جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

الف نظامی

لائبریرین
یہ کہنا کہ خدا کا شہود حاصل ہوتا ہے جیسا کہ متصوفین کہتے ہیں ، فریب محض ہے۔ خدا ہمارے قوائے عقلیہ و کشفیہ کی دسترس سے بہت ہی بالاتر ہے۔ ان اللہ وراء الوراء ثم وراء الوراء ۔ نہ تو اس کی ذات بلا واسطہ معلوم ہوسکتی ہے اور نہ اس کی صفات۔ پس تصوف کی حقانیت اگر ان کے نزدیک باقی رہ جاتی ہے تو فقط یہ کہ اس سے تزکیہ خلاق میں مدد ملتی ہے۔ شیخ مجدد کو اس مقام پر پہنچ کر یہ امر بتمام و کمال متیقن ہو جاتا ہے کہ ایمان بالغیب (1) ہی حق ہے اور جملہ جزئیات میں اتباع سنت کو ہی ارتقائے روحانی کی آخری منزل ہے نہ کہ حقائق کشفیہ کو خضرِ راہ بنانا۔
حضرت مجدد کا نظریہ توحید ، صفحہ 81

1- ایمان بالغیب کے معنی ہیں بغیر دیکھے ہوئے کی تصدیق۔ غیب شہادۃ کی ضد ہے اور شہادت وہ ہے جسے ہم دیکھ سکیں جس کا مشاہدہ کر سکیں۔ "ایمان بالغیب" ایسے حقائق کے موجود ہونے کا یقین ہے جو نہ ہم کو نظر آ سکتے ہیں ، نہ ہم ان کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ مثلا اللہ ، ملائکہ ، جنت دوزخ وغیرہ۔ اس موقع پر یہ اصطلاح خدا کے وجود کے بارے میں استعمال ہوئی ہے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ڈاکٹر طاہر القادری اپنی کتاب علم اور مصادر علم میں صفحہ 245 پر لکھتے ہیں:

کسی چیز کی حقیقت تک رسائی اس سے متعلقہ علم سے ہی ممکن ہے
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح فرما دیا ہے کہ ہر مضمون / موضوع کا ایک خاص علم ہوتا ہے۔ اس خاص متعلقہ علم کے بغیر اس موضوع پر کلام کرنا گم راہی کا راستہ کھولتا ہے۔ ارشاد فرمایا
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَنٍ مَرِيدٍ (22:3)
اور کچھ لوگ ( ایسے) ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم و دانش کے جھگڑا کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں 0

گویا علم کے بغیر تکرار کرنے کا نتیجہ سرکش شیطان کی پیروی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات، اسماء و افعال، اس کی شان خالقیت اور اس کے دیگر پہلوؤں جیسے ادق اور منفرد موضوع پر ایک ان پڑھ آدمی تو بات ہی نہیں کر سکتا۔ وہ کیا اور کتنی دیر بات کرے گا؟

اس آیت مبارکہ میں ایسے لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ اقدس میں موجود تھے۔ مفسرین نے ان کے نام بھی بتائے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، اسماء و افعال اور تخلیق خلق پر بحث کرتے تھے (مگر ہم یہاں تفسیری پہلو زیر بحث نہیں لائیں گے ) ۔ وہ موت کی حقیقت اور بعث بعد الموت پر بحث کرتے تھے کہ مرنے کے بعد ہڈیاں خاک میں مل جائیں گی تو کس طرح سے شعور ہوگا؟ یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ حشر کب اور کیسے پیدا ہوگا؟ وہ ان معاملات کو رد کرتے اور اللہ تعالیٰ کے ان اوصاف کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑا کرتے تھے۔ ان کے پاس اپنا علم تو تھا ہی نہیں، وہ محض اپنی عقل و فہم سے رائے قائم کرتے تھے۔ قرآن مجید نے ان فلسفیوں کے مجرد رائے سے بحث کرنے کے طریق کار کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا کرنا سرکش شیطان کی پیروی کرنے کے مترادف ہے۔ نیز قرآن مجید نے يجادل فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فرما کر ان کے علم کی نفی کی کہ ان کے پاس علم نہیں ہے اور وہ بغیر علم کے ان امور پر بحث کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بحث کرنے والے اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات، افعال، قدرت خلقِ اولیٰ اور نشاۃ بعد الموت کی نفی جس علم کی بنیاد پر کر رہے تھے اور جسے وہ اپنے طور پر علم سمجھ رہے تھے ، قرآن مجید نے واضح کر دیا کہ وہ علم زیر بحث موضوع تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ اس علم میں موضوع کی صحیح معرفت اس کا احاطہ اور کامل ادراک کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اس علم کی حدود انتہائی محدود ہیں اور اس میں صحت اور ہدایت کا فقدان ہے۔ اس علم کی سمت درست نہ ہونے کے باعث اس میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ اس موضوع پر گفتگو اور بحث کرتے ہوئے کسی صحیح مقام اور نتیجے پر پہنچا جا سکے۔

