حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا یا ۔۔۔۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

رانا

محفلین
محمود غزنوی صاحب بہتر ہوگا آپ نے جو پوانٹس اٹھائے ہیں وہ درست حوالہ جات کے ساتھ نقل کردیں پھر دیکھ لیتے ہیںِ۔
 

رانا

محفلین
محترم ابن حسن، جزاک اللہ کہ آپ بڑی محنت کررہے ہیں مرزا صاحب کی کتابوں کے حوالے دے کر کہ وہ حیات کے قائل تھے۔ جناب آپ کے حوالے یہ ظاہر کررہے ہیں کہ وہ صرف نبوت سے پہلے اس کے قائل تھے۔ اور جو حوالے آپ بعد کی کتابوں سے دئے ہیں کہ شائد وہ بعد میں بھی دوبارہ آنے کے قائل تھے تو جناب میں اس بات کی بار بار وضاحت کرچکا ہوں نزول کا قائل تو وہ تھے ہی اس میں کیا انکار ہے ان کا تو دعوی ہی یہ تھا جس نے نازل ہونا تھا وہ میں ہوں۔ حیرت ہے کہ جس شخص کے دعوے کی بنیاد ہی یہ ہے کہ ابن مریم کا آنا حق ہے اور جس ابن مریم کے آنے کی خبر تھی وہ میں ہوں۔ اس کی کتابوں سے آپ اتنی محنت سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ دوبارہ آنے کے قائل تھے۔ بہتر ہوگا میں کچھ نزول کے لفظ کی بھی وضاحت کردوں۔ لیکن آپ یہ فرمایئے کہ یکایک حیات مسیح کو ثابت کرتے کرتے یہ کیا سوجھی کہ مرزا صاحب کی تحریروں پر اعتراضات شروع کردیئے۔ کیا اس سے حضرت عیسی زندہ ہوجائیں گے۔ میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کی مجبوری ہے کیونکہ میں نے ابھی تک وفات مسیح پر قرآن اور صحیح احادیث کے واضع دلائل دیئے ہیں اور اگر کہیں تفاسیر کے حوالے دئیے ہیں تو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ متفق نہیں بلکہ اختلافی عقیدہ ہے۔ ورنہ جہاں تک وفات کو ثابت کرنے کی بات ہے وہ تو صرف قرآن اور احادیث ہی کافی ہیں۔

لیکن آپ ذرا اپنی مساعی پر نظر ڈالیں آپ نے اب تک کیا پیش کیا ہے؟ قرآن سے صرف ایک آیت رفعہ اللہ الیہ؟ جس کے بارے میں قرآن و صحیح احادیث سے میں ثابت کرچکا ہوں کہ اللہ تعالی کا نام رافع ہے وہ جب کسی انسان کا رفع کرتا ہے تو ہمیشہ درجات بلند کرنے تک۔ تمام قرآن و احادیث اور محاورہ عرب میں اسکی تائید میں ہیں۔ ایک بھی مثال اسکے خلاف نہیں ملتی۔ اور جناب صرف یہی کہتے رہے کہ میں اگر چاہوں تو مثالیں پیش کردوں لیکن کیا ایک بھی مثال پیش کی آپ نے؟ قرآن و حدیث سے ایک بھی مثال آپ نے پیش نہیں کی صرف تفاسیر پیش کردی۔ جناب کیا تفاسیر سے کسی مسئلے کو ثابت کیا جاسکتا ہے؟ تفاسیر سے تو آپ صرف یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ کچھ علما آپ کے حق میں بھی عقیدہ رکھتے تھے لیکن ان تفاسیر والے علما سند کیسے ہوگئے؟ سند تو قرآن و حدیث ہیں۔ لیکن آپ مسلسل راہ فرار اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اب جا کہ آپ کو خیال آیا کہ مرزا صاحب کی کتابوں پر اعتراض کرکے اصل مسئلے سے توجہ ہٹائی جائے لیکن یہاں بھی آپ ناکام ہوں گے۔ انشاء اللہ۔ اس کے اوپر بھی میں ضرور بات کروں گا۔ لیکن پہلے ذرا اپنا موقف حیات مسیح پر ثابت تو کریں۔ آپ کے موقف کے خلاف میں نے اتنی مثالیں دے دیں کہ قرآن و حدیث و لغت عرب آپ کے معنوں کی تائید نہیں کررہیں۔ صرف آیت رفعہ اللہ کے مشابہ ہی کئی ثبوت قرآن اور احادیث سے پیش کردئیے لیکن آپ مصر ہیں کہ نہیں وہی ترجمہ کرنا ہے جو قرآن حدیث لغت اور محاورہ عرب کے خلاف ہو۔ کیا ایک بھی آیت آپ نے ایسی پیش کی ہے جو محکم طور پر حیات مسیح کی تائید کررہی ہو؟ اورکیا ایک بھی حدیث ایسی پیش کی ہے جس میں مسیح کے آسمان پر زندہ ہونے کا ذکر ہو؟ چلیں زندہ ہونے کا نہ سہی کوئی ایسی ہی حدیث پیش کردیں جس میں کم از کم "آسمان" سے نازل ہونے کا ہی ذکر ہو۔ لیکن آپ تو صرف نزول کی احادیث پیش کر سکے ہیں۔ بہتر ہوگا اب ذرا لفظ نزول کی بھی وضاحت کردی جائے۔ کیونکہ محمود غزنوی صاحب نے بھی ذکر کیا تھا کہ پھر ہم ان سینکڑوں احادیث کو کہاں لے جائیں جس میں نزول کا ذکر ہے۔ لیکن جناب اول تو یہ اصول ہی غلط ہے کہ احادیث پر بنا کرکے ایک عقیدہ پہلے بنا لیا جائے پھراس کے مطابق قرآن کی آیت کو معنی پہنانے کی کوشش کی جائے اور معنی بھی وہ جس کی خود قرآن و حدیث و محاورہ عرب تائید ہی نہ کرتے ہوں۔ جناب ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ قرآن کے مطابق احادیث کے معنی کئے جاتے لیکن یہاں الٹ چل رہا ہے کہ کیونکہ احادیث میں لفظ نزول ہے اس لئے ہم مجبور ہیں کہ قرآن میں لفظ آسمان کو داخل کریں۔ بھائی احادیث میں اگرآسمان کا لفظ ہوتا تو پھر بھی بندہ آپ کی بات پر کچھ غور کرتا لیکن احادیث کے ذخیرے کو بھی پورا دیکھ جائیے وہاں ایک بھی حدیث ایسی نہیں ملے بھی جس میں آسمان کا ذکر ہو(وفات کی حدیثیں البتہ بہت ہیں لیکن میں ابھی صرف قرآن سے بات کررہا ہوں وفات کی احادیث بھی انشاء اللہ پیش کروں گا)۔ البتہ نزول کا لفظ ہے۔ کسی صحیح حدیث میں حضرت عیسی کے متعلق آسمان یا زندہ کا لفظ ہرگز نہیں پایا جاتا۔ لہذا خواہ مخواہ نزول کے ساتھ آسمان کا لفظ جوڑنا دھینگا مشتی ہے۔ اورمیں نے پہلے بھی مثال سے واضع کیا تھا کہ جب مذہبی دنیا میں ایک واقعہ ایسا ہی پہلے گزر چکا ہے تو اس سے سبق لینا چاہئے ورنہ آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہودی اپنے اس موقف میں سچے ہیں جو انہوں مسیح کے انکار پر پیش کیا تھا۔ باقی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیوں واضع الفاظ میں نہ بیان کردیا گیا تو جناب قرآن و حدیث سے ثابت ہوچکا ہے کہ جن الفاظ میں اللہ نے دوسرے انبیا کی وفات کی خبر دی وہی الفاظ مسیح کے متعلق استعمال کئے، جن میں دوسرے انبیا کے درجات بلند کرنے کا ذکر کیا وہی الفاظ مسیح کے متعلق استعمال کئے۔ قرآن، احادیث و محاورہ عرب ، لغات العرب سب اسکی تائید میں ہیں لیکن پھر بھی اگر کوئی کہے کہ نہیں اور زیادہ واضع الفاظ ہونے چاہئے تھے تو اسکا کیا علاج۔ بندہ خدا اللہ میاں نے تو واضع الفاظ ہی استمعال کیئے ہیں اور وہی الفاظ استعمال کئے ہیں جو دوسرے انبیا کے متعلق کئے ہیں۔ اورمحمود غزنوی صاحب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ احادیث میں واضع الفاظ میں کیوں نہ ان تمام باتوں کا ذکر کردیا کہ مثیل مسیح آئے گا۔ تو جناب انبیا کرام کی پیشگوئیوں میں عام طریق یہی ہوتا ہے کہ وہ تمثیلی زبان میں ہوتی ہیں۔ لیکن اگر پیشگوئیاں وحی جلی میں بھی مذکور ہوں تب بھی ان میں ضرور کچھ نہ کچھ اخفا کا پہلو رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ ایمان بالغیب کے لئے آزمائش اور امتحان کا پایا جانا ضروری ہے۔ امتحان کے بغیر ایمان کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ دیکھیں اگر حضرت عیسی سچ مچ دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے دمشق کے مشرق میں سفید منارہ پر اتر آئیں اور لوگ انہیں خود آسمان سے اترتا دیکھ لیں تو پھر امتحان اور آزمائش جو ایمان کے لئے ضروری ہے مفقود ہوجانے سے ان پر ایمان لانے سے کیا کمال ہوگا۔ پس پیشگوئیاں تمثیلی زبان میں ہوتی ہیں اور تعبیر طلب ہوتی ہیں۔ اور ان میں ضرور اخفا اور پردہ رکھا جاتا ہے۔ واشگاف طور پر پردہ اٹھا دینا سنت الہیہ کے خلاف ہے۔ جتنے انبیا کی تاریخ آپ کے پاس محفوظ ہے اسے دیکھ لیں ہر نبی نے دوسرے نبی کی خبر کچھ نہ کچھ تمثیلی رنگ میں دی ہے۔ کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بائیبل میں خبریں واضع نہ تھیں؟ بعض اناجیل میں تو نام تک بتادیا گیا تھا لیکن کیوں کہ ساری باتیں ظاہری رنگ میں پوری نہ ہوئیں بعض تعبیرطلب تھیں اس لئے عیسائیوں کو ٹھوکر لگ گئی۔ مثلا عیسائی کہتے ہیں کہ کیوں نہ صاف طور پر کہہ دیا کہ اسماعیل کی نسل سے ہوگا۔ یہ کیوں کہا کہ تیرے بھائیوں سے ہوگا۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ ورنہ بائیبل کی ساری پیشگوئیاں آنحضرت صلیی اللہ علیہ وسلم کی شان میں پوری ہوچکی ہیں لیکن کیونکہ بعض ظاہری رنگ میں نہیں ہوئی تھی اس لئے عیسائیوں نے انکار کردیا۔ ورنہ وہ بھی تو عیسائی راہب ہی تھا جس نے بچپن میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بائبل کی نشانئوں سے پہچان لیا تھا۔ اگرکوئی پہلی رات کا چاند دیکھ کرکہے کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے تو اسے تیز نظر کہا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی چودھویں کا چاند دیکھ کر کہے کہ میں نے بھی چاند دیکھ لیا ہے توکیا اسکے لئے بھی کوئی تعریفی جملہ کہا جائے گا۔

لفظ نزول کی حقیقت:
نزول عربی زبان کا لفظ ہے مگر قرآن، احادیث اور لغت عرب میں ہرگز اس کا مفہوم "آسمان" سے اترنا نہیں لیا جاتا۔ بلکہ کبھی تو اعزاز کے لئے مہمان پر بھی نزیل کا اطلاق کیا جاتا ہے اور اکثر ہر وہ چیز جو خداتعالی کے حکم سے زمین پر پیدا ہو اس پر بھی نزول کا لفظ بولا جاتا ہے۔ لفظ نزول کی حقیقت سمجھنے کے لئے تو ہمیں سب سے پہلے قرآن ہی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ بار بار مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ اور اس میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے۔ ہر وہ چیز جو غیر معمولی فائدہ رکھتی ہے اور جسے خداتعالی نے ایک عظیم احسان کے طور پر دنیا کو عطا کیا ہے اس کے لئے قرآن کریم نزول کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اس کے علاہ ظاہری طور پر کسی چیز کے گرنے کو بھی نازل ہونا کہا جاتا ہے۔ اس سے انکار نہیں مگر کلام الہی کا ترجمہ یا کلام الہی کے معنی حاصل کرنے ہوں تو اس کی مثالوں سے ہی وہ روشن ہوسکتے ہیں۔

قد انزل اللہ الیکم ذکرا رسولا (الطلاق 11)
یعنی اللہ تعالی نے تمہاری طرف یاد کرانے والا رسول بھیجا ہے۔
اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نزول کا لفظ استعمال کیا گیا۔ جبکہ سب جانے ہیں کہ آپ آسمان سے نہیں اترے بلکہ حضرت آمنہ کے بطن سے اسی زمین پر پیدا ہوئے تھے۔

