جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

ظفری

لائبریرین
ایک اور سوال کچھ دن سے ذہن میں آ رہا تھا یہاں پوچھنے کےلیے:
کچھ کونسیپٹس ہمارے ہاں غلط العام ہیں۔ ان کو شروع کرنے کی ذمہ داری کیا تاریخ میں کسی لکھاری یا حکمران یا کلچر وغیرہ کی ہے؟ مثلا:
1) انسان اشرف المخلوقات ہے۔
2) شوہر مجازی خدا ہے۔
3) عورت ناقص العقل ہے۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اگرچہ یہ یونیورسل ٹروتھس کی طرح معاشروں میں چل رہے ہیں مگر یہ کہا کس نے تھا اور اس نے ثابت کیسے کیا تھا؟ یا یہ اس لیے چل رہے ہیں کہ اس میں معاشرت کا مفاد ہے؟
میں براہ راست سوالات کی طرف آتا ہوں ۔
انسان اشرف المخلوقات ہے ؟
یہ غلط تصور قرآن کی سورہ بنی اسرائیل آیت 70 سے اخذ کیا گیا ہے ۔ آیت کچھ اس طرح ہے کہ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ، وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ، وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا۔
ترجمہ: اور یقیناً ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی، اور انھیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا، اور انھیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا، اور انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی، واضح فضیلت۔

لفظ "کَثِيرٍ" (بہت سی مخلوقات) استعمال ہوا ہے، یعنی سب پر نہیں بلکہ بہت سی مخلوقات پر۔اس میں فرشتے، جنات، دیگر نوری مخلوقات کو کلیتاً شامل نہیں کیا گیا۔بلکہ یہ نسبت عام مخلوقات (جانور، نباتات، جمادات، وغیرہ) سے کی گئی ہے۔"تَفْضِيلًا" کا مطلب ہے "نمایاں فضیلت":یہ فضیلت جسمانی، علمی، اخلاقی، روحانی یا اختیار و ارادہ کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔"كَرَّمْنَا" (عزت بخشی) کا مفہوم ہے:انسان کو عقل، اختیار، ضمیر، زبان، شعور دیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کو ذمہ دار بھی بنایا گیا۔
اگر ہم انسان کے اشرف المخلوقات کی نسبت سے دیکھیں تو یہ اصطلاح قرآن کا براہِ راست لفظ نہیں ہے ۔ بلکہ "كرمنا" اور "فضلنا" جیسی آیات کی تفسیری توسیع ہے۔اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کو بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی گئی ہے۔لیکن قرآن نے یہ نہیں کہا کہ سب پر یا مطلق برتری ہے۔اشرف المخلوقات" کا جملہ قرآن کا نہیں، بلکہ بعد کی علمی و فلسفیانہ روایت کا دیا ہوا ہے۔خاص طور پر فلسفۂ انسان (مثلاً ابن عربی، اقبال) میں یہ تعبیر عام ہوئی۔
شوہر مجازی خدا ہے ۔ ؟
یہ غیر اسلامی اور ثقافتی تصور ہے، جس کی جڑیں برصغیر کی ہندو تہذیب میں ملتی ہیں۔ہندو دھرم میں عورت کو شوہر کی خدمت اور وفاداری میں اس قدر پابند تصور کیا جاتا تھا کہ وہ اسے پتی پرمیشور یعنی "شوہرکو خدا" کا درجہ دینے پر مجبور تھی ۔مسلم معاشروں میں یہ تصور مغلیہ دور اور ہندو مسلم سماجی اختلاط کے بعد در آیا۔کچھ ادبی روایات اور عوامی نثر میں اسے “شوہر مجازی خدا” کہہ کر عام کر دیا گیا۔

