تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مرزا کی دشنام طرازیوں کو دیکھ کر آپ پر جوں بھی نہیں رینگتی؟؟
الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔

دوسری بات یہ کہ تفاسیر کے ایک پہلو کو لے کر جملہ تفاسیر کو پایہ اعتبار سے ساقط کرنے کی جو کوشش کی ہےوہ احمقانہ ہے۔یہاں میں مختصرا یہی کہوں گا کہ تفاسیر میں اسرائیلی روایات بھی نقل کی گی ہیں لیکن اس بارے میں خود مفسرین نے ان کے قبول و رد کے بعض اصول و قواعد وضع کر دئیے ہیں(جیسا کہ ابن کثیر نے)۔ تیسری بات یہ تمام تفاسیر اسرائیلی روایات پر مبنی ہیں بھی نہیں ، چوتھی بات یہ کہ حضرت عیسیٰ کی حیات کا عقیدہ تفاسیر میں جو بیان ہوا ہے ، وہ مبنی بر اسرائیلی روایت نہیں بلکہ قرآن کی دیگر آیات اور احادیث شریفہ کی روشنی میں اس کی تشریح کی گئی ہے، اور آخری بات یہ عقید بیان کرنے میں سارے مفسرین متفق ہیں ، یہ بات کسی ایک دو تفسیروں کی نہیں ہے کہ آپ ایک آدھ تفسیر پر الزام لگا کر اپنی جان چھڑا لیں ۔اور پھر یہ بات بھی عبرتناک ہے کہ جن زمخشری پر آپ اعتراض کر رہے ہیں ، اور جن کی پوری عبارت پیش کرتے ہوئے آپ کو شرم آتی ہے، آپ کے مرزا نے اس کے بارے میں کہا ہے
"زبان عرب کا ایک بے مثال امام جس کے مقابل پر کسی کوچون وچرا کی گنجائش نہیں ، یعنی علامہ زمخشری"(خزائن ج ۲۱ ص ۳۸۰، ۳۸۱) اور پھر ان کو اپنے دعوے کے مطابق محض لغت عرب کا امام ہی تسلیم نہیں کیا بلکہ ان کی تفسیر سے بھی جا بجا استفادہ کیا ہے ، مذکورہ صفحے پر ہی ساری بحث زمخشری کی تفسیر کےحوالے سے کی ہے۔
مزید آگے دیکھئے مرزا نے خزائن ج ۳ ص ۲۷۴ میں لکھا ہے
" جس قدر مبسوط تفاسیر دنیا میں موجود ہیں ،جیسے کشاف اور معالم اور تفسیر رازی اور ابن کثیر اور مدارک اور فتح البیان سب میں زیر تفسیر یا عیسیٰ انی متوفیک یہی لکھا ہے۔"اب آپ اس معاملے میں تفاسیر سے پرہیز کا مشورہ دے رہے ہیں اور تفاسیر کے نام سے چڑ جاتے ہیں ادھر آپ کے مرزا نے نا صرف ان "مبسوط تفاسیر" سے استفادہ کیا ہے بلکہ اسی آیت میں استفادہ کیا ہے ، جو زیر بحث ہے۔
اسی طرح خزائن ج ۴ ص ۲۹۳ پر مرزا نے جلالین سے استفادہ کیا ہے، اس کے علاوہ یہاں میں ایک اور بھی ثبو ت دیتا جاوں جس سے یہ صاف ہو جائے گا کہ خود مرزا بھی تفاسیر کو معتبر جانتا تھا ۔
چنانچہ مرزا نےاپنی کتاب البلاغ ۔فریاددرد(خزائن ج ۱۳ ص ۳۷۴ )میں لکھا ہے ۔
"آٹھویں شرط تحریری یا تقریری مباحثات کے لیے مباحث یا مولف کے پاس ان کثیر التعداد کتابوں کا جمع ہونا ہے جو نہایت معتبر اور مسلم الصحت ہیں جن سے چالاک اور مفتری انسان کا منہ بند کیا جاتااور اس کے افترا کی قلعی کھولی جاتی ہے۔" اس کے بعد کچھ صفحات آگے ان کتابوں کی ایک لمبی فہرست دی گئی ہے جو مرزا کے نزدیک نہایت معتبر اور مسلم الصحت ہیں، یعنی خزائن ج ۱۳ ص ۴۵۹ پرلگ بھگ ۱۰۴ تفاسیر کی ایک لمبی فہرست ہے جو کہ مرزا کے نزدیک نہات معتبر ہیں ، اور ان میں وہ ساری تفاسیر شامل ہیں جن پر آپ کو اعتراض ہے کچھ نام دیکھئے ، در منثور، خازن ، جامع البیان، جلالین، کشاف ، ابن کثیر وغیرہ وغیرہ۔


امام رازی سے جو آپ نے توفی کے معنی آسمان پر لینا لکھے ہیں ان کا ثبوت تو دیں کہ کس لغت میں یہ معنی لکھے ہیں۔ امام رازی نے یہ معنی کہاں سے لئے ہیں۔ کوئی ثبوت تو پیش کریں۔ صرف کسی کے کہنے سے معنی نہیں مانے جاسکتے ساتھ ٹھوس ثبوت ہونے چاہئے۔

اول تو امام رازی ان افراد میں سے ہیں جن کی تفسیر، یعنی تفسیر کبیر آپ کے مرزا کے نزدیک نہایت معتبر اور مسلم الصحت ہے، لہذا آپ کو ان کی بات قبول کر لینی چاہیے، دوئم امام رازی جس آیت کی تفسیر کرہے ہیں، ان کے نظر میں اس کی بنیادی وجہ خودقرآن کی دیگر آیات و آحادیث ہیں اور جو اسی معنی پر دلالت کرتی ہیں ، سوئم یہ معنی بیان کرنے میں امام رازی تنہا نہیں ہیں اور بھی لوگ مثلا امام ابن تیمیہ نے الجواب الصحیح ج ۲ ص ۲۸۳ میں توفیٰ کی اقسام میں توفی الروح والبدن جمعیا سے اسی طرف اشارہ کیا ہے نیز تفسیر بغوی میں فلما توفیتنی کی شرح ای قبضتنی الی السما ء و انا حی سے کی گئی ہے۔

