جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

La Alma

لائبریرین
تو کیا زندگی میں nothingness سے something بننے کا مظہر ایک ہی تھا اور اس کے بعد اس something سے everything بن رہی ہے؟ ہم جتنی بھی innovation لاتے جائیں وہ جن ingredients پر build ہو رہی ہے وہ سارے ہمیشہ سے یا بتدریج موجود رہے ہیں؟
یہ کائنات ایک حیرت کدہ ہے۔ ایسا بہت کچھ ہے جو اسکے بند دروازوں کے پیچھے ہے۔ اور انکی کنجیاں، قدرت کے وہ اصول و قوانین ہیں جن کی تلاش انسان کو صدیوں سے ہے۔ جتنی بھی مادی ترقی ممکن ہوئی، وہ بتدریج ان دروازوں کے وا ہونے سے ہوئی۔ کچھ در حادثاتی طور پر کھلے اور کہیں انسان اپنی سعی، لگن اور جستجو سے ان کو ان لاک کرنے میں کامیاب ہوا۔ ہر تخلیق، ہر ایجاد اس Nothingness کی Uncoding ہے۔ کچھ نہ ہونے کے ویکیوم میں بھی کوئی نہ کوئی ایسی صلاحیت ضرور موجود ہوتی ہے جو ظہور پذیری کے عمل کو ممکن بناتی ہے۔ Nothingness کوئی شے نہیں۔ Non- Existence کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کبھی Exist ہی نہیں کر سکتا۔ سب لیولز کی گیم ہے۔ انسان کتنے لیولز، اچیو کر کے ترقی کے اس دور میں داخل ہو چکا ہے۔ ابھی نجانے اور کتنے باقی ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کہیں پڑھا تھا کہ فلسفہ یونان والے تجربہ سے حاصل ہونے والے علم کو گھٹیا سمجھتے تھے ۔ عقل پر ہی اکتفا کرنا انہیں زیادہ پسند تھا۔

آج بھی فلسفہ والے تھیوریٹیکل ہیں جب کہ سائنس تھیوری اور پریکٹیکل دونوں پر مشتمل ہے۔

اپنی اور کائنات کی حقیقت کو جاننے کے لیے تھیوری کے ساتھ ساتھ تجربے کے میدان میں اتریں۔

یعنی معرفت ذات کے لیے خانقاہ اور معرفت کائنات کے لیے لیبارٹری کا رُخ کرنا ضروری ہے۔
 
بہت خوب۔
لگتا ہے فلسفے کے کسی صیغے میں بھی ڈاکٹریٹ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ :cool:
چوہدری صاحب، PhD فلسفے کے ڈاکٹر کو ہی کہتے ہیں چاہے مضمون کوئی بھی ہو۔ مجھے اس میں دلچسپی اس لیے ہی تھی کہ سوچ سکوں سوچنا کیسے ہے اور سیکھ سکھوں کہ سیکھنا کیسے ہے وغیرہ وغیرہ۔ تسی دسو کیہڑے کٹے کھلے نیں جیہڑے انے سالاں توں بن ای نئیں رئے؟ سارے محفلین تہانوں یاد کردے نیں بلکہ کی پتہ محفل وی تہاڈے نال ای رس کے چلی ہووے۔۔۔ :D
 

زیک

مسافر
چوہدری صاحب، PhD فلسفے کے ڈاکٹر کو ہی کہتے ہیں چاہے مضمون کوئی بھی ہو۔
پی ایچ ڈی کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو انتہائی سپیشلائزڈ یہ اپنے نیرو فیلڈ کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں اور اس کے ایکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ اپنے ریسرچ سکلز اور سمجھ فیلڈ سے باہر استعمال نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے۔ زیادہ تر اسی قبیل سے ہوتے ہیں۔

ایک کم تعداد ان پی ایچ ڈیز کی ہے جو اپنی پڑھائی اور ریسرچ سے سمجھ بوجھ کا جنرل میتھڈ سیکھتے ہیں۔ یہ اپنے ریسرچ سکلز کو ہر جگہ اپلائی کرتے ہیں اور بڑے کینوس پر سوچتے ہیں۔ اس کے لئے کامن سینس لازم ہے۔ ان میں یہ قابلیت ہوتی ہے کہ گیہوں اور گھن کو علیحدہ کر سکیں۔ یہ مس انفارمیشن کی وجہ سے کم ہی بھٹکتے ہیں۔

