حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا یا ۔۔۔۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نبیل

تکنیکی معاون
نبیل بھائی اس بحث کا موضوع ان کا دوبارہ واپس آنا نہیں ہے۔ صرف ان کی حیات یا وفات ہے۔ البتہ حضرت عیسی کے امت میں نازل ہونے کے بارے میں جو احادیث ہیں ان کو تو میں بھی درست مانتا ہوں۔ لیکن یہ عقیدہ کہ وہی پہلے والے عیسی دوبارہ آئیں گے یہ ایک الگ بحث ہے۔ اسی لئے اس وقت میں نے اپنے آپ کو صرف ان کی وفات پر بات کرنے تک محدود رکھا ہے۔ درمیان میں اگر ضرورت پڑی تو اس بات پر بھی کچھ روشنی ڈالوں گا کہ جس عیسی کے اس امت میں آنے کی خبر احادیث میں ہے انہی احادیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ پہلے والے عیسی بنفس نفیس نہیں آئیں گے کیونکہ وہ تو وفات پاچکے ہیں۔ بلکہ احادیث سے ثابت ہے کہ کسی نئے وجود کو عیسی سے بعض مشابہتوں کی بنا پر ابن مریم کا نام دیا گیا ہے۔

تھیریڈ کی نہج کے بارے میں مجھے پہلے ہی اندازہ تھا اسی لئے شمشماد بھائی سے کہتا رہا کہ اسے نئے دھاگے میں منتقل کردیں لیکن وہ مانے ہی نہیں۔

برادرم رانا، کسی کے لیے بھی سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ آپ آیات اور احادیث سے کونسے مطالب اخذ کرنا چاہ رہے ہیں۔ مجھے علم نہیں ہے کہ آپ نے اظہار رائے کی آزادی سے متعلق میری بات کا کیا مطلب لیا ہے۔ ایک مرتبہ احمدیت/قادیانیت پر بحث شروع ہو جائے تو ہمارے لیے اسے قابو کرنا ممکن نہیں رہتا ہے۔ اگر آپ مرزا غلام احمد قادیانی یا ان کے پیروؤں کی لکھی ہوئی کتابوں سے دلائل پیش کریں گے تو یقیناً انہی کتابوں کے مزید اقتباسات بھی یہاں پیش کیے جا سکتے ہیں۔
 

فخرنوید

محفلین
برادرم رانا، کسی کے لیے بھی سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ آپ آیات اور احادیث سے کونسے مطالب اخذ کرنا چاہ رہے ہیں۔ مجھے علم نہیں ہے کہ آپ نے اظہار رائے کی آزادی سے متعلق میری بات کا کیا مطلب لیا ہے۔ ایک مرتبہ احمدیت/قادیانیت پر بحث شروع ہو جائے تو ہمارے لیے اسے قابو کرنا ممکن نہیں رہتا ہے۔ اگر آپ مرزا غلام احمد قادیانی یا ان کے پیروؤں کی لکھی ہوئی کتابوں سے دلائل پیش کریں گے تو یقیناً انہی کتابوں کے مزید اقتباسات بھی یہاں پیش کیے جا سکتے ہیں۔
جناب رانا صاحب!

آپ اگر اس موضوع پر بات کرنا ہی چاہتے ہیں تو ہم کسی اور جگہ کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ جہاں ایک سوال روزانہ کی بنیاد پر ڈسکس کر لیا جائے گا۔

جس میں آپ کے مبینہ مسیح و موعود کی کتب کے حوالے سے روشنی ڈال کر اندھیرا جاہلیت سے پردہ اٹھا یا جائے گا۔
 

رانا

محفلین
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے متعلق بہت سی قرآن کی آیات میں ذکر ملتا ہے۔ لیکن میں یہاں سورہ المائدہ کی آیت 117-118 پیش کروں گا۔ اس آیت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں چاہے کوئی اپنی مرضی کا غلط معنی ہی کرلے تب بھی وفات کے علاوہ کچھ ثابت نہیں ہوسکتا۔

اور (یاد کرو) جب اللہ عیسیٰ ابنِ مریم سے کہے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟ وہ کہے گا پاک ہے تُو۔ مجھ سے ہو نہیں سکتا کہ ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہ ہو۔ اگر میں نے وہ بات کہی ہوتی تو ضرور تُو اسے جان لیتا۔ تُو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے دل میں ہے۔ یقیناً تُو تمام غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔ (117)
میں نے تو انہیں اس کے سوا کچھ نہیں کہا جو تُو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی ربّ ہے اور تمہارا بھی ربّ ہے۔ اور میں ان پر نگران تھا جب تک میں ان میں رہا۔ پس جب تُو نے مجھے وفات دے دی، فقط ایک تُو ہی ان پر نگران رہا اور تُو ہر چیز پر گواہ ہے۔ (118 )


اس آیت میں قیامت کے دن اللہ تعالی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان ہونے والے ایک مکالمہ کا ذکر ہے۔ اور ان کے قیامت تک کے پروگرام کا اللہ تعالی نے اس میں ذکر کردیا ہے۔ یہاں حضرت عیسیٰ صرف دو زمانوں کا ذکر کرتے ہیں۔ پہلا وہ زمانہ جس میں مسیح ان کے اندر موجود تھے اور دوسرا وفات کے بعد کا زمانہ۔ حضرت عیسیٰ اللہ تعالی سے صاف کہہ رہے ہیں کہ میری قوم میں شرک میری وفات کے بعد شروع ہوا۔ اب آج دنیا پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں کہ عیسائی قوم شرک میں کئی صدیوں سے گرفتار ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں کہ میری قوم میں شرک میری وفات کے بعد شروع ہوا۔ واضع طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ وفات پاچکے ہیں۔ اور اگر وہ اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں تو پھر اس آیت کی رو سے ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی ابھی تک شرک میں گرفتار نہیں ہوئے۔

بعض علما یہاں "توفی" کا مطلب وفات کی بجائے آسمان پر اٹھا لینا کرتے ہیں۔
لیکن اول تو یہ انہی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کریں کہ پورے قرآن میں جب باقی انبیا کی نسبت توفی کا لفظ آئے تو وہاں وہ بھی وفات کے معنی ہی کرتے ہیں لیکن اس ایک جگہ وفات والے لفظ کے ایسے معنی کردینا کہ وفات کی بجائے آسمان پر اٹھا لینا، یہ زبردستی کیوں کی جاتی ہے۔ قرآن شریف میں کم از کم 23 جگہ یہ توفی کا لفظ آیا ہے اور کسی جگہ آسمان پر اٹھانے کے معنی نہیں کئے جاتے۔ اوراللہ تعالی نے لفظ بھی وہ استعمال فرمایا ہے جس سے اردو دان طبقہ بھی عربی نہ جاننے کے باوجود واقف ہے۔ کتابوں اور اخباروں وغیرہ میں اکثر متوفی کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو وفات یافتہ کے لئے ہی بولا جاتا ہے۔

دوسرا یہ کہ اس آیت میں وہ توفی کا مطلب وفات کی بجائے خواہ آسمان پر اٹھانا کریں یا کوئی اورمطلب کریں تب بھی ان کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس صورت میں اگر انہیں آسمان پر زندہ تسلیم کیا جائے تو لازمآ وہ دوبارہ امت محمدیہ میں جب نازل ہوں گے تو اپنی قوم کا شرک اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور اپنی قوم کے بگاڑ سے پورے طور پر واقف ہوجائیں گے۔ ایسی صورت میں وہ کس طرح اللہ تعالی کے حضور اپنی ناواقفیت کا اظہار کرسکتے ہیں۔ یہ تو نعوذ باللہ ان کی طرف سے ایک غلط بیانی ہوگی کہ میری امت میری وفات کے بعد بگڑی۔ کیونکہ جو شخص دوبارہ دنیا میں آئے اور چالیس سال رہے اور اپنی قوم کی خرابیاں اپنی آنکھوں سے دیکھے وہ کسطرح یہ کہہ سکتا ہے کہ میں اپنی امت کی حالت سے بے خبر ہوں۔ انہیں تو یہ جواب دینا چاہئے تھا کہ اے خدا میں نے دوبارہ واپس جاکران کی اصلاح تو کردی تھی اور شرک کو ختم کردیا تھا۔ لیکن ایسی کوئی بات وہ نہیں کہتے۔ اگر انہیں زندہ آسمان پر تسلیم کیا جائے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی قوم بھی ابھی تک نہیں بگڑی۔

تیسری بات یہ کہ اس آیت میں ان کی اپنی قوم سے جدائی "توفی" کے ذریعے بیان کی گئی ہے۔ اب توفی کا کوئی بھی معنی کرلیں اس آیت میں توفی کے بعد فورآ قیامت کا ذکر ہے اور اس مکالمے کا ذکر ہے۔ دوبارہ واپس آکر اصلاح کرنے کا تو کوئی ذکر ہی نہیں۔ پس اگر توفی کا مطلب آسمان پر جانا کریں گے تو پھراس آیت کی رو سے وہ قیامت تک آسمان پر ہی رہیں گے۔