لہذا جن معلومات ، فہم اور ذہنی تصورات کے تحت وہ اللہ تعالیٰ کی حقیقت کی نفی کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی نفی کردی کہ تم جس شے کو علم سمجھے بیٹھے ہو، یہ علم ہی نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ ایسی صورت بھی ہوتی ہے کہ انسان جسے علم سمجھتا ہے، قرآن اس کی نفی کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ وہ علم ہی نہیں ہے۔ بعض اوقات علم ایک چیز کو جاننے کے لیے کچھ مناسب راہ نمائی کر دیتا ہے مگر اس سے اوپر والے درجے پر اس علم کی قابلیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ راہ نمائی کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ گویا اب اس مرحلہ پر تو اس موضوع و مقام کے لیے وہ علم نہ رہا۔

اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کے اختتام پر پھر یہی فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَبٍ مُّنِيرٍ 22:8
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ (کی ذات و صفات اور قدرتوں) کے بارے میں جھگڑا کرتے رہتے ہیں بغیر علم و دانش کے اور بغیر کسی ہدایت و دلیل کے اور بغیر کسی روشن کتاب کے (جو آسمان سے اتری ہو) 0

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین سے تین چیزوں کی نفی فرمائی:
۱۔ ان کے پاس نہ تو علم ہے۔
۲۔ ان کے پاس نہ ہی ہدایت ہے۔
۳۔ ان کے پاس نہ ہی روشن کتاب ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
کیا ایسا ہے کہ ہم صرف مادی طور پر عمر رسیدہ ہوتے جاتے ہیں مگر ہماری روح کو کتنی عمر زمین پر گزر گئی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟
روح، سول، دماغ جو کچھ بھی کہہ لیں اکثر جسم سے پہلے بوڑھا ہوتا ہے۔ نئی چیزیں سیکھنا، نت نئے تجربات کرنا، اپنے روٹین سے ہٹنا یہ سب عمر کے ساتھ کم ہوتا ہے اور جسمانی صحت کی کمزوری سے قبل۔ کہتے ہیں کہ ریاضی کے ریسرچر کی سب سے زیادہ پروڈکٹیو عمر بیس کی دہائی میں ہوتی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پہلا سوال ہے کہ واقعی تغیر کو ثبات ہے یا سب کچھ بدل بھی جائے تو کہیں نہ کہیں اوورآل مومینٹم کونزروڈ رہتا ہے؟
(آسان زبان میں: کیا سب کچھ بدلنا ایک ٹھوس حقیقت ہے یا اس سے بڑی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ بدلنے سے بھی zoom out کر کے دیکھو تو وہی تصویر ہے؟)

آپ سب اس سے اور سوالات بھی نکال سکتے ہیں!
اگرچہ سوال مکمل طور پر سمجھ نہیں آیا لیکن پھر بھی شرح لوح و قلم کا لیکچر ۲۸ متغیر اور غیر متغیر ، صفحہ238 پڑھ لیجیے۔
 

حماد علی

محفلین
تبصرہ: ہم کہتے تھے کہ انسان کی تجزیاتی ، تجرباتی اور کمپوٹیشنل صلاحیتوں کی حد ہے اور سٹیفن ہاکنگ صاحب نے تو نعوذ باللہ خدا کو بھی محدود کر دیا۔
رگ وید میں ایک بھجن ہے تخلیق کے حوالے سے، پڑھیے مزہ آ جائے گا۔
bpmf51klknvc1.jpeg
 

