مریم افتخار
محفلین
یعنی سچ ایک فعل ہے اور اسم نہیں؟ادھوری صداقتیں ادھورے نتائج فراہم کرتی ہیں۔
بقول واصف علی واصف:
سچ وہ ہے جو سچے کی زباں سے نکلے۔
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
یعنی سچ ایک فعل ہے اور اسم نہیں؟ادھوری صداقتیں ادھورے نتائج فراہم کرتی ہیں۔
بقول واصف علی واصف:
سچ وہ ہے جو سچے کی زباں سے نکلے۔
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
یعنی دل یاز صاحب نے اڈیالہ جیل ڈیکلئیر کیا تھا اور ذہن مذاق رات یا چل میرا پت(فلم) وغیرہ ہے؟
گلاں ودھیاں نیں (مختاریا)؟ہن وہ گلاں نہیں رئیاں۔
یہ کائنات ایک حیرت کدہ ہے۔ ایسا بہت کچھ ہے جو اسکے بند دروازوں کے پیچھے ہے۔ اور انکی کنجیاں، قدرت کے وہ اصول و قوانین ہیں جن کی تلاش انسان کو صدیوں سے ہے۔ جتنی بھی مادی ترقی ممکن ہوئی، وہ بتدریج ان دروازوں کے وا ہونے سے ہوئی۔ کچھ در حادثاتی طور پر کھلے اور کہیں انسان اپنی سعی، لگن اور جستجو سے ان کو ان لاک کرنے میں کامیاب ہوا۔ ہر تخلیق، ہر ایجاد اس Nothingness کی Uncoding ہے۔ کچھ نہ ہونے کے ویکیوم میں بھی کوئی نہ کوئی ایسی صلاحیت ضرور موجود ہوتی ہے جو ظہور پذیری کے عمل کو ممکن بناتی ہے۔ Nothingness کوئی شے نہیں۔ Non- Existence کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کبھی Exist ہی نہیں کر سکتا۔ سب لیولز کی گیم ہے۔ انسان کتنے لیولز، اچیو کر کے ترقی کے اس دور میں داخل ہو چکا ہے۔ ابھی نجانے اور کتنے باقی ہیں۔تو کیا زندگی میں nothingness سے something بننے کا مظہر ایک ہی تھا اور اس کے بعد اس something سے everything بن رہی ہے؟ ہم جتنی بھی innovation لاتے جائیں وہ جن ingredients پر build ہو رہی ہے وہ سارے ہمیشہ سے یا بتدریج موجود رہے ہیں؟
چوہدری صاحب، PhD فلسفے کے ڈاکٹر کو ہی کہتے ہیں چاہے مضمون کوئی بھی ہو۔ مجھے اس میں دلچسپی اس لیے ہی تھی کہ سوچ سکوں سوچنا کیسے ہے اور سیکھ سکھوں کہ سیکھنا کیسے ہے وغیرہ وغیرہ۔ تسی دسو کیہڑے کٹے کھلے نیں جیہڑے انے سالاں توں بن ای نئیں رئے؟ سارے محفلین تہانوں یاد کردے نیں بلکہ کی پتہ محفل وی تہاڈے نال ای رس کے چلی ہووے۔۔۔بہت خوب۔
لگتا ہے فلسفے کے کسی صیغے میں بھی ڈاکٹریٹ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔![]()
پی ایچ ڈی کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو انتہائی سپیشلائزڈ یہ اپنے نیرو فیلڈ کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں اور اس کے ایکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ اپنے ریسرچ سکلز اور سمجھ فیلڈ سے باہر استعمال نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے۔ زیادہ تر اسی قبیل سے ہوتے ہیں۔چوہدری صاحب، PhD فلسفے کے ڈاکٹر کو ہی کہتے ہیں چاہے مضمون کوئی بھی ہو۔
میں نے یہ بیٹی کے ساتھ پڑھی تھی جب شاید وہ پرائمری یا مڈل سکول میں تھی اور فلسفہ پر بحث کی شوقین تھی۔ اب تو وہ یونیورسٹی میں بھی دو تین فلسفہ کے کورس لے چکی۔میں نے حال ہی میں ایک کتاب پڑھی Sophie's World جس سے اس لڑی کو بنانے میں بھی تحریک ملی
