جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

شکریہ جناب، آپ نے میری دی گئی مثال کو قابلِ غور سمجھا، یہ خوشی کی بات ہے۔البتہ میری اصل بات صرف تشبیہہ تک محدود نہ تھی بلکہ میں نے اس سے آگے یہ سوال اٹھایا تھا کہ،کیا ہر انسان بلا شرط اشرف ہے، یا اشرفیت ایک مشروط مقام ہے؟
اور اس کے جواب میں یہی عرض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسانی اشرفیت صلاحیت کی بنیاد پر بالقوّہ (potential) ہے، لیکن بالفعل (actual) فضیلت کا معیار اعمال، تقویٰ، علم اور اخلاق ہے۔ یعنی اشرفیت مشروط ہے۔اگر انسان ان صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھائے، تو قرآن کے الفاظ میں "بل ھم اضلّ" یعنی وہ جانوروں سے بھی بدتر ہو سکتا ہے۔
میرا تبصرہ دراصل صرف آپ کی کمپیوٹر/کیلکولیٹر والی تشبیہ تک محدود نہیں تھا بلکہ اس سے آگے ایک فکری توسیع رکھتا تھا۔ یعنی "کیا ہر انسان بلا شرط اشرف ہے یا نہیں؟"
آپ کا کہا ہی میرا جواب بھی ہے۔ اور میں اس سے سو فیصد متفق ہوں۔ یعنی:
اور اس کے جواب میں یہی عرض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسانی اشرفیت صلاحیت کی بنیاد پر بالقوّہ (potential) ہے، لیکن بالفعل (actual) فضیلت کا معیار اعمال، تقویٰ، علم اور اخلاق ہے۔ یعنی اشرفیت مشروط ہے۔اگر انسان ان صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھائے، تو قرآن کے الفاظ میں "بل ھم اضلّ" یعنی وہ جانوروں سے بھی بدتر ہو سکتا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
پہلا سوال ہے کہ واقعی تغیر کو ثبات ہے یا سب کچھ بدل بھی جائے تو کہیں نہ کہیں اوورآل مومینٹم کونزروڈ رہتا ہے؟
(آسان زبان میں: کیا سب کچھ بدلنا ایک ٹھوس حقیقت ہے یا اس سے بڑی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ بدلنے سے بھی zoom out کر کے دیکھو تو وہی تصویر ہے؟)
سوال بہت اہم اور عمیق ہے کہ کیا تغیر خود میں ثبات ہے یا تبدیلی کے باوجود کوئی بڑی مستقل حقیقت موجود ہے؟
سائنس کی نظر سے دیکھا جائے تو کائنات میں ہر شے مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ مادے کے ذرات حرکت میں ہیں، توانائی کی صورتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، حیاتیات میں بھی ارتقاء اور تبدیلی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ یہ تبدیلی کسی حد تک ناگزیر ہے، یہی تغیر کی اصل حقیقت ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ تغیر کے باوجود کچھ بنیادی اصول اور قوانین کائنات میں محفوظ اور غیر متغیر رہتے ہیں۔ فزکس کے قوانین، مثلاً توانائی کا تحفظ، مومینٹم کا تحفظ، اور طبیعیات کے بنیادی قانون ہمیں بتاتے ہیں کہ تغیر کے دوران کچھ خاص چیزیں مستقل رہتی ہیں۔ یہ وہ ثبات ہے جو ظاہری تبدیلیوں کے بیچ ایک تنظیم اور تسلسل پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح، اگر ہم "zoom out" کر کے کائنات کو دیکھیں تو ہمیں ہر روز بدلتی ہوئی کائنات کی مختلف صورتوں کے باوجود ایک مربوط، منظم، اور قانون مند نظام نظر آتا ہے۔ یہ نظام تغیر کے اندر ایک گہری ثبات پذیری کی علامت ہے، جو کائنات کی وسعت اور پیچیدگی میں ایک وحدت اور ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔
قرآن میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ ملتا ہے، جیسے سورۃ الرحمن کی آیت "کل یوم ھو فی شان" سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر روز کائنات کو نئی شان سے بناتا ہے، یعنی تبدیلی کے باوجود کائنات میں اللہ کی قدرت کا مستقل اظہار ہے۔لہٰذا، تغیر اور ثبات دونوں کائنات کی دو پہلو ہیں، جو ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ مکمل اور ہم آہنگ ہیں۔ تغیر ایک بڑی حقیقت ہے، مگر اس کے اندر چھپی ہوئی قوانین اور اصولی ثبات کائنات کو معنی اور تنظیم دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سائنس اور فلسفہ دونوں تغیر اور ثبات کی اس پیچیدہ رشتہ داری کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہی انسانی فہم کی حدوں میں ایک دلچسپ اور غیر معمولی موضوع ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سوال بہت اہم اور عمیق ہے کہ کیا تغیر خود میں ثبات ہے یا تبدیلی کے باوجود کوئی بڑی مستقل حقیقت موجود ہے؟
سائنس کی نظر سے دیکھا جائے تو کائنات میں ہر شے مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ مادے کے ذرات حرکت میں ہیں، توانائی کی صورتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، حیاتیات میں بھی ارتقاء اور تبدیلی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ یہ تبدیلی کسی حد تک ناگزیر ہے، یہی تغیر کی اصل حقیقت ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ تغیر کے باوجود کچھ بنیادی اصول اور قوانین کائنات میں محفوظ اور غیر متغیر رہتے ہیں۔ فزکس کے قوانین، مثلاً توانائی کا تحفظ، مومینٹم کا تحفظ، اور طبیعیات کے بنیادی قانون ہمیں بتاتے ہیں کہ تغیر کے دوران کچھ خاص چیزیں مستقل رہتی ہیں۔ یہ وہ ثبات ہے جو ظاہری تبدیلیوں کے بیچ ایک تنظیم اور تسلسل پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح، اگر ہم "zoom out" کر کے کائنات کو دیکھیں تو ہمیں ہر روز بدلتی ہوئی کائنات کی مختلف صورتوں کے باوجود ایک مربوط، منظم، اور قانون مند نظام نظر آتا ہے۔ یہ نظام تغیر کے اندر ایک گہری ثبات پذیری کی علامت ہے، جو کائنات کی وسعت اور پیچیدگی میں ایک وحدت اور ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔
قرآن میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ ملتا ہے، جیسے سورۃ الرحمن کی آیت "کل یوم ھو فی شان" سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ہر روز کائنات کو نئی شان سے بناتا ہے، یعنی تبدیلی کے باوجود کائنات میں اللہ کی قدرت کا مستقل اظہار ہے۔لہٰذا، تغیر اور ثبات دونوں کائنات کی دو پہلو ہیں، جو ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ مکمل اور ہم آہنگ ہیں۔ تغیر ایک بڑی حقیقت ہے، مگر اس کے اندر چھپی ہوئی قوانین اور اصولی ثبات کائنات کو معنی اور تنظیم دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سائنس اور فلسفہ دونوں تغیر اور ثبات کی اس پیچیدہ رشتہ داری کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہی انسانی فہم کی حدوں میں ایک دلچسپ اور غیر معمولی موضوع ہے۔
اگر کسی کو اس شعر کی تشریح چاہیئے تو یہاں سے لے لے۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
 