زیک

مسافر
پہلا سوال ہے کہ واقعی تغیر کو ثبات ہے یا سب کچھ بدل بھی جائے تو کہیں نہ کہیں اوورآل مومینٹم کونزروڈ رہتا ہے؟
(آسان زبان میں: کیا سب کچھ بدلنا ایک ٹھوس حقیقت ہے یا اس سے بڑی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ بدلنے سے بھی zoom out کر کے دیکھو تو وہی تصویر ہے؟)

آپ سب اس سے اور سوالات بھی نکال سکتے ہیں!
اگر سپیس اور ٹائم پر زوم آؤٹ کرنا ہے تو یہ کتاب پڑھیں

 

La Alma

لائبریرین
تو کیا ہر ایک کو اپنی سوچ کی تشنگی پر بھی ہر معاشرے میں جواب دہ ہونا پڑتا رہا ہے؟خاص طور پر ان سوالوں میں جو رائج کردہ بیانیے کو چیلنج کرتے ہیں۔۔۔
اوریجنل سوال تو اب ناپید ہے۔ سوال کو از سرِ نو ایجاد بھی نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ دریافت ہی ہوتا ہے ۔ انسان کو یہ کائنات، دیگر مظاہر اور عقلِ سلیم ایک جواب کی صورت میں ملی ہے۔ پھر انہی جوابوں سے نئے سوالوں نے جنم لیا۔ پھر اُن سوالوں کی صحت پر مزید کئی سوال اٹھے۔ یوں سوال در سوال ، اور جواب در جواب کا سلسلہ چل نکلا۔ کوئی جواب کسی کو مطمئن کر پایا اور کسی ایک کا جواب دوسرے کے لیے سوال بن گیا۔
معاشرے کا بیانیہ اسکی اپنی ایک مجموعی سوچ کی پیداوار ہوتا ہے۔ لازم نہیں کسی فرد کے ذہن میں جو سوال ابھرے وہ لب پر بھی آئے۔ اگر آپکا سوال معاشرے کے نظریات، عقائد اور اصولوں سے متصادم ہے تو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اپنا سوال تو معاشرے کے آگے رکھا جا سکتا ہے لیکن جواب کی تلاش آپ کو خود ہی کرنا ہو گی۔
 

