جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

ظفری

لائبریرین
اگر شخصیت انسان کامل ہو تو پھر اس جملے میں ترمیم کرنا ہوگی۔
دلیل:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ 9:119
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو

قرآن کا اصل حکم حق اور صدق سے وابستہ ہونا ہے، نہ کہ کسی نام سے،قرآن نے یہ نہیں کہا،"کونوا مع فلانٍ أو جماعتٍ"بلکہ یہ کہا ،"کونوا مع الصادقین" ۔ یعنی اصول، معیار اور صفات کے ساتھ وابستہ رہو۔ "صادقین" کوئی ایک شخصیت یا ٹائٹل کا نام نہیں، بلکہ حق پر قائم افراد کی ایک صفاتی پہچان ہے ۔ جو ہر دور میں مختلف افراد یا جماعتوں میں ہو سکتی ہے۔قرآن نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا کہ ،لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔"تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہترین نمونہ ہیں ۔

اگر ہم کسی کو انسانِ کامل قرار دے کر اس کی ہر بات کو غیر مشروط طور پر ماننا شروع کر دیں تو حق و باطل کی پیمائش شخصیت سے ہو جائے گی، اصول سے نہیں ہوگی ۔ اور پھر ہر فرقہ، گروہ، یا قوم اپنے "کامل" کو حق کا معیار بنا لے گا اور یہی فرقہ واریت اور اندھی تقلید کا دروازہ ہے۔
آیت کو ان الفاظ کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ کونوا مع الصادقین کا مطلب ہے۔ ہمیشہ ان کیساتھ رہو جو حق پر ہیں ۔ عدل پر ہوں ، تقویٰ پر ہوں ۔ چاہے وہ تمہاری جماعت سے ہوں کہ نہیں ۔ یہ آیت شخصیت پرستی کی نہیں، اصول پرستی کی دعوت ہے۔
اپنی ترمیم کی فرمائش پر آپ نظرِ ثانی کریں ۔ اور کوشش کریں کہ جہاں سے بھی آپ جو معلومات لے رہے ہیں ۔ پہلے اس کو فہم اور علم کی روشنی میں پرکھیں ۔ پھر کوئی بڑی بات کریں ۔کاپی پیسٹ سے معلومات تو مل جاتی ہے مگر علم نہیں ۔
It's -okay- if- you -don't -have -knowledge, but- having- incomplete -or- incorrect- knowledge- can- be -dangerous
 

الف نظامی

لائبریرین

قرآن کا اصل حکم حق اور صدق سے وابستہ ہونا ہے، نہ کہ کسی نام سے،قرآن نے یہ نہیں کہا،"کونوا مع فلانٍ أو جماعتٍ"بلکہ یہ کہا ،"کونوا مع الصادقین" ۔ یعنی اصول، معیار اور صفات کے ساتھ وابستہ رہو۔ "صادقین" کوئی ایک شخصیت یا ٹائٹل کا نام نہیں، بلکہ حق پر قائم افراد کی ایک صفاتی پہچان ہے ۔ جو ہر دور میں مختلف افراد یا جماعتوں میں ہو سکتی ہے۔قرآن نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا کہ ،لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔"تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہترین نمونہ ہیں ۔

اگر ہم کسی کو انسانِ کامل قرار دے کر اس کی ہر بات کو غیر مشروط طور پر ماننا شروع کر دیں تو حق و باطل کی پیمائش شخصیت سے ہو جائے گی، اصول سے نہیں ہوگی ۔ اور پھر ہر فرقہ، گروہ، یا قوم اپنے "کامل" کو حق کا معیار بنا لے گا اور یہی فرقہ واریت اور اندھی تقلید کا دروازہ ہے۔
آیت کو ان الفاظ کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ کونوا مع الصادقین کا مطلب ہے۔ ہمیشہ ان کیساتھ رہو جو حق پر ہیں ۔ عدل پر ہوں ، تقویٰ پر ہوں ۔ چاہے وہ تمہاری جماعت سے ہوں کہ نہیں ۔ یہ آیت شخصیت پرستی کی نہیں، اصول پرستی کی دعوت ہے۔
اپنی ترمیم کی فرمائش پر آپ نظرِ ثانی کریں ۔ اور کوشش کریں کہ جہاں سے بھی آپ جو معلومات لے رہے ہیں ۔ پہلے اس کو فہم اور علم کی روشنی میں پرکھیں ۔ پھر کوئی بڑی بات کریں ۔ صرف کاپی پیسٹ سے معلومات تو مل جاتی ہے مگر علم نہیں ۔

It's -okay- if- you -don't -have -knowledge, but- having- incomplete -or- incorrect- knowledge- can- be -dangerous
it is ok if you judge , but let first get complete information.

