جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

شکریہ جناب، آپ نے میری دی گئی مثال کو قابلِ غور سمجھا، یہ خوشی کی بات ہے۔البتہ میری اصل بات صرف تشبیہہ تک محدود نہ تھی بلکہ میں نے اس سے آگے یہ سوال اٹھایا تھا کہ،کیا ہر انسان بلا شرط اشرف ہے، یا اشرفیت ایک مشروط مقام ہے؟
اور اس کے جواب میں یہی عرض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسانی اشرفیت صلاحیت کی بنیاد پر بالقوّہ (potential) ہے، لیکن بالفعل (actual) فضیلت کا معیار اعمال، تقویٰ، علم اور اخلاق ہے۔ یعنی اشرفیت مشروط ہے۔اگر انسان ان صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھائے، تو قرآن کے الفاظ میں "بل ھم اضلّ" یعنی وہ جانوروں سے بھی بدتر ہو سکتا ہے۔
میرا تبصرہ دراصل صرف آپ کی کمپیوٹر/کیلکولیٹر والی تشبیہ تک محدود نہیں تھا بلکہ اس سے آگے ایک فکری توسیع رکھتا تھا۔ یعنی "کیا ہر انسان بلا شرط اشرف ہے یا نہیں؟"
آپ کا کہا ہی میرا جواب بھی ہے۔ اور میں اس سے سو فیصد متفق ہوں۔ یعنی:
اور اس کے جواب میں یہی عرض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسانی اشرفیت صلاحیت کی بنیاد پر بالقوّہ (potential) ہے، لیکن بالفعل (actual) فضیلت کا معیار اعمال، تقویٰ، علم اور اخلاق ہے۔ یعنی اشرفیت مشروط ہے۔اگر انسان ان صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھائے، تو قرآن کے الفاظ میں "بل ھم اضلّ" یعنی وہ جانوروں سے بھی بدتر ہو سکتا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
پہلا سوال ہے کہ واقعی تغیر کو ثبات ہے یا سب کچھ بدل بھی جائے تو کہیں نہ کہیں اوورآل مومینٹم کونزروڈ رہتا ہے؟
(آسان زبان میں: کیا سب کچھ بدلنا ایک ٹھوس حقیقت ہے یا اس سے بڑی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ بدلنے سے بھی zoom out کر کے دیکھو تو وہی تصویر ہے؟)
سوال بہت اہم اور عمیق ہے کہ کیا تغیر خود میں ثبات ہے یا تبدیلی کے باوجود کوئی بڑی مستقل حقیقت موجود ہے؟
سائنس کی نظر سے دیکھا جائے تو کائنات میں ہر شے مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ مادے کے ذرات حرکت میں ہیں، توانائی کی صورتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، حیاتیات میں بھی ارتقاء اور تبدیلی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ یہ تبدیلی کسی حد تک ناگزیر ہے، یہی تغیر کی اصل حقیقت ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ تغیر کے باوجود کچھ بنیادی اصول اور قوانین کائنات میں محفوظ اور غیر متغیر رہتے ہیں۔ فزکس کے قوانین، مثلاً توانائی کا تحفظ، مومینٹم کا تحفظ، اور طبیعیات کے بنیادی قانون ہمیں بتاتے ہیں کہ تغیر کے دوران کچھ خاص چیزیں مستقل رہتی ہیں۔ یہ وہ ثبات ہے جو ظاہری تبدیلیوں کے بیچ ایک تنظیم اور تسلسل پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح، اگر ہم "zoom out" کر کے کائنات کو دیکھیں تو ہمیں ہر روز بدلتی ہوئی کائنات کی مختلف صورتوں کے باوجود ایک مربوط، منظم، اور قانون مند نظام نظر آتا ہے۔ یہ نظام تغیر کے اندر ایک گہری ثبات پذیری کی علامت ہے، جو کائنات کی وسعت اور پیچیدگی میں ایک وحدت اور ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔
قرآن میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ ملتا ہے، جیسے سورۃ الرحمن کی آیت "کل یوم ھو فی شان" سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر روز کائنات کو نئی شان سے بناتا ہے، یعنی تبدیلی کے باوجود کائنات میں اللہ کی قدرت کا مستقل اظہار ہے۔لہٰذا، تغیر اور ثبات دونوں کائنات کی دو پہلو ہیں، جو ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ مکمل اور ہم آہنگ ہیں۔ تغیر ایک بڑی حقیقت ہے، مگر اس کے اندر چھپی ہوئی قوانین اور اصولی ثبات کائنات کو معنی اور تنظیم دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سائنس اور فلسفہ دونوں تغیر اور ثبات کی اس پیچیدہ رشتہ داری کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہی انسانی فہم کی حدوں میں ایک دلچسپ اور غیر معمولی موضوع ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سوال بہت اہم اور عمیق ہے کہ کیا تغیر خود میں ثبات ہے یا تبدیلی کے باوجود کوئی بڑی مستقل حقیقت موجود ہے؟
سائنس کی نظر سے دیکھا جائے تو کائنات میں ہر شے مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ مادے کے ذرات حرکت میں ہیں، توانائی کی صورتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، حیاتیات میں بھی ارتقاء اور تبدیلی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ یہ تبدیلی کسی حد تک ناگزیر ہے، یہی تغیر کی اصل حقیقت ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ تغیر کے باوجود کچھ بنیادی اصول اور قوانین کائنات میں محفوظ اور غیر متغیر رہتے ہیں۔ فزکس کے قوانین، مثلاً توانائی کا تحفظ، مومینٹم کا تحفظ، اور طبیعیات کے بنیادی قانون ہمیں بتاتے ہیں کہ تغیر کے دوران کچھ خاص چیزیں مستقل رہتی ہیں۔ یہ وہ ثبات ہے جو ظاہری تبدیلیوں کے بیچ ایک تنظیم اور تسلسل پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح، اگر ہم "zoom out" کر کے کائنات کو دیکھیں تو ہمیں ہر روز بدلتی ہوئی کائنات کی مختلف صورتوں کے باوجود ایک مربوط، منظم، اور قانون مند نظام نظر آتا ہے۔ یہ نظام تغیر کے اندر ایک گہری ثبات پذیری کی علامت ہے، جو کائنات کی وسعت اور پیچیدگی میں ایک وحدت اور ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔
قرآن میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ ملتا ہے، جیسے سورۃ الرحمن کی آیت "کل یوم ھو فی شان" سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر روز کائنات کو نئی شان سے بناتا ہے، یعنی تبدیلی کے باوجود کائنات میں اللہ کی قدرت کا مستقل اظہار ہے۔لہٰذا، تغیر اور ثبات دونوں کائنات کی دو پہلو ہیں، جو ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ مکمل اور ہم آہنگ ہیں۔ تغیر ایک بڑی حقیقت ہے، مگر اس کے اندر چھپی ہوئی قوانین اور اصولی ثبات کائنات کو معنی اور تنظیم دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سائنس اور فلسفہ دونوں تغیر اور ثبات کی اس پیچیدہ رشتہ داری کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہی انسانی فہم کی حدوں میں ایک دلچسپ اور غیر معمولی موضوع ہے۔
اگر کسی کو اس شعر کی تشریح چاہیئے تو یہاں سے لے لے۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
 