ظفری

لائبریرین
کیا کوئی انسان جس نے زندگی بھر رشتوں میں بہتری ہی کمائی ہو اس کو بھی وقت گزرنے کے بعد یہی احساس ہوگا یا وہ سوچےگا کہ مال کچھ کما لیتا تو آج کچھ بہتر حالوں میں ہوتا اور پیچھے رہنے والوں کو چھوڑ کر جاتا؟ یعنی کیا وقت گزرنے کے ساتھ انسان پہ اس چیز کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے جو اس سے چھوٹ چکی ہوتی ہے یا نہیں؟
آج کی دنیا میں رشتوں میں بہتری صرف مال سے ہی ممکن ہے ۔ ایسا ہونا ممکن نہیں کہ انسان صرف اخلاقی بنیادوں پر ہی رشتے استوار کرے۔ مگر آپ کے سوال کو مدِنظر رکھ کر اگر جواب دیا جائے تو وہ ایک مکمل انسانی فطرت ، مزاج ، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر ہوگا ۔
یہ بات صحیح ہے کہ وقت گذرنے کیساتھ انسان کو ان چیزوں کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے ۔ جو اس سے ماضی میں یا تو نظرانداز ہوئیں یا پھر اس کی اہمیت کو خاص نہیں سمجھا گیا ۔ انسان کی فطرت ہی کچھ ایسی کہ وہ حصول شدہ چیزوں سے زیادہ دیر رغبت نہیں رکھ پا تا مگر جو چیز اسے حاصل نہ ہو ۔ اس کی کمی وہ ضرور محسوس کرتا ہے ۔
اگر انسان نے زندگی بھر رشتوں میں بہتری کمائی ہو ، رشتوں کو سنوارا ہو ۔ خلوص ، محبت ، یگانگت ، قربانی و ایثار میں زندگی گذاری ہو ۔ تو عموماً وہ ایک مطمئن زندگی کے احساس سے سرشار ہوتا ہے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ اسے روحانی یا قلبی سکون حاصل ہوجاتا ہے ۔ لیکن اگر مالی وسائل کی وجہ سے اس کے پیارے زندگی میں تنگی کا شکار رہیں تو یہ کہہ جاسکتا ہے کہ دل میں یہ خیال آسکتا ہے کہ کچھ مال کما لیتا تو ان کے لیئے آسانیاں پیدا ہوجاتیں ۔ مگر یہ خیال کسی دکھ یا پچھتاوے کی علامت نہیں ہوتا ۔ بلکہ ایک احساسِ ذمہ داری اور خلوص پر مبنی ہوتا ہے ۔ احساس باور کرواتا ہے کہ ایک متوازن زندگی گذاری جاسکتی تھی ۔ مگر انسان اس میں تمیز نہیں کرپایا ۔ مگر ہر احساس پچھتاوا بھی نہیں ہوتا ۔ کچھ احساسات فہم اور شعور کی پختگی سے مشروط ہوتے ہیں ۔ اور ہر کوئی اپنے فہم اور شعور میں تکمیل کی صلاحیت نہیں رکھتا ( میرا خیال ہے کہ اس بات پر بھی ہم بحث کر رہے ہیں ) ۔
انسان وقت کے ساتھ اُن پہلوؤں کی طرف دیکھتا ہے جو ادھورے رہ گئے، چاہے وہ مال ہوں یا مواقع۔ لیکن جس نے سچی نیت اور خلوص کے ساتھ رشتے نبھائے ہوں، وہ پچھتاتا نہیں ،بس خواہش رکھتا ہے کہ کاش سب کچھ مکمل ہو پاتا۔ اور یہی انسان کی اصل خوبصورتی ہے: ادھورا ہو کر بھی مکمل نظر آنا۔اللہ نے جس پلان کے تحت یہ دنیا بنائی ہے ۔ اس میں یہ نامکمل چیزیں اس پلان کا خاص حصہ ہیں ۔ ایک مکمل اور امن پسند دنیا کا حصول یہاں ممکن نہیں ۔

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا
 

ظفری

لائبریرین
میرا تیسرا سوال: Less-wrong ہونے سے شاید سب سے پہلا احساس یہی ہوتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ پھر وہ لوگ جو فرسودہ معاشرتی اقدار پر ایقان کی حد تک کاربند ہوتے ہیں ان کے ساتھ کیسے چلا جائے یا سقراط کی طرح زہر پینا اور انبیاء کی طرح شہر بدر یا قتل ہونا ہی ہر less-wrong کا absolute-right-in-their-mind کی طرف سے مقدر ہے؟
"میں کچھ نہیں جانتا "یہ جملہ دراصل سقراطی شعور کی معراج ہے۔جب انسان اپنے زعمِ علم سے باہر نکلتا ہے، تو پہلا دروازہ یہی کھلتا ہے اور پھر اپنے less-wrong ہونے کا انکشاف ہوتا ہے ۔
یا یوں کہہ لیں کہ یہ "less-wrong" ہونے کی شروعات ہے، اور پھر بہت سارے illusion اور inherited- beliefs یہاں سے ٹوٹنے لگتے ہیں۔مگر یہی مقام دوسروں کے لیے خطرناک لگتا ہے، خاص طور پر اُن کے لیے جو سماجی ڈھانچے کی خود ساختہ اور غیر لچکدار اینٹوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا ۔
Less-wrong ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ لازماً مارے جائیں یا مسترد کیے جائیں گے-مگر ہاں، یہ راہ آسان نہیں۔کبھی سقراط کی طرح زہر پینا پڑتا ہے، کبھی انبیاء کی طرح ہجرت،اور کبھی صرف خاموشی۔
مگر جو سچ کا ذائقہ چکھ لیتا ہے، وہ کسی اور چیز سے راضی نہیں رہتا۔اور شاید یہی اس کی سب سے بڑی "جزا" بھی ہے۔ یہ تاریخ کا ایک تسلسل ہے کہ سچ بولنے والے کو رد کیا جاتا ہے ۔ پھر وہی سچ صدیوں بعد اصول بن جاتا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
یہاں سوالات بہت ہوگئے ہیں ۔ سوچ رہا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں ۔ مگر پھر یہ سوچتا ہوں کہ میری کسی بات سے مذید کوئی سوال پیدا ہوا ہو تو اس کے جواب دوں ۔ مگر سارے سوالات ہی بہت دلچسپ ہیں ۔ جی کرتا ہے ۔ سب پر طبع آزمائی کی جائے ۔ :thinking:مگر ہائے وقت کی قلت ۔۔۔ :idontknow:
 
