کیا انسان خواب میں کوئی ایسا چہرہ دیکھ سکتا ہے جو اس نے جاگتی آنکھوں سے کبھی نہ دیکھا ہو؟ کیا انسان ایسا نظام ، قوانین اور صفات محسوس کر سکتا ہے جو کہ اس کی دنیا اور تمام تر مخلوقات سے بالاتر ہوں؟
روح، سول، دماغ جو کچھ بھی کہہ لیں اکثر جسم سے پہلے بوڑھا ہوتا ہے۔ نئی چیزیں سیکھنا، نت نئے تجربات کرنا، اپنے روٹین سے ہٹنا یہ سب عمر کے ساتھ کم ہوتا ہے اور جسمانی صحت کی کمزوری سے قبل۔ کہتے ہیں کہ ریاضی کے ریسرچر کی سب سے زیادہ پروڈکٹیو عمر بیس کی دہائی میں ہوتی ہے۔
میں نے حال ہی میں ایک کتاب پڑھی Sophie's World جس سے اس لڑی کو بنانے میں بھی تحریک ملی اور یہ نکتہ بھی وہاں موجود تھا کہ ہم صرف مادی طور پر ہی بوڑھے ہوتے ہیں اور روح خود کو بچپن میں ہی محسوس کرتی ہے یا اسے یقین نہیں آتا کہ اسے بوڑھے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم آپ کا اٹھایا گیا نکتہ بھی دلچسپ ہے۔ خاص طور پر ریسرچر کی پروڈکٹو عمر کے متعلق میں نے یوں نہیں سوچا تھا، امید ہے کہ اب کمر کسنی پڑے گی۔ اس میں سے سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس پراسیس کو کونشئسلی ریورس کر سکتے ہیں؟ ہمیشہ نئے دوست بنانے، نئے راستوں پہ جانے، نت نئے مشاغل اپنانے/تجربات کرنے، روٹین سے ہٹنے وغیرہ سے یا کچھ بھی کر لیں یہ ہو کر رہتا ہے؟ کیونکہ یہ نیا پن بھی کہیں نا کہیں مجھ جیسے دشمنان روٹین کی عادت ہی بن جایا کرتی ہے؟
کیا کوئی ایسا لٹریچر موجود ہے جہاں لکھی ہوئی شکل میں کچھ ایسی ویلیوز کا احاطہ ہو جو یونیورسل ہیں؟ یا ویلیو سسٹم پہ ہمیشہ کلچر اور دیگر dividing factors کی چھاپ رہی ہے؟
کچھ کچھ تقابل ادیان کا مطالعہ کیا تھا کسی دور میں مگر حافظے میں specificity کافی کم رہ گئی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ انہوں نے آغاز میں The One جتنی بار بھی کہا خدا کو کہا جو سب سے پہلے تھا اور پھر Devas متعدد خداوں کو کہاجو مخلوق کے بھی بعد بنے۔ اس کی سینس کیسے بن پاتی ہے؟ یا اس کے لیے بھی "ایمان" چاہئیے؟ یا مجھےہی صحیح سمجھ نہیں آئی؟
مگر کس کو انسان یوں نظر آتا ہے؟ اکثر اوقات انسان کسی شے میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر تکمیل کے درجے کے قریب ہی ہوتا ہے مگر پھر بھی ایک عالم اس کو بتانے میں لگا ہوتا ہے کہ وہ کتنا ادھورا اور بھونڈا ہے۔ کیا یہ خوبصورت نظر آنا چاہے آپ کتنے بھی نامکمل یا خام ہوں دیکھنے والی آنکھ پر منحصر نہیں؟
تو کیا زندگی میں nothingness سے something بننے کا مظہر ایک ہی تھا اور اس کے بعد اس something سے everything بن رہی ہے؟ ہم جتنی بھی innovation لاتے جائیں وہ جن ingredients پر build ہو رہی ہے وہ سارے ہمیشہ سے یا بتدریج موجود رہے ہیں؟