اب تھوڑا سا میں سویدا کو بھی مخاطب کرنا چاہوں گا کہ آپ نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ ہمیں صرف وہی تفسیر قبول ہو گی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہو۔ حدیث نبوی بھی اس آیت میں توفی کے معنی وفات ہی کے کرتی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری کتاب التفسیر میں حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث لائے ہیں۔
جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن کچھ لوگ گرفتار ہوں گے تو میں کہوں گا یہ تو میرے دوست ہیں۔ مجھے جواب دیا جائے گا کہ بے شک اے نبی، تو نہیں جانتا کہ تیرے بعد انہوں نے کیا بدعات اختیار کیں۔ یقینآ یہ لوگ جب تو ان سے جدا ہوا اپنی ایڑیوں کے بل پھر گئے یعنی مرتد ہوگئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اس وقت وہی کہوں گا جس طرح خدا کے نیک بندے عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ میں ان کا اس وقت تک ہی نگران تھا جب تک ان میں موجود تھا۔ پس جب تو نے مجھے وفات دے دی تو ان کا تو ہی نگران تھا۔

سویدا اب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس آیت میں توفی کا مطلب وفات کردیا ہے اور اپنی نسبت وہی الفاظ حضرت عیسیٰ کا نام لے کر بیان کرکے بتا دیا ہے کہ اس آیت میں کیا مراد ہے۔ امید ہے کہ اب آپ کو اسے ماننے میں کوئی امر مانع نہ ہوگا۔ لیکن جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ اس آیت میں کوئی بھی مطلب آپ کرلیں آپ کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔
 

رانا

محفلین
جناب رانا صاحب! آپ اگر اس موضوع پر بات کرنا ہی چاہتے ہیں تو ہم کسی اور جگہ کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ جہاں ایک سوال روزانہ کی بنیاد پر ڈسکس کر لیا جائے گا۔
جس میں آپ کے مبینہ مسیح و موعود کی کتب کے حوالے سے روشنی ڈال کر اندھیرا جاہلیت سے پردہ اٹھا یا جائے گا۔

فخر صاحب ذرا اس بات کی وضاحت کردیجئے کہ بات تو حضرت عیسیٰ کی وفات کے بارے میں ہورہی ہے۔ لیکن اس کا جواب آپ احمدیت پر حملہ کر کے دینا چاہتے ہیں؟ کوئی لاجک ہے آپ کی بات میں؟ آپ کسی جگہ احمدیت پر بات کرنا چاہیں گے تو مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہاں جس میدان میں بات ہوگی آپ اس میدان کو چھوڑ کر پھر کسی دوسرے میں میدان میں نہیں جا گھسیں گے؟ یہاں جس موضوع پر تبادلہ خیال چل رہا ہے آپ اس پر بات کرنے کی بجائے دوسری طرف جارہے ہیں۔

نبیل بھائی کی بات سے بھی مجھے ایسا لگا اور اب آپ کی بات سے بھی یہ لگ رہا ہے کہ شائد آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو حضرت عیسیٰ کو زندہ نہ مانے وہ احمدی ہوتا ہے۔ اور اگر یہ عقیدہ کسی سے منوالیا جائے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اب وہ احمدی ہوگیا ہے۔ تو جناب یہ غلط فہمی دور ہوجانی چاہئے کہ یہ تو درست ہے کہ ہر احمدی حضرت عیسیٰ کو وفات یافتہ مانتا ہے لیکن یہ درست نہیں کہ جو بھی ایسا مانے وہ احمدی ہوجائے گا۔ یہ عقیدہ تو احمدیوں کے علاوہ بھی پہلی صدیوں میں بھی بڑے بڑے علما کا تھا اور آجکل بھی ایسے لوگ بہت ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں لیکن احمدی نہیں۔ ایسی صورت میں اگر ان میں سے کوئی اس عقیدے پر بحث کرے گا تو کیا آپ اسکو یہ کہیں گے کہ اس کی بجائے احمدیت پر بحث کرلو۔

یہاں ضمنآ کچھ ایسے لوگوں کا ذکر کردیتا ہوں جو حضرت عیسیٰ کو زندہ تسلیم نہیں کرتے اور احمدی بھی نہیں۔ بلکہ ان میں سے تو بیشتر وہ ہیں جو احمدیت کے زمانے سے پہلے کے ہیں۔

1- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ۔ انہوں نے صحیح بخاری میں متوفیک کا مینی ممیتک کربیان کرکے اپنا عقیدہ صاف ظاہر کیا کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں۔ (بخاری الجز الثانی کتاب التفسیر قولہ ما جعل اللہ من بحیرۃ ولا سائبۃ)

2- حضرت امام مالک رحمہ اللہ: مجمع البحار میں لکھا ہے کہ امام مالک فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں۔ (مجمع بحار الانوار جلد 1 صفحہ 286)

3- امام ابن حزم رحمہ اللہ: کمالین حاشیہ تفسیر جلالین میں لکھا ہے کہ امام ابن حزم نے آیت کے ظاہری معنوں سے استدلال کرکے مسیح کی وفات بیان کی ہے۔ (جلالین مع کمالین صفحہ 109)

4- مفتی مصر: مصر کے مشہور متبحر عالم الازہر یونیورسٹی کے شیخ علامہ محمود شلتوت لکھتے ہیں:
"قرآن مجید اورسنت مطہرہ میں کوئی ایسی سند نہیں ہے جس سے اس عقیدہ پر دل مطمئن ہوسکے کہ حضرت عیسیٰ اپنے جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور اب تک وہ آسمان پر زندہ ہیں۔ اور یہ کہ وہی آخری زمانہ میں زمین پر آئیں گے۔" (الفتاوی از محمود شلتوت صفہ 58 مطبوعہ جامع الازہر)

5- ابن سعد نے الطبقات الکبری میں حضرت امام حسن کا یہ قول نقل کیا ہے۔
"اور حضرت علی کی روح اس رات قبض کی گئی جس رات عیسی بن مریم کی روح مرفوع ہوئی تھی یعنی 27 رمضان کی رات"

6- مشہور شیعہ عالم و بزرگ علامہ قمی وفات مسیح کے بارے میں اپنی کتاب اکمال الدین واتمام النعمہ میں فرماتے ہیں:
"یہودی مسیح کے قتل اور ان کو صلیب دینے پر قدرت نہ پاسکے کیونکہ اگر وہ اس پر قادر ہوتے تو اللہ کی بات جھوٹی نکلتی۔ لیکن اللہ نے حضرت مسیح کو طبعی طور پر وفات دی اور اس کے بعد ان کو روحانی رفعت عطا فرمائی۔"

7- مشہور شعیہ عالم علامہ جبائی نے اسی آیت کے یہ معنی کئے ہیں:
"جب تو نے مجھے وفات دے دی اور طبعی موت دی"۔ (مجمع البیان فی تفسیر القران المولفہ شیخ ابو الفضل بن الحس۔ اجز الثالث)

8- اسکے علاوہ علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم، علامہ ابن حیان، علامہ ابو مسلم اصفہانی، علامہ محی الدین ابن عربی اور بہت سے دوسرے بزرگان امت کے حوالے ہیں جو اس وقت بوجہ طوالت لکھنا مشکل ہے۔ بلکہ کئی کے تو اصل کتابوں کے صفحات اسکین شدہ بھی مہیا ہیں۔ اگر کسی کو مذید تسلی کرنی ہو یہ سب حوالے پیش کیے جاسکتے ہے۔ آجکل کے علما میں سے سر سید، مولانا ابو الکلام آزاد، سعودی عرب کے مشہور مفسر قرآن علامہ عبدالرحمن سعدی، علامہ عبید اللہ سندھی، جاوید احمد غامدی اور آجکل ایک جماعت المسلمین بھی ہے جن کا بعینہ یہی عقیدہ ہے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ کیا ان سب سے آپ احمدیت کی بحث کرنے لگ جائیں گے اس وجہ سے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو زندہ تسلیم کیوں نہیں کیا؟ جاوید احمد غامدی کی ویڈیو میرے پاس موجود تھی اس لئے وہ بھی شئیر کردیتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ سرے سے اسلامی عقیدہ ہے ہی نہیں اسی لئے احمدیت کے علاوہ بھی ایک کثیر تعداد اسکو غلط سمجھتی ہے۔

 

فخرنوید

محفلین
فخر صاحب ذرا اس بات کی وضاحت کردیجئے کہ بات تو حضرت عیسیٰ کی وفات کے بارے میں ہورہی ہے۔ لیکن اس کا جواب آپ احمدیت پر حملہ کر کے دینا چاہتے ہیں؟ کوئی لاجک ہے آپ کی بات میں؟ آپ کسی جگہ احمدیت پر بات کرنا چاہیں گے تو مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہاں جس میدان میں بات ہوگی آپ اس میدان کو چھوڑ کر پھر کسی دوسرے میں میدان میں نہیں جا گھسیں گے؟ یہاں جس موضوع پر تبادلہ خیال چل رہا ہے آپ اس پر بات کرنے کی بجائے دوسری طرف جارہے ہیں۔

نبیل بھائی کی بات سے بھی مجھے ایسا لگا اور اب آپ کی بات سے بھی یہ لگ رہا ہے کہ شائد آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو حضرت عیسیٰ کو زندہ نہ مانے وہ احمدی ہوتا ہے۔ اور اگر یہ عقیدہ کسی سے منوالیا جائے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اب وہ احمدی ہوگیا ہے۔ تو جناب یہ غلط فہمی دور ہوجانی چاہئے کہ یہ تو درست ہے کہ ہر احمدی حضرت عیسیٰ کو وفات یافتہ مانتا ہے لیکن یہ درست نہیں کہ جو بھی ایسا مانے وہ احمدی ہوجائے گا۔ یہ عقیدہ تو احمدیوں کے علاوہ بھی پہلی صدیوں میں بھی بڑے بڑے علما کا تھا اور آجکل بھی ایسے لوگ بہت ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں لیکن احمدی نہیں۔ ایسی صورت میں اگر ان میں سے کوئی اس عقیدے پر بحث کرے گا تو کیا آپ اسکو یہ کہیں گے کہ اس کی بجائے احمدیت پر بحث کرلو۔