پہلے قبیل کے لوگ بھی عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن اکثر جب وہ اپنی فیلڈ سے باہر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو غلط راہ پر نکل پڑتے ہیں اور گم ہو جاتے ہیں۔

دنیا کو دونوں قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ وہ بھی جو محض اپنے فیلڈ میں گہرائی میں جائیں اور وہ بھی جو زوم آؤٹ کر کے براڈ پکچر دیکھ اور سمجھ سکیں۔
 

زیک

مسافر
میں نے حال ہی میں ایک کتاب پڑھی Sophie's World جس سے اس لڑی کو بنانے میں بھی تحریک ملی
میں نے یہ بیٹی کے ساتھ پڑھی تھی جب شاید وہ پرائمری یا مڈل سکول میں تھی اور فلسفہ پر بحث کی شوقین تھی۔ اب تو وہ یونیورسٹی میں بھی دو تین فلسفہ کے کورس لے چکی۔

آپ کو کتاب کیسی لگی؟ کیا بنیادی فلسفہ کے بارے میں پڑھنے کی تحریک ہوئی؟

کیا ہم اس پراسیس کو کونشئسلی ریورس کر سکتے ہیں؟ ہمیشہ نئے دوست بنانے، نئے راستوں پہ جانے، نت نئے مشاغل اپنانے/تجربات کرنے، روٹین سے ہٹنے وغیرہ سے یا کچھ بھی کر لیں یہ ہو کر رہتا ہے؟ کیونکہ یہ نیا پن بھی کہیں نا کہیں مجھ جیسے دشمنان روٹین کی عادت ہی بن جایا کرتی ہے؟
کچھ حد تک۔ عادات ہر ایک کی ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ مزید پختہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ہاں آپ ان کو کچھ رخ دے سکتے ہیں۔ یہاں پھر وہ بات آ جاتی ہے کہ آپ کتنے open to new experiences ہیں۔ کھانے کو لے لیں۔ اکثر لوگ بچپن کے بعد نت نئے کھانے جو ان غذاؤں سے جن پر وہ پلے بڑھے سے کافی مختلف ہوں کو پسند نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے۔ لیکن کچھ لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر انجوائے کرتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
کیا کوئی ایسا لٹریچر موجود ہے جہاں لکھی ہوئی شکل میں کچھ ایسی ویلیوز کا احاطہ ہو جو یونیورسل ہیں؟ یا ویلیو سسٹم پہ ہمیشہ کلچر اور دیگر dividing factors کی چھاپ رہی ہے؟
سائیکالوجی، اینتھروپالوجی، برین اینڈ کوگنیٹو سائنس وغیرہ کی اس سلسلے میں کافی ریسرچ ہے۔ کچھ تو ایوولیوشن کے تناظر میں بھی
 
یہ کائنات ایک حیرت کدہ ہے۔ ایسا بہت کچھ ہے جو اسکے بند دروازوں کے پیچھے ہے۔ اور انکی کنجیاں، قدرت کے وہ اصول و قوانین ہیں جن کی تلاش انسان کو صدیوں سے ہے۔ جتنی بھی مادی ترقی ممکن ہوئی، وہ بتدریج ان دروازوں کے وا ہونے سے ہوئی۔ کچھ در حادثاتی طور پر کھلے اور کہیں انسان اپنی سعی، لگن اور جستجو سے ان کو ان لاک کرنے میں کامیاب ہوا۔ ہر تخلیق، ہر ایجاد اس Nothingness کی Uncoding ہے۔ کچھ نہ ہونے کے ویکیوم میں بھی کوئی نہ کوئی ایسی صلاحیت ضرور موجود ہوتی ہے جو ظہور پذیری کے عمل کو ممکن بناتی ہے۔ Nothingness کوئی شے نہیں۔ Non- Existence کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کبھی Exist ہی نہیں کر سکتا۔ سب لیولز کی گیم ہے۔ انسان کتنے لیولز، اچیو کر کے ترقی کے اس دور میں داخل ہو چکا ہے۔ ابھی نجانے اور کتنے باقی ہیں۔
شاید میں nothingness اور something کو کسی حد تک حیاتیات کے تناظر میں ہی دیکھ رہی تھی کہ پہلے کسی وقت non-living سے living بنا لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ اچھا کیا کہ zoom out کر دیا تاہم آپ کے مراسلے سے "فرقان قریشی بلوگز" والی وائب آئی۔
آپ کیا سمجھتی ہیں کیا nothingness کی uncoding میں نیچر ایک prepared mind کو favour کرتی ہے؟
 
