حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا یا ۔۔۔۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
جواب پوسٹ نمبر 23
یہاں رانا نے سورہ المائدہ کی آیات شریفہ ۱۱۶،۱۱۷ کے کچھ غلط مطالب بیان کرنے کی کوشش کی ہے پہلے ان آیات شریفہ کو دیکھتے ہیں پھر ان کی تاویلات فاسدہ کے بارے میں کچھ عرض کروں گا۔
[ARABIC]وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ۔۱۱۶۔
مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ۔۱۱۷۔[/ARABIC]
ترجمہ: اور جب کہے گا اللہ اے عیسیٰ مریم کے بیٹے تو نے کہا لوگوں کو کہ ٹھہرا لو مجھ کو اور میری ماں کو دو معبود سوا اللہ کے کہا تو پاک ہے مجھ کو لائق نہیں کہ کہوں ایسی بات جس کا مجھ کو حق نہیں اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھ کو ضرور معلوم ہوگا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے بیشک تو ہی ہے جاننے والا چھپی باتوں کا ۔میں نے کچھ نہیں کہا ان کو مگر جو تو نے حکم کیا کہ بندگی کرو اللہ کی جو رب ہے میرا اور تمہارا اور میں ان سے خبردار تھا جب تک ان میں رہا پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو توُ ہی تھا خبر رکھنے والا ان کی اور توُ ہر چیز سے خبردار ہے۔
یہاں میں پہلےکچھ تشریح لفظ توفیتنی کی کرنا چاہوں گا جس کو رانا نے یہاں باعث نزاع بنا لیا ہے۔

تفوفیتنی ، توفی، وفاۃ وغیرہ یہ سب الفاظ مشتق ہیں وفا سےاور اس لفظ کے لغوی معنی ہیں پورا کرنے کے۔یہ مادہ خواہ کسی شکل و ہیئت میں ظاہر ہو،کمال و اتمام کے معنی کو ضرور لیے ہوئے ہو گا۔[ARABIC]وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم[/ARABIC]ْ (تم میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا۔بقرہ ۴۰)۔
[ARABIC]وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُم[/ARABIC]ْ(اور ناپ تول کر دو تو پورا ناپو)اسراء۔۳۵۔
[ARABIC]يُوْفُوْنَ بِالنَّذْر[/ARABIC]ِ(پورا کرتے ہیں منت کو)دہر۔۷
[ARABIC]وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَة[/ARABIC]ِ (اور تم کو پورے بدلے ملیں گے قیامت کے دن)۔آل عمران ۔۱۸۵
اور لفظ توفی جو اسی مادہ وفا سے مشتق ہے اس کے حقیقی معنی و اخذ الشئی وافیا کے ہیں، یعنی کسی چیز کو پوارا پورا لے لینا۔یہی وجہ ہے کہ مجازا توفی سے مراد موت بھی لی جاتی ہے اور اس سے مراد ہوتی ہےاتمام عمر یعنی عمر کا پورا ہوجانا اور جس کا نتیجہ موت ہوتی ہے۔
مشہور عربی لغت لسان العرب میں ہے ۔[ARABIC]توفي الميت: استيفاء مدته التي وفيت له وعدد أيامه[/ARABIC] وشھورہ و عوامہ فی الدنیا
یعنی میت کے توفی کے معنی یہ ہیں کہ اس کی مدت حیات کو پورا کرنا اور اس کی دنیوی زندگی کے دنوں اور مہینوں اور سالوں کو پورا کر دینا۔ اردو میں بھی کہا جاتا ہے کہ فلا بزرگ کا وصال یا انتقال ہو گیا اب وصال کے معنی ملنے کے ہیں اور انتقال کے معنی منتقل ہوجانے کے ہیں۔ لیکن کیا وصال اور انتقال ،موت کے علاوہ دیگر معنوں میں استعمال نہیں ہوتے ۔کیا وصال صنم اور انتقال وراثت بھی اردو میں عام نہیں ہیں؟ بالکل ایسے ہی توفی کے مجازی معنی موت کے ہیں لیکن یہ لفظ دیگر معنوں میں بھی خوب استعال ہوتا ہے ۔
خود اگر قرآن مجید پر ہی غور کر لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ لفظ دیگر معنیوں میں بھی آیا ہے۔مثلا
آیت نمبر ۱۔ [ARABIC]اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّ۔۔قَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ [/ARABIC]
ترجمہ:اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد معین تک بھیج دیتا ہے بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔
کیا اس آیت شریفہ سے صاف ظاہر نہیں ہورہا کہ توفی ، موت سے الگ کوئی چیز ہے ۔جو کبھی موت کے ساتھ جمع ہوتی ہے اور کبھی نیند کے ساتھ۔اور جن لوگوں کی موت کا حکم نہیں ہوتا توفی کے بعد بھی وہ زندہ رہتے ہیں؟
آیت نمبر۲۔[ARABIC]وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ[/ARABIC]
ترجمہ: اور وہ وہی ہے جو تمہیں رات کو اپنے قبضے میں لے لیتا ۔(انعام ۶۰)
غور کیجے کہ اس مقام پر بھی توفی نیند کے معنوںمیں استعمال ہورہا ہے موت کے معنوں میں نہیں
چنانچہ قرآن مجید میں مرنے کے لیے موت کا لفظ استعمال ہوا ہے بہت وضاحت کے ساتھ اور کئی دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ صاف طور ہر جینے کی ضد کے لیے موت کا لفظ استعمال ہوا ہے توفی کا نہیں مثلا
[ARABIC]كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْن[/ARABIC]َ بقرہ ۲۸۔
ترجمہ: کس طرح کافر ہوتے ہو خدائے تعالیٰ سے حالانکہ تم بےجان تھے پھر جِلایا تم کو پھر مارے گا تم کو پھر جِلائے گا تم کو پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
اور یہی نہیں آپ کوئی بھی مستند تفسیر اٹھا کر دیکھ لیجئے یا کوئی ترجمہ علماء اسلام نے کہیں بھی یہاں یہ مراد نہیں لی ہے کہ اس آیت میں توفیتنی سے مراد حضرت عیسیٰ کی موت ہے۔ اگر کسی مستند تفسیر یا ترجمہ میں یہاں مراد حضرت عیسیٰ کی موت لی گئی ہے تو ذرا وہ تفسیر یا ترجمہ یہاں پیش تو کیا جائے ۔لیکن درحقیقت قادیانیوں کے پس ان کی من گھڑت تاویلات کے اور کچھ موجود نہیں ہے۔
توفی کے اس مطلب کو سمجھنے کے بعد اب دیکئے رانا نے کیا باتیں پیش کی ہیں۔
وہ فرماتے ہیں
"اس آیت میں قیامت کے دن اللہ تعالی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان ہونے والے ایک مکالمہ کا ذکر ہے۔ اور ان کے قیامت تک کے پروگرام کا اللہ تعالی نے اس میں ذکر کردیا ہے۔ یہاں حضرت عیسیٰ صرف دو زمانوں کا ذکر کرتے ہیں۔ پہلا وہ زمانہ جس میں مسیح ان کے اندر موجود تھے اور دوسرا وفات کے بعد کا زمانہ۔ حضرت عیسیٰ اللہ تعالی سے صاف کہہ رہے ہیں کہ میری قوم میں شرک میری وفات کے بعد شروع ہوا۔ اب آج دنیا پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں کہ عیسائی قوم شرک میں کئی صدیوں سے گرفتار ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں کہ میری قوم میں شرک میری وفات کے بعد شروع ہوا۔ واضع طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ وفات پاچکے ہیں۔ اور اگر وہ اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں تو پھر اس آیت کی رو سے ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی ابھی تک شرک میں گرفتار نہیں ہوئے۔"
نیز
"بعض علما یہاں "توفی" کا مطلب وفات کی بجائے آسمان پر اٹھا لینا کرتے ہیں۔
لیکن اول تو یہ انہی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کریں کہ پورے قرآن میں جب باقی انبیا کی نسبت توفی کا لفظ آئے تو وہاں وہ بھی وفات کے معنی ہی کرتے ہیں لیکن اس ایک جگہ وفات والے لفظ کے ایسے معنی کردینا کہ وفات کی بجائے آسمان پر اٹھا لینا، یہ زبردستی کیوں کی جاتی ہے۔ قرآن شریف میں کم از کم 23 جگہ یہ توفی کا لفظ آیا ہے اور کسی جگہ آسمان پر اٹھانے کے معنی نہیں کئے جاتے۔ اوراللہ تعالی نے لفظ بھی وہ استعمال فرمایا ہے جس سے اردو دان طبقہ بھی عربی نہ جاننے کے باوجود واقف ہے۔ کتابوں اور اخباروں وغیرہ میں اکثر متوفی کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو وفات یافتہ کے لئے ہی بولا جاتا ہے۔

دوسرا یہ کہ اس آیت میں وہ توفی کا مطلب وفات کی بجائے خواہ آسمان پر اٹھانا کریں یا کوئی اورمطلب کریں تب بھی ان کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس صورت میں اگر انہیں آسمان پر زندہ تسلیم کیا جائے تو لازمآ وہ دوبارہ امت محمدیہ میں جب نازل ہوں گے تو اپنی قوم کا شرک اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور اپنی قوم کے بگاڑ سے پورے طور پر واقف ہوجائیں گے۔ ایسی صورت میں وہ کس طرح اللہ تعالی کے حضور اپنی ناواقفیت کا اظہار کرسکتے ہیں۔ یہ تو نعوذ باللہ ان کی طرف سے ایک غلط بیانی ہوگی کہ میری امت میری وفات کے بعد بگڑی۔ کیونکہ جو شخص دوبارہ دنیا میں آئے اور چالیس سال رہے اور اپنی قوم کی خرابیاں اپنی آنکھوں سے دیکھے وہ کسطرح یہ کہہ سکتا ہے کہ میں اپنی امت کی حالت سے بے خبر ہوں۔ انہیں تو یہ جواب دینا چاہئے تھا کہ اے خدا میں نے دوبارہ واپس جاکران کی اصلاح تو کردی تھی اور شرک کو ختم کردیا تھا۔ لیکن ایسی کوئی بات وہ نہیں کہتے۔ اگر انہیں زندہ آسمان پر تسلیم کیا جائے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی قوم بھی ابھی تک نہیں بگڑی۔"

رانا نے یہاں پوری آیت کا مفہوم تہ و بالا کرنے کی کوشش کی ہے ذار غور کیجئے اس سوال پر جو اللہ پاک بروز قیات حضرت عیسیٰ سے کریں گئے وہ سوال یہ ہے ۔[ARABIC]ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ[/ARABIC] (تو نے کہا لوگوں کو کہ ٹھہرا لو مجھ کو اور میری ماں کو دو معبود سوا اللہ) یعنی پوچھا حضرت عیسیٰ سے یہ جا رہا ہے کہ تم نے کہا کہ عیسائیوں سے کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو، یہ سوال نہیں پوچھا جا رہا کہ تم کو ان کے شرک کا علم تھا یا نہیں تھا، اور ان سے یہ بھی نہیں پوچھا جا رہا کہ تم ان کے بگاڑ سے وقف ہو کہ نہیں ہو۔تو جو بات حضرت عیسیٰ سے پوچھی ہی نہیں جارہی اسی بات کے اوپر رانااپنی پوری عمارت کھڑی کر رہے ہیں اور، جانے یہ ہو گا، وہ کہیں گئے، شرک کا علم ہے کہ نہیں ، کیا کیا اناپ شناپ بول جارہے ہیں؟ سوال بس اتنا ہے کہ کیا تم نے عیسائیوں کو میرے سوا معبود بنانے کو کہا تو اس جواب بھی یہی ہے کہ" تو پاک ہے مجھ کو لائق نہیں کہ کہوں ایسی بات جس کا مجھ کو حق نہیں اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھ کو ضرور معلوم ہوگا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے بیشک تو ہی ہے جاننے والا چھپی باتوں کا" یعنی یہاں اس بات سے براءت ہے حضرت عیسیٰ کی کہ میں نے تو یہ حکم ان کو دیا نہیں اور معبود تو جانتا کہ میں نے ایسا نہیں کیا۔
اب بتائیے اس مکالمے میں یہ ساری باتیں کہاں سے آگئیں کہ شرک حضرت عیسی کے بعد ہوا یا پہلے ہوا وہ اس سے باخبر تھے یا نہیں تھے وغیرہ وغیرہ؟
۲۔ اور اگر یہاں توفی سے مراد موت سے ہی کی جائے کہ حضرت عیسیٰ کو بذریعہ موت اہل فلسطین سے جدائی ہوئی اور بقول رانا "۔ اب آج دنیا پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں کہ عیسائی قوم شرک میں کئی صدیوں سے گرفتار ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں کہ میری قوم میں شرک میری وفات کے بعد شروع ہوا۔ واضع طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ وفات پاچکے ہیں۔ اور اگر وہ اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں تو پھر اس آیت کی رو سے ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی ابھی تک شرک میں گرفتار نہیں ہوئے "تو ایک اور بڑا خرابی قادیانیوں کے لیے ہو جاتی ہے کیوں کہ قادیانیوں کا صرف یہی مذہب نہیں کہ عیسائی توفی مسیح کے بعد بگڑے بلکہ ان کا یہ بھی مذہب ہے کہ حضرت عیسیٰ واقعہ صلیب کے بعد کشمیر چلے آئے اور ۱۲۰ برس تک زندہ رہے(تذکرۃ الشہادتین ص ۲۷۔ خزائن ج ۲۰ ص ۲۹) (یہی وہی چیز ہے جس کا تذکرہ رانا اس پوسٹ کے شروع میں کر رہے تھے۔اور حضرت عیسیٰ کا مقبرہ وغیرہ دکھا رہے تھے۔) اور اس طرح کہ مرزا صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گزرے تھےکہ بجائے خدا کی پرستش کےایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی یعنی حضرت عیسیٰ خدا بنائے گئے(چشمہ معرفت ص ۲۵۴)
اب اگر حضرت عیسیٰ کشمیر چلے گئے تھے اور ۱۲۰ برس تک زند ہی رہےا ور بقول مرزا کے انجیل کے تیس برس بعد ہی شرک پھیل گیا تب تو حضرت عیسیٰ کو اس شرک علم ہو گیا اب اگر بقول رانا کے یہ سوال جواب اس بارے میں تھا کہ حضرت عیسیٰ کو علم شرک تھا کہ نہیں تھا تو اب تو قادیانیوں کے مطابق تو انہیں علم شرک تھا لہذا وہ کیسے خدا کے سامنے اپنی لا علمی کا اظہار کر سکتے ہیں؟؟؟اور مذکورہ بیان سے یہ بھی بنا کسی تاویل کے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی ہجرت کشمیر کے فورا بعد تثلیث پھیل گئی۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ توفی کے معنی موت کے نہیں ہیں۔
مزید یہ کہ کئی اور جگہ بھی مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ کو عیسائیوں کے شرک کا علم تھا مثلا
"میرے اوپر یہ کشفا ظاہر کیا گیا کہ یہ زہر ناک ہوا جو عیسائی قوم میں پھیل گئی ہے حضرت عیسیٰ کو اس کی خبر دی گئی(خزائن ج۵ ص۲۵۴)۔ اس اعتراف کے بعد اب رانا بتائیں کہ ان کی دیگر تاویلات میں کتنا دم رہ جاتا ہے؟ ساتھ ساتھ ایک اور بڑی اہم بات آپ حضرات اس پر غور کریں مرزا کہتا ہے کہ "خدا تعالیٰ نے اس عیسائی فتنے کے وقت میں یہ فتنہ حضرت مسیح کو دکھایا گیا یعنی اس کو آسمان پر اس فتنہ کی اطلاع دی گئی(خزائن ج ۳ ص ۴۰۵) اب اگر نزول انجیل کے تیس برس کے بعد یہ فتنہ پھیلا اور اس کی اطلاع آسمان پر حضرت عیسیٰ کو دی گئی تب تو جناب یہ ہجرت کشمیر اور مقبرہ کشمیر سب فراڈ ہو گیا نا ۔ اطلاع فتنے کی نزول انجیل کے ۲۰ برس بعد اوپر آسمانوں پر حضرت عیسیٰ کو دی جارہی ہے ، اور حضرت عیسیٰ کشمیر میں بھی موجود ہوں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟؟؟یعنی اگر وہ کشمیر میں تھے اور ۱۲۰ برس تک رہے تو خود ہی ان کو علم ہوجانا تھا اوپر آسمانوں پر اطلاع کی ضرورت نہ تھی اور اگر یہ اطلاع بقول مرزا غلام احمد قادیانی کے اوپر آسمانوں پر دی گئی تو پھر نہ ہی ہجرت کشمیر ہوئی اور نہ ہی کشمیر میں وفات۔لیکن دونوں صورتوں میں حضرت عیسیٰ کو اس شرک کی اطلاع قادیانیوں کے نزدیک ہو گی۔لہذا رانا صاحب کی تاویلات کی پوری عمارت اس سے ڈھ جاتی ہے۔
۳۔رانا کہتے ہیں کہ
"اب تھوڑا سا میں سویدا کو بھی مخاطب کرنا چاہوں گا کہ آپ نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ ہمیں صرف وہی تفسیر قبول ہو گی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہو۔ حدیث نبوی بھی اس آیت میں توفی کے معنی وفات ہی کے کرتی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری کتاب التفسیر میں حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث لائے ہیں۔
جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن کچھ لوگ گرفتار ہوں گے تو میں کہوں گا یہ تو میرے دوست ہیں۔ مجھے جواب دیا جائے گا کہ بے شک اے نبی، تو نہیں جانتا کہ تیرے بعد انہوں نے کیا بدعات اختیار کیں۔ یقینآ یہ لوگ جب تو ان سے جدا ہوا اپنی ایڑیوں کے بل پھر گئے یعنی مرتد ہوگئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اس وقت وہی کہوں گا جس طرح خدا کے نیک بندے عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ میں ان کا اس وقت تک ہی نگران تھا جب تک ان میں موجود تھا۔ پس جب تو نے مجھے وفات دے دی تو ان کا تو ہی نگران تھا۔
سویدا اب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس آیت میں توفی کا مطلب وفات کردیا ہے اور اپنی نسبت وہی الفاظ حضرت عیسیٰ کا نام لے کر بیان کرکے بتا دیا ہے کہ اس آیت میں کیا مراد ہے۔ امید ہے کہ اب آپ کو اسے ماننے میں کوئی امر مانع نہ ہوگا۔"