عورت ناقص العقل ہے ؟
یہ سوال بہت اہم ہے ۔ اور اس پر بہت سی ابحاث میں اسی محفل پر میں نے حصہ لیا ہے ۔ میری کئی تحاریر بھی مل جائیں گی ۔ شاید دس ، بارہ ، پندرہ سال پرانی ہوں ۔
اسلام میں عورت اور مرد کی گواہی کے حوالے سے سب سے زیادہ زیرِ بحث رہنے والی آیت سورۃ البقرہ کی آیت 282 ہے، جسے عام طور پر یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ "عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف ہے"۔ تاہم یہ تعبیر نہ صرف سیاقِ آیت سے ہٹ کر ہے، بلکہ قرآن کے مجموعی پیغام اور دیگر آیات سے بھی متصادم ہو جاتی ہے۔
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ... وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ" (سورۃ البقرہ: 282)
اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت کے لیے آپس میں قرض کا معاملہ طے کرو تو اسے لکھ لیا کرو... اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنا لو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں تاکہ اگر ایک (عورت) بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔"
یہ آیت "گواہی کی اہلیت" کا عمومی قانون بیان نہیں کر رہی، بلکہ قرض اور لین دین کے ایک مخصوص معاملے کی ہدایت ہے۔
عورت کی گواہی کو دو اس لیے کہا گیا ہے تاکہ ایک دوسری کی مددگار بن سکے۔ قرآن خود کہتا ہے: "أن تضل إحداهما فتذكر إحداهما الأخرى" یہ "عقل کی کمی" نہیں، بلکہ ایک احتیاطی تدبیر ہے۔
اس آیت کا سیاق اُس زمانے کے معاشرتی تناظر سے جڑا ہے جب عورت عمومی طور پر بازار، لین دین، اور معاہدوں سے الگ تھلگ تھی۔ لہٰذا ان معاملات میں ان کی عملی شمولیت کم تھی۔قرآن نے عورت کی شخصیت یا عقل پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ ایک سہارا اور احتیاط کا اصول بیان کیا۔
اسی حوالے سے قرآن کی دیگر آیتوں پر نظر ڈالیں ۔
سورہ نور (آیت 6-9): لعان کے معاملے میں عورت کی گواہی مرد کے برابر رکھی گئی، بلکہ اس سے مرد کی سزا ٹل سکتی ہے۔
سورہ مائدہ (آیت 106): سفر کے دوران وصیت کے گواہ دو افراد رکھے جائیں مرد یا دیگر۔ فقہا کے مطابق یہاں مرد و عورت کی تخصیص نہیں۔
اس آیت کا سیاق اُس زمانے کے معاشرتی تناظر سے جڑا ہے جب عورت عمومی طور پر بازار، لین دین، اور معاہدوں سے الگ تھلگ تھی۔ لہٰذا ان معاملات میں ان کی عملی شمولیت کم تھی۔
قرآن نے عورت کی شخصیت یا عقل پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ ایک سہارا اور احتیاط کا اصول بیان کیا ہے۔
آج کی عورت تعلیمی، معاشی، عدالتی، اور سائنسی میدانوں میں مکمل شرکت کر رہی ہے۔ اس لیے گواہی میں بھولنے کا عمومی مسئلہ نہ صرف ختم ہو چکا ہے بلکہ بعض اوقات عورت مرد سے زیادہ درست اور حساس مشاہدہ فراہم کرتی ہے۔ جدید عدالتی نظام میں گواہی ڈی این اے، فنگر پرنٹس، آڈیو ویڈیو، اور تحریری ثبوت پر بھی قائم ہوتی ہے ۔ صرف انسانی یادداشت پر منحصر نہیں ہو
سورۃ البقرہ کی آیت 282 عورت اور مرد کی گواہی میں تفریق نہیں بلکہ تعاون کو بیان کرتی ہے۔ اس کا اطلاق صرف قرض کے دستاویزی معاہدوں پر ہے۔ عورت کی گواہی کی اہلیت قرآن و سنت کے دیگر مقامات پر مکمل تسلیم شدہ ہے۔ یہ کہنا کہ عورت کی گواہی آدھی ہے، قرآن کی سیاقی ہدایت اور عدل و فطرت کے اصول سے انحراف ہے۔