ظفری

لائبریرین
یقین اور ایمان بھی ایک انسانی فیصلہ ہے۔
یقین تک تو ٹھیک ہے ۔ مگر جہاں تک ایمان کی بات ہے تو ایمان محض انسانی فیصلہ نہیں ۔ بلکہ اللہ کی طرف سے توفیق اور قلبی ہدایت کا نتیجہ ہے ۔ ایمان دل کا یقین، زبان کا اقرار اور عمل کا ثبوت ہے۔
"فَمَن یُرِدِ اللَّهُ أَن یَهْدِیَهُ یَشْرَحْ صَدرَهُ لِلْإِسْلَامِ" ۔(پس جس کو اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے)۔
قرآن کے مطابق اللہ چاہے تو کسی کے دل پر مہر لگا دے، اور وہ شخص حق کو نہیں پہچان پاتا (البقرہ: 7)۔
جبکہ یقین ایک ایسا اندرونی انتخاب ہے۔ جسے انسان اپنی فہم، تربیت، تجربے یا ماحول کے تحت اختیار کرتا ہے۔یہی نظریہ وجودی فلسفہ (existentialism) میں بھی ملتا ہے کہ انسان خود اپنے معنی، سچائی اور ایمان کا تعین کرتا ہے۔ سو اگر ہم اسے عقلی اور فلسفیانہ نقطہِ نظر سے دیکھیں تو یقین اور ایمان انسان کا شعوری انتخاب اور وجودی فیصلہ ہے۔
لہذا مذہبی نقطہِ نظر اور عقلی و فلسفیانہ نقطہِ نظر ایک دوسرے سے متصادم نظر آ سکتے ہیں ۔ لیکن اگر انسانی ارادہ، الہامی توفیق، اور شعور کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو یہ دونوں ایک جامع انسانی حقیقت کے مختلف زاویے بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:"إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا"۔ (ہم نے انسان کو راستہ دکھا دیا، اب وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا)
اور ، "وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ۔(ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دیے۔)۔
 