کہیں پڑھا تھا کہ فلسفہ یونان والے تجربہ سے حاصل ہونے والے علم کو گھٹیا سمجھتے تھے ۔ عقل پر ہی اکتفا کرنا انہیں زیادہ پسند تھا۔

آج بھی فلسفہ والے تھیوریٹیکل ہیں جب کہ سائنس تھیوری اور پریکٹیکل دونوں پر مشتمل ہے۔
فلسفے کے لغوی معنی تو love -of-wisdom کے ہیں اور مشاہدہ یہی ہے کہ فلسفہ ایک سوچنے کا انداز ہے جو انسان کو جو چیزیں اب تک ملیں ان کو سمجھنے کے لیے پہیہ پیچھے کو گھما کر ان کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے اور اس کی ضرورت شاید اس لیے ہے کہ پرسنلی آپ جب تک less-wrong نہیں ہوتے تب تک better-decisions بھی نہیں لے پاتے اور گلوبلی جب تک چیزوں کو" پنڈ پہنچ کر" سمجھا نہ جائے ان کو harness کرنے کیلیے alter نہیں کیا جا سکتا۔

اب جہاں تک سائنسی طریقہ کار کا فرق ہے اور جو اختلاف ہے وہ میری ذاتی رائے میں تو کوئی ایسا بڑا فرق نہیں اور ارسطو نے سائنس کے جتنے بڑے شعبہ جات کی بنیاد رکھی تھی یا گیلیلیو یا ڈارون نے انسانوں کی سوچ کی رو کو جس طرح سائنس کی مدد سے بدلنے پر مجبور کیا وہ سب فلسفی ہی تھے جنہوں نے رائج شدہ نظریات کو ماننے کی بجائے انہیں کوئسچن کیا اور اس سے وہ جس نتیجے پر سائنسی طریقہ کار سے پہنچے اس کا پرچار کیا۔

سائنس کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے یہ احساس ہے کہ ایک اچھا طالب علم وہ ہے جو ہر چیز پر سوال اٹھاتا ہے یا جو چیزیں اسے سمجھ ہی نہیں آتیں ان پر سوال کرتا ہے اور سائنٹفک tools کو وہ استعمال ضرور کرتا ہے مگر وہ tools تو سب peers کے پاس ہوتے ہیں پھر وہ سائنسدان جو اپنی فیلڈ میں بڑا کام کر پاتے ہیں ان کا فرق سوچنے کے انداز اور چیزوں کو inter-relate کر پانےاور پھر قارئین کو قائل کر پانے کی skill میں ہی ہوتا ہے۔ تو سائنس میں بھی یہ مائنڈ ورک ہی ہے اور سوچنے کا انداز اس پر براہ راست اثرانداز ہوتا ہے۔

