داغ جو دل قابو میں ہو تو کوئی رسوائے جہاں کیوں ہو - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

جو دل قابو میں ہو تو کوئی رسوائے جہاں کیوں ہو
خلش کیوں ہو، طپش کیوں ہو، قلق کیوں ہو، فغاں کیوں ہو

مزا آتا نہیں تھم تھم کے ہم کو رنج و راحت کا
خوشی ہو غم ہو جو کچھ ہو الٰہی ناگہاں کیوں ہو

یہ مصرع لکھ دیا ظالم نے میری لوح تربت پر
جو ہو فرقت کی بیتابی تو یوں خواب ِگراں کیوں ہو

ہمیشہ آدمی کا آدمی غمخوار ہوتا ہے
یہی بے اعتباری ہو تو کوئی راز داں کیوں ہو

بہت نکلیں گے روز محشر تیرے جور کے خواہاں
ستم کا حوصلہ دنیا میں صرف امتحاں کیوں ہو

غضب آیا ستم ٹوٹا قیامت ہوگئی برپا
یہ پوچھا تھا کہ تم آزردہ مجھ سے میری جاں کیوں ہو

اُنہیں کو رنجش بیجا ہے، لیکن ہے تو، ہم سے ہے
محبت گر نہ ہو باہم شکایت درمیاں کیوں ہو

گئے ٹھکرا کے مجھ کو اور پھر کہتے گئے یہ بھی
نصیب دشمناں تو پائمال آسماں کیوں ہو

نئی تاکید ہے ضبط محبت کی وہ کہتے ہیں
جگر ہو تو فغان کیوں ہو، دہن ہو تو زباں کیوں ہو

شریک دور مے بزم عدو میں خاک ہوئے ہم
کسی نے رات بھر اتنا نہ پوچھا تم یہاں کیوں ہو

تحمل کر سکے کیا حسن نازک اُن نگاہوں کا
اُسے میں نے چھپایا ہے وگر نہ وہ نہاں کیوں ہو

خدا شاہد خدا شاہد ہے کیوں کہتے ہو وعدوں پر
خدا کو کیا غرض میرے تمہارے درمیاں کیوں ہو

جگر سے کم نہیں اے چارہ گر داغِ جگر مجھ کو
جو پیدا کی ہو مر مر کے وہ دولت رائیگاں کیوں ہو

نوید جانفزا ہے کیا خبر قاتل کے آنے کی
بتاؤ تو سہی تم داغ ایسے شادماں کیوں ہو
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت عمدہ غزل انتخاب کی ہے۔ شکریہ کاشفی صاحب! دو اشعار میں املا کی اغلاط ہیں انہیں درست کر دیجیے۔
اُنہیں گو رنجیش بیجا ہے، لیکن ہے تو، ہم سے ہے
محبت گر نہ ہو باہم شکایت درمیاں کیوں ہو

اسے رنجش کر دیجیے۔

تحمل کر سکے کیا حسن نازک اُن نگاہوں کا
اُسے میں نے چھپایا ہے وگر نہ وہ نہاں کیوں نہ ہو

مصرعِ ثانی میں "نہ" اضافی ہے جس کی وجہ سے ردیف مختلف ہو جاتا ہے۔
 
Top