حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا یا ۔۔۔۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

رانا

محفلین
حضرت عیسٰی علیہ السلام کی قبر کشمیر میں ہونے والی بات میں نے قادیانیوں سے منسوب سنی ہے یہ انکا ماننا ہے کہ انکو آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ وہ روپوش ہوگئے تھے اور بعد میں ہجرت کرکے کشمیر آگئے اور یہاں انکی قبر ہے

آپ نے بالکل درست سنا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر کشمیر میں ہونے کا انکشاف سب سے پہلے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہی نے اپنی کتاب "مسیح ہندوستان میں" میں کیا تھا اور دلائل سے اپنے موقف کو ثابت کیا تھا۔ یہاں اس کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ افغانوں اور کشمیریوں کے متعلق ٹھوس شواہد یہ بتاتے ہیں کہ وہ بنی اسرائیل کے گمشدہ دس قبائل ہیں۔ اور جب یہ ثابت ہوجائے تو پھر لازمی یہ سوال اٹھتا ہے کہ حضرت عیسی کا یہاں آنا بھی ناگزیر تھا کیونکہ وہ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے لہذا دو قبائل کو پیغام پہنچا کر باقی دس قبائل کی طرف ان کا ہجرت کرنا ایک لازمی امر تھا۔ اس صورت حال کو برعکس زاویئے سے دیکھیں تو بھی یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ کشمیر میں ایک دو ہزار سال پرانی قبر کا پتہ ملنا اور پھر ایسے ٹھوس شواہد کا ظاہر ہوجانا جو اس طرف اشارہ کریں کہ یہ قبر مسیح کی ہے تو پھر اتنی دور ان کی آمد کا جواز سوائے اس کے اور کوئی نہیں ملتا کہ وہ گمشدہ دس قبائل کی تلاش میں اس طرف آئے تھے اور ان کو پیغام پہنچا کر یہیں فوت ہوئے۔ بہرحال اس بات کے دلائل دینا کہ یہ قبر انہی کی ہے، اس دھاگے سے شائد مماثلت نہ رکھے۔ اس لئے میں یہاں صرف وہ باتیں ہی شئیر کروں گا جو افغانوں اور کشمیریوں کی بنی اسرائیل سے مماثلت ظاہر کریں۔
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن قرآن تو کہتا ہے کہ وہ زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے تھے اور دوبارہ دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اُمتی بن کر اتارے جائیں گے، تو پھر قبر کا ہونا اور ثابت کرنا چہ معنی دارد؟
 
[ARABIC]فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِآيَاتِ اللَّ۔هِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللَّ۔هُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا ۔۔۔۔۔۔وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا [/ARABIC]۔ سورة النساء : آيات 155 تا 159
ترجمہ : (یہ سزا تھی) بہ سبب ان کی عہد شکنی کے اور احکام الٰہی کے ساتھ کفر کرنے کے اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کر ڈالنے کے، اور اس سبب سے کہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہے۔ حالانکہ دراصل ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے، اس لئے یہ قدر قلیل ہی ایمان لاتے ہیں (١٥٥) اور ان کے کفر کے باعث اور مریم پر بہت بڑا بہتان باندھنے کے باعث (١٥٦) اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کے لئے ان (عیسیٰ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا۔ یقین جانو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں، انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا (١٥٧) بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے (١٥٨) اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لاچکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواه ہوں گے (١٥٩)

ان آيات كريمہ ميں یہود كو سزا ملنے كے جو اسباب بتائے گئے ہیں ان ميں سے ايك جرم يہ بھی ہے کہ وہ دعوى كرتے تھے كہ انہوں نے حضرت عيسى عليہ السلام كو قتل كر ديا تھا جب كہ قرآن كريم وضاحت سے بيان كرتا ہے کہ اللہ تعالى نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ آخرى آيت ميں دليل ہے کہ قيامت سے پہلے وہ دنيا ميں تشريف لائیں گے اور تمام اہل كتاب ان پر ان كى موت سے قبل ايمان لائيں گے۔ مستقبل كا صيغہ واضح دلالت كرتا ہے کہ ايسا نزول قرآن كريم كے بعد ہوگا۔ يعنى ابھی حضرت عيسى عليہ السلام حيات ہیں اور زندہ شخص كا مقبرہ دريافت كرنا كوئى معنى نہیں رکھتا۔
 