جہاں تک کسی اور علم کو گھٹیا سمجھنے کا تعلق ہے تو ایک سچے طالب علم کو جو واقعی علم کی تلاش میں تا عمر رہنے کا ارادہ رکھتا ہو اور سچائی اس کے لیے اہم ہو وہ تو کسی علم کو گھٹیا نہیں سمجھے گا۔ یونان کے لوگ Athens میں جب تھے تب غالبا لیبارٹریز وغیرہ وجود میں نہیں آئی تھیں اور اس وقت جو سوالات زیر غور تھے شاید ان کا تعلق لیبارٹریز کی بجائے اس وقت کے دستیاب tools سے تھا۔ جیسے میں ایک جگہ پڑھ رہی تھی کہ پرانے دور کے کسی فلسفی نے دن کے اس وقت جب اس کے سایے کی لمبائی اور اس کے اپنے قد کی لمبائی ایک ہی تھی تب اہرام مصر کی اونچائی اس کے سائے کو ماپ کر ماپ لی۔ یہی سائنس کا طریقہ کار ہے دستیاب شدہ ٹولز میں۔ جیسے میں اگر nanotechnology پر کام کر رہی ہوں تو میں خود کبھی نینو سکیل پر نہیں گئی چیزوں کا مشاہدہ کرنے بلکہ جو tools اب دستیاب ہیں ان سے جو رزلٹ نکلتا ہے اس کو interpret کرتی ہوں. یعنی کلچرل رویہ جو بھی ہو، یہ ان کے biases ہو سکتے ہیں مگر ہر فلسفی نے کسی نہ کسی طرح جو سوال وہ test کر رہا تھا اس کے لیے اس زمانے میں موجود tools یا observations ضرور استعمال کیں۔
 

ظفری

لائبریرین
مگر کس کو انسان یوں نظر آتا ہے؟ اکثر اوقات انسان کسی شے میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر تکمیل کے درجے کے قریب ہی ہوتا ہے مگر پھر بھی ایک عالم اس کو بتانے میں لگا ہوتا ہے کہ وہ کتنا ادھورا اور بھونڈا ہے۔ کیا یہ خوبصورت نظر آنا چاہے آپ کتنے بھی نامکمل یا خام ہوں دیکھنے والی آنکھ پر منحصر نہیں؟
بنیادی نکتہ تو یہی ہے کہ خوبصورتی دیکھنے والے کی نظر میں ہوتی ہے۔ جو آنکھ محبت، وسعتِ قلب اور فہم کے ساتھ دیکھتی ہے، وہ ادھورے پن میں بھی ایک طرح کی تکمیل محسوس کر لیتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ انسان مکمل ہونے کے لیے نہیں، مسلسل سفر کے لیے پیدا ہوا ہے۔ارتقاء کا سفر کائنات میں ، دنیا میں ، انسان کے گردو پیش ، حتٰی کہ اس کی ذات میں بھی ہو رہا ہوتا ہے ۔ مگر ایک عالم بتانے میں لگا ہوتا ہے کہ وہ کتنا ادھورا اور بھونڈا ہے ۔یہ وہ معاشرتی آئینہ ہے جو سچ سے زیادہ، مروجہ معیارات، حسد، یا خود اپنی نامکملیوں کا عکس دکھاتا ہے۔ بہت سے لوگ انسان کو اس کی اصل خوبصورتی میں دیکھنے کے بجائے اسے اپنے پیمانوں پر تولتے ہیں ۔ ان کے معیارات ، ان کے سیاسی و مذہبی اور اجتماعی انا ،مفادات اور تعصب کے نتیجے میں پروان چڑھے ہوتے ہیں ۔ گیلیلیو گلیلی، جیورڈانو برونو، نکولا ٹیسلا ، باروخ اسپینوزا، سقراط، ابن رشد۔ ان تمام افراد نے نظامِ فکراور طاقت کے مراکز کو چیلنج کیا۔وہ کتنے ہی مکمل اور اپنے نظریات میں کتنے قوی ہوں مگر معاشرے کی اجتماعی انا، جو اکثر خوف، جہالت یا طاقت کے تحفظ پر مبنی ہوتی ہے، انہیں معاف نہ کر سکی۔معاشرے کی اجتماعی انا، تعصبات، مذہبی یا سیاسی طاقت نے انہیں رد کیا، سزا دی، یا ان کی زندگی اجیرن بنا دی۔
بات یہ نہیں ہے آپ کتنے نامکمل یا مکمل ہیں ۔ اصل چیز یہ ہے کہ آپ اپنی نظر میں کتنے مکمل اور سچے نظر آتے ہیں ۔ اپنے خیالات اور نظریات کو آپ معاشرے کے مطلوبہ معیار پر نہیں۔ بلکہ آپ کے اپنے متعین معیارات ،آپ کے نظریات و افکار کو پرکھیں گے ۔ہوسکتا ہے کہ آج آپ کو سب رد کردیں ۔ مگرہوسکتا ہے کہ کل آپ کے نظریات اور کلیات معاشرے کے لیئے ایک نئی دنیا کا راستہ کھول دیں ۔ جیسا کہ ان فلسفیوں اور سائنسدانوں کیساتھ ہو ا کہ دنیا ان کی باتوں کو بعد میں تسلیم کیا۔
 
