حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا یا ۔۔۔۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

رانا

محفلین
مرزا غلام احمد اپنے کتاب میں لکھتا ہے۔
کہ انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گزرے تھےکہ بجائے خدا کی پرستش کےایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی یعنی حضرت عیسیٰ خدا بنائے گئے۔
۳۔آپ لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ۱۲۰ سال کی عمر میں کشمیر میں فوت ہوئے(جیسا کہ آپنے ابھی قبولا ہے)
تو پھر تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ یا تو
۱۔ اگر انجیل کے ۳۰ برس کے بعد عیسائیوں میں شرک پھیل گیا توظاہر بات حضرت عیسیٰ کو لازما علم ہو جانا تھا عیسائیوں میں شرک پھیل گیا ہے کیونکہ بقول آپ کے وہ اس وقت حیات تھے اس طرح اب آپ توفی کے معنی کیا لیں گئے اور اپنی اس منطق کا کیا کریں گئے جو آُ پ نے اپنی پوسٹ نمبر ۲۳ میں بیان کی ہے؟

محترم ذرا اسے غور سے پڑھیں کہ اس حوالہ میں انجیل کا ذکر ہے مسیح کی ہجرت کا ذکر نہیں۔ اور انجیل اس وحی کے مجموعے کے نام ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام پران کی وفات تک نازل ہوتی رہی۔ جس طرح قرآن مجید آنحضرت صلیہ اللہ علیہ وسلم کی وفات تک نازل ہوتا رہا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف اُسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور اس کے بعد کے پغمبر وں کی طرف بھیجی تھی۔ پس چشمہ معرفت کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات (جو 120 سال کی عمر میں ہوئی تھی) کے تیس برس گزرنے کے بعد عیسائی بگڑ گئے نا یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں ہی ان کی پرستش شروع ہوگئی تھی۔ جناب یہ تو بالکل سیدھی اور واضع بات تھی جو آپ کو سمجھ نہیں آئی۔

میں آپ کی بعض باتوں کا جواب عمدآ چھوڑ دیتا ہوں۔ کیوں کہ جن باتوں یا اعتراضات میں کوئی کوئی حقیقت نہیں ہوتی بلکہ واضع طورپران کا کھوکھلا پن نظر آرہا ہوتا ہے تو میں اسکا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کیوں مجھے پتہ ہوتا ہے کہ دوسرے پڑھنے والے اگر تعصب سے ہٹ کر دیکھیں گے تو خود ہی آپ کے دلائل کا کھوکھلا پن محسوس کرلیں گے۔ کیوں کہ میرا مقصد آپ کو منوانا نہیں اور نہ ہی آپ مانیں گے۔ لہذا بحث برائے بحث سے بچتا ہوں۔ یہ اعتراض بھی آپ اپنی گزشتہ پوسٹ میں کر چکے تھے۔ لیکن اب دوبارہ دہرانے سے ایسا لگا کہ شائد آپ اس کو بہت جاندار اعتراض سمجھتے ہیں تو اس لئے جواب دینا ضروی سمجھا۔ اب اس اعتراض پر جو آپ نے اتنی بڑی عمارت کھڑی کی تھی وہ تو خودبخود ہی زمین بوس ہوگئی۔


مرزا نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ "میرے اوپر یہ کشفا ظاہر کیا گیا کہ یہ زہر ناک ہوا جو عیسائی قوم میں پھیل گئی ہے حضرت عیسیٰ کو اس کی خبر دی گئی(خزائن ج۵ ص) اور
"خدا تعالیٰ نے اس عیسائی فتنے کے وقت میں یہ فتنہ حضرت مسیح کو دکھایا گیا یعنی اس کو آسمان پر اس فتنہ کی اطلاع دی گئی(خزائن ج ۳ ص ۴۰۵)

جناب میں نے مذکورہ جلد دیکھ لی ہے لیکن مجھے تو کہیں یہ حوالہ نہیں ملا۔ آپ سے گزارش ہے کہ کتاب کا نام اورصفحہ درج کریں۔ آپ نے تو "روحانی خزائن" کی جلد کا نمبر دے دیا۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ روحانی خزائن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب نہیں۔ بلکہ آپ کی تمام 80 سے زائد کتابوں کو بعد میں ایک سیٹ کی شکل میں 23 جلدوں میں شائع کیا گیا ہے۔ اس سیٹ کا نام "روحانی خزائن" رکھا گیا ہے۔ اور ایک ایک جلد میں کئ کئی کتابیں شامل ہیں۔ آپ کے پاس تو تمام کتابیں موجود ہیں جس جلد کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس صفحے پر اوپر دائیں کارنر پر کتاب کا نام بھی لکھا ہوگا۔ اس کتاب کا نام اور صفحہ درج کردیں تو پھرہی اس پر کوئی بات کی جاسکتی ہے۔ اور امید ہے کہ جلد ہی اور ضرور درج کریں گے۔

یہاں لسان العرب میں یہ قاعدہ کہاں بیان ہوا ہے کہ جب کبھی اللہ فاعل ہو رفع کا لفظ ہو انسان مفعول ہو تو لازمی رفع مجازی ہوگا؟ میں یہاں نہ صرف لغت عرب بلکہ تاریخ سے کئی مثالیں پیش کر سکتا ہوں کہ باوجود اس کہ اللہ فاعل ہو رفع کا لفظ ہو انسان مفعول ہو لیکن رفع جسمانی ہو لیکن پہلے آپ صریح الفاظ میں یہ قاعدہ مذکور دکھائیں۔

محترم لسان العرب کی عبارت تو بہت واضع ہے اور کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے اگر کوئی قاعدہ آپ کے سامنے چیلنج کے طور پر رکھا ہے تو باقاعدہ اس کا حوالہ دیا ہے جبکہ آپ رفع کے لئے خود ہی قاعدے ایجاد کرتے ہیں اور کسی لغت وغیرہ سے ثابت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ظاہر ہے آپ کیسے ثابت کریں گے لغات پہلے کی ہیں اور آپ کا خود ساختہ قاعدہ بے چارہ بعد کی پیدائش ہے۔ اور آپ لغت عرب سے کئی مثالیں پیش کرسکتے ہیں تو کردکھائیں کس نے روکا ہے؟ یہ کیا بچوں کی سی حرکت ہے کہ پہلے صریح الفاظ میں قاعدہ دکھائیں پھر مثالیں پیش کریں گے۔ صریح الفاظ میں ہی قاعدہ دکھایا گیا ہے۔ لیکن چلیں آپ اپنا بچگانہ پن چھوڑیں اور صریح الفاظ کی ضد کئے بغیر لغت سے مثالیں دکھائیں۔
 
اب میں یہاں کچھ احادیث اور اقول ائمہ پیش کر دوں تاکہ یہ بات بالکل واضح ہو جائے کہ امت مسلمہ کا یہی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کا رفع جسد کے ساتھ آسمان کی طرف ہوا اور قرب قیامت وہ نازل ہو کر قتل دجال کا کام کریں گئے ۔
یہاں میں یہ بھی بتا تا چلوں کہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنی زندگی کے ۵۲ سا لوں تک اس عقدیے پر قائم رہا کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ آسمانوں سے نازل ہوں گئے اور براہین احمدیہ نامی کتاب میں قرآن اور اپنے الہامات کی رو سے انہون نے یہی عقیدہ تحریر کیا۔۱۸۸۹ میں جب کہ قادیانی جماعت کی بنیاد رکھی گئی تو اس کا یہی عقیدہ تھا تاہم دو سال بعد یعنی ۱۸۹۱ میں اچانک کہ دیا کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص الہام سے یہ ظاہر فرما دیا ہے کہ اب حضرت عیسیٰ نہیں آئیں گئے اور خود مرزا اب مسیح بن گئے ہیں۔یہی نہیں بلکہ صا ف طور پر مرزا نے یہ بھی لکھا ہے کہ وفات مسیح کا عقیدہ مجھ پر کھولا گیا اس سے پہلے پردہ اخفا میں رکھا گیا تھا (خزائن ج ۵ ص ۴۲۶)
اب رانا یہ بتائیں کہ جب یہ معاملہ صرف مرزا پر ہی کھولا گیا تو اس سے پہلے کہ وہ لوگ جیسا کہ رانا نے ابن عربی ، امام مالک، حسن بصری وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ وہ وفات عیسیٰ کے قائل ہیں ان کو کیسے پتہ چلا کہ حضرت عیسیٰ وفات پا گئے ہیں۔اب یا تو ان بزرگوں نے یہ بات کہی نہیں اور یا مرزا جھوٹا ہے ۔ بتائیں کون سی بات ٹھیک ہے؟اب احادیث ملاحظہ کیجئے
سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے، رسول اﷲ نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تمہارے درمیان ایک عادل حکمران کی حیثیت سے نزول فرماہوں گے ۔ وہ صلیب کو توڑ کر )اسکاخاتمہ کر) ڈالیں گے۔ خنزیر کو قتل کردیں گے۔ جزیہ کو ختم کردیں گے۔ اور مال ودولت کی اس قدرریل پیل ہوجائے گی کہ کوئی اسے لینے کو تیار نہ ہوگا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: تم چاہوتو یہ آیت پڑھ کردیکھ لو :
[ARABIC]وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا )159) )النساء) [/ARABIC]
اور اھل کتاب میں سے کوئی بھی ایسانہ ہوگا جو اس کی یعنی مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے گا اور وہ )مسیح) قیامت کے دن ان لوگوں کے خلاف گواہ ہوگا ۔ )صحیح البخاری ، کتاب الانبیاء ، حدیث:۳۴۴۸ ۔باب نزول عیسیٰ بن مریم صحیح مسلم، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً)

(۲)سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کابیان ہے رسول اﷲ نے فرمایا:

" اﷲ کی قسم عیسیٰ بن مریم ایک عادل حکمران کی حیثیت سے تشریف لائیں گے۔ وہ صلیب کو توڑ کر اس کا خاتمہ کردیں گے۔ خنزیر کو قتل کرڈالیں گے، جزیہ کا خاتمہ کردیں گے۔ اونٹوں کا استعمال متروک ہوجائے گا، اوران پر سواری یاباربرداری نہ ہوگی، لوگوں کا آپس میں غصہ، ناراضگی اوربغض وعناد بالکل ختم ہوجائے گا۔ وہ مال و دولت کے لئے لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے تو دولت کی کثرت کی وجہ سے کوئی آدمی دولت لینے کے لئے آمادہ نہ ہوگا۔")صحیح مسلم، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً)

(۳)سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن ہم آپس میں قیامت کے متعلق گفتگو کررہے تھے کہ نبی ﷺ تشریف لائے آپ نے دریافت فرمایا: کیسامذاکرہ ہورہاہے؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم قیامت کے متعلق گفتگو کررہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک بپانہ ہوگی جب تک تم اس سے پہلے دس بڑی بڑی نشانیاں نہ دیکھ لوگے۔ آپ نے ان میں سے ایک نشانی ’’نزول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام‘‘ بیان فرمائی۔(صحیح مسلم ، کتاب الفتن)

(۴) سیدنا نواس ابن سمعان رضی اﷲ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے کہ دجّال کا فتنہ ظہور پذیر ہوچکا ہوگا اور وہ لوگوں کو شعبدے دکھا دکھاکر اپنی طرف مائل اور کفر میں لے جارہاہوگا۔ اسی دوران اﷲ تعالیٰ مسیح ابن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا ۔ وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارہ پر نزول فرماہوں گے، زرد رنگ کے دوکپڑوں)چادروں) میں ملبوس ہوں گے، اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے کاندھوں پر رکھے ہوں گے ۔ سرکو جھکائیں گے تو پانی کے قطرے گریں گے۔ اور جب سرکو اوپر کی طرف اٹھائیں گے تو اس سے صاف شفاف پانی کے قطرے سفید موتیوں کی طرح نظر آئیں گے۔ ان کی سانس جس کا فر تک جائے گی وہ مرتاچلاجائے گا اور ان کی سانس کی ہوا وہاں تک جائے گا جہاں تک ان کی نگاہ جائے گی ۔ وہ دجّال کا پیچھا کرتے ہوئے اسے )دمشق کی فصیل کے ) ’’باب لُدّ‘‘ کے قریب جاکر قابو کرکے اسے قتل کرڈالیں گے۔(صحیح مسلم، باب ذکر الدجال)

(۵) سیدنا عبداﷲ بن عمروبن العاص رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے رسو ل اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے پہلے دجّال کا ظہور ہوگا۔ وہ چالیس )سال ، مہینے یادن کا و ضاحت نہیں) کا عرصہ گذارے گا۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو بھیجے گا۔ ان کا حلیہ عروہ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کا ساہوگا۔ وہ(عیسیٰ علیہ السلام)اس (دجّال) کا پیچھا کرکے اسے قتل کردیں گے۔ اس کے بعد لوگ سات سال کا عرصہ اس قدر خوشی سے گزاریں گے کہ دو آدمیوں کے درمیان بغض وعداوت نہ ہوگی۔)صحیح مسلم، باب ذکرالدجال)
(۶) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عیسیٰ بن مریم علیہما السلام ’’فج الروحاء‘‘ کے مقام پر حج )افراد) یاعمرہ یادونوں)یعنی حج تمتّع) کا تلبیہ پکاریں گے۔)صحیح مسلم، الحج، باب جواز التمتع فی الحج والقران)

(۷) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا تم اس وقت کس حال میں ہوگے جب عیسیٰ بن مریم تمہارے درمیان(آسمان) سے نزول فرماہوں گے اورتمہاراامام تم ہی میں سے (یعنی اسی امت کا ایک فرد) ہوگا۔)صحیح مسلم، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً)

(۸)سیدنا جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی ﷺ کو فرماتے سنا کہ میری امت میں قیامت تک ایک ایساگروہ موجود رہے گا جو حق کی خاطر قتال کرتا رہے گا۔ قیامت تک غالب رہے گا۔ تاآنکہ عیسیٰ ابن مریم علیہماالسلام(آسمان سے) نزول فرماہوں گے تو مسلمانوں کا امیر(امام مہدی) ان سے کہے گا کہ آئیں نماز پڑھائیں۔ تو وہ فرمائیں گے کہ نہیں۔ تم ہی میں سے کوئی لوگوں پر امیر (امام) ہوگا۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کو اعزاز دیاجائے گا۔ (صحیح مسلم، بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکماً)

(۹) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے (کہ قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت آئے گا) کہ لوگ نماز کی صفیں درست کررہے ہوں گے ۔ نماز کے لئے اقامت کہی جائے گی۔ اسی دوران عیسیٰ بن مریم علیہما السلام آسمان سے نزول فرماہوں گے۔ اس وقت امت محمدیہ کے ایک فرد)امام مہدی) نماز پڑھائے گا اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام امت کی قیادت فرمائیں گے۔ انہی دنوں دجّال کا ظہور ہوگا۔ اﷲ کا دشمن (دجّال) انہیں دیکھے گاتو وہ اس طرح پگھلنے لگے گا جیسے پانی میں نمک پگھل جاتاہے ۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام اسے یونہی چھوڑدیں گے تب بھی وہ ہلاک ہوجائے گا۔ تاہم اﷲ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دجّال کو قتل کرائے گا۔(صحیح مسلم ، کتاب الفتن)

(۱۰) سیدنا عبداﷲ بن عمر و رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایاکہ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام زمین پر نزول فرماہوں گے ،
نکاح کریں گے، ان کے ہاں اولادہوگی وہ(کُل) پنتالیس سال عمر پائیں گے۔ بعدازاں ان کی وفات ہوگی۔ اور وہ میرے ساتھ میری قبر میں مدفون ہوں گے۔ قیامت کے دن میں اور عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی قبر سے ابوبکر و عمر رضی اﷲعنہ کے درمیان اٹھیں گے۔ (الوفاء لابن الجوزی - مشکوٰۃ المصابیح، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام۔حدیث نمبر ۵۵۰۸)

(۱۱) ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا بیان ہے ، میں نے عرض کیا اﷲ کے رسول! میراخیال ہے کہ میں آپ کے بعد کچھ عرصہ زندہ رہوں گی تو کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ مجھے آپ کے پہلو میں دفن کردیاجائے ؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں اس کی اجازت کیسے دے سکتاہوں۔ وہاں تو میری، ابوبکر ، عمر ، عیسیٰ ابن مریم علیہماالسلام کی قبور ہی کی جگہ ہوگی۔ (منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد جلد۶ص:۵۷)

(۱۲) سیدنا عبد اﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ تورات میں محمد ﷺ کی صفات کے ضمن میں یہ بھی مکتوب ہے کہ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام ان کے قریب مدفون ہوں گے۔ ابومودود)راوی) نے بیان کیاکہ بیت عائشہ رضی اﷲ عنہا میں ایک قبر کی جگہ اب بھی باقی ہے۔ (جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی جلد۴ ص: ۲۹۵ کتاب لمناقب باب۳)

(۱۳) سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: انبیاء ان بھائیوں کی طرح ہیں جن کے باپ ایک اورمائیں مختلف ہوں۔ بنیادی طور پر ان سب کا دین ایک ہی ہے۔ میں باقی لوگوں کی نسبت عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کے قریب ترہوں۔ کیونکہ ان کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں۔ وہ (دوبارہ) دنیا میں آنے والے ہیں۔ تم انہیں دیکھتے ہی پہچان لوگے۔ ان کا قددرمیانہ، رنگ سرخی مائل گوراہوگا ، وہ زرد لباس میں ملبوس ہوں گے، یوں محسوس ہوگا کہ ان کے سرسے پانی کے قطرے گررہے ہیں اگرچہ اسے پانی نہ لگا ہوگا، وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ کا خاتمہ کردیں گے اور لوگوں کو حقیقی دین اسلام کی طرف بلائیں گے اﷲ تعالیٰ ان کے زمانے میں (ان ہی کے ہاتھوں ) دجّال کا خاتمہ کرے گا۔ زمین پر مکمل امن، سکون ہوگااور اس قدرآسودگی ہوگی کہ شیر اور اونٹ، چیتے اور گائے، بھیڑ اور بکریاں بے خوف وخطر اکٹھے چرتے ہوں گے، بچے سانپوں کے ساتھ کھیلتے ہوں گے اور سانپ ان کو کچھ بھی نہ کہیں گے ۔ عیسیٰ علیہ السلام زمین پر چالیس برس گزاریں گے اس کے بعد ان کی وفات ہوگی ، مسلمان ان کی نماز جنازہ اداکریں گے اور پھر ان کی تدفین عمل میں آئے گی۔(تفسیر ابن کثیر جلد۱ ص:۵۷۸ ۔سنن ابی داؤد ، الفتح الربانی ترتیب مسند احمدجلد۱۹ ص: ۱۴۳ مسنداحمد جلد ۲ ص: ۴۳۷)
یہ صرف چند احادیث ہیں اب کچھ اقوال ملاحظہ کیجئے

حضرت ابن عباس
تفسیر روح المعانی میں ہے
امام قرطبی فرماتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر موت ونیند کے زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور ابن عباس کا صحیح قول یہی ہے(جز ۳ ص ۱۵۸)

درمنثور ج۲ ص ۳۶ میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے آیت کریمہ انی متوفیک و رافعک الی کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا"حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ میں تجھے سر دست اٹھانے والا ہوں پھر آخری زمانے میں تجھے وفات دینے ولا ہوں۔

تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص ۵۷۴ میں حضرت ابن عباس نے ماقتلوہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا"اور حضرت عیسیٰ کو مکان کے روشن دان سے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا۔ ابن کثر کے مطابق اس کی اسناد درست ہیں۔

اب جو رانا نے حضرت ابن عباس کے بارے میں اپنی پوسٹ نمبر ۲۴ میں لکھا ہے کہ
انہوں نے صحیح بخاری میں متوفیک کا مینی ممیتک کربیان کرکے اپنا عقیدہ صاف ظاہر کیا کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں۔