یہ بھی قادیانیوں کا ایک پرانا اعتراض ہے اور جہالت سے بھر پور ہے۔ یہاں میں زیادہ تفصیل میں تو نہیں جاوں کا مختصر ا بات واضح کر وں گا ۔
دیکھیے یہاں تشبیہ موجود ہے یعنی اس حدیث میں اقول کما قال ہے ۔ ما قال نہیں ہے۔ اور حرف تشبیہ کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے ساتھ دو چیزوں کو تشبیہ دی جاتی ہے مگر دونوں میں مشابہت کلی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک آدھ بات میں مشابہت ہونا کا فی ہوتا ہے۔جیسا کہ کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم میں تشبیہ فقط نفس فرضیت صیام میں ہے۔ نہ دنوں میں موافقت ہے، نہ اوقات اور نہ دیگر متعلقات میں۔اسی طرح اقوال کما قال میں اعتذار ہے کہ جیسے حضرت مسیح یہ الفاظ کہ کر اپنا عذز پیش کریں گئے میں بھی کچھ کہ کر اپنی براءت پیش کروں گا۔ ورنہ ایک مقام پرقرآن میں حضرت عیسیٰ اپنے حق میں نفس کا لفظ بولتے ہیں اور اللہ پاک کے لیے بھی تعلم ما فی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک (مائد ۱۱۶) اب کیا حق تعالیٰ کا اور حضرت عیسیٰ کا نفس ایک جیسا ہے۔ہر گز نہیں۔تو اسی طرح آپ کا یہ اعتراض بھی باطل ہے کہ یہاں توفیٰ سے مرادحضرت عیسیٰ کی بھی موت ہے۔
باقی جوابا ت انشاءاللہ بعد میں۔
نوٹ: میں ایک بات کی وضاحت اور بھی کردوں کہ ابھی تک میں نے صرف رانا کی کہی ہوئی باتوں کے جواب تک خود کو محدود رکھا ہے اور اس صحیح اسلامی موقف کی حمایت میں صحیح احادیث اور چودہ سو سال میں علماء اسلام کے فرمودات پیش نہیں کیے اپنے وقت پر وہ بھی پیش کروں گا۔
 

رانا

محفلین
ابن حسن صاحب میں نے پہلے بھی واضع کیا تھا کہ آپ کے علما جن اصولوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں خود ہی ان پر قائم نہیں رہتے۔ اور اپنی مرضی کے معنی پہنانے کے لئے ہر جائز و ناجائز دلیل کا سہارا لیتے ہیں۔ اب یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں۔

بل رفعہ اللہ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے جس طرف کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیر یں حضرت عیسیٰ کے جسم و جسد اطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں ہیں۔اس لیے کہ قتل کرنا اور صلیب چڑھانا جسم کا ہی ممکن ہے روح کا قطعا ناممکن ہے۔لہذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں۔ساتھ ہی ساتھ یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کو وہ قتل کرنا چاہتے تھے اور بل رفعہ اللہ میں اس کی تردید کی گئی لہذا بل رفعہ سے مراد جسم(مع روح) ہی ہو گا نہ کہ صرف روح۔

آپ اس آیت کو اپنی مرضی کے معنی پہنانے کے لئے بہت سعی کررہے ہیں لیکن مردہ کو زندہ ثابت کرنا آسان نہیں۔ لفظ "رفع" پر تو بعد میں بات کرتے ہیں پہلے آپ کے اس نام نہاد استدلال کو دیکھتے ہیں کہ آپ اس پر کہاں تک قائم رہتے ہیں۔ رفع کا آپ اپنی مرضی کا معنی کرلیں پھر بھی ضروری نہیں کہ رفعہ والی ضمیر کا مرجع حضرت عیسی مع الجسم ہی ہوں۔

ذرا یہ آیات ملاحظہ کریں:

قُتِلَ ٱلۡإِنسَ۔ٰنُ مَآ أَكۡفَرَهُ ۥ (١٧) مِنۡ أَىِّ شَىۡءٍ خَلَقَهُ ۥ (١٨) مِن نُّطۡفَةٍ خَلَقَهُ ۥ فَقَدَّرَهُ ۥ (١٩) ثُمَّ ٱلسَّبِيلَ يَسَّرَهُ ۥ (٢٠) ثُمَّ أَمَاتَهُ ۥ فَأَقۡبَرَهُ ۥ (٢١)
ترجمہ: "لعنت ہو انسان پر، کساَ سخت منکر حق ہے یہ کس چیزَ سے اللہ نے اِسے پیدۙا کیا ہے؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اِسے پیدا کیا۰، پھر اِس کی تقدیر مقرر کی پھر اِس کے لے زندگی کی راہ آسان کی پھر اِسے موت دی اور قبر میں پہنچایا۔" ( سورہ عبس 17 تا 21)

اب بتائیے کہ آپ کا بیان کردہ قاعدہ پوری طرح یہاں چسپاں ہورہا ہے۔ اَمَاتَهٗ اور فَأَقۡبَرَهُ کی ضمائر کا مرجع الْاِنْسَانُ ہے جو روح اور جسم سے مرکب ہے۔ مگر کیا قبر میں روح اور جسم دونوں اکٹھے رکھے جاتے ہیں؟ موت تو نام ہی اخراج الروح من الجسد کا ہے۔ اگر روح مع الجسم مدفون ہو تو پھر زندہ دفن ہوا، جو محال ہے۔ پس یہاں فَأَقۡبَرَهُ کی ضمیر کا مرجع انسان بمعنی مجرد جسم ہوگا۔

افسوس کہ آپ رفع کو جسمانی ثابت کرنے کے لئے کیا کیا جتن کررہے ہیں لیکن قرآن ہی آپ کو مسلسل غلط ثابت کیئے جارہا ہے۔ خدارا قرآن کی بات مان لیں آخر دوسرے انبیا کے متعلق بھی تو آپ رفع روحانی کے قائل ہیں۔ ایک مسیح کے لئے ہی کیوں اتنے جتن کئے جارہے ہیں۔ ایک اور آیت بھی دیکھ لیں۔

وَلَا تَقُولُواْ لِمَن يُقۡتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمۡوَٲتُۢ‌ۚ بَلۡ أَحۡيَآءٌ۬ وَلَ۔ٰكِن لَّا تَشۡعُرُونَ (١٥٤)
ترجمہ: "اور جو لوگ اللہ کی راہ مں مارے جائیں، انہںْ مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حققت میں زندہ ہیں ، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔" (سورہ البقرہ 154)۔

اب دیکھ لیجئے آپ کے بیان کردہ قاعدہ کے مطابق لفظ من میں یہی جسم مراد ہے۔ مگر کوئی نہیں کہتا کہ وہ اسی جسم کے ساتھ زندہ ہیں۔

پس کیا ضروری ہے کہ آپ رفع میں جسم بھی ساتھ مراد لیں۔ جناب علم بدیع کی اصطلاح میں اسے صنعت استخدام کہتے ہیں۔ جیسا کہ "تلخیص المفتاح" صفہ 71میں لکھا ہے کہ ایک لفظ جو ذومعنی ہواسکی طرف دو ضمیریں پھیر کراس سے دو الگ الگ مفہوم مراد لینا۔ جیسا کہ اوپر دو مثالیں دی گئی ہیں۔ لیکن پھر بھی آپ کو اصرار ہے کہ یہاں مسیح تو روح اور جسم دونوں کے مجموعے کا نام ہے تو پھر صرف روح کا رفع کیوں مراد لیں تو اوپر کی مثالوں کے بعد آپ کو ضد تو نہیں کرنی چاہئے لیکن پھر بھی ایک اور طرح اسے سمجھ لیں کہ جب ہم کہیں گے کہ زید سیاہ ہے تو صرف جسم مراد ہوگا حالانکہ ہم نے لفظ زید بولا تھا جو جسم اور روح دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔ مگر قرینہ حالیہ نے یہاں اس معنی کو روک دیا۔ یا کہیں زید نیک ہے تو صرف روح مراد ہوگی۔ اسی طرح رفع ہمیشہ روح کا ہوتا ہے۔ اوپر کی دو قرآنی مثالوں کے بعد اس وضاحت کی قطعآ ضرورت نہیں تھی لیکن آپ نے دوسروں کو الفاظ کے گورکھ دھندوں میں الجھا کرجو زبردستی رفع کو روح مع الجسم قرار دینے کی کوشش کی ہے تو یہ وضاحت اصل میں دوسروں کے لئے ہے۔ آپ کے لئے صرف یہ دو آیات ہی کافی ہیں کیونکہ آپ تو اس بات کو خوب سمجھتے ہیں آخر آپ ہی کا تو بیان کردہ قاعدہ ہے۔

اب لفظ رفع کے بارے میں کچھ باتیں سمجھ لیجئے ۔ لفظ رفع قرآن مجید میں مختلف صیغوں کی صورت میں کل ۲۹ دفعہ استعمال ہوا ہے۔ ۱۷ مرتبہ حقیقی اور ۱۲ مرتبہ مجازی معنوں میں ۔ گو کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کہ ہیں لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے کبھی معانی و اعراض کا، کبھی اقوال و افعال کا ہوتا ہے اور کبھی مرتبہ و درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہو گا وہاں رفع جسمانی مراد ہو گی۔اور جہاں رفع اعمال و درجات کا ذکر ہو گا وہاں رفع معنوی مراد ہو گا۔یعنی جیسی شے ہو گی اس کا رفع بھی اس کے مناسب ہوگا۔

یہ درست ہے کہ رفع کا ایک مطلب اٹھانا بھی ہے- مجھے تو صرف یہ اعتراض ہے جو رفع کا مطلب دوسرے انسانوں اور انبیا کے لئے کیا جاتا ہے یکدم مسیح کی خاطر معنی کیوں بدل لیتا ہے۔ آپ نے کہا ہے کہ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہو وہاں رفع جسمانی ہی ہوگا۔ یہاں آپ نے سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرکے مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ اس کی وضاحت تو میں بعد میں کروں گا پہلے آپ سے گزارش ہے کہ اپنے اسی اصول کے تحت ذرا ان آیات میں رفع اجسام کا معنی کرکے دکھائیں۔

وَلَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنَ۔ٰهُ بِہَا وَلَ۔ٰكِنَّهُ ۥۤ أَخۡلَدَ إِلَى ٱلۡأَرۡضِ وَٱتَّبَعَ هَوَٮٰهُ‌ۚ فَمَثَلُهُ ۥ كَمَثَلِ ٱلۡڪَلۡبِ إِن تَحۡمِلۡ عَلَيۡهِ يَلۡهَثۡ أَوۡ تَتۡرُڪۡهُ يَلۡهَث‌ۚ ذَّٲلِكَ مَثَلُ ٱلۡقَوۡمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِ۔َٔايَ۔ٰتِنَا‌ۚ فَٱقۡصُصِ ٱلۡقَصَصَ لَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ (١٧٦)
ترجمہ: "اگر ہم چاہتے تو ان نشانوں کے ذریعہ اس کا "رفع" کرتے۔ لیکن وہ تو خود زمین کی طرف جھک گیا۔" (سورہ الاعراف 176)

یہاں بھی رفع اجسام کی بات ہورہی ہے۔ یہ آیات بلعم باعور کے متعلق ہیں اور وہ ایک انسان ہی تھا ناکہ اعمال یا کچھ اور۔ لیکن کیا آپ کوئی ایک بھی مثال دے سکتے ہیں کہ یہاں رفع جسمانی کا معنی کیا گیا ہو۔ آپ کے علما بھی یہاں رفع روحانی ہی مراد لیتے ہیں۔

پھر یہ آیت دیکھیں:
وَرَفَعۡنَ۔ٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا (٥٧)
"اورہم نے اسکا رفع بلند مقام پر کیا تھا" (سورہ مریم 57)
یہاں بھی حضرت ادریس علیہ السلام کی بات ہورہی ہے جو کہ ایک انسان مع الجسم تھے ناکہ اعمال و اقوال و افعال وغیرہ۔ تو کیا انہیں یہاں بھی رفع جسمانی ہی مراد لیں گے؟ یہاں تمام علما متفق ہیں کہ رفع روحانی یعنی ترقی درجات ہی مراد ہے۔

تمام مسلمان جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تماز میں دو سجدوں کے درمیان جو دعا پڑھا کرتے تھے اس میں ایک لفظ "وارفعنی" بھی ہے۔ یعنی اے اللہ میرا رفع کر۔ (ابن ماجہ)
سب مانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع ہوا مگر زمین پر ہی رہ کر۔ اور تمام مسلمان سنت رسول میں یہ دعا ہر نماز میں پڑھتے ہیں۔ تو بھائی جب آپ کے علما وہی لفظ رفع کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آتا ہے تو اس سے رفع روحانی مراد لیتے ہیں جبکہ یہاں بھی آپ کی شرط کے مطابق رفع اجسام کی بات ہورہی ہے تو پھر حضرت مسیح کے لئے کیوں رفع جسمانی زبردستی خود ساختہ قاعدے وضع کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ مسلمان روز نماز میں سنت رسول میں یہ دعا کرتے ہیں تو کیا اپنے رفع جسمانی کے لئے کرتے ہیں؟ پھر طرفہ یہ کہ پورے قرآن اور احادیث کے ذخیرے میں کہیں بھی رفع آسمان پرجسمانی طور پر جانے کے معنوں میں نہیں آیا۔ جب بھی بندے کے لئے اللہ تعالی رفع کا لفظ استعمال کرے تو اس سے مراد آسمان پر جانا نہیں ہوتا بلکہ درجات کی بلندی یا عزت والی موت کے ہوتے ہیں۔

اب ذرا آپ کے اس قاعدے کی طرف آتے ہیں کہ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہوگا وہاں رفع اجسام ہی مراد ہوگی۔ جس آیت پر بہت زیادہ زبردستی کرنے کی کوشش کررہے ہیں اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث ملاحظہ کریں:

اذاتواضع العبد رفعہ اللہ الی السماء السابعۃ۔ (کنز العمال جلد 2 صفہ 25)۔
ترجمہ: جب بندہ فروتنی اختیار کرتا ہے (خدا کے آگے گرتا ہے) تو اللہ تعالی اسکا ساتویں آسمان پر رفع کر لیتا ہے۔

یہ حدیث محاورہ عرب کے لحاظ سے اس آیت "بل رفعہ اللہ الیہ" کے معنی سمجھنے کے لئے واضع نص ہے۔ کیوں کہ اس میں لفظ رفع بھی موجود ہے۔ رفع کرنے والا بھی اللہ ہے۔ اور خاص بات اس میں یہ ہے کہ صلہ بھی الی ہی آیا ہے جیسا کہ "بل رفعہ اللہ الیہ" میں ہے۔ اور زائد بات یہ کہ ساتویں آسمان کا لفظ بھی ہے۔ حالانکہ آیت میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں۔ لیکن اس حدیث میں آسمان کا لفظ بھی ہے اور وہ ساری شرائط پوری ہورہی ہیں جن کو اب تک آپ نے پیش کیا ہے۔ لیکن پھر بھی مولوی صاحبان اس کا ترجمہ رفع روحانی یعنی بلندی درجات ہی لیتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ مسیح کے لئے بھی جو رفع کا لفظ آیا ہے اس میں بھی بلندی درجات ہی مراد ہے ناکہ آسمان کی طرف جانا۔

پھر اس حدیث کو دیکھیں:
ماتواضع احد للہ الا رفعہ اللہ (مسلم جلد 2 صفہ 321)
یعنی کوئی ایسا شخص نہیں کہ وہ اللہ کے آگے گرا ہو اور پھر اللہ نے اسکا رفع نہ کیا ہو۔

تمام قرآن اوراحادیث کا ذخیرہ آپ کے زبردستی کے کئے ہوئے ترجمے کو رد کرہے ہیں۔ آپ نے رفع اجسام کے بارے میں جو بھی قواعد وضع کئے وہ تو آپ نے دیکھ لئے کہ قرآن و حدیث ہی آپ کے خلاف ہیں۔ اب رفع اجسام کے بارے میں صحیح قاعدہ بھی سن لیں۔ کہ قرآن مجید، احادیث، لغات العرب اور محاورہ عرب کی رو سے لفظ "رفع" جب بھی اللہ تعالی کی طرف سے کسی انسان کی نسبت بولا جائے تو اس کے معنی ہمیشہ ہی بلندی درجات یا قرب روحانی کے ہوتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے غیراحمدی علما کو بارہا یہ چیلنج دیا جا چکا ہے کہ وہ کلام عرب سے ایک ہی مثال اس امر کی پیش کریں کہ لفظ رفع کا فاعل اللہ تعالی مذکور ہو اور کوئی انسان اس کا مفعول ہو اور رفع کے معنی جسم سمیت آسمان پر اٹھا لینے کے ہوں۔ مگر آج تک اس کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکی اور نہ آئندہ پیش کی جاسکے گی۔