یہاں سوالات بہت ہوگئے ہیں ۔ سوچ رہا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں ۔ مگر پھر یہ سوچتا ہوں کہ میری کسی بات سے مذید کوئی سوال پیدا ہوا ہو تو اس کے جواب دوں ۔ مگر سارے سوالات ہی بہت دلچسپ ہیں ۔ جی کرتا ہے ۔ سب پر طبع آزمائی کی جائے ۔ :thinking:مگر ہائے وقت کی قلت ۔۔۔ :idontknow:
سبھی سوالات صرف انہی کے لیے نہیں جن کے سوال سے وہ سوال پیدا ہوا۔ ہمیں خوشی ہوگی اگر سب اپنی اپنی دانست میں میکسمم سوالات پر طبع آزمائی کر سکیں کیونکہ محفل جیسی ڈائیورسٹی اور اوپن ڈسکشن مجھے دوبارہ دور دور تک نصیب ہوتی نظر نہیں آ رہی اور ایسے سوالوں کے جوابات کا مزا ڈائیورس بیک گراؤنڈ کے لوگوں سے لینے میں ہی ہے۔ چونکہ اس لڑی میں میرے ہر مراسلے میں ہی ایک سوال عیاں یا نہاں ہوتا ہے سو اس مراسلے میں پوچھنا چاہوں گی کہ فی زمانہ وقت کی قلت اس قدر محسوس کیوں ہوتی ہے جب کہ زیادہ تر لائف پراسیسز تیز تر ہو چکے ہیں اور ہمیں تقریبا ہر کام کے لیے پہلے ادوار سے برعکس ٹیکنالوجیکل مدد بھی میسر ہوتی ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
یہ آیت اللہ تعالی کے بارے میں معلوم ہوتی ہے۔ تو کیا حقیقت اللہ تعالی ہی ہیں اور ہم سب ایک perception ہیں؟
قرآن اللہ تعالیٰ کی ذات ِصفات کے بارے میں واضع بیان کرتا ہے کہ اللہ واحد ہے، یکتا ہے، بے مثل ہےمخلوق سے جدا ہے (لیس كمثله شيء)کوئی شے اس جیسی ہے ہی نہیں، نہ وہ مخلوق میں حلول کرتا ہے اور نہ مخلوق اُس کا حصہ ہے۔ لہٰذا، ہم سب صرف ادراک یا illusion نہیں ہیں، بلکہ ہم مخلوق ہیں ۔ ایسی مخلوق جو ارادہ اور اختیار رکھتی ہے ۔ مخلوق کا ایک مستقل وجود ہے، مگر وہ اللہ کی محتاج ہے۔
جہاں تک perception کاتعلق ہے ۔ یہ تصور ابنِ عربی جیسے فلسفی نما صوفیوں میں پایا جاتا ہے ۔ جسے وحدت الوجود کہتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ "الحق" ہے، ( یہ اصل حقیقت ہے ) ہم مخلوق ہیں ۔( حقیقت کا سایہ یا محدود عکس ) ہم "perception" نہیں، بلکہ خَلق ہیں، لیکن ہمارا ادراک اور شعور محدود ہے۔ اللہ کو مکمل طور پر نہ عقل پا سکتی ہے، نہ نگاہ ، مگر وہ ہر شے کو جانتا ہے۔
 

