اللہ کو ماننے والا انسان تو یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ سانس نہیں لے سکتا ، پلک نہیں جھپک سکتا، قدم نہیں اٹھا سکتا اگر اللہ نہ چاہے تو یعنی اللہ کی قدرت کے سامنے اس کا ہر عمل اور فیصلہ اس کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ۔ کیونکہ مومن کا ایمان ہوتا ہے کہ فکر اور عمل کے لیے جو چیزیں (ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر )درکار ہیں وہ اللہ تعالٰی نے ہی بنائی ہیں۔ جن کو استعمال میں لائے بغیر نہ فکر ممکن ہے نہ عمل۔ اس لیے نہ یقین اور نہ ایمان اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن ہیں۔
اب آتے ہیں انسان کے اختیار کی طرف یعنی اللہ کے دیے ہوئے ہارڈویئر اور سافٹ وئیر کو استعمال کرکے انسان کیا کرنا چاہتاہے یا کیا کرنے پر یقین رکھتا ہے۔اس یقین کو بنانے میں اس کے محرکات وہ علم ہے جو اس نے دستیاب وسائل سے حاصل کیا لیکن اس کا نتیجہ اس نے خود ہی نکالا اور اپنا یقین بنایا۔ اب یہ یقین اللہ کے معیار پر پورا اترتا ہے تو اس کے لیے اللہ ایمان کا فیصلہ کرے گا۔
یعنی انسان کی طرف سے کوشش شرط ہے۔ ایسا نہیں کہ بغیر کوشش کسی کے لیے ایمان کا فیصلہ ہوجائے۔ یہ کوشش ظاہر ہے انسان کا اختیاری فعل ہے۔
خورشید صاحب، آپ اس مراسلے پر ایک علمی اور اسلوبِ بیاں کی حیثیت سے نظر ڈالیے گا۔ میرے یہ محسوسات ذاتی نہیں بلکہ مکالمے کے اصولوں اور آداب کی روشنی میں ہیں۔ اس مراسلےمیں مقصد مکالمے کے اسلوب پر بات ہے۔
آپ کی تحریروں کو میں ایک عرصے سے دیکھ رہا ہوں، اور بارہا یہ بات محسوس کی ہے کہ خواہ کسی بھی رکن کا سیاق ہو، آپ اس میں
اپنے نظریے کی پیوند کاری کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ بعض اوقات اصل بات کو کاٹ کر، بعض اوقات اس کا رخ موڑ کر۔ پچھلے مراسلے میں میری سطر کو ریڈ میں دکھانا اور پھر اس میں اپنی بات کی پیوند لگانا بھی اسی طرز کی ایک تازہ مثال ہے۔
جبکہ میری پوری بات واضح تھی کہ،"نہ یقین اور نہ ایمان اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن ہیں۔"
میری بات کا یہ حصہ کہ "یقین بھی اللہ کی دی ہوئی استعداد، وسائل اور توفیق کے بغیر ممکن نہیں" آپ کے اقتباس میں غائب رہا، ہوسکتا ہے شاید یہ آپ کے نظریے میں فٹ نہ بیٹھتا ہو۔ مگرمیرے لیے قرآن و سنت کی بنیاد پر یہ طرزِ فکر ناقابلِ قبول ہے۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے:
وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ ٱللَّهُ"، (اور تم کچھ بھی چاہو، وہ نہیں کر سکتے جب تک اللہ نہ چاہے)۔
لہٰذا اگر ہم "یقین" کو بھی خالص انسانی عمل قرار دے دیں، تو توحید کی بنیاد خود متزلزل ہو جائے گی ۔ کیونکہ پھر "ایمان" الٰہی عطا نہیں بلکہ انسانی achievement بن جائے گا، اور یہ تصور قرآن کے مزاج کے خلاف ہے۔آپ کو حق ہے کہ اپنے مکتبِ فکر کے مطابق بات کریں،لیکن براہِ کرم
دوسروں کی باتوں کو اپنے نظریے میں فٹ کرنے کی عادت ترک کیجیے ۔ بالخصوص جب وہ بات
توحید، ایمان اور ہدایت جیسے بنیادی مسائل سے متعلق ہو۔
دوسری بات یہ کہ آپ عموما سافٹ وئیر اور ہارڈ وئیر کی تشبیہات دیتے ہیں ۔ مگر یہ تشبیہہ ایک
مکمل اور حقیقتی وضاحت نہیں بن سکتی، کیونکہ انسان صرف "ہارڈویئر اور سافٹ ویئر" کا مجموعہ نہیں، بلکہ اس میں روح بھی شامل ہے،اور اس کا ایمان و یقین صرف عقلی نتیجہ یا پروگرامنگ کے تحت نہیں، بلکہ
اللہ کی توفیق اور ہدایت کے نتیجے پر بھی منحصر ہوتا ہے ۔
والسلام