انسان کامل صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہے اور ہمیں اللہ تعالی کا تعارف نبی پاک کے ذریعے ہی ہوا ہے۔

میرا خیال ہے اب آپ پر انسان کامل کا مفہوم واضح ہو چکا ہوگا۔
کم از کم آپ یہ سوال ہی پوچھ لیتے کہ انسان کامل سے مراد کیا ہے۔ میں نے تو پہلے سے فرض کر لیا تھا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ انسان کامل کا اطلاق کس ذات پر ہوتا ہے۔

بہت جلد ججمنٹل ہو جاتے ہیں آپ۔
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
میرا خیال ہے اب آپ پر انسان کامل کا مفہوم واضح ہو چکا ہوگا۔
میرا خیال تھا کہ ان سالوں میں آپ کافی حد تک میچور ہوچکے ہونگے ۔ مگر آپ نے شروع سے ہی ایک ہی ٹانگ پکڑی ہوئی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کہو کھیت کی ، سنے کھلیان کی ۔ میرے کسی بھی مراسلے کی آپ کو ذرا بھی سمجھ نہیں آئی ۔ جو بھی تبصریہ کیا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مراسلہ بھی پورا نہیں پڑھا ۔ مجھے تو معاف رکھو بھائی ۔ میں آپ کو اب کوئی جواب نہیں دوں گا کہ بیس سالوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ بہرحال میرا مراسلہ ان کے لیئے جو غور و فکر کرتے ہیں اور کسی اندھی تقلید کا شکار نہیں ۔ :shameonyou:
 

الف نظامی

لائبریرین
میرا خیال تھا کہ ان سالوں میں آپ کافی حد تک میچور ہوچکے ہونگے ۔ مگر آپ نے شروع سے ہی ایک ہی ٹانگ پکڑی ہوئی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کہو کھیت کی ، سنے کھلیان کی ۔
ذاتی حملہ کرنے کا شکریہ ، میرا نہیں خیال کہ میں نے آپ کو اشتعال دلایا ہو۔

---
حلم کو علم پر مقدم رکھنا چاہیے
عالم کو چاہیے کہ جب وعظ و نصیحت کرے تو حلم اختیار کرے کیوں کہ حلم کے بغیر علم درخت بے ثمر اور نان بے نمک ہے۔
(مرات العاشقین ، ملفوظات خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ ، اردو ترجمہ صاحبزادہ غلام نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ ،صفحہ 136، ناشر سیرت فاونڈیشن لاہور)
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
آپ نے بہت خوب صورت اور جامع انداز میں لکھا اور ابلاغ بھی خوب ہوا ۔ کیا آپ اس پہ بھی روشنی ڈال سکتے ہیں کہ کسی ایک فلسفے/نظریے/لیڈر وغیرہ کے حق میں دوسرے سے دستبردار ہونا کیوں ضروری ہے؟
عمومی طور پر اس طرح کی چیزوں کو دو یا اس سے زیادہ کشتیوں کا سوار کہا جاتا ہے لیکن میں سوچتی ہوں کہ انسانوں کی کہی ہوئی بات سو فیصد سچ ہونے کی پروبیبیلٹی کم ہی ہوتی ہے۔ کلام اللہ میں جو کچھ ہے وہ تو انسانوں کو بنانے والی کی بات ہے۔ جو موضوعات یا گہرائیاں اس میں نہیں۔۔۔میں سمجھتی ہوں کہ اس میں ہمارے پاس مارجن ہے اور ہمیں اس مارجن کو لوگوں کی باتوں میں آ کر کم نہیں کرنا چاہیے جب تک کسی سکول آف تھوٹ کا کلام اللہ سے ڈائریکٹ مخالف معاملہ اور دشمنی و بغض نہ ہو ۔ ہم کیوں مختلف انسانوں کے بنائے گئے سکول آف تھوٹس کو تھوڑا تھوڑا لے کر ایک بہتر انسان نہیں بن سکتے جو عمل میں بہتر ہو انسانوں کے لیے اور خود اپنے دونوں جہانوں کے لیے؟ ہمیں کیوں کسی بھی سکول آف تھوٹ میں جانا چاہیے یوں کہ اس کے ڈرابیکس بھی لیں اور فوائد بھی؟ ہم کیوں کسی ایک کو لیڈر چنیں اور اس کے پیچھے پیچھے چلیں۔ ایک ہی زندگی ہے، کیوں نہ اسے لیڈ کریں کہ کیا ورک کرتا ہے اور کیا نہیں؟
جیسا کہ آپ نے کہا کہ کلام اللہ میں جو کچھ ہے وہ تو انسانوں کو بنانے والے کی بات ہے۔بالکل درست ہے اور قرآن بھی اسی بنیاد پر ہمیں سکھاتا ہے کہ،
"فَبَشِّرْ عِبَادِ ﴿17﴾ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"
میرے بندوں کو خوشخبری دے دو جو باتوں کو غور سے سنتے ہیں اور پھر ان میں سے بہترین بات کی پیروی کرتے ہیں۔"