زیک

مسافر
فی زمانہ وقت کی قلت اس قدر محسوس کیوں ہوتی ہے جب کہ زیادہ تر لائف پراسیسز تیز تر ہو چکے ہیں اور ہمیں تقریبا ہر کام کے لیے پہلے ادوار سے برعکس ٹیکنالوجیکل مدد بھی میسر ہوتی ہے؟
سچ یہ ہے کہ وقت کی قلت بالکل نہیں ہے۔ میں جو روز کرنا چاہتا ہوں کر لیتا ہوں۔ ترجیحات البتہ ہیں اس لئے یہ ہوتا ہے کہ کام فہرست میں پچاس یا سو نمبر پر تھا اس کا وقت نہیں ملا۔ اسے وقت کی قلت قرار دینا میری دانست میں صحیح نہیں
 

ظفری

لائبریرین
فی زمانہ وقت کی قلت اس قدر محسوس کیوں ہوتی ہے جب کہ زیادہ تر لائف پراسیسز تیز تر ہو چکے ہیں اور ہمیں تقریبا ہر کام کے لیے پہلے ادوار سے برعکس ٹیکنالوجیکل مدد بھی میسر ہوتی ہے
بظاہر سوال بہت سادہ معلوم ہوتا ہے ۔ مگر اتنا سادہ نہیں ۔ ٹیکنالوجی نے ہماری رفتار تو بڑھا دی،لیکن اس رفتار کے پیچھے نئے مطالبات، نئے دباؤ اور مسلسل مصروفیت نے ہمیں ایسے چکر میں ڈال دیا ہے جہاں کچھ بھی مکمل نہیں ہوتا مگر سب چل رہا ہوتا ہے ۔ پہلے ایک وقت میں ایک کام ہوتا تھا -اب ایک وقت میں دس کام۔ یہ دراصل Attention- Fragmentation کی وجہ ہے ۔
جہاں ہر لمحہ ایک نیا notification، ہر وقت کوئی نیا content، ایک ساتھ کئی ا سکرینیں، کئی کام، کئی سوچیں ،یہ سب ہمیں "ہمہ وقت مصروف" تو رکھتے ہیں، مگر کسی بھی کام میں مکمل "موجود" نہیں ہونے دیتے۔یہی "عدمِ حضوری" وقت کے "کم لگنے" کا اصل سبب بنتی ہے ۔ دوسروں کی توقعات ، سوشل میڈیا کے دباؤ، سب کچھ survival- race میں گزر رہا ہے۔چند لمحے جو واقعی ہمارے ہوتے ہیں۔ وہ یا تو تھکن میں گزرتے ہیں، یا ہم اُن لمحوں کو کسی distraction پر قربان کر دیتے ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہاں انسانی علم کے ذرائع پر بات ہوئی ان تبصروں اور سوال جواب کو دیکھ کر ایک شعر ذہن میں تازہ ہوا۔اور کچھ بکھرے ہوئے خیالات ۔