چوتھا سوال: سچ کہوں تو مجھے آج تک سچ کی صحیح ڈیفینیشن بھی سمجھ نہیں آئی۔ سچ کیا ہے؟ ایسی حقیقیت جس کا متضاد بالکل غلط ہو؟ کیونکہ میں جب contradictory نظریات فلسفے یا سائنس یا سیاست وغیرہ پر پڑھ رہی ہوتی ہوں تو ہر نظریے میں سچ کا کوئی نا کوئی جزو اکثر محسوس ہوتا ہے یا ممکن تو ہوتا ہے۔ بہت کم چیزیں ہیں جو مکمل طور پر ہی غلط ہوں اور وہ بھی شاید میں جہاں سے دیکھ رہی ہوں وہاں سے سمجھ نہ آ رہی ہوں۔ پھر سچ ہے کیا کہ جس کا رد نہیں ہو سکتا اور جو روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے؟ اور کیا غیر مادی چیزوں میں بھی کوئی ایک سچ سب کے لیے ہو سکتا ہے؟
چوتھا سوال: سچ کہوں تو مجھے آج تک سچ کی صحیح ڈیفینیشن بھی سمجھ نہیں آئی۔ سچ کیا ہے؟ ایسی حقیقیت جس کا متضاد بالکل غلط ہو؟ کیونکہ میں جب contradictory نظریات فلسفے یا سائنس یا سیاست وغیرہ پر پڑھ رہی ہوتی ہوں تو ہر نظریے میں سچ کا کوئی نا کوئی جزو اکثر محسوس ہوتا ہے یا ممکن تو ہوتا ہے۔ بہت کم چیزیں ہیں جو مکمل طور پر ہی غلط ہوں اور وہ بھی شاید میں جہاں سے دیکھ رہی ہوں وہاں سے سمجھ نہ آ رہی ہوں۔ پھر سچ ہے کیا کہ جس کا رد نہیں ہو سکتا اور جو روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے؟ اور کیا غیر مادی چیزوں میں بھی کوئی ایک سچ سب کے لیے ہو سکتا ہے؟
Berkeley کاimmaterialism کا فلسفہ جس کا اوپر لنک بھی دیا تھا اس میں اور وحدت الوجود میں کوئی مماثلت ہے؟ برکلے (شاید) یہ کہتا ہے کہ یہ ساری دنیا ایک دماغ کے اندر چل رہی کہانی ہو سکتی ہے۔ چونکہ ہم اس سسٹم سے باہر نکل کر نہیں دیکھ سکتے اس لیے ہم ثابت نہیں کر سکتے۔ تاہم میں یہ سوچتی ہوں کہ انسان دماغ جتنا بھی آگے کا سوچ لے وہ اللہ تعالی کو انہی چیزوں سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے یا گمان رکھتا ہے جو کہ ہمارے اس سسٹم کا حصہ ہیں۔ جبکہ یہ پورا کائناتی سسٹم شاید بہت ہی چھوٹا sub-set ہو ان سب سسٹمز اور صفات و مظاہر کا جو اللہ تعالی کے پاس ہوں گے؟ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے دماغ میں خیال آتا ہے تو ہم اللہ تعالی کو بھی ایسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ساری دنیا اللہ تعالی کے دماغ کا خیال ہو سکتی ہے؟
ٹیکنالوجی نے ہماری رفتار تو بڑھا دی،لیکن اس رفتار کے پیچھے نئے مطالبات، نئے دباؤ اور مسلسل مصروفیت نے ہمیں ایسے چکر میں ڈال دیا ہے جہاں کچھ بھی مکمل نہیں ہوتا مگر سب چل رہا ہوتا ہے ۔
شاید انسان اپنے مسائل تو ٹیکنالوجی سے حل کرنا چاہتا تھا مگر اس تیز رفتاری کے لیے ذہنی طور پر تیارنہیں تھا؟ کیونکہ آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے دادا کے زمانے تک رفتار کی سستی کا فرق تو تھا مگر ہمارے حساب سے زندگی اور اس کے کاموں کی رفتار سست ہی تھی ۔ اب اچانک سے اتنا زیادہ فرق پڑا ہے جس کا سامنا اتنی صدیوں تک ہمارے آباواجداد کے جسموں اور ذہنوں نے نہیں کیا۔ شاید یہ جسم اور ذہن اس رفتار کے لیے ڈیزائن نہیں ہوئے تھے اور شاید اسی لیے ذہنی و جسمانی بیماریاں زیادہ ہیں؟ یا پھر پہلے زمانوں میں بھی بیماریاں زیادہ ہی تھیں مگر تشخیص نہیں ہوتی تھیں؟
بہت شکریہ!