پہلے قبیل کے لوگ بھی عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن اکثر جب وہ اپنی فیلڈ سے باہر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو غلط راہ پر نکل پڑتے ہیں اور گم ہو جاتے ہیں۔
مجھے کیسے پتہ لگے گا کہ میں کس قبیل سے ہوں؟ اگرچہ میں narrow نہیں ہوں بلکہ جتنی openness ممکن ہو اتنی ہے، تاکہ اوورآل اپنی زندگی پر بھی اس سیکھ کی چھاپ ہو اور اردگرد کے تمام انسانوں پر projection بھی irrespective of field.
 
میں نے یہ بیٹی کے ساتھ پڑھی تھی جب شاید وہ پرائمری یا مڈل سکول میں تھی اور فلسفہ پر بحث کی شوقین تھی۔ اب تو وہ یونیورسٹی میں بھی دو تین فلسفہ کے کورس لے چکی۔

آپ کو کتاب کیسی لگی؟ کیا بنیادی فلسفہ کے بارے میں پڑھنے کی تحریک ہوئی؟
Sophie's World بہترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ مجھے فلسفے میں اس دور سے دلچسپی ہے جب پرائمری سکول میں علامہ اقبال پر مضمون لکھتے تھے اور پڑھتے تھے کہ وہ فلسفی تھے۔ علامہ اقبال کے بعد بہت سی انسپیریشنز آئیں لیکن وہ میری پہلی انسپیریشن تھے جس سے مجھے پتہ لگا کہ مجھے کس طرح کے لوگ پسند ہیں یا کیسا بننا اچھا لگتا ہے۔ شاید انہی کی وجہ سے کیمبرج یونیورسٹی بھی دیکھنے گئی۔
میری ایک پی ایچ ڈی کے دوران دوست بنی جس نے فون میں میرے نام کے ساتھ بریکٹ میں علامہ اقبال لکھا ہوا ہے۔ :idontknow:
اس کتاب سے ایک ٹائم لائن کافی اچھی بن گئی تھوٹ پروسیس کو اور واقعات کو ان کی ترتیب میں دیکھ پانے کی۔ تاہم میرا فلسفہ حیات بھی اوریجنل ہےاور امید ہے کہ آگے بھی زندگی میں کچھ ڈھنگ کا کر سکوں (پی ایچ ڈی کے بعد دیکھیں گے والا دور چل رہا ہے!)
سائیکالوجی، اینتھروپالوجی، برین اینڈ کوگنیٹو سائنس وغیرہ کی اس سلسلے میں کافی ریسرچ ہے۔ کچھ تو ایوولیوشن کے تناظر میں بھی
چند ایک کتب سجیسٹ کریں گے؟
 