تاج العروس:
تاج العروس کا آپ نے حوالہ دیا ہے:
توفہ اللہ عزوجل اذا قبض نفسہ
یعنی جب کہا جائے کہ اللہ نے فلاں شخص کی توفی کی ہے تو اسکا مطلب ہوگا کہ اللہ تعالی نے اس کی روح قبض کرلی۔
اگر آپ نے اس لئے حوالہ دیا ہے کہ آپ کی مراد اس سے قبض جسم ہے تو جناب یہاں بھی توفی کا مطلب قبض روح ہی بیان کیا گیا ہے۔ اگر آپ قبض نفسہ کے الفاظ سے یہ ظاہر کرنا چاہا ہے کہ یہاں قبض جسم مراد ہے یہ کسی طور یہاں ممکن ہی نہیں۔ اگرآپ یہاں قبض جسم ہی مراد لیں گے تو مطلب یہ بنے گا کہ جب کہا جائے کہ اللہ نے فلاں شخص کی توفی کی ہے تو اسکا مطلب ہوگا کہ اللہ نے اسکا جسم قبض کرلیا ہے۔ اب بتائیں یہ معنی کسی طرح بھی ممکن ہیں۔ اسکا تو یہ مطلب ہوگا کہ تاج العروس کے مطابق جب بھی انسان کی توفی ہوتی ہے تو مراد قبض جسم ہی ہوتا ہے۔ تو پھر یہ جو آئے دن لوگوں کی توفی ہوتی رہتی ہے تو تاج العروس کے مطابق ان سب کا قبض جسم ہی ہوتا ہے؟ جناب یہاں قبض روح ہی مراد ہے۔ اور کوئی دوسری صورت ہی نہیں۔

رانا صاحب کا یہ پورا پیرا گراف میں بنا کسی تبصرے کے چھوڑ رہا ہوں کہ لو گ اس کو پڑھیں اور عبرت حاصل کریں کہ کیسے کیسے لوگ آج کے دور میں علمی بحث و مباحثے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ، میں یہاں تاج العروس کی وہ عبارت بھی تحریر کریتا ہوں ، جو لوگ کچھ بھی عربی میں شد بد رکھتے ہیں ، وہ اس عبارت کو دیکھیں اور پھر رانا کا یہ جواب دیکھیں جو انہوں نے درج کیا ہے۔
تاج العروس۔۔۔و من المجاز ادرکتہ الوفات ای الموت و المنیۃ و توفی فلان اذا مات و توفاہ اللہ عز و جل اذا قبض نفسہ و فی الصحاح روحہ

توفی کے مجازی اور حقیق معنی:
یہ درست ہے کہ توفی کے حقیقی معنی لینے یا وصول کرنے کے ہیں۔ اور مجازی معنی موت اور نیند کے ہیں۔ لیکن بات پھر وہی رہتی ہے۔ اگر آپ کو بات اسطرح مجازی اور حقیقی کے الفاظ سے سمجھ میں آتی ہے تو اسطرح بھی دیکھ لیتے ہیں۔ کسی لفظ کے استعمال میں زبان کے اصولوں کو ملحوظ رکھنا تو ضروری امر ہے۔ آپ نے توفی کے مجازی معنی قبض روح کرنا خود تسلیم کیئے ہیں۔ اور علم بیان میں یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ جس محل پر کوئی لفظ مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہو اس محل پر وہ لفظ حقیقی اور اصلی لغوی معنوں میں استعمال شدہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے محل پر اس کے اصلی لغوی معنی لینے محال ہوتے ہیں۔ مثلاً قرآن شریف میں آیا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اندھے کےلغوی معنی ہیں جو آنکھوں سے اندھا ہو۔ مگر اس کے مجازی معنی بصیرت روحانیہ سے عاری کے ہیں۔ لہذا اس جگہ ظاہری نابینائی کے معنی سراسر غلط اور نامعقول ہوں گے۔ کونکہ محل استعمال مجازی معنوں کا ہے۔

توفی کے مجازی معنی قبض روح کے ہیں اور ان معنوں کا محل استعمال یہ ہوتا ہے کہ خداتعالی توفی کرنے والا ہو اور انسان کی توفی کی جائے۔ اس موقعہ پر اس لفظ کے معنی قبض روح ہی ہوتے ہیں۔ گو یہ مجازی معنی قرار دیئے جائیں۔ مجازی معنی کے محل پر یہ لفظ اپنے حقیقی معنی "پورا لے لینا" میں استعمال نہیں ہوتا۔ زیر بحث آیات میں کیونکہ خداتعالی توفی کرنے والا ہے اور حضرت عیسی کی توفی ہورہی ہے لہذا ان آیات میں دونوں جگہ توفی کے معنی وفات دینے کے ہی ہوں گے۔ اس محل پر کوئی دوسرے معنی کرنا علم بیان کے اصول کا خون کرنے کا مترادف ہیں۔

ایک اور قاعدہ جو کہ حسب معمول بغیر کسی حوالے کہ ہے اور امید ہے کہ اس کا حوالہ ڈھونڈنے کے لیے کسی اور مرزائی الہام کی ضرورت پڑے گی۔
اب ایک قاعدہ تو رانا صاحب نے لکھا دیا ہے ایک اور قاعدہ میں بھی بیان کر دوں مگر میرا بیان کردہ قاعدہ بغیر حوالے کے نہیں ہے بلکہ یہ قاعدہ بیان کیا ہے مرزا نے، پتہ نہیں مرزا اب رانا کے نزدیک حجت ہے بھی یا نہیں ، کہ جگہ جگہ تو رانا اس سے اختلاف کرتے دکھائی دیتے ہیں، مرزا حقیقی اور مجازی معنی کے بارے میں لکھتا ہے

" ثم اعلمو ان حق اللفظ الموضوع لمعنی ان یوجد المعنی الموضوع لہ فی جمع افرادہ من غیر تخصیص و تعینن۔(خزائن ج ۲۲ ص ۶۶۵)
ترجمہ اس کا یہ ہے۔ پھر جان لو کہ کسی لفظ کا معنی کہ جس کے لیے وہ لفظ وضع کیا گیا ہے اس کا حق یہ ہے کہ وہ مفہوم اس کے تمام افراد میں پایا جائے ۔