یہاں ضمنآ کچھ ایسے لوگوں کا ذکر کردیتا ہوں جو حضرت عیسیٰ کو زندہ تسلیم نہیں کرتے اور احمدی بھی نہیں۔ بلکہ ان میں سے تو بیشتر وہ ہیں جو احمدیت کے زمانے سے پہلے کے ہیں۔

1- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ۔ انہوں نے صحیح بخاری میں متوفیک کا مینی ممیتک کربیان کرکے اپنا عقیدہ صاف ظاہر کیا کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں۔ (بخاری الجز الثانی کتاب التفسیر قولہ ما جعل اللہ من بحیرۃ ولا سائبۃ)

2- حضرت امام مالک رحمہ اللہ: مجمع البحار میں لکھا ہے کہ امام مالک فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں۔ (مجمع بحار الانوار جلد 1 صفحہ 286)

3- امام ابن حزم رحمہ اللہ: کمالین حاشیہ تفسیر جلالین میں لکھا ہے کہ امام ابن حزم نے آیت کے ظاہری معنوں سے استدلال کرکے مسیح کی وفات بیان کی ہے۔ (جلالین مع کمالین صفحہ 109)

4- مفتی مصر: مصر کے مشہور متبحر عالم الازہر یونیورسٹی کے شیخ علامہ محمود شلتوت لکھتے ہیں:
"قرآن مجید اورسنت مطہرہ میں کوئی ایسی سند نہیں ہے جس سے اس عقیدہ پر دل مطمئن ہوسکے کہ حضرت عیسیٰ اپنے جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور اب تک وہ آسمان پر زندہ ہیں۔ اور یہ کہ وہی آخری زمانہ میں زمین پر آئیں گے۔" (الفتاوی از محمود شلتوت صفہ 58 مطبوعہ جامع الازہر)

5- ابن سعد نے الطبقات الکبری میں حضرت امام حسن کا یہ قول نقل کیا ہے۔
"اور حضرت علی کی روح اس رات قبض کی گئی جس رات عیسی بن مریم کی روح مرفوع ہوئی تھی یعنی 27 رمضان کی رات"

6- مشہور شیعہ عالم و بزرگ علامہ قمی وفات مسیح کے بارے میں اپنی کتاب اکمال الدین واتمام النعمہ میں فرماتے ہیں:
"یہودی مسیح کے قتل اور ان کو صلیب دینے پر قدرت نہ پاسکے کیونکہ اگر وہ اس پر قادر ہوتے تو اللہ کی بات جھوٹی نکلتی۔ لیکن اللہ نے حضرت مسیح کو طبعی طور پر وفات دی اور اس کے بعد ان کو روحانی رفعت عطا فرمائی۔"

7- مشہور شعیہ عالم علامہ جبائی نے اسی آیت کے یہ معنی کئے ہیں:
"جب تو نے مجھے وفات دے دی اور طبعی موت دی"۔ (مجمع البیان فی تفسیر القران المولفہ شیخ ابو الفضل بن الحس۔ اجز الثالث)

8- اسکے علاوہ علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم، علامہ ابن حیان، علامہ ابو مسلم اصفہانی، علامہ محی الدین ابن عربی اور بہت سے دوسرے بزرگان امت کے حوالے ہیں جو اس وقت بوجہ طوالت لکھنا مشکل ہے۔ بلکہ کئی کے تو اصل کتابوں کے صفحات اسکین شدہ بھی مہیا ہیں۔ اگر کسی کو مذید تسلی کرنی ہو یہ سب حوالے پیش کیے جاسکتے ہے۔ آجکل کے علما میں سے سر سید، مولانا ابو الکلام آزاد، سعودی عرب کے مشہور مفسر قرآن علامہ عبدالرحمن سعدی، علامہ عبید اللہ سندھی، جاوید احمد غامدی اور آجکل ایک جماعت المسلمین بھی ہے جن کا بعینہ یہی عقیدہ ہے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ کیا ان سب سے آپ احمدیت کی بحث کرنے لگ جائیں گے اس وجہ سے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو زندہ تسلیم کیوں نہیں کیا؟ جاوید احمد غامدی کی ویڈیو میرے پاس موجود تھی اس لئے وہ بھی شئیر کردیتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ سرے سے اسلامی عقیدہ ہے ہی نہیں اسی لئے احمدیت کے علاوہ بھی ایک کثیر تعداد اسکو غلط سمجھتی ہے۔

اس میں جناب مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی یہاں پیش کر دینا تھا۔ ایک مدت تک تو وہ بھی حیات مسیح کا علمبردار رہا۔
جب اس نے ضرورت محسوس کی تو وفات مسیح کا جھنڈا ازالہ اوہام کے سایہ میں تھام لیا۔
 

رانا

محفلین
اللہ خیر کرے۔ اب یہ نیا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے۔ لگتا ہے اس دھاگے کا انجام بھی وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے۔

شمشاد بھائی نئے شوشے سے غالبآ آپ کی مراد ایک طرف تو حضرت عیسٰی کو وفات یافتہ ماننا اورساتھ ہی کسی نئے وجود کا ان کے نام پرآنا ہے۔ اور آپ کے الفاظ سے لگتا ہے کہ شائد آپ کی نظر میں یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ اس بارے میں صرف ایک تاریخی واقعہ کا ذکرکروں گا اور اسکے بعد اسی سے تعلق رکھنے والی ایک حدیث پیش کروں گا۔ میرا خیال ہے کہ اگر ذرا بھی خوف خدا ہو تو اس تاریخی واقعہ کے بعد اس حدیث کا مطالعہ کسی بھی سچے مسلمان کا دل دہلا دینے کے لئے کافی ہے۔

آج سے دوہزارسال پہلے جب حضرت عیسٰی علیہ السلام یہودیوں کی طرف مبعوث ہوئے تو اس وقت یہودی اپنے سابقہ انبیاء کی پیشگوئیوں کی بنا پر یہ سمجھتے تھے کہ مسیح موعود کے آنے سے پہلے ایلیا (الیاس نبی) کا دوبارہ دنیا میں آنا ضروری ہے۔ (حوالہ ملاکی 4:5)۔
اور الیاس نبی کے متعلق ان کی کتاب میں لکھا تھا وہ زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں۔ (حوالہ سلاطین نمبر 2)۔

اس لئے یہودیوں کے پاس ان کی کتابوں میں آنے والے مسیح کی نشانی یہ تھی کہ اس کے آنے سے پہلے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ اسی لئے جب حضرت عیسٰی علیہ السلام نے یہودیوں کے سامنے نبوت کا دعوی کیا تو یہودیوں نے جہاں اور اعتراض کئے وہاں سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اگر تُو وہی مسیح ہے جس کا ذکر ہماری کتابوں میں ہے تو اس کے آنے سے پہلے تو الیاس کا آنا لکھا ہے جو آسمان پر زندہ موجود ہے۔ پھر الیاس کہاں ہے؟ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اس کا جواب حضرت یحیٰی علیہ السلام جو ان کے ساتھ ہی ان کے وقت میں نبی تھے ان کی طرف اشارہ کرکے دیا کہ جس الیاس نے آنا تھا وہ یہی ہے لیکن لوگوں نے نہیں پہچانا۔ یہیودیوں نے حضرت عیسٰی کی اس تاویل کو درست نہ سمجھا اور پیشگوئی کے ظاہری لفظ ایلیا پر اڑ کر حضرت عیسٰی کا انکارکردیا اور آج تک یہودی دیوار گریہ کے پاس ہر ہفتے جا کر روتے ہیں کہ اے خدا اس الیاس کو بھیج جس کے بعد مسیح نے آنا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ قیامت تک ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ آنے والا تو آکر چلا بھی گیا اور وہ ظاہری الفاظ میں پڑ کر اس سے محروم رہ گئے۔ جنہوں نے مان لیا وہ اپنے وقت کے امتحان میں کامیاب ہوگئے۔

اب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر نظر ڈالیں کہ جو تمام مکاتب فکر کے علما کے نزدیک صحیح ترین سمجھی جاتی ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ میری امت یہود کے نقش قدم پر چلے گی۔ اور یہود سے اتنی مشابہ ہوجائے گی کہ جیسی ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہود میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تومیری امت میں سے بھی کوئی ایسا بد بخت نکل آئے گا۔ اور یہود کے 72 فرقے ہوگئے تھے لیکن میری امت کے 73 فرقے ہوجائیں گے جن میں سے 72 ناری اور ایک ناجی ہو گا۔ صحابہ نے پوچھا کہ وہ ناجی فرقہ کونسا ہوگا تو آپ نے فرمایا کہ وہ میرے اور میرے اصحاب کے قدم پر ہوگا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ جماعت کی شکل میں ہوگا۔