تو اس کے قائل نہ حضرت ابن عباس ہیں جیسا کہ ظاہر ہو گیا اور نہ امام بخاری ہیں جن کے بارے میں ابھی بتاوں گا۔ یہاں یہ البتہ بتا دوں کہ یہاں تقدیم و تاخیر کا مسئلہ ہے حضرت ابن عباس درحقیقت رفع کی تقدیم اور وفات کی تاخیر کے قئل ہیں چنانچہ

ان کے شاگرد خاص ضحاک سے منقول ہے کہ آیت میں تقدیم وتاخیر ہے۔ درمنثور ص ۳۶ ج ۲ میں مذکور ہے کہ "ضحاک کہتے ہیں کہ ابن عباس متوفیک و رافعک کی تفسیر میں یہ فرماتے تھے کہ حضرت مسیح کا رفع مقدم ہے اور ان کی وفات اخیر زمانہ میں ہو گی۔"

پس اگر حضرت ابن عباس سے متوفیک کی تفسیر ممیتک ہے تو ان سے تقدیم و تاخیر بھی مروی ہے ساتھ ہی دیگر اقوال بھی جن سے وہ حیات و نزول عیسیٰ کے قائل ہیں۔اب کوئی ڈھیٹ ہی یہ کہے گا کہ حضرت ابن عباس حضرت عیسیٰ کی موت کے قائل تھے۔

امام ابو حنیفہ
فقہ اکبر میں فرماتےہیں "دجال اور یاجوج ماجوج کا نکلنا اور آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا اور عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا اور دیگر علامات قیامت جیسا کہ احادیث صحیحہ ان میں وارد ہوئی ہیں سب حق ہیں ضرور ہوں گی( شرح فقہ اکبر ص ۱۳۶)

امام مالک
شرح اکمال الاکمال میں عتیبہ کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ امام مالک فرماتے تھے کہ "لوگ نماز کے لیے تکبیر کہ رہے ہوں گئے کہ ایک بدلی چھا جائے گی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گئے (ج ۱ ص ۴۳۶)

نیز علامہ زرقانی مالکی (جو مالکی فقہ کے ایک ممتاز عالم ہیں) لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو اوپر زندہ حالت میں اٹھا یا گیا۔( شرح مواہب ج۵ص۳۵۱)

علامہ زرقانی نے ہی شرح مواہب میں حضرت عیسی کی آنحضرت کے ساتھ تدفین کا بھی بیان کیا ہے(شرح مواہب ج۱ ص ۱۱۶) اب یہاں رانا نے جو مجمع البحار سے جو امام مالک کا قول نقل کیا ہے تو اب اس بے سند اور مشکوک قول کی حیثیت کچھ نہیں کیوں کہ امام مالک و فقہ مالکی کے ایک ممتاز عالم کے اقوال سے ثابت ہو گیا کہ مالکی حضرات بھی حیات عیسیٰ سے قائل ہیں ۔

امام حسن بصری
تفسیر در منثور ج ۲ ص ۲۴۱ میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے"بے شک اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف آسمان پر اٹھا لیا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ بھیجیں گے۔ تب ان پر تمام نیک و بد ایمان لائیں گئے"

تفسیر ابن کثیر ص ۳۶۶ ج ۱ میں آپ کی روایت سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ"آنحضرت نے یہود سے فرمایا کہ عیسیٰ فوت نہیں ہوئے اور وہ قیامت سے پہلے دوبارہ لوٹ کر آئیں گئے۔

اب ان روایات کی موجودگی کیا طبقات کا ایک قول نقل کرنا ہی صداقت ہے۔ یہ قول تاریخ کی ایک کتاب میں درج ہے جس کی کوئی سند نہیں ۔ پھر طبقات ابن سعد میں ہی حضرت ابن عباس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ " تحقیق مسیح بمع جسم کے اٹھایا گیا ہے و لاریب اس وہ زندہ ہے، دنیا کی طرف آئے گا اور بحالت شاہانہ زندگی بسر کرے گا پھر دیگر انسانوں کی طرح فوت ہو گا"
اس روایت کو بیان کر کہ ابن سعد نے کوئی جرح نہیں کی تو ہم کیوں نہ اس روایت کو قبول کریں اور پھر حضرت حسن بصری کے دیگر اقوال بھی ان کے صحیح عقیدہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔پھر مزے کی بات یہ بھی ہے کہ یہی روایت درمنثور ج ۲ ص ۳۶ میں بھی مذکور ہے اور یہاں لیلہ قبض موسیٰ کے الفاظ ہیں ۔
مستدرک حاکم ج ۴ ص ۱۲۱ میں بالکل یہی روایت حضرت حسن سے بیان ہوئی ہے اس کےراوی حریث ہیں ۔" حریث کہتے ہیں کہ میں نے حسن سے سنا کہ حضرت علی اس رات قتل کیے گئے کہ جس رات قرآن اترا ، حضرت عیسیٰ سیر کرائے گئے اور حضرت موسیٰ قبض کیے گئے" لہذا یہ ظاہر ہے کہ طبقات میں یہ روایت پوری نقل ہونے سے رہ گئی ہے اور حضرت حسن کا بھی عقیدہ حیات عیسیٰ کا ہی ہے۔
بقیہ جوابات جلد ہی۔
 
محترم ذرا اسے غور سے پڑھیں کہ اس حوالہ میں انجیل کا ذکر ہے مسیح کی ہجرت کا ذکر نہیں۔ اور انجیل اس وحی کے مجموعے کے نام ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام پران کی وفات تک نازل ہوتی رہی۔ جس طرح قرآن مجید آنحضرت صلیہ اللہ علیہ وسلم کی وفات تک نازل ہوتا رہا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف اُسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور اس کے بعد کے پغمبر وں کی طرف بھیجی تھی۔ پس چشمہ معرفت کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات (جو 120 سال کی عمر میں ہوئی تھی) کے تیس برس گزرنے کے بعد عیسائی بگڑ گئے نا یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں ہی ان کی پرستش شروع ہوگئی تھی۔ جناب یہ تو بالکل سیدھی اور واضع بات تھی جو آپ کو سمجھ نہیں آئی۔

دیکھیے نزول انجیل کے تیس برس کے بعد تثلیث پھلیی ہو یا حضرت عیسیٰ کے وفات پا جانے کے بعد دونوں صورتوں میں وبال آپ کی ہی گردن پر ہے وکی پیڈیا میں ایک آرٹیکل ہے Trinity_of_the_Church_Fathers اس میں تثلیث کے بارے میں یہ بتا یا گیا ہے کہ عیسائیوں میں یہ عقیدہ 110 عیسوی سے قبل کا ہے
"Ignatius, second bishop of Antioch, who was martyred in Rome around 110 AD,[1] wrote a series of letters to churches in Asia Minor on his way to be executed in Rome. The conjunction of Father, Son and Holy Spirit appears in his letter to the Magnesian church.
“ Study, therefore, to be established in the doctrines of the Lord and the apostles, that so all things, whatsoever ye do, may prosper both in the flesh and spirit; in faith and love; in the Son, and in the Father, and in the Spirit; in the beginning and in the end; with your most admirable bishop, and the well-compacted spiritual crown of your presbytery, and the deacons who are according to God. Be ye subject to the bishop, and to one another, as Jesus Christ to the Father, according to the flesh, and the apostles to Christ, and to the Father, and to the Spirit; that so there may be a union both fleshly and spiritual."
اب اگر حضرت عیسیٰ 120 برس کی عمر میں کشمیر میں فوت ہوئے اور 30 سال کے بعد عیسائیوں میں تثلیث پھیلی تو یہ تاریخی ثبوت جو 110 عیسوی سے پہلے ہی عیسائیوں میں تثلیث کا پتہ دے رہا ہے اس کا آپ کیا کریں گے؟

میں آپ کی بعض باتوں کا جواب عمدآ چھوڑ دیتا ہوں۔ کیوں کہ جن باتوں یا اعتراضات میں کوئی کوئی حقیقت نہیں ہوتی بلکہ واضع طورپران کا کھوکھلا پن نظر آرہا ہوتا ہے تو میں اسکا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کیوں مجھے پتہ ہوتا ہے کہ دوسرے پڑھنے والے اگر تعصب سے ہٹ کر دیکھیں گے تو خود ہی آپ کے دلائل کا کھوکھلا پن محسوس کرلیں گے۔ کیوں کہ میرا مقصد آپ کو منوانا نہیں اور نہ ہی آپ مانیں گے۔ لہذا بحث برائے بحث سے بچتا ہوں۔ یہ اعتراض بھی آپ اپنی گزشتہ پوسٹ میں کر چکے تھے۔ لیکن اب دوبارہ دہرانے سے ایسا لگا کہ شائد آپ اس کو بہت جاندار اعتراض سمجھتے ہیں تو اس لئے جواب دینا ضروی سمجھا۔ اب اس اعتراض پر جو آپ نے اتنی بڑی عمارت کھڑی کی تھی وہ تو خودبخود ہی زمین بوس ہوگئی۔

آپ کیا پوری قادیانی ذریت ان کا جواب نہیں دے سکتی اگر آپ ان اعتراضات کو کمزور سمجھتے ہیں تو یہ بھی دلائل سے بتانا ضروری ہے کہ ایسا کیوں ہے ورنہ دوسرے الفاظ میں اب آپ لا جواب ہو چکے ہیں۔انشاء اللہ یہاں جتنی باتیں آپ نے کیں ہیں میں ان میں سے ہر ایک کا جواب دوں گا گو کہ میرے نزدیک یہ محض وقت کا زیاں ہے آپ لوگوں کی ڈھٹائی میں اچھی طرح واقف ہوں۔