اس کی شرح کیا ہوگی؟
یعنی اجمال کی کچھ تفصیل مل جائے خصوصا غیب کی۔
متعلقہ: ایمان بالغیب کے معنی ہیں بغیر دیکھے ہوئے کی تصدیق۔ غیب شہادۃ کی ضد ہے اور شہادت وہ ہے جسے ہم دیکھ سکیں جس کا مشاہدہ کر سکیں۔ "ایمان بالغیب" ایسے حقائق کے موجود ہونے کا یقین ہے جو نہ ہم کو نظر آ سکتے ہیں ، نہ ہم ان کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ مثلا اللہ ، ملائکہ ، جنت دوزخ وغیرہ۔ اس موقع پر یہ اصطلاح خدا کے وجود کے بارے میں استعمال ہوئی ہے۔
شیخ مجدد کا نظریہ توحید ، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی ، صفہ 82
Descartes نے غالبا سوچنے کا وہ انداز اپنایا تھا جس میں وہ صرف یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ وہ ہے! اور اسے اس نے اپنی سوچ کو آگے کی بجائے پیچھے کی جانب ڈرائیو کر کے سمجھا تھا (شاید)۔
تاہم بعد کے فلسفیوں نے اسے رد بھی کیا، ایک مثال شاید Berkeley کی بھی ہے جس کا اوپر کے مراسلہ جات میں بھی ذکر کیا اور آپ کے اس مراسلے میں بھی ملتا جلتا ایک پہلو ہ، خواب سے جاگنے والا۔
یہاں میرا سوال یہ ہے کہ اگر سوچ ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور کسی ایک کی حقیقت کسی اور جگہ سے دیکھنے سے ایک خواب ہی ہے تو کیا absolute حقیقت مخلوقات کے لیے ہوگی ہی نہیں؟ یا اس تک پہنچنے کا کوئی پروٹوکول یا تھوٹ پراسیس دریافت ہوا ہے؟ یا دریافت کرنے والے بھی اپنی سوچ کے ہی قیدی تھے اور جو اس دائرے سے آزاد تھے انہیں وہ حقیقت نہیں لگتی تھی؟
جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی
پھر اس سوال میں پہلو نئے سوال کے رکھ
(افتخار عارف)
میں نے جب اردو محفل میں شمولیت اختیار کی تھی ذہن میں بہت سوال تھے جن کے متحمل میرے اردگرد کے لوگ نہ ہو پاتے۔ شروع شروع کے کچھ مراسلہ جات میں کسی محفلین (شاید شزا مغل) کی جانب سے تحریک بھی ملی کہ یہاں بڑے عالی دماغ لوگ ہیں کھل کر سوال پوچھیے ممکن ہے کچھ افاقہ ہو۔ مگر اس وقت محفل کے ماحول کا جو مشاہدہ کر پائی وہ یہ تھا کہ لوگ دھڑوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اگرچہ یہ معاملہ فقط محفل کے ساتھ نہیں بلکہ دنیا کا حسن اسی تنوع اور تضاد میں پنہاں ہے (شاید)۔ جب تک کسی کی رائے یا جواب آپ کے ذاتی رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتا تب تک یہی نہیں کہ آپ دل میں برا جانتے ہیں بلکہ تاحال بری ترین ریٹنگز اور القابات سے بھی نوازتے جاتے ہیں۔ سائنسی، دینی اور سیاسی معاملہ جات میں تا حال معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ سکیل کیا ہے جس سے اوپر یا نیچے کوئی ہو تو وہ محفلین کی نظر میں حد سے گزرا ہوا ہے اور پھر سوال یہ بھی ہے کہ کس محفلین کی نظر میں؟
میں ہمیشہ سے ایک لڑی بنانا چاہتی تھی جس میں میں بہت سارے سوالات اٹھا سکوں جن کے جوابات اگر آئیں تو بھلا، کوئی اور بھی سوال سے سوال نکالے تو نہلے پہ دہلا ورنہ کم از کم کوئی لوگ سوچنے پر مجبور تو ہوں۔ مجھے سقراط کا وہ طریقہ بہت پسند ہے جس میں وہ مکالمہ جات میں ایسے سوالات اٹھایا کرتا تھا جو سننے والوں کو سوچنے پر مجبور تو کرتے تھے۔یہ بھی ایک سوال ہے کہ سوال اٹھانے کی حد کیا ہے؟ اگر میری حد کی بات کریں تو ابھی چند روز قبل جب مجھ سے یہ سوال ایک اجلاس میں پوچھا گیا جس میں ایک سائیکولوجسٹ بھی موجود تھا جس کا کہنا تھا کہ اگر مکمل طور پر ہر چیز پر سوال کرو تو existential crisis میں چلے جاتے ہو اس لیے کوئی بنیاد رکھنی چاہئیے جس پر مضبوطی سے پیر جما کر کھڑے ہو سکو اور باقی سب چیزوں کو کوئسچن کرو، تو میں نے جواب دیا کہ میری وہ بنیاد کلام اللہ ہے لا ریب فیہ۔ اس سے باہر ہر شے میرے لیے بدلتی رہتی ہے اور کچھ حرف آخر نہیں۔ تاہم اسے بھی سمجھنے کی سعی جاری ہے اور اس سے باہر کی دنیا کو بھی!