اس حدیث کے فی الحال صرف اس حصے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جس میں یہود سے مشابہت کا ذکر ہے۔ سب جانتے ہیں اور اوپر بیان کئے گئے تاریخی حقائق سے بھی واضع ہے کہ یہود کی سب سے بڑی نشانی ہی یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عیسٰی کا انکار کیا اورظاہری الفاظ کے پیچھے پڑ کر کیا کہ کیونکہ ایلیا کے آسمان پر جانے کا ذکر ہے اس لئے وہ زندہ آسمان پر گیا ہے۔ اور کیونکہ اسی کے دوبارہ آنے کا ذکر ہے اس لئے وہی آئے گا۔

جب کہ حضرت عیسٰی نے صاف فیصلہ فرما دیا کہ جب کسی کے دوبارہ آنے کی مذہبی دنیا میں پیشگوئی ہو تو اس سے مراد بنفس نفیس اسی کا آنا نہیں ہوتا بلکہ کوئی نیا وجود ہوتا ہے جس کو کسی مشابہت کی بنا پر پرانے نبی کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت یحیٰی کو حضرت الیاس کا نام دیا گیا۔

اب ذرا سوچ کر بتائیں کہ آنحضورصلی اللہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی کہ نہیں۔ یہود کے نقش قدم پر چلے ہوئے آج کے مسلمان بالکل ویسا ہی عقیدہ رکھے ہوئے ہیں! اور بالکل وہی دلائل دیتے ہیں جو یہود آج تک حضرت عیسٰی کے انکار کے دیتے ہیں کہ الیاس کا آسمان سے آنا لکھا ہے لہذا وہی آئے گا تو مانیں گے۔ مسلمان اس وقت یہود سے زیادہ ملزم ہیں کیونکہ یہود کی کتابوں میں تو "آسمان" کا لفظ بھی لکھا ہوا تھا جبکہ مسلمانوں کی کسی کتاب میں آسمان کا لفظ نہیں ہے۔ یہود کی غلطی تو سمجھ آتی ہے مسلمانوں کی غلطی کو کیا کہیں گے۔ اور پھر یہود تو کہتے ہیں اگر یہی مسیح سچا ہوا تو ہم خدا کے سامنے کتاب کھول کر رکھ دیں گے کہ ہمارا کیا قصور ہے تو نے ہی اس میں لکھوایا تھا کہ الیاس آسمان سے آئے گا۔ لیکن کیا مسلمان بھی روز قیامت خدا کے سامنے یہ عذر پیش کرسکیں گے؟ یہود کے سامنے تو کوئی مثال نہیں تھی۔ دنیا میں پہلی بار ایک واقعہ ہوا تھا ان کی سمجھ میں نہیں آیا اور وہ فیل ہوگئے۔ لیکن مسلمانوں کے سامنے تو یہود کی روز روشن کی طرح کھلی مثال بھی بطور سبق اور عبرت کے موجود ہے۔ اللہ تعالی تو کہے گا تم نے یہود سے عبرت کیوں نہ پکڑی اور حضرت عیسٰی نے جو اس مقدمے کا فیصلہ کردیا اس سے سبق کیوں نہ لیا۔ اور پھر ذرا اس بات پر بھی غور کریں کہ اگر بالفرض آج کے مسلمان یہود کے نقش قدم پر نہیں چل رہے اور ان کا عقیدہ آسمان سے بنفس نفیس آنے کا درست ہے تو پھر یہود کو آپ کسطرح غلط کہہ سکتے ہیں۔ وہ بھی تو یہی کہتے ہیں کہ آسمان سے آنے کا ذکر ہے تو ہم کچھ اور کسطرح مان لیں۔ کیا مسلمان یہود کو اس مطالبے میں غلط نہیں سمجھتے؟ اگر سمجھتے ہیں تو پھر اپنے آپ کو درست کسطرح سمجھ سکتے ہیں۔ دونوں طرف ایک ہی جیسی سچویشن ہے۔

اورسب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی وارننگ دے دی تھی کہ خبردار ایک وقت میں تم یہود کے قدم بقدم چلو گے۔ اوراس وارننگ کے جانتے ہوئے بھی اگر کوئی یہود کے نقش قدم پر چلنے پر اصرار کرے تو اسے کیا کہا جائے۔

اب آخر میں صحیح بخاری سے یہ بھی دیکھ لیں کہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی امت میں آنے والے مسیح کو پرانے مسیح سے الگ کوئی نیا وجود سمجھتے تھے۔ آپ نے جہاں پرانے مسیح کا ذکر کیا ہے تو بالکل الگ حلیہ بیان کیا اور جہاں امت میں آنے والے مسیح کا ذکر کیا تو بالکل علیحدہ حلیہ بیان کیا۔

1- آپ نے مسیح اسرائیلی کا حلیہ معراج کی رات یوں بیان کیا:
"کہ عیسٰی سُرخ رنگ اور گھنگریالے بالوں والے تھے"۔
(بخاری جلد اول کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتب مریم۔۔۔۔ )

2- اور اس صفحہ کی دوسری حدیث میں جہاں اپنی امت میں آنے والے مسیح کا ذکر کیا تو اسکا حلیہ یوں بیان کیا:
"کہ وہ گندم گوں کھلے بالوں والا تھا"۔
(بخاری جلد اول کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتب مریم۔۔۔۔ )

کیا اسکے بعد بھی کسی قسم کے شک کی گنجائش باقی ہے۔
یاد رہے کہ امت میں آنے والے کئی مجددین اور بزرگان و اولیا نے بھی اپنی کتابوں میں آنے والے مسیح کو پرانے مسیح سے علیحدہ سمجھا ہے۔ اس حدیث کے بعد ضرورت تو نہیں لیکن اگر کسی کی تسلی نہ ہوئی ہو ان کے حوالے بھی پیش کئے جاسکتے ہیں۔
 

رانا

محفلین
ابھی تک میں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات سے متعلق صرف ایک ہی آیت پیش کی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف ایک ہی آیت میں ایسا ذکر ہے۔ شام کو اگر وقت ملا تو انشاءاللہ کچھ مذید آیات بھی پیش کروں گا۔
 

سویدا

محفلین
ابھی تک میں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات سے متعلق صرف ایک ہی آیت پیش کی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف ایک ہی آیت میں ایسا ذکر ہے۔ شام کو اگر وقت ملا تو انشاءاللہ کچھ مذید آیات بھی پیش کروں گا۔
شکریہ جی آپ اپنے قیمتی اوقات نکال کر اپنا نقطہ نظر اور اپنی نادر تحقیقات یہاں پیش کررہے ہیں۔
 
میرے خیال میں حضرت عیسی علیہ السلام کے دنیا میں واپس آنے کے موضوع پر پہلے بھی بحث ہو چکی ہے اور ثابت کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ خیر، میرا یہاں اس بحث میں پڑنے کا ارادہ نہیں ہے، مجھے صرف یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ تھریڈ اب کس نہج پر جا رہا ہے؟
درست فرمايا، يہ تھریڈاصل موضوع سے كافى دور جا رہا ہے۔اگر ايسى بحث پہلے موجود ہے تو نئے سرے سے اس پر بات كرنے كى ضرورت نہیں ۔ تاہم اگر انتظاميہ كى اجازت ہوئی تو اس موضوع پر ان شا ء اللہ گفتگو ہو گی۔ فی الوقت ايك اہم بات كى طرف اركان محفل كى توجہ مبذول كروانا ضرورى سمجھتی ہوں۔
ام نورالعین صاحبہ!
تمام مقربان الہی آسمان ہی طرف اٹھائے جاتے ہیں اس میں حضرت عیسی کی کوئی خصوصیت نہیں۔ یہ چند آیات پر غور کریں۔
1- حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ کے ایک شخص "بلعم باعور" کی نسبت فرمایا:
" اگر ہم چاہتے تو ان نشانوں کے ذریعہ اس کا "رفع" کرتے۔ لیکن وہ تو خود زمین کی طرف جھک گیا۔" (الاعراف:177)
تمام علما یہاں پر"رفع" کا مطلب درجات کی بلندی کے کرتے ہیں۔ کوئی ایک بھی عالم نہیں جو یہ کہتا ہو کہ اگر اللہ چاہتا تو اسکو آسمان پر اٹھا لیتا لیکن وہ تو خود زمین کی طرف چلا گیا۔
جس بات كو اس تيقن سے باحوالہ پیش كيا گیا سورة الاعراف كى آيت نمبر 177 ميں یہ بات ہے ہی نہیں ، اصل آيت ملاحظہ ہو :
[ARABIC]سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَأَنفُسَهُمْ كَانُوا يَظْلِمُونَ [/ARABIC]
ن لوگوں کی حالت بھی بری حالت ہے جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں اور وه اپنا نقصان کرتے ہیں سورة الاعراف 177
بہر حال معنوى لحاظ سے آیت موقعے كى مناسبت سے ہے ۔يہ بھی قرآن كريم كا معجزہ ہے ۔ سبحان اللہ۔

2- حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
"میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں"۔ (الصافات: 100)
یہاں پر آپ کیا ترجمہ کریں گے کہ وہ آسمان پر چلے گئے؟

قرآن كريم كى سورة الصافات كى 100 ويں آیت ملاحظہ فرمائيے :
رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿١٠٠﴾
ترجمہ: اے میرے رب! مجھے نیک بخت اوﻻد عطا فرما (١٠٠) !!!!
يقينا يہ حيرت انگیز ہے !

