جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

اگر فلسفہ میں سچ کیا ہے جاننا ہے تو انتہائی لمبا اور مشکل ٹاپک ہے لیکن ایک انٹروڈکشن یہ رہا:

سر! میں نے پڑھنے کی کوشش کی ہے لیکن تھیوریز کو سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اگر آپ پڑھ کر سمجھ چکے ہیں تو سادہ اور آسان زبان میں بیان کردیں تاکہ میرے سمیت اوروں کا بھی بھلا ہوجائے۔شکریہ۔
 
بائیولاجیکلی شاید آپ کی بات عجیب نہ ہو لیکن ذہنی صلاحیتوں کے حساب سے یہ بات عجیب لگتی ہے۔کسی جانورنے کوئی چیز ایجاد کی ہو ابھی تک اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کوئی امکان نظر آتا ہے
مجھے یہ بات عجیب لگتی ہے کہ ہم خود اپنے منہ میاں مٹھو بنیں اور جن مخلوقات کے ہم اشرف ہیں انہیں پتہ بھی نہ ہو!
 
مجھے یہ بات عجیب لگتی ہے کہ ہم خود اپنے منہ میاں مٹھو بنیں اور جن مخلوقات کے ہم اشرف ہیں انہیں پتہ بھی نہ ہو!
صرف بحث ہورہی ہے اور ابھی منطقی نتیجے تک نہیں پہنچی کہ مان لیا گیا ہو کہ واقعی انسان اشرف المخلوقات ہے یا نہیں۔ اور بحث بھی انسانوں کی آپس میں ہو رہی ہے جس میں باقی مخلوقات شریک نہیں ہیں۔ اگر وہ شریک ہوتیں اور یہ کہتیں کہ ہم نہیں مانتیں کہ انسان اشرف ہے۔ انسان اپنے منہ میاں مٹھو بن رہا ہے تو تب آپ کی حیرت بجا ہوتی۔
 

زیک

ایکاروس
سر! میں نے پڑھنے کی کوشش کی ہے لیکن تھیوریز کو سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اگر آپ پڑھ کر سمجھ چکے ہیں تو سادہ اور آسان زبان میں بیان کردیں تاکہ میرے سمیت اوروں کا بھی بھلا ہوجائے۔شکریہ۔
اسی لئے لکھا تھا کہ یہ انتہائی لمبا اور مشکل ٹاپک ہے۔ فلسفہ میں الفاظ و اصطلاحات انتہائی اہم ہیں۔ یہ موضوع اچھی خاصی ریاضت مانگتا ہے اور اسے سادہ اور آسان فہم بنانے میں مجھے کافی وقت لگے گا۔ محفل بھی بند ہو رہی ہے اور میں بھی کچھ کاموں میں شدید مصروف ہونے لگا ہوں اس لئے میری طرف سے معذرت۔
 
یقین اور ایمان بھی ایک انسانی فیصلہ ہے۔
لیکن ایمان پر انسان سوچ بچار یا تو نہیں کرتا اور اگر کرتا ہے اور اسے سمجھ نہ بھی آئے تو تب بھی وہ اپنی سمجھ کا قصور سمجھتا ہے اور اس کا ایمان نہیں ڈگمگاتا۔
 

یاز

محفلین
جسم کی بناوٹ میں انسان کوئی خاص نہیں۔

دماغی صلاحیتوں اور ان کے استعمال کے متعلق جیسے جیسے ہمارا علم بڑھ رہا ہے دیگر animals کا انسان سے فرق کم معلوم ہو رہا ہے
یعنی اصل فرق وہی ہے جو نوول ہریری نے لکھا۔
یعنی انسان اس لئے دیگر انواع سے ممتاز ہوا کہ اس نے زبان ایجاد کر لی تھی۔
وہی بندر اور کیلے والی مثال!
 