بہت کچھ چلتا رہتا ہے کچھ بے ربط اور کچھ با ربط مگر ایک بات ہے کہ ہم سب کہیں نہ کہیں یہ سمجھتے تھے کہ ہم دنیا کے جھمیلے نمٹا کے آجائیں گے اور محفل شاید یہیں دروازے پہ انتظار کرے گی۔ ایسا کب ہوتا ہے؟ کہانیوں میں ہوتا ہوگا۔ اب جتنا تیز رفتار دور ہے لوگ کچھ دیر میں ہی آگے بڑھ جاتے ہیں اس نے تو پھر ہم سب کا کئی سال انتظار کیا۔ تاہم اس کے جانے پر میں جس سنجیدہ پہلی اور آخری خواہش کی تکمیل کرنا چاہوں گی وہ یہ لڑی بنانا اور اس میں بہتوں سے فیض پانا ہے۔ تاہم اپنے biases جس حد تک ممکن ہو باہر رکھ کر آئیے گا اور اس لڑی کو دوسرے محفلین پر ذاتی حملے کا میڈیم نہ سمجھئیے گا ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ وہ لڑیا ں ہم نے اپنے دور ادارت میں بڑی دیکھی ہیں جن سے عوام الناس مزید استفادہ حاصل نہیں کر پاتی۔
غالب گمان ہے کہ اس لڑی میں آنے والے ہر مراسلے پر میرا جواب ایک سوال کی شکل میں ہی ہو!
اگرچہ میں اس سوال کے جواب کے لیے خود کو کوالیفائیڈ نہیں سمجھتی اور ابھی سوالوں والی سٹیج پر ہی ہوں اور رہنا بھی چاہتی ہوں، تاہم اپنا مشاہدہ و مطالعہ کسی حد تک بیان کروں تو انسانی ذہن میں خیال آنے کے دو سورسز ہو سکتے ہیں۔ پہلا سورس بیرونی دنیا کا ہےاور جیسا کہ پہلے کسی مراسلے میں ذکر کیا کہ اب nothing سے something بننے کا عمل شاید بہت حد تک رک گیا ہے۔ اب ہمارے پا س بیرونی دنیا میں جو کچھ اجزا موجود ہوتے ہیں انہی سے ہم اپنی سوچ کو آگے بڑھاتے ہیں اور خیال پیدا بھی ان میں سے کسی چنگاری سے ہوتا ہے اور پروان بھی موافق حالات کے مطابق کہیں نہ کہیں وہیں سے چڑھتا ہے۔
جو دوسرا سورس خیال کا ہے وہ خالصتا اندرونی ہو سکتا ہے۔ جس میں اللہ تعالی براہ راست اس بندے کے ذہن میں خیال ڈال دیں جیسا دیکھا نہ سنا۔ الہام اس کی ایک مثال ہو سکتی ہے۔ کیونکہ nothing سے something اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں بنا سکتا کیونکہ خالق وہی ہے۔ تاہم ایک مشاہدہ اکثر میرے ذہن میں اس حوالے سے آتا ہے کہ اللہ تعالی نے جب انبیاء مبعوث کیے تو اس وقت وہ اصلاحات جو انبیاء ان معاشروں میں لائے وہ بھی سب کی سب مکمل طور پر نئی نہیں تھیں بلکہ وہ بہت حد تک اسی معاشرے کی اقدار کے اوپر حدود متعین کر رہی تھیں یا کہیں نہ کہیں اجزا وہی تھے اور ان کا جوڑنا مختلف تھا۔ وللہ اعلم۔