رانا

محفلین
شمشاد بھائی قرآن میں تو ایسا کوئی ذکر نہیں کہ وہ زندہ آسمان پر اٹھا لئے گئے تھے۔ البتہ اسکے برعکس ان کی وفات کا کئی جگہ ذکرملتا ہے۔ ان کے آسمان پر زندہ ہونے کا عقیدہ اسلام میں بہت بعد میں پھیلا ہے۔ اسکی تفصیل اصل موضوع کو دھندلا دے گی اس لئے اگرآپ چاہیں تو نئے دھاگے میں اس پرتفصیل سے تبادلہ خیال کیا جاسکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ذرا اوپر والا پیغام جو کہ ام نور العین صاحبہ نے لکھا ہے پھر سے پڑھ لیں۔ انہوں نے قرآن کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اور یہ اُس قرآن سے حوالہ دیا ہے جو کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اُترا تھا۔
 

رانا

محفلین
ذرا اوپر والا پیغام جو کہ ام نور العین صاحبہ نے لکھا ہے پھر سے پڑھ لیں۔ انہوں نے قرآن کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اور یہ اُس قرآن سے حوالہ دیا ہے جو کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اُترا تھا۔

شمشاد بھائی کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ام نورالعین صاحبہ کا پیغام نئی جگہ منتقل کردیا جائے تاکہ وہاں اس پر اظہار خیال کیا جائے۔ کیونکہ پھریہ دھاگے میں دھاگہ شروع ہوجائے گا۔ اگر آپ نیا دھاگہ کھول لیتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ پھر آپ کی اجازت سے اسی دھاگے میں کچھ ذکرکردیتا ہوں۔
 

عثمان

محفلین
احمدیوں کے عقیدہ سے تو متفق نہیں۔ لیکن قرآن میں "زندہ" اٹھا لینے کا ذکر کہاں سے آگیا؟۔ صرف اٹھا لینے کا ذکر ہے۔ وہ لفظ وفات کے بعد اٹھا لینے پر بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ زندگی ڈالنے کے لئے آپ کو احادیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ نیز آجکل آسمان سے کسی شخص کے زندہ سلامت نازل ہونے کو ثابت کرنے کے لئے آپ کو استدلال کو لات مار کر بہت سے چھلانگیں لگانا پڑیں گی۔
 

عثمان

محفلین
ذرا اوپر والا پیغام جو کہ ام نور العین صاحبہ نے لکھا ہے پھر سے پڑھ لیں۔ انہوں نے قرآن کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اور یہ اُس قرآن سے حوالہ دیا ہے جو کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اُترا تھا۔

آپ پڑھیے اور بتائیے مذکورہ آیات میں کہاں لکھا ہے کہ اللہ نے "زندہ" اٹھا لیا؟
 

عثمان

محفلین
رانا صاحب
یہ قبر آپ لوگوں نے کہاں سے دریافت کرلی؟
کوئی حوالہ ، کوئی ثبوت؟ یا آپ بھی بس ادھر اُدھر کی روایات پر اکتفا کرنا چاہتے ہیں۔
 