یاز

محفلین
انسانی زبان اور جانوروں کی زبان ایک ہی continuum پر ہیں یا مکمل مختلف چیزیں ہیں یہ بحث ابھی بھی جاری ہے
میں شاید سمجھا نہیں پایا۔
زبان سے مراد فقط بولی یا آوازیں نہیں،بلکہ کمیونیکیشن سکلز تھا۔ عام زبان میں "سودا بیچنے کی صلاحیت" کہہ لیں۔
نوول ہریری نے اس کی مثال یوں دی تھی کہ ۔۔ "آوازیں تو جانور بھی نکالتے ہیں اور ان سے پیغام رسانی وغیرہ بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن ایک درخت پہ کیلا کھاتے بندر کو نیچے کھڑا بندر جو مرضی آوازیں نکال لے، اس بات پہ قائل نہیں کر سکتا کہ اگر وہ یہ کیلا دوسرے بندر کو دے دے تو اس کو اگلے جہان میں 72 کیلے ملیں گے۔
یہ ہنر فقط انسان یعنی ہومو سیپیئن نے سیکھا، ہومو ایرکٹس نے بھی نہیں"
نوٹ: یہ نوول ہریری کا موقف کاپی کیا ہے۔ میں یا کوئی اور اس سے کتنا متفق یا غیر متفق ہے، یہ الگ بحث۔
 
یعنی اصل فرق وہی ہے جو نوول ہریری نے لکھا۔
یعنی انسان اس لئے دیگر انواع سے ممتاز ہوا کہ اس نے زبان ایجاد کر لی تھی۔
وہی بندر اور کیلے والی مثال!
میں شاید سمجھا نہیں پایا۔
زبان سے مراد فقط بولی یا آوازیں نہیں،بلکہ کمیونیکیشن سکلز تھا۔ عام زبان میں "سودا بیچنے کی صلاحیت" کہہ لیں۔
نوول ہریری نے اس کی مثال یوں دی تھی کہ ۔۔ "آوازیں تو جانور بھی نکالتے ہیں اور ان سے پیغام رسانی وغیرہ بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن ایک درخت پہ کیلا کھاتے بندر کو نیچے کھڑا بندر جو مرضی آوازیں نکال لے، اس بات پہ قائل نہیں کر سکتا کہ اگر وہ یہ کیلا دوسرے بندر کو دے دے تو اس کو اگلے جہان میں 72 کیلے ملیں گے۔
یہ ہنر فقط انسان یعنی ہومو سیپیئن نے سیکھا، ہومو ایرکٹس نے بھی نہیں"
نوٹ: یہ نوول ہریری کا موقف کاپی کیا ہے۔ میں یا کوئی اور اس سے کتنا متفق یا غیر متفق ہے، یہ الگ بحث۔
آپ، میں، نوول ہریری اور باقی سب انسان یہی سودا بیچنے کی صلاحیت ہی استعمال کررہے ہیں۔ لیکن1 اور 72 کیلوں کی مثال میں تعصب کی جھلک نظر آتی ہے۔کیونکہ سودا بیچنے والی صلاحیت کا صرف یہی استعمال تو نہیں۔آج انسانی شعور اورمعاشرہ ترقی کےجس مقام پر کھڑا ہے یہ سب اسی صلاحیت کا کمال ہے۔ اور پیدا کرنے والے نے یہ صلاحیت انسان کو دی باقیوں کو نہیں۔
نوول ہریری کا موقف اگر سچ بھی مان لیں تو تب بھی یہ انسان کے اشرف ہونے کی وجہ ہی بیان کررہا ہے۔
 

یاز

محفلین
آپ، میں، نوول ہریری اور باقی سب انسان یہی سودا بیچنے کی صلاحیت ہی استعمال کررہے ہیں۔ لیکن1 اور 72 کیلوں کی مثال میں تعصب کی جھلک نظر آتی ہے۔کیونکہ سودا بیچنے والی صلاحیت کا صرف یہی استعمال تو نہیں۔آج انسانی شعور اورمعاشرہ ترقی کےجس مقام پر کھڑا ہے یہ سب اسی صلاحیت کا کمال ہے۔ اور پیدا کرنے والے نے یہ صلاحیت انسان کو دی باقیوں کو نہیں۔
نوول ہریری کا موقف اگر سچ بھی مان لیں تو تب بھی یہ انسان کے اشرف ہونے کی وجہ ہی بیان کررہا ہے۔
ہم آپ کی بات سے متفق ہیں قبلہ۔
ہم بھی یہی عرض کر رہے تھے کہ انسان کے اشرف ہونے اور تعمیر و ترقی کے عروج تک پہنچ جانے میں اہم ترین عنصر یہی وصف ٹھہرا۔
رہی 72 کیلوں کی بات، تو تعداد 32 یا 52 کر لی جائے، اور کیلے کی بجائے سیب یا ناشپاتی کہہ لیا جائے۔۔ سب رستے جائیں گے رومہ کو ہی۔
 