یعنی ہمیں آزاد سوچنا، غور کرنا، پرکھنا، اور بہترین کو چننا سکھایا گیا ہے۔ قرآن نے ہمیں کسی شخصیت یا مکتبِ فکر کے ساتھ اندھی وابستگی کا حکم نہیں دیا ۔ یہاں وہ نکتہ آتا ہے جس پر کچھ حلقے دو کشتیوں کا سوار کہہ کر تنقید کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس کی دو بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔ پہلی وجہ فکری الجھن ہے ۔یعنی اگر انسان ہر موضوع پر ہر مکتبِ فکر سے الگ الگ بات چننے لگے، تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک جگہ سے فردیت لی، دوسری جگہ سےCommunal تفریق یا اخلاق ، تیسری سے نفیِ عقل ، تو پھر نتیجہ کیا نکلے گا ، فکری تضاد، نفسیاتی انتشار۔
دوسری وجہ ،شناخت اور تسلسل کی ضرورت ۔ ہر اسکول آف تھاٹ صرف "باتوں کا مجموعہ" نہیں بلکہ ایک مربوط نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ اسے مکمل فریم ورک کے طور پر اپنانا آسان ہوتا ہے، جزوی لینا اکثر عملی طور پر بکھراؤ پیدا کرتا ہے۔
آپ کا کہنا ہے کہ ہم کیوں مختلف انسانوں کے بنائے گئے اسکول آف تھاٹس کو تھوڑا تھوڑا لے کر ایک بہتر انسان نہیں بن سکتے؟ یہ ممکن ہے مگر شرط یہ ہے کہ ہر بات کو کلام اللہ کی میزان یعنی قرآن پر تولا جائے۔جذبات یا ذاتی میلان کی بنیاد پر "چناؤ" نہ ہو۔کسی نظریے کی اچھی بات لینے کے بعد بھی، اس کی خرابیوں کو قبول نہ کیا جائے۔ اسی کو امام شافعیؒ نے کہا کہ"ہر بات کو دلیل سے پرکھو، چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو۔"
یہ اچھی بات ہے کہ آپ کی سوچ میں آزاد فکری اور تحقیق کی طلب موجود ہے، جو بہت قیمتی ہے۔ مگر ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر انسان کو زندگی میں کسی ایک فکری مرکز، کسی ایک منہج، کسی ایک متوازن فریم ورک کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاکہ وہ گھومتا نہ رہے، جھولتا نہ رہے۔ہم فکری دریا سے پانی بےشک پئیں مگر اپنی کشتی کو ایک پائیدار اور معیاری سمت میں اتارنے کو بھی نہ بھولیں ۔
 