وانزلناالحدید (الحدید 26)
یعنی ہم نے لوہا نازل کیا۔
حالانکہ لوہا کانوں سے نکلتا ہے۔

قد انزلناعلیکم لباسا (الاعراف 27)
یعنی ہم نے تم پر لباس نازل کیا۔

انزل لکم من النعام (الزمر 7)
خدا نے تم پر چارپائے نازل کئے۔
حالانکہ مویشی زمین پر ہی پیدا ہوتے ہیں۔

اب ذرا لفظ نزول پر جماعت احمدیہ کی تشریح بھی سن لیجئے۔ جہاں تک دھاتوں کا تعلق ہے لوہے کے سوا قرآن کریم میں کسی دھات کے لئے لئے لفظ نزول استعمال نہیں ہوا۔ بے شمار دھاتیں ہیں لیکن خداتعالی نے صرف لوہے کو چنا اور فرمایا کہ اسے ہم نے نازل کیا ہے۔ جانور بھی ان گنت ہیں۔ لیکن سوائے انعام یعنی چوپاؤں کے خداتعالی نے کسی جانور کے لئے لفظ نزول استعمال نہیں فرمایا۔ اس کی کیا حکمت ہے۔ ظاہر بات ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو مختلف دھاتوں سے جو فوائد پہنچے ہیں وہ سارے ایک طرف اور لوہے سے جوفائدہ پہنچا ہے وہ ایک طرف۔ یہ بات کل بھی سچ تھی اور آج بھی سچ ہے کہ بنی نوع انسان کو اس ایک دھات نے اتنے فوائد بخشے ہیں کہ تمام دنیا میں جتنی دھاتیں اور معدنیات ہیں انہوں نے مل کر بھی اتنے فوائد نہیں عطا کئے۔
تو بات صاف کھل گئی کہ ان میں سے جو بہترین ہے، سب سے اعلی ہے، جس سے عظیم فوائد وابستہ ہوتے ہیں۔ خداتعالی اس چیز کے لئے لفظ نزول استعمال فرماتا ہے۔ جانوروں میں دیکھ لیجئے کہ چوپائے دودھ دیتے ہیں، جو ہمارے لئے ہل چلاتے ہیں اور کھیتیاں اگاتے ہیں۔ جن کی کھالیں ہم ہمیشہ کپڑوں کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں اور جن کے بالوں سے آج بھی کپڑے بنتے ہیں اور پھر ذبح کر کے ان کا گوشت کھاتے ہیں کوئی اور جانور ایسا ہے جس سے انسان کے اتنے فوائد وابستہ ہوں۔ تمام دنیا میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ تمام جانوروں کی قسموں نے مل کر بنی نوع انسان کے اتنے فوائد نہیں پہنچائے جتنے ان دودھ دینے والے جانوروں نے جن کو انعام کہا جاتا ہے۔ پھر ان پر سواریاں بھی کی جاتی ہیں۔ الغرض بنی نوع انسان کا وہ کونسا فائدہ ہے جس کے لئے ان جانوروں کو استعمال نہیں کیا جاتا۔ یا ان کے ساتھ خداتعالی نے بنی نوع انسان کے فوائد وابستہ نہیں فرمائے۔
اب رسولوں پر نظر ڈالیں۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آئے مگر ان کے لئے قرآن نے لفظ نزول استعمال نہیں فرمایا، ایک نبی ہے ہمارا آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جس کے متعلق کلام الہی نے فرمایا کہ وہ نازل ہوا ہے۔ اور وہ اس لئے کہ ساری کائنات میں جتنے نبی آئے سب نے مل کر بنی نوع انسان کو وہ فوائد نہیں پہنچائے جتنے ہمارے آقا و مولی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچائے۔ مگر ظاہر پرست علما کی نظر ہی وہاں تک نہیں پہنچتی اور قرآنی اصطلاحوں پر غور ہی نہیں کرتے۔
 

رانا

محفلین
لفظ نزول کی حقیقت:
نزول عربی زبان کا لفظ ہے مگر قرآن، احادیث اور لغت عرب میں ہرگز اس کا مفہوم "آسمان" سے اترنا نہیں لیا جاتا۔ بلکہ کبھی تو اعزاز کے لئے مہمان پر بھی نزیل کا اطلاق کیا جاتا ہے اور اکثر ہر وہ چیز جو خداتعالی کے حکم سے زمین پر پیدا ہو اس پر بھی نزول کا لفظ بولا جاتا ہے۔ لفظ نزول کی حقیقت سمجھنے کے لئے تو ہمیں سب سے پہلے قرآن ہی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ بار بار مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ اور اس میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے۔ ہر وہ چیز جو غیر معمولی فائدہ رکھتی ہے اور جسے خداتعالی نے ایک عظیم احسان کے طور پر دنیا کو عطا کیا ہے اس کے لئے قرآن کریم نزول کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اس کے علاہ ظاہری طور پر کسی چیز کے گرنے کو بھی نازل ہونا کہا جاتا ہے۔ اس سے انکار نہیں مگر کلام الہی کا ترجمہ یا کلام الہی کے معنی حاصل کرنے ہوں تو اس کی مثالوں سے ہی وہ روشن ہوسکتے ہیں۔

قد انزل اللہ الیکم ذکرا رسولا (الطلاق 11)
یعنی اللہ تعالی نے تمہاری طرف یاد کرانے والا رسول بھیجا ہے۔
اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نزول کا لفظ استعمال کیا گیا۔ جبکہ سب جانے ہیں کہ آپ آسمان سے نہیں اترے بلکہ حضرت آمنہ کے بطن سے اسی زمین پر پیدا ہوئے تھے۔

وانزلناالحدید (الحدید 26)
یعنی ہم نے لوہا نازل کیا۔
حالانکہ لوہا کانوں سے نکلتا ہے۔

قد انزلناعلیکم لباسا (الاعراف 27)
یعنی ہم نے تم پر لباس نازل کیا۔

انزل لکم من النعام (الزمر 7)
خدا نے تم پر چارپائے نازل کئے۔
حالانکہ مویشی زمین پر ہی پیدا ہوتے ہیں۔

اب ذرا لفظ نزول پر جماعت احمدیہ کی تشریح بھی سن لیجئے۔ جہاں تک دھاتوں کا تعلق ہے لوہے کے سوا قرآن کریم میں کسی دھات کے لئے لئے لفظ نزول استعمال نہیں ہوا۔ بے شمار دھاتیں ہیں لیکن خداتعالی نے صرف لوہے کو چنا اور فرمایا کہ اسے ہم نے نازل کیا ہے۔ جانور بھی ان گنت ہیں۔ لیکن سوائے انعام یعنی چوپاؤں کے خداتعالی نے کسی جانور کے لئے لفظ نزول استعمال نہیں فرمایا۔ اس کی کیا حکمت ہے۔ ظاہر بات ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو مختلف دھاتوں سے جو فوائد پہنچے ہیں وہ سارے ایک طرف اور لوہے سے جوفائدہ پہنچا ہے وہ ایک طرف۔ یہ بات کل بھی سچ تھی اور آج بھی سچ ہے کہ بنی نوع انسان کو اس ایک دھات نے اتنے فوائد بخشے ہیں کہ تمام دنیا میں جتنی دھاتیں اور معدنیات ہیں انہوں نے مل کر بھی اتنے فوائد نہیں عطا کئے۔
تو بات صاف کھل گئی کہ ان میں سے جو بہترین ہے، سب سے اعلی ہے، جس سے عظیم فوائد وابستہ ہوتے ہیں۔ خداتعالی اس چیز کے لئے لفظ نزول استعمال فرماتا ہے۔ جانوروں میں دیکھ لیجئے کہ چوپائے دودھ دیتے ہیں، جو ہمارے لئے ہل چلاتے ہیں اور کھیتیاں اگاتے ہیں۔ جن کی کھالیں ہم ہمیشہ کپڑوں کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں اور جن کے بالوں سے آج بھی کپڑے بنتے ہیں اور پھر ذبح کر کے ان کا گوشت کھاتے ہیں کوئی اور جانور ایسا ہے جس سے انسان کے اتنے فوائد وابستہ ہوں۔ تمام دنیا میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ تمام جانوروں کی قسموں نے مل کر بنی نوع انسان کے اتنے فوائد نہیں پہنچائے جتنے ان دودھ دینے والے جانوروں نے جن کو انعام کہا جاتا ہے۔ پھر ان پر سواریاں بھی کی جاتی ہیں۔ الغرض بنی نوع انسان کا وہ کونسا فائدہ ہے جس کے لئے ان جانوروں کو استعمال نہیں کیا جاتا۔ یا ان کے ساتھ خداتعالی نے بنی نوع انسان کے فوائد وابستہ نہیں فرمائے۔
اب رسولوں پر نظر ڈالیں۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آئے مگر ان کے لئے قرآن نے لفظ نزول استعمال نہیں فرمایا، ایک نبی ہے ہمارا آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جس کے متعلق کلام الہی نے فرمایا کہ وہ نازل ہوا ہے۔ اور وہ اس لئے کہ ساری کائنات میں جتنے نبی آئے سب نے مل کر بنی نوع انسان کو وہ فوائد نہیں پہنچائے جتنے ہمارے آقا و مولی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچائے۔ مگر ظاہر پرست علما کی نظر ہی وہاں تک نہیں پہنچتی اور قرآنی اصطلاحوں پر غور ہی نہیں کرتے۔
 

رانا

محفلین
پھر مرزا کے ذاتی اخلاق و کردار کا جائزہ لیجئے کہ کس طرح وہ گالیاں بکا کرتا تھااور گالیاں بھی کس کو انبیا کو رسل کو ، صحابہ کو اخیار امت کو ، شراب پیتا تھا ، اور نہایت اخلاقی کج روی میں مبتلا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ باتیں آپ کو پسند نہ آرہی ہوں گئی مگر یقین جانیئے کہ یہ سچ ہے ان باتوں کا حوالہ میں آپ کو دے سکتا ہوں اور حوالہ ہی نہیں بلکہ کوشش کر کہ ان کی اسکین کاپی بھی دے سکتا ہوں (گو کہ میرے پاس اسکینر نہیں ہے لیکن آپ جو طلب کریں آپ کو دیا جاسکتا ہے)

جناب بہتر ہوگا ان تمام باتوں کو مستند حوالہ جات سے ثابت کریں۔ اسکینر اگر نہیں ہے تو ضرورت بھی نہیں۔ میرے پاس تمام کتابیں موجود ہیں میں بآسانی چیک کر لوں گا۔ صرف حوالہ مستند اور درست ہونا چاہئے کتاب کے نام کے ساتھ اور صفحہ نمبر بھی۔
 

رانا

محفلین
شمشاد بھائی میں نے قادیانی مذہب والے دھاگے میں ایک جواب ارسال کیا ہے لیکن میسج ملا ہے کہ ناظم کی منظوری کے بعد ہی ظاہر ہوگا۔ امید ہے کہ منظوری عنایت فرمائیں گے۔
 
پوسٹ نمبر ۶۴ کے آخر میں رانالکھتے ہیں
نزول سے تو مجھے انکار ہی نہیں۔ اور نزول اور حیات دو الگ الگ باتیں ہیں۔ نزول کی حدیثوں سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی نازل ہوں گے۔ ان کا زندہ ہونا کہاں سے ثابت ہوگیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ آپ کوئی ایک ہی ایسی حدیث پیش کردیتے جس میں لکھا ہوتا کہ وہ زندہ آسمان پر موجود ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسی کوئی حدیث ہے ہی نہیں۔ آپ صرف نزول کی احادیث پیش کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جیسے نزول اور حیات دونوں لازم و ملزوم ہیں۔

نیز پوسٹ نمبر ۸۲ میں نزول کی بحث میں فرماتے ہیں

بھائی احادیث میں اگرآسمان کا لفظ ہوتا تو پھر بھی بندہ آپ کی بات پر کچھ غور کرتا لیکن احادیث کے ذخیرے کو بھی پورا دیکھ جائیے وہاں ایک بھی حدیث ایسی نہیں ملے بھی جس میں آسمان کا ذکر ہو(وفات کی حدیثیں البتہ بہت ہیں لیکن میں ابھی صرف قرآن سے بات کررہا ہوں وفات کی احادیث بھی انشاء اللہ پیش کروں گا)۔ البتہ نزول کا لفظ ہے۔ کسی صحیح حدیث میں حضرت عیسی کے متعلق آسمان یا زندہ کا لفظ ہرگز نہیں پایا جاتا۔ لہذا خواہ مخواہ نزول کے ساتھ آسمان کا لفظ جوڑنا دھینگا مشتی ہے۔