جناب میں نے مذکورہ جلد دیکھ لی ہے لیکن مجھے تو کہیں یہ حوالہ نہیں ملا۔ آپ سے گزارش ہے کہ کتاب کا نام اورصفحہ درج کریں۔ آپ نے تو "روحانی خزائن" کی جلد کا نمبر دے دیا۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ روحانی خزائن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب نہیں۔ بلکہ آپ کی تمام 80 سے زائد کتابوں کو بعد میں ایک سیٹ کی شکل میں 23 جلدوں میں شائع کیا گیا ہے۔ اس سیٹ کا نام "روحانی خزائن" رکھا گیا ہے۔ اور ایک ایک جلد میں کئ کئی کتابیں شامل ہیں۔ آپ کے پاس تو تمام کتابیں موجود ہیں جس جلد کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس صفحے پر اوپر دائیں کارنر پر کتاب کا نام بھی لکھا ہوگا۔ اس کتاب کا نام اور صفحہ درج کردیں تو پھرہی اس پر کوئی بات کی جاسکتی ہے۔ اور امید ہے کہ جلد ہی اور ضرور درج کریں گے۔

یہ دونوں حوالے آئینہ کمالات اسلام کے ہیں پہلا حوالہ آئینہ کمالات اسلام ص 254 خزائن ص 254 ج 5)( خزائن کی پانچویں جلد محض آئینہ کمالات اسلام پر ہی مبنی ہے)
دوسرا حوالہ کمالات اسلام 268 خزائن جلد 5 ص 268 یہ حوالہ اس صفحے کے حاشیے پر ہے)
محترم لسان العرب کی عبارت تو بہت واضع ہے اور کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے اگر کوئی قاعدہ آپ کے سامنے چیلنج کے طور پر رکھا ہے تو باقاعدہ اس کا حوالہ دیا ہے جبکہ آپ رفع کے لئے خود ہی قاعدے ایجاد کرتے ہیں اور کسی لغت وغیرہ سے ثابت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ظاہر ہے آپ کیسے ثابت کریں گے لغات پہلے کی ہیں اور آپ کا خود ساختہ قاعدہ بے چارہ بعد کی پیدائش ہے۔ اور آپ لغت عرب سے کئی مثالیں پیش کرسکتے ہیں تو کردکھائیں کس نے روکا ہے؟ یہ کیا بچوں کی سی حرکت ہے کہ پہلے صریح الفاظ میں قاعدہ دکھائیں پھر مثالیں پیش کریں گے۔ صریح الفاظ میں ہی قاعدہ دکھایا گیا ہے۔ لیکن چلیں آپ اپنا بچگانہ پن چھوڑیں اور صریح الفاظ کی ضد کئے بغیر لغت سے مثالیں دکھائیں۔

میری بات بچکانہ نہیں بلکہ آپ کی احمقانہ ہے جو دعوہ آپ کر رہے ہیں جب تک وہ دعوہ ثابت نہیں ہو جاتا بات کیسے آگے بڑھے گی آپ اس چیز کے مدعی ہیں کہ ایسا قاعدہ موجود ہے۔ اب لسان العرب سے جو حوالہ آپ نے نقل کیا ہے وہ بالکل غیر متعلق ہے اس میں ایک عمومی بات کی گئی ہے جبکہ آپ ایک خصوصی قاعدے کے مدعی ہیں تو جب تک یہ خصوصی قاعدہ الفاظ صریحہ سے آپ نقل نہیں کرتے مجھ پر اس کا جواب دینا ضروری نہیں؟ کیا جس بات کے آپ مدعی ہیں اس کا ثبوت دینے سے انکاری ہیں؟
 

رانا

محفلین
جناب یہ بالکل درست ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے براھین احمدیہ میں حیات مسیح کا عقیدہ بیان کیا تھا۔ اور اسی کتاب میں اپنے وہ الہامات بھی درج کئے تھے جن میں اللہ تعالی نے آپ کو عیسی ابن مریم کہہ کر پکارا تھا۔ لیکن اس وقت آپ کیونکہ ان الہامات کو ظاہر پرمحمول نہیں کرتے تھے اسی لئے ان الہامات کے ساتھ اسی کتاب میں یہ بھی لکھ دیا کہ عیسی آسمان سے نازل ہوں۔ یہ بھی ان کی سچائی کا نشان ہے کہ اگر آپ کا یہ خود بنایا ہوا منصوبہ ہوتا تو اپنی پہلی ہی کتاب میں ان الہامات کو اپنی ذات پر چسپاں کرلیتے۔ لیکن جیسا کہ ہر نبی نبوت سے پہلے اپنی قوم کے عقائد پر ہوتا ہے ویسا ہی آپ نے بھی عوام الناس سے سن کر یہی عقیدہ رکھا ہوا تھا۔

اس کے بارے میں آپ اپنی کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم میں فرماتے ہیں:
"تم خود گواہ ہو کہ اُس وقت اور اُس زمانہ میں مجھے اس آیت پر اطلاع بھی نہ تھی کہ میں اس طرح پر عیسی مسیح بنایا جاؤں گا بلکہ میں بھی تمہاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسی بن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ اور باوجود اس بات کے کہ خداتعالی نے براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرا نام عیسی رکھا اور جو قرآن شریف کی آیتیں پیشگوئی کے طور پر حضرت عیسی کی طرف منسوب تھیں وہ سب آیتیں میری طرف منسوب کردیں اور یہ بھی فرمادیا کہ تمہارے آنے کی خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے مگر پھر بھی میں متنبہ نہ ہوا اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طور پر لکھ دیا اورشائع کردیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ اور میری آنکھیں اُس وقت تک بالکل بند رہیں جب تک کہ خدا نے بار بارر کھول کر مجھ کو نہ سمھایا کہ عیسی بن مریم اسرائیلی فوت ہوچکا ہے اور وہ واپس نہیں آئے گا اس زمانہ اور اس امت کے لئے تو ہی عیسی بن مریم ہے۔ یہ میری غلط رائے جو براہین احمدیہ حصص سابقہ میں درج ہوگئی یہ بھی خداتعالی کا ایک نشان تھا اور میری سادگی اورعدم بناوٹ پر گواہ تھا۔"

لیکن پھر بھی اگر آپ کو اصرار ہو کہ نبی سے ایسی غلطی نہیں ہونی چاہئے تھی تو ایک نظر اس ویڈیو پرڈال لیں اور اپنے دل سے فتوی پوچھ لیں۔



آپ نے جو ٹرنٹی کا وکی پیڈیا کا حوالہ دیا ہے اس پر بھی انشاء اللہ سرچ کرکے آپ سے بات ہوگی۔ آپ تسلی رکھیں احمدی اللہ کے فضل سے بھاگنے والے نہیں ہیں۔ ایسا ہونے لگتا تو جماعت آغاز ہی میں ختم ہوجاتی۔ دن بدن ترقی کی جانب گامزن نہ ہوتی۔ اور نہ ہی آپ کے علما کو خوفزدہ ہوکر جماعت کے لٹریچر پر پابندی لگوانے کی ضروت محسوس ہوتی۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے انہوں نے فرمایا ہے کہ یہ عقیدہ مجھ سے پہلے پردہ اخفا میں تھا یہ بات بھی درست ہے کہ یہ عقیدہ جس وضاحت کے ساتھ آپ پر کھولا گیا ہے اس سے پہلے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس سے پہلے اگر کوئی وفات کو مانتا تھا تو اس کی نظر زیادہ زیادہ سے انہی آیتوں پر جاتی تھی جو مفتی مصر نے بھی زیر بحث لائی ہیں۔ لیکن حضرت مرزا صاحب پر تو اللہ تعالی نے اتنی ساری آیات سے اس عقیدہ کو کھولا ہے کہ اس سے پہلے اسکی کوئی نظیر نہیں۔ ان آیات کا کچھ ذکر آپ اس مناظرے میں بھی دیکھ سکتے ہیں جو اوپر شئیر کیا گیا ہے۔ اور انشاء اللہ میں تحریری طور پر بھی شئیر کروں گا۔ نزول کی جن احادیث کو آپ نے درج کیا ہے تو جناب ذرا پورے دھاگے کا شروع سے مطالعہ کریں۔ نزول سے تو مجھے انکار ہی نہیں۔ اور نزول اور حیات دو الگ الگ باتیں ہیں۔ نزول کی حدیثوں سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی نازل ہوں گے۔ ان کا زندہ ہونا کہاں سے ثابت ہوگیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ آپ کوئی ایک ہی ایسی حدیث پیش کردیتے جس میں لکھا ہوتا کہ وہ زندہ آسمان پر موجود ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسی کوئی حدیث ہے ہی نہیں۔ آپ صرف نزول کی احادیث پیش کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جیسے نزول اور حیات دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ محمود غزنوی صاحب نے بھی ذکر کیا تھا تھوڑی سی وضاحت کردوں کہ جب کسی کے دوبارہ آنے کی خبر ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا شخص آئے گا جس کو پہلے کے ساتھ کچھ مشابہت ہوگی۔ نہ یہ کہ وہی دوبارہ نازل ہوگا۔ اور محمود غزنوی صاحب یہ تناسخ نہیں ہے۔ تناسخ کو تو مرزا صاحب نے اپنی کتب میں کئی جگہ غلط ثابت کیا ہے۔ تناسخ کے مطابق تو ایک ہی روح کئی جسموں میں جاتی ہے۔ جبکہ یہاں ایسی کوئی لغو بات نہیں ہورہی۔ بلکہ بعض مشابہتوں کی وجہ سے پہلے نبی کا نام بعد میں آنے والے نبی کو دیا جاتا ہے۔ بہرحال آپ سے گزارش ہے کہ نزول کی حدیثوں کی بجائے کوئی ایک ہی ایسی حدیث درج کردیں جس میں یہ ذکر ہو کہ وہ زندہ آسمان پر موجود ہیں۔ لیکن آپ کو چیلنج ہے کہ آپ کبھی نہیں کرسکیں گے۔
 
جناب یہ بالکل درست ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے براھین احمدیہ میں حیات مسیح کا عقیدہ بیان کیا تھا۔ اور اسی کتاب میں اپنے وہ الہامات بھی درج کئے تھے جن میں اللہ تعالی نے آپ کو عیسی ابن مریم کہہ کر پکارا تھا۔ لیکن اس وقت آپ کیونکہ ان الہامات کو ظاہر پرمحمول نہیں کرتے تھے اسی لئے ان الہامات کے ساتھ اسی کتاب میں یہ بھی لکھ دیا کہ عیسی آسمان سے نازل ہوں۔ یہ بھی ان کی سچائی کا نشان ہے کہ اگر آپ کا یہ خود بنایا ہوا منصوبہ ہوتا تو اپنی پہلی ہی کتاب میں ان الہامات کو اپنی ذات پر چسپاں کرلیتے۔ لیکن جیسا کہ ہر نبی نبوت سے پہلے اپنی قوم کے عقائد پر ہوتا ہے ویسا ہی آپ نے بھی عوام الناس سے سن کر یہی عقیدہ رکھا ہوا تھا۔