الف نظامی

لائبریرین
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ‎ [15:99]
اور بندگی کر اپنے رب کی ، جب تک پہنچے تجھ کو یقین (مولانا شاہ عبد القادر)
اور بندگی کئے جا اپنے رب کی جب تک آئے تیرے پاس یقینی بات (مولانا محمود الحسن)
اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو (آپ کی شان کے لائق) مقامِ یقین مل جائے (یعنی انشراحِ کامل نصیب ہو جائے یا لمحۂ وصالِ حق) --- ( طاہر القادری)
اور عبادت کیجیے اپنے رب کی یہاں تک کہ آ جائے آپ کے پاس الیقین۔ (جسٹس پیر کرم شاہ الازہری)

مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ یقین کا تعلق بندے کا اپنے رب کی بندگی/عبادت کرنے سے ہے۔
 
آخری تدوین:
یقین تک تو ٹھیک ہے ۔ مگر جہاں تک ایمان کی بات ہے تو ایمان محض انسانی فیصلہ نہیں ۔ بلکہ اللہ کی طرف سے توفیق اور قلبی ہدایت کا نتیجہ ہے ۔ ایمان دل کا یقین، زبان کا اقرار اور عمل کا ثبوت ہے۔
"فَمَن یُرِدِ اللَّهُ أَن یَهْدِیَهُ یَشْرَحْ صَدرَهُ لِلْإِسْلَامِ" ۔(پس جس کو اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے)۔
قرآن کے مطابق اللہ چاہے تو کسی کے دل پر مہر لگا دے، اور وہ شخص حق کو نہیں پہچان پاتا (البقرہ: 7)۔
جبکہ یقین ایک ایسا اندرونی انتخاب ہے۔ جسے انسان اپنی فہم، تربیت، تجربے یا ماحول کے تحت اختیار کرتا ہے۔یہی نظریہ وجودی فلسفہ (existentialism) میں بھی ملتا ہے کہ انسان خود اپنے معنی، سچائی اور ایمان کا تعین کرتا ہے۔ سو اگر ہم اسے عقلی اور فلسفیانہ نقطہِ نظر سے دیکھیں تو یقین اور ایمان انسان کا شعوری انتخاب اور وجودی فیصلہ ہے۔
لہذا مذہبی نقطہِ نظر اور عقلی و فلسفیانہ نقطہِ نظر ایک دوسرے سے متصادم نظر آ سکتے ہیں ۔ لیکن اگر انسانی ارادہ، الہامی توفیق، اور شعور کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو یہ دونوں ایک جامع انسانی حقیقت کے مختلف زاویے بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:"إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا"۔ (ہم نے انسان کو راستہ دکھا دیا، اب وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا)
اور ، "وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ۔(ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دیے۔)۔
اللہ کو ماننے والا انسان تو یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ سانس نہیں لے سکتا ، پلک نہیں جھپک سکتا، قدم نہیں اٹھا سکتا اگر اللہ نہ چاہے تو یعنی اللہ کی قدرت کے سامنے اس کا ہر عمل اور فیصلہ اس کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ۔ کیونکہ مومن کا ایمان ہوتا ہے کہ فکر اور عمل کے لیے جو چیزیں (ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر )درکار ہیں وہ اللہ تعالٰی نے ہی بنائی ہیں۔ جن کو استعمال میں لائے بغیر نہ فکر ممکن ہے نہ عمل۔ اس لیے نہ یقین اور نہ ایمان اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن ہیں۔
اب آتے ہیں انسان کے اختیار کی طرف یعنی اللہ کے دیے ہوئے ہارڈویئر اور سافٹ وئیر کو استعمال کرکے انسان کیا کرنا چاہتاہے یا کیا کرنے پر یقین رکھتا ہے۔اس یقین کو بنانے میں اس کے محرکات وہ علم ہے جو اس نے دستیاب وسائل سے حاصل کیا لیکن اس کا نتیجہ اس نے خود ہی نکالا اور اپنا یقین بنایا۔ اب یہ یقین اللہ کے معیار پر پورا اترتا ہے تو اس کے لیے اللہ ایمان کا فیصلہ کرے گا۔