سویدا

محفلین
اِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۝۰ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝۵۵
یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا (ف۱۱۱) اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا (ف۱۱۲) اور تجھے کافروں سے پاک کردوں گا اور تیرے پیروؤں کو (ف۱۱۳) قیامت تک تیرے منکروں پر (ف۱۱۴) غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے تو میں تم میں فیصلہ فرمادوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔
رآن مجید میں عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے لیے "متوفیک" اور "توفیتنی" یعنی وفات کا لفظ استعمال ہوا ہے جو موت کا مترادف ہے لہٰذا عیسیٰ علیہ السلام کی موت واقع ہو چکی ہے اور اب وہ دنیا میں تشریف نہیں لانے والے ہیں۔ اس قسم کی باتیں وہ شخص ہی کر سکتا ہے جو پہلے سے اپنے ذہن میں ایک عقیدہ بٹھا کر‌قرآن مجید سے اپنے حق میں دلائل کشید کرنا چاہتا ہو خواہ اس کے لیے اسے صحیح احادیث اور ائمہ امت کی تصریحات سے بے نیاز ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ خیر، یہ آپ کی اپنی مرضی ہے کہ آپ قرآن مجید کی وہ تفسیر پسند کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائی ہے یا پھر اپنی عقل سے کلام اللہ کے نئے معنی متعین فرماتے ہیں۔ ہمارے لیے آپ کے پیش کیے ہوئےاشکال کو رفع کرنے کے لیے یہی امر کافی ہے کہ لغت کے اعتبار سے "وفات" کا لفظ‌ بہت سے معنوں میں‌استعمال ہوتا ہے جن میں ایک مطلب "واپس لینا"‌ بھی ہے اور ان آیات میں یہی مطلب مراد ہے۔ خود قرآن مجید میں "وفات"کا اطلاق نیند پر کیا گیا ہے مثلا:
وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ (الانعام)
"اور وہی ہے جو تمہیں رات کو "وفات" دیتا ہے"
اللَّهُ يَتَوَفَّى الأنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا [ الزمر : 42 ]
"اللہ وفات دیتا ہے جانوں کو موت کے وقت اور جو مری نہیں ہیں انہیں نیند میں"
عربی کی معتبر ترین لغت لسان العرب سے "وفات" کے دو مزید استعمال دیکھیے۔
تَوَفَّيْتُ المالَ منه
لفظی مطلب: "میں نے اس کے مال کو "وفات" دے دی"
حقیقی مراد: "میں نے اس سے سارا مال واپس لے لیا"
ایک اور مثال:
تَوَفَّيْتُ عَدَد القومِ
لفظی مطلب: "میں نے قوم کے افراد کی تعداد کو وفات دی"
حقیقی مراد: "میں نے قوم کے افراد کو شمار کیا"
ان مثالوں‌سے واضح ہوتا ہے کہ عربی زبان میں "وفات"‌کا مطلب ہمیشہ "موت"‌نہیں ہوتا، بلکہ اگر کوئی شخص محض ‌لغت کی مدد سے ترجمہ کرنے بیٹھے تو وہ قائل کی حقیقی مراد سے بہت دور جا پڑے گا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیےکہ محض لغت کی مدد سے قرآن کی تفسیر نہیں کی جا سکتی۔ قرآن کریم کی تفسیر ایک انتہائی نازک اور مشکل کام ہے جس کے لیے صرف عربی زبان جان لینا کافی نہیں بلکہ تمام متعلقہ علوم میں مہارت ضروری ہے۔ افسوس ہے کہ کچھ عرصے سے مسلمانوں میں یہ خطرناک وبا چل پڑی ہے کہ بہت سے لوگوں نے صرف عربی پڑھ لینے کو تفسیر قرآن کے لیے کافی سمجھ رکھا ہے، چنانچہ جو شخص بھی معمولی عربی زبان پڑھ لیتا ہے وہ قرآن کریم کی تفسیر میں رائے زنی شروع کر دیتا ہے بلکہ بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ عربی زبان کی نہایت معمولی شدبد رکھنے والے لوگ، جنہیں عربی پر بھی مکمل عبور نہیں ہوتا، نہ صرف من مانے طریقے پر قرآن کی تفسیر شروع کر دیتے ہیں بلکہ پرانے مفسرین کی غلطیاں نکالنے کے درپے ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ بعض ستم ظریف تو صرف ترجمے کا مطالعہ کر کے اپنے آپ کو قرآن کا عالم سمجھنے لگتے ہیں اور بڑے بڑے مفسرین پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے۔
ہمارے اور آپ کے درمیان مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ صحیح احادیث، علماء، فقہاء اور ائمہ امت کی تصریحات اور ان کے چھوڑے ہوئے علمی کام کو دریا برد کر کے اپنی عقل اور لغت کے بھروسے پر قرآن مجید کے نئے معنی متعین فرمانا چاہتے ہیں۔ بنیادی سوال صرف یہ ہے کہ جن آیات میں عیسیٰ علیہ السلام کے لیے "وفات" کا لفظ آیا ہے وہاں اس کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائے ہوئے مطلب سےکی جائے یا کسی متجدد کے فہم و دانش کو معیار مانا جائے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ احادیث سے عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد معلوم ہے۔ ایک صحیح حدیث ملاحظہ کیجیے:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قریب ہے کہ تم میں ابن مریم حاکم عادل بن کر اتریں گے، پس وہ صلیب کو توڑ دیں گے، اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ اٹھا دیں گے۔ ۔ ۔۔ "
اس حدیث کو درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے اور محدثین نے جانچ پرکھ کے کڑے اصولوں پر پرکھنے کے بعد اسے "صحیح"قرار دیا ہے۔
صحیح البخاری کتاب البیوع باب قتل الخنزیر
صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکما بشریعۃ نبینا
سنن ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء فی نزول عیسیٰ ابن مریم
مستخرج ابی عوانہ کتاب الایمان باب ثواب من آمن بمحمد صلی اللہ علیہ و علی‌آلہ وسلم
مصنف عبدالرزاق کتاب الجامع باب نزول عیسیٰ ابن مریم
مسند احمد بن حنبل باقی مسند المکثرین مسند ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ
صحیح ابن حبان کتاب التاریخ باب ذکر خبر قد یوھم من لم یحکم صناعۃ الحدیث ان خبر
سنن البیہقی جلد 6 ص 110
علاوہ ازیں قرآن کریم کی ایک آیت سے بھی عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کا اشارہ نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (النساء 159)
"اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہ بچے گا جو اس (عیسیٰ علیہ السلام) کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے۔ اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا"
مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے ہاں معتبر تفسیر ابن کثیر میں اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ:
وذلك حين ينزل إلى الأرض قبل يوم القيامة
"یہ واقعہ تب ہو گا جب عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے زمین پر دوبارہ نازل ہوں گے"
 