ہستی و نیستی، از دیدن و نا دیدن من
چہ زمان و چہ مکاں ،شوخیِ گفتار منست

کسی شی کا ہونا یا نہ ہونا ۔ میرے اس شی کو دیکھنے یا نہ دیکھنے سے مشروط ہے ۔
یہ زمان اور یہ مکان کیا ہیں (جو موجودات کے مطلق وجودی خواص کی حد بندی متعین کرتے ہیں ) میری انداز بیان کی شوخی سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔
ڈیکارٹ کا معروف مقولہ ہے ۔آئی تھنک ، دئیر فور آئی ایکزسٹ ۔ یعنی اس کے نزدیک انسانی شعور و تصور کی طاقت ہی اس کے حقیقی وجود کی سب سے قوی دلیل ہے ۔ کو ئی بھی علم نفس مدرک(پرسیونگ مائنڈ) کے اپنے وجود سے مشروط ہے ۔اگر آپ ایک شعوری وجود رکھتے ہیں تو آپ کچھ علم حاصل بھی کر سکتے ہیں ۔ ایک پتھر خود اپنے وجود کے احساس سے عاری ہے تو وہ ہمارے لیے تو موجود ہے لیکن خود اپنے لیے معدوم مطلق۔علم کا حقیقی ذریعہ انسان نفس مدرک ہے جس پر کوئی بھی حقیقی عمل اس کی قوتِ تصور اور احساسات کے مراتب کی بقدر اس پر آشکار ہوتا ہے ۔جتنی گہرائی انسانی نفس کے باطنی شعور میں ہو گی اسی قدر اس کے علم میں ایقان کے درجہ ہو گا۔ فکر ، سوچ ،ادراک ، ان تمام ناموں سے قوت متخیلہ انسان کے مشاہدات کی بنیادوں میں کارفرما ہوتی ہے اور انہی مشاہدات و معارف سےوسعت پاتی ہے، مشاہدات کو جوں کا توں تسلیم کرنے میں مزاحمت پیش کرتی ہے یہی قوت مشاہدات پر سوال اٹھاتی ہے اور یہی اس کا جواب دیتی ہے اور اپنے قائم شدہ نظریات میں بہتری لاتی ہے ۔بالفاظ دیگر یہ قوت ہمارے مشاہدات سے حاصل کردہ بظاہر حقیقت نظر آنے والے علوم کی تصدیق یا تکذیب پر نگہبان ہوتی ہے ۔یہی یقینی علم کا عمیق ترین ذریعہ ہے۔یہاں ظاہری مشاہدات کی حدوں سے پرے کچھ باطنی طوفان بھی برپا ہوتے ہیں جو ادراک کرنے والا نفس اپنی قوت انجذاب کی استطاعت کے بقدر حآصل کرتا ہے ۔

میں اپنے تخیل سے ایک ایسے حیوان کا نقش اپنے ذہن میں گھڑ سکتا ہوں جو کسی جنگل میں نہ پایا جاتا ہو نہ پایا گیا ہو۔میں اپنے نطق و بیان سے اس کا نقش کسی قاری اور سامع کے ذہن میں تمثیل کے سہارے سے بڑی حد تک متتقل بھی کر سکتا ہوں لیکن وہ حیوان کسی جنگل میں معدوم ہو گا جبکہ ہمارے اذہان کے پردوں میں موجود ہو گا۔یعنی جب ہم خارجی دنیا کی بات کریں گے تو وہ حیوان معدوم سمجھا جائے گا اور جب ہم اپنی تخیل کی سیماؤں کی قیودمیں مقفل ہوں گے تو اس مخلوق کو جولانگاہ میں کرتب دکھاتا ہوادیکھ سکیں گے۔ڈیکارٹ کے مقولے کے مطابق انسان نے اپنے وجود کو سوچ کی قوت سے محسوس تو کر لیا لیکن کیا انسان خود کسی زیادہ حقیقی وجود کی قوت متخیلہ کا تصور تو نہیں جو ہمیں کسی اعلی تر حفظ مراتب کے نظام سے آشنا کرا سکے؟

(غالب نے کہا ۔ ہرچند ہو مشاہدہء حق کی گفتگو ۔بنتی نہیں ہے بادہء ساغر کہے بغیر ۔)یعنی آپ اپنے قلبی واردات کو منتقل کرنے میں کیفیاتی تمثیل کے محتاج ہوے ہیں ۔سوچ کا گھوڑا سرپٹ دوڑتے ہوئے کسی بھی سمت نکل سکتا ہے اور درا صل اس کا یہی کام ہے لیکن اس کی سمت متعین کرنا سب سے بڑا سوال ہے جو انسان کو شعور کی آنکھ کھلنے پر درپیش ہوتا ہے اور یہی سوال انسان کے معاشرتی اور اخلاقی وجود کی تشکیل کے راستے کھولتا ہے۔
اہل تصوف خواب میں واقع موجود اشیاء کی مثال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک آپ سو رہے ہیں آپ کا آپ کے لیے خواب مکمل حقیقت ہوتا ہے ۔ صرف نیند سے بیدار ہونا ہی آپ کو آپ کے خؤاب کی غیر حقیقی ہونے کا یقین دلاتاہے ۔
خواجہ میر درد کہتے ہیں ۔
وائے نادانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا ۔
 
Top