3- ہرمسلمان کی وفات پر پڑھا جاتا ہے کہ:
"انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اللہ ہی طرف ہم جائیں گے" (البقرہ:157)۔
یہاں پر کیوں آسمان کی طرف جانے کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ اللہ کی طرف جانے کا ہی ذکر ہے۔
یہ سورة البقرة كى آيت 157 نہیں ہے!

4- البتہ کافروں اور بدکاروں کے متعلق لکھتا ہے کہ ان کی روحیں آسمان پر نہیں جاسکتیں۔
"مکذبوں اور متکبروں کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے"۔ (الاعراف: 41)
معاف كيجيے گا سورة الاعراف آيت آيت 41 كا ترجمہ پیش خدمت ہے: "ان کے لئے آتش دوزخ کا بچھونا ہوگا اور ان کے اوپر (اسی کا) اوڑھنا ہوگا اور ہم ایسے ﻇالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں "۔

اب آیات قرآنیہ میں یہ تمام تحريفات كاپی پیسٹ کے ذمے مڑھ كر برى الذمہ ہوا جا سكتا ہے۔
بہرحال
قياس كن زگلستان من بہار مرا !​
نستغفر اللہ ونتوب اليہ۔
 

سویدا

محفلین

اب یہ تمام تحريفات كاپی پیسٹ کے ذمے مڑھ كر برى الذمہ ہوا جا سكتا ہے۔
بہرحال
قياس كن زگلستان من بہار مرا !​
نستغفر اللہ ونتوب اليہ۔

بالفرض کاپی پیسٹ کی غلطی مان بھی لی جائے تب بھی آیات سے جواستدلال کیا گیا ہے لفظی لغوی اور معنوی ہر اعتبار سے غلط ہے
مثلا انا للہ وانا الیہ راجعون میں وفی یا توفی کا لفظ تو استعمال ہی نہیں ہوا ہے
نیز قرآن میں نیند کے لیے بھی لفظ یتوفی استعمال ہوا ہے :
اللہ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامہا فیمسک التی قضی علیھا الموت ویرسل الاخری الی اجل مسمی (الزمر)
خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں (ان کی روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر موت کا حکم کرچکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں
اسی طرح آیت وھو الذی یتوفاکم باللیل (الانعام)
اور وہی تو ہے جو رات کو (سونے کی حالت میں) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔
ان دونوں آیتوں میں نیند پر وفات کا اطلاق کیا گیا ہے
 

رانا

محفلین

اب آیات قرآنیہ میں یہ تمام تحريفات كاپی پیسٹ کے ذمے مڑھ كر برى الذمہ ہوا جا سكتا ہے۔
بہرحال
قياس كن زگلستان من بہار مرا !​
نستغفر اللہ ونتوب اليہ۔

محترمہ ام نورالعین صاحبہ!
میں اسے بالکل بھی کاپی پیسٹ کے سر منڈھ کر بری الذمہ ہونے کے موڈ میں نہیں ہوں۔
اگر آپ نے یہ دھاگہ شروع سے ملاحظہ کیا ہے تو آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ میں احمدی ہوں اور میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔
جماعت احمدیہ کی طرف سے جو قرآن شریف کے نسخے چھاپے جاتے ہیں ان میں بسم اللہ کو آیت نمبر1 شمار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ بسم اللہ ہر سورۃ کا حصہ ہے۔ جبکہ آپ لوگوں کے نزدیک کیونکہ بسم اللہ ہر سورۃ کا حصہ نہیں اس لئے آپ بسم اللہ کے بعد والی پہلی آیت کو آیت نمبر 1 لکھتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں وہ آیت نمبر 2 شمار ہوتی ہے۔ صرف اتنا فرق ہے۔ اس لئے میں نے تمام آیات کے نمبراپنی جماعت کے چھپے ہوئے قرآنی نسخے سے دیئے ہیں۔ یہ البتہ مجھ سے بھول ہوئی کہ مجھے اس طرف توجہ دلانے کا خیال نہیں ہوا۔ خیر تو میں نے جس آیت کا بھی حوالہ دیا ہے اس آیت نمبر میں سے 1 گھٹا دیں تو آپ کو اپنے قرآنی نسخے میں بالکل ٹھیک جگہ پر وہ آیت ملے گی۔ یعنی اگر میں نے کسی آیت کا نمر 100 دیا ہے تو آپ ایک گھٹا کر 99 نمبر کی آیت دیکھ لیں۔ امید ہے کہ وضاحت ہوگئی ہوگی۔ بغیر سوچے سمجھے الزام نہیں لگا دینے چاہیں۔
 

رانا

محفلین
محترم سویدا، انا للہ و انا الیہ راجعون والی آیت کے حوالے سے میں نے کب کہا کہ اس میں توفی کا لفظ ہے۔ میں نے صرف یہ بتایا ہے کہ جو آیت آپ نے پیش کی ہے کہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا تو اس میں سے آسمان کا مفہوم آپ نے کہاں سے اخذ کرلیا؟ اگر اللہ کی طرف جانے کے معنی آسمان پر جانے کے ہی ہوتے ہیں تو انا للہ و انا الیہ راجعون میں بھی تو ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی طرف ہی جانے والے ہیں۔ تو یہاں کیوں آسمان کی طرف جانا نہیں مانتے۔ دونوں جگہ اللہ ہی کی طرف جانے کا ذکر ہے۔ امید ہے وضاحت ہوگئی گی۔
اور اس عام محاورہ پر بھی ذرا غور کریں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں کو اللہ نے اٹھا لیا تو کیا مراد ہوتی ہے؟ کھرب ہا کھرب انسان کے لئے جب یہ محاورہ استعمال ہو تو کیا مراد ہوتی ہے اور اگریہی محاورہ حضرت عیسٰی کے لئے استعمال ہو تو ایک دم سے مراد کیسے بدل جاتی ہے؟
 

رانا

محفلین
سویدا آپ نے اپنے پہلے دھاگے میں ایک آیت کا حوالہ دیا ہے۔ اس میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات کا ذکر ہے۔

اِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۝۰ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝۵۵ (3:56)

ترجمہ: جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ! یقیناً میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں سے نتھار کر الگ کرنے والا ہوں جو کافر ہوئے، اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالادست کرنے والا ہوں۔ پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے جس کے بعد میں تمہارے درمیان اُن باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔

یہاں آپ نے متوفیک کا ترجمہ وفات کی بجائے "پوری عمرتک پہنچاؤں گا" کیا ہے۔ اورساتھ ہی اس بات پر زور دیا ہے کہ یہاں وفات کا ترجمہ وہی کرسکتا ہے جو صحیح احادیث اور ائمہ امت کی تصریحات سے بے نیاز ہو۔ اور پہلے سے ایک عقیدہ دل میں بنائے بیٹھا ہو۔

صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی نے اس آیت کی تشریح کی ہے:
"قال ابن عباس متوفیک ای ممیتک"- (صحیح بخاری الجز الثانی۔ کتاب التفسیر باب ماجعل اللہ من بحیرۃ---- )
یعنی متوفیک کے معنے ممیتک ہیں۔ یعنی میں تجھے وفات دوں گا۔

اب بتائیے کون صحیح احادیث سے بے نیاز ہو کر آیات کو اپنی مرضی کے معنی پہنا رہا ہے؟ اور کون پہلے سے دل میں ایک عقیدہ بناکر پھر اسکے مطابق آیات کی تفسیر کررہا ہے؟ اس سے پہلی جو آیت پیش کی گئی تھی وہاں بھی صحیح حدیث سے اس آیت کے معنی ثابت کئے گئے تھے۔ یہاں بھی اس آیت کے معنی صحیح بخاری سے ثابت کئے گئے ہیں۔ جبکہ آپ نے اپنی مرضی کے معنی کرنے کے شوق میں لمبی چوڑی لغت کی دکان تو کھول لی لیکن اس حدیث سے صرف نظر کرڈالا۔ لغت ضرور دیکھیں اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں لیکن صرف حضرت عیسٰی کو وفات سے بچانے کے لئے ہی کیوں لغت یاد آتی ہے؟ حضرت یوسف علیہ السلام کے لئے بھی اور کئی دیگر انبیا کے لئے بھی یہی لفظ اللہ تعالی نے قرآن میں استعمال کیا ہے وہاں کیوں لغت سے دوسرے معنی نہیں کرتے۔ حضرت عیسٰی پراس عنایت کی کوئی خاص وجہ ہے؟ جوالزام آپ ہم پرلگاتے ہیں کہ ہم آیات کے اپنی مرضی کے معنی کرتے ہیں، ہمارے متعلق تو آپ کچھ ثابت نہیں کرسکتے لیکن آپ نے دیکھ لیا کہ آپ کے علماء خود ہی اس کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے حضرت عیسٰی سے چار وعدے کئے جو ایک خاص ترتیب میں واقع ہوئے ہیں۔ یعنی 1- وفات 2- رفع 3- تطہیر 4- غلبہ
پس اسی ترتیب کے مطابق اللہ تعالی نے پہلے حضرت عیسٰی کو وفات دی، پھر ان کا رفع کیا۔ پھر قرآن کے ذریعہ یہودیوں نے جو آپ پر الزامات لگائے تھے ان سے آپ کو پاک کیا۔ پھر چوتھے وعدے کے مطابق مسیح کے ماننے والوں کو یعنی عیسائیوں اور مسلمانوں کو آپ کے منکرین یعنی یہود پر قیامت تک غلبہ دیا۔ جو ترتیب اللہ تعالی نے قرآنی الفاظ کی رکھی ہے اسی کے مطابق جب پچھلے تین وعدے مسلمہ طور پر پورے ہوچکے ہیں تو ضرور ماننا پڑتا ہے کہ پہلا وعدہ جو مسیح کی وفات کے متعلق تھا وہ بھی پورا ہوچکا ہے۔