ظفری

لائبریرین
پی ایچ ڈی کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو انتہائی سپیشلائزڈ یہ اپنے نیرو فیلڈ کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں اور اس کے ایکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ اپنے ریسرچ سکلز اور سمجھ فیلڈ سے باہر استعمال نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے۔ زیادہ تر اسی قبیل سے ہوتے ہیں۔پہلے قبیل کے لوگ بھی عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن اکثر جب وہ اپنی فیلڈ سے باہر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو غلط راہ پر نکل پڑتے ہیں اور گم ہو جاتے ہیں۔
یہ تبصرہ ایک "stereotype" پیدا کرتا ہے کہ پی ایچ ڈی والے لوگ نیرو فیلڈ ہوتے ہیں اور عملی زندگی میں ناکام۔یہ نہ صرف سائنسدانوں اور مفکرین کی توہین ہے بلکہ علمی ذہنیت کے خلاف ایک روایتی بیزاری کا اظہار بھی۔ یہ اگر ذاتی تجربہ یا مشاہدہ ہے تو اس کی مثالیں بیان کرنی چاہیئے ۔ کیونکہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے ۔ یہ صلاحیت پر رائے زنی ہے ۔ جو بغیر کسی دلیل کے غیر منصفانہ ہے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ تبصرہ ایک "stereotype" پیدا کرتا ہے کہ پی ایچ ڈی والے لوگ نیرو فیلڈ ہوتے ہیں اور عملی زندگی میں ناکام۔یہ نہ صرف سائنسدانوں اور مفکرین کی توہین ہے بلکہ علمی ذہنیت کے خلاف ایک روایتی بیزاری کا اظہار بھی۔ یہ اگر ذاتی تجربہ یا مشاہدہ ہے تو اس کی مثالیں بیان کرنی چاہیئے ۔ کیونکہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے ۔ یہ صلاحیت پر رائے زنی ہے ۔ جو بغیر کسی دلیل کے غیر منصفانہ ہے ۔
ظفری بھائی مجھے لگتا ہے آپ پی ایچ ڈی کو پھرا ہوا دماغ سمجھ گئے ہیں ۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
پی ایچ ڈی کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو انتہائی سپیشلائزڈ یہ اپنے نیرو فیلڈ کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں اور اس کے ایکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ اپنے ریسرچ سکلز اور سمجھ فیلڈ سے باہر استعمال نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے۔ زیادہ تر اسی قبیل سے ہوتے ہیں۔

ایک کم تعداد ان پی ایچ ڈیز کی ہے جو اپنی پڑھائی اور ریسرچ سے سمجھ بوجھ کا جنرل میتھڈ سیکھتے ہیں۔ یہ اپنے ریسرچ سکلز کو ہر جگہ اپلائی کرتے ہیں اور بڑے کینوس پر سوچتے ہیں۔ اس کے لئے کامن سینس لازم ہے۔ ان میں یہ قابلیت ہوتی ہے کہ گیہوں اور گھن کو علیحدہ کر سکیں۔ یہ مس انفارمیشن کی وجہ سے کم ہی بھٹکتے ہیں۔

پہلے قبیل کے لوگ بھی عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن اکثر جب وہ اپنی فیلڈ سے باہر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو غلط راہ پر نکل پڑتے ہیں اور گم ہو جاتے ہیں۔