 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
جہاں تک میں سمجھا ان کی کور فلاسفی در اصل ذہنی یکسوئی کے ذریعے حاصل ہونے والی قوت پر تھی جو انسان کی قوت ارادی پر کافی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
روشنیاں ، ماہ بینی، شمع بینی وغیرہ ، یہ سب کی مشقیں سن ذہنی یکسوئی کی قوت کو جگانے کے لیے ہی تھیں ۔اس عمر میں یہ بہت سحر انگیز حد تک دلچسپ تھا ۔
دراصل تصوف کی دنیا کا انحصار ذہنی یکسوئی کے ذریعے حاصل ہونے والی قوت پر ہی تھا / ہے ۔ جو نہ صرف قوتِ ارادی پر اثر ڈالتی ہے بلکہ نفسی علوم تک رسائی میں بھی مدد دیتی ہے ۔ یہ پریکٹس صرف مسلمان صوفیاء میں ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب میں بھی پائی جاتی ہے ۔ خاص کر بدھ مت میں تو بہت عام ہے۔
 
میں براہ راست سوالات کی طرف آتا ہوں ۔
انسان اشرف المخلوقات ہے ؟
یہ غلط تصور قرآن کی سورہ بنی اسرائیل آیت 70 سے اخذ کیا گیا ہے ۔ آیت کچھ اس طرح ہے کہ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ، وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ، وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا۔
ترجمہ: اور یقیناً ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی، اور انھیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا، اور انھیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا، اور انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی، واضح فضیلت۔

لفظ "کَثِيرٍ" (بہت سی مخلوقات) استعمال ہوا ہے، یعنی سب پر نہیں بلکہ بہت سی مخلوقات پر۔اس میں فرشتے، جنات، دیگر نوری مخلوقات کو کلیتاً شامل نہیں کیا گیا۔بلکہ یہ نسبت عام مخلوقات (جانور، نباتات، جمادات، وغیرہ) سے کی گئی ہے۔"تَفْضِيلًا" کا مطلب ہے "نمایاں فضیلت":یہ فضیلت جسمانی، علمی، اخلاقی، روحانی یا اختیار و ارادہ کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔"كَرَّمْنَا" (عزت بخشی) کا مفہوم ہے:انسان کو عقل، اختیار، ضمیر، زبان، شعور دیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کو ذمہ دار بھی بنایا گیا۔
اگر ہم انسان کے اشرف المخلوقات کی نسبت سے دیکھیں تو یہ اصطلاح قرآن کا براہِ راست لفظ نہیں ہے ۔ بلکہ "كرمنا" اور "فضلنا" جیسی آیات کی تفسیری توسیع ہے۔اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کو بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی گئی ہے۔لیکن قرآن نے یہ نہیں کہا کہ سب پر یا مطلق برتری ہے۔اشرف المخلوقات" کا جملہ قرآن کا نہیں، بلکہ بعد کی علمی و فلسفیانہ روایت کا دیا ہوا ہے۔خاص طور پر فلسفۂ انسان (مثلاً ابن عربی، اقبال) میں یہ تعبیر عام ہوئی۔
شوہر مجازی خدا ہے ۔ ؟
یہ غیر اسلامی اور ثقافتی تصور ہے، جس کی جڑیں برصغیر کی ہندو تہذیب میں ملتی ہیں۔ہندو دھرم میں عورت کو شوہر کی خدمت اور وفاداری میں اس قدر پابند تصور کیا جاتا تھا کہ وہ اسے پتی پرمیشور یعنی "شوہرکو خدا" کا درجہ دینے پر مجبور تھی ۔مسلم معاشروں میں یہ تصور مغلیہ دور اور ہندو مسلم سماجی اختلاط کے بعد در آیا۔کچھ ادبی روایات اور عوامی نثر میں اسے “شوہر مجازی خدا” کہہ کر عام کر دیا گیا۔