اس حوالے سے اللہ تعالی کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی غیرت ہے وہ اس آیت سے ظاہر ہے:
"اورہم نے کسی بشر کو تجھ سے پہلے ہمیشگی عطا نہیں کی۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تُو فوت ہوجائے اور وہ زندہ رہیں؟ " (21:35)

اب دیکھیں اللہ تعالی کس غیرت سے فرماتا ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ تُو جو انفع للناس ہے دنیا سے رحلت کرجائے اور کوئی تجھ سے پہلے کا انسان زندہ ہو۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے کا عقیدہ اسلام میں کہاں سے آیا؟
یہ عقیدہ اسلامی نہیں بلکہ عیسائیت سے مسلمانوں میں آیا ہے۔ جب اسلام کی ترقی کا زمانہ تھا اس وقت عیسائی لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اور یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ انسان اپنے خیالات کو آہستہ آہستہ ہی چھوڑتا ہے۔ ان لوگوں کے دلوں سے حضرت عیسٰی کی بے جا محبت شرک کے مقام سے تو بے شک نیچے گر گئی تھی لیکن کلی طور پر دل سے نہ نکلی تھی۔ عیسائی مذہب میں پہلے سے مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی موجود تھی۔ انہوں نے اسلام میں بھی مسیح کی آمد ثانی کی خبر پائی۔ جس سے انہوں نے یہ خیال کرلیا کہ یہ وہی خبر ہے جو عیسائیت میں موجود ہے۔ پس انہوں نے اعتقاد کر لیا کہ پہلے مسیح خود دوبارہ آئیں گے اور وہ آسمان پر زندہ ہیں۔ اورعوام الناس نے انہیں سے یہ عقیدہ سن کر اپنے دلوں میں راسخ کرلیا۔ چنانچہ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

"یعنی حافظ بن قیم رحمہ اللہ کی کتاب زاد المعاد میں لکھا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسٰی 33 سال کی عمر میں اٹھائے گئے اس کی تائید کسی حدیث سے نہیں ہوتی۔ تاکہ اس کا ماننا واجب ہو۔ شامی نے کہا ہے کہ جیسا کہ ابن القیم نے فرمایا ہے فی الواقعہ ایسا ہی ہے اس عقیدہ کی بنا حدیث رسول پر نہیں بلکہ یہ نصارٰی کی روایات ہیں"۔
(فتح البیان جلد 2 صفہ 49 ازعلامہ ابن کثیر)
 

سویدا

محفلین
مسیح کے نام میں تو آپ نے یہ تاویل کرلی کہ قیامت سے پہلے جو مسیح آئیں گے وہ عیسی نہیں ہوں گے
تو پھر ان درج ذیل صحیح احادیث میں جو عیسی کا ذکر ہے وہ کونسے عیسی ہیں از راہ کرم اس بارے میں بھی آپ اپنا کیا نقطہ نظر پیش کریں گے
فہومِ حدیث:
ابوہریرہ نےبیان کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے وہ زمانہ قریب ہے عیسٰی تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سےنزول کریں گے وہ صلیب کو توڑ دیں گے ،سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گےاس وقت مال ودولت کی اتنی کثرت ہو جائی گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اورایک سجدہ دنیا ا ور ما فیہا سے بڑھ کر ہو گاپھرابوہریرہ نے فرمایا کہ تمھارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو اور کوئی اہلِ کتاب ایسا نہیں ہو گا جو حضرت عیسٰی کی موت سے پہلے ایمان نہ لاچکےاور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہوں گے۔
(صحیح بخاری کتاب الانبیاء)
مفہومِ حدیث:
ابوہریرہ سےروایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اور عیسٰی کے درمیان کوئی نبی نہ ہوگا اور بیشک عیسٰی اتریں گے جب تم ان کودیکھو توپہچان لووہ ایک شخص ہیں متوسط قدوقامت کے رنگ ان کا سرخی اورسفیدی کے درمیان میں ہے وہ زرد کپڑے ہلکے رنگ کے پہنے ہوں گےان کےبالوں سے پانی ٹپکتا معلوم ہوگا اگرچہ وہ تربھی نہ ہوں گے وہ لوگوں سے جہا د کریں گے اسلام قبول کرنےکے لئےاور توڑڈالیں گےصلیب کواورقتل کریں گے سورکو اورموقوف کردیں جزیے کواورتباہ کر دے گااللہ تعالٰی ان کےزمانے میں سب مذہبوں کو سوا اسلام کے اور ہلاک کریں گے وہ دجال مردودکو پھر دنیا میں رہیں گے چالیس برس تک بعد اس کےان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان پرجنازے کی نمازپڑھیں گے
(سنن ابوداؤدکتاب الملاحم باب دجال کا نکلناجلد٣)

مفہومِ حدیث:
ابوہریرہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا جب مریم کے بیٹے اُتریں گے تم لوگوں میں پھر امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے(ابن ابی ذئب نے کہا جو( راوی حدیث ہیں)امامت کریں گے تمہاری تم ہی میں سے مراد ہے کہ عیسٰی امامت کریں گے اللہ کی کتاب اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے (یعنی تابع ہوں گے شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور پیروی کریں گے قرآن و حدیث کی)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی جلد اول بمع شرح امام نووی)

مفہومِ حدیث:
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے میں نے سنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ہمیشہ ایک گروہ میری امت کا لڑتا رہے گا حق پر قیامت کے دن تک وہ غالب رہے گا ۔پھر عیسٰی اتریں گے اور اس گروہ کا امام کہے گا نماز پڑھایئے وہ کہیں گے تم میں سے ایک دوسرے پر حاکم رہیں ۔یہ وہ بزرگی ہے جو اللہ تعا لٰی عنایت فرماوے گا اس امت کو( صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی جلد اول)اس کے علاوہ یہ روایات(بخاری کتاب الانبیاء جلد دوئم،مسلم کتاب الایما ن اور کتاب الفتن باب فتح قسطنطنیہ جلد اول،سنن ابوداؤدکتاب الملاحم باب دجال کا نکلناجلد٣ ،صحیح مسلم کتاب الفتن جلد٦،ابن ماجہ کتاب الفتن باب قیامت کی نشانیاں اورخروج دجال جلد٣ ،ترمذی کتاب الفتن باب زمین کا دھنس جانا اور نزول عیسٰی اور قتل دجا ل جلددوئم ،مسند احمد،تفسیرابن کثیر)میں بیان ہوئی ہیں۔
 

رانا

محفلین
"مسیح کے نام میں تو آپ نے یہ تاویل کرلی---"
محترم سویدا، آپ کے الفاظ ہی سے لگتا ہے کہ آپ یہ فیصلہ کئے بیٹھے ہیں کہ میں نے تمام تاویلات اور آیات کے معنی ناجائز طورپر اپنی مرضی سے کرلئے ہیں۔ تو پھر آپ میرے اگلے جوابات سے کس طرح مطمئن ہوسکیں گے۔ حالانکہ میرا حق تھا کہ میں یہ بات کہتا کہ آپ ناجائز طور پر اپنی مرضی کے معنی کررہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اوپر ثابت بھی کیا ہے۔ قرآن شریف کی آیات سے واضع طور پر وفات مسیح ثابت کی ہے۔ احادیث سے اس کو مطابق کرکے دکھایا ہے۔ موجودہ اور پرانے بزرگ علماء کے حوالے بھی پیش کردیئے ہیں۔ آپ کے اختیار کئے ہوئے معنوں کی تو کوئی توجیح ہی اب تک پیش نہیں ہوئی۔ اب آپ ہی بتائیں کہ پھر کسطرح قرآن سے کسی مسئلے کو ثابت کیا جاسکتا ہے؟ آپ ہی اس پر کچھ روشنی ڈالیں۔ حضرت عیسٰی کی زندگی پر جو دلائل ہیں قرآن سے تو ایک بھی نہیں، اور جو وفات پر دلائل ہیں جن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے ان کا ذرا موازنہ کرلیں۔ اور اپنے دل سے ہی فتوی پوچھ لیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف حلیوں والی احادیث کے بعد آپ ہی بتائیں کہ کیا مانا جائے؟ اور یہود کی قابل عبرت مثال بھی سامنے رکھیں اور پھر خود ہی بتائیں کہ کیا مانا جائے؟ یہود کو درست مانیں یا حضرت عیسٰی کی پیش کردہ تاویل کو درست مانیں؟ اب آپ نے حضرت عیسٰی کی حیات و وفات کے موضوع سے نکل کران کے نزول پر بات کرنا شروع کی ہے۔ جو ایک الگ وسیع موضوع ہے جس پرکھڑے کھڑے تبادلہ خیال نہیں کیا جاسکتا اوراس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک پہلے یہ ثابت نہ ہوکہ آیا وہ زندہ ہیں یا وفات یافتہ۔ پہلے اس موضوع جس پر بات ہورہی ہے اس طرف توجہ دے لیں ورنہ یہی ہوگا کہ وہاں بھی کچھ دیر بعد آپ کسی اور طرف نکل جائیں گے۔ اس وقت موضوع بحث صرف یہ ہے کہ آیا وہ زندہ ہیں یا فوت ہوگئے ہیں؟ کیا یہ تصفیہ طلب امر طے ہوگیا ہے؟ ویسے میرا مقصد یہاں بحث برائے بحث بالکل بھی نہیں ہے صرف اتنا ہے کہ ان کی حیات کا موقف بھی ایک جگہ بیان ہوجائے اور ان کی وفات سے متعلق موقف بھی۔ اسکے بعد ہرکسی کو موازنہ کرنے میں آسانی ہوگی اورجسے جو موقف قرآن و حدیث سے مطابق معلوم ہو وہ اس کے مطابق اپنی رائے رکھ لے۔ اور یہ بھی شمشاد بھائی کی فرمائش پر بات شروع کی تھی کیونکہ مقصد صرف ان پر اپنا نقطہ نظر واضع کرنا تھا کسی سے بحث کرنا نہیں اورمیرا خیال ہے کہ میں نے مناسب حد تک اپنا نقطہ نظر واضع کردیا اور یہی کافی ہے۔ ورنہ بحث سے تو کسی کی رائے تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ البتہ اگر کسی الگ دھاگے میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نزول پر بات ہوگی تو وہاں ان احادیث کا ذکر خود بخود آجائے گا۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ ان احادیث کے معنی بھی قرآن و دیگر صحیح احادیث کے مطابق ہی کئے جائیں گے۔ لیکن یہ پہلے ہی دھاگے کے اندر دھاگہ چل رہا ہے۔ اگر مذید دھاگہ در دھاگہ کی کہانی ہوئی تو کہیں دھاگوں میں الجھ کر دھاگے ہی نہ ٹوٹ جائیں۔
 

