جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

La Alma

لائبریرین
تو کیا زندگی میں nothingness سے something بننے کا مظہر ایک ہی تھا اور اس کے بعد اس something سے everything بن رہی ہے؟ ہم جتنی بھی innovation لاتے جائیں وہ جن ingredients پر build ہو رہی ہے وہ سارے ہمیشہ سے یا بتدریج موجود رہے ہیں؟
یہ کائنات ایک حیرت کدہ ہے۔ ایسا بہت کچھ ہے جو اسکے بند دروازوں کے پیچھے ہے۔ اور انکی کنجیاں، قدرت کے وہ اصول و قوانین ہیں جن کی تلاش انسان کو صدیوں سے ہے۔ جتنی بھی مادی ترقی ممکن ہوئی، وہ بتدریج ان دروازوں کے وا ہونے سے ہوئی۔ کچھ در حادثاتی طور پر کھلے اور کہیں انسان اپنی سعی، لگن اور جستجو سے ان کو ان لاک کرنے میں کامیاب ہوا۔ ہر تخلیق، ہر ایجاد اس Nothingness کی Uncoding ہے۔ کچھ نہ ہونے کے ویکیوم میں بھی کوئی نہ کوئی ایسی صلاحیت ضرور موجود ہوتی ہے جو ظہور پذیری کے عمل کو ممکن بناتی ہے۔ Nothingness کوئی شے نہیں۔ Non- Existence کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کبھی Exist ہی نہیں کر سکتا۔ سب لیولز کی گیم ہے۔ انسان کتنے لیولز، اچیو کر کے ترقی کے اس دور میں داخل ہو چکا ہے۔ ابھی نجانے اور کتنے باقی ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کہیں پڑھا تھا کہ فلسفہ یونان والے تجربہ سے حاصل ہونے والے علم کو گھٹیا سمجھتے تھے ۔ عقل پر ہی اکتفا کرنا انہیں زیادہ پسند تھا۔

آج بھی فلسفہ والے تھیوریٹیکل ہیں جب کہ سائنس تھیوری اور پریکٹیکل دونوں پر مشتمل ہے۔

اپنی اور کائنات کی حقیقت کو جاننے کے لیے تھیوری کے ساتھ ساتھ تجربے کے میدان میں اتریں۔

یعنی معرفت ذات کے لیے خانقاہ اور معرفت کائنات کے لیے لیبارٹری کا رُخ کرنا ضروری ہے۔
 
بہت خوب۔
لگتا ہے فلسفے کے کسی صیغے میں بھی ڈاکٹریٹ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ :cool:
چوہدری صاحب، PhD فلسفے کے ڈاکٹر کو ہی کہتے ہیں چاہے مضمون کوئی بھی ہو۔ مجھے اس میں دلچسپی اس لیے ہی تھی کہ سوچ سکوں سوچنا کیسے ہے اور سیکھ سکھوں کہ سیکھنا کیسے ہے وغیرہ وغیرہ۔ تسی دسو کیہڑے کٹے کھلے نیں جیہڑے انے سالاں توں بن ای نئیں رئے؟ سارے محفلین تہانوں یاد کردے نیں بلکہ کی پتہ محفل وی تہاڈے نال ای رس کے چلی ہووے۔۔۔ :D
 

زیک

مسافر
چوہدری صاحب، PhD فلسفے کے ڈاکٹر کو ہی کہتے ہیں چاہے مضمون کوئی بھی ہو۔
پی ایچ ڈی کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو انتہائی سپیشلائزڈ یہ اپنے نیرو فیلڈ کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں اور اس کے ایکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ اپنے ریسرچ سکلز اور سمجھ فیلڈ سے باہر استعمال نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے۔ زیادہ تر اسی قبیل سے ہوتے ہیں۔

ایک کم تعداد ان پی ایچ ڈیز کی ہے جو اپنی پڑھائی اور ریسرچ سے سمجھ بوجھ کا جنرل میتھڈ سیکھتے ہیں۔ یہ اپنے ریسرچ سکلز کو ہر جگہ اپلائی کرتے ہیں اور بڑے کینوس پر سوچتے ہیں۔ اس کے لئے کامن سینس لازم ہے۔ ان میں یہ قابلیت ہوتی ہے کہ گیہوں اور گھن کو علیحدہ کر سکیں۔ یہ مس انفارمیشن کی وجہ سے کم ہی بھٹکتے ہیں۔

پہلے قبیل کے لوگ بھی عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن اکثر جب وہ اپنی فیلڈ سے باہر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو غلط راہ پر نکل پڑتے ہیں اور گم ہو جاتے ہیں۔

دنیا کو دونوں قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ وہ بھی جو محض اپنے فیلڈ میں گہرائی میں جائیں اور وہ بھی جو زوم آؤٹ کر کے براڈ پکچر دیکھ اور سمجھ سکیں۔
 

زیک

مسافر
میں نے حال ہی میں ایک کتاب پڑھی Sophie's World جس سے اس لڑی کو بنانے میں بھی تحریک ملی
میں نے یہ بیٹی کے ساتھ پڑھی تھی جب شاید وہ پرائمری یا مڈل سکول میں تھی اور فلسفہ پر بحث کی شوقین تھی۔ اب تو وہ یونیورسٹی میں بھی دو تین فلسفہ کے کورس لے چکی۔

آپ کو کتاب کیسی لگی؟ کیا بنیادی فلسفہ کے بارے میں پڑھنے کی تحریک ہوئی؟

کیا ہم اس پراسیس کو کونشئسلی ریورس کر سکتے ہیں؟ ہمیشہ نئے دوست بنانے، نئے راستوں پہ جانے، نت نئے مشاغل اپنانے/تجربات کرنے، روٹین سے ہٹنے وغیرہ سے یا کچھ بھی کر لیں یہ ہو کر رہتا ہے؟ کیونکہ یہ نیا پن بھی کہیں نا کہیں مجھ جیسے دشمنان روٹین کی عادت ہی بن جایا کرتی ہے؟
کچھ حد تک۔ عادات ہر ایک کی ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ مزید پختہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ہاں آپ ان کو کچھ رخ دے سکتے ہیں۔ یہاں پھر وہ بات آ جاتی ہے کہ آپ کتنے open to new experiences ہیں۔ کھانے کو لے لیں۔ اکثر لوگ بچپن کے بعد نت نئے کھانے جو ان غذاؤں سے جن پر وہ پلے بڑھے سے کافی مختلف ہوں کو پسند نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے۔ لیکن کچھ لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر انجوائے کرتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
کیا کوئی ایسا لٹریچر موجود ہے جہاں لکھی ہوئی شکل میں کچھ ایسی ویلیوز کا احاطہ ہو جو یونیورسل ہیں؟ یا ویلیو سسٹم پہ ہمیشہ کلچر اور دیگر dividing factors کی چھاپ رہی ہے؟
سائیکالوجی، اینتھروپالوجی، برین اینڈ کوگنیٹو سائنس وغیرہ کی اس سلسلے میں کافی ریسرچ ہے۔ کچھ تو ایوولیوشن کے تناظر میں بھی
 
Top