اور پھر نزول کے حوالے سے مختلف حوالے دیتے ہیں لیکن زور اسی بات پر ہے کہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں کسی حدیث میں نزول کے ساتھ آسمان کا لفظ نہیں آیا۔

احادیث ملاحظہ کیجئے

قال ان ابا ہریرہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیف انتم اذ نزل ابن مریم من السماء فیکم و امامکم منکم انھتی۔
ترجمہ " اس وقت تمہارا کیا عالم ہو گا جب عیسیٰ بن مریم آسمان سے تم میں نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہو گا۔(الاسما واصفات از امام بیہقی ص ۴۲۴)
امام بیہقی کی اس حدیث میں آسمان کی صراحت موجود ہے نیز حضرت عیسیٰ کی صراحت کہ ساتھ جناب مہدی کے لیے امام کا لفظ الگ سے آیا ہے جس سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ یہ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں

نیز یاد رہے کہ امام بیہقی نے جہاں من السما کی صراحت کی ہے وہاں وہ اسے امام بخاری و مسلم کی روایت کی اسناد ذکر کر کہ فرماتے ہیں " و انما اردہ نزولہ من السماء بعد رفع الیہ " یعنی ان روایات میں آسمان پر رفع کے بعد آسمان سے نزول مراد ہے۔اور آنحضرت ، ابو ہریرہ ، ابو ہریرہ سے امام بخاری تک۔ ابوہریرہ سے امام مسلم تک ۔ حضرت ابو ہریرہ سے امام بیہقی تک تمام رواۃ کی رفع الی اسماٗ اور نزول من السما مراد تھی

۲۔و عن ابن عباس فی حدیث طویل قال قال رسول اللہ فعند ذلک ینزل اخی عیسیٰ بن مریم الی اسماء علی جبل افیق۔
ترجمہ: ابن عباس ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ پس اس وقت میرے بھائی عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوں گے ( کنز العمال ج ۱۴ ص ۶۱۹ ۳۹۷۲۶)

اس حدیث کو مرزانے حماتہ البشریٰ ص ۱۴۸ ، خزائن ۷ ۳۱۴ پر نقل کیا ہے اور اس کو صحیح جانا ہے لیکن بد ترین خیانت کا رتکاب کرتے ہوئے من السماء کے الفاظ حذف کرئیے ہیں ۔

ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیے جس حضرت عیسیٰ کا آسمان پر زندہ ہونا لازم ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا میں نے شب معراج میں ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات کی تو وہ قیامت کے بارے میں باتیں کرنے لگے ۔ پس انہوں نے اس معاملہ میں ابراہیم سے رجوع کیا ، حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں پھر حضرت موسیٰ کی طرف رجوع کیا تو انھوں نے بھی فرمایا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں پھر حضرت عیسیٰ کی طرف رجوع کیا تو انھوں نے فرمایا جہاں تک وقت قیامت کا معاملہ ہے تو اس کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں یہ بات تو اتنی ہی ہے البتہ جو عہد پروردگا ر نے مجھ سے کیا ہے اس میں یہ ہے کہ دجال نکلے گا اور میرے پاس دو باریک سی نرم تلواریں ہوں گی پس وہ مجھے دیکھتے ہی رانگ ( سیسیہ) کی طرح پگھلنے لگے گا پس اللہ ا س کو ہلاک کر دے گا ۔ یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی کہیں گے کہ اے مرد مسلم میرے نیچے کافر چھپا ہوا ہے آکر اسے قتل کردے چنا نچہ اللہ ان سب (کافروں) کو ہلاک کر دے گا۔"( مسند احمد ج۱ ص ۳۷۵ وا للفظ لہ۔ ابن ماجہ ص ۲۹۹ باب خروج الدجال و خروج عیسیٰ بن مریم علیہما السلام و خروج یاجوج ماجوج (اس میں ہے کہ میں دجال کو قتل کروں گا) ابن جریر جز ء ۱۷ ص ۹۱ آیت حتیٰ اذا فتحت الخ، مستدرک حاکم ج ۵ ص ۶۸۷ باب مذاکرۃ الانبیا فی امر الساعۃ( امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ روایت صحیحین کی شرط پر صحیح الاسناد ہے) فتح الباری ج ۱۳ ص ۷۹ ۔ در منثور ض ۴ ص ۳۳۶۔ منصف ابن ابی شیبہ ج ۸ ص ۶۶۱ حدیث نمبر ۷۱ کتاب الفتن باب ماذکر فی فتنہ الدجال)

اب ذرا اس حدیث کے نتائج پر ایک نظر ڈالیئے

۱۔ یہ واقعہ آسمانوں کا ہے اور تمام انبیا علیہم السلام کی موجودگی میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قتل دجال کے لیے دوبارہ دنیا میں آنے کا ذکر کر رہے ہیں ۔ کسی نبی نے ان پر نکیر نہ کی گویا انبیاء علیہم السلام کا قرب قیامت نزول مسیح پر اجماع ثابت ہوا۔
۲۔اس واقعہ کو آنحضرت بیان فرما تے ہیں۔
۳۔ عیسیٰ علیہ السلام نزول کو وعدہ خداوندی فرماتے ہیں ۔
۴۔ عیسیٰ علیہ السلام کی دجال سے لڑائی کے وقت میں پتھر اور ورخت کلام کریں گئے۔
۵۔دجال کے ساتھی جو جنگ میں شریک ہوں گے ہلاک ہو جائیں گے۔

اب قادیانی جواب دیں

۱۔ انبیاء علیہم السلام کے اجماع کا مرزا قادیانی اور قادیانیت منکر ہیں یا نہیں؟
۲۔ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کردہ واقعہ کو تسلیم نہ کرے وہ کون ہے۔
۳۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے وعدہ کا منکر ہو وہ کون ہے؟
۵۔مرزا کے زمانہ میں لڑائی ہوئی ؟
۶۔ پتھر اور درختوں نے کلام کیا
۷۔دجال کے ساتھی ہلاک ہوئے؟

یہاں میں ایک اور حوالہ دوں کہ رانا بڑے شد و مد سے حضرت عیسیٰ کے حیات فی السما ء کے منکر ہیں اور ادھر ان کے مرزا صاحب ایک اور نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حیات فی السماء کے بھی قائل ہیں

مرزا لکھتا ہے

"بلکہ حیات کلیم اللہ نص قرآن کریم سے ثابت ہے کیا تو نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شک نہ کریں ان کی ملاقات سے یہ آیت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کے بارے میں نازل ہوئی ۔ یہ آیت صریح ہے موسیٰ علیہ السلام کی حیات پر ۔ اس لیے کہ رسو ل اللہ کی موسیٰ علیہ السلام سے (معراج میں ) ملاقات ہوئی اور مردے زندوں سے نہیں ملا کرتے ۔ ایسی آیات تو عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نہیں بلکہ مختلف مقامات پر ان کی وفات کا ذکر ہے۔(حمامۃ البشریٰ ص ۵۵، خزائن ص ۲۲۱ ، ۲۲۲،ج ۷)

یعنی حضرت عیسیٰ کو تو تمام نصوص قرآن و حدیث کو ایک طرف رکھ کر زندہ نہیں مانا جارہا ، کیونکہ یہاں اپنا جو مطلب ہے اور یہ ہوائے نفس ہےکہ خود دعوہ مسیحیت کرنا ہے اور حضرت موسیٰ کی حیات فی السماء کے قائل ایک دم سے مرزا ہو گئے؟ چہ خوب۔ اور یہ جو مرزا نے لکھا ہے کہ زندہ مردوں سے ملاقات نہیں کیا کرتے تو جناب اگر ایک زندہ انسان کا وفات یافہ روحوں میں شامل ہونا ثبوت وفات ہے تو پھر مرزا صاحب اپنی زندگی میں ہی مر چکے تھے جو کہتے تھے کہ ۔

سوال: مسیح کو آپ نے کس طور پر دیکھا ہے آیا جسمانی رنگ میں دیکھا ہے
جوادب۔ فرمایا کہ ہاں جسمانی رنگ میں اور عین حالت بیداری میں دیکھا ہے
سوال : ہم نے بھی مسیح کو دیکھا ہے اور دیکھتے ہیں مگر وہ روحانی رنگ میں ہے کیا آپ نے بھی اسی طرح دیکھا ہے جس طرح ہم دیکھتے ہیں ۔
جواب نہیں ہم نے ان کو جسمانی رنگ میں دیکھا ہے اور بیداری میں دیکھا ہے۔( ملفوضات ج ۱۰ ص ۳۲۴)

نیز یہ بھی ملاحظہ کیجئے

میں نے اسے بارہا دیکھا ہے ایک بار میں نے اور مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا۔(تذکرہ، طبع دوم ۴۴۱، طبع سوم ۴۲۷ ، طبع چہارم ص ۳۴۹)

ایک حدیث میں پہلے بھی نقل کر چکا ہوں دوبارہ اس کو کوٹ کر کہ کچھ سوال رانا سے پوچھنا چاہوں گا۔

(۱۳)سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے نبی صلی الہہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انبیاء ان بھائیوں کی طرح ہیں جن کے باپ ایک اورمائیں مختلف ہوں۔ بنیادی طور پر ان سب کا دین ایک ہی ہے۔ میں باقی لوگوں کی نسبت عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کے قریب ترہوں۔ کیونکہ ان کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں۔ وہ (دوبارہ) دنیا میں آنے والے ہیں۔ تم انہیں دیکھتے ہی پہچان لوگے۔ ان کا قددرمیانہ، رنگ سرخی مائل گوراہوگا ، وہ زرد لباس میں ملبوس ہوں گے، یوں محسوس ہوگا کہ ان کے سرسے پانی کے قطرے گررہے ہیں اگرچہ اسے پانی نہ لگا ہوگا، وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ کا خاتمہ کردیں گے اور لوگوں کو حقیقی دین اسلام کی طرف بلائیں گے اﷲ تعالیٰ ان کے زمانے میں (ان ہی کے ہاتھوں ) دجّال کا خاتمہ کرے گا۔ زمین پر مکمل امن، سکون ہوگااور اس قدرآسودگی ہوگی کہ شیر اور اونٹ، چیتے اور گائے، بھیڑ اور بکریاں بے خوف وخطر اکٹھے چرتے ہوں گے، بچے سانپوں کے ساتھ کھیلتے ہوں گے اور سانپ ان کو کچھ بھی نہ کہیں گے ۔ عیسیٰ علیہ السلام زمین پر چالیس برس گزاریں گے اس کے بعد ان کی وفات ہوگی ، مسلمان ان کی نماز جنازہ اداکریں گے اور پھر ان کی تدفین عمل میں آئے گی۔(تفسیر ابن کثیر جلد۱ ص:۵۷۸ ۔سنن ابی داؤد ، الفتح الربانی ترتیب مسند احمدجلد۱۹ ص: ۱۴۳ مسنداحمد جلد ۲ ص: ۴۳)

رانا اور دیگر قادیانی مجھے جواب دیں

۱۔کیا مرزا قادیانی ابن مریم تھا یا ابن چراغ بی بی؟
۲۔کیا مرزا قادیانی وہی عیسیٰ ابن مریم ہے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلیم سے پہلے تشریف لائے تھے۔جن کے اور آنحضرت کے درمیان کوئی نبی نہ تھا؟
۳۔کیا مرزا غلام احمد قادیانی کے زمانے میں تمام ادیان باطلہ ، یہودیت، نصرانیت مٹ گئی یا خود مرزا قادیانی کی جنم بھونی ہندوستان میں بھی مرزا کے زمانے میں نصرانیوں کی حکومت تھی ۔؟
۴۔کیا مرزا قادیانی کے زمانے میں اسلام کا غلبہ ہوا یا مرزا قادیانی نے دین اسلام کے ماننے والوں یعنی مسلمانوں بھی کافر قرار دے کر ان کی بیخ کنی کی؟
۵۔ مرزا قادیانی کے امزنے میں دجال معہود کا قتل ہوا؟
۶۔مرزا قادیانی کے زمانے میں امن و امان ہوا ؟ یا خود وہ مقدمات کے لیے ٹھوکریں کھاتا رہا اور غیر مامون ہوا؟
۷۔ مرزا قادیانی کے زمانے میں ، کہ شیر اور اونٹ، چیتے اور گائے، بھیڑ اور بکریاں بے خوف وخطر اکٹھے چرے؟
۸۔حضرت عیسیٰ کی نماز جنازہ مسلمان پڑھیں گئے کیا قادیانی کسی صحیح حدیث ، قد صلی علیہ المسلمون، کہ مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھ چکے دکھا سکتے ہیں؟

اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کی وفات ابھی نہیں ہوئی ۔ آسمان سے نزول کے بعد یہ سب باتیں ظہور ہوں گی تب حضرت عیسیٰ کی وفات ہو گی۔

ایک اور حدیث ملاحظہ کیجے

عن الحسن مرسلا قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم للیہود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیمۃ

امام حسن بصری سے مرسلا روایت ہے کہ رسول اللہ نے یہود سے ارشاد فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام ابھی نہیں مرے وہ قیامت کے قریب ضرور لوٹ کر آئیں گئے۔( ابن کثیر ج ۱ ص ۳۶۶ زیر تحت آیت انی متوفیک، ابن جریر ج ۳ ص ۲۸۹، درمنثور ج ۲ ص ۳۶) (ابن جریر کو مرزا نے آئینہ کمالات اسلام ص ۱۶۸ پر رئیس المفسرین تسلیم کیا ہے)

اب اس حدیث میں نہایت صراحت کے ساتھ یہ بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ کی وفات ابھی نہیں ہوئی ( ان عیسیٰ لم یمت)
۲۔اس روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ قیامت سے قبل تم میں واپس لوٹیں گے۔
۳۔کیا کسی روایت میں قادیانی یہ دکھا سکتے ہیں کہ آنحضرت کے سامنے حضرت عیسیٰ کی موت کا ذکر ہو آپ نے اس کی تصدیق فرمائی ہو۔
۴۔ کیا قادیانی کسی حدیث میں انہ لا یرجع الیکم دکھا سکتے ہیں؟
قادیانی عموما اس حدیث پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے اس لیے قابل قبول نہیں ۔لیکن حسن بصری کی مرسل حدیث پر وہی کلام کرے گا جس کو ان کے مرسل اقوال کا پورا علم نہیں۔ تہذیب الکمال میں مرقوم ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں جتنی احادیث میں قال رسول اللہ کہوں اور صحابی کا نام نہ لوں سمجھ لو وہ علی بن ابی طالب کی روایت ہے کیونکہ میں ایسے کے زمانے (یعنی حجاج) میں ہوں کہ حضرت علی کانام نہیں لے سکتا۔

ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیے

عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ زمانہ آئیندہ میں حضرت عیسیٰ زمین پر اتریں گئے ( ینزل عیسیٰ بن مریم الی ارض، گویا ابھی زمین پر نہیں ہیں اور جب زمین پر نہیں ہیں تو پھر آسمان پر ہی ہوئے نا) اور میرے قریب مدفون ہوں گے۔قیامت کے دن میں مسیح بن مریم کے ساتھ اور ابو بکر و عمر کے درمیان قبر سے اٹھوں گا۔(مشکوٰہ، کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ علیہ السلام ص ۴۸۰) حضرت ابو بکر و حضرت عمر کے بارے میں مرزا کہتا ہے کہ ان کو یہ مرتبہ ملا کہ آنحضرت سے ایسے ملحق ہو کر دفن کیے گئے کہ گویا ایک ہی قبر ہے(نزول مسیح ص ۴۷) اب تیسری قبر یہاں جو بنے گی وہ حضرت عیسیٰ کی ہو گی۔

اب میرا رانا سے سوال ہے کہ وہ بتائیں کیا وہ کسی حدیث میں لا ینزل الی ارض دکھا سکتے ہیں؟
۲۔ترمذی شریف کی ایک اور حدیث کے مطابق حضرت عیسیٰ کی قبر کے لیے روضہ اقدس میں جگہ محفوظ ہے۔مرزا حضرت عیسیٰ کی قبر سری نگر میں بتاتا ہے کیا آنحضرت کا روضہ سری نگر میں ہے؟
۳۔ سری نگر میں حضرت عیسیٰ کی قبر کے بارے میں قرآن و حدیث میں سے کچھ بھی رانا دکھا سکتے ہیں؟
۴۔اور اگر مرزا قادیانی مسیح تھا تو کیا وہ آنحضرت کے روضہ طیبہ میں دفن ہوا ؟(نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ)
۵۔کیا قیامت کے دن مرزا ، حضرت ابو بکر و عمر اور آنحضرت کے ساتھ ایک قبر سے اٹھے گا؟

نیز مجھے ایک اور اہم سوال بھی رانا سے پوچھنا ہے

۱۔مرزا لکھتا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے ۱۲۰ برس کی عمر پائ (اصل الفاظ ہیں کہ اس واقعہ (یعنی واقعہ صلیب) کے بعد ۸۷ برس زندہ رہے گویا ۸۷ + ۳۳ ، ۱۲۰( ست بچن ص ۱۷۶)
۲۔ حضرت عیسیٰ نے ۱۲۵ برس کی عمر میں انتقال کیا (تریاق القلوب ص ۳۷۱)
۳۔ حضرت عیسیٰ ۱۵۳ برس کی عمر میں فوت ہوئے(یہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے واقعہ صلیب کے بعد ۱۲۰ سال کی عمر پائی اب صلیب کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضرت عیسیٰ کی عمر ۳۳ سال کے قریب تھی گو یا حضرت عیسیٰ کا انتقال مرزا کے مطابق ۱۵۳ سال کی عمر میں ہوا۔ (تذکرۃ الشہادتیں ص ۲۱)
۴۔اس طرح حضرت عیسیٰ کی قبر کے متعلق لکھا کہ یہ تو سچ ہے کہ مسیح اپنے وطن گلیل میں جا کر فوت ہو گیا۔ (ازالہ اوہام دوئم ص ۴۷۳)
۵۔ پھر لکھا کہ مسیح کی قبر بیت المقدس ، طرابلس یا شام میں ہے۔( اتمام الحجہ ص ۲۴ )
۶۔ پھر لکھا کہ مسیح کی قبر کشمیر ، سری نگر محلہ خان یار میں ہے ( کشتی نوح ص ۱۸)
اب کوئی مجھے یہ بتائے کہ یہ کیسا مسیح موعود ہے اور کیسے الہامات اس کو ہوتے ہیں کیا اللہ کے نبی اسی طرح مختلف جگہوں جھوٹ کہتے ہیں ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
رانا کو میرا چیلنج ہے کہ کسی ایک حدیث سے حضرت عیسیٰ کی قبر سری نگر میں ہونا بتا دے اور یہ بھی بتائے کہ کیوں وہ مرزا کی اسی بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کی قبر سری نگر میں ہے ۔ گلیل یا طربلس یا شام میں کیوں نہیں؟؟
نوٹ پچھلی پوسٹز میں جو بھی رانا کے سوالات باقی ہیں میں ان کے جوابات بھی جلد ہی دیتا جاوں گا لیکن رانا بھی کچھ شرم کریں اب تک جہاں جہاں وہ لاجواب ہوئے ہیں ان کے جوابات وہ گول کر گئے ہیں اور جو سوالات ان سے پوچھے گئے ہیں ان کے جوابات وہ دیں گئے یان نہیں صاف صاف بتا دیں۔

اب تک زیادہ تر میں ان کی پوسٹز کے جواب ہی دیتا رہا ہوں چونکہ میں اس مناظرہ میں دیر سے شریک ہوا تھا لہذا ان جوابات میں کچھ وقت لگ رہا ہے حضرت عیسیٰ سے متعلق قرآن اور احادیث اور دیگر دلائل انشاء اللہ میں یہاں دیتا جاوں گا۔
 
جزاكم اللہ خيرا برادر ابن حسن ، اللہ تعالى آپ کے علم وعمل میں بركت عطا فرمائے۔
اب کیا یہ پلاننگ آپ ارباب پر منکشف نہیں ہوتی کہ پہلے سے ہی ایک کھچڑی پک رہی تھی اور بالآ خر مرزا نے دعوئے مسیحیت کر ڈالا۔لیکن یہ دعوہ کہ قادیان ہی دمشق ہے درحقیقت مرزا محمود کو بھی ہضم نہیں ہوا اس لیے کہ مرزا محمود ۱۹۲۴ میں دمشق گیا ایک ہوٹل میں نماز پڑھی سامنے سفید مینار تھا ۔ کہنے لگا لو حدیث دمشق پوری ہو گئی۔( سوانح فضل عمر ج ۳ ص ۷۱) یہ تھا وہ الہام اور اس کی حقیقت ۔ رانا میں نہایت اخلاص سے آپ سے یہ گذارش کروں گا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے حالات زندگی کا ایک بار مکمل مطالعہ کیجئے اس کے وہ الہامات اور پیش گوئیاں جواس نے پیش کیں اور جو ہمیشہ غلط ثابت ہوئیں (حالانکہ حقیقی نبی کی کوئی پیش گوئی غلط ثابت نہیں ہو سکتی) پھر مرزا کے ذاتی اخلاق و کردار کا جائزہ لیجئے کہ کس طرح وہ گالیاں بکا کرتا تھااور گالیاں بھی کس کو انبیا کو رسل کو ، صحابہ کو اخیار امت کو ، شراب پیتا تھا ، اور نہایت اخلاقی کج روی میں مبتلا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ باتیں آپ کو پسند نہ آرہی ہوں گئی مگر یقین جانیئے کہ یہ سچ ہے ان باتوں کا حوالہ میں آپ کو دے سکتا ہوں اور حوالہ ہی نہیں بلکہ کوشش کر کہ ان کی اسکین کاپی بھی دے سکتا ہوں (گو کہ میرے پاس اسکینر نہیں ہے لیکن آپ جو طلب کریں آپ کو دیا جاسکتا ہے) ایک بار صرف ایک بار اپنی آخرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ضرور غیر جاندارانہ تحقیق کیجئے مجھے امید ہے کہ اللہ پاک ضرور آپ کو راہ ہدایت دکھائیں گئے۔آمین
آپ کی بقیہ باتوں کا جواب اب بعد میں انشا ء اللہ۔

مرزا غلام احمد قاديانى كذاب نہ صرف گالياں بكتا تھا بلكہ اپنى كتب ميں درج بھى كرتا تھا . ملاحظه فرمائين نمبر وار لعنت ..... يه شا شخص كى نفسياتى حالت
4.2.jpg

4.4.jpg

بشكريه راجپوت بھائی
 
کچھ متفرق جوابات

اس پوسٹ میں جو رانا کہ متفرق سوالات رہ گئے ہیں پوسٹ وائز ان کا جوا ب دیا گیا ہے اور جو مزید رہ گئے ہیں جلد ہی ان کا بھی جواب دوں گا ۔ انشاء اللہ۔

پوسٹ نمبر ۲۴
- اسکے علاوہ علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم، علامہ ابن حیان، علامہ ابو مسلم اصفہانی، علامہ محی الدین ابن عربی اور بہت سے دوسرے بزرگان امت کے حوالے ہیں جو اس وقت بوجہ طوالت لکھنا مشکل ہے۔ بلکہ کئی کے تو اصل کتابوں کے صفحات اسکین شدہ بھی مہیا ہیں۔ اگر کسی کو مذید تسلی کرنی ہو یہ سب حوالے پیش کیے جاسکتے ہے۔ آجکل کے علما میں سے سر سید، مولانا ابو الکلام آزاد، سعودی عرب کے مشہور مفسر قرآن علامہ عبدالرحمن سعدی، علامہ عبید اللہ سندھی، جاوید احمد غامدی اور آجکل ایک جماعت المسلمین بھی ہے جن کا بعینہ یہی عقیدہ ہے۔

بہتر ہے جو کچھ حوالے آپ کی زنبیل میں موجود ہیں ان کو پیش کر دیجئے کہ کہیں کوئی حسرت آپ کے دل میں رہ نہ جائے

- مفتی مصر: مصر کے مشہور متبحر عالم الازہر یونیورسٹی کے شیخ علامہ محمود شلتوت لکھتے ہیں:
"قرآن مجید اورسنت مطہرہ میں کوئی ایسی سند نہیں ہے جس سے اس عقیدہ پر دل مطمئن ہوسکے کہ حضرت عیسیٰ اپنے جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور اب تک وہ آسمان پر زندہ ہیں۔ اور یہ کہ وہی آخری زمانہ میں زمین پر آئیں گے۔" (الفتاوی از محمود شلتوت صفہ 58 مطبوعہ جامع الازہر)

محمود شلتوت ہر گز ہمارے نزدیک قابل اعتبار نہیں ہیں علامہ یوسف بنوری اس کو ملحد قرا دے چکے ہیں اور یہ وہی شلتوت ہیں نا جس نے Saving account پر سود لینا جائز قرار دیا ہے موسیقی کو جائز قرار دیا ہے۔؟ اپنے ان ہی فتاوی میں جن کا ذکر آپ فرما رہے ہیں ایسا شخص آپ کے نزدیک ہی قابل اعتبار ہو سکتا ہے ہمارے نہیں،

رانا نے لکھا ہے

امام ابن حزم رحمہ اللہ: کمالین حاشیہ تفسیر جلالین میں لکھا ہے کہ امام ابن حزم نے آیت کے ظاہری معنوں سے استدلال کرکے مسیح کی وفات بیان کی ہے۔ (جلالین مع کمالین صفحہ 109)