کچھ حد تک۔ عادات ہر ایک کی ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ مزید پختہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ہاں آپ ان کو کچھ رخ دے سکتے ہیں۔ یہاں پھر وہ بات آ جاتی ہے کہ آپ کتنے open to new experiences ہیں۔ کھانے کو لے لیں۔ اکثر لوگ بچپن کے بعد نت نئے کھانے جو ان غذاؤں سے جن پر وہ پلے بڑھے سے کافی مختلف ہوں کو پسند نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے۔ لیکن کچھ لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر انجوائے کرتے ہیں۔کیا ہم اس پراسیس کو کونشئسلی ریورس کر سکتے ہیں؟ ہمیشہ نئے دوست بنانے، نئے راستوں پہ جانے، نت نئے مشاغل اپنانے/تجربات کرنے، روٹین سے ہٹنے وغیرہ سے یا کچھ بھی کر لیں یہ ہو کر رہتا ہے؟ کیونکہ یہ نیا پن بھی کہیں نا کہیں مجھ جیسے دشمنان روٹین کی عادت ہی بن جایا کرتی ہے؟
سائیکالوجی، اینتھروپالوجی، برین اینڈ کوگنیٹو سائنس وغیرہ کی اس سلسلے میں کافی ریسرچ ہے۔ کچھ تو ایوولیوشن کے تناظر میں بھیکیا کوئی ایسا لٹریچر موجود ہے جہاں لکھی ہوئی شکل میں کچھ ایسی ویلیوز کا احاطہ ہو جو یونیورسل ہیں؟ یا ویلیو سسٹم پہ ہمیشہ کلچر اور دیگر dividing factors کی چھاپ رہی ہے؟
شاید میں nothingness اور something کو کسی حد تک حیاتیات کے تناظر میں ہی دیکھ رہی تھی کہ پہلے کسی وقت non-living سے living بنا لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ اچھا کیا کہ zoom out کر دیا تاہم آپ کے مراسلے سے "فرقان قریشی بلوگز" والی وائب آئی۔یہ کائنات ایک حیرت کدہ ہے۔ ایسا بہت کچھ ہے جو اسکے بند دروازوں کے پیچھے ہے۔ اور انکی کنجیاں، قدرت کے وہ اصول و قوانین ہیں جن کی تلاش انسان کو صدیوں سے ہے۔ جتنی بھی مادی ترقی ممکن ہوئی، وہ بتدریج ان دروازوں کے وا ہونے سے ہوئی۔ کچھ در حادثاتی طور پر کھلے اور کہیں انسان اپنی سعی، لگن اور جستجو سے ان کو ان لاک کرنے میں کامیاب ہوا۔ ہر تخلیق، ہر ایجاد اس Nothingness کی Uncoding ہے۔ کچھ نہ ہونے کے ویکیوم میں بھی کوئی نہ کوئی ایسی صلاحیت ضرور موجود ہوتی ہے جو ظہور پذیری کے عمل کو ممکن بناتی ہے۔ Nothingness کوئی شے نہیں۔ Non- Existence کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کبھی Exist ہی نہیں کر سکتا۔ سب لیولز کی گیم ہے۔ انسان کتنے لیولز، اچیو کر کے ترقی کے اس دور میں داخل ہو چکا ہے۔ ابھی نجانے اور کتنے باقی ہیں۔
فلسفے کے لغوی معنی تو love -of-wisdom کے ہیں اور مشاہدہ یہی ہے کہ فلسفہ ایک سوچنے کا انداز ہے جو انسان کو جو چیزیں اب تک ملیں ان کو سمجھنے کے لیے پہیہ پیچھے کو گھما کر ان کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے اور اس کی ضرورت شاید اس لیے ہے کہ پرسنلی آپ جب تک less-wrong نہیں ہوتے تب تک better-decisions بھی نہیں لے پاتے اور گلوبلی جب تک چیزوں کو" پنڈ پہنچ کر" سمجھا نہ جائے ان کو harness کرنے کیلیے alter نہیں کیا جا سکتا۔کہیں پڑھا تھا کہ فلسفہ یونان والے تجربہ سے حاصل ہونے والے علم کو گھٹیا سمجھتے تھے ۔ عقل پر ہی اکتفا کرنا انہیں زیادہ پسند تھا۔
آج بھی فلسفہ والے تھیوریٹیکل ہیں جب کہ سائنس تھیوری اور پریکٹیکل دونوں پر مشتمل ہے۔
بنیادی نکتہ تو یہی ہے کہ خوبصورتی دیکھنے والے کی نظر میں ہوتی ہے۔ جو آنکھ محبت، وسعتِ قلب اور فہم کے ساتھ دیکھتی ہے، وہ ادھورے پن میں بھی ایک طرح کی تکمیل محسوس کر لیتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ انسان مکمل ہونے کے لیے نہیں، مسلسل سفر کے لیے پیدا ہوا ہے۔ارتقاء کا سفر کائنات میں ، دنیا میں ، انسان کے گردو پیش ، حتٰی کہ اس کی ذات میں بھی ہو رہا ہوتا ہے ۔ مگر ایک عالم بتانے میں لگا ہوتا ہے کہ وہ کتنا ادھورا اور بھونڈا ہے ۔