چنانچہ اس قاعدے کے تحت جو مرزا نے بیان کیا ہے لفظ متوفیک جو "وفی"(نہ کہ وفاۃ) سے بنا ہے جس کا مفہوم کسی چیز کو پورا کرنا ہے، اب اس بنیاد پر اس کے تمام اشتقاقات اور جمیع صیغوں میں یہی بنیادی مفہوم جاری ساری تسلیم کرنا پڑے گا، لہذا کسی بھی صیغہ یا باب میں منتقل ہو کر اس کا مفہوم اصلی نہیں بدلے گا ۔ چاہے وہ وفا ہو، استیفا ہو ، توفی ہو یا توافی اس بنا پر جب اس لفظ کا معنی موضوع لہ اتمام و اکمال ہے (جس کی ضد عذر ہے) تو پھر باب تفعل میں جا کر اس کا مفہوم موت کیسے ہوجائے گا ۔ جب کہ اس کا معنی موضوع لہ یہ نہیں ہے۔

ساتھ ساتھ رانالسان العرب کی بیان کردہ یہ تشریح بھی ذہن میں رکھیں
توفی المیت اسیتفاء مدۃ التی و فیت لہ و عدد ایامہ و شہورہ و عوامہ فی الدنیا
یعنی میت کے توفی کے معنی یہ ہیں کہ اس کی مدت حیات کو پورا کرنا اور اس کی دنیاوی زندگی کے دنوں اور مہینوں اور سالوں کو پورا کر دینا۔
اب یہاں لسان العرب میں تو صاف طور پر توفی کے معنی جب موت کے لیے گے تو بھی ، اس میں توفی کے حقیقی معنی یعنی اخذ الشئی وافیا ، یعنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا کہ باقی کچھ نہ رہ، کا بیان موجود ہے۔اس طرح رانا کا یہ ایک اور من گھڑت قاعدہ چکنا چور ہو جاتا ہے۔
اور ایک بات اور قرآن شریف سے جو مثال آپ نے دی ہے وہ قرآن سے آپ کی عدم واقفیت کا بہترین ثبوت ہے۔
اللہ پاک نے سورہ طہ آیت ۱۲۴ ، ۱۲۵ ، ۱۲۶میں ارشاد فرمایا ہے

[ARABIC]وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَه مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُه يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى ۔[/ARABIC]

ترجمہ: اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی زندگی بھی تنگ ہوگی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھا ئیں گے۔ کہے گا اے میرے رب تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں بینا تھا۔ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیتیں پہنچی تھیں پھر تو نے انھیں بھلا دیا تھا اور اسی طرح آج تو بھی بھلایا گیا ہے

اب یہاں جو رانا نے کہا کہ مثلاً قرآن شریف میں آیا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔
یہ بات مذکورہ آیات میں کہاں بیان ہوئیں ہیں؟؟؟
ان آیات میں تو یہ بیان ہو رہا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں اللہ کی یاد سے منہ موڑے گا وہ کل قیامت کو اندھا کر کہ اٹھایا جائے گا۔حالانکہ وہ دنیا میں بینا یعنی آنکھوں والا تھا۔
اس آیت میں تحریف رانا نے صرف ایک من گھڑت قاعدے کی خاطر کی۔ افسوس صد افسوس۔

تمام لغات اس بات کی تائید کرتی ہیں۔ کوئی بھی لغت اٹھا کر دیکھ لیں ہر لغت یہی بیان کرتی ہے کہ جب بھی اللہ توفی کرنے والا ہو اور توفی کسی ذی روح کی ہورہی ہو تو ہمیشہ مجازی معنی ہی استعمال ہوتے ہیں۔ کوئی ایک بھی لغت دکھائیں جو ایسے موقع پر حقیقی معنی کرتی ہو۔ پورا قرآن اس بات کی تائید میں ہے کہ ایسے موقع پر پورے قرآن میں ہر جگہ توفی اپنے مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک بھی استثناء نہیں۔ احادیث اٹھا لیں۔ جب بھی خدا کے انسان کی توفی کرنے کا ذکر ہوا ہے ہمیشہ مجازی معنی استعمال ہوئے ہیں۔ تمام عرب دنیا کا لٹریچر اٹھا لیں ایسے موقع پر توفی کے ہمیشہ مجازی معنی ہی لئے جاتے ہیں۔

رانا صاحب کبھی کبھی مجھے شبہ یہ ہوتا ہے کہ آپ قادیانی نہیں ہیں بلکہ صرف قادیانی جماعت کا کونڈہ کرنے کے لیے آپ نے یہ بحث یہاں شروع کی ہے، اب تک جتنی بھی باتیں آپ نے کیں اتنی احمقانہ بات کوئی نہیں تھی جتنی یہ ہے۔ اس طرح تو صاف آپ مرزا کو جھٹلا رہے ہیں کہ مرزا نے خزائن ج ۳ ص ۲۷۲ پر تحریر کیا ہے
"یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ توفی کا لفظ جو قرآن شریف میں استعمال کیا گیا ہے خواہ وہ اپنے حقیقی معنوں پر مستعمل ہے یعنی موت پر یا غیر حقیقی معنوں پر یعنی نیند پر ۔۔"
اور یہی نہیں اس نے مذکورہ صفحے سے کئی صفحات آگے اور پیچھے توفی کے لفظ پر بحث کی ہے بلکہ ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ یہاں توفی کے معنی ایسے صاف و صریح موت کے ہیں کہ کسی قرینہ کی بھی ضرورت نہیں ہے، مرزا لکھتا ہے۔