جلالین کے اس صفحے کا آپ کوئی عکس دے سکتے ہیں یہ حوالہ مجھے جلالین ۱۰۹ پر نہیں ملا۔پھر جلالین امام ابن حزم کی تصنیف نہیں ہے میں یہاں امام ابن حزم کی اپنی کتاب سے اقباس نقل کر دیتا ہوں تاکہ بات واضح ہو سکے۔

المحلی میں وہ صحیح مسلم کی ایک حدیث نقل کر کے کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آخری زمانے میں حاکم عادل کی حیثیت سے نازل ہوں گئے ، صلیب کو توڑ دیں ،خنزیر کو قتل کر دیں گئے ، گئے اور جزیہ کو موقوف کر دیں گئے ( المحلی ص ۳۹۱ ج ۷) اب یہاں وہ جس عیسیٰ کے قائل ہیں کیا آپ کا مرزا ان شرائط پر پورا اترتا ہے؟

جواب پوسٹ ۲۶

آج سے دوہزارسال پہلے جب حضرت عیسٰی علیہ السلام یہودیوں کی طرف مبعوث ہوئے تو اس وقت یہودی اپنے سابقہ انبیاء کی پیشگوئیوں کی بنا پر یہ سمجھتے تھے کہ مسیح موعود کے آنے سے پہلے ایلیا (الیاس نبی) کا دوبارہ دنیا میں آنا ضروری ہے۔ (حوالہ ملاکی 4:5)۔
اور الیاس نبی کے متعلق ان کی کتاب میں لکھا تھا وہ زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں۔ (حوالہ سلاطین نمبر 2)۔

اس لئے یہودیوں کے پاس ان کی کتابوں میں آنے والے مسیح کی نشانی یہ تھی کہ اس کے آنے سے پہلے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ اسی لئے جب حضرت عیسٰی علیہ السلام نے یہودیوں کے سامنے نبوت کا دعوی کیا تو یہودیوں نے جہاں اور اعتراض کئے وہاں سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اگر تُو وہی مسیح ہے جس کا ذکر ہماری کتابوں میں ہے تو اس کے آنے سے پہلے تو الیاس کا آنا لکھا ہے جو آسمان پر زندہ موجود ہے۔ پھر الیاس کہاں ہے؟ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اس کا جواب حضرت یحیٰی علیہ السلام جو ان کے ساتھ ہی ان کے وقت میں نبی تھے ان کی طرف اشارہ کرکے دیا کہ جس الیاس نے آنا تھا وہ یہی ہے لیکن لوگوں نے نہیں پہچانا۔ یہیودیوں نے حضرت عیسٰی کی اس تاویل کو درست نہ سمجھا اور پیشگوئی کے ظاہری لفظ ایلیا پر اڑ کر حضرت عیسٰی کا انکارکردیا اور آج تک یہودی دیوار گریہ کے پاس ہر ہفتے جا کر روتے ہیں کہ اے خدا اس الیاس کو بھیج جس کے بعد مسیح نے آنا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ قیامت تک ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ آنے والا تو آکر چلا بھی گیا اور وہ ظاہری الفاظ میں پڑ کر اس سے محروم رہ گئے۔ جنہوں نے مان لیا وہ اپنے وقت کے امتحان میں کامیاب ہوگئے۔

اب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر نظر ڈالیں کہ جو تمام مکاتب فکر کے علما کے نزدیک صحیح ترین سمجھی جاتی ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ میری امت یہود کے نقش قدم پر چلے گی۔ اور یہود سے اتنی مشابہ ہوجائے گی کہ جیسی ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہود میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تومیری امت میں سے بھی کوئی ایسا بد بخت نکل آئے گا۔ اور یہود کے 72 فرقے ہوگئے تھے لیکن میری امت کے 73 فرقے ہوجائیں گے جن میں سے 72 ناری اور ایک ناجی ہو گا۔ صحابہ نے پوچھا کہ وہ ناجی فرقہ کونسا ہوگا تو آپ نے فرمایا کہ وہ میرے اور میرے اصحاب کے قدم پر ہوگا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ جماعت کی شکل میں ہوگا۔

اس حدیث کے فی الحال صرف اس حصے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جس میں یہود سے مشابہت کا ذکر ہے۔ سب جانتے ہیں اور اوپر بیان کئے گئے تاریخی حقائق سے بھی واضع ہے کہ یہود کی سب سے بڑی نشانی ہی یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عیسٰی کا انکار کیا اورظاہری الفاظ کے پیچھے پڑ کر کیا کہ کیونکہ ایلیا کے آسمان پر جانے کا ذکر ہے اس لئے وہ زندہ آسمان پر گیا ہے۔ اور کیونکہ اسی کے دوبارہ آنے کا ذکر ہے اس لئے وہی آئے گا۔

جب کہ حضرت عیسٰی نے صاف فیصلہ فرما دیا کہ جب کسی کے دوبارہ آنے کی مذہبی دنیا میں پیشگوئی ہو تو اس سے مراد بنفس نفیس اسی کا آنا نہیں ہوتا بلکہ کوئی نیا وجود ہوتا ہے جس کو کسی مشابہت کی بنا پر پرانے نبی کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت یحیٰی کو حضرت الیاس کا نام دیا گیا۔

اب ذرا سوچ کر بتائیں کہ آنحضورصلی اللہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی کہ نہیں۔ یہود کے نقش قدم پر چلے ہوئے آج کے مسلمان بالکل ویسا ہی عقیدہ رکھے ہوئے ہیں! اور بالکل وہی دلائل دیتے ہیں جو یہود آج تک حضرت عیسٰی کے انکار کے دیتے ہیں کہ الیاس کا آسمان سے آنا لکھا ہے لہذا وہی آئے گا تو مانیں گے۔ مسلمان اس وقت یہود سے زیادہ ملزم ہیں کیونکہ یہود کی کتابوں میں تو "آسمان" کا لفظ بھی لکھا ہوا تھا جبکہ مسلمانوں کی کسی کتاب میں آسمان کا لفظ نہیں ہے۔ یہود کی غلطی تو سمجھ آتی ہے مسلمانوں کی غلطی کو کیا کہیں گے۔ اور پھر یہود تو کہتے ہیں اگر یہی مسیح سچا ہوا تو ہم خدا کے سامنے کتاب کھول کر رکھ دیں گے کہ ہمارا کیا قصور ہے تو نے ہی اس میں لکھوایا تھا کہ الیاس آسمان سے آئے گا۔ لیکن کیا مسلمان بھی روز قیامت خدا کے سامنے یہ عذر پیش کرسکیں گے؟ یہود کے سامنے تو کوئی مثال نہیں تھی۔ دنیا میں پہلی بار ایک واقعہ ہوا تھا ان کی سمجھ میں نہیں آیا اور وہ فیل ہوگئے۔ لیکن مسلمانوں کے سامنے تو یہود کی روز روشن کی طرح کھلی مثال بھی بطور سبق اور عبرت کے موجود ہے۔ اللہ تعالی تو کہے گا تم نے یہود سے عبرت کیوں نہ پکڑی اور حضرت عیسٰی نے جو اس مقدمے کا فیصلہ کردیا اس سے سبق کیوں نہ لیا۔ اور پھر ذرا اس بات پر بھی غور کریں کہ اگر بالفرض آج کے مسلمان یہود کے نقش قدم پر نہیں چل رہے اور ان کا عقیدہ آسمان سے بنفس نفیس آنے کا درست ہے تو پھر یہود کو آپ کسطرح غلط کہہ سکتے ہیں۔ وہ بھی تو یہی کہتے ہیں کہ آسمان سے آنے کا ذکر ہے تو ہم کچھ اور کسطرح مان لیں۔ کیا مسلمان یہود کو اس مطالبے میں غلط نہیں سمجھتے؟ اگر سمجھتے ہیں تو پھر اپنے آپ کو درست کسطرح سمجھ سکتے ہیں۔ دونوں طرف ایک ہی جیسی سچویشن ہے۔

اورسب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی وارننگ دے دی تھی کہ خبردار ایک وقت میں تم یہود کے قدم بقدم چلو گے۔ اوراس وارننگ کے جانتے ہوئے بھی اگر کوئی یہود کے نقش قدم پر چلنے پر اصرار کرے تو اسے کیا کہا جائے

آپ کے اس احمقانہ استدلال کا کیا کہنے اول تو اسکی بنیاد ہی کتب محرفہ پر رکھی پھر اپنے مرزا کا بیان کردہ ایک قصہ توڑ موڑ کر پیش کر دیا اور یہود کی طرف اپنے نبی کی کتاب میں تحریف کے مرتکب ہوئے۔ اب میں یہاں مرزا کی پوری عبارت نقل کر کہ رانا سے سوال پوچھوں گا۔
" پہلے نبیوں نے مسیح کی نسبت یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ نہیں آئے گا جب تک کہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہ آجائے مگر الیاس نہ آیا اور یسوع ابن مریم نے یونہی مسیح موعود ہونے کا دعوہ کر دیا حالانکہ الیاس دوبارہ نہ آیا اور جب پوچھا گیا تو الیاس موعود کی جگہ یوحنا یعنی یحییٰ نبی کو الیاس ٹھرایا تاکسی طرح مسیح موعوعد بن جائے حالانکہ پہلے نبیوں نے آنے والے الیاس کی نسبر ہر گز یہ تاویل نہیں کی اور خود یوحنا نبی نے الیاس سے مراد وہی الیاس مراد رکھا جو دنیا سے گذر گیا ۔ مگر مسیح نے یعنی یسوع بن مریم نے اپنی بات بنانے کے لیے پہلے نبیوں اور تمام راستبازوں کے اجماع کے برخلاف الیاس آنے والے سے مراد یوحنا اپنے مرشد کو قرار دیا اور عجیب یہ ہے کہ یوحنا اپنے الیاس ہونے سے خود منکر ہے مگر تاہم یسوع ابن مریم نے زبردستی اس کو الیاس ٹھرا ہی دیا۔(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۴۲ ، ۴۳ جو کہ پہلے نصرت الحق کے نام سے شائع ہوئی)

اب رانا یہ بتائیں کہ یہود کی طرح تحریف کس نے کی۔ اور یہود کی طرح نبیوں کو جھوٹا کون ٹھرا رہا ہے یعنی یا یوحنا جھوٹے ہیں (نعوذ باللہ) جو بقول مرزا ،الیاس ہونے کے منکر ہیں اور یا حضرت عیسیٰ (نعوذ باللہ) جو زبرستی ان کو الیاس ٹھرا رہے ہیں۔ درحقیقیت جھوٹا تو خود مرزا ہے اور اللہ کے سارے نبی سچے ہیں۔

رانا نے مزید لکھا ہے

اب آخر میں صحیح بخاری سے یہ بھی دیکھ لیں کہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی امت میں آنے والے مسیح کو پرانے مسیح سے الگ کوئی نیا وجود سمجھتے تھے۔ آپ نے جہاں پرانے مسیح کا ذکر کیا ہے تو بالکل الگ حلیہ بیان کیا اور جہاں امت میں آنے والے مسیح کا ذکر کیا تو بالکل علیحدہ حلیہ بیان کیا۔

1- آپ نے مسیح اسرائیلی کا حلیہ معراج کی رات یوں بیان کیا:
"کہ عیسٰی سُرخ رنگ اور گھنگریالے بالوں والے تھے"۔
(بخاری جلد اول کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتب مریم۔۔۔۔ )

2- اور اس صفحہ کی دوسری حدیث میں جہاں اپنی امت میں آنے والے مسیح کا ذکر کیا تو اسکا حلیہ یوں بیان کیا:
"کہ وہ گندم گوں کھلے بالوں والا تھا"۔
(بخاری جلد اول کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتب مریم۔۔۔۔ )

اس طرح صرف حلیوں میں تفاوت سے اگر آپ دو عیسیٰ مانتے ہیں پھر آپ کو دو موسیٰ بھی ماننے پریں گئے۔

پہلی حدیث ملاحطہ کیجے

ترجمہ :حضرت موسیٰ گندمی رنگت قد لمبا ، گھونگرالے بال والے تھے جیسے یمن قبیلہ شنوہ کے لوگ (بخاری ج ۱ ص ۴۵۹)

اور کتاب الالنبیا میں ایک اور حدیث ہے۔

ترجمہ: موسیٰ علیہ السلام دبلے سیدھے بال والے تھے جیسے شنوہ کے لوگ۔ (بخاری ج ۱ ص ۴۸۹) ایک اور حدیث میں حضرت موسیٰ گٹھیلے بدن کا کہا گیا ہے۔

