1- کیا اللہ تعالٰی کا انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنانا اور فرشتوں سے سجدہ کروانا انسان کے اشرف المخلوقات ہونے پر دلالت نہیں کرتا؟
میں کوشش کروں گا کہ اگر سوالات مذہبی تناظر میں ہیں تو پھر جوابات بھی دین کو سامنے ہی رکھ کر دیئے جائیں تاکہ کسی ذاتی سوچ اور اس سے منسلک دلیلوں یکسر نظرانداز کرکے صرف اشرف المخلوقات کو مذہی پس منظر میں ہی دیکھا جائے ۔
ني جاعل في الأرض خليفة"، ’’بے شک میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘
یہ آیت
انسان کے مقام و منصب کو ظاہر ضرور کرتی ہے، مگر یہاں "اشرف" یعنی
سب سے برتر ہونا بطورِ دعویٰ نہیں آیا، بلکہ "خلیفہ" یعنی
ذمے داری اٹھانے والا، زمین پر اللہ کے احکام کو نافذ کرنے والا مراد ہے،یعنی خلافت ایک ذمہ داری ہے نہ کہ فضلیت کی سند ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
"فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ، إِلَّا إِبْلِيسَ"
یہ سجدہ
عبادت کا نہیں، بلکہ
احترام اور تعظیم کا تھا، جو اللہ کے حکم سے کیا گیا ۔مفسرین جیسے
امام رازی، فخرالدین رازی اور
امام طبری نے واضح کیا ہے کہ،یہ سجدہ
آدم علیہ السلام کی علمی قابلیت (اسماء کی تعلیم) اور
امتحان میں کامیابی کے بعد ہوا۔یہ سجدہ
آدم کی تخلیق یا
مادی وجود کی بنیاد پر نہیں، بلکہ
علم و ذمہ داری کی بنیاد پر تھا۔
جب ہم کہتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، یعنی سب سے برتر ، سب سے زیادہ عزت وشرف والا ،تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر انسان
بلا شرط اشرف ہے،یا اشرف ہونے کی بنیاد
عمل، علم، تقویٰ یا اخلاق ہے؟
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ" ‘‘بے شک تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو‘‘۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ انسان کی
حقیقی شرافت اس کے
تقویٰ، کردار اور شعور سے ہے، نہ کہ صرف انسان ہونے سے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو بہت بڑی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ ذمہ داری ایک آزمائش ہے ،کوئی انعام نہیں ۔ فرشتوں کا سجدہ کوئی عبادت کے پس منظر میں نہیں تھا ،بلکہ ایک تعظیمی علامت تھی جو انسان کو اس کے علمی صلاحیت کی بنیاد پر پیش کی گئی نہ کہ اس کی کسی جسمانی ساخت کی بنیاد پر ۔قرآن میں
لفظی طور پر "اشرف المخلوقات" جیسا کوئی جملہ یا لقب موجود نہیں۔ یہ ایک
بعد کی اصطلاح ہے، جسے
مفسرین، متکلمین اور فلاسفہ نے قرآن کے مختلف اشارات و مضامین سے
اخذ کیا ہے۔ وہاں سے
نقل نہیں کیا ہے ۔پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ،
"ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ" (التین: 5)، پھر ہم نے اسے پست ترین حالت میں لوٹا دیا
"إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا" (الأحزاب: 72)، بے شک انسان ظالم اور جاہل ہے۔
كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ" (الأعراف: 179)، یہ (بعض انسان) چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔
جب ہم ان آیتو ں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلو م ہوتا ہے کہ قرآن انسان کو اشرف المخلوقات کے لقب سے نہیں نوازتا ،یہ بعد کے لوگوں کی تعبیر ہے، جو قرآن کے اشارات اور انسانی مقام کے تناظر میں اخذ کی گئی ہے۔
یہ
اصطلاح اشرف المخلوقات،نہ قرآن کا لفظ ہے،نہ کسی حدیثِ قدسی کا،بلکہ یہ
تعبیری نتیجہ ہے ، جیسے "خلیفۃ اللہ فی الارض"۔ وغیرہ ۔
پھر ایک اہم بات کہ ،
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ۔ اللہ ہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمینوں میں بھی ویسی ہی سات بنائیں۔
اور پھر آگے فرمایا کہ ،
يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ ۔اللہ کا حکم ان کے درمیان نازل ہوتا رہتا ہے۔
سات زمینیں اور سات آسمان کوئی شاعرانہ تعبیر نہیں، بلکہ
وجودی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔"امرِ الٰہی" کا ان سب میں نزول یہ بتاتا ہے کہ وہ سب محض بےجان جگہیں نہیں ، بلکہ وہاں کوئی
نظام، مقصد اور شاید مخلوقات بھی موجود ہیں، ورنہ حکم نازل کرنے کا کیا مفہوم بنتا ہے ۔ جب وہ نظام ، وہ مقصد اور وہ مخلوقات ہمارے مشاہدے میں نہیں تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ان سے برتر ہیں ۔
لہذا انسان کی
حقیقی شرافت اس کے
تقویٰ، کردار اور شعور سے ہے ۔ اپنے تقوی سے وہ شرف کی معراج کو تو پہنچ سکتا ہے ۔ مگر اس سے وہ اشرف المخلوقات کے مقام پر پہنچ گیا ۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خلق کے لحاظ سے بھی اور تقویٰ کے لحاظ سے بھی فرشتے ہم سے بہت آگے ہیں ۔ انسان کو جو خلق ، اور جو شعور دیا گیا ہے ۔ وہ اس دنیا کی آزمائش کے حوالے سے دیا گیا ہے ۔جہاں وہ اپنے گردو پیش کے لحاظ سے اپنے شرف کی معراج کی بلندی تک کوشش کرسکتا ہے ۔ یہی اس کی آزمائش ہے ۔ یہ اس کا شرف ہے ۔
2- کیا انسانی جسم کی بناوٹ اور انسان کےشعور کے مقابلے میں ابھی تک کوئی ایسی مخلوق دریافت ہوئی ہے جسے سائنسی بنیاد پر انسان سے افضل کہا جاسکے؟
جناب
ظفری صاحب !
انسان کی
ہاتھ کی انگلیاں،
انگوٹھے کی گرفت،
دو پاؤں پر چلنے کی صلاحیت (bipedal locomotion)،
چہرے کی پیچیدہ اظہار صلاحیتیں ، کسی بھی اور جاندار میں اس مکمل شکل میں موجود نہیں۔دماغ کی ساخت اور
نیورل کنکشنز کی پیچیدگی انسان کو
سوچنے، سیکھنے، منصوبہ بندی کرنے، اخلاقی فیصلے کرنے اور
زبان کے ذریعے خیالات منتقل کرنے کے قابل بناتی ہے۔انسان اب تک
واحد مخلوق ہے جواپنے وجود پر شعور رکھتی ہے،موت، وقت، مقصدِ حیات جیسے مجرد خیالات پر غور کر سکتی ہے،مستقبل کی منصوبہ بندی، ماضی کی تحلیل، اور اخلاقی ذمہ داری کا احساس رکھتی ہے۔
مگریہ سب
فضیلت کے امکانات ہیں، نہ کہ
یقینی برتری۔یہی انسان زمین پر فساد بھی کرتا ہے، ایٹم بم بھی بناتا ہے، ظلم بھی کرتا ہے۔یہی انسان اللہ کا نبی بھی بنتا ہے،۔تو انسان کے لیے "اشرف" کا لقب
پیدائشی سند نہیں، بلکہ
کسبی شرف ہے ، اور یہ اس نے
اپنے شعور، اختیار، اور اخلاق سے حاصل کیا ہے۔