اس کے بارے میں آپ اپنی کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم میں فرماتے ہیں:
"تم خود گواہ ہو کہ اُس وقت اور اُس زمانہ میں مجھے اس آیت پر اطلاع بھی نہ تھی کہ میں اس طرح پر عیسی مسیح بنایا جاؤں گا بلکہ میں بھی تمہاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسی بن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ اور باوجود اس بات کے کہ خداتعالی نے براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرا نام عیسی رکھا اور جو قرآن شریف کی آیتیں پیشگوئی کے طور پر حضرت عیسی کی طرف منسوب تھیں وہ سب آیتیں میری طرف منسوب کردیں اور یہ بھی فرمادیا کہ تمہارے آنے کی خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے مگر پھر بھی میں متنبہ نہ ہوا اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طور پر لکھ دیا اورشائع کردیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ اور میری آنکھیں اُس وقت تک بالکل بند رہیں جب تک کہ خدا نے بار بارر کھول کر مجھ کو نہ سمھایا کہ عیسی بن مریم اسرائیلی فوت ہوچکا ہے اور وہ واپس نہیں آئے گا اس زمانہ اور اس امت کے لئے تو ہی عیسی بن مریم ہے۔ یہ میری غلط رائے جو براہین احمدیہ حصص سابقہ میں درج ہوگئی یہ بھی خداتعالی کا ایک نشان تھا اور میری سادگی اورعدم بناوٹ پر گواہ تھا۔"

مرزا کی یہ سادگی نہیں محض عیاری تھی۔اور نبی ایسا سادہ نہیں ہوتا کہ خدا اس کوصاف طور پر کچھ بتا ئے لیکن وہ اپنے غلط عقیدے پر جمع رہے ایسا شخص تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے کوئی نبی نہیں۔
اب ذرا یہاں میں مرزا کے ان دعاوی کا کچھ ذکر کرتا چلوں۔

مرزا کی حیات کا اولین دور جس میں وہ حضرت عیسیٰ بن مریم کی حیات و نزول کا قائل اس میں وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ عقیدہ مسلمانوں کا اولین درجہ کا عقیدہ ہے اور متفق ہے
چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ
"مسیح بن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اول درجہ کی پیش گوئی ہے جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح ستہ میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پلہ اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی ، تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے انجیل بھی اس کی مصدق ہے، اب اس قدر ثبوت پر پانی پھیرنا اور یہ کہنا کہ یہ تمام حدثیں موضوع ہیں ، درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے جن کو خدا تعالیٰ نے بصیرت دینی اور حق شناسی سے کچھ بھی بخرہ اور حصہ نہیں دیا" (ازالہ اوہام ص ۵۷۷) یہاں واضح طور پر مسیح بن مریم کے نزول کا ذکر ہے۔
۲۔ اس امر سے کسی کوانکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیش گوئی موجود ہے بلکہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہو گا۔(شہادت القرآن ص ۲)
یہاں صاف طور پر مرزا اس بات کو قبول کر رہا ہے کہ ۱۔ احادیث میں حضرت عیسیٰ کی کھلی پیش گوئیاں موجود ہیں اور یہ کہ تقریبا (حقیقت میں تمام) مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ بن مریم ضرور آئیں گئے۔ (نہ کہ مرزا ابن چراغ بی بی)
آگے اس صفحے پر یہ لکھتا ہے کہ حضرت مسیح کے آنے کی خبر ہر زمانے سے پھیلی ہوئی ہے اور اس سے انکار کرنا جہالت ہے
واضح رہے کہ تمام باتیں جو ابتدا میں مرزا نے کہیں وہ صرف حضرت عیسیٰ بن مریم سے متعلق تھیں نہ کہ مرزا ابن چراغ بی بی سے۔ نیز مرزا نے ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ،الخ کے حوالہ سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ جس اسلام کے لیے غلبہ کاملہ کا وعدہ کیا گیا ہے وہ حضرت مسیح کے ذریعے ہو گا اور حضرت مسیح جب دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گئے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق و اقطار میں پھیل جائے گا (براہین احمدیہ ج ۴ ص ۴۹۸) اس طرح ثابت ہوا کہ اب تو تمام امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم حیات ہیں اور ان کا ہی نزول ہو گا تو یہ عقیدہ شروع سے ہی مسلمانوں میں چلا آ رہا ہے اور اس کا قائل مرزا بھی تھا۔
۱۸۹۱ میں ایک تغیر عظیم ہوا کہ مرزا جو اب تک حضرت عیسیٰ کی حیات کا قائل تھا اچانک یہ کہنے لگا کہ حضرت عیسیٰ کی وفات ہو گئی ہے اور اسے الہام کے ذریعے یہ بتا یا گیا کہ مسیح فوت ہو چکے ہیں۔ گویا مرزا جواب تک قرآن کی رو سے حضرت عیسیٰ کی حیات کا قائل تھا اب اپنے الہام کی رو سے قرآن کو منسوخ کہتا ہے ۔نعوذ باللہ۔نیز کیا یہ بات آپ لوگوں کو پتہ نہیں عقائد میں کوئی رد و بدل نہیں ہوتا اور نہ اللہ کی طرف سے کیا جاتا ہے ۔یہ ردوبدل عبادات میں البتہ ہوتا ہے ۔ تو کیسے ایک الہام نے ایک بڑے مضبوط عقیدہ کو بدل کر رکھ دیا؟
اب یہ دیکھتے ہیں کہ یہ عقیدہ کہ حضرت عیسیٰ وفات پا چکے ہیں پرانا عقیدہ ہے یا مرزا کا گھڑا ہوا۔
مرزا کہتا ہے۔" اے بھائیوں یہ وہ بات ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نےپہلی صدی کے مسلمانوں ( یعنی حضرات صحابہ کرام ) سے چھپا رکھا تھا۔ (آئینہ کمالات اسلام ص ۴۶۲)
نیز وہ مزید کہتا ہے کہ " مسیح علیہ السلام کے بارے میں اخیار صحابہ اور تابعین کا ایمان اجمالی تھا اور وہ اس عقیدہ نزول مسیح پر مجمل ایمان رکھتے تھے ( گویا کہ انھیں تفصیل کا علم نہیں تھا ) ( تحفہ بغداد ص ۷)
اور آخر میں بڑھ کر مرزا یہ دعوہ کرتا ہے کہ "مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ نزول اپنے اصل مفہوم کے لحاظ سے حق ہے لیکن مسلمان اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس کو پردہ اخفا میں رکھنے کا تھا پس اللہ کا فیصلہ غالب آیا اور لوگوں کے ذہنوں کو اس مسئلے کی حقیقت روحانیہ سے خیالات جسمانیہ کی طرف پھیر دیا گیا اور وہ اسی پر قانع ہو گئے اور یہ مسئلہ پردہ اخفا میں ہی رہا جیسے کہ دانا خوشہ میں چھپا ہوتا ہے کئی صدیوں تک یہاں کہ ہمارا زمانہ آگیا ۔۔۔پس اللہ تعالیٰ نے اس بات کی حقیقت کو ہم پر منکشف کیا۔(آئینہ کمالات اسلام ص ۵۵۲۔)

اب کوئی ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اور خدا کو حاضر و ناضر جان کر کہ اسی کو اپنی جان دینی ہے اور اس کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے بتا ئے کہ ایک عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں اور قیامت کے قریب ان کا نزول ہوگا اس کے قائل ہمیشہ سے مسمان رہے ہیں اور اس امر کا مرزا بھی قائل ہے اور دوسرا عقیدہ وہ جو خود مرزا کا گھڑا ہوا ہے یعنی حضرت عیسیٰ کا تو انتقال ہو گیا یہ وہ عقیدہ ہے جس کا علم خود مرزا کے مطابق حضرات صحابہ (جو کہ اسلام کے سب سے بڑا عالم تھے) و تابعین کو نہیں اور درحقیقت مرزا تک کوئی اس کا قائل نہیں ۔تو اللہ کو حاضر ناضر جان کر بتائیے کون سا عقیدہ درست ہے پہلا عقیدہ جس موئید قرآن ہے، صاحب قرآن ہیں ، حضرات صحابہ و تابعین ہیں ، تمام مسلمان ہیں اور دوسرا عقیدہ جس کا قائل مرزا اور جماعت قادیان ہے؟

پھر بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی آئیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس عقیدہ کا علم مرزا کو بزریعہ الہام ہوا یا اس نے یہ عقیدہ خود گھڑ لیا
مرزا قادیانی اپنے خلیفہ حکیم نو ر الدین کو ایک خط کے جواب میں لکھتا ہے

"جو کچھ آنمخدوم (حکیم نور الدین) نے تحریر کیا ہےا گر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیل مسیح کا دعوہ ظاہر کیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے (مکتوبات احمدیہ مکتوب نمبر۱ ۶ بنام حکیم نور الدین ج ۵ نمبر ۲ ص ۸۵)

