جہانِ حسن و نظر سے کنارہ کرنا ہے

آصف شفیع

محفلین
ایک غزل احباب کی نذر:

جہانِ حسن و نظر سے کنارہ کرنا ہے
وجودِ شب کو مجھے استعارہ کرنا ہے

مرے دریچہءدل میں ٹھر نہ جائے کہیں
وہ ایک خواب کہ جس کو ستارہ کرنا ہے

تمام شہر اندھیروں میں ڈوب جائے گا
ہوا کو ایک ہی اس نے اشارہ کرنا ہے

یہ قربتوں کے ہیں لمحے،انہیں غنیمت جان
انہی دنوں کو تو ہم نے پکارا کرنا ہے

وہ دوستوں کو بتائے گا پیار کا قصہ
اور اس نے ذکر بہت کم ہمارا کرنا ہے

مری نگاہ میں جچتا نہیں کوئی ، آصف
اسی کے قرب کو حاصل دوبارہ کرنا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب آصف صاحب۔ مزہ آیا اتنی اچھی غزل پڑھ کر۔

آپ کے مزید کلام کا انتظار رہے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب آصف۔ سب سے حسین تو مطلع ہی ہے۔
لیکن ایک ات۔ غزل کا محاورہ مکمل پنجابی اردو ہی ہے۔ ہم اردو میں کہتے ہیں "ہم کو یہ کام کرنا ہے‘۔ آپ لوگ کہتے ہیں " ہم نے۔۔۔‘ اس لئے تھوڑی تفہیم کو غور کرنا پڑتا ہے ہم غیر پنجابیوں کو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ، لا جواب غزل ہے آصف صاحب، سبحان اللہ۔

سبھی اشعار بہت اچھے ہیں، لیکن یہ شعر تو بہت پسند آئے۔


مرے دریچہءدل میں ٹھر نہ جائے کہیں
وہ ایک خواب کہ جس کو ستارہ کرنا ہے

یہ قربتوں کے ہیں لمحے،انہیں غنیمت جان
انہی دنوں کو تو ہم نے پکارا کرنا ہے

مری نگاہ میں جچتا نہیں کوئی ، آصف
اسی کے قرب کو حاصل دوبارہ کرنا ہے

واہ واہ، لا جواب۔
 

محسن حجازی

محفلین
تمام شہر اندھیروں میں ڈوب جائے گا
ہوا کو ایک ہی اس نے اشارہ کرنا ہے

اس شعر کے بعد ہم کو لاہور و کراچی کی گنجان آباد گلیوں میں کھڑے بجلی کے کھمبےاور ان پر لٹکتی جھولتی تاریں یاد آگئیں۔۔۔
 
مرے دریچہءدل میں ٹھر نہ جائے کہیں
وہ ایک خواب کہ جس کو ستارہ کرنا ہے

تمام شہر اندھیروں میں ڈوب جائے گا
ہوا کو ایک ہی اس نے اشارہ کرنا ہے

یہ قربتوں کے ہیں لمحے،انہیں غنیمت جان
انہی دنوں کو تو ہم نے پکارا کرنا ہے

واہ۔۔۔۔ بہت خوب۔۔۔ نہایت اعلی!
 

مغزل

محفلین
حجازِ مقدس سے آصف شیخ صاحب
آداب وسلامِ مسنون
غزل نظر نواز ہوئی ، رسید حاضر ہے۔
بشرطِ فرصت حاضرہوتا ہوں۔
والسلام
 

جیا راؤ

محفلین
یہ قربتوں کے ہیں لمحے،انہیں غنیمت جان
انہی دنوں کو تو ہم نے پکارا کرنا ہے

وہ دوستوں کو بتائے گا پیار کا قصہ
اور اس نے ذکر بہت کم ہمارا کرنا ہے

مری نگاہ میں جچتا نہیں کوئی ، آصف
اسی کے قرب کو حاصل دوبارہ کرنا ہے


واہ۔۔۔۔ بہت ہی خوبصورت !
 

نوید صادق

محفلین
ایک غزل احباب کی نذر:

جہانِ حسن و نظر سے کنارہ کرنا ہے
وجودِ شب کو مجھے استعارہ کرنا ہے

مرے دریچہءدل میں ٹھر نہ جائے کہیں
وہ ایک خواب کہ جس کو ستارہ کرنا ہے

تمام شہر اندھیروں میں ڈوب جائے گا
ہوا کو ایک ہی اس نے اشارہ کرنا ہے

یہ قربتوں کے ہیں لمحے،انہیں غنیمت جان
انہی دنوں کو تو ہم نے پکارا کرنا ہے

وہ دوستوں کو بتائے گا پیار کا قصہ
اور اس نے ذکر بہت کم ہمارا کرنا ہے

مری نگاہ میں جچتا نہیں کوئی ، آصف
اسی کے قرب کو حاصل دوبارہ کرنا ہے
بہت خوب آصف!!
 
Top