"یہ بات ادنیٰ ذی علم کو بھی معلوم ہو گی کہ جب کوئی لفظ حققیت مسلمہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یعنی ایسے معنوں پر جن کے لیے وہ عام طور پر موضوع یا عام طور پر مستعمل ہو گیا ہے تو اس جگہ متکلم کے لیے کچھ ضروری بہیں ہوتا کہ ا س کی شناخت کے لیے کوئی قرینہ قائم کے کیونکہ وہ ان معنوں میں شائع متعارف اور متبادر الفہم ہے لیکن جب ایک متکلم کسی لفظ کے معنی حقیقت مسلمہ سے پھیر کر کسی مجازی معنی کی طرف لے جاتا ہے تو اس جگہ صراحتا یا کنایا یا کسی دوسرے رنگ کے پیرائے میں کوئی قرینہ اس کو قائم کرنا پڑتا ہے تا اس کا سمجھنا مشتبہ نہ ہو اور اس بات کے دریافت کے لیے متکلم نے ایک لفظ بطور حقیقت مسلمہ استعمال کیا ہے یا بطور مجاز اور استعارہ نادرہ کے بھی کھلی کھلی علامت ہوتی ہے کہ وہ حقیقت مسلمہ کو ایک متبادر اور شائع و متعارف لفظ سمجھ کر بغیر احتجاج قرائن کے یونہی بیان کر دیتا ہے۔ مگر مجاز یا استعارہ نادرہ کے وقت ایسا اختصار پسند نہیں کرتا بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ کسی ایسی علامت سے جس کو ایک دانشمند سمجھ سکے اپنے اس مدعا کو ظاہر کر دیا جائے کہ یہ لفظ اپنے اصل معنوں پر مستعمل نہیں ہوا۔ اب چونکہ یہ فرق حقیقت و مجاز کاصا ف طور پر بیان ہو چکا تو جس شخص نے قرآن کریم پر اول سے آخر تک نظر ڈالی ہو گی وہ ایمانا ہمارے بیان کی تائید میں شہادت دے سکتا ہے ۔۔۔۔۔(کچھ آیا ت لکھی ہیں)۔۔ کیسی صریح اور صاف طور پر موت کے معنوں میں استعمال کی گئیں ہیں مگر کیا قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت بھی ہے کہ ان آیات کی طرح مجرد توفیٰ کا لفظ لکھنے سے اس سے کوئی اور معنی مراد لیے گئے ہو ۔موت مراد نہ لی گئی ہو۔بلاشبہ قطعی اور یقینی طو ر پر اول سے آخر تک قرآنی محاورہ یہی ثابت ہے کہ ہر جگہ درحقیقت توفی کے لفظ سے موت مراد ہے"۔(خزائن ج ۳ ص ۲۶۹۔۲۷۰)

اب یہاں اس سے پہلے خود مرزا کے اس بیان پر ایک تنقیدی نظر ڈالی جائے ذرا اس کی شرح کی تاریکی(کہ مرزا کے فرمودات سے محض تاریکی ہی حاصل ہو سکتی ہے) میں رانا کے دعوے کا جائزہ لے لیا جائے۔

۱۔رانا کے بالکل برخلاف مرزا قادیانی کے نزدیک توفی کے حقیقی معنی موت کے ہیں۔
۲۔چونکہ مرزا کے نزدیک توفیٰ کے حقیقی معنی موت کے ہیں ، اس لیے جہاں کہیں توفیٰ کا لفظ آئے اس سے مراد موت ہی ہوگی، اور مزید کسی قرینہ کی ضرورت نہیں ہو گی۔
۳۔برخلاف اس کے جہاں کہیں یہ لفظ مجازی معنی میں آئے گا وہاں اس کے لیے قرینہ کی ضرورت پڑے گی۔
لہذا اب رانا فیصلہ کر لیں کہ وہ درست ہیں یا ان کے مرزا۔

دوسری بات یہ کہ اگر بقول رانا کہ توفیٰ کا لفظ ہر جگہ مجازی معنی میں ہی موت کے لیے استعمال ہوا ہے تو پھر، مرزا قادیانی کے مطابق ہر اس جگہ جہاں یہ لفظ مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے قرائن کا محتاج ہے، یعنی اس کے معنی فورا موت کے کرنا درست نہ ہوں گے بلکہ قرائن دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا، اور ان عقائدی معاملات میں سب سے قوی قرائن ہیں ہی قرآن و حدیث ، اور قرائن کی یہ بحث سابقہ پوسٹ میں تفصیل سے گزر چکی ہے، لہذا رانا کی مراد پھر بھی بر نہیں آسکتی، اور یہی نہیں بلکہ چونکہ مجازی معنی خود قرائن کے محتاج ہیں، تو محض ان کی وجہ سے کسی مسلمہ قاعدے کی بنیاد پڑ بھی نہیں سکتی، کیونکہ مجازی معنی قرائن کے مطابق جب مختلف ہوتے رہیں گے ، یکساں نہیں رہیں گئے تو ان کی بنیاد پر کسی ایک معنی کا قاعدے باقی رہے گا ہی کہاں؟؟؟

پورا قرآن اس بات کی تائید میں ہے کہ ایسے موقع پر پورے قرآن میں ہر جگہ توفی اپنے مجازی معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک بھی استثناء نہیں۔ احادیث اٹھا لیں۔ جب بھی خدا کے انسان کی توفی کرنے کا ذکر ہوا ہے ہمیشہ مجازی معنی استعمال ہوئے ہیں

اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے
[ARABIC]حَتّٰى يَتَوَفّٰيھُنَّ الْمَوْتُ[/ARABIC] (النسا ۔۱۵)
اب شاہ ولی اللہ نے (جو کہ مرزا کے نزدیک بھی نہایت قابل اعتماد ہیں) اس کا ترجمہ یہ کیا ہے"تا آں کہ عمر ایشان را تمام کند مرگ" یعنی یہاں تک کہ موت ان کی عمر تمام کر دے۔
اب یہاں توفی اور موت دونوں کا بیان ہے، حالانکہ بقول آپ حضرات کے توفیٰ سے مراد موت ہی ہے(چاہے مجازی ہو یا حقیقی) اور قرآن میں ہر جگہ جہاں کہیں توفی کا لفظ آیا ہے موت ہی مراد ہے(بقول مرزا حقیقی طور پر یا بقول رانا مجازی طور پر) تو پھر یہاں توفی کے ساتھ موت کا لفظ کیوں آیا ہے؟ذرا اس ترجمہ پر ہی غور کر لیجئے،موت ان کی عمر تمام کر دے، یعنی توفی کے وہی معنی یہاں ہورہے ہیں جو میں لسان العرب کے حوالے سے لکھ چکا ہوں ، اتمام و اکمال عمر جو کہ موت نہیں ہے(ورنہ یہاں موت کا لفظ فضول ہوتا ، نعوذ باللہ) بلکہ موت کا نتیجہ ہے خود موت نہیں۔ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ قرآن شریف میں ہر جگہ حیات کا مد مقابل موت کا لفظ ہے توفی کا کہیں نہیں ہے۔ اور اسی طرح قرآن مجید میں بیان ہوا ہے
[ARABIC]وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْل[/ARABIC]ِ۔ اب اگر اس پوری آیت کا ترجمہ دیکھیں تو توفی ، مجازی معنوں میں آیا ہے لیکن موت کے نہیں بلکہ نیند کے معنوں میں، پھر اسی طرح اس آیت میں
[ARABIC]اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّ۔۔قَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ [/ARABIC]