اس خط پر ۲۴ جنوری ۱۸۹۱ کی تاریخ درج ہے اب لوگ بتائیں کہ یہ الہام ہے کہ مرزا نے ۱۸۹۱ میں دعوہ مسیحیت کیا یا ایک ابلیسی سازش جو کہ نور الدین کے ساتھ مل کر تیار کی جارہی ہے؟
یہی نہیں بلکہ نور الدین قادیان آیا اور مرزا کو سبق پڑھایا مرزا لکھتا ہے
" محب واثق حکیم نور الدین اس جگہ قادیان میں تشریف لائے انھوں نے اس بات کے لیے درخواست کی کہ جو مسلم کی حدیث میں لفظ دمشق ہے ۔۔۔اس کے انکشاف کے لیے جناب الہی میں توجہ کی جائے۔۔۔پس واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا کہ اس جگہ ایسے قصبہ (قادیان) کانام دمشق رکھا گیا ہے ۔جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزید الطبع ہیں اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں ۔۔۔ خدا تعالیٰ نے جو مسیح کے اترنے کی جگہ جو دمشق کو بیان کیا ہے تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح سے مراد وہ اصلی مسیح نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی بلکہ مسلمانوں میں سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو مسیح سے نیز حضرت حسین سے بھی مشابہت رکھتا ہے۔۔۔ دمشق کا لفظ بطور استعارہ لیا گیا۔(ازالہ اوہام ص ۶۵، ۶۷)

اب کیا یہ پلاننگ آپ ارباب پر منکشف نہیں ہوتی کہ پہلے سے ہی ایک کھچڑی پک رہی تھی اور بالآ خر مرزا نے دعوئے مسیحیت کر ڈالا۔لیکن یہ دعوہ کہ قادیان ہی دمشق ہے درحقیقت مرزا محمود کو بھی ہضم نہیں ہوا اس لیے کہ مرزا محمود ۱۹۲۴ میں دمشق گیا ایک ہوٹل میں نماز پڑھی سامنے سفید مینار تھا ۔ کہنے لگا لو حدیث دمشق پوری ہو گئی۔( سوانح فضل عمر ج ۳ ص ۷۱) یہ تھا وہ الہام اور اس کی حقیقت ۔ رانا میں نہایت اخلاص سے آپ سے یہ گذارش کروں گا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے حالات زندگی کا ایک بار مکمل مطالعہ کیجئے اس کے وہ الہامات اور پیش گوئیاں جواس نے پیش کیں اور جو ہمیشہ غلط ثابت ہوئیں (حالانکہ حقیقی نبی کی کوئی پیش گوئی غلط ثابت نہیں ہو سکتی) پھر مرزا کے ذاتی اخلاق و کردار کا جائزہ لیجئے کہ کس طرح وہ گالیاں بکا کرتا تھااور گالیاں بھی کس کو انبیا کو رسل کو ، صحابہ کو اخیار امت کو ، شراب پیتا تھا ، اور نہایت اخلاقی کج روی میں مبتلا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ باتیں آپ کو پسند نہ آرہی ہوں گئی مگر یقین جانیئے کہ یہ سچ ہے ان باتوں کا حوالہ میں آپ کو دے سکتا ہوں اور حوالہ ہی نہیں بلکہ کوشش کر کہ ان کی اسکین کاپی بھی دے سکتا ہوں (گو کہ میرے پاس اسکینر نہیں ہے لیکن آپ جو طلب کریں آپ کو دیا جاسکتا ہے) ایک بار صرف ایک بار اپنی آخرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ضرور غیر جاندارانہ تحقیق کیجئے مجھے امید ہے کہ اللہ پاک ضرور آپ کو راہ ہدایت دکھائیں گئے۔آمین

آپ کی بقیہ باتوں کا جواب اب بعد میں انشا ء اللہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
رانا صاحب آپ کا یہ کہنا : (مراسلہ نمبر 64، پیرا نمبر ایک)

۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جیسا کہ ہر نبی نبوت سے پہلے اپنی قوم کے عقائد پر ہوتا ہے ویسا ہی آپ نے بھی عوام الناس سے سن کر یہی عقیدہ رکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالٰی کا بھیجا ہوا ہر نبی نبوت سے پہلے اپنی قوم کے عقائد پر نہیں تھا، بلکہ اللہ تعالٰی کا بھیجا ہوا ہر نبی تو آیا ہی اپنی قوم کے عقائد کی اصلاح کے لیے تھا۔

نبی عوام الناس سے سن کر عقیدے نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ اپنی پیدائش سے لیکر آخر تک اللہ تعالٰی کے نازل کردہ احکامات کی پابندی کرتے تھے۔
 

رانا

محفلین
اللہ تعالٰی کا بھیجا ہوا ہر نبی نبوت سے پہلے اپنی قوم کے عقائد پر نہیں تھا، بلکہ اللہ تعالٰی کا بھیجا ہوا ہر نبی تو آیا ہی اپنی قوم کے عقائد کی اصلاح کے لیے تھا۔
نبی عوام الناس سے سن کر عقیدے نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ اپنی پیدائش سے لیکر آخر تک اللہ تعالٰی کے نازل کردہ احکامات کی پابندی کرتے تھے۔

شمشاد بھائی یہاں میری مراد ایسے عقائد نہیں جو مشرکانہ اور گندے ہوں۔ کیونکہ ایسے عقائد تو فطرت سے متصادم ہوتے ہیں اور آپ کی بات بالکل درست ہے کہ وہ تو آتا ہی ان کی اصلاح کے لئے ہے اوروہ نبوت سے پہلے ہی اپنی معصوم فطرت کی بنا پر ان سے متنفر ہوتا ہے۔ جو بات میں سمجھانا چاہ رہا تھا شائد ٹھیک سے نہیں سمجھا پایا اسکی مثال ایسے ہی سمجھ لیں جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قریش مکہ کے مشرکانہ عقائد سے تو سخت بیزار تھے لیکن اللہ تعالی کی عبادت قبلہ اول کی طرف ہی منہ کرکے کیا کرتے تھے جب تک کہ اسلامی شریعت کا حکم نہیں آگیا۔
 

رانا

محفلین
کیا مرزا صاحب نے دعوی نبوت یا دعوی مسیحیت کسی کے مشورہ سے کیا؟
محترم ابن حسن صاحب آپ نے جو یہ اعتراض کیا ہے کہ مرزا صاحب نے مسیح ہونے کا دعوی کسی کے مشورہ سے کیا یہ بالکل غلط ہے۔ نبوت کے دعوے کبھی کسی کے مشورہ سے نہیں کیئے جاتے۔ اس طرح کے اعتراضات صرف عوام کو متنفر کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ یہ اعتراض میں نے کئی سال پہلے آپ کے علما سے سنا تھا۔ اور بظاہر بہت مضبوط نظر آنے کے باوجود بھی دل میں کبھی خلش پیدا نہیں ہوئی نہ ہی یہ خیال آیا کہ اس کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیونکہ ایک لمبے تجربہ سے یہ بات مجھ پر کھل چکی تھی کہ ایسے مرزا صاحب کی کتابوں پر ایسے جتنے بھی اعتراضات کیئے جاتے ہیں اور تضاد دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ان کی اصل میں کوئی بھی حقیقت نہیں ہوتی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں ہی ان کی تسلی بخش وضاحت موجود ہوتی ہے۔ اسکا سب سے پہلا تجربہ جو مجھے ہوا وہ میٹرک میں ہوا تھا جب سڑک پر ایک پمفلٹ بٹ رہا تھا جس کا عنوان تھا قادیانیوں کو ایک کروڑ روپے کا انعامی چیلنج۔ اگر کوئی قادیانی ان سوالوں کے جواب دے دے تو ایک کروڑ روپے کا انعام دیا جائے گا۔ فطری بات ہے میٹرک کے اسٹوڈنٹ کا علم ہی کیا ہوتا ہے اس لئے میں اس پمفلٹ کو کھولتے ہوئے کچھ ہچکچا رہا تھا کہ نامعلوم کیسے اعتراض ہوں جن پر اتنا دھڑلے سے چیلنج کیا جارہا ہے لیکن پھر حضرت امام جماعت احمدیہ کے اس ارشاد کی طرف خیال گیا کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تم غیروں کی کتابوں کو بھی پڑھا کرو ورنہ تمہیں معلوم کیسے ہوگا کہ وہ تم پر کیا اعتراض کرتے ہیں اور اگر کسی کا ایمان اتنا ہی کمزور ہے کہ وہ ان کی کتابوں کو پڑھنے سے بہہ جائے گا تو وہ چلا ہی جائے تو بہتر ہے جماعت احمدیہ کو ایسے کمزور ایمان والوں کی ضرورت نہیں۔ پھر میں نے بے خوف ہو کر اس پمفلٹ کو کھولا تو اس میں مرزا صاحب کی کتابوں سے پانچ مختلف تضادات دکھائے گئے تھے۔ اسے پڑھ کی میں بہت حیران ہوا کہ دعوی اتنا بڑا کہ ایک کروڑ انعام دیا جائے گا اور اندر سے یہ نکلا۔ باوجود اسکے کہ مجھے اس وقت یہ نہیں معلوم تھا کہ ان تضادات کو دور کیسے کیا جاسکتا ہے لیکن یہ یقین ضرور دل میں بیٹھ گیا کہ ان کے پاس واقعی کوئی مضبوط دلیل نہیں ورنہ اعتراض کرنا تھا تو جماعت کے عقائد پر کرتے یہ کیا بات ہوئی کہ مرزا صاحب نے ایک جگہ یہ لکھا ہے اور دوسری جگہ یہ لکھا ہے۔ بہرحال اس کے کئی سال بعد جماعت ہی ایک رسالے میں ان تضادات کا ذکر پڑھنے کو مل گیا جس میں جواب دیتے ہوئے صرف اتنا کیا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان عبارات کے ساتھ ہی ان کی کتابوں سے ہی اسی مضمون پر دوسری عبارات بھی سامنے رکھ دی گئی اور کسی وضاحت کی ضرورت ہی نہ رہی۔ خود ہی تضاد حل ہوگئے۔