آپ کی باقی گزارشات پربھی انشاء اللہ بات ہوگی۔
 

رانا

محفلین

بہت شکریہ شمشاد بھائی۔ آپ نے کمال شفقت سے اس دھاگے کے مطالعے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ انشاء اللہ تعالی کچھ وقت نکال کر اس کا مطالعہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ اور سرسری طور پر ابھی صرف پہلے صفحے پر نظر ڈالی ہے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہ دھاگہ آپ ہی کا شروع کردہ ہے۔
 

رانا

محفلین
محمود غزنوی صاحب، معراج کے واقعے کی نسبت آپ نے ہمار موقف بالکل درست بیان کیا ہے کہ ہم معراج روحانی کے قائل ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج جسم عنصری کے ساتھ نہیں ہوا تھا۔ بلکہ وہ ایک نہایت لطیف قسم کا کشف تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا۔ آپ کا مادی جسم ہرگز آسمان پر نہیں لے جایا گیا تھا۔ لیکن اس بات کی جو آپ نے وجہ بیان کی ہے وہ درست نہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ قرآن ہمیں ایسا ماننے سے روکتا ہے۔ ہم تو وہی مانیں گے جو قرآن اور صحیح احادیث سے ثابت ہوگا۔ مولویوں کی تفسیروں سے ہمیں غرض نہیں۔ اس بات پر میں صرف مختصراً اپنا موقف اس لیئے بیان کردیتا ہوں کہ یہ معلوم ہوجائے کہ ہمارے ہر عقیدے کی بنیاد قرآن پر ہے۔ باقی ہر شخص کا اپنا عقیدہ ہے۔ شوق سے جس پر دل مطمئن ہو۔

اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر جاسکتے تھے تو آپ نے کفار مکہ کو یہ جواب کیوں دیا تھا
ھل کنت الا بشرا رسولا۔ کہ میں تو بشر رسول ہوں۔ ﴿سورہ بنی اسرائیل 94﴾
اس آیت سے پہلے کی آیات میں کفار آپ سے آسمان پر جانے کا معجزہ طلب کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی آپ کی زبان سے جواب دیتا ہے کہ میرا رب ایسی باتوں سے پاک ہے میں تو صرف بشررسول ہوں۔

جس سورة میں معراج کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالی نے تصریح فرمادی ہے کہ معراج ایک رویا تھی۔
وما جعلنا الرویا التی اریناک الا فتنة للناس۔
یعنی ہم نے تجھے جو رویا دکھائی وہ لوگوں کے لئے ایک امتحان کے طور پر ہے۔ ﴿بنی اسرائیل 61﴾

پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ سے روایت ہے۔ وہ فرماتی ہیں۔ خدا کی قسم حضور کا جسم زمین سے جدا نہیں ہوا تھا۔
﴿الکشاف از علامہ محمود بن عمر زمحشری صفحہ 438﴾

پھر بخاری جو حدیث کی کتابوں میں مسلمہ طور پر صحت کے لحاض سے اول نمبر پر ہے اسمیں لکھا ہے:
ثم استیقظ و ھو فی المسجد الحرام۔
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں یہ سب نظارے دیکھنے کے بعد بیدار ہوگئے۔ اور اس وقت آپ مسجد الحرام میں تھے۔
﴿صحیح بخاری جلد دوم کتاب التوحید باب قول اللہ و کلمہ اللہ موسی تکلیماً﴾

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ معراج ایک نہایت لطیف رویا تھا- بہرحال جس کا دل جس عقیدے پرمطمئن ہو۔ باقی رہی یہ بات کہ 1400 سال تک لوگ غلطی میں پڑے رہیں اور 1400 سال کے بعد کسی کو ان باتوں کا پتہ لگنا تھا۔ تو جناب آنے والے مسیح اور مہدی کا یہی تو منصب تھا تبھی تو احادیث میں اسے "حکم و عدل" کہا گیا۔ اگر کوئی غلطیاں ہی نہیں تھیں جن کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنا تھا تو پھر اسے حکم کیوں کہا گیا۔




 
جب سینکڑوں احادیث یہ کہتی ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر نزول کریں گے اور فلاں فلاں واقعات انکے ہاتھوں انجام پائیں گے تو پھر قرآن کی اس آیت میں وارد لفظ ‘رفع‘ کا وہی معنی لیا جائے گا جو علماء و محدثین و مفسرین نے 1400 سال سے لیا ہے۔ اگر وہ احادیث نہ ہوتیں تو شائد آپکی توجیہہ قابلِ غور ہوتی۔۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک یا دو نہیں سینکڑوں احادیث نزولِ مسیح پر شاہد ہین۔۔۔اور یہی بات قرآن کی اس آیت میں لفظ رفع کے معنی کو متعین کردیتی ہے۔۔۔۔اگر مسیح علیہ السلام کا رفع نہیں ہوا تو نزول کیسے ہوسکتا ہے۔۔اور احادیث میں کسی مثیلِ مسیح کا ذکر نہیں۔۔۔اگر آنے والی ہستی آپ لوگوں کی خواہش کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثل ہوتی تو یقیناّ رسولِ کریم اسکی وضاحت کردیتے ۔ اس میں کوئی مشکل بات بھی نہ ہوتی۔ کیا کوئی یہ تصور کرسکتا ہے کہ رسولِ کریم ایک اہم بات امت تک پہنچارہے ہوں، اور عرب کے سب سے زیادہ فصیح شخص بھی وہ ہوں، عربی زبان میں بھی اس مفہوم کو واضح کرنے والے الفاظ موجود ہوں، اسکے باوجود وہ ایسا طرزِ بیامن اختیار کریں کہ لوگ انکی بات کے اصل مطلب کو سمجھ ہی نہ سکیں اور 1400 سال بعد کوئی آکر انکے الفاظ کا مطلب سمجھائے۔۔۔کیا یہ رسولِ کریم کے منصبِ رسالت کی توہین نہیں ہے؟ کہ وہ سیدھی سی بات جو اس طرح سے نہیں اس طرح سے کہتے تو 1400 سال تک لوگوں کو غلط فہمی نہ ہوتی۔۔۔ارے بھائی کہاں تک قرآن و حدیظ کو توڑو موڑو گے محض مرزا صاحب کی بات کو درست ثابت کرنے کیلئے۔۔۔اور وہ پھر بھی نہیں ہوگی۔
 
باقی جہاں تک معراج شریف کی بات ہے تو یہ ایک معجزہ ہے۔ اور معجزہ کہتے ہی اسے ہیں جو عاجز کردے۔۔۔جہاں عقل عاجز آجائے اسکی وضاحت کرنے سے وہی معجزہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبک صدیق رضی اللہ عنہ کو صدیق کا لقب ملا۔۔۔کیونکہ جب کفار نے ان سے کہا کہ تمہارا ساتھی یہ کہتا ہے کہ وہ راتوں رات بیت المقدس اور آسمانوں کی سیر کرکے آیا ہے، تو انک جواب بیساختہ یہی تھا کہ اگر یہ انہوں نے کہا ہے تو پھر حق اور سچ ہے۔۔۔اسی لئے انکو صدیق کا لقب عطا ہوا۔۔۔ورنہ خواب تو لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں۔۔۔اس میں اتنی عجیب بات ہی کیا ہوتی اگر کہا جاتا کہ انہوں نے خواب میں ان مقامات کی سیر کی ہے۔۔۔۔۔۔نہ تو کفار کو اتنا عجیب لگتا اور نہ ہی اسکی تائید کرنا کچھ ایسا انوکھا کام ہوتا کہ لفظ صدیق کا لقب عطا ہوتا۔۔۔۔۔۔عقلِ ناسلیم کے پیچھے چلو گے تو پھر ایمان گیا ہاتھ سے
 
دوسری بات یہ کہ ہر نیک روح کو موت کے بعد رفع کیا جاتا ہے اور اسکو اعلیّ علییّن میں جگہ ملتی ہے۔۔۔ اس میں ایسی کونسی حیرت کی بات ہے کہ اللہ کو یہ کہنا پڑا کہ “ یقیناّ انہوں نے اسے قتل نہیں کیا اور نہ ہی مصلوب کیا، بلکہ اللہ نے اسکو اپنی طرف رفع کیا“۔۔۔ارے بھائی اگر صرف روح ہی ہوتی تو وہ تو ہر نبی اور نیک مسلمان کی مرفوع ہوگی۔۔۔دوسرے یہ کہ اگر آپکو انکا رفع کیا جانا اتنا ہی خلافِ عقل لگتا ہے تو انکی پیدائش جو بذاتِ خود ایک معجزہ ہے اسکو کیوں مانتے ہو، اسکو بھی مسترد کردو کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے۔۔۔بعض پر ایمان لانا اور بعض پر نہ لانا یہ ایک قوم کا وطیرہ تھا اور جب لوگ اس قوم کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں تو وہ پیشنگوئی بھی پوری ہوجاتی ہے کہ اس امت کے کچھ لوگ یہود کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔۔۔اور یہود یہی تو کرتے تھے کہ کلام کو اسکے سیدھے معانی سے پھیرتے تھے۔ بعض پر ایمان لاتے تھے اور بعض پر نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اخبار جہاں میں ایک صفحہ "کتاب و سُنت کی روشنی میں" ہر ہفتے شائع ہوتا ہے۔ جس میں مولانا مُفتی محمد حسام اللہ شریفی صاحب قارئین کے سوالوں کے جواب بھی دیتے ہیں۔ اسے بھی اتفاق ہی کہیں گے کہ اس ہفتے( ۲۷ جون تا ۳ جولائی ۲۰۱۱) کے شمارے میں مندرجہ ذیل سوال و جواب ہے۔

سوال) کیا حضرت عیسٰی علیہ السلام کا اس دنیا میں دوبارہ آنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟ (ندیم بن اسد، سویڈن)

جواب) جی ہاں، اللہ تعالٰی نے قرآن حکیم میں سورۃ مائدہ میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو نہ تو قتل کیا گیا، نہ صلیب دی گئی بلکہ ان کا معاملہ لوگوں پر مشتبہ کر دیا گیا اور انہیں زندہ سلامت آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔ اور سورۃ آل عمران اور کئی دوسری سورتوں میں اللہ تعالٰی نے یہ وضاحت فرمائی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیات قرآنی کی تشریح کی کہ قیامت سے پہلےاللہ تعالٰی حضرت عیسٰی علیہ السلام کو دوبارہ اس دنیا میں بھیجے گا اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امتی کی حیثیت سے اسلام کی ترویج و اشاعت کا کام کریں گے۔ احادیث مبارکہ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تمام انبیائے کرام اور خاص طور پر حضرت موسٰی علیہ السلام اس بات کی آرزو اور تمنا کرتے تھے کہ کاش! انہیں اُمت محمدیہ میں شامل کیا جاتا اور ان کے علاوہ بعض دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی اُمت محمدیہ میں سے ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام پہلے ایک نبی کی حیثیت سے اس دنیا میں آئے تھے اور اب وہ سب نبیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے اس دنیا میں دعوت و تبلیغ کا کام کریں گے۔
 

رانا

محفلین
ابن حسن صاحب آپکی خدمت میں کچھ گزارشات میں نے صبح پوسٹ 82 میں پیش کی تھیں۔ کچھ مذید پیش خدمت ہیں۔

سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع آسمانی اور پھر نزول ارضی ان کی حیات و جسد کے ساتھ ہوا یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر امت مسلمہ متفق ہے۔

یہی بات ہے کہ جملہ ائمہ و مفسرین اس بات پر بالکل متفق ہیں آپ کوئی بھی مستند تفسیر اٹھا کر دیکھ لیجئے (کئی ایک کہ تراجم اب نیٹ پر بھی دستیاب ہیں) کہ حضرت عیسیٰ کا یہ رفع ان کی زندگی کی حالت میں ان کے جسد عنصری کے ساتھ ہوا۔

یہاں آپ نے پھر سادہ لوح عوام کو الفاظ کے ہیر پھیر سے دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔ جناب کے کہنے کے مطابق حیات مسیح پر امت مسلمہ متفق ہے۔ اس سے پہلے میں امت مسلمہ کے کئی بزرگوں کے حوالے نقل کر کے بتا چکا ہوں کہ حیات مسیح کے خلاف امت مسلمہ کے کئی بزرگ اور جید علما اپنا عقیدہ رکھتے تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے آپ نے اتنا صریح جھوٹ کیسے بول دیا کہ امت مسلمہ اس عقیدہ پر متفق ہے؟ کیا آپ کے نزدیک امام مالک، امام ابن حزم، علامہ قمی اور علامہ جبائی امت مسلمہ میں داخل نہیں؟ اور کیا امام ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم اورعلامہ ابن حیان کا تعلق کسی دوسری امت سے تھا؟ اورکیا علامہ ابو مسلم اصفہانی اورعلامہ محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ آپ کے نزدیک امت مسلمہ میں کسی مقام کے اہل نہیں؟ یا سر سید احمد خان، مولانا ابواکلام آزاد اورعلامہ عبیداللہ سندھی بھی آپ کے نزدیک امت مسلمہ سے خارج ہیں؟ اور شائد سعودی مفسر قرآن علامہ عبدالرحمان سعدی، مصرکی جامعۃ الازھر قاہرہ کے امام اکبر علامہ محمود شلتوت مفتی مصر، اورمفسرقرآن علامہ مفتی محمد عبدہ (قاہرہ) اور علامہ ڈاکٹر محمد محمود حجازی (پروفیسر جامعہ الازھر قاہرہ) وغیرہ سب آپ کے نزدیک طفل مکتب اور امت مسلمہ سے باہر ہیں۔ اور ان کے نام نہاد شاگرد جو اپنے نام کے ساتھ فخر سے الازھری لکھتے ہیں بس وہی امت مسلمہ میں داخل ہیں کیونکہ وہ آپ کے عقیدے کی تائید جو کرتے ہیں۔ اور جاوید احمد غامدی صاحب کو تو خیر آپ بڑے شدومد سے امت مسلمہ سے باہر کریں گے۔ لیکن آپ ہی کے بھائی بند جن کا تعلق "جماعت المسلمین" سے ہے اورجو بحیثیت پوری کی پوری جماعت ہی آپ کے حیات مسیح کی مخالف ہے وہ بھی دائرہ امت مسلمہ سے خارج ہوگی؟ اگر واقعی آپ کے دماغ میں ایسا خیال ہے کہ یہ امت مسلمہ سے تعلق نہیں رکھتے تو اس کا اظہار کرنے سے پہلے کئی بار سوچ لیجئے گا کہ ان میں کئی ایسے بزرگ علما شامل ہیں جن کی جوتیاں اٹھانے میں آج کے علما اپنا فخر محسوس کریں گے!!
حیرت اورصد افسوس کہ کس بے باکی سے آپ عامۃ الناس کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ جیسے یہ عقیدہ تو ایسا متفق علیہ ہے جس کے خلاف آج تک کسی نے سوچا تک نہیں! مجھے بتائیے کیا آپ صریح جھوٹ اور دھوکہ دہی کے مرتکب نہیں ہوئے؟ ایمانداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپ یہ کہتے کہ امت مسلمہ میں سے کئی اکابر گذشتہ زمانہ میں بھی اور موجودہ زمانہ میں بھی وفات مسیح کے حق میں ہیں۔ اور کئی علما اس کے خلاف بھی ہیں۔ اس لئے یہ ایک اختلافی عقیدہ ہے لیکن آپ نے تو ان سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک کر امت مسلمہ سے باہر کردیا! اور اس بات پر بھی حیرت ہے جو قاعدے اور اصول آپ اس آیت میں رفع کو جسمانی ثابت کرنے کے لئے وضع کئے چلے جارہے ہیں ان سے یہ اتنے سارے جید علما بالکل ہی بے خبر رہے؟

