قتیل شفائی حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا - قتیل شفائی

فرخ منظور

لائبریرین
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

سمجھو وہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھر نہیں گرتا

اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے
اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا

انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا

حیراں ہے کوئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا

اس بندہء خوددار پہ نبیوں کا ہے سایا
جو بھوک میں بھی لقمہء تر پر نہیں گرتا

کرنا ہے جو سر معرکہِ زیست تو سُن لے
بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا

قائم ہے قتیل اب یہ میرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب، یہ غزل بھی قتیل کی خوبصورت ترین غزلوں میں سے ہے، ایک ایک شعر گوہرِ آبدار ہے واہ واہ واہ۔

نوازش آپ کی شیئر کرنے کیلیئے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا

بہت اعلٰی ، قتیل شفائی کی شاعری بلا شبہ لا جواب ہے
 

سید زبیر

محفلین
سمجھو وہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھر نہیں گرتا
بہت خوبصورت کلام پڑھنے کو ملا۔۔۔۔ شراکت کا شکریہ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا

حیراں ہے کوئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا

اس بندہء خوددار پہ نبیوں کا ہے سایا
جو بھوک میں بھی لقمہء تر پر نہیں گرتا

کرنا ہے جو سر معرکہِ زیست تو سُن لے
بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا



واہ واہ واہ
قتیل شفائی کی لاجواب غزل
 
Top