یہاں بھی توفی مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہاں بھی اس کے معنی موت کے نہیں ہیں،پھر جو حدیث میں نے کنز العمال کے حوالے سے لکھی تھی وہاں بھی آپ کی ساری شرائط پوری ہو رہی ہیں، توفی کا لفظ وہاں بھی مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے لیکن ، وہاں بھی اس کے معنی موت کے نہیں ہیں۔اب آپ کایہ دعوہ غلط ثابت ہو گیا کہ توفی کے معنی مجازی طور پر قرآن و حدیث میں ہر جگہ موت کے ہیں۔ الحمد للہ۔
اور مرزا کی بات کہ توفیٰ کے حقیقی معنی موت کے ہیں اس لیے غلط ہیں کہ لغات کی متعدد مثالوں سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ توفیٰ کے حقیقی معنی موت کے نہیں ، اب یہاں اس بات کو میرے خیال میں مزید دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین


إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ

آمین۔
 
پیر مہر علی شاہ کے اس چیلنج کے جواب میں حضرت عیسی علیہ السلام کے قول فلما توفیتنی کا ایک ایسا ترجمہ پیش کرتا ہوں جو کسی مفسر کا نہیں بلکہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جن پر قرآن نازل ہوا اور جو بہتر سمجھتے تھے کہ کس آیت کا کیا ترجمہ ہے۔ اس کے بعد میں اس بحث کو ختم کردوں گا۔ اب ابن حسن کو جو عادت ہے ہرایک کے منہ میں لقمہ دینے کی۔ تو وہ یہاں بھی باز نہیں آئیں گے۔ لیکن اب وہ شوق سے جتنا زور لگانا ہے لگا لیں۔ ہمیں تو اب وہی ترجمہ قبول ہے جسکی توثیق خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کردی ہے۔ ہمیں اب کسی اور کا ترجمہ قبول نہیں۔ جو ترجمہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کردیا ہے وہی ہمارے لئے سند ہے اور اسکے مقابلے میں تمام دنیا کے ترجمے رد کئے جانے کے لائق ہیں۔

صحیح بخاری کتاب التفسیر میں امام بخاری فلما توفیتنی کی تفسیر میں ایک حدیث نبوی لائے ہیں۔ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جب میں حوض کوثر پر کھڑا ہوں گا تو اچانک چند میرے سامنے آئیں گے۔ جنہیں فرشتے جہنم کی طرف دھکیلے لئے جارہے ہوں گے۔ انہیں دیکھ کر میں پکار اٹھوں گا "اصیحابی اصیحابی" یعنی تو میرے صحابہ ہیں یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ اس پر مجھے جواب دیا جائے گا:

انک لاتدری ما احد ثوابعدک۔ انھم لم یزالوامرتدین علی اعقابہھم۔ ﴿صحیح بخاری کتاب التفسیر باب و کنت علیھم شھیداً﴾
بے شک اے نبی۔ آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا رنگ بدلا۔ یہ تو اپنی ایڑیوں کے بل پھر گئے۔ اور مرتد ہونے لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ سن کر " اقول کما قال العبد الصالح عیسی ابن مریم" میں ویسی ہی بات کہوں گا جو خدا کے نیک بندے عیسی ابن مریم نے کہی تھی:

" کنت علیھم شھیداً مادمت فیھم توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم و انت علی کل شیء شھید۔ ان تعذبہم فانھم عبادک و ان تغفرلاھم انت العزیز الحکیم"۔

کہ میں ان کا اس وقت تک ہی نگران تھا۔ جب تک ان میں موجود تھا۔ پس جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی ان کا نگران تھا۔"

تمام مسلمان خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں اس بات پر سو فیصدی متفق ہیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں اور یہ جواب جو اوپر درج کیا گیا ہے اس میں اپنی وفات کا ہی ذکر فرما رہے ہیں۔
لیکن یہ جواب تو لفظاً لفظاً وہی جواب ہے جو حضرت عیسی السلام کی طرف قرآن کریم میں منسوب کیا گیا ہے۔ پس آپ کا اس قرآنی آیت میں حضرت عیسی علیہ السلام کے الفاظ کو خود اپنی وفات ظاہر کرنےکے لئے استعمال فرمانا صاف بتا رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان الفاظ کا ترجمہ "تو نے مجھے وفات دے دی" کے سوا کچھ نہ تھا۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ سنا کر اب میں اس بحث کو ختم کرتا ہوں۔ کیونکہ اب سوال یہ نہیں رہا کہ جماعت احمدیہ کا ترجمہ درست ہے کا غیر احمدی علماء کا۔ بلکہ یہ سوال ہوگیا ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترجمہ درست ہے یا ان علماء کا جو اس کے برعکس ترجمہ کرتےہیں۔

ترجمہ؟؟ یہاں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس آیت کا ترجمہ فرما رہے ہیں؟ کیا قرآن کی آیت جس کا حوالہ حضور پاک نے اپنی اس حدیث میں دیا ہے، اس کا کہیں ترجمہ بھی فرمایا ہے، یا کسی آیت کاحوالہ دینا اور کسی آیت کا ترجمہ کرنا آپ کے نزدیک برابر ہے؟ یہ ترجمہ کا لفظ آپ کے دماغ پر ایسا چڑھ گیا ہے کہ ہر چیز آپ کو کسی اور چیز کا ترجمہ ہی نظر آتی ہے۔