عثمان

محفلین
یعنی قرآن کو معنی چڑھانے کے لئے اس کی آیات کافی نہ تھی۔ ہر قسم کی احادیث اور روایات کی ملاوٹ آیات کے ساتھ کی جائے پھر ہی مذکورہ آیات سے آپ کے من پسند معانی اخذ ہوتے ہیں۔ جو الزام آپ دوسروں کو دینے جارہے ہیں آپ خود ہی اس کا شکار ہوچکے ہیں۔
رہی آپ کی تذکرہ کردہ آیت ، تو عیسی علیہ السلام کو زندہ کئے بغیر بھی اس کی بہت اچھی تشریح موجود ہے۔
 

سویدا

محفلین
آیت:
وَ اِنَّہ لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِھَاوَاتَّبِعُوْنِ،ھٰذَا صِرَاطُ مُّسْتَقِیْمُ" اور یقیناَ وہ (عیسٰی) قیامت کی علامت ہے پس تم قیامت کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہی سیدھی راہ ہے۔
(سورہ الزخرف:٤٣ ، آیت٦١)
اس آیت میں عیسٰی علیہ اسلام کے بارے میں بیان کیا جارہا ہے کہ وہ قیامت کی علامت ہیں اس آیت کے بارے میں حضرت ابن عباس سے قول منقول ہے (لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ)یعنی علامتِ قیامت سے مرا د نزول عیسٰی علی اسلام ہیں ،
دیکھئے
(تفسیرطبری،تفسیرقرطبی،تفسیر ابن کثیر)اور ایک حدیث سے بھی ابن عباس کے قول کی تائید ہوتی ہے۔
مفہوم حدیث:
حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برآمد ہوئے ہم پر اور ہم باتیں کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیا باتیں کر رہے ہو ہم نے کہا ہم قیامت کا ذکر کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت نہیں قائم ہو گی جب تک دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے ان نشانیوں میں سے ایک نزول عیسٰی بھی ہے
(صحیح مسلم کتاب الفتن جلد٦،ابن ماجہ کتاب الفتن باب قیامت کی نشانیاں جلد٣ ،ترمذی کتاب الفتن باب زمین کا دھنس جاناجلد٢)
نزول عیسٰی علیہ اسلام قیامت کی علامت ہے جیسا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اورابن عباس کےاس قول سے جو اس آیت کے بارے میں بیان ہواہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں(لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ) سے مراد عیسٰی علیہ اسلام کی دوبارہ آمد ہے، یہا ں نزول عیسٰی علیہ اسلام کے حوالے سے یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ معترضین کا یہ کہنا ہے کہ یہ تصور احادیث سے منتقل ہوا ہے تو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ اس بارے میں کوئی اشارہ کسی حدیث میں بیان ہوا ہو یا کسی ایک حدیث میں یہ بات بیان ہوئی ہوجس سے یہ تصور کیا گیا ہو بلکہ نزول عیسٰی علیہ اسلام کے بارے میں کثرت کے ساتھ روایات موجود ہیں اور صحابہ کرام کی کثیر جماعت نے اسے روایت کیا ہے اس کےبعد تابعین محدثین مفسرینِ قرآن سب کا اس بات(نزول عیسٰی علیہ اسلام)پراجماع ہے یہاں تک کہ ابن کثیرنے سورہ النساء آیت١٥٦،١٥٩کی تفسیرمیں بیان کیا ہےکہ اِن تمام روایات کو ایک جگہ جمع کرنا بہت مشکل ہےاوریہ روایات تواتر کے ساتھ موجود ہیں۔
مفہومِ حدیث:
ابوہریرہ نےبیان کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے وہ زمانہ قریب ہے عیسٰی تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سےنزول کریں گے وہ صلیب کو توڑ دیں گے ،سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گےاس وقت مال ودولت کی اتنی کثرت ہو جائی گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اورایک سجدہ دنیا ا ور ما فیہا سے بڑھ کر ہو گاپھرابوہریرہ نے فرمایا کہ تمھارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو اور کوئی اہلِ کتاب ایسا نہیں ہو گا جو حضرت عیسٰی کی موت سے پہلے ایمان نہ لاچکےاور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہوں گے۔
(صحیح بخاری کتاب الانبیاء)
مفہومِ حدیث:
ابوہریرہ سےروایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اور عیسٰی کے درمیان کوئی نبی نہ ہوگا اور بیشک عیسٰی اتریں گے جب تم ان کودیکھو توپہچان لووہ ایک شخص ہیں متوسط قدوقامت کے رنگ ان کا سرخی اورسفیدی کے درمیان میں ہے وہ زرد کپڑے ہلکے رنگ کے پہنے ہوں گےان کےبالوں سے پانی ٹپکتا معلوم ہوگا اگرچہ وہ تربھی نہ ہوں گے وہ لوگوں سے جہا د کریں گے اسلام قبول کرنےکے لئےاور توڑڈالیں گےصلیب کواورقتل کریں گے سورکو اورموقوف کردیں جزیے کواورتباہ کر دے گااللہ تعالٰی ان کےزمانے میں سب مذہبوں کو سوا اسلام کے اور ہلاک کریں گے وہ دجال مردودکو پھر دنیا میں رہیں گے چالیس برس تک بعد اس کےان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان پرجنازے کی نمازپڑھیں گے
(سنن ابوداؤدکتاب الملاحم باب دجال کا نکلناجلد٣)
مفہومِ حدیث:
ابوہریرہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب مریم کے بیٹے اُتریں گے تم لوگوں میں پھر امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے(ابن ابی ذئب نے کہا جو( راوی حدیث ہیں)امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے مراد ہے کہ عیسٰی امامت کریں گے اللہ کی کتاب اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے (یعنی تابع ہوں گے شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور پیروی کریں گے قرآن و حدیث کی)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی جلد اول بمع شرح امام نووی)
مفہومِ حدیث:
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے میں نے سنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ہمیشہ ایک گروہ میری امت کا لڑتا رہے گا حق پر قیامت کے دن تک وہ غالب رہے گا ۔پھر عیسٰی اتریں گے اور اس گروہ کا امام کہے گا نماز پڑھایئے وہ کہیں گے تم میں سے ایک دوسرے پر حاکم رہیں ۔یہ وہ بزرگی ہے جو اللہ تعا لٰی عنایت فرماوے گا اس امت کو( صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی جلد اول)اس کے علاوہ یہ روایات(بخاری کتاب الانبیاء جلد دوئم،مسلم کتاب الایما ن اور کتاب الفتن باب فتح قسطنطنیہ جلد اول،سنن ابوداؤدکتاب الملاحم باب دجال کا نکلناجلد٣ ،صحیح مسلم کتاب الفتن جلد٦،ابن ماجہ کتاب الفتن باب قیامت کی نشانیاں اورخروج دجال جلد٣ ،ترمذی کتاب الفتن باب زمین کا دھنس جانا اور نزول عیسٰی اور قتل دجا ل جلددوئم ،مسند احمد،تفسیرابن کثیر)میں بیان ہوئی ہیں۔
 