یہ وہ معاشرتی آئینہ ہے جو سچ سے زیادہ، مروجہ معیارات، حسد، یا خود اپنی نامکملیوں کا عکس دکھاتا ہے۔ بہت سے لوگ انسان کو اس کی اصل خوبصورتی میں دیکھنے کے بجائے اسے اپنے پیمانوں پر تولتے ہیں ۔ ان کے معیارات ، ان کے سیاسی و مذہبی اور اجتماعی انا ،مفادات اور تعصب کے نتیجے میں پروان چڑھے ہوتے ہیں ۔ گیلیلیو گلیلی، جیورڈانو برونو، نکولا ٹیسلا ، باروخ اسپینوزا، سقراط، ابن رشد۔ ان تمام افراد نے نظامِ فکراور طاقت کے مراکز کو چیلنج کیا۔وہ کتنے ہی مکمل اور اپنے نظریات میں کتنے قوی ہوں مگر معاشرے کی اجتماعی انا، جو اکثر خوف، جہالت یا طاقت کے تحفظ پر مبنی ہوتی ہے، انہیں معاف نہ کر سکی۔معاشرے کی اجتماعی انا، تعصبات، مذہبی یا سیاسی طاقت نے انہیں رد کیا، سزا دی، یا ان کی زندگی اجیرن بنا دی۔مگر کس کو انسان یوں نظر آتا ہے؟ اکثر اوقات انسان کسی شے میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر تکمیل کے درجے کے قریب ہی ہوتا ہے مگر پھر بھی ایک عالم اس کو بتانے میں لگا ہوتا ہے کہ وہ کتنا ادھورا اور بھونڈا ہے۔ کیا یہ خوبصورت نظر آنا چاہے آپ کتنے بھی نامکمل یا خام ہوں دیکھنے والی آنکھ پر منحصر نہیں؟
مجھے کیسے پتہ لگے گا کہ میں کس قبیل سے ہوں؟ اگرچہ میں narrow نہیں ہوں بلکہ جتنی openness ممکن ہو اتنی ہے، تاکہ اوورآل اپنی زندگی پر بھی اس سیکھ کی چھاپ ہو اور اردگرد کے تمام انسانوں پر projection بھی irrespective of field.پہلے قبیل کے لوگ بھی عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن اکثر جب وہ اپنی فیلڈ سے باہر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو غلط راہ پر نکل پڑتے ہیں اور گم ہو جاتے ہیں۔
Sophie's World بہترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ مجھے فلسفے میں اس دور سے دلچسپی ہے جب پرائمری سکول میں علامہ اقبال پر مضمون لکھتے تھے اور پڑھتے تھے کہ وہ فلسفی تھے۔ علامہ اقبال کے بعد بہت سی انسپیریشنز آئیں لیکن وہ میری پہلی انسپیریشن تھے جس سے مجھے پتہ لگا کہ مجھے کس طرح کے لوگ پسند ہیں یا کیسا بننا اچھا لگتا ہے۔ شاید انہی کی وجہ سے کیمبرج یونیورسٹی بھی دیکھنے گئی۔میں نے یہ بیٹی کے ساتھ پڑھی تھی جب شاید وہ پرائمری یا مڈل سکول میں تھی اور فلسفہ پر بحث کی شوقین تھی۔ اب تو وہ یونیورسٹی میں بھی دو تین فلسفہ کے کورس لے چکی۔
آپ کو کتاب کیسی لگی؟ کیا بنیادی فلسفہ کے بارے میں پڑھنے کی تحریک ہوئی؟
چند ایک کتب سجیسٹ کریں گے؟سائیکالوجی، اینتھروپالوجی، برین اینڈ کوگنیٹو سائنس وغیرہ کی اس سلسلے میں کافی ریسرچ ہے۔ کچھ تو ایوولیوشن کے تناظر میں بھی
یہ تبصرہ ایک "stereotype" پیدا کرتا ہے کہ پی ایچ ڈی والے لوگ نیرو فیلڈ ہوتے ہیں اور عملی زندگی میں ناکام۔یہ نہ صرف سائنسدانوں اور مفکرین کی توہین ہے بلکہ علمی ذہنیت کے خلاف ایک روایتی بیزاری کا اظہار بھی۔ یہ اگر ذاتی تجربہ یا مشاہدہ ہے تو اس کی مثالیں بیان کرنی چاہیئے ۔ کیونکہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے ۔ یہ صلاحیت پر رائے زنی ہے ۔ جو بغیر کسی دلیل کے غیر منصفانہ ہے ۔پی ایچ ڈی کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو انتہائی سپیشلائزڈ یہ اپنے نیرو فیلڈ کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں اور اس کے ایکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ اپنے ریسرچ سکلز اور سمجھ فیلڈ سے باہر استعمال نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے۔ زیادہ تر اسی قبیل سے ہوتے ہیں۔پہلے قبیل کے لوگ بھی عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن اکثر جب وہ اپنی فیلڈ سے باہر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو غلط راہ پر نکل پڑتے ہیں اور گم ہو جاتے ہیں۔