یہاں بل رفعہ اللہ علیہ پر صرف مفتی مصر علامہ محمود شلتوت کی رائے پیش کردیتا ہوں۔

"اگرہم مفسرین کو ایک طرف رکھ کر سورہ آل عمران کی آیت "اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنے حضور عزت دونگا (یعیسی انی متوفیک الی رافعک الی) کو سورہ النسا کی آیت "بلکہ اللہ نے عیسی کو اپنے حضور عزت دی" (بل رفعہ اللہ علیہ) کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو ہم پر یہ امر واضع ہوگا کہ پہلی آیت میں اللہ تعالی نے ایک وعدہ فرمایا ہے اور دوسری آیت میں اس امر کی تصدیق کی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے اس وعدہ کو پورا فرمایا۔ خداتعالی کا وعدہ جیسا کہ پہلی آیت میں مذکور ہے یہ ہے کہ اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام کو خود وفات دے کر انہیں اپنے حضور عزت و رفعت دیگا۔ اور انکو کافروں کے الزامات سے پاک کریگا۔ اور موخرالذکر آیت میں تمام امور کا حوالہ دیئے بغیر صرف مسیح علیہ السلام کی سرفرازی اور خدا کے حضور رفعت دئیے جانے کا ذکر ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں آیات کی تفسیر اور تطبیق ایک دوسرے کی روشنی میں کی جانی چاہئے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالی نے واقعی مسیح علیہ السلام کو موت دی اور ان کا اپنے حضور میں رفع درجات فرمایا۔ اور کفر کرنے والوں کے الزامات سے ان کو پاک فرمایا۔ قرآن کریم کی لغت کے ایک بہت بڑے مستند مفسر علامہ الالوسی نے اس آیت کے معنی "میں تجھے موت دونگا" اس مفہوم میں کئے ہیں کہ اللہ تعالی نے مسیح علیہ السلام کو پوری طبعی عمر عطا فرمائی اور ان کی وفات بھی طبعی رنگ میں اس طرح فرمائی کہ انہیں ان کے دشمنوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا کہ وہ آپ کو قتل کر سکتے یا آپ کے خلاف اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوسکتے۔
یہ ظاہر ہے کہ عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کے حضور سرفرازی اور بلندی درجات عطا کی گئی۔ آیت میں لفظ رفع توفی کے بعد مذکور ہے اس لئے اس کے معنی رفع درجات کے ہی ہوسکتے ہیں۔ مادی جسم کے آسمان پر اٹھائے جانے کے نہیں۔
اس ترجمہ کی تائید اللہ تعالی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام سے فرمایا ہے کہ وہ انہیں ان پر ایمان نہ لانے والوں (کافروں) سے پاک کرے گا۔ گویا ساری آیت کا مقصد مسیح علیہ السلام کی سرفرازی اور اللہ تعالی کے دربار میں بلندی درجات کو بیان کرنا ہے۔
قرآن کریم کے دوسرے متعدد مقامات میں اور عربی زبان کے کلاسیکی ادب میں لفظ رفع کے عربی مفہوم سے بھی مذکورہ بالا معنوں کی تائید ہوتی ہے۔ آخر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کے تعلق میں اس لفظ کے استعمال کے ایک اور صرف ایک ہی معنی ہوسکتے ہیں یعنی اللہ کی نصرت اور حفاظت۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری تفسر کرنا قرآن کریم سے بے انصافی کے مترادف ہوگا۔ البتہ بے بنیاد کہانیوں اور من گھڑت روایات کے بے جا تائید ضرور ہوگی۔ ------------ حیرانی ہوتی ہے کہ مسیح کو ان کے دشمنوں کے درمیان سے اٹھا کر مع ان کے مادی جسم کے آسمان پر لے جانا کس طرح اللہ تعالی کی تدبیر کہلا سکتا ہے۔ اور کیسے اس تدبیر کو مسیح کے دشمنوں کی تدبیر سے بہتر اور برتر کہا جاسکتا ہے۔ جبکہ کمزور انسان ہونے کی حیثیت سے ان کے لئے اللہ تعالی کے اس فعل کا مقابلہ کرنا ہرگز ممکن نہیں تھا۔
اس طویل مقالہ کی بحث میں ہم مندرجہ ذیل نتائج پر پہنچتے ہیں:
1- قرآن کریم اور صحیح مستند احادیث میں ہمیں ہرگز کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا جس پر ہم اس عقیدے کی بنیاد رکھ سکیں کہ عیسی علیہ السلام اپنے مادی جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے تھے اور وہ اب تک وہاں بقید حیات ہیں اور اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک وہ آخری زمانہ میں زمین پر دوبارہ نزول فرمالیں۔
2- متعلقہ آیات سے صرف یہی مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے کہ خداتعالی کا وعدہ تھا کہ وہ عیسی علیہ السلام کو طبعی وفات دے کر ان کا رفع درجات فرمائے گا۔ اور کافروں کے الزامات سے انہیں پاک کرے گا۔ یہ وعدہ حرف بحرف پورا ہوا اور اس کے مطابق مسیح علیہ السلام نہ تو قتل کئے گئے اور نہ ہی دشمن کے ہاتھوں صلیب پر مارے جاسکے۔ بلکہ انہوں نے پوری زندگی گزاری اللہ کے حضور سرفرازی سے نوازے گئے۔
3- اس عقیدہ کا انکارکہ عیسی علیہ السلام کو ان کے مادی جسم کے ساتھ آسمان پر لے جایا گیا جہاں وہ اب تک زندہ موجود ہیں اور وہاں سے وہ آخری زمانہ میں زمین پر نازل ہوں گے۔ کسی مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتا۔
جو لوگ اس عقیدہ پر جرح اور تنقید کرتے ہیں ان کے خلاف ارتداد کا فتوی لگانا صریح بے انصافی ہے۔ وفات مسیح کا عقیدہ رکھنے والے لوگ مسلمان اور مومن ہیں اور ان کے ساتھ نہ صرف ان کی زندگی میں بلکہ موت کے بعد بھی وہی سلوک کیا جانا چاہئے جو کسی مسلمان یا مومن سے کرنا فرض ہے۔ کیونکہ عقیدہ حیات مسیح کا انکاراسلام کے بنیادی عقائد کے انکار کے ہرگز مترادف نہیں
۔
(الشیخ محمود شلتوت مرحوم۔ سابق مفتی اعظم و ریکٹر آف جامعہ ازھر قاہرہ - مصر۔ مجلہ الازھر زیر ارادت احمد حسن الزیات فروری 1960)

یہ مفتی مصر علامہ محمود شلتوت کے ایک طویل مقالہ میں سے صرف کچھ حصہ میں نے یہاں نقل کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ بےچارے اتنے بڑے عالم ہوکر بھی آپ کے وضع کئے ہوئے گرانقدرقوائد اوراصولوں سے محض بے خبر رہ کرہی اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔

لیکن ایک دلچسپ بات مجھے ان کے مقالے سے یہ معلوم ہوئی اور آپ نے بھی نوٹ کی ہوگی کہ انہوں اس آیت سے کہ "یہود نے بھی تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی تدبیر کی۔ اور اللہ سب تدبیر کرنے والوں میں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے" سے کتنا پیارا اسنتباط کیا ہے کہ تدبیراور معجزہ میں تو بہت بنیادی فرق ہے۔ جو کچھ آپ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں وہ تو معجزہ ہے اسے تدبیر کیسے کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ قابل قدر نکتہ علامہ محود جیسے قابل علما ہی پاسکتے تھے۔ آپ کے علما کے لئے تو سب جائز ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے اختیار کی گئی اس تدبیرکی کچھ تفصیل انشاء اللہ اگر موقع ملا تو ضرور شئیر کروں گا کیونکہ بہت دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ ہے مسیح کا صلیب سے بچایا جانا جبکہ بظاہر حالات سب حضرت عیسی علیہ السلام کے خلاف نظر آرہے تھے۔


باقی رہی یہ بات کہ اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل و صلب کی نفی سےکیا فائدہ؟ یہ ایک اچھا سوال ہے۔ لیکن اس سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ رفع کا معنی درجات کی بلندی یا قرب عطاکرنے کے بھی ہیں اوراگر موت کے معنوں میں لیا جائے تو ہمیشہ عزت والی موت مراد ہوتی ہے۔ یہ نکتہ خاص طور پر یاد رکھنے کے لائق ہے کہ توفی ہرطرح کی موت کے لئے استعمال ہوتا ہے جوعزت والی بھی ہوسکتی ہے اور لعنتی بھی۔ لیکن رفع ہمیشہ عزت والی موت ہی ہوتی ہے۔
اب ذرا اس آیت کے پس منظر کو بھی ملحوظ رکھیں جس میں یہ بات کہی گئی ہے۔ جس میں احمدی اور غیر احمدی علما متفق ہیں۔ چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت معجزانہ طور پر بغیر باپ کے ہوئی تھی۔ اس لئے یہودی جو آپ کو جھوٹا سمجھتے تھے آپ کے انکار کا یہ بہانہ بنانے لگے کہ آپ نعوذباللہ ناجائز اولاد ہیں اور بائیبل کی رو سے ہر ناجائز بچہ لعنتی ہوتا ہے اس لئے آپ کے نبی ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ انکی دلیل بظاہر بڑی پختہ تھی کیونکہ لعنتی وہ ہوتا ہے جو خداتعالی سے دور ہو اور نبی وہ ہوتا ہے جو خداتعالی کے سب سے زیادہ قریب ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں ایک شخص میں بیک وقت اکٹھی ہوہی نہیں سکتیں۔ چنانچہ یہود علماء نے اس چالاکی سے اکثر عوام کو حضرت مسیح علیہ السلام کا منکر بنا دیا کہ یہ تو نعوذ باللہ لعنتی پیدائش کا نتیجہ ہیں نبی کیسے بن گئے۔ پھر انہوں نے اسی پر بس نہیں کی۔ بلکہ اور زیادہ شرارت کی راہ اختیار کرتے ہوئے یہ سوچا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی صرف پیدائش ہی لعنتی ثابت نہ کی جائے بلکہ موت بھی لعنتی ثابت کردی جائے۔ ظاہر بات ہے کہ ایک شخص جس کی پیدائش بھی لعنتی ہو اور موت بھی لعنتی ہو وہ خدا تعالی کا مقرت بندہ تو کیا ایک عام شریف انسان کہلانے کا مستحق بھی نہیں رہتا۔ چنانچہ اس شیطانی خیال کے ساتھ انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانے کا ارادہ کیا۔ کیونکہ بائیبل میں یہ بھی لکھا تھا کہ جو مجرم صلیب پر مارا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے۔
جس آیت پر بحث کی جارہی ہے وہ یہود کے اس دعوے کی تردید میں نازل ہوئی کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح کی پیدائش اور موت دونوں لعنتی تھیں اس لئے وہ خداتعالی کا مقرب نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالی نے پہلے الزام کا تو یہ جواب دیا کہ حضرت مریم پر یہود نے بہتان عظیم باندھا ہے۔ یعنی وہ پاکباز تھیں۔ اور مسیح ابن مریم کی پیدائش لعنتی نہ تھی بلکہ معجزانہ اور مبارک تھی۔ دوسرے الزام کا جواب یہ دیا ہے یہودی ہرگز حضرت مسیح کو نہ تو صلیب پر مارسکے اور نہ قتل کرسکے۔ پس ان کی لعنتی موت کا الزام بھی درست نہیں۔ غرضیکہ وہ دونوں الزامات جو یہود حضرت مسیح کے خلاف ثابت کرکے انہیں خدا سے دور ثابت کرنا چاہتے تھے۔ قرآن کریم نے غلط قرار دے دیئے۔ اور واضع اعلان فرمایا کہ لعنت کا کیا سوال اللہ تعالی نے تو انہیں ہر الزام سے پاک ٹھہرا کر اپنا قرب عطا فرمایا۔ آیت رفعہ اللہ کا یہی مفہوم ہے اور قرآنی محاورہ اسی کی تائید کرتا ہے۔

آپ کی باقی باتوں پربھی انشاء اللہ جلد بات ہوگی۔
 

سویدا

محفلین
یا آپ کے نزدیک امام مالک، امام ابن حزم، علامہ قمی اور علامہ جبائی امت مسلمہ میں داخل نہیں؟ اور کیا امام ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم اورعلامہ ابن حیان کا تعلق کسی دوسری امت سے تھا؟ اورکیا علامہ ابو مسلم اصفہانی اورعلامہ محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ آپ کے نزدیک امت مسلمہ میں کسی مقام کے اہل نہیں؟ یا سر سید احمد خان، مولانا ابواکلام آزاد اورعلامہ عبیداللہ سندھی بھی آپ کے نزدیک امت مسلمہ سے خارج ہیں؟ اور شائد سعودی مفسر قرآن علامہ عبدالرحمان سعدی، مصرکی جامعۃ الازھر قاہرہ کے امام اکبر علامہ محمود شلتوت مفتی مصر، اورمفسرقرآن علامہ مفتی محمد عبدہ (قاہرہ) اور علامہ ڈاکٹر محمد محمود حجازی (پروفیسر جامعہ الازھر قاہرہ) وغیرہ سب آپ کے نزدیک طفل مکتب اور امت مسلمہ سے باہر ہیں۔ اور ان کے نام نہاد شاگرد جو اپنے نام کے ساتھ فخر سے الازھری لکھتے ہیں بس وہی امت مسلمہ میں داخل ہیں کیونکہ وہ آپ کے عقیدے کی تائید جو کرتے ہیں۔ اور جاوید احمد غامدی صاحب کو تو خیر آپ بڑے شدومد سے امت مسلمہ سے باہر کریں گے۔ لیکن آپ ہی کے بھائی بند جن کا تعلق "جماعت المسلمین" سے ہے اورجو بحیثیت پوری کی پوری جماعت ہی آپ کے حیات مسیح کی مخالف ہے وہ بھی دائرہ امت مسلمہ سے خارج ہوگی؟ اگر واقعی آپ کے دماغ میں ایسا خیال ہے کہ یہ امت مسلمہ سے تعلق نہیں رکھتے تو اس کا اظہار کرنے سے پہلے کئی بار سوچ لیجئے گا کہ ان میں کئی ایسے بزرگ علما شامل ہیں جن کی جوتیاں اٹھانے میں آج کے علما اپنا فخر محسوس کریں گے!!
 

رانا

محفلین
میں نے اوپر کی پوسٹ میں علامہ محمود شلتوت کے بیان کردہ ایک نکتہ کا ذکر کیا تھا جو انہوں نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا کہ
"حیرانی ہوتی ہے کہ مسیح کو ان کے دشمنوں کے درمیان سے اٹھا کر مع ان کے مادی جسم کے آسمان پر لے جانا کس طرح اللہ تعالی کی تدبیر کہلا سکتا ہے۔ اور کیسے اس تدبیر کو مسیح کے دشمنوں کی تدبیر سے بہتر اور برتر کہا جاسکتا ہے۔ جبکہ کمزور انسان ہونے کی حیثیت سے ان کے لئے اللہ تعالی کے اس فعل کا مقابلہ کرنا ہرگز ممکن نہیں تھا۔"

یہ کیونکہ ایک بہت ہی لطیف استدلال انہوں نے کیا ہے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کی کچھ مذید وضاحت کی جائے۔ اللہ تعالی نےاس آیت میں یہود کی تدبیر کا مقابلہ تدبیر سے کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ مع روح و جسم آسمان پر اٹھا لینا قدرت نمائی اور معجزہ تو کہلا سکتا ہے مگر تدبیر نہیں کہلا سکتا۔ اعجاز اور تدبیر آپس میں نمایاں فرق رکھتے ہیں۔ جس بات میں مخالف کسی حیلہ سے مقابلہ نہ کرسکتے ہوں وہ معجزہ ہے جیسا کہ محمود غزنوی صاحب نے بھی ذکر کیا ہے۔ اور جس امر میں کسی حیلہ کے ذریعہ مقابلہ کرسکتے ہوں وہ حیلہ تدبیر ہوتی ہے۔ پس خداتعالی کی تدبیر تو کوئی ایسا امر ہی ہوسکتی ہے جس کا مقابلہ یہودی بھی تدبیر سے کرسکتے ہوں اور پھر خداتعالی کے خیرالماکرین ہونے کی وجہ سے وہ خدا کی تدبیر کے مقابلہ میں ناکام رہیں۔ اور زندہ شخص کو آسمان پر اٹھا لینا معجزہ نمائی تو کہلا سکتا ہے مگر تدبیر نہیں کہلا سکتا۔ لہذا صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیبی موت سے زندہ آسمان پر اٹھا لینے سے نہیں بچایا بلکہ کسی مخفی تدبیر سے بچایا۔
ہمارے سید و مولا فخر الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ آپ کے مخالف آپ کے قتل کرنے یا قید کرنے یا یا جلاوطنی کی تدبیریں کررہے ہیں ویمکرون و یمکراللہ واللہ خیر الماکرین وہ بھی تدبیر کررہے تھے اور خداتعالی بھی ان کے بالمقابل تدبیر کررہا تھا اور اللہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔ لہذا خداتعالی تو کامیاب ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن آپ کے قتل کی تدبیر پر سمجھوتہ کرلینے کے بعد سراسر ناکام رہے اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بال بھی بیکا نہ کرسکے کیونکہ خداتعالی اپنی تدبیر کے ذریعے ان کو دشمنوں کے درمیان سے نکال کر لے گیا۔ پھر ہجرت کے بعد آپ کو ایسی کامیاب زندگی عطا فرمائی جس کی کامل مثال کسی نبی میں موجود نہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق بھی اللہ تعالی فرماتا ہے جعلنا ابن مریم و امہ ایۃ و اوینھما الی ربوۃ ذات قرار و معین۔ (المومنون 51) کہ ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو نشان بنایا اور ان دونوں کو ایک بلند زمین کی طرف پناہ دی۔ جو آرام والی اور چشموں والی ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پہاڑی علاقہ کی طرف یہ ہجرت بھی اس تدبیر کا حصہ ہے جو خداتعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیبی موت سے بچا کر ان کے متعلق اخیتار کی۔

اس تدبیر کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے ذرا چشم تصوروہ منظر خیال کریں کہ چاروں طرف بپھرے ہوئے یہودی بلوائی شور مچارہے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر لٹکانے کے لئے لے جارہے ہیں۔ اس منظر کی ایک بہترین تصویر کشی میل گبسن نے حضرت عیسی پراپنی فلم دی پیشن میں کی ہے۔ اگر آپ کو اس وقت کہا جائے کہ کوئی ایسی تدبیر کریں کہ اس بپھرے ہوئے ہجوم سے میسح کوبچا لے جایا جائے تو آپ حیران ہوں گے کہ جہاں تک آپ انسانی عقل دوڑائیں گے آپ کو کوئی تدبیر سمجھ نہیں آئے گی۔ لیکن اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں بہترین تدبیر کرنے والا ہوں۔ اور پھر اللہ تعالی جس تدبیر سے انہیں اس لعنتی موت سے بچا لیتا ہے اس پر بھی انشاء اللہ کچھ ذکر کرنے کی کوشش کروں گا۔