رانا

محفلین
رانا صاحب
یہ قبر آپ لوگوں نے کہاں سے دریافت کرلی؟
کوئی حوالہ ، کوئی ثبوت؟ یا آپ بھی بس ادھر اُدھر کی روایات پر اکتفا کرنا چاہتے ہیں۔

عثمان صاحب ظاہر ہے کہ ثبوت کے بغیر اتنی بڑی دریافت کسی کو ہضم نہیں ہوسکتی۔ اس لئے بہت سے شواہد اور ثبوت اس قبر کے متعلق ہیں۔ اب منتظمین نے کیونکہ اسی دھاگے میں سب کو کھلی چھوٹ دے دی ہے تو پھر کچھ انتظار فرمائیں آپ کو کچھ مفید حوالےانشاء اللہ مہیا کرنے کی کوشش کروں گا۔
 

سویدا

محفلین
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن ہی کی تشریح اور تبیین ہے
و أنزلنا إلیک الذکر لتبین للناس ما نزل إلیہم ولعلہم یتفکرون
 
علاوہ ازیں قرآن کریم کی ایک آیت سے بھی عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کا اشارہ نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (النساء 159)
"اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہ بچے گا جو اس (عیسیٰ علیہ السلام) کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے۔ اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا"
مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے ہاں معتبر تفسیر ابن کثیر میں اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ:
وذلك حين ينزل إلى الأرض قبل يوم القيامة
"یہ واقعہ تب ہو گا جب عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے زمین پر دوبارہ نازل ہوں گے"
جزاك اللہ خيرا ، صرف يہ ايك آيت كريمہ نہیں، ايك دوسرى جگہ حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت سے پیشتر اللہ تعالى كا وعدہ يوں مذكور ہے:
[ARABIC]إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّ۔هَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ ﴿٤٥﴾وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ ﴿٤٦﴾[/ARABIC]
جب فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہے جو دنیا اور آخرت میں ذیعزت ہے اور وه میرے مقربین میں سے ہے (٤٥)وه لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی اور وه نیک لوگوں میں سے ہوگا (٤٦)