ساجد

محفلین
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں کوئی مجھے اس قسم کے مناظرہ جات کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ فرما دے تو ممنون ہوں گا۔ لکم دینکم ولی دین کا مطلب بھی سبھی کو آتا ہو گا تو بس ہمارا کام ہے دعوت دینا ، ماننا یا نہ ماننا سننے والے کی مرضی پہ منحصر ہے ہم سے اس بارے کوئی پرسش نہ ہو گی۔ میرا جو مذہب یا عقیدہ ہے میں اس پہ اسی لئیے کاربند ہوں کہ یہ میرا کوڈ آف لائف ہے اور دوسرے مذاہب کے پیرو کار بھی اسی امر کے تحت اپنے عقائد پہ عمل پیرا ہیں ۔ مناظرہ بازی سے تو کوئی بھی دوسرے کی بات نہ مانے گا بلکہ رنجشیں بڑھیں گی۔ لہذا پھر سے اللہ کے رسول اور صحابہ کرام کی زندگی سے سبق حاصل کریں تو پتہ چلے گا کہ ان کا کردار ہی سب سے بڑی تبلیغ تھی۔ ہم اپنے کردار درست کر لیں تو اس قسم کے مباحث کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ آخرت میں ہمارے لئیے جنت اور دوزخ کا فیصلہ خدائے ذوالجلال نے حضرت عیسی کی زندہ اٹھا لئیے جانے یا ان کی وفات کے عقیدے سے نہیں کرنا۔ وہاں تو ہمارے اعمال اور ان میں بھی انسانوں کے حقوق کی تلفی ہمیں دوزخ میں پھینک سکتی ہے۔ آئیے اپنے اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر سوچیں کہ کیا ہم اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کے بارے میں کبھی فکر مند ہوئے؟؟؟۔ یا پھر اپنی علمی دھونس جمانے کے لئیے مناظرہ بازی کرتے کرتے اپنے اعمال بھی برباد کر بیٹھے۔
اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع آسمانی اور پھر نزول ارضی ان کی حیات و جسد کے ساتھ ہوا یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر امت مسلمہ متفق ہے۔ اس عقیدہ کا شاہد قرآن بھی ہےاور صاحب قرآن بھی اس کے حامی علما و فقہا بھی ہیں اور محدثین و مفسرین بھی۔ میں کسی اور تمہید میں جائے بغیر اور مرزا غلام احمد قادیانی کے دیگر عقائد باطلہ کا ذکر کیے بغیر یہاں صرف رانا کی پوسٹ اور ان کے دیے ہوئے نام نہاد دلائل بارے میں کچھ چاہوں گا۔
(نیز میں یہاں رانا کی پوری پوسٹ نقل کرنے کی بجائے صرف پوسٹ نمبر دے کر اپنی بات شروع کروں گا )
جواب پوسٹ نمبر 18
۱۔ حضرت عیسی کا یہ رفع آسمانی درحقیت بڑا خاص ہے لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھیئے کہ حضرت عیسیٰ خود بھی اللہ کہ ایک خاص بندے ہیں جسطرح ان کی پیدائش عام انسانوں سے ہٹ کر تھی اسی طرح ان کی وفات بھی عام انسانوں سے اس طرح الگ ہو گی کہ اپنی موت سے پہلے وہ ایک لمبا عرصہ آسمانوں پر بتا چکے ہوں گے۔
۲۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ رفع آسمانی ان کی حیات و جسم کے ساتھ تھا بالکل اسی طرح جس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جسم کے ساتھ شب معراج اوپر آسمانوں کی سیر پر گئے اور آپ کو جنت و دوزخ کے واقعات مشاہدہ کرائے گئے۔ حضرت عیسیٰ کا نزول بھی قرب قیامت ہو گا بسلسلہ قتل دجال اور ظاہر ہے کہ چونکہ ان کا رفع جسمانی و جسدی تھا لہذا ان نزول بھی ان کی حیات دنیوی سے متصف و جسمانی ہی ہو گا بالکل اسی طرح جیسے حضرت آدم علیہ السلام کا نزول اوپر آسمانوں سے اس دنیا میں ہوا تھا۔
۳۔ اس عقیدے پر قرآن کی ہی ایک دلیل جس پر رانا نے کچھ اعتراضات کیے ہیں

