جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

الف نظامی

لائبریرین
یہ کہنا کہ خدا کا شہود حاصل ہوتا ہے جیسا کہ متصوفین کہتے ہیں ، فریب محض ہے۔ خدا ہمارے قوائے عقلیہ و کشفیہ کی دسترس سے بہت ہی بالاتر ہے۔ ان اللہ وراء الوراء ثم وراء الوراء ۔ نہ تو اس کی ذات بلا واسطہ معلوم ہوسکتی ہے اور نہ اس کی صفات۔ پس تصوف کی حقانیت اگر ان کے نزدیک باقی رہ جاتی ہے تو فقط یہ کہ اس سے تزکیہ خلاق میں مدد ملتی ہے۔ شیخ مجدد کو اس مقام پر پہنچ کر یہ امر بتمام و کمال متیقن ہو جاتا ہے کہ ایمان بالغیب (1) ہی حق ہے اور جملہ جزئیات میں اتباع سنت کو ہی ارتقائے روحانی کی آخری منزل ہے نہ کہ حقائق کشفیہ کو خضرِ راہ بنانا۔
حضرت مجدد کا نظریہ توحید ، صفحہ 81

1- ایمان بالغیب کے معنی ہیں بغیر دیکھے ہوئے کی تصدیق۔ غیب شہادۃ کی ضد ہے اور شہادت وہ ہے جسے ہم دیکھ سکیں جس کا مشاہدہ کر سکیں۔ "ایمان بالغیب" ایسے حقائق کے موجود ہونے کا یقین ہے جو نہ ہم کو نظر آ سکتے ہیں ، نہ ہم ان کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ مثلا اللہ ، ملائکہ ، جنت دوزخ وغیرہ۔ اس موقع پر یہ اصطلاح خدا کے وجود کے بارے میں استعمال ہوئی ہے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ڈاکٹر طاہر القادری اپنی کتاب علم اور مصادر علم میں صفحہ 245 پر لکھتے ہیں:

کسی چیز کی حقیقت تک رسائی اس سے متعلقہ علم سے ہی ممکن ہے
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح فرما دیا ہے کہ ہر مضمون / موضوع کا ایک خاص علم ہوتا ہے۔ اس خاص متعلقہ علم کے بغیر اس موضوع پر کلام کرنا گم راہی کا راستہ کھولتا ہے۔ ارشاد فرمایا
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَنٍ مَرِيدٍ (22:3)
اور کچھ لوگ ( ایسے) ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم و دانش کے جھگڑا کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں 0

گویا علم کے بغیر تکرار کرنے کا نتیجہ سرکش شیطان کی پیروی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات، اسماء و افعال، اس کی شان خالقیت اور اس کے دیگر پہلوؤں جیسے ادق اور منفرد موضوع پر ایک ان پڑھ آدمی تو بات ہی نہیں کر سکتا۔ وہ کیا اور کتنی دیر بات کرے گا؟

اس آیت مبارکہ میں ایسے لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ اقدس میں موجود تھے۔ مفسرین نے ان کے نام بھی بتائے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، اسماء و افعال اور تخلیق خلق پر بحث کرتے تھے (مگر ہم یہاں تفسیری پہلو زیر بحث نہیں لائیں گے ) ۔ وہ موت کی حقیقت اور بعث بعد الموت پر بحث کرتے تھے کہ مرنے کے بعد ہڈیاں خاک میں مل جائیں گی تو کس طرح سے شعور ہوگا؟ یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ حشر کب اور کیسے پیدا ہوگا؟ وہ ان معاملات کو رد کرتے اور اللہ تعالیٰ کے ان اوصاف کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑا کرتے تھے۔ ان کے پاس اپنا علم تو تھا ہی نہیں، وہ محض اپنی عقل و فہم سے رائے قائم کرتے تھے۔ قرآن مجید نے ان فلسفیوں کے مجرد رائے سے بحث کرنے کے طریق کار کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا کرنا سرکش شیطان کی پیروی کرنے کے مترادف ہے۔ نیز قرآن مجید نے يجادل فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فرما کر ان کے علم کی نفی کی کہ ان کے پاس علم نہیں ہے اور وہ بغیر علم کے ان امور پر بحث کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بحث کرنے والے اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات، افعال، قدرت خلقِ اولیٰ اور نشاۃ بعد الموت کی نفی جس علم کی بنیاد پر کر رہے تھے اور جسے وہ اپنے طور پر علم سمجھ رہے تھے ، قرآن مجید نے واضح کر دیا کہ وہ علم زیر بحث موضوع تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ اس علم میں موضوع کی صحیح معرفت اس کا احاطہ اور کامل ادراک کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اس علم کی حدود انتہائی محدود ہیں اور اس میں صحت اور ہدایت کا فقدان ہے۔ اس علم کی سمت درست نہ ہونے کے باعث اس میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ اس موضوع پر گفتگو اور بحث کرتے ہوئے کسی صحیح مقام اور نتیجے پر پہنچا جا سکے۔