لیکن اس وقت ذرا یہ دیکھتے ہیں کہ علما کو اس واقعہ کو سمجھنے میں غلطی کیوں لگی اورکیوں انہوں نے ایسی لغو تدبیر جو تدبیر بھی نہیں کہی جاسکتی اسے اللہ کی طرف منسوب کردیا جس میں بجائے خود کئی خامیاں ہیں۔ اسکی جو وجہ قرائن سے سمجھ میں آتی ہے اس پر ایک نظر ڈال لیں اور خود ہی فیصلہ کرلیں کہ وجہ کس حد تک معقول ہے۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ یہود نے مسیح کو صلیب پر مارنے کی کوشش کی تھی۔ اور زیر غور آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ یہودی کہتے تھے ہم نے صلیب پر ماردیا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ہرگز نہیں۔ نہ تو یہودیوں نے مسیح ابن مریم کو صلیب پر مارا نہ ہی وہ اسے قتل کرسکے بلکہ معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا۔ وہ ہرگز اسے قتل نہیں کرسکے۔ ایک طرف تو یہ آیت ہے اور دوسری طرف تاریخ اور بائیبل سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو واقعی یہود نے صلیب پر چڑھادیا تھا۔ اور وہ اس پر کچھ عرصہ لٹکے بھی رہے۔ پھر انہیں صلیب پر سے اتارا گیا اور ان کے دو حواری ان کا جسم اٹھا کر کہیں لے گئے۔
اب علما ان دو مخالف بیانات کی وجہ سے بڑے چکر میں پڑ گئے۔ کہ ایک طرف قرآن سچا اور دوسری طرف تاریخی ثبوت بڑا پکا۔ بائیبل بھی گواہ۔ یہودی بھی گواہ۔ عیسائی بھی گواہ کہ مسیح کو واقعی صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ اور پھر ان کے جسم کو جو بظاہر مردہ نظر آتا تھا اتارا بھی گیا۔ آخر اس الجھن کا حل کیا ہے؟ الجھن کا حل انہیں ساتھ ہی مل گیا اور بہت زیادہ تردد کی ضرورت نہیں پڑی۔ انہوں نے سوچا کہ آیت کے آخر پر جو یہ ذکر آتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا تو ہو نہ ہو اس کا یہی مطلب ہوگا کہ اللہ تعالی نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ اور واقعی یوں ہوا ہوگا کہ جب یہودی حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھانے لے گئے ہوں گے تو اللہ تعالی نے ضرور فرشتے بھیجے ہوں گے کہ جاؤ اور میرے مسیح کو اٹھا کر آسمان پر لے آؤ اور اس کی جگہ کسی یہودی کو (نعوذ باللہ) بالکل مسیح کی شکل میں تبدیل کرکے اسی کمرہ میں چھوڑ آؤ۔ اب دیکھ لیجئے اس تشریح سے دونوں گھر پورے ہوگئے۔ قرآن کریم کی بات بھی سچی ہوگئی اور تاریخ کی بات بھی ٹھیک ثابت ہوئی کہ ایک شخص بالکل مسیح کی شکل کا جسے یہودی اور عیسائی مسیح ہی سمجھتے رہے بظاہر مردہ حالت میں صلیب سے اتارا گیا۔ اور اسے حواری مسیح کی لاش سمجھ کر لے گئے۔ حالانکہ وہ (نعوذ باللہ) ایک کافر یہودی کی لاش تھی۔ علما نے خیال کیا کہ یہ جو لکھا ہے کہ یہودی اس بارہ میں شبہ میں پڑ گئے تو اس بھی یہی مراد تھی کہ وہ نادان جس شخص پر مسیح ہونے کا شبہ کرتے رہے وہ میسح تھا ہی نہیں بلکہ ایک یہودی تھا۔

اس تشریح کی حقیقت:
یہ کہانی ہے تو بہت دلچسپ لیکن قدرتی طور پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علما کو یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ مذکورہ بالا طریق پر فرشتہ آسمان سے اترا اور چھت پھاڑ کر حضرت مسیح کو ان کے قید خانے سے باہر نکال کر آسمان پراٹھا لے گیا اور ان کی جگہ ایک یہودی (نعوذ باللہ) ان کی شکل میں ڈھال اس غرض سے پیچھے چھوڑگیا کہ یہودی حضرت مسیح کے شبہ میں اسے صلیب پر چڑھا دیں۔
چاہئے تو یہ تھا کہ اس موقع پر وہ تبدیل شدہ شکل والا یہودی یا تو اس معجزہ کو دیکھ کر خود ایمان لے آتا اور بہ حیثیت ایک مومن حضرت مسیح کا کفارہ ہوجاتا اور یا پھر وہ اپنے ہم قوم لوگوں کو حضرت موسی علیہ السلام کا واسطہ دے کر اس ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لئے واویلا کرتا اور اپنی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے اصل مسیح سے بیزاری کا اظہار کرتا۔ کم از کم اتنا ہی کہہ دیتا کہ اگر مجھے ہی مسیح سمجھنے پر مصر ہو تو میں اب اپنے پرانے خیالات سے توبہ کرتا اور دوبارہ استغفار کرتا ہوا امت موسوی میں داخل ہوتا ہوں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ مندرجہ بالا عقلی امکانات میں سے ایک بھی عملآ ظہور پذیر نہ ہوا۔ بلکہ جس شخص کو بطور عیسی ابن مریم اس جرم میں سولی پر لٹکایا گیا تھا وہ مسیح ہونے کا دعویدار تھا۔ وہ تو آخر وقت تک بے مثل صبر و رضا کا نمونہ بنا رہا اور ایک کلمہ بھی ایسا منہ سے نہ نکالا جو مذکورہ بالا امکانات میں سے کسی ایک کی بھی تائید کرتا ہو۔ بلکہ آخر وقت تک وہ اپنے رب کو یاد کرتا رہا۔

ظاہرہے تاریخ اس خیالی واقعہ کو سراسر جھٹلا رہی ہے۔ پھر دریافت طلب امر یہ رہ جاتا ہے کہ یہ قصہ پیش کرنے والوں کی بنیاد آخر کس چیز پر ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض اوقات تاریخ ایک واقعہ کو نظر انداز کردیتی ہے یا غلط رنگ میں پیش کرتی ہےلیکن اس کے ثبوت کے طور پر یا تو متقابل تاریخی اور عقلی دلائل دینے ضروری ہیں یا پھر اس اختلاف کی بنیاد کسی الہامی کتاب پر ہونی چاہئے۔ بلا تاریخی، عقلی یا الہامی دلیل کے کوئی کسیے ایک سراسر بعید از عقل قصہ مان لیا جائے۔

صرف یہی نہیں کہ یہ قصہ بے دلیل و بے بنیاد ہے بلکہ اسے تسلیم کرنے سے اور بھی کئی برائیاں لازم آتی ہیں۔ مثلا ہم احمدی تو ایک لمحے کے لئے بھی یہ سوچ نہیں سکتے کہ خداتعالی کسی لعنتی کافر کو اپنے کسی برگزیدہ رسول کی شکل میں تبدیل کردے۔ یہ بات کہتے ہوئے مولوی صاحبان کو خدا تعالی سے ڈرنا چاہئے اوراستغفار کرنا چاہئے۔ توبہ توبہ ایک یہودی بد بخت کو حضرت عیسی کی شکل میں تبدیل کردیا گیا ہو! کیسا مکروہ خیال ہے کہ سوچنے سے بھی طبعیت متلاتی ہے۔ پھر یہ بھی نہیں کہ کسی خبیث نے شرارت کی راہ سے خود ہی کسی نبی کی شکل بنانے کی کوشش کی ہو۔ بلکہ دعوی یہ کیا جارہا ہے کہ خود اللہ تعالی نے فرشتہ بھیج کر ایک یہودی کو زبردستی مسیح کی شکل میں تبدیل فرمایا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالی کی شان میں ایسی گستاخی کہ وہ نعوذ باللہ خود ہی اپنے پیارے رسولوں کی ذلت کے سامان کرتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ وہ خدا جو محمد مصطفی اور قرآن کا خدا ہے وہ تو کبھی ایسا نہیں کرسکتا۔ دیکھئے وہ اپنے رسولوں کی عصمت اور عزت کے لئے کیسی غیرت رکھتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب کوئی مجھے خواب میں دیکھتا ہے تو اس نے مجھے ہی دیکھا ہوتا ہے۔ کیونکہ شیطان کی یہ مجال نہیں کہ وہ میری شکل اختیار کرسکے۔ دیکھئے اسلام کا خدا اپنے پیاروں کی سے کیسی محبت کرنے والا ہے کہ وہ کسی شیطان کو خواب میں بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کے برگزیدہ رسول کی مقدس صورت کو ایک لمحہ کے لئے بھی اپنا سکے۔ کجا یہ کہ فی الواقع خود ہی شیطانوں کو پکڑ پکڑ کر نییوں کی شکلوں میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے لگے۔

ایک اور پہلو سے بھی اس قصہ پر نظر کیجئے۔ بفرض محال اگر یہ قصہ درست ہے تو یہود کو تو خداتعالی نے دھوکے میں مبتلا کردیا۔ لیکن بےچارے زخم خوردہ حواریوں کا کیا قصور تھا کہ ان سے بھی ایسا دردناک انتقام لیا گیا؟ ذرا سوچئے تو سہی کہ اگر یہ قصہ سچا ہے تو حواری جس جسم کو صلیب سے اتار کر لے گئے اور روتے روتے اس کے زخموں کو اپنے آنسوؤں سے تر کردیا وہ کس کا جسم تھا۔ کیا خداتعالی کو اس وقت ان پر رحم نہ آیا کہ جس جسم کو وہ اپنے مقدس رسول کا جسم سمجھ کر اس کے پاؤں چومتے اور خاک پا کو آنکھوں سے لگاتے ہیں وہ ایک نبی کا جسم نہیں بلکہ نعوذباللہ ایک کافر یہودی کا جسم ہے۔ کیا اللہ تعالی اپنے مقدس رسولوں اور ان کے پیارے صحابہ سے اسی قسم کے تمسخر کیا کرتا ہے؟
کاش علما اپنی غلطی کو سمجھ جائیں اور استغفار کریں۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ انہوں نے جان بوجھ کر خدا اور اس کے ایک رسول کی ہتک کی ہے۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ اپنی ناسمجھی میں بغیر سوچے سمجھے ایک ایسی بات گھڑ لی جو فی الحقیقت بہت بڑی ہے اور جس سے خدا اور اس کے ایک مقدس رسول کی سخت گستاخی لازم آتی ہے۔

اگر اللہ تعالی نے خاکم بدہن اس قسم کے کھیل دنیا کو دکھانے ہوتے تو اس وقت کیوں نہ ایسا کیا جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما رہے تھے؟ کیا علما جانتے نہیں کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ جانے لگے تو کفارنے قتل کے ارادے سے آپ کے مکان کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور یہ نگرانی کررہے تھے کہ قتل کے مقررہ وقت سے پہلے ہی کہیں آپ قبضہ نہ نکل جائیں۔ اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اپنے بستر پر لٹا دیا۔ جس سے کفار دور سے دیکھ کر یہی سمجھتے رہے کہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی لیٹے ہوئے ہیں۔ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بآسانی ہجرت کا موقع مل گیا۔ اب فرمائیں علما کرام کہ یہاں حضرت علی کو لٹانے کی کیا ضرورت تھی۔ کیوں نہ اللہ تعالی حضرت عیسی والی تدبیر استعمال فرمائی؟ کیوں نہ حضرت علی کے بجائے خاکم بدہن ابوجہل یا کسی اور دشمن کا حلیہ تبدیل کردیاگیا؟ نعوذ باللہ من ذالک۔
ہمارا تو اس تصور سے بھی خون کھولنے لگتا ہے کہ کوئی مردود کافر ایک لمحے کے لئے بھی ہمارے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم فداہ امی و ابی کا روپ دھارتا۔ حضرت علی نے جوایک رات اپنی جان پر خطرہ لیا اس کا تو کیا ذکر اگر جمیع صحابہ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جان بچانے کی خاطر بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح ہونا پڑتا تب بھی خدا تعالی کی غیرت یہ برداشت نہ کرتی کہ ان صحابہ کو قربان کرنے کی بجائے کسی کافر کو ایک لمحے کے لئے بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اختیار کرنے کی اجازت دے دیتا تاکہ کفار دھوکے میں آکر اسے قتل کردیں۔ علما اس خیال سے خداتعالی کی پناہ مانگیں کہ اللہ تعالی اپنے انبیا کی ناموس اور عصمت کے لئے بڑی غیرت رکھتا ہے۔ اور پھر ذرا یہ بھی سوچیں کہ اسے یہ تماشہ دکھانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اگراسے کسی یہودی کو مارنا ہی تھا تو ویسے ہی ماردیا ہوتا۔ ضرور اپنے نبی کی مقدس شکل دے کر مارنا تھا؟ اگر حضرت عیسی علیہ السلام کو بچانا ہی تھا تو ویسے ہی بچالیا ہوتا۔ ضرور آسمان پر اٹھا کر دوہزار برس زندہ رکھنا تھا۔ پھر اگر آسمان پر اٹھانا ہی تھا تو آپ کے بعد ایک یہودی کی شکل تبدیل کرکے اسے حضرت مسیح کی شکل مبارک میں صلیب پر لٹکانے میں کیا حکمت تھی؟ کیا نعوذ باللہ خداتعالی کو یہ خوف تھا کہ اگر یہودیوں کو پتہ چل گیا کہ حضرت عیسی آسمان کی طرف اٹھائے جارہے ہیں تو وہ ان کا پیچھا کرکے آسمان پر پہنچنے سے پہلے پہلے ہی انہیں فرشتہ سے واپس چھین لائیں گے؟ لاحول ولا قوۃ۔ کیا لغو قصہ بنایا ہے کسی نے۔ نہ تو قرآن میں، نہ حدیث میں، نہ تاریخ میں، عقل کا دشمن یہ قصہ جس کا سر ہے نہ پیر۔ کہاجاتا ہے کہ سب مسلمان اس پر بغیر اعتراض کئے ایمان لے آئیں! آخر کیوں لے آئیں ایمان؟ ہاں اگر دلائل سے قائل کردیں تو سوہزار بار جو چاہے کوئی ہم سے منوا لے۔

جماعت احمدیہ واقعہ صلیب کی کیا تشریح کرتی ہے اسکا مختصرآ ذکرانشاءاللہ بعد کی کسی پوسٹ میں کروں گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
میں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق تمام پیغامات اس دھاگے میں منتقل کر دیئے ہیں۔ اگر کوئی پیغام "بنو اسرائیل کے گمشدہ قبائل" والے دھاگے میں رہ گیا ہے یا کوئی غیر متعلقہ پیغام اس دھاگے میں منتقل ہو گیا ہے تو نشاندہی فرما دیں تا کہ مزید پیغامات منتقل کر سکوں۔

ان پیغامات میں چند ایک مراسلے ایسے ہوں گے جن میں آپ حضرات نے مراسلہ نمبر دے کر حوالہ دیا تھا، ہو سکے تو وہ مدون کر لیں۔

نیز آپ سے درخواست کروں گا کہ مزید پیغامات موضوع پر ہی ارسال کیجیے گا۔ ان مراسلوں میں "معراج شریف" کا واقعہ بھی زیر بحث آیا ہے، اب اس پر بحث نہ شروع کر دیجیئے گا کہ اس دھاگے کا موضوع نہیں ہے۔

امید ہے تعاون فرمائیں گے۔
 
میں جس تسلسل کے ساتھ رانا کی پوسٹز کا جواب دے راہ تھا اس کا تقاضہ تو یہی تھا کہ میں آج میں رانا کی پوسٹ نمبر ۲۴ کا جواب دیتا تاہم آج انہوں نے کچھ اور اعتراضات پیش کیے ہیں تو میں پہلے ان کا جواب دوے دوں کیوں کہ یہ اعتراضات سابقہ پوسٹ پر ہیں لہذا پہلے میں ان کو صاف کردوں۔
جواب پوسٹ ۴۳
رانا نے لکھا ہے
"آپ اس آیت کو اپنی مرضی کے معنی پہنانے کے لئے بہت سعی کررہے ہیں لیکن مردہ کو زندہ ثابت کرنا آسان نہیں۔ لفظ "رفع" پر تو بعد میں بات کرتے ہیں پہلے آپ کے اس نام نہاد استدلال کو دیکھتے ہیں کہ آپ اس پر کہاں تک قائم رہتے ہیں۔ رفع کا آپ اپنی مرضی کا معنی کرلیں پھر بھی ضروری نہیں کہ رفعہ والی ضمیر کا مرجع حضرت عیسی مع الجسم ہی ہوں۔

ذرا یہ آیات ملاحظہ کریں:

[ARABIC]قُتِلَ ٱلۡإِنسَ۔ٰنُ مَآ أَكۡفَرَهُ ۥ (١٧) مِنۡ أَىِّ شَىۡءٍ خَلَقَهُ ۥ (١٨) مِن نُّطۡفَةٍ خَلَقَهُ ۥ فَقَدَّرَهُ ۥ (١٩) ثُمَّ ٱلسَّبِيلَ يَسَّرَهُ ۥ (٢٠) ثُمَّ أَمَاتَهُ ۥ فَأَقۡبَرَهُ ۥ[/ARABIC] (٢١)
ترجمہ: "لعنت ہو انسان پر، کساَ سخت منکر حق ہے یہ کس چیزَ سے اللہ نے اِسے پیدۙا کیا ہے؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اِسے پیدا کیا۰، پھر اِس کی تقدیر مقرر کی پھر اِس کے لے زندگی کی راہ آسان کی پھر اِسے موت دی اور قبر میں پہنچایا۔" ( سورہ عبس 17 تا 21)

اب بتائیے کہ آپ کا بیان کردہ قاعدہ پوری طرح یہاں چسپاں ہورہا ہے۔ اَمَاتَهٗ اور فَأَقۡبَرَهُ کی ضمائر کا مرجع الْاِنْسَانُ ہے جو روح اور جسم سے مرکب ہے۔ مگر کیا قبر میں روح اور جسم دونوں اکٹھے رکھے جاتے ہیں؟ موت تو نام ہی اخراج الروح من الجسد کا ہے۔ اگر روح مع الجسم مدفون ہو تو پھر زندہ دفن ہوا، جو محال ہے۔ پس یہاں فَأَقۡبَرَهُ کی ضمیر کا مرجع انسان بمعنی مجرد جسم ہوگا۔