وأن ليس للإنسان إلا ما سعى

یعنی انسان کی طرف سے کوشش شرط ہے۔ ایسا نہیں کہ بغیر کوشش کسی کے لیے ایمان کا فیصلہ ہوجائے۔ یہ کوشش ظاہر ہے انسان کا اختیاری فعل ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
بعض علما نے یقین کا ترجمہ موت کیا ہے۔ اور بعض نے اس کا ترجمہ یقین ہی کیا ہے۔
کیا آپ کوئی ایسی مثال فراہم کر سکتے ہیں جس میں یقین کا مطلب موت ہو؟
اس حقیقت کو بھی کسی مثال کی کیا ضرورت ہے ؟
موت سے زیادہ یقینی چیز کیاہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بعض علما نے یقین کا ترجمہ موت کیا ہے۔ اور بعض نے اس کا ترجمہ یقین ہی کیا ہے۔
کیا آپ کوئی ایسی مثال فراہم کر سکتے ہیں جس میں یقین کا مطلب موت ہو؟
عن أهْل النار أنَّهم قالوا: ﴿لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ * وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ * وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ * وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ * حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ﴾ [المدثر: 43 - 47]
 

الف نظامی

لائبریرین
متعلقہ:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ‎﴿١﴾‏ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ‎﴿٢﴾‏ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ‎﴿٣﴾‏ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ‎﴿٤﴾‏ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ﴿٥﴾‏ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ‎﴿٦﴾‏ ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ ‎﴿٧﴾‏ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ‎﴿٨﴾‏
 

ظفری

لائبریرین
عن أهْل النار أنَّهم قالوا: ﴿لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ * وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ * وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ * وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ * حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ﴾ [المدثر: 43 - 47]
اس کے علاوہ ۔۔۔
سورۃ الواقعة، آیت 95:إِنَّ هَ۔ٰذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ ۔ "بے شک یہ تو یقینی حق ہے۔"
بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ،( علم الیقین وہ مرحلہ ہے جو دنیا میں علم کی بنیاد پر ممکن ہے، لیکن موت کے بعد 'عین الیقین' کی منزل آتی ہے، اور آخرت میں 'حق الیقین' مکمل ہو جاتی ہے)
متعلقہ:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ‎﴿١﴾‏ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ‎﴿٢﴾‏ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ‎﴿٣﴾‏ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ‎﴿٤﴾‏ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ﴿٥﴾‏ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ‎﴿٦﴾‏ ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ ‎﴿٧﴾‏ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ‎﴿٨﴾‏
سورۃ التکاثر میں "یقین" کا ذکر اگرچہ صراحتاً "موت" کے لفظ سے نہیں جڑا، مگر سیاق و سباق اور مفسرین کے مطابق یقین کا حصول موت کے بعد ہی مکمل ہوتا ہے۔یہاں "علم الیقین" اور "عین الیقین" سے بتدریج موت، قبر، اور آخرت کی حقیقت کی طرف لے جایا گیا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
اللہ کو ماننے والا انسان تو یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ سانس نہیں لے سکتا ، پلک نہیں جھپک سکتا، قدم نہیں اٹھا سکتا اگر اللہ نہ چاہے تو یعنی اللہ کی قدرت کے سامنے اس کا ہر عمل اور فیصلہ اس کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ۔ کیونکہ مومن کا ایمان ہوتا ہے کہ فکر اور عمل کے لیے جو چیزیں (ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر )درکار ہیں وہ اللہ تعالٰی نے ہی بنائی ہیں۔ جن کو استعمال میں لائے بغیر نہ فکر ممکن ہے نہ عمل۔ اس لیے نہ یقین اور نہ ایمان اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن ہیں۔
اب آتے ہیں انسان کے اختیار کی طرف یعنی اللہ کے دیے ہوئے ہارڈویئر اور سافٹ وئیر کو استعمال کرکے انسان کیا کرنا چاہتاہے یا کیا کرنے پر یقین رکھتا ہے۔اس یقین کو بنانے میں اس کے محرکات وہ علم ہے جو اس نے دستیاب وسائل سے حاصل کیا لیکن اس کا نتیجہ اس نے خود ہی نکالا اور اپنا یقین بنایا۔ اب یہ یقین اللہ کے معیار پر پورا اترتا ہے تو اس کے لیے اللہ ایمان کا فیصلہ کرے گا۔