عورت ناقص العقل ہے ؟
یہ سوال بہت اہم ہے ۔ اور اس پر بہت سی ابحاث میں اسی محفل پر میں نے حصہ لیا ہے ۔ میری کئی تحاریر بھی مل جائیں گی ۔ شاید دس ، بارہ ، پندرہ سال پرانی ہوں ۔
اسلام میں عورت اور مرد کی گواہی کے حوالے سے سب سے زیادہ زیرِ بحث رہنے والی آیت سورۃ البقرہ کی آیت 282 ہے، جسے عام طور پر یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ "عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف ہے"۔ تاہم یہ تعبیر نہ صرف سیاقِ آیت سے ہٹ کر ہے، بلکہ قرآن کے مجموعی پیغام اور دیگر آیات سے بھی متصادم ہو جاتی ہے۔
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ... وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ" (سورۃ البقرہ: 282)
اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت کے لیے آپس میں قرض کا معاملہ طے کرو تو اسے لکھ لیا کرو... اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنا لو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں تاکہ اگر ایک (عورت) بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔"
یہ آیت "گواہی کی اہلیت" کا عمومی قانون بیان نہیں کر رہی، بلکہ قرض اور لین دین کے ایک مخصوص معاملے کی ہدایت ہے۔
عورت کی گواہی کو دو اس لیے کہا گیا ہے تاکہ ایک دوسری کی مددگار بن سکے۔ قرآن خود کہتا ہے: "أن تضل إحداهما فتذكر إحداهما الأخرى" یہ "عقل کی کمی" نہیں، بلکہ ایک احتیاطی تدبیر ہے۔
اس آیت کا سیاق اُس زمانے کے معاشرتی تناظر سے جڑا ہے جب عورت عمومی طور پر بازار، لین دین، اور معاہدوں سے الگ تھلگ تھی۔ لہٰذا ان معاملات میں ان کی عملی شمولیت کم تھی۔قرآن نے عورت کی شخصیت یا عقل پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ ایک سہارا اور احتیاط کا اصول بیان کیا۔
اسی حوالے سے قرآن کی دیگر آیتوں پر نظر ڈالیں ۔
سورہ نور (آیت 6-9): لعان کے معاملے میں عورت کی گواہی مرد کے برابر رکھی گئی، بلکہ اس سے مرد کی سزا ٹل سکتی ہے۔
سورہ مائدہ (آیت 106): سفر کے دوران وصیت کے گواہ دو افراد رکھے جائیں مرد یا دیگر۔ فقہا کے مطابق یہاں مرد و عورت کی تخصیص نہیں۔
اس آیت کا سیاق اُس زمانے کے معاشرتی تناظر سے جڑا ہے جب عورت عمومی طور پر بازار، لین دین، اور معاہدوں سے الگ تھلگ تھی۔ لہٰذا ان معاملات میں ان کی عملی شمولیت کم تھی۔
قرآن نے عورت کی شخصیت یا عقل پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ ایک سہارا اور احتیاط کا اصول بیان کیا ہے۔
آج کی عورت تعلیمی، معاشی، عدالتی، اور سائنسی میدانوں میں مکمل شرکت کر رہی ہے۔ اس لیے گواہی میں بھولنے کا عمومی مسئلہ نہ صرف ختم ہو چکا ہے بلکہ بعض اوقات عورت مرد سے زیادہ درست اور حساس مشاہدہ فراہم کرتی ہے۔ جدید عدالتی نظام میں گواہی ڈی این اے، فنگر پرنٹس، آڈیو ویڈیو، اور تحریری ثبوت پر بھی قائم ہوتی ہے ۔ صرف انسانی یادداشت پر منحصر نہیں ہو
سورۃ البقرہ کی آیت 282 عورت اور مرد کی گواہی میں تفریق نہیں بلکہ تعاون کو بیان کرتی ہے۔ اس کا اطلاق صرف قرض کے دستاویزی معاہدوں پر ہے۔ عورت کی گواہی کی اہلیت قرآن و سنت کے دیگر مقامات پر مکمل تسلیم شدہ ہے۔ یہ کہنا کہ عورت کی گواہی آدھی ہے، قرآن کی سیاقی ہدایت اور عدل و فطرت کے اصول سے انحراف ہے۔