افسوس کہ آپ رفع کو جسمانی ثابت کرنے کے لئے کیا کیا جتن کررہے ہیں لیکن قرآن ہی آپ کو مسلسل غلط ثابت کیئے جارہا ہے۔ خدارا قرآن کی بات مان لیں آخر دوسرے انبیا کے متعلق بھی تو آپ رفع روحانی کے قائل ہیں۔ ایک مسیح کے لئے ہی کیوں اتنے جتن کئے جارہے ہیں۔ ایک اور آیت بھی دیکھ لیں۔

وَلَا تَقُولُواْ لِمَن يُقۡتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمۡوَٲتُۢ‌ۚ بَلۡ أَحۡيَآءٌ۬ وَلَ۔ٰكِن لَّا تَشۡعُرُونَ (١٥٤)
ترجمہ: "اور جو لوگ اللہ کی راہ مں مارے جائیں، انہںْ مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حققت میں زندہ ہیں ، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔" (سورہ البقرہ 154)۔

اب دیکھ لیجئے آپ کے بیان کردہ قاعدہ کے مطابق لفظ من میں یہی جسم مراد ہے۔ مگر کوئی نہیں کہتا کہ وہ اسی جسم کے ساتھ زندہ ہیں۔"
یہاں جو دو آیات قرآنی پیش کی گئیں ہیں درحقیقت وہ سورہ نسا آیت ۱۵۷ ۱۵۸ کی نظیر نہیں بن سکتی ہیں اس لیے کہ ماقتلوہ ماصلبوہ کہ کر قتل کی نفی کر کہ بل رفعہ اللہ الیہ میں رفع کا اثبات کیا جارہا ہے اور یہاں اماتہ کہنے کے بعد لامحالہ جسد و روح میں انفصال ہوا گیا لہذا اب اقبرہ کی ضمیر دونوں کی طرف راجع نہیں ہو سکتی ایک ہی طرف راجع ہو گی گویا پہلی آیت میں جسد و روح کے انفصال کی صریحا نفی ہے اور دوسری میں اماتہ کے ذریعے جسد و روح کا صاف صاف انفصال ہے ۔ یہی حالت دوسری آیت کی بھی ہے جب ایک شخص خدا کی راہ میں شہید ہو گیا تو ظاہر ہے اس کی روح اس کے جسم سے الگ ہو گئی یہاں دونوں میں اتحاد ہو ہی نہیں سکتا ۔قادیانیوں کو یہ فرق نظر نہیں آتا ؟
۲۔اس بات کو یوں سمجھیے کہ جب موت آ گئی وہ کسی بھی صورت میں ہو تو اب روح اور جسد الگ الگ ہو گئے ( جس کا خود رانا نے اپنی پوسٹ اقرار بھی کیا ہے۔ پھر بھہی یہ احمقانہ سوال اٹھایا ہے) لہذا لا محالہ دوسری ضمیر کا مرجع یا تو روح ہو گی یا جسد دونوں نہیں بن سکتے بخلاف سورہ نسا میں کہ اس میں قتل اور صلیب (یعنی موت کی نفی) کے بعد رفع کے ساتھ ضمیر آ رہی ہےتو لا محالہ یہاں جسد مع الروح ہو گا۔ لہذا ان آیات پر قیاس ، قیاس مع الفارق کے قبیل سے ہے جو کہ درست نہیں۔
۳۔ اس آیت کے آخر میں ہے کان اللہ عزیزا حکیما ، اللہ ہے زبردست حکمت والا ۔ اب ذرا غور کیجئے کہ اگر یہاں صرف روحانی رفع مراد ہوتا تو اس میں اللہ پاک کی زبردست حکمت کیسے ظاہر ہو رہی ہے یعنی یہودی حضرت عیسیٰ کو مصلوب کرنا چاہتے تھے اللہ پاک نے پہلے بقول قادیانیوں کہ ان کو روحانی طور پر اٹھا لیا گویا ان کی موت ہو گئی تو اس طرح تو یہودیوں کا مقصد پورا ہو گیا ، جو حضرت عیسیٰ کو قتل کرنا چاہ رہے تھے تو اس میں اللہ کی حکمت کیسے ثابت ہو سکتی ہے یعنی جو کام یہودی کرنا چاہ رہے تھے وہ خود ہی اللہ نے کر دیا اور پھر بھی اللہ حکمت والا ہے ؟؟ نعوذ باللہ۔ یہی تو اللہ زبردست حکمت والے کی زبردست حکمت تھی کہ حضرت عیسیٰ کو صاف بچا کر اوپر آسمانوں میں لے گیا اور کوئی ان کا بال بھی باکا نہیں کر سکا اور سب پر اس کی حکمت غالب آ گئی۔چنانچہ تفسیر کبیر میں علامہ رازی بیان کرتے ہیں (کان اللہ عزیزا حکیما کے تحت)
"عزت سے مراد کمال قدرت اور حکمت سے مراد کمال علم سے یہ جتلانا مقصود ہے رفع عیسیٰ کا دنیا سے آسمانوں کی طرف انسان کے لیے تو ایسا کرنا مشکل ہے۔لیکن میری (اللہ تعالیٰ)قدرت و حکمت کے لیے تو کوئی مشکل نہیں۔"
۴۔اب میں رانا سے یہاں ایک سوال بھی پوچھوں گا کہ وہ بتائیں کہ ما قتلوہ اور ماصلبوہ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ کی روح و جسم دونوں کی طرف راجع ہیں یا کسی ایک کی طرف ؟ظاہر ہے کہ وہ دونوں کی طرف راجع ہیں (کیونکہ قادیانی اسی کے قائل ہیں) تو کس قاعدے اور اصول سے وہ بل رفعہ اللہ الیہ کو صرف روح کی طرف راجع کرتے ہیں اور روح و جسم دونوں کی طرف نہیں؟ ایک ہی مقام پر یہ تفریق وہ کس قاعدے سے کر رہے ہیں وضاحت سے بتا ئیں ۔اور میں ان کو چیلنج کرتا ہوں کہ کسی ایک مستند تفسیر یا ترجمہ میں یہ دکھائیں کہ یہاں چودہ سو سال میں کسی نے حضرت عیسیٰ کی صرف روح کا رفع لیا ہو جسد مع روح کا نہیں۔
رانا مزید لکھتے ہیں
پس کیا ضروری ہے کہ آپ رفع میں جسم بھی ساتھ مراد لیں۔ جناب علم بدیع کی اصطلاح میں اسے صنعت استخدام کہتے ہیں۔ جیسا کہ "تلخیص المفتاح" صفہ 71میں لکھا ہے کہ ایک لفظ جو ذومعنی ہواسکی طرف دو ضمیریں پھیر کراس سے دو الگ الگ مفہوم مراد لینا۔ جیسا کہ اوپر دو مثالیں دی گئی ہیں۔ لیکن پھر بھی آپ کو اصرار ہے کہ یہاں مسیح تو روح اور جسم دونوں کے مجموعے کا نام ہے تو پھر صرف روح کا رفع کیوں مراد لیں تو اوپر کی مثالوں کے بعد آپ کو ضد تو نہیں کرنی چاہئے لیکن پھر بھی ایک اور طرح اسے سمجھ لیں کہ جب ہم کہیں گے کہ زید سیاہ ہے تو صرف جسم مراد ہوگا حالانکہ ہم نے لفظ زید بولا تھا جو جسم اور روح دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔ مگر قرینہ حالیہ نے یہاں اس معنی کو روک دیا۔ یا کہیں زید نیک ہے تو صرف روح مراد ہوگی۔ اسی طرح رفع ہمیشہ روح کا ہوتا ہے۔ اوپر کی دو قرآنی مثالوں کے بعد اس وضاحت کی قطعآ ضرورت نہیں تھی لیکن آپ نے دوسروں کو الفاظ کے گورکھ دھندوں میں الجھا کرجو زبردستی رفع کو روح مع الجسم قرار دینے کی کوشش کی ہے تو یہ وضاحت اصل میں دوسروں کے لئے ہے۔ آپ کے لئے صرف یہ دو آیات ہی کافی ہیں کیونکہ آپ تو اس بات کو خوب سمجھتے ہیں آخر آپ ہی کا تو بیان کردہ قاعدہ ہے۔
دیکھئے اول تو آپ نے صنعت استخدام کی تعریف ہی غلط نقل کی ہے تلخیص المفتاح میں صنعت استخدام کی تعریف یہ ہے
ایک لفظ کے دو معنی ہوں اور لفظ بول کر اس کا ایک معنی لیا جائےاور جب اس لفظ کی طرف ضمیر لوٹے تو دوسرے معنی مراد ہوں یا دو ضمیریں ہوں ایک ضمیر لوٹا کر ایک معنی اور دوسری ضمیر لوٹا کر دوسرا معنی لیا جائے۔
مثلا اذانزل السماء بارض قوم
رعیناہ وان کانوا خضابا
اب سما کے معنی بارش کے بھی ہیں اور سبزہ و گھاس کے بھی پہلے مصرعے میں سما سے مراد ہے بارش لیکن رعینا کی ضمیر دوسرے معنی یعنی سبزے کی جانب لوٹتی ہے ۔ اب آپ نے جو دو مثالیں دی ہیں وہ معذرت کے ساتھ آپ کی جہالت کا بین ثبوت ہیں ذرا بتائے کہ کیا زید کے دو معنی ہیں ؟ زید ایک فرد کا نام ہے جس کے کوئی دو معنی نہیں ہیں (اور اپنی اس مثال میں سے یہ بھی ڈھونڈ کر بتائیں وہ کون سے دو ضمائر ہیں جو زید کی طرف مرجع ہیں؟)لہذا یہاں صنعت استخدام نہیں پائی جاتی بالکل ایسے ہی عیسیٰ ابن مریم سے کوئی دو معنی مراد نہیں لیتا اور پوری دنیا میں کوئی اس کاقائل نہیں ہے کہ عیسیٰ ابن مریم کے دو معنی ہیں ۔لہذا یہاں صنعت استخدام لانا جہالت محض ہے۔
۲۔ کیا رانا چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں سے کسی ایک مفسر کا کوئی قول کو ئی ترجمہ یا کوئی حدیث یہاں پیش کر سکتے ہیں کہ یہاں اس آیت میں صنعت استخدام استعمال ہوئی ہے ؟ یہ میرا دوسرا کھلا چیلنج ہے رانا کو دکھائیں کوئی مستند تفسیر یا ترجمہ جہاں کسی نےبھی یہ کہا ہو کہ یہاں صنعت استخدام استعمال ہوئی ہے۔

رانا مزید فرماتے ہیں
درست ہے کہ رفع کا ایک مطلب اٹھانا بھی ہے- مجھے تو صرف یہ اعتراض ہے جو رفع کا مطلب دوسرے انسانوں اور انبیا کے لئے کیا جاتا ہے یکدم مسیح کی خاطر معنی کیوں بدل لیتا ہے۔ آپ نے کہا ہے کہ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہو وہاں رفع جسمانی ہی ہوگا۔ یہاں آپ نے سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرکے مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ اس کی وضاحت تو میں بعد میں کروں گا پہلے آپ سے گزارش ہے کہ اپنے اسی اصول کے تحت ذرا ان آیات میں رفع اجسام کا معنی کرکے دکھائیں۔

وَلَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنَ۔ٰهُ بِہَا وَلَ۔ٰكِنَّهُ ۥۤ أَخۡلَدَ إِلَى ٱلۡأَرۡضِ وَٱتَّبَعَ هَوَٮٰهُ‌ۚ فَمَثَلُهُ ۥ كَمَثَلِ ٱلۡڪَلۡبِ إِن تَحۡمِلۡ عَلَيۡهِ يَلۡهَثۡ أَوۡ تَتۡرُڪۡهُ يَلۡهَث‌ۚ ذَّٲلِكَ مَثَلُ ٱلۡقَوۡمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِ۔َٔايَ۔ٰتِنَا‌ۚ فَٱقۡصُصِ ٱلۡقَصَصَ لَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ (١٧٦)
ترجمہ: "اگر ہم چاہتے تو ان نشانوں کے ذریعہ اس کا "رفع" کرتے۔ لیکن وہ تو خود زمین کی طرف جھک گیا۔" (سورہ الاعراف 176)

یہاں بھی رفع اجسام کی بات ہورہی ہے۔ یہ آیات بلعم باعور کے متعلق ہیں اور وہ ایک انسان ہی تھا ناکہ اعمال یا کچھ اور۔ لیکن کیا آپ کوئی ایک بھی مثال دے سکتے ہیں کہ یہاں رفع جسمانی کا معنی کیا گیا ہو۔ آپ کے علما بھی یہاں رفع روحانی ہی مراد لیتے ہیں۔

پھر یہ آیت دیکھیں:
وَرَفَعۡنَ۔ٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا (٥٧)
"اورہم نے اسکا رفع بلند مقام پر کیا تھا" (سورہ مریم 57)
یہاں بھی حضرت ادریس علیہ السلام کی بات ہورہی ہے جو کہ ایک انسان مع الجسم تھے ناکہ اعمال و اقوال و افعال وغیرہ۔ تو کیا انہیں یہاں بھی رفع جسمانی ہی مراد لیں گے؟ یہاں تمام علما متفق ہیں کہ رفع روحانی یعنی ترقی درجات ہی مراد ہے۔

تمام مسلمان جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تماز میں دو سجدوں کے درمیان جو دعا پڑھا کرتے تھے اس میں ایک لفظ "وارفعنی" بھی ہے۔ یعنی اے اللہ میرا رفع کر۔ (ابن ماجہ)
سب مانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع ہوا مگر زمین پر ہی رہ کر۔ اور تمام مسلمان سنت رسول میں یہ دعا ہر نماز میں پڑھتے ہیں۔ تو بھائی جب آپ کے علما وہی لفظ رفع کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آتا ہے تو اس سے رفع روحانی مراد لیتے ہیں جبکہ یہاں بھی آپ کی شرط کے مطابق رفع اجسام کی بات ہورہی ہے تو پھر حضرت مسیح کے لئے کیوں رفع جسمانی زبردستی خود ساختہ قاعدے وضع کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ مسلمان روز نماز میں سنت رسول میں یہ دعا کرتے ہیں تو کیا اپنے رفع جسمانی کے لئے کرتے ہیں؟ پھر طرفہ یہ کہ پورے قرآن اور احادیث کے ذخیرے میں کہیں بھی رفع آسمان پرجسمانی طور پر جانے کے معنوں میں نہیں آیا۔ جب بھی بندے کے لئے اللہ تعالی رفع کا لفظ استعمال کرے تو اس سے مراد آسمان پر جانا نہیں ہوتا بلکہ درجات کی بلندی یا عزت والی موت کے ہوتے ہیں۔
جناب پہلی آیت میں تو صاف رفع مجازی کا ذکر ہے آپ اس کو رفع اجسام کس طرح کہ سکتے ہیں ذرا وضاحت تو فرمائیے؟یقنا وہ انسان ہی تھااور درجات انسانوں کے بھی بلند ہوتے ہیں کیا آپ کو اس سے انکار ہے؟ یہاں تو صاف ذکر ہے کہ اس کے رفع کے لیے آیات ذریعہ بن جاتیں لیکن وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا اور یوں پستی کا شکار ہو گیا۔ تو یہ رفع جو بذریعہ آیات ہو رہا ہے کس طرح رفع حقیقی ہو سکتا ہے ؟یعنی جب اللہ پاک کسی کو علم آیات عطا فرمائیں تو اس کے مدارج بلند کیے جاتے ہیں یا اس کو اوپر آسمانوں پر اٹھا لیا جاتا ہے؟ کیا یہاں آپ کو قرینہ عقلیہ صاف نظر نہیں آ رہا؟ اسی لیے یہاں سارے مترجمین نے رفع سے مراد بلند درجے کے لیے ہیں نہ کہ رفع جسمانی کے۔اور جہاں تک دوسری آیت کا تعلق ہے تو یہ حضرت ادریس کے بارے میں نازل ہوئی اور مسلم علما میں سے بعض حضرت ادریس کے بھی رفع جسمانی کے قائل ہیں لیکن آپ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ یہاں رفع کا لفظ مکانا علیا سے مضاف ہےجس کہ یہ معنی ہوئے کہ رب کریم نے حضرت ادریس کو رتبہ علیا پر فائز کیا اور منصب برتر پر ممتاز فرمایا۔ایسا ہی دوسرے مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض و رففع بعضھم درجٰت ۔ترجمہ: یہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی ہے اور بعض کے درجے ہم نے بلند کیے ہیں۔اس میں رفع کو درجات کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ اور اب سورہ نسا والی آیت کو لیجئے وہا ں رفع کا لفظ ہے اور اس کو "الی" کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔جس کے معنی ٹھیک یہ ہیں کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔یعنی آسمانوں کی طرف اور یہ میں پہلے ہی وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہوں ۔

مزید گل افشانی فرماتے ہیں

اذاتواضع العبد رفعہ اللہ الی السماء السابعۃ۔ (کنز العمال جلد 2 صفہ 25)۔
ترجمہ: جب بندہ فروتنی اختیار کرتا ہے (خدا کے آگے گرتا ہے) تو اللہ تعالی اسکا ساتویں آسمان پر رفع کر لیتا ہے۔

یہ حدیث محاورہ عرب کے لحاظ سے اس آیت "بل رفعہ اللہ الیہ" کے معنی سمجھنے کے لئے واضع نص ہے۔ کیوں کہ اس میں لفظ رفع بھی موجود ہے۔ رفع کرنے والا بھی اللہ ہے۔ اور خاص بات اس میں یہ ہے کہ صلہ بھی الی ہی آیا ہے جیسا کہ "بل رفعہ اللہ الیہ" میں ہے۔ اور زائد بات یہ کہ ساتویں آسمان کا لفظ بھی ہے۔ حالانکہ آیت میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں۔ لیکن اس حدیث میں آسمان کا لفظ بھی ہے اور وہ ساری شرائط پوری ہورہی ہیں جن کو اب تک آپ نے پیش کیا ہے۔ لیکن پھر بھی مولوی صاحبان اس کا ترجمہ رفع روحانی یعنی بلندی درجات ہی لیتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ مسیح کے لئے بھی جو رفع کا لفظ آیا ہے اس میں بھی بلندی درجات ہی مراد ہے ناکہ آسمان کی طرف جانا۔
پھر اس حدیث کو دیکھیں:
ماتواضع احد للہ الا رفعہ اللہ (مسلم جلد 2 صفہ 321)
یعنی کوئی ایسا شخص نہیں کہ وہ اللہ کے آگے گرا ہو اور پھر اللہ نے اسکا رفع نہ کیا ہو۔