اس آيت كريمہ ميں وعدہ ہے كہ سيدتنا مريم عليها السلام كا لڑكا گہوارے كى عمر اور ادھیڑ عمر ميں لوگوں سے خطاب كرے گا ۔ حضرت عيسى عليہ السلام نوجوانى كے عالم ميں اٹھا لیے گئے جب دوبارہ تشريف لائيں گے تو حسب وعدہ ء ربانى ادھیڑ عمر كو پہنچیں گے۔ ومن أصدق من اللہ قيلا ؟ یہ محض اشارے نہیں واضح آيات ہیں۔
 

سویدا

محفلین
آیت:
وَ اِنَّہ لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِھَاوَاتَّبِعُوْنِ،ھٰذَا صِرَاطُ مُّسْتَقِیْمُ"
اور یقیناَ وہ (عیسٰی) قیامت کی علامت ہے پس تم قیامت کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہی سیدھی راہ ہے۔
(سورہ الزخرف:٤٣ ، آیت٦١)

اس آیت میں عیسٰی علیہ اسلام کے بارے میں بیان کیا جارہا ہے کہ وہ قیامت کی علامت ہیں اس آیت کے بارے میں حضرت ابن عباس سے قول منقول ہے (لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ)یعنی علامتِ قیامت سے مرا د نزول عیسٰی علی اسلام ہیں ،
دیکھئے
(تفسیرطبری،تفسیرقرطبی،تفسیر ابن کثیر)اور ایک حدیث سے بھی ابن عباس کے قول کی تائید ہوتی ہے۔

مفہوم حدیث:
حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برآمد ہوئے ہم پر اور ہم باتیں کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیا باتیں کر رہے ہو ہم نے کہا ہم قیامت کا ذکر کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت نہیں قائم ہو گی جب تک دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے ان نشانیوں میں سے ایک نزول عیسٰی بھی ہے
(صحیح مسلم کتاب الفتن جلد٦،ابن ماجہ کتاب الفتن باب قیامت کی نشانیاں جلد٣ ،ترمذی کتاب الفتن باب زمین کا دھنس جاناجلد٢)

نزول عیسٰی علیہ اسلام قیامت کی علامت ہے جیسا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اورابن عباس کےاس قول سے جو اس آیت کے بارے میں بیان ہواہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں(لَعِلْمُ لِّلسَّاعَۃِ) سے مراد عیسٰی علیہ اسلام کی دوبارہ آمد ہے، یہا ں نزول عیسٰی علیہ اسلام کے حوالے سے یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ معترضین کا یہ کہنا ہے کہ یہ تصور احادیث سے منتقل ہوا ہے تو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ اس بارے میں کوئی اشارہ کسی حدیث میں بیان ہوا ہو یا کسی ایک حدیث میں یہ بات بیان ہوئی ہوجس سے یہ تصور کیا گیا ہو بلکہ نزول عیسٰی علیہ اسلام کے بارے میں کثرت کے ساتھ روایات موجود ہیں اور صحابہ کرام کی کثیر جماعت نے اسے روایت کیا ہے اس کےبعد تابعین محدثین مفسرینِ قرآن سب کا اس بات(نزول عیسٰی علیہ اسلام)پراجماع ہے یہاں تک کہ ابن کثیرنے سورہ النساء آیت١٥٦،١٥٩کی تفسیرمیں بیان کیا ہےکہ اِن تمام روایات کو ایک جگہ جمع کرنا بہت مشکل ہےاوریہ روایات تواتر کے ساتھ موجود ہیں۔
فہومِ حدیث:
ابوہریرہ نےبیان کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے وہ زمانہ قریب ہے عیسٰی تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سےنزول کریں گے وہ صلیب کو توڑ دیں گے ،سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گےاس وقت مال ودولت کی اتنی کثرت ہو جائی گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اورایک سجدہ دنیا ا ور ما فیہا سے بڑھ کر ہو گاپھرابوہریرہ نے فرمایا کہ تمھارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو اور کوئی اہلِ کتاب ایسا نہیں ہو گا جو حضرت عیسٰی کی موت سے پہلے ایمان نہ لاچکےاور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہوں گے۔
(صحیح بخاری کتاب الانبیاء)
مفہومِ حدیث:
ابوہریرہ سےروایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اور عیسٰی کے درمیان کوئی نبی نہ ہوگا اور بیشک عیسٰی اتریں گے جب تم ان کودیکھو توپہچان لووہ ایک شخص ہیں متوسط قدوقامت کے رنگ ان کا سرخی اورسفیدی کے درمیان میں ہے وہ زرد کپڑے ہلکے رنگ کے پہنے ہوں گےان کےبالوں سے پانی ٹپکتا معلوم ہوگا اگرچہ وہ تربھی نہ ہوں گے وہ لوگوں سے جہا د کریں گے اسلام قبول کرنےکے لئےاور توڑڈالیں گےصلیب کواورقتل کریں گے سورکو اورموقوف کردیں جزیے کواورتباہ کر دے گااللہ تعالٰی ان کےزمانے میں سب مذہبوں کو سوا اسلام کے اور ہلاک کریں گے وہ دجال مردودکو پھر دنیا میں رہیں گے چالیس برس تک بعد اس کےان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان پرجنازے کی نمازپڑھیں گے
(سنن ابوداؤدکتاب الملاحم باب دجال کا نکلناجلد٣)