رہی 72 کیلوں کی بات، تو تعداد 32 یا 52 کر لی جائے، اور کیلے کی بجائے سیب یا ناشپاتی کہہ لیا جائے۔۔ سب رستے جائیں گے رومہ کو ہی۔
میں نےبھی کسی خاص مذہب کے حوالے سے تعصب نہیں کہا تھا بلکہ عمومی طور پر مذہب کے حوالے سے کہا تھا۔نوول ہریری نے زبان کی وجہ سےباقی تمام ترقی کو چھوڑ کر صرف مذہب پر تنقید کی۔
 

ظفری

لائبریرین
1- کیا اللہ تعالٰی کا انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنانا اور فرشتوں سے سجدہ کروانا انسان کے اشرف المخلوقات ہونے پر دلالت نہیں کرتا؟
میں کوشش کروں گا کہ اگر سوالات مذہبی تناظر میں ہیں تو پھر جوابات بھی دین کو سامنے ہی رکھ کر دیئے جائیں تاکہ کسی ذاتی سوچ اور اس سے منسلک دلیلوں یکسر نظرانداز کرکے صرف اشرف المخلوقات کو مذہی پس منظر میں ہی دیکھا جائے ۔
ني جاعل في الأرض خليفة"، ’’بے شک میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘
یہ آیت انسان کے مقام و منصب کو ظاہر ضرور کرتی ہے، مگر یہاں "اشرف" یعنی سب سے برتر ہونا بطورِ دعویٰ نہیں آیا، بلکہ "خلیفہ" یعنی ذمے داری اٹھانے والا، زمین پر اللہ کے احکام کو نافذ کرنے والا مراد ہے،یعنی خلافت ایک ذمہ داری ہے نہ کہ فضلیت کی سند ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا،"فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ، إِلَّا إِبْلِيسَ"
یہ سجدہ عبادت کا نہیں، بلکہ احترام اور تعظیم کا تھا، جو اللہ کے حکم سے کیا گیا ۔مفسرین جیسے امام رازی، فخرالدین رازی اور امام طبری نے واضح کیا ہے کہ،یہ سجدہ آدم علیہ السلام کی علمی قابلیت (اسماء کی تعلیم) اور امتحان میں کامیابی کے بعد ہوا۔یہ سجدہ آدم کی تخلیق یا مادی وجود کی بنیاد پر نہیں، بلکہ علم و ذمہ داری کی بنیاد پر تھا۔
جب ہم کہتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، یعنی سب سے برتر ، سب سے زیادہ عزت وشرف والا ،تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر انسان بلا شرط اشرف ہے،یا اشرف ہونے کی بنیاد عمل، علم، تقویٰ یا اخلاق ہے؟
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ" ‘‘بے شک تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو‘‘۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ انسان کی حقیقی شرافت اس کے تقویٰ، کردار اور شعور سے ہے، نہ کہ صرف انسان ہونے سے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو بہت بڑی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ ذمہ داری ایک آزمائش ہے ،کوئی انعام نہیں ۔ فرشتوں کا سجدہ کوئی عبادت کے پس منظر میں نہیں تھا ،بلکہ ایک تعظیمی علامت تھی جو انسان کو اس کے علمی صلاحیت کی بنیاد پر پیش کی گئی نہ کہ اس کی کسی جسمانی ساخت کی بنیاد پر ۔قرآن میں لفظی طور پر "اشرف المخلوقات" جیسا کوئی جملہ یا لقب موجود نہیں۔ یہ ایک بعد کی اصطلاح ہے، جسے مفسرین، متکلمین اور فلاسفہ نے قرآن کے مختلف اشارات و مضامین سے اخذ کیا ہے۔ وہاں سے نقل نہیں کیا ہے ۔پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ،
"ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ" (التین: 5)، پھر ہم نے اسے پست ترین حالت میں لوٹا دیا
"إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا" (الأحزاب: 72)، بے شک انسان ظالم اور جاہل ہے۔
كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ" (الأعراف: 179)، یہ (بعض انسان) چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔
جب ہم ان آیتو ں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلو م ہوتا ہے کہ قرآن انسان کو اشرف المخلوقات کے لقب سے نہیں نوازتا ،یہ بعد کے لوگوں کی تعبیر ہے، جو قرآن کے اشارات اور انسانی مقام کے تناظر میں اخذ کی گئی ہے۔
یہ اصطلاح اشرف المخلوقات،نہ قرآن کا لفظ ہے،نہ کسی حدیثِ قدسی کا،بلکہ یہ تعبیری نتیجہ ہے ، جیسے "خلیفۃ اللہ فی الارض"۔ وغیرہ ۔
پھر ایک اہم بات کہ ،
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ۔ اللہ ہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمینوں میں بھی ویسی ہی سات بنائیں۔
اور پھر آگے فرمایا کہ ، يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ ۔اللہ کا حکم ان کے درمیان نازل ہوتا رہتا ہے۔
سات زمینیں اور سات آسمان کوئی شاعرانہ تعبیر نہیں، بلکہ وجودی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔"امرِ الٰہی" کا ان سب میں نزول یہ بتاتا ہے کہ وہ سب محض بےجان جگہیں نہیں ، بلکہ وہاں کوئی نظام، مقصد اور شاید مخلوقات بھی موجود ہیں، ورنہ حکم نازل کرنے کا کیا مفہوم بنتا ہے ۔ جب وہ نظام ، وہ مقصد اور وہ مخلوقات ہمارے مشاہدے میں نہیں تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ان سے برتر ہیں ۔
لہذا انسان کی حقیقی شرافت اس کے تقویٰ، کردار اور شعور سے ہے ۔ اپنے تقوی سے وہ شرف کی معراج کو تو پہنچ سکتا ہے ۔ مگر اس سے وہ اشرف المخلوقات کے مقام پر پہنچ گیا ۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خلق کے لحاظ سے بھی اور تقویٰ کے لحاظ سے بھی فرشتے ہم سے بہت آگے ہیں ۔ انسان کو جو خلق ، اور جو شعور دیا گیا ہے ۔ وہ اس دنیا کی آزمائش کے حوالے سے دیا گیا ہے ۔جہاں وہ اپنے گردو پیش کے لحاظ سے اپنے شرف کی معراج کی بلندی تک کوشش کرسکتا ہے ۔ یہی اس کی آزمائش ہے ۔ یہ اس کا شرف ہے ۔
2- کیا انسانی جسم کی بناوٹ اور انسان کےشعور کے مقابلے میں ابھی تک کوئی ایسی مخلوق دریافت ہوئی ہے جسے سائنسی بنیاد پر انسان سے افضل کہا جاسکے؟
جناب ظفری صاحب !
انسان کی ہاتھ کی انگلیاں، انگوٹھے کی گرفت، دو پاؤں پر چلنے کی صلاحیت (bipedal locomotion)، چہرے کی پیچیدہ اظہار صلاحیتیں ، کسی بھی اور جاندار میں اس مکمل شکل میں موجود نہیں۔دماغ کی ساخت اور نیورل کنکشنز کی پیچیدگی انسان کو سوچنے، سیکھنے، منصوبہ بندی کرنے، اخلاقی فیصلے کرنے اور زبان کے ذریعے خیالات منتقل کرنے کے قابل بناتی ہے۔انسان اب تک واحد مخلوق ہے جواپنے وجود پر شعور رکھتی ہے،موت، وقت، مقصدِ حیات جیسے مجرد خیالات پر غور کر سکتی ہے،مستقبل کی منصوبہ بندی، ماضی کی تحلیل، اور اخلاقی ذمہ داری کا احساس رکھتی ہے۔