قادیانی حضرات عموما ایسی احادیث کو بڑا خوش ہو کر پیش کرتے ہیں حالانکہ ان کم عقلوں کو ذرا عقل ہوتی تو یہ جان لیتے کہ یہاں مجاز کے لیے قرینہ عقلیہ قطعیہ موجود ہے اور یہ اس زندہ کے حق میں ہے یعنی جو بندہ لوگوں کے سامنے زمین پر چلتا اور تواضع کرتا ہے تو اس کا مرتبہ اور درجہ اللہ کے یہاں ساتویں آسمان کے برابر اونچا اور بلند ہے ۔غرض یہ کہ رفع کے معنی بلندی درجہ مجازا بوجہ قرینہ عقلیہ کے لیے گئے ہیں اور اگر کسی کم عقل کی سمجھ میں یہ قرینہ عقلیہ نہ آئے تو اس کے لیے قرینہ لفظیہ بھی موجود ہے کنز العمال میں اس حدیث سے بالکل متصل دوسری حدیث ہے ، من یتواضع للہ درجۃ یرفعہ اللہ درجۃ حتی یجعلہ فی علیین، یعنی جس درجہ کی تواضع کرے گا اسی کے مناسب اللہ اس کا درجہ بلند فرمائیں گئے یہاں تک کہ جب وہ تواضع کےآخری درجے پر پہنچ جائے گا تو اللہ پاک اس کو علیین میں جگہ دیں گے۔ اس حدیث میں صراحۃ درجہ کا لفظ موجود ہے اور قاعدہ مسلمہ ہے کہ الحدیث یفسرہ بعضہ بعضا ایک حدیث دوسری حدیث کی شرح و تفسیر کرتی ہے۔غرض کہ قرآن و حدیث میں جہاں کہیں رفع کو درجات کی بلندی میں استعمال کیا گیا ہے وہاں کوئی نہ کوئی قرینہ صارفہ موجود ہے جو ادنیٰ تعامل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ مجازی معنی میں اس وجہ سے استعمال ہو رہا ہے۔

مزید فرماتے ہیں
تمام قرآن اوراحادیث کا ذخیرہ آپ کے زبردستی کے کئے ہوئے ترجمے کو رد کرہے ہیں۔ آپ نے رفع اجسام کے بارے میں جو بھی قواعد وضع کئے وہ تو آپ نے دیکھ لئے کہ قرآن و حدیث ہی آپ کے خلاف ہیں۔ اب رفع اجسام کے بارے میں صحیح قاعدہ بھی سن لیں۔ کہ قرآن مجید، احادیث، لغات العرب اور محاورہ عرب کی رو سے لفظ "رفع" جب بھی اللہ تعالی کی طرف سے کسی انسان کی نسبت بولا جائے تو اس کے معنی ہمیشہ ہی بلندی درجات یا قرب روحانی کے ہوتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے غیراحمدی علما کو بارہا یہ چیلنج دیا جا چکا ہے کہ وہ کلام عرب سے ایک ہی مثال اس امر کی پیش کریں کہ لفظ رفع کا فاعل اللہ تعالی مذکور ہو اور کوئی انسان اس کا مفعول ہو اور رفع کے معنی جسم سمیت آسمان پر اٹھا لینے کے ہوں۔ مگر آج تک اس کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکی اور نہ آئندہ پیش کی جاسکے گی۔
یہ جو عظیم قاعدہ آپ نے نقل فرمایا ہے اور قادیانی جس کو بارہا بطور چیلنج کے پیش کر چکے ہیں تو یہ قاعدہ کہیں مرقوم بھی ہےکسی کتاب تفسیر یا کسی شرح میں بیان بھی ہوا ہے یا نہیں اور صرف قادیانیوں کے ذہن کی پیداوار ہے ذرا پہلے اس قاعدے کا کوئی باقاعدہ حوالہ تو دیجئے پھر ہم آپ کے اس قاعدے کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔
 

رانا

محفلین
اگر آپکو انکا رفع کیا جانا اتنا ہی خلافِ عقل لگتا ہے تو انکی پیدائش جو بذاتِ خود ایک معجزہ ہے اسکو کیوں مانتے ہو، اسکو بھی مسترد کردو کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے۔

ہم ہر اس بات کو مانتے ہیں جو قرآن سے ثابت ہے۔ لیکن جس کا قرآن واضع انکار کردے اس کو کیسے مان لیں؟
بن باپ پیدا ہونا قرآن سے ثابت ہے اس لئے مانتے ہیں۔ بن باپ پیدائش سے متعلق ایک سوال پر امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہراحمد صاحب نے اس ویڈیو کچھ اظہار خیال کیا ہے۔

 

رانا

محفلین
۔ اس آیت کے آخر میں ہے کان اللہ عزیزا حکیما ، اللہ ہے زبردست حکمت والا ۔ اب ذرا غور کیجئے کہ اگر یہاں صرف روحانی رفع مراد ہوتا تو اس میں اللہ پاک کی زبردست حکمت کیسے ظاہر ہو رہی ہے یعنی یہودی حضرت عیسیٰ کو مصلوب کرنا چاہتے تھے اللہ پاک نے پہلے بقول قادیانیوں کہ ان کو روحانی طور پر اٹھا لیا گویا ان کی موت ہو گئی تو اس طرح تو یہودیوں کا مقصد پورا ہو گیا ، جو حضرت عیسیٰ کو قتل کرنا چاہ رہے تھے تو اس میں اللہ کی حکمت کیسے ثابت ہو سکتی ہے یعنی جو کام یہودی کرنا چاہ رہے تھے وہ خود ہی اللہ نے کر دیا اور پھر بھی اللہ حکمت والا ہے ؟؟ نعوذ باللہ۔ یہی تو اللہ زبردست حکمت والے کی زبردست حکمت تھی کہ حضرت عیسیٰ کو صاف بچا کر اوپر آسمانوں میں لے گیا

یہ آپ سے کس نے کہا کہ صلیب کے موقع پر ہی اللہ تعالی نے انہیں وفات دے دی تھی۔ علامہ شلتوت کا جو اقتباس میں دیا تھا اسے پھر پڑھ لیں اوربراہ کرم ذرا غور سے پڑھیں۔ صلیب سے اللہ کی تدبیر نے انہیں بچا لیا تھا اور اسکے بعد ایک لمبی زندگی گزار کر 120 سال کی عمر میں کشمیر میں فوت ہوئے تھے اس واقعے کی تفصیل انشاء اللہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے جلد ہی شئیر کروں گا۔ باقی رہی یہ بات کیونکہ عزیزآ حکیمآ کے الفاظ اللہ نے استعمال کئے ہیں اس سے کوئی آسمان پر جانے جیسی قدرت ہی مراد تھی تو جناب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی جب اللہ نے انہیں ہجرت کے موقع پر غار ثور میں بچایا تھا جسکا ذکر سورہ توبہ آیت 40 میں ہے وہاں بھی تو اللہ نے عزیزآ حکیمآ کے الفاظ ہی بیان کئے ہیں۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔ یا زمین پر ہی رکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو محفوظ رکھا اور اپنی قدرت کا ثبوت دیا تھا؟

۔ جو عظیم قاعدہ آپ نے نقل فرمایا ہے اور قادیانی جس کو بارہا بطور چیلنج کے پیش کر چکے ہیں تو یہ قاعدہ کہیں مرقوم بھی ہےکسی کتاب تفسیر یا کسی شرح میں بیان بھی ہوا ہے یا نہیں اور صرف قادیانیوں کے ذہن کی پیداوار ہے ذرا پہلے اس قاعدے کا کوئی باقاعدہ حوالہ تو دیجئے پھر ہم آپ کے اس قاعدے کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔

جناب رفع کے متعلق ہم نے جو چیلنج دیا ہے اس کی بنیاد لغت عرب پر ہے۔ چنانچہ لسان العرب میں لکھا ہے- کہ رافع اللہ تعالی کا نام ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مومنوں کا رفع ان معنوں میں کرتا ہے کہ انکو سعادت بخشتا ہے اور اپنے دوستوں کا رفع ان معنوں میں کرتا ہے کہ انکو اپنا مقرب بنا لیتا ہے۔ گویا اللہ تعالی کے رفع کا فاعل اور انسان (مومن و اولیا) کے مفعول ہونے کی صورت میں رفع کے معنی بلندی درجات و حصول قرب الہی ہے۔ پس ہمارے چیلنج کی بنیاد تو لغت عرب پر ہے۔

۔اور میں ان کو چیلنج کرتا ہوں کہ کسی ایک مستند تفسیر یا ترجمہ میں یہ دکھائیں کہ یہاں چودہ سو سال میں کسی نے حضرت عیسیٰ کی صرف روح کا رفع لیا ہو جسد مع روح کا نہیں۔

کمال ہے جناب اتنا لمبا اقتباس مفتی مصر کا نقل کردیا اور ایک لمبی لسٹ موجودہ و گذشتہ بزرگان امت کی دے دی۔ اورابھی چیلنج چلتا ہی جارہا ہے!! اس رویئے پر بندہ کیا کہے؟ آپ کس کو دھوکا دینا چاہ رہے ہیں؟ کیا آپ عوام کو الفاظ کے ہیر پھیر سے یہ دھوکا دینا چاہتے ہیں کہ یہ تمام علما مسیح کو وفات یافتہ بھی مانتے تھے اور ساتھ ہی رفع کی وجہ سے آسمان پر زندہ بھی مانتے تھے؟ کچھ خوف خدا کریں یہاں تو ڈھکی چھپی بات بھی نہیں سب دیکھ اور پڑھ رہے ہیں۔
علامہ شلتوت مرحوم کا اقتباس ایک بار پھر پڑھ لیں شائد جناب کی نظر کمزور ہے۔ ایک اورحوالہ بھی پیش خدمت ہے امید تو نہیں کہ آپ کو نظر آئے گا لیکن چلیں دوسروں کے لئے ہی سہی۔

علامہ محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ اسی آیت "اور اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا" کی تفسیر میں ان کے جسمانی رفع کی تردید اور روحانی رفع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"یعنی حضرت مسیح کا رفع دراصل ان کی روح کے عالم سفلی سے جدا ہو کر عالم علوی میں قرار پکڑنے کا نام ہے۔"
(تفسیر القران للشیخ الاکبر العارف باللہ العلامہ محی الدین بن عربی۔ المتوفی سنۃ 638 حجر تہ تحقیق و تقدیم الدکنور مصطفی غالب المجلد الاول صفحہ 296 دارالاندلس للطباعۃ والنشر و التوزیغ ۔ بیروت)

یاد رہے علامہ ابن عربی کا تعلق ان بزرگ صوفیا سے ہے جنہوں نے مسیح کی آمد ثانی سے ان کا ایک دوسرے جسم کے ساتھ روحانی نزول مراد لیا ہے۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
"جب مسیح کا مرجع اپنی اصلی مقر کی طرف ہے اور ابھی وہ اپنے حقیقی کمال کو نہیں پہنچا لہذا آپ کا نزول آخری زمانہ میں ایک دوسرے جسم کے ساتھ تعلق کی صورت میں واجب ہے۔ (حوالہ ایضآ)

اور ذرا اس بات کی بھی ضرور وضاحت فرمائیں کہ زیر غور آیت میں آپ کو ایسا کون سا قرینہ نظر آرہا ہے جو باقی جگہوں پر نظر نہیں آرہا اور ان تمام بزرگان کی نظر سے بھی پوشیدہ رہا۔ آپ پوری کوشش کرکے اس آیت کو اپنے مرضی کے معنی پہنانا چاہ رہے ہیں۔ اللہ ہی آپ کو ہدایت دے آپ کو جتنا بھی سمجھایا جائے گا آپ نے معنی وہی کرنے ہیں چاہے تمام قران و حدیث اور محاورہ عرب اسکے خلاف ہی کیوں نہ گواہی دے آپ نئے سے نئے قاعدے وضع کرتے رہیں گے۔ اور بحث سعی لاحاصل کی طرح شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہوتی جائے گی۔ آپ کے خودساختہ اصول پر میں نے مثال سے یہی تو ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اگر آپ کی بات درست ہے کہ ضرور روح مع الجسم کی بات ہورہی ہے تو رفع میں بھی روح اور جسم دونوں لئے جائیں یہی تو میں نے دکھایا تھا کہ اگر اس بات کو مانا جائے تو پھر آپ ان آیات میں بھی مانیں گے؟ لیکن آپ نے خود ہی تسلیم کرلیا کہ ہر جگہ اس خودساختہ اصول کو تھوپنا زبردستی ہے۔ تمام قران، احادیث کا ذخیرہ اور محاورہ عرب کہتا ہے کہ اللہ کی طرف سے انسان کا رفع ہمیشہ روحانی ہی ہوتا ہی جسمانی ہوہی نہیں سکتا ایک بھی مثال یا دلیل اسکے حق میں نہیں ملتی لیکن آپ کا کہنا ہے کہ نہیں ہم تو یہاں پر یہی خودساختہ اصول لاگو کریں گے چاہے محاورہ عرب اور لغات العرب اسکی تائید نہ کریں۔ اب تک کی گفتگو سے واضع ہے کہ آپ بہرحال وہ معنی کرنا چاہ رہے ہیں جو قرآن و حدیث و محاورہ عرب کے خلاف ہیں اور اس کے حق میں کوئی مثال نہیں کوئی دلیل نہیں صرف کچھ خودساختہ قوائد و اصول ہیں اور اسکے برخلاف ڈھروں مثالیں اوردلائل اور لغات العرب کی تصریحات کو آپ خاطر میں نہیں لارہے لیکن پھر بھی آپ کی گفتگو میں کوئی نیا نکتہ سامنے آیا تو اسکی وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس وقت تک جو کچھ امور میری طرف سے وضاحت طلب رہ گئے ہیں ان کی کچھ تفصیل انشاء اللہ شئیر کرتا ہوں۔
 
ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی فتوحات مکیہ میں کئی مقامات پر واضح طور پر لکھا ہے کہ عیسی علیہ السلام زندہ ہیں اور انکا رفع جسمانی ہوا ہے اور یہ کہ احادیث کے مطابق دوبارہ نزول کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔اس سلسلے میں شیخ عبدالوھاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ (جنکو قادیانی مجدد تسلیم کرتے ہیں) کی مشہور کتاب 'الیواقیت والجواھر' میں شیخ کے اس عقیدے کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے حوالہ جات کے ساتھ۔۔۔میں انشاء اللہ فارغ وقت میں حوالے بھی پیش کردوں گا۔ اسی کتاب میں یہ بھی وضاحت سے ثابت کیاگیا ہے کہ شیخ کی کتابوں میں کئی جگہ پر الحاقات اور اضافے کئے گئے ہیں۔
اور آپ نے جو دو عبارات شیخ سے منسوب کی ہیں ان سے جو موقف ظاہر ہورہا ہے وہ تو سراسر ہندوانہ تناسخ ہے اور بعید ہے کہ شیخ جیسسا محقق ایسی بات لکھے۔۔۔یعنی عیسی علیہ السلام کی روح کو رفع دیا گیا اور وہی روح ایک نئے جسم کے ساتھ نزول کرے گی۔۔سراسر تناسخ اور آواگون ہے ،شیخ نے ہرگز ایسی بات نہیں کی۔ آپ الیواقیت والجواھر کا مطالعہ کریں ۔۔۔
دوسرے یہ کہ اجماع کا یہ مطلب نہیں کہ پوری امت محمدیہ میں ایک بھی آدمی اسکی مخالفت نہ کرے۔۔۔1400 سال میں لاکھوں علماء میں سے کسی غیر معروف صاحب کی اختلافی بات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اجماع منعقد نہیں ہوا۔۔۔اس تعریف کی رو سے تو کسی بات پر بھی اجماع نہیں ہوسکتا۔ ۔۔اگر پاکستان میں ایک غامدی صاحب ہیں تو مصر میں بھی ایک آدھ ایسی شخصیت پائی جاسکتی ہے بات تو تواتر اور اجماع کی ہورہی ہے۔ الشاذ کاالمعدوم کی نہیں۔
 
اور قابل غور بات تو یہ ہے کہ مرزا صاحب نے ایک کتاب لکھی پانچ جلدوں میں جسکا نام ہے 'براھین احمدیہ'۔۔۔بقول مرزا صاحب، یہ تمام کتاب الہام سے لکھی گئی ہے اور انہوں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا، اور یہ کہ بقول انکے، روحانی طور پر ان کی ملاقات رسول کریم سے ہوئی اور انہوں نے اس کتاب کی تائیید فرمائی اور اسے قطبی کا نام دیا یعنی قطب ستارے کی طرح محکم، اور بھی بہت صفتیں کی گئیں ہیں اس کتاب کی۔۔۔اس کتاب میں کئی جگہ پر مرزا صاحب نے حضرت عیسیّ علیہ السلام کے رفع جسمانی اور حیات کے علاوہ انہی کے نزول کو بعینہ اسی طرح تسلیم کیا ہے جیسے علمائے اسلام کرتے ہیں اور اسے امت کا اجماعی عقیدہ بتایا ہے۔۔۔
حیرت کی بات ہے کہ وہ سب الہامات اور روحانی مکاشفات تو مرزا صاحب کے غلط مان لئیے جائیں اور بعد والے الہامات کو درست تسلیم کرلیا جائے خواہ اسکے لئے بعید ازکار تاویلات ہی کیوں نہ کرنی پڑیں اور امت محمدیہ کو کافر ہی کیوں نہ قرار دینا پڑے۔۔۔ڈیلوژن اور اغوائ شیطانی اسی کو تو کہتے ہیں بھائی۔
 