آپ نے بہت خوب صورت اور جامع انداز میں لکھا اور ابلاغ بھی خوب ہوا ۔ کیا آپ اس پہ بھی روشنی ڈال سکتے ہیں کہ کسی ایک فلسفے/نظریے/لیڈر وغیرہ کے حق میں دوسرے سے دستبردار ہونا کیوں ضروری ہے؟
عمومی طور پر اس طرح کی چیزوں کو دو یا اس سے زیادہ کشتیوں کا سوار کہا جاتا ہے لیکن میں سوچتی ہوں کہ انسانوں کی کہی ہوئی بات سو فیصد سچ ہونے کی پروبیبیلٹی کم ہی ہوتی ہے۔ کلام اللہ میں جو کچھ ہے وہ تو انسانوں کو بنانے والی کی بات ہے۔ جو موضوعات یا گہرائیاں اس میں نہیں۔۔۔میں سمجھتی ہوں کہ اس میں ہمارے پاس مارجن ہے اور ہمیں اس مارجن کو لوگوں کی باتوں میں آ کر کم نہیں کرنا چاہیے جب تک کسی سکول آف تھوٹ کا کلام اللہ سے ڈائریکٹ مخالف معاملہ اور دشمنی و بغض نہ ہو ۔ ہم کیوں مختلف انسانوں کے بنائے گئے سکول آف تھوٹس کو تھوڑا تھوڑا لے کر ایک بہتر انسان نہیں بن سکتے جو عمل میں بہتر ہو انسانوں کے لیے اور خود اپنے دونوں جہانوں کے لیے؟ ہمیں کیوں کسی بھی سکول آف تھوٹ میں جانا چاہیے یوں کہ اس کے ڈرابیکس بھی لیں اور فوائد بھی؟ ہم کیوں کسی ایک کو لیڈر چنیں اور اس کے پیچھے پیچھے چلیں۔ ایک ہی زندگی ہے، کیوں نہ اسے لیڈ کریں کہ کیا ورک کرتا ہے اور کیا نہیں؟
 

ظفری

لائبریرین
یہ سوال سٹرونگلی ذہن میں آیا ہے اور سب کے لیے ہے( لیکن بابا جی اور ظفری صاحب کے لیے خاص بھی) کہ
کسی ایک نظریے (یا اسم/فعل) وغیرہ کو کلئیرلی ریجیکٹ کرنا زندگی میں کیوں ضروری ہے؟
کسی نظریے، تصور یا رویے کو واضح طور پر رد (reject) کرنا ایک تخلیقی عمل کے لیئے ضروری ہے ۔ زندگی میں ہر چیز کو "شاید، کبھی، اگر، مگر" کے دھندلے پردے میں رکھنا انسان کو کنفیوژن، تضاد اور داخلی کمزوری میں مبتلا رکھتاہے۔ جب آپ کسی نظریے کو واضح انداز میں مسترد کرتے ہیں تو آپ خود کو جھوٹے امکانات سے آزاد کرتے ہیں ،آپ کے لیے یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ یہ میرا راستہ نہیں ہے۔
ہر انسان کی شخصیت، اس کےانتخاب سے بنتی ہے اور انتخاب میں رد بھی شامل ہے۔مثلاً اگر میں ظلم کو رد کرتا ہوں، تو میں انصاف پسند بننے کا راستہ کھولتا ہوں۔اگر میں منافقت کو مسترد کرتا ہوں، تو میں سچائی کی طرف جھکتا ہوں۔ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں ہر طرف اطلاعات، خیالات، کلچر، اخلاق، زبان، نفسیات کی بے ہنگم بارش ہے۔اگر ہم رد کرنا نہ سیکھیں تو ہم ہر چیز کے غلام بن جاتے ہیں اور اپنی راہ کھو بیٹھتے ہیں۔
لہذا کسی چیز کو واضع طور پر رد کرنا زندگی میں وقفے کا نام نہیں بلکہ ایک نئی راہ کا آغاز ہے ۔ یہ شعور کی علامت ہے، ضد کی نہیں ۔
 