یہی حال آپکے اس اعتراض کا ہے کہ کئی سال پہلے اس کا ذکر سنا تھا لیکن جواب نہ معلوم ہونے کے باوجود یقین تھا کہ بظاہر مضبوط نظر آنے والا اعتراض بھی کچھ اسی قسم کا ہوگا جیسا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اللہ جزائے خیر دے ایک دوست کو کہ جو آپ ہی میں سے نکل کر جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے تھے۔ ان پر احمدی ہوتے ہی یہ دھن سوار ہوگئی کہ جماعت پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات ویڈیو کی شکل میں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ تیار کئے جائیںِ۔ اور کیوں کہ آپ ہی میں سے نکل کر آئے تھے اس لئے آپ کے ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف تھے۔ اب تک کافی ویڈیوز دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ بناچکے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی انہوں نے تین عدد نئی ویڈیوزتیار کرکے اپلوٍڈ کی ہیں جو دراصل جاوید احمد غامدی صاحب کے ایک لیکچر میں جماعت احمدیہ پر کئے گئے اعتراضات کے جواب میں ہیں۔ ان میں غامدی صاحب نے ایک یہ بھی اعتراض کیا تھا جو آپ نے بھونڈے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں وہ تینوں ویڈیوز یہاں پیش کررہا ہوں کیونکہ تینوں ایک تسلسل میں ہیں۔ لیکن آپ کے مذکورہ بالا اعتراض کا ذکر ان میں سے دوسری والی ویڈیو میں ہے اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ آپ کے اس جھوٹے اعتراض کی قلعی کھولی گئی ہے۔ اور آپ کے لئے تو ان ستاویزی ثبوتوں کو چیک کرنا بھی آسان ہوگا کیونکہ آپ کے پاس تو مرزا صاحب سب کتب موجود ہیں لیکن جن دوستوں کے پاس مرزا صاحب کی کتب موجود نہیں وہ اگر ان دستاویزی ثبوتوں کو خود چیک کرنا چاہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب pdf فارمیٹ میں یہاں اس لنک سے ڈاون لوڈ کرسکتے ہیں۔ یہیں پر روحانی خزائن جلد نمبر 15 میں آپ کی وہ مشہور کتاب بھی ہے جس کا نام "مسیح ہندوستان میں" ہے جس میں آپ نے تاریخی ثبوتوں کے ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام کی کشمیر کی طرف ہجرت کو ثابت کیا تھا۔ اوراسی کتاب میں یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ مستقبل میں اللہ تعالی مذید شواہد اس بات کے حق میں ظاہر کرے گا کہ حضرت مسیح صلیب سےزندہ اتار لیئے گئے تھے اور کشمیر کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق بعد میں کئی تاریخی شواہد دریافت ہوئے جن میں سے ایک آپ کی وفات کے کوئی پچاس سال بعد 1945 میں یروشلم میں وادی قمران کی غاروں سے دوہزار سال پرانے صحیفے برآمد ہوئے جن کے سامنے آنے سے عیسائی دنیا میں ایک ہلچل مچ گئی کیونکہ وہ حضرت مرزا صاحب کے موقف کی پوری تائید کررہے تھے۔ اور پھر اس صدی کے آخر میں حضرت عیسی علیہ السلام کے کفن پر تحقیق شروع ہوگئی اس سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس موقف کی تائید ہوگئی کہ وہ صلیب سے زندہ ہی اتار لئے گئے تھے۔

اورعثمان آپ نے قبر مسیح کے متعلق کچھ ثبوتوں کا ذکر کیا تھا ایک تو آپ اس کتاب "مسیح ہندوستان میں" کو اسٹڈی کریں اور اس کے علاوہ مذید بھی انشاء اللہ وقت نکال کر شئیر کروں گا۔ اس کتاب میں صرف ان شواہد کا ذکر ہے جو اسوقت تک حضرت مرزا صاحب کو دستیاب ہوسکے تھے۔

بہرحال ابن حسن صاحب آپ اپنے جھوٹے اعتراض کے جواب میں یہ ویڈیوز دیکھیں خاص کر دوسری والی اور پھر بتائیں کہ آپ لوگوں کے بظاہر مضبوط اعتراضات کی حقیقت کیا ہوتی ہیے۔





 

ساجد

محفلین
دوستو ، اب بس نا کریں؟۔ میرا خیال ہے اب تو حضرت عیسی بھی اللہ تعالی کے حضور ہاتھ جوڑے کھڑے ہوں گے کہ اے باری تعالی مجھے دنیا میں ابھی واپس بھیج کہ میں دنیا میں جا کر کم از کم اردو محفل پہ جاری مناظرہ تو ختم کروا دوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ساجد بھائی بہت ہی پیار سے یہ بحث جاری ہے۔ فریقین اپنی اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے دلائل دے رہے ہیں۔ ابھی تک زور زبردستی کی نوبت نہیں آئی کہ میری ہی بات مانو۔ لہٰذا بحث جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
 
بہتر تو یہی ہے کہ سوال یا اعتراض کے جواب میں آپ اپنے الفاظ میں خود اپنا موقف لکھا کریں ۔۔لمبی چوڑی ویڈیوز دیکھنے کا کم ہی لوگوں کے پاس وقت ہوتا ہے۔۔
سیدھا سادہ اعتراض یہی ہے کہ اگر براہین احمدیہ اللہ کے الہام پر مبنی کتاب ہے اور اتنی محکم ہے کہ رسول پاک اسے قطبی کہہ رہے ہیں اور خواب میں اس کتاب کو تربوز کی جسامت جتنے امرود نما پھل کی طرح سے دیکھ رہے ہیں جس میں سے شہد ٹپک رہا ہے ، تو بھائی اس کتاب کو سچ مانیں یا جھوٹ۔۔۔اگر سچ ہے تو اس مین تو عیسیّ علیہ السلام کی حیات اور رفع جسمانی و نزول جسمانی کے عقیدے کی بھرپور تائیید کی گئی ہے اور رسول پاک کے بعد کسی بھی قسم کے کسی نئے نبی کے آنے کی تردید کی گئی ہے۔۔۔اور اگر جھوٹ مانیں تو جیسا مرزا صاحب کو اس کتاب کے متعلق اپنے الہام مین دھوکہ ہوا ہے ویسا ہی بلکہ اس سے اشد دھوکہ باقی کتابوں میں بھی یقینا ہوا ہے۔۔۔
پہلے اس بات کا کوئی تسلی بخش جوا ب تو دیدیجئے۔۔۔ویڈیوز دیکھنے کا اتنا وقت نہیں ہے
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی بہت ہی پیار سے یہ بحث جاری ہے۔ فریقین اپنی اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے دلائل دے رہے ہیں۔ ابھی تک زور زبردستی کی نوبت نہیں آئی کہ میری ہی بات مانو۔ لہٰذا بحث جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
شمشاد بھائی ، آپ ٹھیک فرما رہے ہیں لیکن سابقہ تجربات کی بنا پہ جو نتیجہ میں دیکھ رہا ہوں اس کی پیش بندی میں مشورہ دیا تھا۔ ویسے تمام فریقوں کی تعریف کی جانی چاہئیے کہ اس قدر لمبی بحث بغیر کسی جھگڑے کے جاری ہے ۔ ورنہ ہم برصغیری تو اتنی دیر میں پتہ نہیں کیا کچھ کہہ سن لیتے ہیں۔
 

رانا

محفلین
محمود غزنوی صاحب ویڈیو کوئی اتنی لمبی چوڑی نہیں ہے غالبآ 18 سے 20 منٹ کی ہے۔ اور وقت کی کمی کے باعث ہی ویڈیو شئیر کررہا ہوں کیوں کہ یہاں کراچی میں لوڈ شیڈنگ نے اودھم مچایا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک تو فرصت کے اوقات کم ہوتے ہیں اور جب فرصت ہو تو لائیٹ کا مسئلہ۔ بہرحال ویڈیو دیکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ بات کی گئی ہے۔
بہرحال جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ براہین احمدیہ کی بہت تعریف کی گئی ہے تو فی الحال اتنا ہی سمجھ لیجئے کہ وہ کوئی عقائد کی کتاب نہیں بلکہ وہ صرف عیسائیوں، ہندوؤں اور آریہ سماج کو مخاطب کرکے لکھی گئی ہے جس میں ان کے اسلام پر کئے جانے والے حملوں کا رد کیا گیا ہے۔ اور ایسے پرشوکت انداز میں کیا گیا ہے کہ آپ کے علما کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ اسلام کے دفاع میں ایسی کتاب آج تک نہیں لکھی گئی۔ تو اسکا اصل مقصد ہی اسلام کا دفاع تھا اس لئے وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں مقبول ہوئی اب آج اس پر یہ اعتراض کرنا کہ اس میں انہوں نے حیات مسیح کا عقیدہ بیان کیا ہے اس عظیم الشان خدمت پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے جس پر اس وقت تمام علما داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے تھے۔ لیکن اگر آپ کو اصرار ہو کہ نہیں جناب جو کتاب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمائی ہو اس میں تو غلطی کی گنجائش ہی نہیں ہونی چاہئے۔ تو پھر یہ سمجھ لیجئے کہ براہین احمدیہ میں تو صرف اتنی ہی غلطی ہے کہ انہوں نے اپنا عقیدہ وہی بیان کردیا جو ان کا اس وقت تھا۔ لیکن اصح الکتب بعد کتاب اللہ جو امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی کاوش کا نتیجہ ہے اس کے بارے میں بھی آپ کو معلوم ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کی بھی امام بخاری کے خواب میں آکر تعریف کی تھی اور اسے پسند فرمایا تھا۔ لیکن اس کے باوجود صحیح بخاری میں بھی کچھ ضعیف روائتیں درج ہیں۔ تو پھر وہ بھی نہیں ہونی چاہیں تھیں۔
یہاں صرف اس وقت کے چوٹی کے اہلحدیث عالم مولوی محمد حسین بٹالوی کی رائے درج کردیتا ہوں جو بعد میں مرزا صاحب کے سب سے بڑے مخالف ہوگئے تھے۔ باقی اس کا جواب میں اوپر مرزا صاحب کی زبانی درج کرچکا ہوں دل نہ مانے تو آپ کی مرضی ہے۔

مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:
"ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ زمانہ کی حالت کے لحاظ سےایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی۔ اور آئیندہ کی خبر نہیں۔ اور اس کا مولف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتادے۔" (اشاعتہ السنہ جلد 7)
 