مفہومِ حدیث:
ابوہریرہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب مریم کے بیٹے اُتریں گے تم لوگوں میں پھر امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے(ابن ابی ذئب نے کہا جو( راوی حدیث ہیں)امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے مراد ہے کہ عیسٰی امامت کریں گے اللہ کی کتاب اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے (یعنی تابع ہوں گے شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور پیروی کریں گے قرآن و حدیث کی)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی جلد اول بمع شرح امام نووی)

مفہومِ حدیث:
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے میں نے سنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ہمیشہ ایک گروہ میری امت کا لڑتا رہے گا حق پر قیامت کے دن تک وہ غالب رہے گا ۔پھر عیسٰی اتریں گے اور اس گروہ کا امام کہے گا نماز پڑھایئے وہ کہیں گے تم میں سے ایک دوسرے پر حاکم رہیں ۔یہ وہ بزرگی ہے جو اللہ تعا لٰی عنایت فرماوے گا اس امت کو( صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی جلد اول)اس کے علاوہ یہ روایات(بخاری کتاب الانبیاء جلد دوئم،مسلم کتاب الایما ن اور کتاب الفتن باب فتح قسطنطنیہ جلد اول،سنن ابوداؤدکتاب الملاحم باب دجال کا نکلناجلد٣ ،صحیح مسلم کتاب الفتن جلد٦،ابن ماجہ کتاب الفتن باب قیامت کی نشانیاں اورخروج دجال جلد٣ ،ترمذی کتاب الفتن باب زمین کا دھنس جانا اور نزول عیسٰی اور قتل دجا ل جلددوئم ،مسند احمد،تفسیرابن کثیر)میں بیان ہوئی ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میرے خیال میں حضرت عیسی علیہ السلام کے دنیا میں واپس آنے کے موضوع پر پہلے بھی بحث ہو چکی ہے اور ثابت کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ خیر، میرا یہاں اس بحث میں پڑنے کا ارادہ نہیں ہے، مجھے صرف یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ تھریڈ اب کس نہج پر جا رہا ہے؟
 

رانا

محفلین
ام نورالعین صاحبہ! آپ نے جو آیت پیش کی ہے
"بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے"

1- اس میں آسمان کی طرف اٹھائے جانے کا کہیں ذکر نہیں۔
2- زندہ اٹھائے جانے کا بھی کوئی ذکر نہیں۔

اگر ذکر ہے تو یہ کہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ اب اگر اللہ کی طرف اٹھائے جانے کے معنے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے کیئے جائیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خداتعالی آسمان تک محدود ہے۔ کیا اسلامی تعلیم کی رو سے خدا ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں؟ کیا وہ زمین پر موجود نہیں؟ تو پھر کیوں زبردستی اس آیت میں سے آسمان کا مفہوم نکالا جاتا ہے؟ کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہئے حضرت عیسی سے ہی یہ خاص عنایت کیوں کہ اگر ان کے لئے "رفع" کا لفظ یا اللہ کی طرف جانے کا ذکرآئے تو آسمان لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایسے الفاظ آئیں تو تمام علماء اس کا مطلب "درجات کی بلندی" کے کرتے ہیں۔ یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہے کہ مچھلی پانی میں ہو اور پانی اسے کہے کہ میری طرف آجا تو وہ کس طرف جائے گی؟ اسکے تو چاروں طرف پانی ہی پانی ہے!