دراصل تصوف کی دنیا کا انحصار ذہنی یکسوئی کے ذریعے حاصل ہونے والی قوت پر ہی تھا / ہے ۔ جو نہ صرف قوتِ ارادی پر اثر ڈالتی ہے بلکہ نفسی علوم تک رسائی میں بھی مدد دیتی ہے ۔ یہ پریکٹس صرف مسلمان صوفیاء میں ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب میں بھی پائی جاتی ہے ۔ خاص کر بدھ مت میں تو بہت عام ہے۔
مجھے تقریبا تین سال قبل ایک سائیکولوجسٹ نے ایک سیشن میں کہا تھا کہ سب سے پہلے تو "دھیان لگانا" بند کریں۔ یعنی یوگا وغیرہ میں جو ہم سانس پر توجہ مرکوز رکھ کے خیالات کو نوٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ خیر اس وقت مجھے بس شک ہی گزرا کہ یہ ٹھیک بھی کہہ رہی ہیں یا نہیں۔۔۔کیونکہ اس کے بظاہر اثرات تو بہت زبردست تھے۔
لیکن شاید پچھلے سال یہ ویڈیو نظر سے گزری۔ آپ سب اسے پوری بے شک نہ دیکھیے گا کہ لمبی ہے مگر اس میں اس انسان کا احوال تھا جس نے یہ سب کچھ ٹرائی کر رکھا ہے اور آخر میں وہ یہی کہتا ہے کہ ذہن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے لانگ ٹرم اثرات بہت برے ہیں ۔ اس کے بعد تو میں نے بالکل ہی چھوڑ دیا۔ ذہن جہاں جاتا ہے جائے اور آتا ہے آئے۔ بس آبزرو کسی حد تک کرتے ہیں کہ زیادہ ایک سمت کو نہ جھک جاوے جس سے نقصان ہو۔ آپ اس بارے میں کیا سمجھتے ہیں؟
 
جب آپ کسی نظریے کو واضح انداز میں مسترد کرتے ہیں تو آپ خود کو جھوٹے امکانات سے آزاد کرتے ہیں
کیا ایسا نہیں کہ اس طرح عین ممکن ہے کہ سو فیصد امکان بن جائے کہ ہم درست راستے پر نہ ہوں؟ یعنی میں نے ایک پاسیبلٹی سے آنکھیں پھیر لوں مگر ہو سکتا تھا کہ وہی حقیقت ہو یا اس کے اندر حقیقت کے بڑے jigsaw-puzzle کا کوئی پیس ہو؟
آپ کے لیے یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ یہ میرا راستہ نہیں ہے۔
ہر انسان کی شخصیت، اس کےانتخاب سے بنتی ہے اور انتخاب میں رد بھی شامل ہے۔
بالکل۔ یہ تو ز ندگی کے سفر میں پتہ لگتا رہتا ہے کہ کیا میرا راستہ نہیں۔ کچھ چیزوں پہ طبیعت بالکل مائل نہیں ہوتی اور کچھ پہ از سر نو سوچ کر پھر اسی نتیجے یا میلان طبع تک جا پہنچتی ہے۔۔۔
مگر! بات وہی ہے کہ جیسے ایک بند گھڑی بھی دن میں دو بار درست وقت بتاتی ہے۔ ایسے ہر نظریے میں کوئی نہ کوئی شق درست اکثر ہوا کرتی ہے، چاہے یہ پروپورشن کم ہو یا زیادہ ۔ مزید برآں انسان کا دیا ہوا کوئی بھی نظریہ ایسا نہیں کہ اس میں سو فیصد خوبی ہی خوبی ہو اور ڈرا بیک کوئی نہ ہو۔ پھر کسی انصاف پسند کا راستہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ٹاٹ میں یہ سارے مخمل کے پیوند لگا لے؟
لہذا کسی چیز کو واضع طور پر رد کرنا زندگی میں وقفے کا نام نہیں بلکہ ایک نئی راہ کا آغاز ہے ۔ یہ شعور کی علامت ہے، ضد کی نہیں ۔
شعور تو پاسیبلٹیز کھولتا ہے۔۔۔۔یہ کیسا شعور ہے جو ممکنات بند کرتا ہے اور کسی شے پر لے کر جاتا ہے جو عین ممکن ہے آخر میں ساری غلط نکلے؟ کیونکہ اس کوئسچن پیپر کا حل اور درست جواب انسان کے پاس تو ہے نہیں۔۔۔یا ہے؟
کسی نظریے، تصور یا رویے کو واضح طور پر رد (reject) کرنا ایک تخلیقی عمل کے لیئے ضروری ہے
لیکن بہترین کری ایٹویٹی تو انٹر ڈسپلنری جا کر ہی آتی ہے۔۔۔جس میں چیزوں کو ایک املغم کے طور پر اور ان کی حدود سے باہر آپس میں مربوط کر کے سمجھا جاتا ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
مجھے تقریبا تین سال قبل ایک سائیکولوجسٹ نے ایک سیشن میں کہا تھا کہ سب سے پہلے تو "دھیان لگانا" بند کریں۔ یعنی یوگا وغیرہ میں جو ہم سانس پر توجہ مرکوز رکھ کے خیالات کو نوٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ خیر اس وقت مجھے بس شک ہی گزرا کہ یہ ٹھیک بھی کہہ رہی ہیں یا نہیں۔۔۔کیونکہ اس کے بظاہر اثرات تو بہت زبردست تھے۔
لیکن شاید پچھلے سال یہ ویڈیو نظر سے گزری۔ آپ سب اسے پوری بے شک نہ دیکھیے گا کہ لمبی ہے مگر اس میں اس انسان کا احوال تھا جس نے یہ سب کچھ ٹرائی کر رکھا ہے اور آخر میں وہ یہی کہتا ہے کہ ذہن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے لانگ ٹرم اثرات بہت برے ہیں ۔ اس کے بعد تو میں نے بالکل ہی چھوڑ دیا۔ ذہن جہاں جاتا ہے جائے اور آتا ہے آئے۔ بس آبزرو کسی حد تک کرتے ہیں کہ زیادہ ایک سمت کو نہ جھک جاوے جس سے نقصان ہو۔ آپ اس بارے میں کیا سمجھتے ہیں؟
ان صاحب کے مینٹور کا نام پروفیسر احمد رفیق اختر ہے۔
 