لیکن درحقیقت ان احادیث میں کوئی اختلاف نہیں ہے یہاں لفظ جعد استعمال ہوا ہے جس کے معنی گٹھلیے جسم کہ ہیں اور یہاں یہی معنی ٹھیک ہیں نہایہ ابن الاثیر میں مجمع البحار کے حوالے سے آیا ہے کہ حدیث میں موسیٰ و عیسی کے لیے جو لفظ جعد کا آیا ہے اس کے منعی بدن کا گٹھیلا ہونا ہے نا کہ بالوں کا گھونگھرالے ہونا۔ ساتھ ہی ایک اور حدیث دیکھیے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو قسم کھا کر کہتے تھے کہ آنحضرت نے حضرت عیسیٰ کی صفت میں احمر( رنگ کا سرخ ہونا) کبھی نہیں فرمایا ۔(بخاری ج ۱ ص ۴۸۹)
اس کا مطلب یہی ہوا کہ حضرت عیسیٰ کا ایک رنگ تھا اور ان بال سیدھے تھے گھونگھرالے نہ تھے اس طرح اب ان حلیوں میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا

باقی آئیندہ تاہم یہاں ایک اور وضاحت کرتا چلوں

رانا نے اپنی پوسٹ نمبر ۶۸ میں تین ویڈیوز دی ہیں اور مجھ سے ویڈیو نمر ۳ دیکھنے کی فرمائش کی ہے۔ رانا صاحب اگر آپ ان ویڈیوز کو اپنے الفاظ میں آئیندہ بیان کر دیا کیجئے تو کافی وقت کی بچت ہو سکتی ہے جو بات اس ۱۸ ، ۱۹ منٹ کی ویڈیو میں کہی گئی ہے وہ اگر آپ اپنے الفاظ میں بیان کر دیتے تو ۲ منٹ میں پڑھی جاسکتی تھی۔
بہرحال وہ ویڈیو میں نے دیکھ لی ہے اور حیران ہو جو بات میں نےکبھی کہی نہیں اس کا جواب آپ مجھے کیا دے رہے ہیں ؟ یعنی غامدی نے کسی وقت یہ کہا مرزا نے فتح اسلام میں جو دعوہ مسیحیت کیا، اور یہ کتاب مرزا کے نور الدین کو لکھے ہوئے خط کے بعد کی ہے اس ویڈیو میں میں ثابت کیا گیا ہے کہ یہ کتاب اس خط سے پہلے شائع ہو چکی تھی؟ تو کیا میں نے فتح اسلام کا کوئی حوالہ دیا تھا یا اس کے سن اشاعت پر کوئی طبع آزمائی کی تھی جو یہ ویڈیو آپ نے مجھے دیکھنے کی دعوت دے دی۔ میرا حوالہ ایک خط تھا جو ۲۴ جنوری ۱۸۹۱ کا ہے مرزا اپنے ایک مرید سے مشورہ کر رہا ہے کہ اگر میں مثیل مسیح کا دعوہ کر دوں تو کیا حرج ہے؟ میں نے یہ کہا تھا کہ باقاعدہ ایک ڈرامے اور پلانگ کے ساتھ یہ کھیل کھیلا گیا اور یہ خط اس کا ثبوت ہے۔ جس کو آپ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ واقعی مرزا نے ایسا مشورہ کیا۔اور یوں یہ حوالہ درست ثابت ہو تا ہے۔
اب اگر فتح اسلام میں مرزا نے مثیل مسیح ہونے کا دعوہ کر دیا تھا اپنے الہامات کی روشنی میں تو اس کو کیا خدائی الہامات پر بھروسہ نہیں تھا جو وہ اپنے ایک مرید سے یہ مشورہ اور ساز باز کر رہا ہے کہ میں اگر مثیل مسیح کا دعوہ کر دوں تو کیا ہرج ہے؟ پھر یہ بھی کہ رہا ہے کہ اس عاجز کو مثیل مسیح بنے کی کچھ حاجت نہیں۔یعنی ایک طرف خدائی الہامات کی وجہ سے دعوہ مسیحیت دوسری طرف مرید سے مشورہ اور تیسری طرف اس بات کا اظہار کہ مجھے مثیل مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں۔ جب خدا نے ان کو مسیح بنا دیا اور اس کا اظہار انہوں نے کردیا تو اب اس طرح کے بیانات تو کوئی کنفیوزڈ شخص ہی دے سکتا ہے نا۔

میرا وہی دعوہ ہے کہ یہ ا لہام نہیں ایک مکمل سازش تھی ا س پر میں جلد ہی کچھ اور روشنی ڈالوں گا۔
 

رانا

محفلین
ابن حسن صاحب۔ آپ نے حضرت مسیح کے متعلق وہ احادیث پیش کی ہیں جن میں ان کے نزول کے ساتھ "آسمان" کا لفظ بھی ہے۔ جبکہ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ کسی صحیح حدیث میں نزول کے ساتھ "آسمان" کا لفظ نہیں ہے۔ اس لئے مناسب ہوگا اگر آپ ان کتب کے عکس پیش کرسکیں۔ جس صفحہ پر حدیث ہے وہ بھی اور اسی کتاب کا ٹائیٹل پیج بھی۔

آپ کی طرف سے جو اعتراضات کئے جارہے ہیں ان کے جواب دینے میں ابھی تک وفات سے متعلق دلائل پر تفصیلی بات نہیں کرسکا جو کہ اصل مقصد ہے۔ میں اب پہلے تمام دلائل وفات کے متعلق بیان کروں گا۔ تاکہ تمام وفات سے متعلق دلائل ایک جگہ جمع ہوجائیں۔ اسکے بعد پھر آپ کے ان دلائل پر اٹھائے گئے اب تک کے اعتراضات (اور جو آپ آئیندہ اٹھائیں گے) کو باری باری لوں گا۔ اسکے بعد مرزا صاحب کی کتب سے جو آپ عبارتیں پیش کرتے رہے ہیں ان پر بھی بات کروں گا۔ لیکن یہ سب کام اب ترتیب سے انشاء اللہ کروں گا تاکہ پڑھنے والوں کو بھی سہولت ہواور گفتگو بامقصد ہو۔
 

رانا

محفلین
[ARABIC]وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ۔۱۱۶۔
مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ۔۱۱۷۔[/ARABIC]
ترجمہ: اور جب کہے گا اللہ اے عیسیٰ مریم کے بیٹے تو نے کہا لوگوں کو کہ ٹھہرا لو مجھ کو اور میری ماں کو دو معبود سوا اللہ کے کہا تو پاک ہے مجھ کو لائق نہیں کہ کہوں ایسی بات جس کا مجھ کو حق نہیں اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھ کو ضرور معلوم ہوگا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے بیشک تو ہی ہے جاننے والا چھپی باتوں کا ۔میں نے کچھ نہیں کہا ان کو مگر جو تو نے حکم کیا کہ بندگی کرو اللہ کی جو رب ہے میرا اور تمہارا اور میں ان سے خبردار تھا جب تک ان میں رہا پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو توُ ہی تھا خبر رکھنے والا ان کی اور توُ ہر چیز سے خبردار ہے۔

لفظ توفی کے بارے میں واضع حقائق:
یہاں آپ نے توفیتنی کے معنی اٹھا لینا کے کئے ہیں۔ اور وضاحت کی ہے کہ توفی کا ایک مطلب پورا لینے کے بھی ہوتے ہیں۔ اور آپ نے اسے لغت سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ توفی کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں۔ لیکن بہتر ہوتا کہ آپ لغات سے یہ بھی بتاتے کہ جب کبھی یہ لفظ انسان کے لئے اللہ کی طرف سے مطلق استعمال ہوتا ہے تو سوائے قبض روح کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔ اگر کوئی دوسرے معنی کرنے ہوں تو اس کے لئے واضع لفظی قرائن موجود ہونے چاہیں۔ آپ نے بھی جومثالیں پیش کی ہیں ان میں بھی کسی انسان کے لئے اس لفظ کے یہ معنی (پورا پورا لینے) کے نہیں دکھائے۔ اورآپ کے موقف کی کمزوری اسی سے عیاں ہے کہ آپ نے فورآ تفسیروں کی بات کی ہے کہ کوئی بھی مستند تفسیر اٹھا کر دیکھ لئجئے۔ آپ نے یہ نہیں کہا کہ کوئی بھی مستند لغت اٹھا کر دیکھ لیں اس لئے کہ لغات آپ کے اس موقف کو رد کررہی ہیںِ۔ آپ تمام لغات کی ورق گردانی کرجائیے ہر جگہ آپ کو یہی ملے گا کہ جب کہا جائے کہ "توفی فلان" تو مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص مرگیا ہے۔ اسی طرح "توفہ اللہ" سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے اسے مار دیا ہے۔ کچھ مثالیں پیش ہیں۔ اور آپ کے پاس جو بھی لغت ہو اس میں بھی دکھ لیجئے گا۔

تاج العروس:
1۔ توفہ اللہ عزوجل اذا قبض نفسہ۔ یعنی جب کہا جائے کہ اللہ تعالی نے فلاں شخص کی توفی کی ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ خداتعالی نے اس کی روح قبض کرلی۔
2- توفی فلان اذا مات۔ یعنی کسی شخص کے متعلق جب یہ کہا جائے کہ توفی تو اس مراد یہ ہوگی یہ وہ شخص مرگیا۔

المنجد:
1۔ توفہ اللہ اماتہ۔ یعنی جب کہا جائے توفہ اللہ تو مراد یہ ہوگی کہ اللہ تعالی نے اسے مار دیا۔
2۔ توفی فلان۔ قبضت روحہ ومات۔ فاللہ المتوفی والعبد المتوفی۔ یعنی توفی کا مطلب یہ ہے کہ وہ مرگیا ہے۔ اللہ تعالی مارنے والا اور بندہ مرنے والا ہوا۔

3- فرائد الدریہ:
1۔ توفہ اللہ۔ یعنی خدا نے اسے مار دیا۔

یہ چند حوالے مثالآ دیئے گئے ہیں۔ کیونکہ گنجائش نہیں کہ ہر لغت کا حوالہ دیا جاسکے۔ ہر تحقیق کرنے والا اپنے طور پر چھان بین کرسکتا ہے۔ لیکن یقین رکھیں کہ خواہ آپ لغت کے بعد لغت کی ورق گردانی کرتے چلے جائیں گے ہر جگہ توفہ اللہ کا مطلب اللہ تعالی نے اسے مار دیا۔ اللہ تعالی نے اسے مار دیا ہی ملتا جائے گا۔ اور کسی ایک لغت میں بھی اس کے یہ معنی نظر نہیں آئیں گے کہ خداتعالی نے اسے جسم سمیت اٹھا لیا۔ آخر لغت کی کتابیں تو احمدیوں نے نہیں لکھیں۔ پھر یہ کیا اندھیر ہوگیا کہ ہر لغت کی کتاب اس زمانہ کے علما کو جھٹلا رہی ہے۔

جو عربی گرامر سے کچھ واقفیت رکھتے ہیں ان کے لئے اس قاعدہ کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ جب اللہ تعالی فاعل ہو اور ذی روح مفعول بہ ہو اور لفظ توفی خداتعالی کے فعل ٹھہرا کر ذی روح کی نسبت سے استعمال کیا گیا ہو تو ہرگز ہرگز اس کے معنے قبض روح کے سوا کچھ نہیں کئے جاسکتے۔ اہل علم کے لئے یہ ایک چیلنچ ہے جسے بیسیوں سال سے جماعت احمدیہ پیش کررہی ہے۔ لیکن آج تک کسی کو توفیق نہیں ملی کہ اس کا جواب دے۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

"جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہوا ہے۔ اور زبان عربی جاری ہوئی ہے۔ کسی قول قدیم کا جدید سے ثابت نہیں ہوتا کہ توفی کا لفظ کبھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیا گیا ہو۔ بلکہ جہاں کہیں توفی کے لفظ کے خداتعالی کا فاعل ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیا ہے نہ قبض جسم کے معنوں میں۔ کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیں۔ کوئی مثل اور قول اہل زبان کا اس کے مغائر نہیں۔ غرض ایک ذرہ احمتال مخالف کی گنجائش نہیں۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا اشعارو قصائد و نظم و نثرقدیم و جدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کرکے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفبہ 602)۔

جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے آج تک کسی اہل علم کو توفیق نہیں ملی کہ یہ چیلنج قبول کرے۔ ہاں کچھ عرصہ قبل مولانا مودودی صاحب کو اس کا یک جواب سوجھا تھا۔ جو دلچسپی کی خاطر درج ہے۔
جناب مودودی صاحب فرماتے ہیں:
"بعض لوگ جن کو مسیح کی طبعی موت کا حکم لگانے پراصرار ہے سوال کرتے ہیں کہ توفی کا لفظ قبض روح و جسم پر استعمال ہونے کی کوئی اور نظیر بھی لیکن جبکہ قبض روح و جسم کا واقعہ تمام بنی نوع انسان کی تاریخ میں پیش ہی ایک مرتبہ آیا ہو تو اس معنی پر اس لفظ کے استعمال کی دلیل پوچھنا محض ایک بے معنی بات ہے۔" (تفہیم القرآن جلد اول صفحہ 421)