۲۔ اگر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلوں کو ماننے والے ہوتے تو یہ بحث بہت پہلے ہی ختم ہو جاتی۔لیکن احادیث سے تو گویا آپ کو اور آپ کے مرزا کو چڑ ہے۔چنانچہ مرزا کہتا ہے، میرے اس دعویٰ(یعنی دعوہ مسیحیت) کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی۔ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں ۔ اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔اگر حدیثوں کا دنیا میں وجود بھی نہ ہوتا تب بھی میرے اس دعویٰ کو کچھ حرج نہ پہنچتا تھا۔(خزائن ج ۱۹ ص ۱۴۰)

اب اس سے پتہ چلتا ہے کہ احادیث کی وقعت ان مرزائیوں کی نظر میں کیا ہے۔رانا کی نظر میں تفاسیر کچھ نہیں اور ان کے مربی کی نظر میں احادیث ردی ہیں ۔نعوذ باللہ۔

یہاں چونکہ رانا نے یہ دعوہ کرنے کو کوشش کی ہے کہ بخاری شریف کی اس حدیث میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ مائدہ کی آیت شریفہ([ARABIC]ما دمت فيهم فلما توفيتني[/ARABIC]) کا جو حوالہ دیا ہے، تو یہاں فلما توفیتنی سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ حضرت عیسیٰ بھی وفات پا چکے ہیں کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ نبی پاک کی وفات ہو چکی ہے، لہذا حضور نے حضرت عیسیٰ کا یہ قول (جو قرآن میں بیان ہوا ہے)دہرا کرگویا اس معاملے میں خود کو حضرت عیسیٰ سے تشبیہ دی ہے۔
تو او ل ،اب یہاں کسی ترجمہ کی تو بات ہے نہیں کہ رانا یہ کہیں کہ

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ سنا کر اب میں اس بحث کو ختم کرتا ہوں۔ کیونکہ اب سوال یہ نہیں رہا کہ جماعت احمدیہ کا ترجمہ درست ہے کا غیر احمدی علماء کا۔ بلکہ یہ سوال ہوگیا ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترجمہ درست ہے یا ان علماء کا جو اس کے برعکس ترجمہ کرتےہیں۔

بات صرف یہ ہے کہ حضور پاک نے جو حضرت عیسیٰ کا قول دہرا یا تو کیا واقعی اس سے حضرت عیسیٰ کی موت ثابت ہوتی ہے؟

حضور اقدس کی اس حدیث سے ہر گز یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہے ذرا اس حدیث پر غور کیجئے
[ARABIC]إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک فأقول کما قال العبد الصالح وکنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما توفيتني[/ARABIC]

یہاں یہ بات صاف ہے کہ یہ ویسا ہی ایک اعتذار ہے جو کہ حضرت عیسیٰ نے رب تعالیٰ کے حضور پیش کیا تھا اور یہاں الفاظ و مفہوم میں کلیتا یکسانی نہیں پائی جاتی کیونکہ کما قال العبد الصالح میں کما پر غور کرنے کی ضرورت ہے یہ جملہ حرف ک کے ساتھ ہے جو کہ تشبیہ کے لیے آیا ہے اس میں دونوں چیزوں کی کلی مطابقت مراد نہیں ہوتی ،جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ انبیا میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے [AYAH]كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُه [/AYAH] (جس طرح ہم نے پہلی بار پیدا کیا تھا دوبارہ بھی پیدا کریں گے) اب ہر انسان کی پیدائش دنیا میں تو مرد و عورت کے ملاپ کے بعد ایک خاص طریقے سے ہوتی ہے تو اگر کما کے لفظ سے کلی مطابقت مقصود ہوتی تو پھر قیامت کے دن اللہ پاک سب کو اسی طرح سے پیدا فرمائیں گے جیسا کہ دنیا میں ہر انسان کی پیدائش ہوئی تھی۔اور ایسا ہے نہیں۔
ایسا مضمون قرآن میں کئی جگہ آیا ہے۔
پھر مرزا نے بھی تشبیہ کے بارے میں لکھا ہے
"اور یہ ظاہر ہے کہ تشبیہات میں پوری پوری تطبیق کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات ایک ادنیٰ مماثلت کی وجہ سے بلکہ صرف ایک جزو میں مشارکت کے باعث سے ایک چیز کا نام دوسری چیز پر اطلاق کر دیتے ہیں مثلا ایک بہادر انسان کو کہ دیتے ہیں کہ یہ شیر ہے ۔"(خزائن ج ۳ ص ۱۳۸ حاشیہ)

اس طرح یہ ثابت ہو گیا کہ یہاں اقول کما قال میں حرف تشبیہ ہے جس میں کلی مطابقت ہر گز نہیں بلکہ محض ایک جزو میں موافقت کی بنا پر حرف تشبیہ ذکر کر دیا گیا ہے، وہ ہے اعتذار اور قول۔ گویا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں ارشاد فرما یا ہے کہ میں بھی بسلسلہ عذر کہوں گا جیسا حضرت عیسیٰ کہیں گے،کہ عیسیٰ کی قوم میں ان کی عدم موجودگی کی صورت میں خرابیاں پیدا ہو گئیں اس طرح میری امت میں خرابیاں واقع ہو گئیں میری عدم موجودگی میں۔اب یہاں اس سے بحث نہیں کہ غیر موجودگی کس طریقہ سے واقع ہوئی، طبعی وفات سے یا رفع الیٰ السما سے ، مبحوث عنہ فساد قوم ہے نہ کہ کیفیت غیر موجودگی۔
(اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ سابقہ پوسٹز میں بہت تفصیل یہ وضاحت ہو چکی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پہلی بار رفع الی السما ہوا ، ایک لمبا عرصہ وہ آسمان پر گزار کر وہ واپس آئیں گے ، پھر ان کا انتقال ہو گا یہ، مضمون قرآن و احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، لہذا حضرت عیسیٰ کی عدم موجودگی سے ان کا وہی عرصہ مراد ہو گا جو کہ انہوں نے آسمان پر گزارا)