دنیا کو دونوں قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ وہ بھی جو محض اپنے فیلڈ میں گہرائی میں جائیں اور وہ بھی جو زوم آؤٹ کر کے براڈ پکچر دیکھ اور سمجھ سکیں۔
میرا خیال ہے کہ ایک مکمل بات کی جائے ۔ کیونکہ مجھے اس تبصرے کے لہجے میں ایک قسم کی برتری کا احساس محسوس ہوا ہے ۔
مجھے لگتا ہے آپ نے پی ایچ ڈی کرنے والوں کو بہت محدود انداز میں دیکھا ہے۔ یہ کہنا کہ 'زیادہ تر' لوگ اپنی ریسرچ سکلز اور سمجھ اپنے فیلڈ سے باہر استعمال نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے، یہ نہ صرف ایک generalized رائے ہے بلکہ کافی حد تک غیر منصفانہ بھی ہے۔پی ایچ ڈی دراصل تحقیق کا طریقہ، سوال اٹھانے کی جرات، اور کسی مسئلے کو گہرائی سے دیکھنے کی تربیت دیتی ہے اور یہ صلاحیتیں صرف کسی ایک فیلڈ تک محدود نہیں ہوتیں۔ مسئلہ فیلڈ کا نہیں، فرد کے رجحان اور مزاج کا ہوتا ہے۔ Narrow سوچنے والے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، پی ایچ ڈی میں بھی اور اس کے بغیر بھی۔
یہ مان لینا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اپنی مہارت معاشرتی سطح پر یا مختلف شعبوں میں استعمال نہیں کر سکتے، ایک طرح سے ان کی قابلیت کو dismiss کرنا ہے، اور شاید یہ ہمارے اپنے عدم تحفظات کا عکس بھی ہو سکتا ہے۔پی ایچ ڈی صرف ڈیٹا یا تھیوری کا علم نہیں دیتی بلکہ ایک خاص سوچنے، سوال کرنے، اور مسئلہ حل کرنے کی تربیت دیتی ہے۔ یہ مہارتیں کسی بھی میدان میں لاگو کی جا سکتی ہیں اگر فرد خود چاہے۔ بہت سے پی ایچ ڈی لوگ سائنس، معیشت، تعلیم، پالیسی، فلسفہ، اور سماجی فلاح کے میدانوں میں فعال ہیں۔میرا خیال ہے ہمیں ہر فرد کو اس کی وسعت یا تنگی پر جانچنا چاہیے، نہ کہ صرف اس کی ڈگری یا فیلڈ پر۔ کیونکہ narrow ہونا صرف تعلیم کا مسئلہ نہیں بلکہ مزاج کے رحجان پر سوال بھی ہے۔
دوسری قسم جو آپ نے بیان کی ہے اس میں کچھ مثبت باتیں ضرور ہیں ۔خاص طور پر یہ کہ کچھ لوگ واقعی اپنی ریسرچ سے عمومی سوچنے کا طریقہ سیکھتے ہیں اور مختلف میدانوں میں اسے لاگو کرتے ہیں۔ لیکن مسئلہ وہاں آتا ہے جہاں آپ implicit طور پر یہ کہہ رہے ہو کہ یہ خوبی صرف 'کم تعداد' کے پی ایچ ڈی والوں میں ہوتی ہے۔اور وہ بھی تب جب ان میں 'کامن سینس' ہو۔
یہ دعویٰ خود ایک تضاد ہے، کیونکہ 'کامن سینس' نہ کسی ڈگری سے آتا ہے نہ کسی مخصوص طبقے کی میراث ہے۔ کئی دفعہ وہی لوگ جو علم کے گہرے سمندر میں ہوتے ہیں، زیادہ عاجز، وسیع النظر اور صاف گو ہوتے ہیں۔ اور misinformation سے بہتر طور پر نمٹتے ہیں، نہ کہ کم۔
اصل میں، پی ایچ ڈی کا مطلب صرف فیلڈ کا ماہر ہونا نہیں، بلکہ دلیل، شک، تحقیق اور سیکھنے کا مسلسل عمل سیکھنا ہے۔ جو اس روش پر قائم رہتا ہے، وہ narrow نہیں ہوتا — نہ کسی فیلڈ میں، نہ سوچ میں۔
 

زیک

مسافر
یہ تبصرہ ایک "stereotype" پیدا کرتا ہے کہ پی ایچ ڈی والے لوگ نیرو فیلڈ ہوتے ہیں اور عملی زندگی میں ناکام۔یہ نہ صرف سائنسدانوں اور مفکرین کی توہین ہے بلکہ علمی ذہنیت کے خلاف ایک روایتی بیزاری کا اظہار بھی۔ یہ اگر ذاتی تجربہ یا مشاہدہ ہے تو اس کی مثالیں بیان کرنی چاہیئے ۔ کیونکہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے ۔ یہ صلاحیت پر رائے زنی ہے ۔ جو بغیر کسی دلیل کے غیر منصفانہ ہے ۔
آپ میری پوسٹ کو ایک ویلیو ججمنٹ دے رہے ہیں جو میں نے بالکل نہیں دی
 

ظفری

لائبریرین
آپ میری پوسٹ کو ایک ویلیو ججمنٹ دے رہے ہیں جو میں نے بالکل نہیں دی
میں آپ کی بات سمجھتا ہوں، اور میں یہ بات مانتا ہوں کہ میں نے آپ کی پوسٹ کو ایک ویلیو ججمنٹ کی طرح پیش کیا تھا۔ میری نیت آپ باتوں کو سمجھنے اور مزید گہرائی میں جا کر ان پر غور کرنے کی تھی، نہ کہ آپ نیت یا مقصد پر کوئی فیصلہ دینا۔ اگر میری تحریر سے ایسا تاثر گیا ہو، تو میں اس کی وضاحت چاہتا ہوں۔ میرا مقصد ہمیشہ علمی اور فکری بحث کا دروازہ کھولنا ہوتا ہے، نہ کہ کسی کی باتوں کو مقدر یا غلط سمجھنا۔
 
Top