ظفری بھائی مجھے لگتا ہے آپ پی ایچ ڈی کو پھرا ہوا دماغ سمجھ گئے ہیں ۔یہ تبصرہ ایک "stereotype" پیدا کرتا ہے کہ پی ایچ ڈی والے لوگ نیرو فیلڈ ہوتے ہیں اور عملی زندگی میں ناکام۔یہ نہ صرف سائنسدانوں اور مفکرین کی توہین ہے بلکہ علمی ذہنیت کے خلاف ایک روایتی بیزاری کا اظہار بھی۔ یہ اگر ذاتی تجربہ یا مشاہدہ ہے تو اس کی مثالیں بیان کرنی چاہیئے ۔ کیونکہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے ۔ یہ صلاحیت پر رائے زنی ہے ۔ جو بغیر کسی دلیل کے غیر منصفانہ ہے ۔
میرا خیال ہے کہ ایک مکمل بات کی جائے ۔ کیونکہ مجھے اس تبصرے کے لہجے میں ایک قسم کی برتری کا احساس محسوس ہوا ہے ۔پی ایچ ڈی کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو انتہائی سپیشلائزڈ یہ اپنے نیرو فیلڈ کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں اور اس کے ایکسپرٹ سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ اپنے ریسرچ سکلز اور سمجھ فیلڈ سے باہر استعمال نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے۔ زیادہ تر اسی قبیل سے ہوتے ہیں۔
ایک کم تعداد ان پی ایچ ڈیز کی ہے جو اپنی پڑھائی اور ریسرچ سے سمجھ بوجھ کا جنرل میتھڈ سیکھتے ہیں۔ یہ اپنے ریسرچ سکلز کو ہر جگہ اپلائی کرتے ہیں اور بڑے کینوس پر سوچتے ہیں۔ اس کے لئے کامن سینس لازم ہے۔ ان میں یہ قابلیت ہوتی ہے کہ گیہوں اور گھن کو علیحدہ کر سکیں۔ یہ مس انفارمیشن کی وجہ سے کم ہی بھٹکتے ہیں۔
پہلے قبیل کے لوگ بھی عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن اکثر جب وہ اپنی فیلڈ سے باہر کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو غلط راہ پر نکل پڑتے ہیں اور گم ہو جاتے ہیں۔
دنیا کو دونوں قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ وہ بھی جو محض اپنے فیلڈ میں گہرائی میں جائیں اور وہ بھی جو زوم آؤٹ کر کے براڈ پکچر دیکھ اور سمجھ سکیں۔
میری پی ایچ ڈی متنازع بن رہی ہے ۔ظفری بھائی مجھے لگتا ہے آپ پی ایچ ڈی کو پھرا ہوا دماغ سمجھ گئے ہیں ۔![]()
آپ میری پوسٹ کو ایک ویلیو ججمنٹ دے رہے ہیں جو میں نے بالکل نہیں دییہ تبصرہ ایک "stereotype" پیدا کرتا ہے کہ پی ایچ ڈی والے لوگ نیرو فیلڈ ہوتے ہیں اور عملی زندگی میں ناکام۔یہ نہ صرف سائنسدانوں اور مفکرین کی توہین ہے بلکہ علمی ذہنیت کے خلاف ایک روایتی بیزاری کا اظہار بھی۔ یہ اگر ذاتی تجربہ یا مشاہدہ ہے تو اس کی مثالیں بیان کرنی چاہیئے ۔ کیونکہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے ۔ یہ صلاحیت پر رائے زنی ہے ۔ جو بغیر کسی دلیل کے غیر منصفانہ ہے ۔
میں آپ کی بات سمجھتا ہوں، اور میں یہ بات مانتا ہوں کہ میں نے آپ کی پوسٹ کو ایک ویلیو ججمنٹ کی طرح پیش کیا تھا۔ میری نیت آپ باتوں کو سمجھنے اور مزید گہرائی میں جا کر ان پر غور کرنے کی تھی، نہ کہ آپ نیت یا مقصد پر کوئی فیصلہ دینا۔ اگر میری تحریر سے ایسا تاثر گیا ہو، تو میں اس کی وضاحت چاہتا ہوں۔ میرا مقصد ہمیشہ علمی اور فکری بحث کا دروازہ کھولنا ہوتا ہے، نہ کہ کسی کی باتوں کو مقدر یا غلط سمجھنا۔آپ میری پوسٹ کو ایک ویلیو ججمنٹ دے رہے ہیں جو میں نے بالکل نہیں دی