وأن ليس للإنسان إلا ما سعى

یعنی انسان کی طرف سے کوشش شرط ہے۔ ایسا نہیں کہ بغیر کوشش کسی کے لیے ایمان کا فیصلہ ہوجائے۔ یہ کوشش ظاہر ہے انسان کا اختیاری فعل ہے۔
خورشید صاحب، آپ اس مراسلے پر ایک علمی اور اسلوبِ بیاں کی حیثیت سے نظر ڈالیے گا۔ میرے یہ محسوسات ذاتی نہیں بلکہ مکالمے کے اصولوں اور آداب کی روشنی میں ہیں۔ اس مراسلےمیں مقصد مکالمے کے اسلوب پر بات ہے۔
آپ کی تحریروں کو میں ایک عرصے سے دیکھ رہا ہوں، اور بارہا یہ بات محسوس کی ہے کہ خواہ کسی بھی رکن کا سیاق ہو، آپ اس میں اپنے نظریے کی پیوند کاری کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ بعض اوقات اصل بات کو کاٹ کر، بعض اوقات اس کا رخ موڑ کر۔ پچھلے مراسلے میں میری سطر کو ریڈ میں دکھانا اور پھر اس میں اپنی بات کی پیوند لگانا بھی اسی طرز کی ایک تازہ مثال ہے۔
جبکہ میری پوری بات واضح تھی کہ،"نہ یقین اور نہ ایمان اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن ہیں۔"میری بات کا یہ حصہ کہ "یقین بھی اللہ کی دی ہوئی استعداد، وسائل اور توفیق کے بغیر ممکن نہیں" آپ کے اقتباس میں غائب رہا، ہوسکتا ہے شاید یہ آپ کے نظریے میں فٹ نہ بیٹھتا ہو۔ مگرمیرے لیے قرآن و سنت کی بنیاد پر یہ طرزِ فکر ناقابلِ قبول ہے۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے:وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ ٱللَّهُ"، (اور تم کچھ بھی چاہو، وہ نہیں کر سکتے جب تک اللہ نہ چاہے)۔
لہٰذا اگر ہم "یقین" کو بھی خالص انسانی عمل قرار دے دیں، تو توحید کی بنیاد خود متزلزل ہو جائے گی ۔ کیونکہ پھر "ایمان" الٰہی عطا نہیں بلکہ انسانی achievement بن جائے گا، اور یہ تصور قرآن کے مزاج کے خلاف ہے۔آپ کو حق ہے کہ اپنے مکتبِ فکر کے مطابق بات کریں،لیکن براہِ کرم دوسروں کی باتوں کو اپنے نظریے میں فٹ کرنے کی عادت ترک کیجیے ۔ بالخصوص جب وہ بات توحید، ایمان اور ہدایت جیسے بنیادی مسائل سے متعلق ہو۔
دوسری بات یہ کہ آپ عموما سافٹ وئیر اور ہارڈ وئیر کی تشبیہات دیتے ہیں ۔ مگر یہ تشبیہہ ایک مکمل اور حقیقتی وضاحت نہیں بن سکتی، کیونکہ انسان صرف "ہارڈویئر اور سافٹ ویئر" کا مجموعہ نہیں، بلکہ اس میں روح بھی شامل ہے،اور اس کا ایمان و یقین صرف عقلی نتیجہ یا پروگرامنگ کے تحت نہیں، بلکہ اللہ کی توفیق اور ہدایت کے نتیجے پر بھی منحصر ہوتا ہے ۔
والسلام
 