اور اس سلسلے میں آخری بات یہ کہ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب کی کتاب سیف چشتیائی درحقیقت قادیانیوں پر تلوار بن کر گری۔آج تک تو قادیانی اس کا جواب لکھنے سے عاجز رہے ہیں تو رانا اس کا جواب کیا دیں گے؟


یہاں میں اب حضرت عیسیٰ کی حیات کے بارے میں کچھ اور نکات بیان کروں گا۔

اللہ پاک نے سورہ آل عمران آیت ۵۹ میں ارشاد فرمایا ہے
بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گیا

اب یہاں حضرت آدم اور حضرت عیسیٰ کے درمیان ایک مماثلت تو یہ بیان کی گئی کہ جس طرح حضرت آدم علیہ السلام بغیر باپ کے مٹی سے پیدا کی گئے تو حضرت عیسیٰ بھی بغیر والد کے ہی پیدا کیے گئے۔
درحقیقیت اس کے علاوہ بھی حضرت آدم و حضرت عیسیٰ کی زندگی میں مماثلت موجود ہے۔مثلا حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی حیات کا ایک حصہ اوپر آسمان پر گذارا، جنت میں رہے پھر وہ زمین پر اتارے گئے اور یہیں وفات پائی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدا ئش زمین پر ہوئی پھر اللہ نے کو حیات دنیوی کے ساتھااوپر آسمان پر اٹھا لیا وہاں وہ اپنی حیات کا ایک حصہ گزار کر واپس پھر دنیا میں بھیجے جائیں گے اور پھر یہیں وفات پائیں گئے۔ اس طرح عالم بشریت میں اور پوری انسانی تاریخ صرف یہی دو افراد ایسے ہیں ، جو نہ صرف بغیر باپ کے پیدا کیے گئے، کسی اسباب کے بغیر محض اللہ کے حکم سے ان کی پیدائش ہوئی، پھر یہی دو افراد ایسے ہیں جو اپنی زندگی کے ساتھ، مرے بغیر آسمان اور زمین دونوں میں مقیم رہے۔


حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پوری حیات طیبہ کا بیان قرآن اور احادیث نبویہ میں بڑی تفصیل سے آیا ہے ، خصوصا ان کے نزول من السما کے بعد کے واقعات اور حضرت عیسیٰ کے حلیہ، ان کی شناخت کے لیے تو بڑی وضاحت سے کام لیا گیا ہے، اور یہ علامتیں اتنی زیادہ واضح ہیں ، کہ کسی بھی کذاب و مفتری کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ حضرت عیسیٰ ہونے کا دعوہ کرے اور اس میں کامیاب ہو جائے۔اس میں یقنا اللہ پاک کی ایک مصلحت یہی ہے کہ آئندہ تا قیامت کوئی بھی مفتری اگر حضرت عیسیٰ ہونے کا دعوہ کرے تو اس کی شناخت بآسانی ہو جائے اور لوگ اس کے مکر و فریب سے محفوظ رہ سکیں ۔اور یہ بھی کہ جب حقیقی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں تو یہ امت جو آخری امت ہے باآسانی حضرت عیسیٰ کو پہچان لے ،اور ان کی برکات و فیوض سے مستفید ہو، اور ساتھ ہی چونکہ یہ عقائد کا معاملہ ہے ، تو اگر ان کی شناختی علامات اورپہچان میں کوئی شبہ کا موقعہ یا التباس کی گنجائش رہے اور امت ان کو نا پہچانے تو ایمان و کفر کا سوال پیدا ہوجاتا ہے اور امت کا ایمان خطرے میں پڑ جاتاہے۔اسی لیے رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرض تھا کہ حضرت مسیح کی پہچان کو اتنا روشن و فرما دیں کہ کسی بصیر انسان کو ان سے آنکھ چرانے کی مجال نہ رہے۔اللہ پاک کی اربوں ، کھربوں رحمتیں و درود اس روف رحیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہوں جس نے اس مسئلے کو اتنا صاف و روشن بنا دیا کہ اس سے زیادہ عادتا نا ممکن ہے۔
دنیا میں ایک شخص کی تعریف و پہچان کے لیے اس کا نام و ولدیت و سکونت وغیرہ دو تین اوصاف وغیر بتا دینا ایسا کافی ہو جاتا ہے کہ پھر اس میں کوئی شک باقی نہیں رہتا ۔ مگر ہمارے نبی نے حضرت عیسیٰ بن مریم کی ساری سوانح حیات، ان کے شمائل و خصائل ،حلیہ لباس اور عملی کارنامے ، بلکہ ان کے مقام نزول و جائے قرار اور مسکن و مدفن کا پورا جغرافیہ تحریر فرما دیا ہے ۔اور پھر اسی پر بس نہیں فرمائی بلکہ اپ کا شجرہ نسب اور آپ کے متعلقین تک کے احوال کو مفصل بتا دیا ہے۔(اس سلسلے میں مفتی شفیع عثمانی صاحب کی کتاب علامت قیامت بہت مفید ہے اور یہاں سے ڈاون لوڈ کی جا سکتی ہے۔)
مگر اس پر بھی بعض مفتری و کذاب ایسے ہیں کہ وہ دنیا میں مسیح موعود بنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور بعض لوگ ان کے ہمراہ دوزخ میں جانے کے لیے بے تاب کشا ں کشاں ان کی پیروی کرتے ہیں۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں جو بہت ساری نشانیاں احادیث میں بیان ہوئی ہیں مرزا نے جا بجا مختلف تاویلات رکیکہ کے ذریعے ان علامات و نشانیوں کو اپنے اوپر چسپاں کرنا چاہا ہے ، یعنی وہ بھی ان علامات و نشانیوں کو جو احادیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آئی ہیں درست مانتا تھا، ورنہ ان نشانیوں کا اطلاق کبھی اپنے اوپر کرنے کی کوشش نہ کرتا، اب یہاں میں کسی تفصیل میں جائے بغیر صرف دو مثالیں دیتا ہوں کہ کس طرح مرزا غلام احمد قادیانی بن غلام مرتضیٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم بننے کی کوشش کی ہے۔