باباجی

محفلین
ایک سوال ذہن میں اور آتا ہے، سوچا مناسب زمرے میں پوچھوں:
مثال کے طور پر کوئی انسان کسی حد تک پوزیٹیو ہے، اور اس کے لیے یہ ورک کرتا ہے! تو وہ چیزوں کو کلئیرلی ریجیکٹ کیوں کرے اور بدلاؤ کس بہتری کے لیے لائے جو کہ یقینا کم پوزیٹیو ہوگی؟اور پش شاک اینڈ ٹریگر سے کیا کری ایٹوٹی زیادہ ہوتی ہے، پروکراسٹینیشن کم ہوتی ہے یا کس طرف اشارہ ہے؟
پوزیٹوٹی ہر جگہ ورک نہیں کرتی اسلیے جہاں ورک نا کرے وہاں ریجیکشن ہی کی جگہ بنتی ہے اور لازمی نہیں کہ ہمیشہ ریجیکشن کے اثرات منفی ہوں ۔۔ بدلاؤ کے لیے میں نے جیسے ہیں جہاں ہیں کی اصطلاح اسلیے استعمال کی کہ بعض جگہ بدلاؤ کے لیے پہلے اپنی جگہ بنانی پڑتی ہے تاکہ وہاں رکا جاسکے پھر ہی آپ وہاں بدلاؤ کے عملی اقدامات کرسکتے ہیں اسکی بہت ہی آسان مثال شادی کی ہے اور جگہ مستقل ہو جاتی ہے تو بدلاؤ ناگزیر ہے ۔۔ پش ، شاک اور ٹریگر دوسروں کے یا حالات کے ایکشن ہیں جو آپ کی ذہنی کیفیت کے مطابق آپ سے ری ایکشن کرواتے ہیں منفی بھی اور مثبت بھی یعنی یہاں گرے کچھ نہیں ہے یہ ری ایکشن تخریبی بھی ہوسکتا ہے اور تعمیری بھی ۔۔ پروکراسٹینیشن اپنے آپ میں ایک مفصل موضوع ہے
 
Top