یہ عجیب منطق اور زبردستی ہے کہ جس کتاب کو رسولٰ کریم آپکے بقول قطبی ستارے کی مانند محکم قرار دیں۔ اور جو آپکے بقول الہامی بھی ہو، اسی کے کافی مندرجات کو آپ بعد میں مسترد کردیں۔۔۔کیا محکم اسی کو کہتے ہیں؟ پھر وہ محکم تو نہ ہوئی ناں، اور نہ ہی الہامی ہوئی۔۔۔۔جب وہ محکم بحی نہ رہی اور اسکا الہام بھی غلط ثابت ہوگیا، تو لامحالہ یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مرزا صاحب کو ڈیلوژنز اور ہیلوسینیشنشز ہوتی تھیں۔۔۔۔انہوں نے اپنے ان واہموں کو تو غلط نہیں سمجھا، لیکن پوری امت محمدیہ کو کافر قرار دے دیا۔۔۔یہی انکی نفسیات تھی کہ میں غلط نہیں ہوسکتا، پوری امت اور قرآن و سنت کی تصریحات اور مفاہیم غلط ہوسکتے ہیں۔۔۔یہی تو وہ مقام ہے جہاں سے شیطان کے چنگل سے صرف وہی لوگ بچ سکے جن پر اللہ کاانعام اور فضل تھا۔۔۔۔۔۔
 

رانا

محفلین
محمود غزنوی صاحب کونسا الہام غلط درج کردیا ہے انہوں نے اس کتاب میں؟ اور کونسے کافی مندرجات کو غلط ثابت کردیا بعد میں؟ یاد رکھیں اس کتاب کا کوئی حصہ بھی منسوخ نہیں سمجھا جاتا۔ صرف ایک حیات مسیح کا عقیدہ ہے جو انہوں نے اس میں بیان کیا ہے۔ لیکن آپ یہ تاثر دے رہے ہیں جیسے اس کے کافی مندرجات مسترد کردیئے گئے ہیں۔ دیانت داری سے اتنی ہی بات کیا کریں جو حقیقت ہو۔ اس میں انہوں نے اپنا اس وقت کا عقیدہ بیان کیا ہے جب وہ نبی نہیں ایک عام انسان تھے۔ اور جو الہامات انہیں اس بارے میں ہوئے کہ تو ہی عیسی ہے انہوں نے اجتہادی غلطی سے اورانکساری سے انہیں اپنے پر چسپاں نہیں کیا بلکہ صرف یہ سمجھا کہ صرف عزت کی خاطر اللہ تعالی انہیں عیسی کہہ کر مخاطب کررہا ہے۔ اور یہی شان ایک خدا کے ولی کی ہونی چاہئے۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کئی بزرگ اولیا جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی اور دوسرے کئی بزرگوں کے بھی ایسے ہی الہام ہوتے تھے اور وہ انہیں صرف عزت کے معنوں میں لیتے تھے اور اپنے آپ کو ان الہامات کا حقیقی مورد نہی سمجھتے تھے۔ اسی سنت پر چلتے ہوئے مرزا صاحب نے بھی انہیں عزت کے معنوں میں لیا اور اپنے آپ کو ان کا حقیقی مورد نہ سمجھا۔ لیکن جب خدا کی وحی نے مسلسل بارش کی طرح ہوکر انہیں بتادیا کہ اس زمانے کے لئے جو مسیح آنا تھا وہ تو ہی ہے تو انہوں نے پھرخدا ہی کی خاطر ہی بار اٹھایا۔ اور وحی اور الہام میں نبی اجتہادی غلطی کرسکتا ہے یہ تو آپ بھی مانتے ہوں گے۔ ورنہ اسکے ثبوت بھی پیش کئے جاسکتے ہیں لیکن جس امر میں اختلاف ہی نہیں اس کے حوالے دینا وقت کا زیاں ہے لیکن اگر آپ کو اختلاف ہے تو پھر کوئی حرج نہیں۔
 

رانا

محفلین
اللہ خیر کرئے، وحی کے معاملے میں اللہ کے بھیجے ہوئے نبیوں سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ :eek:

شمشاد بھائی آپ کو شائد اس بات کا علم نہیں۔ اس لئے آپ ایسی بات کررہے ہیں۔ ورنہ یہ آپ کے علما کے نزدیک بھی متفق علیہ امر ہے کہ نبی اپنی وحی کے اجتہاد میں غلطی کرسکتا ہے۔ لیکن شائد آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وحی بھی غلط ہوسکتی ہے تو یہ درست نہیں۔ نبی کی ہر وحی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اس میں کبھی کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ میں جو بات کررہا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ ممکن ہے اور مانی ہوئی بات ہے کہ اللہ کی طرف سے نبی کو وحی ہو اور وہ اس وحی تعبیر سمجھنے میں غلطی کرے۔ لیکن اس سے وحی غلط ثابت نہیں ہوتی بلکہ نبی کا اجتہاد غلط ثابت ہوتا ہے اور یہ بالکل درست ہے۔ آپ کو ہر نبی کی زندگی میں اس کی مثالیں مل جائیں گی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رویا میں اپنے آپ کو حج کرتے ہوئے دیکھا تو یہی اجتہاد کیا کہ اسی سال حج کو جائیں۔ لیکن اس سال حج سے روک دئے گئے۔ اسے اجتہادی غلطی کہا جاتا ہے۔
 
محمود غزنوی صاحب کونسا الہام غلط درج کردیا ہے انہوں نے اس کتاب میں؟
اس میں انہوں نے اپنا اس وقت کا عقیدہ بیان کیا ہے جب وہ نبی نہیں ایک عام انسان تھے۔
رانا جی یا تو جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں اور یا پھر آپ ابھی تک سمجھ ہی نہیں پائے کہ میں کیا اعتراض کر رہا ہوں۔۔۔۔آپکی سہولت کیلئے دوبارہ کہے دیتا ہوں کہ:
1-مرزا نے کہا کہ اسکی کتاب براہین احمدیہ کے مضامین الہام پر مبنی ہیں۔
2- اور مرزا نے یہ بھی کہا کہ رسول پاک نے اسے بتایا کہ یہ کتاب محکم کتاب ہے اور اسکا نام انہوں نے اسکی محکمی کی وجہ سے قطبی رکھا۔
3-مرزا نے اس کتاب میں کئی جگہ لکھا کہ حضرت عیسیّ زندہ ہیں آسمانوں پر۔ اور انکو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا اور قیامت کے قریب وعدے کے مطابق نزول کریں گے۔
لیکن بعد میں جب مرزا نے بتدریج ترقی کی اور اپنے دعوے پیش کئے اور کہا کہ حضرت عیسی تو فوت ہوگئے تھے اور آنے وال دوسرا شخص ہوگا جو ان کی مثل ہوگا۔۔۔تو اس بات سے اور کچھ ثابت ہو یا نہ ہو، کم از کم یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ مندرجہ بالا بیان نمبر 1 اور بیان نمبر 2 غلط ہین۔۔۔کیونکہ اس کتاب میں تو یہ لکھا کہ وہ فوت ہوگئے ہیں اور دوبارہ زمین پر آئیں گے۔۔اور بعد میں کہا کہ نہیں یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔۔۔پس اس سے یہ ثابت ہوا کہ:
1-براہین احمدیہ میں قادیانیوں کے عقیدے کے خلاف عقیدہ لکھا ہے حیات و وفات مسیح کے بارے میں۔۔۔۔اور اگر اس کتاب کے مضامین الہامی ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ مرزا صاحب کا بعد کا موقف غلط ہے۔۔اور اگر انکا بعد کا موقف درست ہے تو یہ پہلے والی کتاب کے مضامین الہامی نہیں ہیں انکو غلط فہمی ہوئی کہ یہ الہامی ہیں۔
2- اور اگر براہین میں یہ عقیدہ غلط لکحا ہے بعد میں اسکی اصلاح کردی مرزا نے، تو پھر یہ کتاب محکم نہ رہی۔۔اور اگر کتاب محکم نہ رہی تو کتاب کے حوالے سے مرزا نے جو خواب دیکھا، وہ بھی اضغاث احلام کی قبیل سے ہوا۔۔۔
واضح ہو کہ مرزا کا یہ کہنا کہ وہ خدا کے الہامات کو اپنی سادگی سے سمجھ نہ سکے جن میں انہیں عیسیّ کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا، ہم اس بات پر بھث نہیں کر رہے۔۔ہم تو ایک بالکل مختلف بات کر رہے ہیں ۔۔وہ بات اور ہے اور یہ اور۔۔۔ذرا دوبارہ غور کیجئے اس پر
 

عسکری

معطل
رانا جی یا تو جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں اور یا پھر آپ ابھی تک سمجھ ہی نہیں پائے کہ میں کیا اعتراض کر رہا ہوں۔۔۔۔آپکی سہولت کیلئے دوبارہ کہے دیتا ہوں کہ:
1-مرزا نے کہا کہ اسکی کتاب براہین احمدیہ کے مضامین الہام پر مبنی ہیں۔
2- اور مرزا نے یہ بھی کہا کہ رسول پاک نے اسے بتایا کہ یہ کتاب محکم کتاب ہے اور اسکا نام انہوں نے اسکی محکمی کی وجہ سے قطبی رکھا۔
3-مرزا نے اس کتاب میں کئی جگہ لکھا کہ حضرت عیسیّ زندہ ہیں آسمانوں پر۔ اور انکو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا اور قیامت کے قریب وعدے کے مطابق نزول کریں گے۔
لیکن بعد میں جب مرزا نے بتدریج ترقی کی اور اپنے دعوے پیش کئے اور کہا کہ حضرت عیسی تو فوت ہوگئے تھے اور آنے وال دوسرا شخص ہوگا جو ان کی مثل ہوگا۔۔۔تو اس بات سے اور کچھ ثابت ہو یا نہ ہو، کم از کم یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ مندرجہ بالا بیان نمبر 1 اور بیان نمبر 2 غلط ہین۔۔۔کیونکہ اس کتاب میں تو یہ لکھا کہ وہ فوت ہوگئے ہیں اور دوبارہ زمین پر آئیں گے۔۔اور بعد میں کہا کہ نہیں یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔۔۔

کہانیاں ایسے بناتے ہیں کہ اس زمانے میں عمران سریز یا دیوتا جیسی بڑی کہانی لکھ سکتے تھے :grin: سب فضول دھندھے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top