مودودی صاحب عمومآ دور کی کوڑیاں لاتے ہیں۔ اب اسی جواب کو دیکھ لیجئے جو اس سے پہلے کسی دوسرے عالم کو نہیں سوجھا۔ اس میں پہلی قابل توجہ بات آپ کو یہ نظر آئے گی کہ جناب مودودی صاحب نے جواب کو کوشش میں کھلے لفظوں میں حضرت مرزا صاحب کے چیلنج کی سچائی کو قبول کرلیا ہے۔ جبکہ دوسرے علماء حکمت عملی سے اس بارہ میں خاموش تھے۔ جب یہ تسلیم کرلیا کہ واقعی اس کی کوئی مثال نہیں کہ اللہ تعالی نے کسی بندے کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا ہو اور قبض روح کے سوا اس کا کوئی اور مطلب ہو تو پھر حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کا چیلنج تو خود بخود ثابت ہوگیا۔ مودودی صاحب نے کم از کم حق کا عتراف تو کیا۔

اب ان کے استدلال کو لیجئے فرماتے ہیں کہ چونکہ حضرت عیسی السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک بے مثل واقعہ ہے اسلئے مسلمان علما کے لئے اس امر کا ثبوت ضروری نہیں کہ توفی کا لفظ جسم سمیت اٹھائے جانے کے معنوں میں کبھی استعمال ہوا ہے۔

اس سلسلہ میں پہلی بات تو مودودی صاحب اور دوسرے علما جو ان کے اس استدلال کو درست مانتے ہیں سے یہ پوچھنی ہے کہ کیا اب وہ اپنے ہی عقیدے کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی معراج کے قائل نہیں رہے؟ اور یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ایک رات کے لئے اللہ تعالی آپ کو اٹھا کر ساتویں آسمان سے بھی اوپر لے گیا تھا؟ اگر یہ عقیدہ ان علما کا تبدیل نہیں ہوا تو حضرت عیسی السلام کے آسمان پر جانے کو انسانی تاریخ کا بے مثل واقعہ قرار دینا کیسی ناانصافی اور حق پوشی ہے۔ افسوس اتنے بڑے علما بھی محض مناظرہ جیتنے کی خاطر جان بوجھ کر بعض حقائق کو وقت پڑنے پر چھپا جاتے ہیں تو پھر چھوٹے موٹے نسبتآ کم علم مولویوں سے ہم کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ لیکن غالباٖ اس کا تعلق علم کی نسبت تقوی اللہ سے زیادہ ہے اور افسوس جناب مودودی صاحب نے اس موقع پر اللہ کا تقوی اختیار نہیں کیا۔ لیکن بفرض محال مودودی صاحب نے اگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا اور بھول کر یہ دعوی کر بیٹھے تو کم سے کم اتنا تو سوچا ہوتا کہ باقی بڑے بڑے اہلسنت، اہلحدیث اوراہل تشیع علما جو اس بارہ میں خاموش تھے تو کوئی وجہ ہوگی۔ یہ تونہیں کہ مولوی صاحب سے بڑھ کر کوئی عالم ہی دنیا میں موجود نہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ باقی علما خوب جانتے تھے کہ یہ جواب عذر گناہ بدتراز گناہ سے بڑھ کر نہیں۔ اور عقل اس کی خوب بوٹیاں نوچ کھائے گی۔

دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے یہ تو چیلنج ہی نہیں دیا تھا کہ کوئی ایسی مثال پیش کرے کہ توفی کا مطلب آسمان پر اٹھانا ہو۔ حضرت اقدس کا چیلنج تو یہ تھا کہ کوئی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتا کہ توفی کا لفظ روح کے علاوہ جسم پر قبضہ کرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہو۔ پس آسمان پر جانے کی کوئی مثال ہو یا نہ ہو۔ اس دنیا میں جسموں پر قبضے میں لئے جانے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ آئے دن جنگوں میں طرفین کی فوجیں مقابل کے سپاہیوں کے جسم قبضے میں کرتی ہیں۔ اور آج تک لاکھوں کروٍڑوں انسانوں کے جسم دوسرے انسانوں نے اپنے قبضے میں کئے ہوں گے۔ پھر کیا ایک بھی مثال ایسی ہے کہ اس موقع پر توفی کا لفظ استعمال ہوا ہو۔

سوال تو یہ تھا کہ حضرت مسیح کے آسمان پر چڑھ جانے کے لئے آخر اللہ تعالی نے ایسے الفاظ کیوں استعمال فرمائے جن کا مطلب سوائے قبض روح کے اور کچھ نہیں بنتا۔ دیکھئے محاورہ عرب میں ہزاروں سال سے یہ لفظ استعمال ہورہا ہے۔ لیکن ایک بھی مثال نہیں قبض روح کے سوا کسی اور معنوں میں استعمال ہوا ہو۔ مگر مودودی صاحب ہنس ہر جواب میں فرماتے ہیں کہ کیسی بے معنی باتیں کرتے ہو! یہ واقعہ چونکہ بے مثل ہے اس لئے اس کے لئے لفظ بھی ایسا استعمال ہونا چاہئے تھا جس کا استعمال ان معنوں میں بےمثل ہو۔!!!

یہ جواب کیوں عقل کے خلاف ہے؟ اس لئے کہ اگرچہ ایسے یہ درست ہے کہ بعض واقعات بے مثل اور بے نظیر ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی زبان میں ان واقعات کے بیان کرنے کی طاقت ہی نہیں ہوتی اور مجبورآ غلط لفظ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ مثلآ یہ بات سب علما جانتے ہیں کہ کبھی آج تک کسی پلیٹ میں پڑا ہوا حلوہ مرغی نہیں بنا۔ لیکن باوجود اسکے اس واقعہ کے بیان کے لئے صحیح الفاظ ہر زبان میں موجود ہیں۔ اگر کوئی یہ دعوی کرنا چاہے کہ کسی وقت ایسا ہوا تھا تو وہ بآسانی ایسا کرسکتا ہے۔ پس حضرت عیسی علیہ السلام کا واقعہ اگر بے مثل بھی تھا تو عربی زبان میں بہرحال ایسے الفاظ موجود تھے۔ جو اس واقعہ کی عام الفاظ میں خبر دی دیتے۔ پھر ایسا کیوں ہوا کہ زندہ جسم سمیت اٹھانے کے لئے اللہ تعالی نے ایسے ہی الفاظ استعمال فرمائے جن کا مطلب عارضی یا ہمیشہ کی نیند سلادینے کے سوا کچھ اور نہ ہو۔
دیکھئے حضرت موسی کے عصا بن جانے کا واقعہ بھی تو بے مثل تھا لیکن قرآن کریم نے اسے عام فہم لفظوں ہی میں بیان فرما دیا۔ چونکہ یہ واقعہ بے مثل تھا الیئے کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں فرمایا جس کا مطلب کچھ اور ہی ہو۔ پس یہ سوال کرنے کا ہر شخص حق رکھتا ہے کہ اگر وفات دینے سے مراد آسمان پر اٹھانا ہے تو جب تک لغت عرب سے اسکی مثال پیش نہ کی جائے ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں۔

عام طور پر اکا دکا ہی ایسےگھر ہوں گے جہاں عربی لغت کی کتابیں موجود ہوں۔ نیز اگر ہوں بھی تو ان کا استعمال بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس لئے عام لوگوں کے لئے فیصلہ کی ایک آسان صورت یہ بھی ہے کہ قرآن شریف میں دیکھ لیں کہ توفی کا لفظ کسی نہ کسی شکل میں 23 دفعہ استعمال ہوا ہے۔ سب جگہ دیکھ لیں حضرت عیسی کو چھوڑ کر باقی جگہ اس کا ترجمہ وفات یا موت ہی کیا ہوا ہے۔ صرف دو جگہ نیند کا ترجمہ ملے گا۔ جو دراصل قبض روح کی ہی عارضی شکل ہے۔ پھر کیا یہ جائز نہیں کہ علما سے پوچھا جائے کہ جب تم خود توفی کا ترجمہ ہر جگہ قبض روح یا وفات یا موت کے سوا کوئی اور ترجمہ نہیں جاتے پھر کیا حق ہے کہ حضرت عیسی کی دفعہ اسی لفظ کا ترجمہ آسمان پر اٹھانا کرلیں۔

صحیح بخاری سے ان معنوں کی تائید:
میں نے صحیح بخاری سے یہی الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کردکھائے تھے لیکن افسوس آپ تو پہلے ہی تہیہ کیے بیٹھے تھے کچھ بھی ہو نہیں ماننا۔ کما کے لفظ پر اڑ کر کہ اس جیسے الفاظ استعمال فرمائیں گے۔ بندہ خدا جب الفاظ معین کرکے آنحضور نے بتادیئے تو پھر ضد کرنا کہ نہیں یہ الفاظ نہیں بلکہ اس جیسے ہوں گے۔ افسوس۔
 
titlekanz.jpg


k619.jpg



titleb.jpg


b302.jpg


یہ لیجئے حسب فرمائیش ان کتاب کے ٹائٹل اور متعلقہ اوراق پیش خدمت ہیں جناب آپ کی فرمائیشیں تو ہم پوری کر رہے ہیں لیکن آپ جوابات سے مسلسل کنی کترا رہے ہیں۔ اب یہ ضد جو آپ نے شروع کی ہے کہ نہیں پہلے وفات کے دلائل دوں گا پھر جو باتیں کی جاچی ہیں ان کے جواب دوں گا کیوں جانب جو گفتگو اب تک ہوچکی تسلسل کا تقاضہ تو یہ ہے کہ پہلے آپ اس کا جواب دیتے یہ کیا کہ جن باتوں کے جوابات نہ بن سکیں ان کو گول کرتے جاو اور نئے مزعومہ دلائل دیتے جاو۔ آپ کی ٹرین سارے اسٹیشن چھوڑتی ہوئی اللہ جانے کس سمت بھاگی جارہی ہے۔
نوٹ یہاں ٹرین سے مراد ٹرین ہی ہے دجال کا گدھا نہیں جیسا کا مرزا غلام احمد قادیانی کا عقیدہ تھا کہ ٹرین دجال کا گدھا ہے۔
 
رانا صاحب کو لگتا ہے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ مخاطب نے انکے دلائل کے کیا جواب دئے اور کیا اعتراضات کئے جن پر رانا صاحب کو غور و فکر کرنا چاہئیے۔۔۔میرے خیال میں تو اب بحث کی گنجائش ہی نہیں رہی۔انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو سمجھنے والے کیلئے اتنا ہی کافی ہے لیکن کٹ حجتی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
 

شمشاد

لائبریرین
میرا اپنا یہ خیال ہے کہ ایک ایک سوال کا ایک ایک جواب دیتے جائیں، دوسری صورت میں تو یہ بحث برائے بحث ہو جائے گی اور اس کا کچھ بھی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
 

رانا

محفلین
دیکھیں زیربحث بات یہ ہے کہ مسیح زندہ ہیں یا وفات یافتہ۔ اور ظاہر ہے کہ اس بارے میں قرآن و حدیث سند ہیں۔ اور میں اب تک یہی کررہا ہوں کہ قرآن و صحیح احادیث کے حوالے پیش کررہا ہوں۔ کیا میں نے اب تک کوئی ایک بھی حدیث ایسی پیش کی ہے جو صحاح ستہ یا مستند کتابوں سے نہ ہو۔ جبکہ آپ کو آسمان والی حدیث صحاح ستہ سے کوئی نہیں مل سکی۔ جو آپ نے عکس فراہم کئے ہیں ان کا مقصد یہی تھا یہ میں ان کی تحقیق کروالوں کہ آیا یہ روائتیں صحیح ہیں یا نہیں۔ آپ کو بھی یہی چاہئے تھا کہ قرآن و حدیث سے اپنے موقف کو ثابت کرتے لیکن آپ نے تو مرزا صاحب کی کتابوں سے تضاد ثابت کرنا شروع کرکے اصل مقصد سے توجہ ہٹانا شروع کردی۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اگر غامدی یا کوئی اور صاحب آپ سے وفات مسیح پر بات کریں گے تو کیا آپ ان سے احمدیت پر بحث شروع کردیں گے۔ ظاہر ہے کہ آپ قرآن و حدیث سے ہی اسے منوائیں گے۔ میرا کہنے کا مقصد یہی ہے کہ میں پہلے قرآن و حدیث سے اپنا موقف پیش کرلوں پھر اس طرف بھی توجہ دوں گا۔ انشاء اللہ۔ تسلی رکھیں۔

بہرحال جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جو آپ نے آسمان کے لفظ کے متعلق پیش کی ہیں۔ تو جناب میرے پاس بھی ان کی وفات کی احادیث تھیں لیکن میں نے انہیں اس لئے پیش نہیں کیا کہ کہیں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ صحاح ستہ سے پیش کرو۔ ورنہ آپ نے جو کنزالعمال سے آسمان سے نزول کی حدیث پیش کی ہے تو اسی کتاب میں یہ حدیث بھی درج ہے:

1۔ ان عیسی بن مریم عاش عشرین و مائۃ سنۃ۔
یعنی عیسی بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے۔
(کنزالعمال جلد 6 صفحہ 120 از علامہ علاوالدین علی المتقی)
(مستدرک حاکم صفحہ 140)
(زرقانی جلد 5 صفحۃ 421)

اب بتائیں ایک ہی کتاب میں دو متضاد احادیث!!! لیکن جو حدیث میں نے پیش کی ہے وہ کنزلاعمال کے علاوہ بھی دو اور کتب میں مذکور ہے۔ پس اس سے تو پھر یہ حدیث زیادہ اہمیت رکھتی ہے جس کی تائید کنزالعمال کے علاوہ مذید دو کتب کررہی ہیں۔

2- لوکان موسی و عیسی حیین لما و سعھا الا اتباعی۔
یعنی اگر موسی اور عیسی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اطاعت کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔
(تفسیرابن کثیر اردو جلد اول ۔ آل عمران۔ صفحہ 85 از نور محمد کارخانہ تجارت آرام باغ کراچی)
(تفسیر ابن کثیر برحاشیہ تفسیر فتح البیان جلد2 صفحہ 246)
(الیواقیت ولجواہر از امام عبدالوہاب شعرانی جلد 2 صفحہ 20)
 
جو عربی گرامر سے کچھ واقفیت رکھتے ہیں ان کے لئے اس قاعدہ کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ جب اللہ تعالی فاعل ہو اور ذی روح مفعول بہ ہو اور لفظ توفی خداتعالی کے فعل ٹھہرا کر ذی روح کی نسبت سے استعمال کیا گیا ہو تو ہرگز ہرگز اس کے معنے قبض روح کے سوا کچھ نہیں کئے جاسکتے۔ اہل علم کے لئے یہ ایک چیلنچ ہے جسے بیسیوں سال سے جماعت احمدیہ پیش کررہی ہے۔ لیکن آج تک کسی کو توفیق نہیں ملی کہ اس کا جواب دے۔

سب سے پہلے تو میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ یہ قاعدہ مرزا غلام قادیانی کا من گھڑت ہے اور کسی لغت یا کلام عرب میں یہ قاعدہ آپ لکھا ہوا ہر گز نہیں دکھا سکتے آپ کو اور پوری قادیانی ذریت کو میرا چلینج ہے ۔

دوسری بات یہ کہ مرزا کا یہ خود ساختہ قاعدہ مرزا کی اپنی تحریروں سے ٹوٹ جاتا ہے اس متوفیک کے معنی لکھے ہیں کہ " میں تجھے پوری نعمت دوں گا (خزائن 1 ص 620)

ان ساری باتوں کے ساتھ ساتھ ذرا یہ حدیث ملاحظہ کیجئے یہاں میں متعلقہ اوراق دے رہا ہوں تا کہ آپ کی تسلی ہو جائے


Pagesfromkaom08-2.jpg


Pagesfromkaom08.jpg


Pagesfromkaom08_Page_1.jpg


Pagesfromkaom08_Page_2.jpg


اب بتائیے یہاں آپ کی تمام شرائط پوری ہو رہی ہیں لیکن کوئی احمق بھی یہاں ترجمہ موت نہیں کر سکتا۔
نوٹ یہ ایک طویل حدیث ہے انڈر لائن کا مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی رمی جمار کرلے تو کوئی نہیں جانتا کہ اس کے لیے کیا (اجر) ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ اس کو پورا پورا (اجر) دے۔

الحمد للہ آپ کا اور مرزا کا یہ خودساختہ قاعدہ اس حدیث سے چکنا چور ہو جاتا ہے۔


2۔۔۔
بھائی احادیث میں اگرآسمان کا لفظ ہوتا تو پھر بھی بندہ آپ کی بات پر کچھ غور کرتا لیکن احادیث کے ذخیرے کو بھی پورا دیکھ جائیے وہاں ایک بھی حدیث ایسی نہیں ملے بھی جس میں آسمان کا ذکر ہو

اورکیا ایک بھی حدیث ایسی پیش کی ہے جس میں مسیح کے آسمان پر زندہ ہونے کا ذکر ہو؟ چلیں زندہ ہونے کا نہ سہی کوئی ایسی ہی حدیث پیش کردیں جس میں کم از کم "آسمان" سے نازل ہونے کا ہی ذکر ہو۔

یہ آپ ہی کے الفاظ تھے نا کہ ذخیرہ احادیث میں کوئی ایسی نظیر نہیں کہ آسمان سے حضرت عیسیٰ کا نزول ہو گا ۔ لیکن اب فرما رہے ہیں کہ آپ کے پاس وفات کی حدیثیں تھیں جو آپ نے اس ڈر سے پیش نہیں کیں کہ کہیں میں یہ کہ دوں صحاح ستہ میں یہ پائی نہیں جاتیں۔
رانا صاحب کیا سچائی ، دیانتداری، ایمانداری کے الفاظ آپ کے لیے غیر مانوس ہیں ۔ دعوہ کچھ جواب کچھ لگتا ہے آپ ٹھیک ٹھیک مرزا کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں وہاں بھی ایسی صفات عنقا تھیں ۔ آپ میں زرہ برابر بھی دیانتداری ہوتی تو یہاں آپ اپنی غلطی و شکست تسلیم کرتے ۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ کے پاس وفات کی کون سی احادیث ہیں میں یہاں ان کا جواب دوں جلد ہی اور پھر ایک فیصلہ کن بات کہوں گا۔ اور اس پر رائے میں اس فورم کے ممبروں سے طلب کروں گا۔ آپ کی دیانتداری اب میرے نزدیک مشکوک ہو چکی ہے۔
 
رانا صاحب کے پیش کردہ قاعدے کی طرح ایک ایسا ہی قاعدہ ہمارے پاس بھی ہے۔۔۔۔:) قاعدہ کچھ یوں ہے کہ:
"جب فاعل اللہ ہو، فعل ہو 'رفع' اور مفعول ہو ایسا ذی روح جس کی پیدائش بن باپ کے ہو۔ تو اس رفع کے معنی ہمیشہ رفع جسمانی الی السماء ہی ہوتے ہیں۔۔۔اس کے برعکس کوئی دکھادے تو چیلینج ہے:grin:۔۔۔
:rolleyes::rolleyes::cool:
 
1۔ ان عیسی بن مریم عاش عشرین و مائۃ سنۃ۔
یعنی عیسی بن مریم ایک سو بیس سال زندہ رہے۔
(کنزالعمال جلد 6 صفحہ 120 از علامہ علاوالدین علی المتقی)
(مستدرک حاکم صفحہ 140)
(زرقانی جلد 5 صفحۃ 421)

اب بتائیں ایک ہی کتاب میں دو متضاد احادیث!!! لیکن جو حدیث میں نے پیش کی ہے وہ کنزلاعمال کے علاوہ بھی دو اور کتب میں مذکور ہے۔ پس اس سے تو پھر یہ حدیث زیادہ اہمیت رکھتی ہے جس کی تائید کنزالعمال کے علاوہ مذید دو کتب کررہی ہیں۔

2- لوکان موسی و عیسی حیین لما و سعھا الا اتباعی۔
یعنی اگر موسی اور عیسی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اطاعت کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔
(تفسیرابن کثیر اردو جلد اول ۔ آل عمران۔ صفحہ 85 از نور محمد کارخانہ تجارت آرام باغ کراچی)
(تفسیر ابن کثیر برحاشیہ تفسیر فتح البیان جلد2 صفحہ 246)
(الیواقیت ولجواہر از امام عبدالوہاب شعرانی جلد 2 صفحہ 20)

پہلی حدیث میں صرف آپ نے اپنے مطلب کی بات اخذ کی ہے اور یہ بات دیانتداری کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ یہ حدیث اس طرح شروع ہوتی ہے۔
انہ لم یکن نبی کان بعدہ نبی الا عاش نصف عمر الذی کان قبلہ وان عیسیٰ ابن مریم عاش عشرین و مائۃ ۔
ترجمہ :ہر بعد میں آنے والا نبی اپنے سے پہلے نبی کی آدھی عمر پاتا ہے اور بے شک عیسیٰ بن مریم نے ایک سو بیس برس عمر پائی ۔۔۔

اب اس حدیث پر غور کیجئے کہ حضرت عیسیٰ کی عمر 120 برس ، آنحضرت کی 60 کے لگ بھگ ، اور چونکہ مرزا بقول خود نبی تھا لہذا اس کی عمر 30 سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہییے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ بقول خود مرزا کی تاریخ پیدا ئش 1839 یا 1840 کی ہے(خزائن ج ۱۳ ص ۱۷۷) اور موت 26 مئی 1908 بروز منگل وبائی ہیضہ سے ہوئی۔ اس طرح مرزا کی کل عمر 68، 69 سال کی ہوئی۔ حالانکہ اس قاعدہ کی رو سے مرزا کی عمر 30 سال کی ہونی تھی(حالانکہ ہاتھ پیر وہ 80 برس کی عمر کے لیے مار رہا تھا)۔لہذا چونکہ بقول رانا یہ حدیث درست ہے تو پھر اس حدیث کی روشنی میں مرزا نبی نہیں ہو سکتا۔
۲۔ اب اگر یہ حدیث درست ہے تو پھر اللہ پاک نے 124000 کے لگ بھگ پیغمبر بھیجے ہیں تو ذرا غور کیجئے کہ اس طرح حضرت آدم و نوح کی عمریں کیا ہوں گی( حضرت نوح کی عمر ۹۵۰ سال تھی) ۔نبی پاک سے اکیسویں نبی کی عمر اس طرح 125829120 یعنی بارہ کروڑ اٹھاون لاکھ انتیس ہزار ایک سو بیس سال بنتی ہے۔
درحقیقت یہ حدیث ابن لہیعہ کے واسطے سے مروی ہے جو محدثین کے ہاں بالکل ناقابل قبول ہے لہذا یہ حدیث حجت نہیں۔

۲۔ اور جہاں تک دوسری حدیث کا تعلق ہے تو پہلی بات کہ اگر یہ صحیح ہے تو پھر بھی مرزا جھوٹا ہے ۔ اگر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ دونوں حضرات کا انتقال ہو چکا ہے۔ تو پھر آپ مرزا کے اس قول کا کیا کریں گئے جو کہ میں نے پہلے بھی نقل کیا تھا

بلکہ حیات کلیم اللہ نص قرآن کریم سے ثابت ہے کیا تو نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شک نہ کریں ان کی ملاقات سے یہ آیت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کے بارے میں نازل ہوئی ۔ یہ آیت صریح ہے موسیٰ علیہ السلام کی حیات پر ۔ اس لیے کہ رسو ل اللہ کی موسیٰ علیہ السلام سے (معراج میں ) ملاقات ہوئی اور مردے زندوں سے نہیں ملا کرتے ۔ ایسی آیات تو عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نہیں بلکہ مختلف مقامات پر ان کی وفات کا ذکر ہے۔(حمامۃ البشریٰ ص ۵۵، خزائن ص ۲۲۱ ، ۲۲۲،ج ۷)
اب بتائیں آپ کی دی گئی اس حدیث (جس کو یقنا آپ درست مانتے ہوں گئے جبھی یہاں آپ نے اس کو نقل کیا ہے۔آپ کا اپنا نبی جھوٹا ہو رہا ہے۔ اب یا تو آپ درست ہیں اور یا آپ کا نبی)

دوسری بات یہ کہ یہ حدیث کتب حدیث میں کہیں روایت نہیں کی گئی۔جو حوالے آپ نے دیئے ہیں تو یہ بتائیے کہ اس کا راوی کون ہے کیا آُ پ اس حدیث کے راوی کا نام بتا سکتے ہیں۔ ؟۔تیسری بات تفسیر ابن کثیر سے پہلے ہی میں صحیح روایات سے ثابت کر چکا ہوں کہ وہ رفع و حیات حضرت عیسیٰ کے قائل ہیں ۔ چوتھی بات یہ کہ الیواقیت ولجواہر میں اس کا ماخذ فتوحات مکیہ باب العاشر ہے اور متعلقہ مقام پر یہ حدیث اس طرح ہے
قولہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واللہ لو کان موسیٰ حیا ماوسعہ الا ان یتبعنی
گویا یہاں صرف حضرت موسیٰ کا نام ہی مذکور ہے۔ نیز صحیح روایت جو سند کے ساتھ آئی ہے اس میں صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کانام ہے۔ چنانچہ مشکوۃ میں بھی ایسی ہی ایک حدیث ہے لیکن وہاں بھی صرف حضرت موسیٰ کا نام ہے۔"لو کان موسیٰ حیا لما واسعا الاتباعی۔ساتھ ساتھ تفسیر ابن کثیر میں بھی اس قول سے پہلے ایسا ہی ایک قول بلا سند نقل کیا گیا ہے اور اس میں بھی صرف حضرت موسیٰ کا ہی نام ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top