ظفری

لائبریرین
یقین اور ایمان بھی ایک انسانی فیصلہ ہے۔
یقین تک تو ٹھیک ہے ۔ مگر جہاں تک ایمان کی بات ہے تو ایمان محض انسانی فیصلہ نہیں ۔ بلکہ اللہ کی طرف سے توفیق اور قلبی ہدایت کا نتیجہ ہے ۔ ایمان دل کا یقین، زبان کا اقرار اور عمل کا ثبوت ہے۔
"فَمَن یُرِدِ اللَّهُ أَن یَهْدِیَهُ یَشْرَحْ صَدرَهُ لِلْإِسْلَامِ" ۔(پس جس کو اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے)۔
قرآن کے مطابق اللہ چاہے تو کسی کے دل پر مہر لگا دے، اور وہ شخص حق کو نہیں پہچان پاتا (البقرہ: 7)۔
جبکہ یقین ایک ایسا اندرونی انتخاب ہے۔ جسے انسان اپنی فہم، تربیت، تجربے یا ماحول کے تحت اختیار کرتا ہے۔یہی نظریہ وجودی فلسفہ (existentialism) میں بھی ملتا ہے کہ انسان خود اپنے معنی، سچائی اور ایمان کا تعین کرتا ہے۔ سو اگر ہم اسے عقلی اور فلسفیانہ نقطہِ نظر سے دیکھیں تو یقین اور ایمان انسان کا شعوری انتخاب اور وجودی فیصلہ ہے۔
لہذا مذہبی نقطہِ نظر اور عقلی و فلسفیانہ نقطہِ نظر ایک دوسرے سے متصادم نظر آ سکتے ہیں ۔ لیکن اگر انسانی ارادہ، الہامی توفیق، اور شعور کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو یہ دونوں ایک جامع انسانی حقیقت کے مختلف زاویے بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:"إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا"۔ (ہم نے انسان کو راستہ دکھا دیا، اب وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا)
اور ، "وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ۔(ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دیے۔)۔
 

الف نظامی

لائبریرین
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ‎ [15:99]
اور بندگی کر اپنے رب کی ، جب تک پہنچے تجھ کو یقین (مولانا شاہ عبد القادر)
اور بندگی کئے جا اپنے رب کی جب تک آئے تیرے پاس یقینی بات (مولانا محمود الحسن)
اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو (آپ کی شان کے لائق) مقامِ یقین مل جائے (یعنی انشراحِ کامل نصیب ہو جائے یا لمحۂ وصالِ حق) --- ( طاہر القادری)
اور عبادت کیجیے اپنے رب کی یہاں تک کہ آ جائے آپ کے پاس الیقین۔ (جسٹس پیر کرم شاہ الازہری)

مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ یقین کا تعلق بندے کا اپنے رب کی بندگی/عبادت کرنے سے ہے۔
 
آخری تدوین:
Top