مگریہ سب فضیلت کے امکانات ہیں، نہ کہ یقینی برتری۔یہی انسان زمین پر فساد بھی کرتا ہے، ایٹم بم بھی بناتا ہے، ظلم بھی کرتا ہے۔یہی انسان اللہ کا نبی بھی بنتا ہے،۔تو انسان کے لیے "اشرف" کا لقب پیدائشی سند نہیں، بلکہ کسبی شرف ہے ، اور یہ اس نے اپنے شعور، اختیار، اور اخلاق سے حاصل کیا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
جسم کی بناوٹ میں انسان کوئی خاص نہیں۔
زیک کا تبصرہ سائنسی انکساری کا مظہر ہے ۔یعنی یہ ماننا کہ انسان کو غیر مشروط برتری کا دعویٰ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کا جسم شعور کو مؤثر بنانے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔
انسان کا دماغ اب بھی تخلیقی، اخلاقی، علامتی (symbolic) اور تاریخی شعور میں کسی بھی معلوم مخلوق سے نمایاں طور پر آگے ہے۔ ہاں ! یہ بات سچ ہے کہ انسان کا جسم بعض دیگر جانوروں کی نسبت زیادہ طاقتور، زیادہ تیزنہیں ہے ۔ لیکن انسان کا جسم خاص اس لیے ہے کہ وہ دماغ، ہاتھ، زبان اور ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ مل کر شعور کو عملی روپ دینے میں اب تک سب سے زیادہ کامیاب ہے۔ اگرچہ جسمانی صلاحیت کسی جانور میں زیادہ ہو سکتی ہے، مگر انسان کا جسم مجموعی طور پر شعور کے اظہار کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
دماغی صلاحیتوں اور ان کے استعمال کے متعلق جیسے جیسے ہمارا علم بڑھ رہا ہے دیگر animals کا انسان سے فرق کم معلوم ہو رہا ہے
یہ مشاہدہ بعض سائنسی رحجانات کے مطابق صحیح ہوسکتا ہے ۔ مگر پھر بھی ایک مکمل کینکلوژن نہیں ہے ۔ جانوروں میں ایک محدود زبان ، یاداشت اور جذبات کے رحجان ضرور دیکھے گئے ہیں ۔ جس کی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں فرق کم ہے ۔ مگر ختم نہیں ہوا ہے ۔ انسانی زبان میں تجرید، زمانہ، تخیل، اخلاقی بحث کی طاقت ہے ۔ جو کسی اور مخلوق میں ابھی تک نہیں پائی گئی۔انسان فلسفہ، ریاضی، شاعری، مذہب، مذاق، جرم اور معافی جیسے پیچیدہ خیالات رکھتا ہے۔ کوئی جانور ان میدانوں میں نہیں پایا گیا۔شعور کا فرق شاہد سائز کا نہ ہو مگر نوعیت (quality) کا ہوسکتا ہے ۔ اور انسان اب بھی شعور کی نوعیت میں سب سے منفرد اور پیچیدہ مخلوق ہے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
پہلا سوال ہے کہ واقعی تغیر کو ثبات ہے یا سب کچھ بدل بھی جائے تو کہیں نہ کہیں اوورآل مومینٹم کونزروڈ رہتا ہے؟
(آسان زبان میں: کیا سب کچھ بدلنا ایک ٹھوس حقیقت ہے یا اس سے بڑی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ بدلنے سے بھی zoom out کر کے دیکھو تو وہی تصویر ہے؟)

آپ سب اس سے اور سوالات بھی نکال سکتے ہیں!
اک چیز کو تغیر کے ساتھ ثبات نہیں

سورہ رحمن میں فرماتا ہے

کل یوم ھو فی شان

آیت یہی ہے.

وہ ہر روز نئی شان سے ہوتا ہے

خدا کو ثبات ہے اور اسکی ہر بدلتا رنگ جو ہمیں ملتا ہے اس مسلسل تبدیلی کو اپنے اس وقت و ٹائم فریم میں ثبات ہے
 
Top