خورشید صاحب، آپ اس مراسلے پر ایک علمی اور اسلوبِ بیاں کی حیثیت سے نظر ڈالیے گا۔ میرے یہ محسوسات ذاتی نہیں بلکہ مکالمے کے اصولوں اور آداب کی روشنی میں ہیں۔ اس مراسلےمیں مقصد مکالمے کے اسلوب پر بات ہے۔
آپ کی تحریروں کو میں ایک عرصے سے دیکھ رہا ہوں، اور بارہا یہ بات محسوس کی ہے کہ خواہ کسی بھی رکن کا سیاق ہو، آپ اس میں اپنے نظریے کی پیوند کاری کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ بعض اوقات اصل بات کو کاٹ کر، بعض اوقات اس کا رخ موڑ کر۔ پچھلے مراسلے میں میری سطر کو ریڈ میں دکھانا اور پھر اس میں اپنی بات کی پیوند لگانا بھی اسی طرز کی ایک تازہ مثال ہے۔
جبکہ میری پوری بات واضح تھی کہ،"نہ یقین اور نہ ایمان اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن ہیں۔"میری بات کا یہ حصہ کہ "یقین بھی اللہ کی دی ہوئی استعداد، وسائل اور توفیق کے بغیر ممکن نہیں" آپ کے اقتباس میں غائب رہا، ہوسکتا ہے شاید یہ آپ کے نظریے میں فٹ نہ بیٹھتا ہو۔ مگرمیرے لیے قرآن و سنت کی بنیاد پر یہ طرزِ فکر ناقابلِ قبول ہے۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے:وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ ٱللَّهُ"، (اور تم کچھ بھی چاہو، وہ نہیں کر سکتے جب تک اللہ نہ چاہے)۔
لہٰذا اگر ہم "یقین" کو بھی خالص انسانی عمل قرار دے دیں، تو توحید کی بنیاد خود متزلزل ہو جائے گی ۔ کیونکہ پھر "ایمان" الٰہی عطا نہیں بلکہ انسانی achievement بن جائے گا، اور یہ تصور قرآن کے مزاج کے خلاف ہے۔آپ کو حق ہے کہ اپنے مکتبِ فکر کے مطابق بات کریں،لیکن براہِ کرم دوسروں کی باتوں کو اپنے نظریے میں فٹ کرنے کی عادت ترک کیجیے ۔ بالخصوص جب وہ بات توحید، ایمان اور ہدایت جیسے بنیادی مسائل سے متعلق ہو۔
دوسری بات یہ کہ آپ عموما سافٹ وئیر اور ہارڈ وئیر کی تشبیہات دیتے ہیں ۔ مگر یہ تشبیہہ ایک مکمل اور حقیقتی وضاحت نہیں بن سکتی، کیونکہ انسان صرف "ہارڈویئر اور سافٹ ویئر" کا مجموعہ نہیں، بلکہ اس میں روح بھی شامل ہے،اور اس کا ایمان و یقین صرف عقلی نتیجہ یا پروگرامنگ کے تحت نہیں، بلکہ اللہ کی توفیق اور ہدایت کے نتیجے پر بھی منحصر ہوتا ہے ۔
والسلام
اس کا جواب اپنے اور آپ کے حق میں دعائے خیر کے علاوہ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔
کسی کے نقطہ نظر کو جھٹلانا کبھی بھی میری خواہش یا کوشش نہیں رہی۔اکثر باتوں سے میں متفق ہی ہوتا ہوں، کبھی کبھار کوئی دوسرا زاویہ ہو تو وہ پیش کرنے کی جسارت کرلیتا ہوں۔ آپ کے کہے کے مطابق ایسا صرف آپ کے مراسلوں کے ساتھ نہیں کرتا بلکہ عام طور پر میرا رویہ یہی ہوتا ہے۔ آئندہ آپ کے مراسلات صرف پیسو انداز میں پڑھوں گا کیونکہ میں بہرحال آپ کو ایک صاحبِ علم سمجھتا ہوں اور کسی قسم کی دخل اندازی سے باز رہوں گا۔ اب تک جو کچھ ہوگیا اس کے لیے معذرت۔
آپ کا یہ کہنا کہ
میری بات کا یہ حصہ آپ کے اقتباس میں غائب رہا، ہوسکتا ہے شاید یہ آپ کے نظریے میں فٹ نہ بیٹھتا ہو
یقین بھی اللہ کی دی ہوئی استعداد، وسائل اور توفیق کے بغیر ممکن نہیں
اوپر آپ کا پورامراسلہ موجود ہے ۔میرے مراسلےمیں بھی دو لائنوں کو ہائی لائیٹ کرکے آپ کے پورے مراسلے کا اقتباس لیا گیا ہے۔
کئی بار پڑھنے کے باوجود یہ حصہ مجھے نظر نہیں آسکا۔
اور آپ نے کیسے اندازہ لگایا کہ میرا اور آپ کا نظریہ مختلف ہے؟
 
Top