رانا

محفلین
ایک مناظرہ حیات اور وفات مسیح پر ایک احمدی عالم اور اہلسنت عالم کے درمیان جو تین گھنٹوں پر مشتمل ہے آج ہی کچھ سرچ کرتے ہوئے ملا۔ کیونکہ موضوع کے بالکل مطابق ہے اس لئے صرف معلومات کی خاطر شئیر کررہا ہوں۔

 
یہ آپ سے کس نے کہا کہ صلیب کے موقع پر ہی اللہ تعالی نے انہیں وفات دے دی تھی۔ علامہ شلتوت کا جو اقتباس میں دیا تھا اسے پھر پڑھ لیں اوربراہ کرم ذرا غور سے پڑھیں۔ صلیب سے اللہ کی تدبیر نے انہیں بچا لیا تھا اور اسکے بعد ایک لمبی زندگی گزار کر 120 سال کی عمر میں کشمیر میں فوت ہوئے تھے اس واقعے کی تفصیل انشاء اللہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے جلد ہی شئیر کروں گا۔ باقی رہی یہ بات کیونکہ عزیزآ حکیمآ کے الفاظ اللہ نے استعمال کئے ہیں اس سے کوئی آسمان پر جانے جیسی قدرت ہی مراد تھی تو جناب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی جب اللہ نے انہیں ہجرت کے موقع پر غار ثور میں بچایا تھا جسکا ذکر سورہ توبہ آیت 40 میں ہے وہاں بھی تو اللہ نے عزیزآ حکیمآ کے الفاظ ہی بیان کئے ہیں۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔ یا زمین پر ہی رکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو محفوظ رکھا اور اپنی قدرت کا ثبوت دیا تھا؟
درحقیقت قادیانی حضرات اس معاملے میں خود بڑی کنفیوژن کا شکا ر ہیں اور اس میں ان بچاروں کا کوئی قصور نہیں یہ تو ساری حرکت ان کے مرزا غلام احمد قادیانی کی ہے کہ اس نے متضاد اور الٹ پھیر باتیں اپنی کتابوں میں درج کی ہیں کہ خود قادیانیوں کے سر چکرا جاتے ہیں ۔
اچھا بتائیے اگر آپ کا موقف یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ کو صلیب نہیں دی گئی تھی بلکہ آپ کے موقف کے مطابق وہ کشمیر چلے گئے تھے تو
۱۔آپ اپنی پوسٹ نمبر ۲۳ میں لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کیوفات ہوگئی اور ان کو اپنی وفات تک نہیں معلوم تھا کہ ان کی قوم میں شرک پھیل گیا ہے۔
"یہاں حضرت عیسیٰ صرف دو زمانوں کا ذکر کرتے ہیں۔ پہلا وہ زمانہ جس میں مسیح ان کے اندر موجود تھے اور دوسرا وفات کے بعد کا زمانہ۔ حضرت عیسیٰ اللہ تعالی سے صاف کہہ رہے ہیں کہ میری قوم میں شرک میری وفات کے بعد شروع ہوا۔"
۲۔ مرزا غلام احمد اپنے کتاب میں لکھتا ہے۔
کہ انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گزرے تھےکہ بجائے خدا کی پرستش کےایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی یعنی حضرت عیسیٰ خدا بنائے گئے۔
۳۔آپ لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ۱۲۰ سال کی عمر میں کشمیر میں فوت ہوئے(جیسا کہ آپنے ابھی قبولا ہے)
تو پھر تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ یا تو
۱۔ اگر انجیل کے ۳۰ برس کے بعد عیسائیوں میں شرک پھیل گیا توظاہر بات حضرت عیسیٰ کو لازما علم ہو جانا تھا عیسائیوں میں شرک پھیل گیا ہے کیونکہ بقول آپ کے وہ اس وقت حیات تھے اس طرح اب آپ توفی کے معنی کیا لیں گئے اور اپنی اس منطق کا کیا کریں گئے جو آُ پ نے اپنی پوسٹ نمبر ۲۳ میں بیان کی ہے؟
۲۔ مرزا نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ "میرے اوپر یہ کشفا ظاہر کیا گیا کہ یہ زہر ناک ہوا جو عیسائی قوم میں پھیل گئی ہے حضرت عیسیٰ کو اس کی خبر دی گئی(خزائن ج۵ ص) اور
"خدا تعالیٰ نے اس عیسائی فتنے کے وقت میں یہ فتنہ حضرت مسیح کو دکھایا گیا یعنی اس کو آسمان پر اس فتنہ کی اطلاع دی گئی(خزائن ج ۳ ص ۴۰۵)
اب اگر انجیل کے ۳۰ برس کے بعد یہ شرک پھیلنے کی یہ اطلاع حضرت عیسیٰ کو اوپر آسمانوں میں ملی تو پھر یہ ہجرت کشمیر و وفات کشمیر کس کھاتے میں جاتی ہے؟ براہ مہربانی اپنے اس کنفیوذڈ موقف کی صحیح ترجمانی فر ما کر مشکور کیجئے۔
۳۔ اور ایک اہم چیز یہ کہ یہاں آپ کے مرزا صاحب نے رفع سے مراد عزت کی موت لیے ہیں
وہ لکھتا ہے "لہذا یہ امر ثابت ہے کہ رفع سے مراد اس جگہ موت ہے۔ مگر ایسی موت جو عزت کے ساتھ ہو جیسا کہ مقربین کے لیے ہوتی ہے کہ بعد موت ان کی روحیں علیین تک پہنچائی جاتی ہیں۔(خزائن ج ۳ ص ۴۲۳ ۴۲۴)۔
اب بتائیے کہ آپ کے اس موقف پر ناطقہ سر بگریباں و خامہ انگشت بدنداں ہو کہ نہ ہو؟
(اور آپ فکر نہ کریں علامہ شلتوتت اور دیگر لوگوں کا موقف جو آپ نے بیان کیا ہے اس کا ذکر ابھی آ رہا ہے)
۲۔کان اللہ عزیزا حکیما کا جو جواب آپ دیا ہے وہ بھی آپ کی انتہائی درجہ کی عقل مندی ظاہر کر رہا ہے۔ اللہ پاک نے آنحضرت صلی اللہ علایہ وآلہ وسلم کی ایک ایسے موقع پر مدد فرمائی جب کہ سارے ظاہر اسباب منقطع ہو گئے تھے آپ اپنے گھات میں بیٹھے ہوئے دشمنوں کی نگاہوں کے سامنے چلے گئے اور ان کو مطلقا خبر نہ ہوسکی کیونکہ اللہ نے ان کی نگاہوں کو پکڑا لیا تھا ۔پھر ۳، ۴ سو میل کا سفر کر کے آپ مکہ سے مدینہ چلے گئے کوئی آپ کی گرد کو بھی پہنچ نہ سکا اور جو ایک آدمی آپ تک پہنچا وہ بھی گھوڑے سمیت زمین میں دھنس گیا کیا یہ اللہ کی زبردست حکمت نہ تھی؟۔
۲۔ اور اوپر جو بات میں نے بیان کی ہے کہ حضرت عیسیٰ کو اللہ زبردست حکیم نے اوپر زندہ آسمانوں پر اٹھا کر اپنی زبردست حکمت کا ثبوت دیا وہ آپ حضرات کے اس مغالطے کا جواب تھا یہاں رفع سے مراد درجات روحانی کی بلندی ہے یعنی غور فرمائے کہ اگر یہاں رفع روحانی مراد لیا جائے تو گویا اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ اے یہود تم نے کہا تھا کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کو قتل کر دیا، تم ٹھیک کہتے ہو ، تم نے عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیااور اس پر ہم نے اس کے درجے بلند کر دیئے۔(یا بقول مرزا کہ عزت کی موت دے دی)اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح روحانی درجے بلند کرنے سے یہودیوں کی نفی ہوئی یا ان کا اثبات؟ اللہ زبردست حکمت والی کی یہی طاقت و معجزہ اس جگہ تھا کہ اس نے یہود کی تدابیر خاک میں ملا دیں اور حضرت عیسیٰ کو اوپر آسمانوں کی طرف اٹھا لیا اس موقع پر یہ اس کی تدبیر تھی جس سے یہود ناکام رہے اور آنحضرت کی ہجرت کے موقع پر اس نے جو حکمت بنائی اس سے قریش مکہ ناکام رہے۔

جناب رفع کے متعلق ہم نے جو چیلنج دیا ہے اس کی بنیاد لغت عرب پر ہے۔ چنانچہ لسان العرب میں لکھا ہے- کہ رافع اللہ تعالی کا نام ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مومنوں کا رفع ان معنوں میں کرتا ہے کہ انکو سعادت بخشتا ہے اور اپنے دوستوں کا رفع ان معنوں میں کرتا ہے کہ انکو اپنا مقرب بنا لیتا ہے۔ گویا اللہ تعالی کے رفع کا فاعل اور انسان (مومن و اولیا) کے مفعول ہونے کی صورت میں رفع کے معنی بلندی درجات و حصول قرب الہی ہے۔ پس ہمارے چیلنج کی بنیاد تو لغت عرب پر ہے۔
یہاں لسان العرب میں یہ قاعدہ کہاں بیان ہوا ہے کہ جب کبھی اللہ فاعل ہو رفع کا لفظ ہو انسان مفعول ہو تو لازمی رفع مجازی ہوگا؟ میں یہاں نہ صرف لغت عرب بلکہ تاریخ سے کئی مثالیں پیش کر سکتا ہوں کہ باوجود اس کہ اللہ فاعل ہو رفع کا لفظ ہو انسان مفعول ہو لیکن رفع جسمانی ہو لیکن پہلے آپ صریح الفاظ میں یہ قاعدہ مذکور دکھائیں۔

کمال ہے جناب اتنا لمبا اقتباس مفتی مصر کا نقل کردیا اور ایک لمبی لسٹ موجودہ و گذشتہ بزرگان امت کی دے دی۔ اورابھی چیلنج چلتا ہی جارہا ہے!! اس رویئے پر بندہ کیا کہے؟ آپ کس کو دھوکا دینا چاہ رہے ہیں؟ کیا آپ عوام کو الفاظ کے ہیر پھیر سے یہ دھوکا دینا چاہتے ہیں کہ یہ تمام علما مسیح کو وفات یافتہ بھی مانتے تھے اور ساتھ ہی رفع کی وجہ سے آسمان پر زندہ بھی مانتے تھے؟ کچھ خوف خدا کریں یہاں تو ڈھکی چھپی بات بھی نہیں سب دیکھ اور پڑھ رہے ہیں۔
علامہ شلتوت مرحوم کا اقتباس ایک بار پھر پڑھ لیں شائد جناب کی نظر کمزور ہے۔ ایک اورحوالہ بھی پیش خدمت ہے امید تو نہیں کہ آپ کو نظر آئے گا لیکن چلیں دوسروں کے لئے ہی سہی۔
خوف خدا اور خوف آخرت کرنے کی ضرورت آپ کو بے حد ایک ایک جھوٹے نبی کا دامن پکٹر کر آپ جا کس طرف رہے ہیں (اور خوف خدا و فکر انسانیت الحمد للہ ہم میں بھرا ہوا ہے جبھی نہ صرف اپنی آپ حضرات کی بھی فکر رہتی ہے کہ اسی عالم میں آپ وفات پا گئے تو آپ کا انجام کیا ہو گا)
میں نےآپ کو چیلنج دیا ہے کہ رفع سے مراد اگر کسی مستند مفسر نے روحانی کیا ہو تو وہ بتائیے ابن جریر طبری سے لے کر شا ولی اللہ تک کسی مستند تفسیر میں آپ رفع کے معنی روحانی بلندی کے نہیں دکھا سکتے ۔سر سید و غامدی نام نہاد مصری و سوڈانی مفسریں کی اوقات ہی کیا ہے ان ائمہ تفسیر کے سامنے ؟

علامہ محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ اسی آیت "اور اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا" کی تفسیر میں ان کے جسمانی رفع کی تردید اور روحانی رفع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"یعنی حضرت مسیح کا رفع دراصل ان کی روح کے عالم سفلی سے جدا ہو کر عالم علوی میں قرار پکڑنے کا نام ہے۔"
(تفسیر القران للشیخ الاکبر العارف باللہ العلامہ محی الدین بن عربی۔ المتوفی سنۃ 638 حجر تہ تحقیق و تقدیم الدکنور مصطفی غالب المجلد الاول صفحہ 296 دارالاندلس للطباعۃ والنشر و التوزیغ ۔ بیروت)

یاد رہے علامہ ابن عربی کا تعلق ان بزرگ صوفیا سے ہے جنہوں نے مسیح کی آمد ثانی سے ان کا ایک دوسرے جسم کے ساتھ روحانی نزول مراد لیا ہے۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
"جب مسیح کا مرجع اپنی اصلی مقر کی طرف ہے اور ابھی وہ اپنے حقیقی کمال کو نہیں پہنچا لہذا آپ کا نزول آخری زمانہ میں ایک دوسرے جسم کے ساتھ تعلق کی صورت میں واجب ہے۔ (حوالہ ایضآ)
ابن عربی کا حوالہ آپ کو کسی طرح مفید نہیں ہے اس لیے کہ اول تو یہ تفسیر جس کا آپ نے حوالہ دیا اس کی نسبت ابن عربی کی طرف مشکوک ہے۔دوسرا یہ کہ ابن عربی سے جا بجا ان کی مستند کتابوں میں یہ بات مرقوم ہے کہ وہ حیات و نزول مسیح کے قائل ہیں۔ مثلا
فتوھات مکیہ میں بے شک عیسیٰ بن مریم نبی اور رسول ہیں اور یقینا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ آخری زمانے میں حاکم منصف بن کر نازل ہوں گے، اور ہماری شریعت کے مطابق عدل کی حکومت کریں گے (ج۲ ص۳)
۲۔ الیواقیت والجواہر میں ان کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے ۔
"پس جب آپ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم (شب معراج) اس آسمان میں داخل ہوئے تو حضرت عیسیٰ بعینہ اسی جسم کے ساتھ دیکھا کیونکہ وہ اب تک مرے نہیں بلکہ اللہ تعالٰی نے ان کو اس آسمان پر اٹھا لیا، اور اس آسمان میں ان کو ٹھرایا۔(ج۲ ص۳۴) (اس طرح وہ تفسیر جس میں یہ بیان ہے اور جس کی نسبت پہلے ہی ابن عربی سے مشکوک ہے کی خود ہی کاٹ ہو گئی کہ یہان ابن عربی حضرت عیسیٰ کے بعینہ اسی جسم کے ساتھ آسمانوں پر قیام کے قائل ہیں)
اور وہ تو نہ صرف حضرت عیسیٰ بلکہ حضرت ادریس و حضرت الیاس کے بھی جسد و روح کے ساتھ آسمانوں میں زندہ موجوگی کے قائل ہیں (دیکھئے ج۲ ص۵)
اور وہ تفسیر جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں جو عبارت آپ نے پیش کی ہے
"حضرت عیسیٰ کے اٹھائے جانے کی وجہ سے ان کی روح عالم سفلی سے جدا ہو کر عالم علوی سے متصل ہو گئی۔۔۔ اور چونکہ ان کو اپنے اصلی مستقر پر واپس آنا تھا اور اس کمال حقیقی (جو اللہ نے ان کے لیے تجویز کیا ہے) ابھی تک نہیں پہنچے۔ اس لیے آخری زمانے میں ان کا نزول دوسر بدن سے متعلق ہو کرواجب ہو ااس وقت ان کو ہر شخص پہچان لے گا پس اہل کتاب جو مبدا و معاد کے عارف ہوں گے سب کے سب ان پر ایمان لے آئیں گئے۔ان کی موت سے پہلے۔
اب ابن عربی کی یہ تفسیر جو(جو اگر ان ہی کی ہو تو)عام تفاسیر سے جداگانہ اورعارفہ ذوق لیے ہوئے ہےاس کی تفہیم عام لوگوں کی بس کی بعد نہیں چہ جائیکہ قادیانی عقلمندوں کی (جن کو اپنے مرزا کی آج تک سمجھ نہ آسکی) پھر یہاں یہ چیز عارفانہ انداز میں واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول آخری زمانے میں ہو گا جاتے وقت ان ہر عالم ملکوتی کے آثار نمایاں تھے اور وقت نزول ان پر آثار بشری نمایاں ہوں گئے۔اگر اس جگہ حضرت عیسیٰ کی جگہ کوئی اور شخص یا آپ کےمرزا غلام احمد ہی مراد ہوتے تو کیا تمام اہل کتاب مرزا غلام احمد پر ایمان لے آئے ؟ اور کیا مرزا غلام احمد قادیانی کے بطور نبی کےشناخت تمام اہل کتاب کرتے ہیں ؟؟؟ جیسا کہ اسی عبارت میں موجود ہے؟؟
ابن عربی کی اسی تفسیر سے ایک اور حوالہ دیکھئے
سورہ زخرف کی آیت ۶۲ کے تحت وہ لکھتے ہیں
"بے شک وہ یعنی حضرت عیسیٰ کے ذریعے قیامت کبری ٰ کے قرب کا علم ہو جائے گا کیونکہ آپ کا نزول قیامت کی علامات میں سے ہے۔"

اب بتائیے کہ ابن عربی حیات و نزول عیسیٰ کے قائل ہیں کہ نہیں؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top