لہذا جن معلومات ، فہم اور ذہنی تصورات کے تحت وہ اللہ تعالیٰ کی حقیقت کی نفی کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی نفی کردی کہ تم جس شے کو علم سمجھے بیٹھے ہو، یہ علم ہی نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ ایسی صورت بھی ہوتی ہے کہ انسان جسے علم سمجھتا ہے، قرآن اس کی نفی کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ وہ علم ہی نہیں ہے۔ بعض اوقات علم ایک چیز کو جاننے کے لیے کچھ مناسب راہ نمائی کر دیتا ہے مگر اس سے اوپر والے درجے پر اس علم کی قابلیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ راہ نمائی کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ گویا اب اس مرحلہ پر تو اس موضوع و مقام کے لیے وہ علم نہ رہا۔

اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کے اختتام پر پھر یہی فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَبٍ مُّنِيرٍ 22:8
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ (کی ذات و صفات اور قدرتوں) کے بارے میں جھگڑا کرتے رہتے ہیں بغیر علم و دانش کے اور بغیر کسی ہدایت و دلیل کے اور بغیر کسی روشن کتاب کے (جو آسمان سے اتری ہو) 0

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین سے تین چیزوں کی نفی فرمائی:
۱۔ ان کے پاس نہ تو علم ہے۔
۲۔ ان کے پاس نہ ہی ہدایت ہے۔
۳۔ ان کے پاس نہ ہی روشن کتاب ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
کیا ایسا ہے کہ ہم صرف مادی طور پر عمر رسیدہ ہوتے جاتے ہیں مگر ہماری روح کو کتنی عمر زمین پر گزر گئی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟
روح، سول، دماغ جو کچھ بھی کہہ لیں اکثر جسم سے پہلے بوڑھا ہوتا ہے۔ نئی چیزیں سیکھنا، نت نئے تجربات کرنا، اپنے روٹین سے ہٹنا یہ سب عمر کے ساتھ کم ہوتا ہے اور جسمانی صحت کی کمزوری سے قبل۔ کہتے ہیں کہ ریاضی کے ریسرچر کی سب سے زیادہ پروڈکٹیو عمر بیس کی دہائی میں ہوتی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پہلا سوال ہے کہ واقعی تغیر کو ثبات ہے یا سب کچھ بدل بھی جائے تو کہیں نہ کہیں اوورآل مومینٹم کونزروڈ رہتا ہے؟
(آسان زبان میں: کیا سب کچھ بدلنا ایک ٹھوس حقیقت ہے یا اس سے بڑی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ بدلنے سے بھی zoom out کر کے دیکھو تو وہی تصویر ہے؟)

آپ سب اس سے اور سوالات بھی نکال سکتے ہیں!
اگرچہ سوال مکمل طور پر سمجھ نہیں آیا لیکن پھر بھی شرح لوح و قلم کا لیکچر ۲۸ متغیر اور غیر متغیر ، صفحہ238 پڑھ لیجیے۔
 

حماد علی

محفلین
تبصرہ: ہم کہتے تھے کہ انسان کی تجزیاتی ، تجرباتی اور کمپوٹیشنل صلاحیتوں کی حد ہے اور سٹیفن ہاکنگ صاحب نے تو نعوذ باللہ خدا کو بھی محدود کر دیا۔
رگ وید میں ایک بھجن ہے تخلیق کے حوالے سے، پڑھیے مزہ آ جائے گا۔
bpmf51klknvc1.jpeg
 

زیک

مسافر
پہلا سوال ہے کہ واقعی تغیر کو ثبات ہے یا سب کچھ بدل بھی جائے تو کہیں نہ کہیں اوورآل مومینٹم کونزروڈ رہتا ہے؟
(آسان زبان میں: کیا سب کچھ بدلنا ایک ٹھوس حقیقت ہے یا اس سے بڑی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ بدلنے سے بھی zoom out کر کے دیکھو تو وہی تصویر ہے؟)

آپ سب اس سے اور سوالات بھی نکال سکتے ہیں!
اگر سپیس اور ٹائم پر زوم آؤٹ کرنا ہے تو یہ کتاب پڑھیں

 

La Alma

لائبریرین
تو کیا ہر ایک کو اپنی سوچ کی تشنگی پر بھی ہر معاشرے میں جواب دہ ہونا پڑتا رہا ہے؟خاص طور پر ان سوالوں میں جو رائج کردہ بیانیے کو چیلنج کرتے ہیں۔۔۔
اوریجنل سوال تو اب ناپید ہے۔ سوال کو از سرِ نو ایجاد بھی نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ دریافت ہی ہوتا ہے ۔ انسان کو یہ کائنات، دیگر مظاہر اور عقلِ سلیم ایک جواب کی صورت میں ملی ہے۔ پھر انہی جوابوں سے نئے سوالوں نے جنم لیا۔ پھر اُن سوالوں کی صحت پر مزید کئی سوال اٹھے۔ یوں سوال در سوال ، اور جواب در جواب کا سلسلہ چل نکلا۔ کوئی جواب کسی کو مطمئن کر پایا اور کسی ایک کا جواب دوسرے کے لیے سوال بن گیا۔
معاشرے کا بیانیہ اسکی اپنی ایک مجموعی سوچ کی پیداوار ہوتا ہے۔ لازم نہیں کسی فرد کے ذہن میں جو سوال ابھرے وہ لب پر بھی آئے۔ اگر آپکا سوال معاشرے کے نظریات، عقائد اور اصولوں سے متصادم ہے تو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اپنا سوال تو معاشرے کے آگے رکھا جا سکتا ہے لیکن جواب کی تلاش آپ کو خود ہی کرنا ہو گی۔
 
Top