تمام مقربان الہی آسمان ہی طرف اٹھائے جاتے ہیں اس میں حضرت عیسی کی کوئی خصوصیت نہیں۔ یہ چند آیات پر غور کریں۔

1- حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ کے ایک شخص "بلعم باعور" کی نسبت فرمایا:
" اگر ہم چاہتے تو ان نشانوں کے ذریعہ اس کا "رفع" کرتے۔ لیکن وہ تو خود زمین کی طرف جھک گیا۔" (الاعراف:177)
تمام علما یہاں پر"رفع" کا مطلب درجات کی بلندی کے کرتے ہیں۔ کوئی ایک بھی عالم نہیں جو یہ کہتا ہو کہ اگر اللہ چاہتا تو اسکو آسمان پر اٹھا لیتا لیکن وہ تو خود زمین کی طرف چلا گیا۔

2- حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
"میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں"۔ (الصافات: 100)
یہاں پر آپ کیا ترجمہ کریں گے کہ وہ آسمان پر چلے گئے؟

3- ہرمسلمان کی وفات پر پڑھا جاتا ہے کہ:
"انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اللہ ہی طرف ہم جائیں گے" (البقرہ:157)۔
یہاں پر کیوں آسمان کی طرف جانے کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ اللہ کی طرف جانے کا ہی ذکر ہے۔

4- البتہ کافروں اور بدکاروں کے متعلق لکھتا ہے کہ ان کی روحیں آسمان پر نہیں جاسکتیں۔
"مکذبوں اور متکبروں کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے"۔ (الاعراف: 41)

5- حضرت ادریس علیہ السلام کے لئے اونچے مقام پر اٹھائے جانے کا ذکر آتا ہے (58 : 19) ۔ یہاں پر رفع سے کیا مراد لیں گے؟

6- پھراللہ تو ہر مسلمان کو یہ حکم دیتا ہے کہ:
"اللہ کی طرف دوڑو"- (51:51)
تو کیا یہاں آسمان کی طرف دوڑنے کا حکم دیا جارہا ہے؟

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ابن ماجہ میں آتا ہے کہ آپ نماز میں یہ دعا پڑھتے "وارفعنی" اے اللہ مجھے رفع عطا کر۔
اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے کلام میں اور نبیوں کی اصطلاح میں رفع سے مراد رفع روحانی ہوتا ہے نہ کہ رفع جسمانی۔

اب جب کہ ایسی ہی آیات قرآن میں حضرت عیسی علیہ السلام کے علاوہ دوسرے انبیاء اورلوگوں کے لئے بھی آتی ہیں یہاں تک کہ خود مسلمانوں کو اللہ کی طرف دوڑنے کا حکم ملتا ہے تو اب یہ آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ اس بات کی وضاحت کریں کہ تمام قرآن میں دوسرے انبیا اور لوگوں کے لئے تو ایک جیسے معنی "درجات کی بلندی" کے کئے جائیں لیکن صرف ایک خاص جگہ پرمعنی فورآ تبدیل کردیئے جائیں۔

اب بجلی جانے والی ہے۔ کل انشاء اللہ قرآن سے وہ آیات پیش کروں گا جو ان کی وفات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
 

رانا

محفلین
نبیل بھائی اس بحث کا موضوع ان کا دوبارہ واپس آنا نہیں ہے۔ صرف ان کی حیات یا وفات ہے۔ البتہ حضرت عیسی کے امت میں نازل ہونے کے بارے میں جو احادیث ہیں ان کو تو میں بھی درست مانتا ہوں۔ لیکن یہ عقیدہ کہ وہی پہلے والے عیسی دوبارہ آئیں گے یہ ایک الگ بحث ہے۔ اسی لئے اس وقت میں نے اپنے آپ کو صرف ان کی وفات پر بات کرنے تک محدود رکھا ہے۔ درمیان میں اگر ضرورت پڑی تو اس بات پر بھی کچھ روشنی ڈالوں گا کہ جس عیسی کے اس امت میں آنے کی خبر احادیث میں ہے انہی احادیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ پہلے والے عیسی بنفس نفیس نہیں آئیں گے کیونکہ وہ تو وفات پاچکے ہیں۔ بلکہ احادیث سے ثابت ہے کہ کسی نئے وجود کو عیسی سے بعض مشابہتوں کی بنا پر ابن مریم کا نام دیا گیا ہے۔

تھیریڈ کی نہج کے بارے میں مجھے پہلے ہی اندازہ تھا اسی لئے شمشماد بھائی سے کہتا رہا کہ اسے نئے دھاگے میں منتقل کردیں لیکن وہ مانے ہی نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اللہ خیر کرے۔ اب یہ نیا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے۔ لگتا ہے اس دھاگے کا انجام بھی وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top