[ARABIC]وَّقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا ۔بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِ۔يْمًا [/ARABIC]اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اللہ کا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں اور اس کو قتل نہیں کیا بےشک بلکہ اس کو اٹھا لیا اللہ نے اپنی طرف اور اللہ ہے زبردست حکمت والا(سورہ نسا ۔۱۵۷۔۱۵۸)
یہود کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو قتل کر دیا (نعوذ باللہ) یہاں اللہ پاک نے یہود کہ اس قول کی دو ٹوک الفاظ میں نفی کریدی اور ما قتلوہ اور ما صلبوہ کہ کر ان کے قتل مطلق کی نفی فرما دی اور یہ فرما دیا کہ بل رفعہ اللہ الیہ یعنی ، بلکہ اللہ نے اٹھا الیا اس کو اپنی طرف۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ کو موت سے بچا کر اوپر آسمانوں میں اپنی طرف اٹھا لیا ۔ اب یہاں کچھ باتیں سمجھ لیجئے۔
۱۔ بل رفعہ اللہ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے جس طرف کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیر یں حضرت عیسیٰ کے جسم و جسد اطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں ہیں۔اس لیے کہ قتل کرنا اور صلیب چڑھانا جسم کا ہی ممکن ہے روح کا قطعا ناممکن ہے۔لہذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں۔ساتھ ہی ساتھ یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کو وہ قتل کرنا چاہتے تھے اور بل رفعہ اللہ میں اس کی تردید کی گئی لہذا بل رفعہ سے مراد جسم(مع روح) ہی ہو گا نہ کہ صرف روح۔
۲۔ اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل و صلب کی نفی سےکیا فائدہ؟ کیوں کہ قتل و صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور یہاں "بل "کے بعد بصیغہ ماضی" رفعہ" کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے اپنی طرف اٹھا لیا۔یہی بات ہے کہ جملہ ائمہ و مفسرین اس بات پر بالکل متفق ہیں آپ کوئی بھی مستند تفسیر اٹھا کر دیکھ لیجئے (کئی ایک کہ تراجم اب نیٹ پر بھی دستیاب ہیں) کہ حضرت عیسیٰ کا یہ رفع ان کی زندگی کی حالت میں ان کے جسد عنصری کے ساتھ ہوا۔مثلا
۱۔ علامہ ابن جریر طبری تفسیر جامع البیان میں اس آیت کے تحت سدی سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔نیز حضرت مجاہد سے روایت کرتے ہیں سیدنا عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے زندہ اٹھا لیا۔(جامع البیان جز ۶ص ۱۴،۱۵)
۲۔علامہ ابن کثیر حضرت مجاہد کی روایت کو یوں نقل فرمایا ہے"یہود نے ایک شخص کو جو مسیح کا شبیہ تھاصلیب پر لٹکایاجبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھالیا۔(ج۳ص۱۲)
۳۔اب لفظ رفع کے بارے میں کچھ باتیں سمجھ لیجئے ۔ لفظ رفع قرآن مجید میں مختلف صیغوں کی صورت میں کل ۲۹ دفعہ استعمال ہوا ہے۔ ۱۷ مرتبہ حقیقی اور ۱۲ مرتبہ مجازی معنوں میں ۔ گو کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کہ ہیں لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے کبھی معانی و اعراض کا، کبھی اقوال و افعال کا ہوتا ہے اور کبھی مرتبہ و درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہو گا وہاں رفع جسمانی مراد ہو گی۔اور جہاں رفع اعمال و درجات کا ذکر ہو گا وہاں رفع معنوی مراد ہو گا۔یعنی جیسی شے ہو گی اس کا رفع بھی اس کے مناسب ہوگا
مثال۱۔ رفع جسمانی
و رفع ابویہ علی العرش (یوسف ۱۰۰) اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر۔
۲۔ رفع ذکر
و رفعنا لک ذکرک۔ اور ہم نے آپ ﷺ کا ذکر بلند کیا۔
۳۔ رفع درجات
ورفعنا بعضھم فوق بعض درجٰت(الزخرف ۳۲) اور بلند کر دیئے درجے بعض کے بعض پر ۔ اب یہاں جیسی شے ہے ویسے ہی اس کے مناسب رفع کی قید ہے جیسا کہ آخر میں خود ذکر و درجے کی قید موجود ہے۔ رفع کی مذکورہ تعریف اور مثالوں سمجھنے کے بعد اب یہ سمجھنا کہ قرآن میں جہاں کہیں رفع آئے گا وہ روحانی یا درجات کا ہی رفع ہوا گا محض ایک جہالت کی بات ہے اس وضاحت کے بعد اب آپ رانا کی دی ہوئی مثالوں کو سمجھ سکتے ہیں۔لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ رانا نے جہاں کہیں اردو ترجمہ میں جانا ، اٹھانا کے الفاظ دیکھے ان کو اپنے دلائل میں نقل کر دیا، چاہے وہاں رفع کا لفظ آیا ہو یا نہ آیا ہو۔ مثلا مثال ۲ اور ۳ میں کہیں ذاھب کا لفظ ہے کہیں رجع کا صیغہ ہے۔ چہ خوب۔
رانا نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ اس آیت میں آسمان کا لفظ تو نہیں بلکہ صرف اتنا ہے کہ اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کواوپر آسمانوں کی طرف اٹھا یا ہو کیونکہ اللہ پاک تو ہر جگہ موجود ہیں ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ اللہ رب العزت کے لیے فوق و علو ہے ،گو کہ وہ جہت و مکان سے منزہ ہے لیکن انسانی تفہیم کے لیے اور کسی جہت و جگہ کی تکریم کے لیےاس نے اسے اپنی طرف منسوب بھی فرمایا ہے، انہی معنوں میں قرآن میں کہا گیا ہے:
[ARABIC]ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْر[/ARABIC](سورہ ملک ۱۶)
ترجمہ: کیا تم اس سے ڈرتے نہیں جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے پس یکایک وہ لرزنے لگے۔
[ARABIC]اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْر[/ARABIC](سورہ ملک ۱۷)
کیا تم اس سے نڈر ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے وہ تم پر پتھر برسا دے پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہے۔(مرزا بشیر الدین نے ام امنتم من فی السما کا ترجمہ آسمان میں رہنے والی ہستی سے کیا ہے۔تفسیر صغیر ص ۷۶۰)
اسیا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نزول وحی کے انتظار میں باربار آسمان کی طرف دیکھا کرتےتھے۔ [ARABIC]قَدْ نَرٰى تَ۔قَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ [/ARABIC](بقرہ ۱۴۴) ترجمہ: بے شک ہم دیکھتے ہیں بار بار اٹھنا تیرے منہ کا آسمان کی طرف۔
نیز یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمایئے۔
[ARABIC]وعن أبي الدرداء قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " من أشتكى منكم شيئا أو اشتكاه أخ له فليقل : ربنا الله الذي في السماء تقدس اسمك أمرك في السماء والأرض كما أن رحمتك في السماء فاجعل رحمتك في الأرض اغفر لنا حوبنا وخطايانا أنت رب الطيبين أنزل رحمة من رحمتك وشفاء من شفائك على هذا الوجع . فيبرأ " . رواه أبو داود [/ARABIC](بحوالہ مشکوٰۃ حدیث ج۲ نمبر ۳۴)
ترجمہ: حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " تم میں سے جس شخص کو کوئی بیماری ہو یا اس کا کوئی بھائی بیمار ہو تو اسے چاہئے کہ یہ دعا پڑھے۔ ہمارا پروردگار اللہ ہے، ایسا اللہ جو آسمان میں ہے، تیرا نام پاک ہے، تیری حکومت آسمان و زمین (دونوں) میں ہے، جیسی تیری رحمت آسمان میں ہے ویسی ہی تو اپنی رحمت زمین پر نازل فرما، تو ہمارے چھوٹے اور بڑے گناہ بخش دے تو پاکیزہ لوگوں کا پروردگار ہے (یعنی ان کا محب اور کا رساز ہے اور تو اپنی رحمت میں سے (جو ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے رحمت عظیمہ) نازل فرما، اور اس بیماری سے اپنی شفا عنایت فرما " (اس دعا کے پڑھنے سے انشاء اللہ بیمار) اچھا ہو جائے گا۔ ( ابوداؤد )

نیز مزے کی بات یہ ہے کہ خود مرزا غلام احمد قادیانی نے رفعہ اللہ کے معنی آسمان کی طرف اٹھایا جانا لکھے ہیں۔
"رافعک کے معنی یہی معنی ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ فوت ہو چکےتو ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی (ازالہ اوہام ص ۲۶۶، خزائن ج۳ص۲۳۴)۔ نیز حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص کی ناقص ہی چھوڑ کرآسمانوں پر جا بیٹھے۔(حاشیہ براہیں احمدیہ ص ۳۶۱، خزائن ج۱ ص ۴۳۱)۔نیز مرزا نے مزید لکھا ہے کہ"شریعت نے دو طرفوں کو مانا ہےایک خدا کی طرف اور وہ اونچی ہے جس کا مقام انتہائی عرش ہےاور دوسری طرف شیطان کی اور بہت نیچی ہےاور اس کا انتہا زمین کا پاتال۔غرض یہ کہ تینوں شریعتوں کا متفق علیہم مسئلہ ہےکہ مومن مر کر خدا کی طرف جاتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔تحفہ گولڑویہ ص ۱۴)
گویا کہ حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ اختلاف نہیں کہ کس طرف اٹھائے گئےقادیانیوں کو بھی تسلیم ہے کہ رفع آسمانوں کی طر ف ہوا یعنی جہت رفع میں کوئی اختلاف نہیں ہاں حالت رفع میں ہے جس کی وضاحت میں نے پہلے ہی کر دی ہے۔چنانچہ بل رفعہ اللہ الیہ یعنی اللہ نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا کہ معنی یہی ہیں کہ اللہ نے آسمان پر اٹھا لیا جیسا کہ [ARABIC] تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ[/ARABIC] (معارج ۴)چڑہیں گے اس کی طرف فرشتے اور روح ۔ (اس کی طرف یعنی اللہ کیطرف) سے مراد یہی ہے کہ آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔
اوپر جو کچھ میں نے گزارشات کی ہیں ان کے بارے میں یہ بھی بتاوں کہ وہ سارے جوابات ہیں جو کہ علما اسلام ایک لمبے عرصہ سے ان قادیانیوں کو دیتے چلے آ رہے ہیں یہ مباحثہ نیا نہیں ہے رانا اس بحث کو جتنا چاہیں کھینچ لیں اور جتنا چاہے زور آزمائی کر لیں وہ ہر گز ہر گز اپنا مقصود ثابت نہیں کر سکتے ہیں ۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی ساری تصانیف میرے پاس موجود ہیں خود جب بات مرزاکی اپنی تحاریر سے ہوں گی تو شاید رانا صاحب کے پاس منہ چھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
رانا نے جو مزید پوسٹ کیں ہیں انشا اللہ ان کے جوابات میں جلد ہی دوں گا۔
نوٹ:اگر نبیل صاحب ان تھریڈز کو الگ شکل دینا چاہیں تو بتا دیں میں نے کچھ دن انتظار کے بعد یہ پوسٹ کی ہے۔
 
قادیانی اپنے موقف کی تائیید کیلئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں خواہ دن کو رات کہنا پڑے یا رات کودن۔۔۔بقول اقبال
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسّر
تاویل سے قرآں کو بناسکتے ہیں پازند​
وہ تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی معراج کو بھی جسمانی نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایک روحانی تجربہ اور کشف کہتے ہیں تاکہ عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کو تسلیم نہ کرنا پڑے۔۔۔قرآن کی آیات اور الفاظ کے صاف صاف اور واضح معانی کو مسترد کر کے ہر بات کے تمثیلی معنی بنا کر بیان کرتے ہیں گویا قرآن پاک نازل کرنے والے کے پاس الفاظ کی کمی تھی اور جو بات سیدھے طریقے سے بیان ہوسکتی تھی اسکو اس نے جان بوجھ کر گھما پھرا کر بیان کیا تاکہ 1400 سال تک لوگ گمراہی اور غلطی میں پڑے رہیں اور اتنے عرصے کے بعد کوئی شخص آکر امت کو قرآن کا مفہوم سکھائے۔۔۔لاحول ولا قوۃ الّا باللہ۔
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب۔۔۔۔۔۔
کہ سکھاتی نہیں بندہءِ مومن کو غلامی کے طریق​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top