مرزا لکھتا ہے کہ عیسیٰ بن مریم اس امت میں اس طرح پیدا ہو گا کہ پہلے کوئی فرد اس امت کا مریم بنایا جائے گا اور پھر بعد اس کے اس مریم میں عیسیٰ کی روح پھونک دی جائے گی پس وہ مریمیت کے رحم میں ایک مدت تک پرورش پا کر عیسیٰ کی روحانیت میں تولد پا ئے گااور اس طرح پر وہ عیسیٰ بن مریم کہلائے گا۔۔۔۔۔۔اس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی اور پردہ میں نشو نما پاتا رہا پھر جب اس پر دو برس گزر گے تو جیسا کہ براہین احمدیہ کے حصہ چہارم ص ۴۹۶ میں درج ہے مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھرایا گیا اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بزریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم ص ۵۵۶ میں درج ہے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پس اس طور میں ابن مریم ٹھرا۔۔۔خدا نے مجھے پہلے مریم کا خطاب دیا اور پھر نفخ روح کا الہام کیا ۔پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا۔فجاءہا المخاض الی جذع النخلۃ قالت یالیتنی مت قبل ہذا و کنت نسیا منسیا۔ یعنی پھر مرایم کو مراد اس عاجز سے ہے، درد زہ، تنہ کھجور کی طرف لے آئی یعنی عوام الناس اور جاہلوں اور بے سمجھ علام سے واسطہ پڑا ۔۔(خزائن جلد ۱۹ ص ۴۹، ۵۰، ۵۱)

اور اب دیکھیے کہ کس طرح حدیث میں وارد ایک علامت مسیح کو اپنے پر لادنے کی کوشش اس شخص نے کی ہے۔

ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ دو زرد کپڑوں میں نازل ہوں گے۔

مرزا لکھتا ہے کہا کہ احادیث میں ہے کہ مسیح موعود دو زرد چادروں میں اترے گا۔ ایک چادر بدن کے اوپر کے حصہ میں ہو گی اور دوسری چادر بدن کے نیچے کے حصہ میں ۔ سو میں نے کہا کہ یہ اس طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود دو بیماریوں کے ساتھ ظاہر ہو گا کیونکہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مراد بیماری ہے ۔اور وہ دونوں بیماریاں مجھ میں ہیں یعنی ایک سر درد کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری خزائن ج ۲۰ ص ۴۶۔ایک اور جگہ لکھا ہے کہ دوران سر کی شدت سے زمین پر گر جاتا ہوں اور دل کا دوران خون کم ہو جاتا ہے اور ہولناک صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہ آگے یہ لکھا ہے کثرت پیشاب بعض اوقات قریب سو دفعہ کے پیشاب دن رات میں آتا ہے ۔خزائن ج ۲۱ ص ۳۷۳۔
اب کوئی مرزائیوں سے پوچھے کیا یہی حضرت عیسیٰ کی نشانی ہے؟ استغفر اللہ۔ اور پھر حضرت عیسیٰ کے بارے میں جو پیش گوئی ہے کہ وہ دو زرد چادروں میں نازل ہوں گے یہ کوئی خواب تھوڑی ہے جس کی تعبیر کی ضرورت پیش آئے۔ یہ تووقوع پذیر ہونے والا ایک امر واقعہ ہے جس کے ساتھ دیگر نشانیاں بھی بیان کی گئیں ہیں جیسا کہ وہ فرشتوں کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر دمشق کے قریب نازل ہوں گے۔پھر حضرت عیسیٰ کی یہ چادریں تو سب کو نظر آئیں گی اور کیا مرزا کی بیماری بھی ایسی چیز ہے جو دکھائی دے، اور کوئی ہیئت رکھے؟

اسی طرح قادیان کو تاویلات فاسدہ سے دمشق بنانے کی کوشش کی گی، بلکہ چندہ کر کہ قادیان کے نزدیک ایک سفید منارہ بھی بنا دیا گیا، انگریزوں کو دجال اور ٹرین کو دجالی گدھا قرار دے دیا گیا۔اس قسم کی تمام حرکتیں اس شخص نے حضرت عیسیٰ بننے کے لیے کیں۔ اس سفید منارے کی تصویر دیکھئے جو مرزا نے قادیان کے نزدیک بنوانے کو کوشش کی ۔اور کیا خوب کوشش کی، یعنی حضرت عیسیٰ سفید منارہ کے پاس نازل ہوں گے یا نازل ہونے کے بعد سفید منارہ تعمیر کروائیں گئے۔ یعنی جھوٹ کے پاوں ہی نہیں بلکہ دماغ بھی نہیں ہوتا۔

aa.jpg


مگر وہ بھول گیا کہ اللہ ایسے دجالوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ ان تمام کوششوں کے بعد بھی اللہ رب العزت کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں یہ فرمان

[ARABIC]مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُم وَلَكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليماً[/ARABIC]

اور خود آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد

[ARABIC] أنا خاتم النبيين لا نبي بعدي[/ARABIC]

قیامت تک روشن ستارے کی طرح چمکتا اور ضیا بار رہے گا اور قیامت تک کہ لیے ہر جھوٹے مدعی نبوت کے حق میں دلیل قاطع کا کام کرتا رہے گا، اور قیامت تک کے سارے لوگ اس سے ہدایت پاتے رہیں گے۔


[ARABIC] فَبِاَيِّ حَدِيْثٍ بَعْدَ اللّٰهِ وَاٰيٰتِه يُؤْمِنُوْنَ[/ARABIC]
پس اللہ اور اس کی آیات کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے (الجاثیہ۔۶)​
 
اللہ پاک آپ کو بہترین جزاء دیں، آپ کی حوصلہ افزائی بہت شکریہ، شمشاد بھائی۔ساتھ ساتھ، محمود احمد غزنوی صاحب، سویدا صاحب ، اور دیگر احباب کا بھی شکریہ اور فورم کے ناظم اعلیٰ جناب نبیل صاحب کا بھی میں شکر گزار ہوں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top