ظفری

لائبریرین
مجھے تقریبا تین سال قبل ایک سائیکولوجسٹ نے ایک سیشن میں کہا تھا کہ سب سے پہلے تو "دھیان لگانا" بند کریں۔ یعنی یوگا وغیرہ میں جو ہم سانس پر توجہ مرکوز رکھ کے خیالات کو نوٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ خیر اس وقت مجھے بس شک ہی گزرا کہ یہ ٹھیک بھی کہہ رہی ہیں یا نہیں۔۔۔کیونکہ اس کے بظاہر اثرات تو بہت زبردست تھے۔
لیکن شاید پچھلے سال یہ ویڈیو نظر سے گزری۔ آپ سب اسے پوری بے شک نہ دیکھیے گا کہ لمبی ہے مگر اس میں اس انسان کا احوال تھا جس نے یہ سب کچھ ٹرائی کر رکھا ہے اور آخر میں وہ یہی کہتا ہے کہ ذہن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے لانگ ٹرم اثرات بہت برے ہیں ۔ اس کے بعد تو میں نے بالکل ہی چھوڑ دیا۔ ذہن جہاں جاتا ہے جائے اور آتا ہے آئے۔ بس آبزرو کسی حد تک کرتے ہیں کہ زیادہ ایک سمت کو نہ جھک جاوے جس سے نقصان ہو۔ آپ اس بارے میں کیا سمجھتے ہیں؟
یوگا یا مراقبہ بطور ورزش یا attention control کے کچھ پہلو اگر صحیح نیت اور حدود میں ہوں تو طبیعت پر اچھے اثر ڈال سکتے ہیں، مگر روحانی یا برزخی حقیقتوں سے جڑنے کے دعوے (جو ہندو فلسفہ یا نیو ایج تحریک میں عام ہیں)، نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ مسئلہ کہاں پیدا ہوتا ہے ۔ جن سے وہ نتائج پیدا ہوتے ہیں ۔ جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ۔ یعنی لانگ ٹرم برے اثرات۔
یہ modern -spirituality یا new- age -trends کا core- illusion ہے۔ یعنی آپ اپنا دماغ ہیں ، سوچ کو کنٹرول کرو، تو سب کچھ کنٹرول کرو گے"Desire -manifest کرو، Reality بدل جائے گی وغیرہ وغیرہ۔یہ کسی حد تک حقیقت یہ ہےمگر انسان کا ذہن ایک بہتا دریا ہے، نہ کہ کوئی hard- drive اسے مکمل قابو میں رکھنا ممکن نہیں، اور کوشش بھی بعض اوقات تباہ کن ہو جاتی ہے۔انسان "خود" نہیں، بلکہ ایک امانت دار نفس ہے ۔جو خودی کے بجائے ہدایت کا طالب ہے۔ ہم اسلامی تعلیمات کو دیکھیں تو وہ ہمیں متوازی راستہ دکھاتا ہے ۔ وہ کنٹرول پر نہیں بلکہ رجوع پر زور دیتا ہے ۔ذکر، ذہن کوsuppress نہیں کرتا، بلکہ direction دیتا ہے۔نماز، تلاوت، دعا، استغفار ،ذہن کو soften کرتی ہیں، rigid نہیں ۔صبر اور توکل ، خواہش اور خوف کو قابو کرنے کا طریقہ دیتی ہیں۔
میرا اپنا خیال ہے کہ ذہن کو completely قابو میں لانا، suppress کرنا، یا manipulate کرنا ، ایک خطرناک تجربہ بن سکتا ہے۔اس کے بجائے، انسان کو چاہیے کہ وہ ذہن کو observe کرے، مگراسلامی تعلیمات ، فطرت اور عقل کی روشنی میں، نہ کہ صرف کسی اندرونی فلسفے یا illusion کے تحت ۔ لہذا ہمیں ان قسم کی غیر ضروری چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیئے ۔ ویسے بھی ماہرِ نفیسیات کہتے ہیں کہ دماغ کو بہت زیادہ "کنٹرول" کرنے کی کوشش کئی بار anxiety، dissociation، identity -loss جیسے مسائل پیدا کرتی ہے۔deep -meditation یا غیر سائنسی روحانی تجربے بعض افراد میں hallucination یا psychosis جیسے اثرات چھوڑ سکتے ہیں۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ اندر کی دنیا سے چھیڑ چھاڑ نہیں بلکہ رجوع کرنا چاہیے۔ذہن پر زبردستی کا کنٹرول نہیں، اللہ کی طرف متوجہ دل درکار چاہیئے۔
اور سب سے اہم بات جو میری زندگی کا نچوڑ ہے۔ وہ یہ ہے کہ سکون اس دنیا کی چیز ہے ہی نہیں ۔ اس کا اطلاق اس دنیا پر ہے ۔ جو ہم کو بعد میں ملنے والی ہے ۔
 
اگر کوئی انسان کسی شخص، جماعت، یا نظریے سے اتنا اندھا وفادار ہو جائے کہ وہ سچائی کو رد کرنے لگے، تو وہ اس شے کو اپنا معبود بناتا ہے
آپ کے مراسلے سے متفق ہوں۔ بس یہاں اس جملے سے کہیں پڑھا ایک پوائنٹ اور بھی یاد آ گیا جو کہ انسانوں کے ساتھ بہتر ڈیلنگ سے متعلق تھا۔ ایک لکھنے والی خاتون نے لکھا کہ جب تک آپ کا کسی انسان سے ڈائریکٹ مفاد وابستہ نہیں ہوتا، تب تک آپ کو اس کی برائیاں بھی ایسے ہی نظر آ رہی ہوتی ہیں جیسے اچھائیاں۔ لیکن جیسے ہی آپ اس پہ کسی شے کے لیے انحصار کرنے لگتے ہیں یا مکمل مفاد پہ اس سے وابستہ ہوتے ہیں، آپ کا اسکو دیکھنے کا آئنہ ہی ھندلا جاتاہے۔ تبھی اکثر سننے میں آتا ہے کہ بہت بڑا دھوکہ ہوگیا۔۔۔آئی ڈڈنٹ سا اٹ کمنگ وغیرہ۔ سو، مکمل انحصار صرف اللہ پر، انسانوں کو ویسے ہی دیکھیں جیسے وہ دونوں چیزوں کا مجموعہ ہیں اور ان کے اور خود اپنے شر سے بھی خود کو بچانے کے لیے تیار رہیں۔ کیو نکہ نری خیر ہی خیر کب ہوا کرتی ہے۔انسانوں کے معاملے میں یہی ہے کہ جتنا لاپرواہ رویہ رکھیں گے کہ ضروری نہیں سب کچھ اسی سے ہی لینا ہے۔ نہیں تے نہ سہی، اتنا ٹھیک ٹھیک نظر آئے گا کہ چل کیا رہا ہے! :)
 
کچھ کامل انسانی شخصیات کی مثالیں بھی عنایت ہوں؟

پوسٹ سکرپٹ: میں ہر مراسلہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ کمنٹ کیے جا رہی تھی۔ اب پوری لڑی پڑھ لی ہے۔ آپس میں الجھنا بالکل بھی مقصد نہیں۔ یہاں بس ہر مکتب فکر کو حق ہے کہ وہ اپنی بات کہے اور قاری کا فرض ہے کہ وہ اپنی سچائی دریافت فرمائے۔ آپ کی ہر رائے کا احترام ہے اور یقینا اس لڑی کا ماحول خوشگوار رہنے والا ہے۔ :)
 
آخری تدوین:
ایسی توحید تو شیطان بنا دیتی ہے
دیکھ سرکار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا انکار نہ ہونے پائے
شیطان کہنا کتنا آسان ہے نا؟
حالانکہ ججمنٹ تو یہاں بھی ہے!
کوئی یہ کیسے سمجھ سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا امتی، جس کی اللہ سے شناسائی کے لیے ہی اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو چنا اور جن کی اطاعت و محبت کے واضح احکامات کلام اللہ میں موجود ہیں، وہ امتی محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے انکار کرے گا؟ (لوگ کرتے ہوں گے، شاید ان کے تناظر میں آپ نے یہ بات کی ہو)
لیکن پھر بھی یہ بات ہی عجیب لگتی ہے کہ توحید کے ساتھ شیطان کا ذکر کرنا۔۔۔۔حالانکہ توحید یہی ہے کہ معبود کسی کو نہ بنانا۔ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم انسانوں میں ہمارے رہنما تھے اور ان کو ماننے یا نہ ماننے والوں کے لیے توحید کا فلسفہ ہی پیش نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کریں؟ جب معبود ایک ہے ان کا بھی اور ہمارا بھی!
انسان اور شیطان کا فرق اللہ کے حکم سے سرکشی اور پھر ہٹ دھرمی میں ہے۔
 
آخری تدوین:
مگر شرط یہ ہے کہ ہر بات کو کلام اللہ کی میزان یعنی قرآن پر تولا جائے۔جذبات یا ذاتی میلان کی بنیاد پر "چناؤ" نہ ہو۔
بالکل، میرا پیمانہ تو یہی ہے کہ کلام اللہ سے متصادم کیا ہے اور کیا چیز اس مارجن میں ہے جو کلام اللہ نے بھی ہمیں دے رکھا ہے اور کیا شے مکمل مطابقت کلام اللہ سے رکھتی ہے۔
ہر انسان کو زندگی میں کسی ایک فکری مرکز، کسی ایک منہج، کسی ایک متوازن فریم ورک کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاکہ وہ گھومتا نہ رہے، جھولتا نہ رہے
آپ کی بات سے اتفاق ہے تاہم یہاں میرا فیورٹ سوال آتا ہے کہ بھئی لیڈرز وہی تو ہیں جو اپنا فریم ورک خود بناتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی مارجن ہے، ہم بھی بنا رہے ہیں اور اسی لیے یہ ساری تحقیقات کر رہے ہیں کہ چوک کم سے کم ہو۔ انشاءاللہ گھومنا اور جھولنا نہیں رہے گا۔ کیونکہ ہم اندر سے مضبوط بنیادوں پر ہیں، بس یہ ہمارا سوشل بیہیوئیر ہے جناب کہ کسی بھی انسان کو چھوٹا محسوس نہ ہو۔ کیونکہ غرور ایمان کو پاش پاش کر دیتا ہے۔
 

زیک

فوٹوگرافر
شرک کی تعریف اتنی نہ پھیلائیں کہ سب کچھ ہی اس میں فٹ ہو جائے۔ اگر اسلام کے مطابق اسے دیکھنا ہے تو غور سے قرآن پڑھیں
 
Top